دنیا کے سب سے بڑے دفاعی بجٹ کے باوجود امریکہ اپنے دفاع سے مطمئن نہیں بلکہ خوفزدہ ہے۔ |
سات اکتوبر کے بابرکت حملوں نے عالمی طواغیت کی سیاست ، پالیسیوں ، اسٹریٹیجک مفادات کو کاری ضرب لگا کر ان کی بساط پلٹ دی، اور شاید اس کے اثرات و نتائج ایک عرصے تک سامنے آتے رہیں گے۔ ظفر سید انڈیپینڈنٹ اردو میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے آئرن ڈوم نظام کو دنیا میں سب سے مؤثر قرار دیا جاتا تھا، لیکن حماس کے قیمتاً ارزاں میزائلوں اور راکٹوں کی بارش نے اسے گڑبڑا دیا۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ کوئی میزائل دفاعی نظام کبھی 100 فیصد تحفظ فراہم کر سکے۔ سپر پاور ہونے کا دعویدار امریکہ 500 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت والے مہنگے دفاعی نظام کی طرف گامزن ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 مئی 2025ء کو ’طلائی گنبد‘ یا ’گولڈن ڈوم‘ نامی دفاعی نظام بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد امریکہ کو بیلسٹک، کروز، ہائپر سونک میزائلز اور خلا سے داغے جانے والے میزائلز سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ منصوبہ ٹرمپ کے تین سالہ دورِ حکومت کے اختتام سے پہلے مکمل فعال ہو جائے گا۔ یہ کام 1980ء کی دہائی میں صدر ریگن نے شروع کیا تھا۔ صدر کے مطابق اس نظام پر 175 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی، تاہم کانگریشنل بجٹ آفس کا کہنا ہے کہ اصل لاگت 542 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہو گی۔ چین تین سو ارب ڈالر کے لگ بھگ اور روس ایک سو ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کے لحاظ سے امریکہ سے بہت پیچھے ہیں۔ امریکہ میں پیٹریاٹ اور نیشنل ایڈوانسڈ سرفیس ٹو ایئر میزائل سسٹم جیسے میزائل سے بچاؤ کے نظام پہلے ہی سے موجود ہیں، لیکن امریکی عسکری ماہرین کے مطابق اس مہنگے نظام کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چین، روس، شمالی کوریا اور انڈیا سمیت کئی ممالک نے گزشتہ چند سالوں میں ایسے میزائل تیار کیے ہیں، جو امریکہ کے موجودہ میزائل دفاعی نظاموں پر غلبہ پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں جدید بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے علاوہ نئے لانگ رینج ہائپر سونک میزائل شامل ہیں، جنہیں امریکہ اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ یہ نظام 2029ء تک فعال ہو جائے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ دورانیہ بہت کم ہے اور اس وقت تک اتنے بڑے نظام کو فعال کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دوسری طرف کئی ملکوں کے پاس ابھی سے ہائپرسونک میزائل موجود ہیں، اس لیے امریکہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ امریکہ زیادہ وسائل جھونک کر اس کو جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کرے۔ چین نے اس نظام پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 21 مئی کو کہا کہ امریکہ کا یہ منصوبہ جارحانہ عزائم لیے ہوئے ہے اور اس سے خلا کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی دوڑ میں اضافہ ہو جائے گا۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ چین امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ جلد از جلد اس نظام پر کام روک دے۔
مراکش اور اسرائیل مشترکہ فوجی مشقیں |
