نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جنوری و فروری 2025

خباب ابن سبیل by خباب ابن سبیل
14 مارچ 2025
in دیگر, جنوری و فروری 2025
0

گوگل نے غزہ کی جنگ میں اسرائیلی فوج کی مدد کی

دستاویزات کے مطابق گوگل کے ملازمین نے درخواست کی تھی کہ غزہ میں جنگ کے ابتدائی ہفتوں سے ہی اسرائیلی فوج کو کمپنی کی مصنوعی ذہانت جدید ترین ٹیکنالوجیز تک رسائی کی اجازت دی جائے۔ یہ بات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ کمپنی نے اس سے قبل باور کرایا تھا کہ اس نے اسرائیلی حکومت کے ساتھ ’کلاؤڈ کمپیوٹنگ کنٹریکٹ‘کے خلاف ملازمین کے احتجاج کے بعد اسرائیلی سیکورٹی اداروں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ یہ معاہدہ نیمبوس پروجیکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گوگل کمپنی نے اس معاہدے پر احتجاج کی پاداش میں گذشتہ برس اپنی کمپنی کے 50 سے زیادہ ملازمین کو فارغ کر دیا تھا۔ کمپنی کے ایک ملازم نے ایک دستاویز میں خبردار کیا کہ اگر گوگل نے اسرائیل کو ان جدید ترین ٹیکنالوجیز تک فوری رسائی نہ دی تو اسرائیلی فوج بدلے میں گوگل کمپنی کی حریف کمپنی ’ایمازون‘ کے ساتھ معاملات کرے گی جو نیمبوس معاہدے کی رو سے خود بھی اسرائیلی حکومت کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ دستاویزات کے مطابق نومبر 2024ء تک اسرائیلی فوج کی جانب سے مصنوعی ذہانت کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے گوگل سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری تھا۔

پاکستان کبھی بھی امریکہ کا ٹیکٹیکل اتحادی نہیں رہا: وائٹ ہاؤس

گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس کے اس وقت کے نیشنل سکیورٹی کمیونی کیشن ایڈوائزر جان کربی نے واشنگٹن میں ایک پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کی اپیل کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ کے موقف کی وضاحت کی۔ نیز پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت پر بات کرتے ہوئے کسی باضابطہ دفاعی معاہدے کی موجودگی سے انکار کیا۔ جان کربی نے کہا: ’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان کبھی بھی امریکہ کا ٹیکٹیکل اتحادی نہیں تھا۔ میرا مطلب ہے کہ پاکستان کے ساتھ اتحاد کا کوئی معاہدہ نہیں تھا‘‘۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کا یہ موقف بائیڈن انتظامیہ کی پاکستان کے حوالے سے پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان کو باضابطہ اتحادی کے طور پر دیکھنے میں واشنگٹن کی ہچکچاہٹ پاکستان کے داخلی سیاسی مسائل میں الجھنے سے بچنے کے لیے اس کے وسیع تر نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے۔ فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا راگ الاپنے والا جرنیلی مافیا اس نئی صورتحال جس میں انس کے اتحادی ہونے پر ہی سوال اٹھ گیا ہے ، سوائے کڑھنے کے کر بھی کیا سکتا ہے؟

