افغانستان: امارتِ اسلامیہ کی جانب سے مختلف اسلامی قوانین کا نفاذ
امارت اسلامیہ افغانستان کی وزارتِ امر باالمعروف و نہی عن المنکر نے دارالحکومت کابل کے تفریحی پارکوں میں مردوں اور خواتین کے لیے الگ الگ دن مقرر کردیے ہیں۔ وزارت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اتوار، پیر اور منگل کے دن خواتین کے لیے مختص ہیں اور بدھ، جمعرات، جمعہ اور ہفتہ کے دن مرد حضرات پارک میں جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ امارت اسلامیہ نے خواتین کے لیے پارکوں اور دیگر تفریحی مقامات پر شرعی حجاب اور مخلوط محفلوں سے اجتناب کو لازم قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں (شرعی)قانونی کارروائی کی جائے گی۔
گزشتہ بیس سالوں میں افغان دارالحکومت کابل میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک سیکولر، لادین اور دین بیزار معاشرہ قائم کرنے کی بھرپور کوششیں کی، اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن اسباب اور مصارف فراہم کیے۔ یہاں معاشرتی بے راہ روی، فحاشی اور عریانی کو فروغ دینے کے لیے امریکہ نے خود یہاں رہتے ہوئے معاشرے میں غلاظت اور گندگی کو فروغ دیا، حتیٰ کے کابل میں باقاعدہ ایک بہت بڑی جگہ پر فحاشی اور بدکاری کا اڈہ قائم کیا۔
گزشتہ سال فتح کے بعد جب طالبان مجاہدین نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تو میڈیا پر کیے جانے والے طالبان کی سخت گیری کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں کابل کی وہ عوام، جو امریکی وقتوں میں مادر پدر آزاد معاشرے کی عادی ہوچکی تھی، اسلامی شعائر و روایات کی طرف راغب ہونے لگی۔ خواتین گھروں میں بیٹھ گئیں، جو نکلیں بھی تو پردے میں نکلیں۔ لیکن طالبان کی جانب سے مسلمانوں کے لیے فطری طور پر پائے جانے والے نرم رویے کو دیکھ کر آہستہ آہستہ یہ چند باپردہ خواتین بے پردہ ہوتی گئیں اور گھروں میں بیٹھی خواتین سڑکوں اور بازاروں میں آنکلیں۔
اب جبکہ طالبان افغانستان میں مکمل طور پر کنٹرول رکھتے ہیں، ایسے میں عوام میں اسلامی شعائر و احکامات کی دعوت کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار اور قوانین کو معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
اسی طرح امارت اسلامیہ افغانستان نے ملک بھر میں ٹی وی چینلوں پر غیر ملکی ڈراموں پر پابندی عائد کردی ہے، اس کے علاوہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ کی ٹی وی نشریات پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ واضح رہے کہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ کے ادارے اُمتِ مسلمہ میں فحاشی کے فروغ، سیکولرازم اور لادینیت کے نظریات کو عام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ چینلز افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم میں بھی سب سے آگے ہیں۔
اسی کے ساتھ ہی ٹی وی چینلوں پر خبروں اور دیگر مواقع پر چلنے والی موسیقی پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ حکم بھی جاری کیا گیا ہے کہ خبریں نشر کرنے والے افراد مغربی لباس اور حلیے کے بجائے اسلامی لباس اور حلیے میں خبریں نشر کریں۔
وزارتِ امر باالمعروف و نہی عن المنکر نے حکومتی اداروں میں کام کرنے والے افراد کے لیے داڑھی اور سر پہ ٹوپی رکھنے کو بھی لازم قرار دے دیا ہے، خلاف ورزی کی صورت میں حکومتی مقامات میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔
صومالیہ: القاعدہ کی شاخ الشباب کا موغادیشو میں صلیبی افواج کے مرکز پر بڑا حملہ
۲۳ مارچ کو الشباب نے موغادیشو میں آدم عدی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قریب قائم حیلانی ملٹری بیس پر حملہ کیا، جس میں درجنوں صلیبی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
دو مجاہدین ائیرپورٹ ملازمین کے روپ میں کیمپ کے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے اور مختلف چیک پوائنٹس سے گزرتے ہوئے صلیبی ملٹری کمپلیکس میں داخل ہوکر حملہ کردیا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔
الحمدللہ مجاہدین نے کامیابی سے منصوبے کے مطابق اہداف کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں چار اعلیٰ سطح کے مغربی صلیبی افواج کے افسران اور ۱۳ افریقی صلیبی فوجی جہنم واصل ہوئے۔ حملے میں ۱۵ دیگر افریقی صلیبی فوجی زخمی ہوئے۔ مجاہدین نے فوجی املاک اور تنصیبات کو دھماکے سے اڑایا، جس کے نتیجے میں صلیبیوں کا بھاری مالی نقصان بھی ہوا۔
ہالان ملٹری کمپلیکس صومالیہ کا سب سے بڑا ملٹری بیس ہے اور اس میں درج ذیل اہم دفاتر موجود ہیں:
امریکہ، برطانیہ اور اٹلی سمیت دیگر مغربی ممالک کے سفارتخانے۔
سی آئی اے (CIA)، ایم آئی سکس (MI6) اور موساد (MOSSAD) سمیت خفیہ ایجنسیوں کے مرکزی دفاتر۔
صومالیہ کا سب سے بڑا زیرِ زمین قیدخانہ جس کا مکمل کنٹرول امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پاس ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر مغربی ایجنسیوں کے دفاتر۔
صومالیہ میں متحدہ افریقیائی فوجی مشن (AMISOM) کا کمانڈ سینٹر۔
صومالیہ میں جاسوسی اور ڈرون طیاروں کی کارروائیوں کے لیے قائم امریکی سی آئی اے کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر۔
ایک بیان میں الشباب نے کہا کہ یہ حملے صلیبی افواج کو یہ پیغام ہیں کی وہ مسلم ملک صومالیہ سے نکل جائیں۔
الشباب ایک عرصے سے خطے میں صلیبی افواج کے خلاف برسرِ پیکار ہے اور ان حملوں کا مقصد اس خطے سے ان صلیبی افواج کا انخلا اور طالبان طرز کا ایک اسلامی شرعی نظامِ حکومت قائم کرنا ہے۔
صرف دو مجاہدین کے ذریعے دارالحکومت موغادیشو کے انتہائی حساس اور دفاعی طور پر مضبوط ترین علاقے میں گھس کر حملہ کرنے سے یہ اندازہ ہوتا کہ الشباب کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے کسی بھی ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
اس حملے کے ایک دن بعد ہی ۲۴ مارچ کو الشباب کی جانب سے وسطی صومالیہ کے شہر بلد وین میں مرتدین کے ایک مرکز پر کیے جانے والے فدائی حملوں میں ۴۹ سے زائد مرتدین ہلاک اور ۹۰ سے زائد زخمی ہوئے۔
ہلاک و زخمی افراد میں اعلیٰ حکومتی عہدہ داران، انتخابی امیدواران، اعلیٰ سطحی آرمی کمانڈرز اور مرتد فوجی شامل ہیں۔
الشباب کے مطابق حملوں میں ان حکومتی اور فوجی افراد کو نشانہ بنایا گیا جو پارلیمان میں ایسے افراد کو لانے کے لیے کوشاں ہیں جن کا مقصد اس اسلامی سرزمین پر کفری مغربی اقدار اور ایک ایسے نظام کا فروغ ہے، جس سے یہاں بداخلاقی اور شریعت سے متصادم قوانین نافذ ہوں گے۔
ان حملوں کے بعد الشباب کی جانب سے اس سال کیے جانے والے فدائی حملوں کی تعداد دس ہوگئی ہے۔