اسرائیلی افواج اس سال ’’افریقی شیر 25‘‘ نامی جنگوں مشقوں میں حصہ لے رہی تھی، جو براعظم افریقہ میں امریکہ کی زیر قیادت سب سے بڑی مشترکہ فوجی مشق تھی، جو مراکش اور پڑوسی ممالک میں جاری رہی۔ 14 اپریل کو شروع ہونے والی اور 23 مئی تک جاری رہنے والی اس مشق میں اسرائیل سمیت 50 سے زیادہ ممالک کے دس ہزار فوجی شامل رہے۔ افریقی شیر نامی اس مشق میں گھانا، سینیگال اور تیونس میں مشقیں شامل تھیں، جبکہ اسرائیلی فوجی صرف مراکش کے اندر ہونے والی کارروائیوں میں حصہ لے رہے تھے۔ مقامی مظاہروں اور مراکش میں سول سوسائٹی کے گروپوں کے بیانات نے اسرائیلی فورسز کی موجودگی کی مذمت کی، خاص طور پر یہ رپورٹس کہ گولانی بریگیڈ کے خصوصی آپریشن یونٹ کے فوجی جن پر مارچ میں غزہ میں 15 فلسطینی طبی کارکنوں کو قتل کرنے کا الزام ہے ، مشق کے لیے آنے والوں میں شامل تھے۔ بائیں بازو کی جماعتوں، یونینوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں کے اتحاد مراکش فرنٹ فار سپورٹنگ فلسطین اینڈ اگینسٹ نارملائزیشن نے اسرائیلی فوجیوں کی شرکت کو ایک اشتعال انگیزی قرار دیا اور انہیں مشقوں سے فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے بھی مراکش میں گولانی کے فوجیوں کی موجودگی کی غیر مصدقہ رپورٹس اور تصویروں پر تشویش کا اظہار کیا اور خبردار کیا کہ اگر جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات نہ کی گئیں تو یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ فوجی اگادیر شہر کے قریب مشترکہ تربیت کے دوران گولانی بریگیڈ کے نشانات پہنے ہوئے ہیں۔ افریقی شیر 25، جس کی قیادت یو ایس افریقن کمانڈ کرتی ہے اور جس کی میزبانی بنیادی طور پر مراکش کرتا ہے اسرائیل کی شرکت پر سرکاری خاموشی کے باوجود، گزشتہ ہفتے مشق کے دوران دو ’اسرائیلی‘ چھاتہ برداروں پر مشتمل ایک ٹریفک حادثے نے مختصر طور پر ان کی موجودگی کو مقامی خبروں میں پہنچا دیا۔ دونوں فوجیوں کو معمولی زخموں کی وجہ سے ہسپتال میں زیر علاج رکھا گیا۔ اسرائیل نے 2020ء کے اواخر میں امریکہ کی ثالثی میں نارملائزیشن معاہدے کے تحت مراکش کے ساتھ فوجی تعلقات کی بحالی کے بعد 2022ء سے افریقی شیر مشقوں میں حصہ لیا ہے۔ اس سال یہ اسرائیل کی مسلسل تیسری شرکت تھی۔
امریکی فوج کے سابق افغان مترجم کی امریکہ میں موت |
36 سالہ جمال ولی کو فیئر فیکس، ورجینیا، پولیس افسران نے 23 اپریل کو تیز رفتاری پر پکڑ لیا، افغان ڈرائیور نے فوری طور پر اعلان کیا کہ اس کے پاس ہتھیار ہے اور اس نے پولیس اہلکار کو اپنی گاڑی میں واپس جانے کے لیے کہا۔ فیئر فیکس پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ 36 سالہ نوجوان نے جارحانہ انداز میں افسر پر چیخ کر کہا کہ اس کے پاس گاڑی کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہے، اس نے اپنے نام سے شناخت کرنے سے انکار کر دیا، اور اپنے ہتھیار تک پہنچنے کی کوشش کی۔ ولی نے چیخ کر کہا: ’’مجھے طالبان کے ساتھ کام کرنا چاہیے تھا، وہ تم سے بہتر ہیں‘‘۔ ولی نے امریکہ پر غصے کا اظہار کیا، جس کے بارے میں اس نے کہا کہ ’’اسے یہاں لایا گیا‘‘، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس نےاسپیشل فورسز میں خدمات انجام دیں اور مزید یہ کہ اس کا بھائی اس کی خدمت کے نتیجے میں مارا گیا۔ جب آفیسرز نے اس تک بڑھنے کی کوشش کی تو ولی نے ایک ہینڈگن نکالی اور دو اہلکاروں پر گولیاں برسائیں۔ جوابی فائرنگ میں ولی کو چار گولیاں لگیں۔ چند ماہ قبل جنوری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹیو آرڈر نے ان افغانوں کے لیے امریکہ میں پناہ لینے کا راستہ روک دیا جنہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے دوران ان کی حمایت کی تھی اور ان کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ہزاروں افغان شہری جنہوں نے افغان جنگ (2001-2021) کے دوران امریکی فوج کے ساتھ مل کر کام کیا اور ان کی حمایت کی اور امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد انہیں محفوظ طریقے سے امریکہ میں پناہ دینے اور آباد کرنے کی منظوری دی گئی تھی مگر صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ان افغانوں کے لیے امریکہ آنے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ ایسے ہی افغان شہریوں کی بہت سی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جو امریکہ سے شکوے شکایتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر امریکہ کے لیے کام کیا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد جو لوگ امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے انہیں امریکہ میں نامناسب حالات اور نسلی تعصب کا سامنا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ایسے بہت سے افغان شہریوں کو در حقیقت افغانستان میں کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ افغان حکومت کی جانب سے سابق فوجیوں اور اہلکاروں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن یہ افراد چونکہ امریکہ کے لائف سٹائل اور چمک دمک سے متاثر ہیں اور ایک اسلامی معاشرے کے بجائے ایسے مغربی معاشرے کو پسند کرتے ہیں جہاں نفسانی خواہشات پر روک ٹوک نہ ہو ، اس لیے ایسے افراد اس مغربی طرز زندگی تک پہنچنے کے لیے یہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی زندگیوں کو افغانستان میں خطرات لاحق ہیں۔
امریکی ریپبلکن کانگریس مین کا فلسطینیوں پر ایٹمی حملے کا مطالبہ |
امریکی ریپبلکن کانگریس مین رینڈی فائن نے فلسطینیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں رویہ اپنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہم نے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کے لیے جاپانیوں پر دو بار نیوکلیئر حملے کیے، یہاں بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے۔ یہ یہودی النسل سیاستدان سیاست میں آنے سے قبل ایک بہت بڑی جوئے کی کمپنی کا مالک تھا۔ اس نے اپنی سیاست کا آغاز ہی مسلمان تارکین وطن کے خلاف سخت قوانین بنوانے سے کیا۔ 2021ء میں اس نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ سے ان اسرائیلی فوجیوں کی جشن مناتے ہوئے ویڈیوز پوسٹ کیں جو فلسطینیوں پر بمباری کرتے ہوئے خوشیاں منا رہے تھے ۔ ساتھ ہی غزہ میں بچوں کی اموات کے متعلق یہاں تک کہا کہ میں اس کے متعلق برا اس لیے محسوس نہیں کرتا کیونکہ مارے جانے والوں کو انسانی ڈھال بنایا جاتا ہے۔ اکتوبر 2023ء میں اس ان آرٹلری شیلز پر دستخط کیے جو غزہ میں استعمال ہونے تھے۔
اردن نے غزہ کے لیے فی امدادی ایئر ڈراپ ۴۰ ہزار ڈالر تک کا نفع کمایا |
رپورٹ کے مطابق اردنی حکام نے محصور فلسطینیوں پر اسرائیل کی جاری جنگ کے دوران غزہ میں بین الاقوامی امداد کی ترسیل کی نگرانی سے کافی فائدہ اٹھایا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی نگرانی کرنے والی ایک سرکاری تنظیم اردن ہاشمائٹ چیریٹی آرگنائزیشن (جے ایچ سی او) نے اسرائیلی حکام کے ساتھ رابطہ کیا ہے تاکہ اردن سے گزرنے والی امداد کے واحد راستے کے طور پر کام کیا جا سکے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ذرائع اور JHCO کی کارروائیوں کی براہ راست معلومات رکھنے والے لوگوں سے جب بات کی گئی تو ایک ذریعہ نے کہا کہ JHCO سے منسوب زیادہ تر امداد درحقیقت غیر ملکی حکومتوں اور NGOs سے حاصل ہوتی ہے، جن میں اردنی بھی شامل ہیں اور غیر اردنی بھی، جبکہ اردنی ریاست کی طرف سے براہ راست تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ دو غیر سرکاری تنظیموں کے ذرائع اور اس اسکیم سے واقف دو دیگر افراد کے مطابق، اردنی حکام نے غزہ میں داخل ہونے والے ہر امدادی ٹرک کے لیے دہ ہزار دو سو ڈالر کا مطالبہ کیا ہے۔ امدادی تنظیموں کو جے ایچ سی او کی طرف سے بتایا گیا کہ فیس براہ راست اردن کی مسلح افواج کو ادا کی جاتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کے علاوہ اردن نے غزہ پر فی ایئر ڈراپ ۲ لاکھ سے ۴ لاکھ ڈالر کے درمیان چارج کیا ہے۔ بے ترتیب ڈراپ کے لیے تقریباً ۲ لاکھ اور ٹارگٹڈ مشنز کے لیے ۴ لاکھ وصول کیے گئے، باوجودیکہ ہر ہوائی جہاز آدھے سے بھی کم ٹرک لوڈ کے برابر امداد لے جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اردن نے امدادی کارروائیوں سے بڑھتے ہوئے محصولات کے جواب میں اپنے لاجسٹک انفراسٹرکچر کو وسعت دی ہے۔ ذرائع کے مطابق، مملکت نے حال ہی میں غیر ملکی گرانٹ کے ذریعے 200 نئے امدادی ٹرک حاصل کیے ہیں اور نئے بین الاقوامی انتظامات کے تحت ترسیل میں اضافے کی توقع میں اقوام متحدہ کے تعاون سے بڑے اسٹوریج ڈپو بنا رہی ہے۔ اردن کی ایک بڑی آبادی فلسطینی پناہ گزینوں کی ہے جو 1948ء میں بڑے پیمانے پر بے دخلی کے بعد تاریخی فلسطین سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جسے نکبہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں، غزہ اور فلسطینی دھڑوں، خاص طور پر حماس کی حمایت میں اردن بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ اردنی فوج کے مطابق اردن نے تقریباً 400 ایئر ڈراپ آپریشن کیے ہیں، جن میں سے کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون میں ہیں۔ شاہ عبداللہ دوم نے خود کم از کم ایک مشن میں حصہ لیا، یہ سب اسرائیلی فوج کے ساتھ پہلے سے طے شدہ تھے۔ ایئر ڈراپس کو غزہ کے رہائشیوں اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں سمیت وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ ایئر ڈراپس، جس میں بعض صورتوں میں فلسطینیوں کی اموات بھی ہوئی ہیں، غیر محفوظ، ناکافی اور غیر ضروری ہیں، خاص طور پر جب زمینی گزر گاہیں امداد کی ترسیل کے لیے زیادہ قابل عمل راستہ ہے۔
ایران امریکہ جوہری معاہدہ |
ایران اور امریکہ کے مابین جوہری مذاکرات کا پانچواں دور روم میں منعقد ہوا۔ ان مذاکرات میں کسی بڑی پیش رفت کی اطلاع نہیں ملی یہ مذاکرات خلیجی عرب ریاست عمان کی ثالثی میں جاری ہیں۔ مذاکرات میں بنیادی رکاوٹ ایران کی یورینیم کی افزودگی کی پالیسی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے، جبکہ ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن اور شہری مقاصد کے لیے ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو ووٹکوف، جو مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت کر رہا ہے، نے واضح کیا ہے کہ واشنگٹن ایران کو افزودگی کی ’’ایک فیصد گنجائش‘‘ بھی نہیں دے سکتا۔ اس کے برعکس ایران کے وزیر خارجہ و اعلیٰ مذاکرات کار عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’’صفر جوہری ہتھیار = معاہدہ ممکن، صفر افزودگی = معاہدہ ناممکن۔‘‘ ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق ایران اس وقت دنیا کی واحد غیر جوہری ریاست ہے جو 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہی ہے، جو کہ 2015ء کے معاہدے میں طے کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے افزودگی کی شرح 90 فیصد درکار ہے۔ 2015ء کا جوہری معاہدہ اس وقت ناکام ہوا تھا، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں امریکہ کو اس سے یک طرفہ طور پر نکال لیا تھا۔