یورپ جانے کے خواہش مند پاکستانیوں کی کھلے سمندر میں اموات

تارکین وطن کے حقوق کی تنظیم واکنگ بارڈرز سے منسلک ہلینا ملینو کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو لے جانے والی اس کشتی کے حوالے سے خدشہ ہے کہ اس میں سوار کل 86 افراد میں کم از کم 50 لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 44 پاکستانی شہری ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کشتی ڈوبنے کے متعلق تھیں لیکن بعد میں جب چند زندہ بچ جانے والے افراد نے تفصیلات باہر پہنچائیں تو معلوم ہوا کہ سمگلر انہیں کشتی میں ایک ایسی جگہ چھوڑ کر چلے گئے جہاں سے دوسری کشتیوں کا گزر نہیں ہورہا تھا۔ اس کے بعد دس دنوں تک وہ روزانہ دوسری کشتی سے اس کشتی پر آتے چند لوگوں کو ہتھوڑوں سے مارتے اور سمندر میں پھینک دیتے۔ اس سانحے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی افراد کی اکثریت کا تعلق سیالکوٹ ، گجرات اور منڈی بہاوالدین سے تھا۔ ایف آئی اے نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ اس بارے میں بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ مختلف ہوائی اڈوں سے روانگی کے وقت ان نوجوانوں کو کیوں نہیں روکا گیا اور کیا اس میں ایف آئی اے کے اہلکاروں کی سہولت کاری بھی شامل تھی؟ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے دو کزن عاطف اور سفیان کے رشتہ دار احسن شہزاد کا کہنا تھا کہ سپین پہنچانے کے لیے فی کس ایجنٹ کو 35 لاکھ روپے ادا کیے گئے تھے۔ قیصر بنگالی اس سانحے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’یورپ جانے کی کوشش میں نوجوانوں کے ڈوب کر مرنے کی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں۔ یہ سب اس لیےکہ ہم نےایک ایساسماجی اقتصادی ماحول بنا رکھا ہے جو ناامیدی اور مایوسی کوجنم دے رہا ہے۔ یہ ملک کی حکمران اشرافیہ کےماتھے پر سیاہ داغ ہے۔‘‘

آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے مزید 15 آئی پی پیز کےساتھ نئے معاہدوں کی منظوری دے دی ۔ واضح رہے کہ اس سے قبل آئی پی پیز کے سابقہ معاہدوں کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا رہا جس نے عام صارفین کی کمرتوڑ کر رکھ دی تھی۔ سالہاسال بہت سی ائی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹ (Capacity Payment) کی مد میں بھاری رقوم ادا کی جاتی رہیں جبکہ ان سے بجلی بھی نہیں خریدی گئی ۔ یہ سارا بوجھ عوام کو ہی سہنا پڑا۔ اسلام آباد میں مقیم ماہر توانائی عابد انوار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نوّے کی دہائی میں نجی بجلی گھر قائم کرنے کی سرمایہ کار دوست پالیسی اپنائی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد تو ملک میں بجلی کے بحران کا خاتمہ اور اس میں سرکاری کے بجائے نجی شعبے کو آگے لانا تھا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس پالیسی کا فائدہ چند خاندانوں کو پہنچا اور نقصان ملک بھر نے اٹھایا۔ نجی بجلی گھر قائم کر کے ایسے گروہوں کو زبردست منافع پہنچایا گیا اور بجلی کی خریدار حکومت بن گئی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ہر قسم کے نقصانات کی ذمہ داری حکومت نے اپنے سر لے لی۔ یوں گزشتہ تین دہائیوں میں انتہائی بااثر اور امیر ترین افراد نے نجی بجلی گھر قائم کیے، اور ان معاہدوں کے ذریعے امریکی ڈالروں میں خوب منافع کمایا۔