ملٹری بیس پر حملے کے بعد ایک بیان میں الشباب کا کہنا ہے کہ مجاہدین اللہ کے اذن سے اپنی امتِ مسلمہ اور مسلم سرزمینوں کی حفاظت و دفاع کے لیے مغربی صلیبی افواج کے حساس اور محفوظ ترین مقامات پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی بھی طاقت مجاہدین کو اللہ کے احکامات کی پابندی اور اپنے دین، مسلم سرزمین اور مسلمان امت کے دفاع سے نہیں روک سکتی۔
واضح رہے کہ الشباب القاعدہ کی فعال شاخوں میں سے ایک شاخ ہے، اور جنوبی صومالیہ کے ایک بڑے حصے پر الشباب کو کنٹرول حاصل ہے۔ یہ تنظیم صومالیہ اور کینیا میں اعلیٰ سطح کی سرکاری و فوجی تنصیبات پر حملے کرتی رہی ہے۔
بھارت: ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کردیا گیا
بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں ہندو حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے متعدد گھروں اور دیگر املاک کو مسمار کردیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ہندو تہوار رام نوامی کے موقع پر مسلمان اور ہندوؤں کے درمیان کشیدگی اور پتھراؤ کے بعد حکومت کی جانب سے علاقے میں مسلمانوں کے متعدد مکانات اور دکانوں کو مسمار کر دیا گیا۔
ریاست میں پرتشدد واقعات کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب دس اپریل کو ہندو تہوار کے دوران ہندوؤں کے بڑے جلوس مسلم علاقوں سے گزرے جس میں اشتعال انگیز موسیقی لگائی گئی تھی، جس میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے پر اکسایا گیا تھا۔ جلوس میں شریک ہندوؤں نے مسلم علاقوں سے گزرتے ہوئے مسلمانوں کی املاک پر حملے کیے اور مساجد کی بے حرمتی کی۔ اس اقدام سے مختلف علاقوں میں مسلمان مشتعل ہوگئے اور انہوں نے گھروں اور عمارتوں سے جلوس اور حملہ آوروں پر پتھراؤ کیا، جس سے دو طرفہ لڑائی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ اس موقع پر پولیس نے بھی ہندوؤں کے پرتشدد ہجوم کی حمایت کی اور انہیں توڑ پھوڑ کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جلوس میں شریک ہندوؤں نے تلواریں لہراتے ہوئے توڑ پھوڑ کی اور مساجد کی بے حرمتی کی۔
ان واقعات کے بعد صوبائی وزیر داخلہ مشرا نے مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’جن گھروں سے پتھر پھینکے گئے تھے، اب ان گھروں کو خود پتھروں کا ڈھیر بنا دیا جائے گا۔‘‘ اور اگلے دن علی الصبح ہی پولیس کی سرپرستی میں متعدد بلڈوزر لائے گئے اور مسلمان کو گھروں سے باہر نکال نکال کر ان کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کیا جانے لگا۔
اس موقع پر پولیس نے مسلمانوں کو اتنا موقع بھی نہیں دیا کہ وہ اپنے گھروں سے قیمتی اشیاء اور ضروری سامان نکال سکیں۔
واضح رہے کہ پچھلے ایک عرصے میں یہ پہلا موقع تھا جس میں مسلمانوں نے اجتماعی طور پر ہندوؤں کے خلاف محاذ بنا کر اپنا دفاع کیا۔
ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ گھروں کو مسمار کرنے کی یہ کارروائیاں ان افراد کے لیے سزا ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر پتھراؤ اور جلاؤ گھیراؤ میں حصہ لیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ان فسادات میں شامل ایک بھی ہندو کے گھر یا املاک کو مسمار نہیں کیا گیا ہے۔
بھارت: دارالحکومت نئی دہلی میں ہندوؤں کی جانب سے مسجد پر حملے کے نتیجے میں تصادم