فرانس میں حجاب پر پابندی کا قانون |
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی سیاسی جماعت ریناسنس نے ایک نیا قانون تجویز کیا ہے جس کے تحت 15 سال سے کم عمر لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی ہو گی۔ اگر یہ قانون منظور ہوتا ہے، تو یہ قانون 15 سال سے کم عمر لڑکیوں کو سڑکوں، پارکوں، کیفے اور دکانوں جیسے عوامی مقامات پر حجاب پہننے سے منع کر دے گا۔ اس سے قبل فرانسیسی سینیٹ نے کھیلوں کے مقابلوں میں حجاب اور دیگر مذہبی علامات پر پابندی لگانے والے متنازع بل کو منظور کیا تھا، جس پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں نے شدید ردعمل دیا۔ اس بل کے حامی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون فرانس کے سیکولر ازم کے اصولوں کے مطابق ہے اور کھیلوں میں مذہبی علامات کو قبول نہ کرنا ضروری ہے۔ دوسری جانب، بائیں بازو کے سیاستدانوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلم کمیونٹی نے اس اقدام کو امتیازی اور اسلاموفوبیا پر مبنی قرار دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ یہ قانون مسلم خواتین کے خلاف مذہبی، نسلی اور صنفی امتیاز کو مزید بڑھا دے گا۔ فرانس کے وزیر داخلہ نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک میں علیحدگی پسندی کے خلاف ایک اہم قدم ہے
ازبکستان میں اسلام مخالف حکومتی مہم |
ازبک شہر بخارا میں، اسٹیٹ سکیورٹی سروس (DXX) اور داخلی امور کے افسران حجاب اسٹورز کے مالکان سے حجاب اور سر کے اسکارف کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حجاب میں خواتین کو نمایاں کرنے والے اشتہارات پر بھی پابندی لگاتے ہوئے جواز پیش کیا کہ اس طرح کے ڈسپلے مبینہ طور پر حجاب پہننے کو فروغ دے رہے ہیں، جو ان کے بقول قانون کے مطابق نہیں ہے۔ اس پابندی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے شہر کی ایک مسجد پر چھاپہ مارا گیا، جس کے دوران پانچ افراد کو تھانے لے جا کر زبردستی داڑھی منڈوائی گئی۔ اگر آج حجاب کے اشتہارات کو روکا جا رہا ہے تو یہ تصور کرنا مشکل نہیں ہے کہ کل خود مسلم خواتین پر بھی انہی اقدامات کا اطلاق ہو گا۔ خواتین کے اسلامی لباس اور مردوں کی داڑھیاں طویل عرصے سے وسطی ایشیا میں حکومتی مہموں کے نشانے پر رہی ہیں، جہاں سیکولر حکومتیں اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق ایک استاد کو عربی پڑھانے پر حراست میں لے لیا گیا! شیرزود جورایف، جو 2021ء سے بخارا میں عربی پڑھا رہے ہیں، کو پیشکو ضلعی عدالت نے ضابطہ اخلاق (غیر مجاز مذہبی تعلیم) کے آرٹیکل 94-241 اور 34 کے تحت مجرم قرار دیا اور 7 دن کی انتظامی حراست کی سزا سنائی۔ اس کے علاوہ، اس پر ۱۸ لاکھ ۷۵ ہزار ازبک سوم (£107) جرمانہ عائد کیا گیا۔ شیرزود جورایف جمہوریہ ازبکستان کے قوانین کی طرف سے اجازت یافتہ دستاویزات کی بنیاد پر طلباء کو عربی پڑھا رہے تھے اور اس نے کسی قسم کا ’’قرآن کورس‘‘ نہیں شروع کیا تھا۔ شیرزود جوریف نے 2021ء اور 2023ء کے درمیان بخارا کے علاقے کی ایک مسجد میں نائب امام کے طور پر کام کیا۔ اس سے قبل 2023ء میں، سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی تھی جس میں انہیں اپنی بھانجی کے حقوق کے دفاع کے لیے بخارا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جسے مبینہ طور پر حجاب کی وجہ سے بدسلوکی اور ہراساں کیے جانے کا سامنا تھا۔ اس واقعے کے بعد، انہوں نے بتایا کہ انہیں مسجد میں ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