لاہور: جم خانہ کلب 70 سالہ لیز ، 50 پیسے فی کنال

پنجاب اسمبلی کے ایوان میں گذشتہ تین ماہ سے یہ معاملہ اٹھایا جا رہا تھا کہ جم خانہ کلب کی انتظامیہ معمولی لیز کی رقم کے عوض قیمتی سرکاری زمین سے اربوں روپے سالانہ کما رہی ہے۔ اس غیر قانونی لیز کو منسوخ کر کے نئے معاہدے کے تحت نیلامی کے ذریعے ٹھیکہ دیا جائے تاکہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق خطیر رقم قومی خزانے میں جمع ہوسکے۔ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں، جس کے مطابق لاہور جم خانہ کلب کے پاس ایک ہزار 90 کنال سرکاری اراضی ہے، جسے 50 پیسے فی کنال لیز پر دیا گیا اور یہ پیسے ادا بھی نہیں کیے جاتے۔اس کے علاوہ باغِ جناح میں فلورل کلچر گارڈن کی آٹھ ایکٹر زمین پر بھی بطورِ تجاوزات جم خانہ نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ جم خانہ کلب میں، جو لاہور کے مہنگے ترین علاقے مال روڈ سے ظفر علی روڈ تک پھیلا ہوا ہے، ممبر شپ کی سالانہ فیس کم از کم 10 لاکھ روپے تک وصول کی جاتی ہے۔ یہاں نہ صرف اعلیٰ معیار کے ریسٹورنٹ موجود ہیں بلکہ وسیع و عریض رقبے پر گالف کلب بھی بنا ہوا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے حکومتی رکن امجد علی جاوید نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ یہ لیز 1990ء میں منسوخ کر دی گئی تھی لیکن انتظامیہ میں بااثر شخصیات نے غیر قانونی طور پر قبضہ جاری رکھا، جو ابھی تک برقرار ہے۔

’سندھ پولیس سے بچایا جائے‘، چینی سرمایہ کار حفاظت کے لیے عدالت پہنچ گئے

چین سے تعلق رکھنے والے 6 سرمایہ کاروں نے پیر رحمان محسود ایڈووکیٹ کے توسط سے سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی گئی اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایئرپورٹ سے لے کر رہائش گاہ تک ہم سے رشوت طلب کی جاتی ہے، ایئرپورٹ پر بلٹ پروف گاڑیوں کے نام پر گھنٹوں انتظار کرایا جاتاہے، رشوت دینے پر پولیس حکام اپنی گاڑیوں میں رہائش گاہ پہنچاتے ہیں، رہائش گاہوں پر بھی سکیورٹی کے نام پر محصور کردیا جاتاہے اور باہر تالے ڈال دیے جاتے ہیں۔ ہمیں آزادانہ نقل و حرکت کے حق سے محروم کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم کاروباری میٹنگز بھی نہیں کرسکتے۔ کبھی کبھی خود پولیس اہلکار گاڑیوں پر حملے کرکے شیشے توڑ دیتے ہیں۔ 30 تا 50 ہزار روپے رشوت کے عوض نقل و حرکت کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ جنید رضا زیدی اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حرام کاری اور حرام خوری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ چینی باشندے ہائی کورٹ چلے گئے کہ یا تو ہماری سندھ پولیس کی رشوت ستانی سے جان چھڑائیں نہیں تو ہم لاہور شفٹ ہو جاتے ہیں۔‘‘

یہی شکایت جب کراچی کے تاجروں نے آرمی چیف سے کی تھی تو وزیر اعلی اور ضیاء الحسن لنجار صاحب کو بہت شکایت ہوئی تھی اور میئر کراچی نے بھی پریس کانفرنس کردی تھی۔ ایک اور خبر کے مطابق ایک چینی کمپنی، جو سکھر بیراج پرکام کر رہی ہے، وہاں تعینات پراجیکٹ ڈائیریکٹر غلام محی الدین کےخلاف نیب میں شکایت لے کرگئی ہے کہ وہ بطور کمیشن برج خلیفہ میں اپارٹمنٹ مانگ رہا ہے۔

سندھ نہروں کا معاملہ، ماحولیاتی نظام کے لیے خطرہ؟

ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت دریائے سندھ سے جو چھ نئی نہریں نکالنا چاہتی ہے وہ نہ صرف سندھ کے لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے ذرخیز زمینیں بنجر ہوں گی اور ماحولیاتی نظام پر بھی بہت زیادہ بُرا اثر پڑے گا۔ کارپوریٹ فارمنگ حکومت کی قائم کی گئی سپیشل انویسٹمنٹ فسیلی ٹیشن کونسل کا شروع کیا گیا منصوبہ ہے۔ اس کونسل کا صدر وزیراعظم جبکہ آرمی چیف اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس کونسل کی اپیکس کمیٹی کے ممبران ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عملی طور پر آرمی چیف ہی اس کونسل کا اصل کرتا دھرتا ہے۔ سیاسی ماہرین دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کوسندھ کے عوام کے حق پر ڈاکہ قرار دیتے ہیں جبکہ ماہرین اسے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق معاہدوں کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ دریا کے ساتھ آبادیوں اور ماحول کی تباہی کا آغاز گردانتے ہیں۔ جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی کہا ہے کہ 1991ء کے پانی کے معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اور اس منصوبے کو صرف اس صورت میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے اگر اضافی پانی دستیاب ہو، جو کہ درحقیقت دستیاب نہیں ہے۔