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقے جہانگیر پوری میں ۱۷ اپریل کی شام، ہندوؤں کے ایک جلوس کے دوران تلواروں اور دیگر اسلحے سے لیس شرکا نے پولیس کی سرپرستی میں مسلمانوں اور مسجد پر حملہ کیا، جس کے دفاع میں مسلمانوں کی جانب سے کیے جانے والے پتھراؤ کے بعد علاقے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی۔ تصادم کے نتیجے میں آٹھ پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔
واقعے کے بعد علاقے میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی، اور دو بچوں سمیت ۱۴ مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق جلوس کے شرکا جو کہ ہتھیاروں سے لیس تھے، اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے مسجد کے سامنے جب ہنگامہ کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کی جانب سے اعتراض کیا گیا اور پھر ہندوؤں نے حملہ کیا لیکن پولیس نے صرف مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جب ہندوؤں کا جلوس جہانگیر پوری کے سی–بلاک میں ایک مسجد کے پاس پہنچا تو انہوں نے مسجد کا گھیراؤ کرکے ’جے شری رام‘، ’بھارت میں رہنا ہوگا جے شری رام کہنا ہوگا‘ اور دیگر اشتعال انگیز نعرے لگائے۔
جلوس میں شامل افراد اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے مسجد میں زبردستی داخل ہو گئے اور احاطے میں زعفرانی پرچم باندھنے شروع کر دیے۔ ان میں سے کچھ مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور وہاں بھی انہوں نے زعفرانی پرچم لگا دیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو تلواریں دکھائیں اور دھمکیاں دیں۔ اس کے بعد پتھراؤ شروع ہوا۔
شواہد کے برعکس دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کا جلوس پُرامن انداز میں گزر رہا تھا اور مسلمانوں نے اس پر حملہ کیا۔
اسرائیل: صہیونی غاصبوں پر حملوں میں تیزی، متعدد واقعات میں ۱۴ یہودی ہلاک
گزشتہ ایک ماہ کے دوران اسرائیل میں غاصب یہودیوں کے خلاف متعدد حملے کیے گئے جس میں ۱۴ یہودی جہنم واصل اور متعدد زخمی ہوئے۔ ان حملوں کے بعد صیہونی عوام و خواص میں کافی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
۲۳ مارچ کو اسرائیل کے شہر بئر سبع میں فلسطینی نوجوان ابوقیعان نے غاصب یہودیوں پر حملہ کیا اور چاقو کے وار اور گاڑی چڑھانے کے نتیجے میں ۴ یہودی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بئر سبع کے علاقے میں ایک چاقو بردار فلسطینی نے پیٹرول پمپ کے قریب خاتون کو نشانہ بنایا پھر گاڑی سے متعدد افراد کو ٹکر مار کر زخمی کر دیا، آخر میں حملہ آور نے ایک شاپنگ سینٹر کے باہر موجود افراد پر چاقو سے وار کیے جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
موقع پر موجود ایک مسلح یہودی نے حملہ آور فلسطینی کو گولی مار کر شہید کردیا۔
۲۷ مارچ کو مقبوضہ شہر حضیرہ میں فائرنگ کے حملے میں ۲ اسرائیلی پولیس اہلکار ہلاک اور ۱۲ زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ دو فلسطینیوں نے کیا تھا۔
۲۹ مارچ کو تل ابیب کے نواح میں واقع علاقے بنی براک میں ایک فلسطینی دیا ارمشاہ نے فائرنگ کرکے پانچ افراد کو ہلاک کردیا۔
حملہ آور نے بنی براک کے مرکزی حصے میں راہگیروں اور ایک کار پرفائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک دکان کے باہر بیٹھے ہوئے دو یوکرینی یہودی ہلاک ہو گئے۔ حملہ آور نے اس سے قبل قریب ہی دو یہودی غاصبوں کو ہلاک کردیا تھا۔
پولیس نے بتایا کہ ارمشاہ نے مارے جانے سے قبل جائے وقوعہ پر پہنچنے والے ایک پولیس افسر کوبھی گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران اسرائیل میں بندوق یا چاقو سے کیا جانے والا یہ تیسرا مہلک حملہ تھا۔
۷ اپریل کو تل ابیب کی ڈرنزگوف سٹریٹ پر ایک ۲۸سالہ فلسطینی رعد حازم نے یہودیوں پر خودکار اسلحے سے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ۲ یہودی ہلاک اور ۱۳ زخمی ہوئے۔ بعد ازاں ایک زخمی اگلے دن ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
اس سے پہلے ہونے والے حملوں کی باعث علاقے کی سخت سیکیورٹی کے باوجود حملے کے بعد حازم پیدل ہی علاقے سے فرار ہوگیا، جس کی تلاش کے لیے ایک ہزار سے زیادہ فوج اور پولیس اہلکاروں نے علاقے اور اطراف میں سرچ آپریشن شروع کردیا۔ اس آپریشن میں اسرائیلی فوج کا ایلیٹ یونٹ بھی شامل تھا۔ ۸ اپریل کو علی الصبح ایک مسجد میں حازم کو گھیر لیا گیا اور یہودی فوج و پولیس سے مقابلے کے بعد حازم جامِ شہادت نوش کرگیا۔
یہ حملہ اسرائیل میں کیے جانے والے بڑے حملوں میں سے ایک تھا۔
حازم کے والد اور خاندان کے دیگر افراد نے اُس کے اِس اقدام پر مثبت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اُسے ایک ہیرو قرار دیا اور اس کے لیے تعریفی کلمات کہے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق حالیہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اتنے عرصے میں ہلاک ہونے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے، جبکہ ۲۰۰۶ میں ایک بس پر حملے میں ۱۱ یہودی ہلاک ہوئے تھے۔
ان حملوں کے باعث اسرائیل میں ہتھیاروں اور اسلحے کے مانگ بڑھ گئی ہے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیر کے روز خضیرہ میں ہونے والے حملے کے بعد اسرائیل میں ہتھیار رکھنے کے لیے لائسنس حاصل کرنے کی درخواستوں کی شرح میں ۷۰۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یمن: صوبہ حضرموت کی جیل سے القاعدہ کے دس قیدی مجاہدین فرار
یمن کے مشرقی صوبہ حضرموت میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دس مجاہدین جیل سے فرار ہوگئے۔ یہ واقعہ ۱۴ اپریل، جمعرات کی شب سیؤن شہر میں واقع جیل میں پیش آیا۔ ان قیدیوں نے آپس میں جھگڑے کا ڈرامہ رچایا تاکہ جیل کے سکیورٹی اہلکار مداخلت کے لیے بیرک میں ان کے قریب آجائیں۔ لیکن جب سکیورٹی اہلکار لڑائی رکوانے کے لیے ان مجاہدین کے قریب آئے تو منصوبے کے مطابق قیدیوں نے ان پر قابو پا لیا۔ ان کے اسلحے پر قبضہ کرکے ان کے ہاتھوں کو باندھ دیا اور اسلحے سمیت جیل سے فرار ہوگئے۔
مالی: فرانس کا مالی سے اپنی صلیبی مشن کے خاتمے اور فرانسیسی افواج کے انخلا کا اعلان
فرانس کے صدر میکرون نے مغربی افریقیائی ملک مالی سے فرانسیسی فوج کے انخلا کا اعلان کیا ہے۔ فرانسیسی فوج مالی اور متصل خطے میں ۲۰۱۳ سے مجاہدین کے خلاف لڑ رہی تھی۔
مالی اور اس سے متصل ممالک میں فرانس کی فوج کی تعداد تقریباً ۵۰۰۰ تھی، اور اس کا مقصد یہاں موجود عالمی جہادی تحریک القاعدہ اور دیگر مجاہدین کا خاتمہ کرنا تھا۔ یہ فوج مالی کی کٹھ پتلی فوج کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کے خلاف زمینی اور فضائی آپریشنز میں بھی شرکت کرتی رہی۔
افریقہ میں القاعدہ پچھلے ایک عرصے سے ’ساحل‘ کے علاقے میں اپنی پناہ گاہیں رکھتی ہے۔ ساحل کا علاقہ صحرائے صحارا کے ساتھ ساتھ نیم بنجر زمین پر مشتمل ہے اور اس کا رقبہ چاڈ، نائجر، مالی، برکینافاسو اور موریطانیہ تک پھیلا ہو ہے۔