بھارت:مسلمان آر ایس ایس کے نظریے کو جھیل رہے ہیں

یہ رائے کہ بھارتی مسلمانوں پر آر ایس ایس مسلط ہے کسی مسلمان کی نہیں بلکہ آر ایس ایس کی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے صحافی اور مصنف ’دھریندر کمار جھا‘ کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سو سال کے دوران ہندوتوا کی علمبردار اس تنظیم کی بنیادی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس کی بنیادی فکر اور نظریے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اس کے تربیتی کیمپوں میں تربیت حاصل کرنے والا ہر شخص، ایک ہی طرح سے سوچتا ہے، خواہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہو یا گاندھی کا قاتل ناتھو رام گوڈسے۔ آر ایس ایس کا قیام 27 ستمبر 1925ء میں عمل میں آیا تھا گو کہ آج ملک پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام کی جماعت کی حکومت ہے اور آر ایس ایس چاہے تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ بھارت پر وہی حکومت کررہی ہے۔ پچھلے دس سالوں سے جب سے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی حکومت بھارت میں قائم ہوئی ہے وہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے اپنے دوسرے سرسنگھ چالک(سربراہ)، ایم ایس گولوالکر، کے نظریے کو عملی شکل دینے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے دس سالوں میں اس بیانیہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمان بھارت کے اصل شہری نہیں بلکہ ’’دیگر‘‘ ہیں۔ ان کے بقول گائے کا تحفظ اور لو جہاد کے نام پر ہونے والے پرتشدد واقعات اسی کا حصہ ہیں۔ متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) بھی اسی کا حصہ ہے، جو بالکل واضح طور پر مسلمانوں کو غیر مسلموں سے الگ کرتا ہے۔ آج ملک میں کسی بھی مسلمان سے بات کر کے دیکھ لیجیے وہ بتائے گا کہ 2014ء کے بعد اسٹیٹ کا کیریکٹر بدل گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’آپ ہندو راشٹر کے بارے میں ڈیبیٹ کرسکتے ہیں لیکن مسلمان اس کو جھیل رہے ہیں، وہ ہندو راشٹر کے عتاب کا سامنا کررہے ہیں۔‘‘ گزشتہ دنوں اندور میں ایک تقریب میں آر ایس ایس سربراہ  نے کہا تھا کہ بھارت کو اصل آزادی 1947ء میں نہیں بلکہ اس دن ملی جس دن ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح ہوا۔ بھاگوت کے اس بیان پر کانگریس سمیت تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں نے سخت ردِّعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دھریندر جھا کا کہنا تھا کہ کچھ کہنا، کہہ کر مکر جانا اور پھر ضرورت پڑنے پر پلٹ کر اسی کو دہرانا آر ایس ایس کی تاریخ رہی ہے، ’’یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آر ایس ایس نے ملک کی آزادی کی تحریک میں حصہ نہیں لیا تھا بلکہ وقتاً فوقتاً اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ ملک مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے آر ایس ایس پر تین مرتبہ پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔ پہلی مرتبہ یہ پابندی مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد 1948ء میں اس وقت کے وزیر داخلہ سردار والا بھائی پٹیل نے لگائی تھی، جسے ہندوتوا کے علمبردار آج اپنا لیڈر ماننے لگے ہیں۔ اٹھارہ ماہ بعد یہ پابندی اس وقت ہٹائی گئی جب آر ایس ایس کے اس وقت کے سربراہ گولوالکر نے حکومت کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے مکمل طور پر دور رہیں گے۔آر ایس ایس آج بھی یہی دعویٰ کرتی ہے کہ سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی چند ماہ قبل ہریانہ اور مہاراشٹر کےاسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کا پورا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتی دکھائی دی تھی۔