۲۰۱۳ میں مالی میں ہونے والی مسلح بغاوت کے دوران مجاہدین نے کمال حکمت عملی سے اس پوری بغاوت کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا اور وہ اس کے ذریعے مالی میں حکومت کا تختہ الٹ کر ایک اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران مجاہدین مالی کے شمالی علاقوں کے تین مراکز پر قبضہ کرچکے تھے۔ اس بغاوت سے نمٹنے کے لیے مالی حکومت کی ایما پر فرانس نے اپنے ۵۰۰۰ فوجی مالی میں بھیجے۔ فرانس کی مداخلت اور مجاہدین کے خلاف حملوں کی وجہ سے مجاہدین علاقے چھوڑ کر صحرائے صحارا میں جا بسے۔ مجاہدین کے خلاف فرانس کا یہ آپریشن واضح مقاصد رکھتا تھا کہ مجاہدین کے قبضے میں آنے والے شہری علاقوں سے مجاہدین کا صفایا کیا جائے۔ اس آپریشن میں فرانس کو مقامی حکومت کا تعاون بھی حاصل تھا۔ لیکن یہ آپریشن فرانس اور مجاہدین کے درمیان ایک بڑے تنازعے کا باعث بنا، اور آج فرانس یہ جنگ جیتنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ فرانس کا خیال تھا کہ یہ چند مسلح گروہ ہیں اور انہیں ختم کرنا آسان ہے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ عوام میں مجاہدین کی مقبولیت کے سبب انہیں دوبارہ منظم ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ۲۰۱۵ میں قبائلی مجاہدین کے ساتھ مل کر القاعدہ دوبارہ منظم ہوگئی اور مالی کے شمال اور وسط میں دوبارہ حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
سن ۲۰۱۷ میں القاعدہ نے دیگر جہادی گروہوں کے ساتھ مل کر ایک نیا اتحاد قائم کیا، جس کا نام ‘جماعت نصرۃ الاسلام و المسلمین (JNIM) رکھا گیا۔
یہ گروپ اب مالی، برکینا فاسو اور نائجر کے متعدد علاقوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے زیر کنٹرول رقبہ جرمنی کے رقبے سے بھی بڑا ہے۔
فرانس نے مالی میں اپنے فوجیوں کے ساتھ مجاہدین کے خلاف اس لڑائی کی قیادت کی ہے۔ نائجر میں امریکا کے ۸۰۰ فوجی موجود ہیں اور وہ اپنے فوجی اڈے سے مسلح ڈرونز کے ذریعے کارروائیاں کرتے ہیں۔ نائجر میں جرمنی اور اٹلی کے فوجی بھی موجود ہیں۔ یورپی ممالک وہاں ’ تقبہ اسپیشل فورسز مشن‘ میں شریک ہوئے۔ اس مشن کی سربراہی بھی فرانس کے ہاتھ میں تھی لیکن اب یہ مشن بھی ختم ہو جائے گا۔
اسی خطے میں افریقی فورسز، جس کا نام ’جی فائیو ساحل‘ ہے، تعینات ہیں۔ اس فوجی اتحاد میں مالی، نائجر، چاڈ، برکینا فاسو اور موریطانیہ کی سرکاری فورسز شامل ہیں۔
لیکن بین الاقوامی فورسز کو اس جنگ کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ فرانس نے ساحل مشن پر سالانہ تقریباً ایک ارب یورو خرچ کیے ہیں اور اس کے تقریبا ۵۹ فوجی ہلاک ہوئے۔ علاوہ ازیں فرانسیسی فوجیوں کی عوام کے خلاف وحشت کی وجہ سے فرانس کے خلاف عوامی نفرت میں بھی بے حد اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ برس وسطی مالی میں ایک شادی پر فضائی حملے کے نتیجے میں ۱۹ عام شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔ فرانس ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر رہا ہے۔
دریں اثناء مجاہدین کے حملے بلا توقف جاری ہیں۔ مقامی جمہوری حکومتیں اس خطرے سے نمٹنے کے قابل نہیں تھیں۔ مالی اور برکینا فاسو میں فوجی قیادت نے اقتدار چھین لیا ہے اور انہیں وسیع عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں غیرملکی افواج ذلیل ہوکر واپس لوٹ رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