بھارت چینی ڈیم کے جواب میں ڈیم بنائے گا

چین نے تبت میں دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈو پاور ڈیم کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ یہ چین کا ایسا منصوبہ ہو گا جس سے بھارت اور بنگلہ دیش میں دریا کے نچلی طرف بہاؤ والے علاقے میں رہنے والے لاکھوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ ڈیم دریائے یارلونگ زانگبو پر تعمیر کیا جا رہا ہے جو تبت کے بعد بھارتی ریاستوں اروناچل اور آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش کی جانب بہتا ہے۔ بھارت میں اس دریا کا نام برہم پترا ہے۔ یہ اس وقت چین کے سب سے بڑے تھری گورجز ڈیم سے تین گنا زیادہ بجلی پیدا کرے گا۔ بھارت اور بنگلہ دیش نے اس ڈیم کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف مقامی ماحولیات بلکہ دریا کی نچلی سطح کی سمت اور بہاؤ کو بھی بدل سکتا ہے۔ماضی میں بھی اس منصوبے پر بھارت اور بنگلہ دیش میں مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش بھی صاف پانی کے لیے اس دریا کے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ دوسری جانب اب مقامی احتجاج کے باوجود، بھارت بھی چینی ڈیم کے مقابلے میں دریائے سیانگ پر ایک بڑا ہائیڈرو ڈیم بنا رہا ہے۔ مقامی لوگوں نے خبردار کیا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے کم از کم 20 دیہات زیر آب آ جائیں گے، اور تقریباً دو درجن مزید دیہات جزوی طور پر ڈوب جائیں گے، جس سے ہزاروں مکین بےگھر ہوں گے۔ مقامی لوگوں کی شدید مزاحمت کے درمیان، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت ریاستی حکومت نے احتجاج کو روکنے کے لیے نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا حکم دیا ہے، تاہم ابھی تک کوئی جھڑپیں نہیں ہوئی ہیں۔ مظاہرین کا اصرار ہے کہ وہ کہیں نہیں جا رہے، حکومت ہمارے گھر، ہمارے سیانگ پر قبضہ کر رہی ہے، اور اسے ایک صنعت میں تبدیل کر رہی ہے، ہم ایسا نہیں ہونے دے سکتے۔سیانگ انڈی جینس فارمرز فورم (SIFF) کمیونٹی اقدام کے صدر جیجونگ نے کہا: ’’جب تک میں زندہ ہوں اور سانس لے رہا ہوں، ہم حکومت کو یہ ڈیم نہیں بنانے دیں گے۔‘‘ بہرحال بھارت اور چین دونوں ممالک ہی اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے یہ منصوبے آگے بڑھائیں گے لیکن کیا حکومت پاکستان کی جانب سے ان متنازع بھارتی ڈیموں کی تعمیر پر کوئی آواز بلند کی جارہی ہے جو ڈیم پاکستانی دریاوں کو خشک کردیں گے؟ چند سال قبل تک ایک دو باضابطہ بیانات خبروں کی زینت بنے لیکن ایسا لگتا ہے اب پاکستان کی جانب سے مکمل سکوت اختیار کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو گرین سگنل دے دیا گیا ہے۔

امریکہ میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو حراست میں لینے کا بل منظور

امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے غیرقانونی تارکینِ وطن کو حراست میں لینے کے بل کی منظوری دے دی ہے۔ بل ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو 263 ارکان نے اس کے حق میں جب کہ 156 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ بل کی حمایت کرنے والوں میں 46 ارکان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔ بل کی منظوری کے بعد اب اسے سینٹ میں پیش کیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ میکسیکو سے تارکینِ وطن کی امریکہ آمد روکنے کے لیے سرحد کو سیل کرنے سمیت مستقل قانونی حیثیت کے بغیر مقیم تارکینِ وطن کو بے دخل کرنے سے متعلق کئی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کر چکے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ پناہ گزینوں کی ری سیٹلمنٹ بھی منسوخ کر چکے ہیں۔ غیرقانونی تارکین وطن کی حراست کے بل پاس کروانے والے یہ حقیقت بھول چکے ہیں کہ وہ خود بھی تو غیرقانونی تارکین وطن کی اولادیں ہی ہیں۔ انکےآباواجداد یورپی آباد کار جب امریکہ پہنچے تھے تو مؤرخین کا اندازہ ہے کہ وہاں 10 ملین سے زیادہ مقامی امریکی آباد تھے ۔ انکی زمینیں قبضہ کرکے انکی مسلسل نسل کشی کے نتیجے میں 1900ء تک، ان کی تخمینہ شدہ آبادی تین لاکھ سے کم تھی۔ ان پر جنگیں مسلط کی گئیں، اس سے مقاصد حاصل نہ ہوئے تو بیماریاں پھیلا کر انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ لنچنگ انہی دنوں متعارف ہوئی جس میں انسانوں کو زندہ آگ میں جلا ڈالاجاتا۔

ٹرمپ اور محمد بن سلمان ایک دوسرے سے کیا چاہتے ہیں؟

ٹرمپ سے جب ایک صحافی کی جانب سے ان کے مستقبل کے غیرملکی دوروں کے متعلق پوچھا گیا تو ٹرمپ نے پہلا نام برطانیہ کا لیا اور پھر بتایا کہ سعودی عرب نے میری صدارت کے پچھلے دور میں ہم سے خریداری کےلئے 450 بلین (چار کھرب پچاس ارب) ڈالرز ادا کئے تھے جس پر میں سعودی عرب کے دورے پر راضی ہوا تھا لیکن اب مہنگائی بڑھ گئی ہے اگر سعودی 500 بلین (پانچ کھرب) ڈالرز ادا کرے تو میں سعودی عرب کا دورہ کروں گا۔ حیران کن طور پر سعودی عرب کے ولی عہد نے فوری بیان جاری کرتے ہوئے 600 بلین (چھ کھرب) ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے جواب میں کہا کہ سعودی ولی عہد ایک شاندار آدمی ہیں، میں ان سے کہوں گا کہ اس رقم کو تقریباً ایک ٹرلین (دس کھرب) ڈالر تک بڑھا دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ ہم ان کے ساتھ اچھے رہے تھے۔ متعدد رپورٹس میں سعودی ولی عہد اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے درمیان اچھے تعلقات کا بھی چرچا رہا ہے۔ کشنر کا ٹرمپ کے دورے اور اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں کے معاہدوں میں بڑا کردار رہا ہے۔

سعودی عرب واشنگٹن کے ساتھ پرامن ایٹمی پروگرام اور دفاعی معاہدہ چاہتا ہے۔ پچھلی امریکی انتظامیہ نے دفاعی معاہدے کو سعودی عرب اور اسرائیل کے بیچ تعلقات کی بحالی سے مشروط قرار دیا تھا۔ دفاعی معاہدے کے لیے امریکی کانگریس کی دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ جبکہ پرامن ایٹمی پروگرام کے معاملے پر بھی امریکہ اور اسرائیل دونوں مخالف ہیں۔ امریکہ کی یہ بھی خواہش ہے کہ سعودی سربراہی میں خلیج تعاون تنظیم کے ذریعے چینی اور روسی اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جائے۔ سعودی عرب نے حالیہ عرصے کے دوران خاص کر توانائی کے شعبے میں چین اور روس سے اچھے تعلقات بنائے ہیں۔

تھائی لینڈ میں زیرحراست ایغور

تھائی لینڈ میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے زیر حراست ایغوروں کے رشتہ داروں نے تھائی حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ ان 48 مردوں کو واپس چین ڈی پورٹ نہ کریں۔ اس ہفتے اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک پینل نے بھی تھائی لینڈ پر زور دیا کہ وہ ممکنہ منتقلی کو فوری طور پر روک دے، یہ کہتے ہوئے کہ ان افراد کو تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔ ان قیدیوں میں سے کچھ نے 10 جنوری کو بھوک ہڑتال شروع کی جب ان سے ’رضاکارانہ واپسی‘ دستاویزات پر دستخط کرنےکا کہا گیا تھا۔ تھائی حکام نے انکار کیا ہے کہ وہ ایغوروں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جبکہ چین کی وزارت خارجہ نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ 2016ء میں چین چھوڑنے والے یوسف نے، جس کے بڑے بھائی عادل کو بنکاک کے ایک امیگریشن حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے، کہا کہ ایغوروں کو دنیا بھول چکی ہے۔ چینی حکومت نہیں چاہتی کہ دنیا ان کی کہانیاں سنے۔ چینی حکومت ہمیشہ ایغوروں کے ایک محفوظ ملک میں بڑی تعداد میں جانے اور ساتھ رہنے پر نظر رکھتی ہے۔ وہ اسے خطرہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چینی حکومت انہیں واپس لانا چاہتی ہے۔‘‘

یہ افراد 2013ء کے اواخر اور 2014ء کے اوائل میں چین سے فرار ہونے والے سینکڑوں ایغوروں کے ساتھ فرار ہوئے جنہوں نے انسانی اسمگلروں کی مدد سے جنوب مشرقی ایشیا کا سفر کیا۔ بہت سے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ ملائیشیا تک پہنچ سکتے ہیں تو انہیں ترکی میں دوبارہ آباد کیا جا سکتا ہے۔ تھائی حکام نے مارچ 2014ء میں ملائیشیا کی سرحد کے قریب 220 ایغور مردوں، عورتوں اور بچوں کو اس وقت گرفتار کیا جب امدادی ٹیمیں وہاں لاپتہ MH370 طیارے کی تلاش کر رہی تھیں۔ ان پر امیگریشن کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا اور انہیں بنکاک میں ایک سینٹر میں منتقل کیا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، اسی عرصے کے دوران درجنوں دیگر ایغوروں کو تھائی لینڈ میں گرفتار کیا گیا۔ 2015ء میں تقریباً 170 خواتین اور بچوں کو رہا کرکے ترکی منتقل کیا گیا۔ لیکن 100 سے زیادہ مردوں کو چین واپس کر دیا گیا، جس کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 48 ایغوروں میں سے، 43 امیگریشن حراست میں قانونی حدود میں ہیں اور پانچ 2019ء کے فرار کی کوشش سے متعلق جرائم کے لیے جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ 2014ء سے حراست میں لیے گئے پانچ ایغور افراد حراست میں ہی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں ایک نوزائیدہ اور ایک تین سالہ بچہ بھی شامل ہے۔ تھائی لینڈ اور چین نے حالیہ برسوں میں قریبی تعلقات استوار کیے ہیں اور اس سال سفارتی تعلقات کی 50ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ ایرکن (اس کا اصل نام نہیں)، جس کے والد حراست میں لیے گئے مردوں میں شامل ہیں، کو خدشہ ہے کہ تھائی لینڈ چین سے کسی قسم کی مدد یا خدمت یا کچھ حاصل کرنے کے لیے ایغوروں کو ایک پیادے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ترکی میں رہنے والے ایرکن نے تقریباً 12 سال سے اپنے والد کو نہیں دیکھا اور اپنے والدین کی صحت کے لیے فکر مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حراستی مرکز کے سیلز بھرے ہوئے ہیں، اس کے والد کا مدافعتی نظام کمزور ہے اور انہیں مناسب خوراک نہیں ملتی ہے۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

اصلاحِ معاشرہ | تیسری قسط

Next Post

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | آٹھویں قسط

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

14 جولائی 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | مارچ 2025

31 مارچ 2025
علیکم بالشام

وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ!

14 مارچ 2025
Next Post
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | آٹھویں قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version