داغستانی پولیس نے نقاب پہننے پر خاتون کو حراست میں لے لیا |
داغستان میں ایک کافی شاپ میں کام کرنے والی ایک مسلم خاتون کو پولیس نے نقاب پہننے پر حراست میں لے لیا۔ خاتون کو اس کے کام کی جگہ سے لے جا کر اس کی شناخت پریڈ کے لیے مقامی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ حالیہ مہینوں میں، داغستان میں پولیس سڑکوں کا معائنہ کر رہی ہے اور نقاب پہنے خواتین کو حراست میں لے رہی ہے۔ یہ داغستان کے مفتی اعظم احمد عبد اللایف کے 2024ء کے فتوے کا براہ راست نتیجہ ہے، جس نے نقاب پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔
بھارت کی بلڈوزر ڈرائیو: مسلمانوں کے 7000 گھر مسمار کر دیے گئے |
احمد آباد میونسپل کارپوریشن (AMC) کی جانب سے منگل کو احمد آباد کے چندولا تالاب میں ۷ ہزار املاک کو تباہ کرنے کے لیے ایک بڑے پیمانے پر مسمار کرنے کی مہم شروع کرنے کے بعد ہزاروں مسلم خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ حکام کا الزام ہے کہ اس علاقے پر غیر دستاویزی ’بنگلہ دیشی تارکین وطن‘ کا قبضہ ہے۔ کشمیر میں پہلگام حملے کے بعد سے ۶ ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہریت کی جانچ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ تمام رہائشی ہندوستانی شہری ہیں جو کئی دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں اور ان کے پاس ووٹر شناختی کارڈ اور آدھار کارڈ ہیں۔
نئی دہلی میں قائم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس نے پورے ہندوستان میں 184 مسلم مخالف نفرت انگیز واقعات کو ریکارڈ کیا۔ نصف کے قریب مقدمات میں مبینہ طور پر نفرت انگیز تقریر شامل تھی، جب کہ دیگر میں ڈرانے، ہراساں کرنے، حملے، توڑ پھوڑ، دھمکیاں، زبانی بدسلوکی اور تین قتل کے واقعات بھی شامل ہیں۔ یہ صرف جوابی تشدد سے بہت آگے کی اور زیادہ خطرناک تبدیلی ہے۔ انتہائی قوم پرست ہندتوا سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے، ہندوستانی مسلمانوں کو ’’گھس بیٹھیے‘‘ (درانداز) اور ’’دیش دروہی‘‘ (غدار) قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ سوچ صرف کم پڑھے لکھے ہندو انتہا پسند افراد میں ہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں میں اعلیٰ عہدوں تک موجود افراد میں پروان چڑھائی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہر شعبے میں نفرت و تعصب کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف انتہا کو پہنچی یہ نفرت کبھی سکیورٹی فورسز کے بلا وجہ کے کریک ڈاون اور گرفتاریوں کی صورت میں سامنے آ رہی ہے تو کبھی ان کے گھروں کی مسماری کی صورت میں۔
دریائے سندھ کو روکنے کیلئے بھارت کے ماسٹر پلان کا آغاز |
بھارت نے دریائے سندھ کے بہاؤ کو روکنے کے اپنے ماسٹر پلان کے تحت، لداخ کے متنازع علاقے میں 10 نئے میگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جن میں اچنتھنگ–سانجک، پارفیلا، سونٹ (باتالک)، اور خلستی شامل ہیں۔ یہ منصوبے نہ صرف معاہدے کے تحت اجازت دی گئی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ پاکستان میں پانی کے بہاؤ کو روکنے اور کم کرنے کے حوالے سے سنگین خدشات بھی پیدا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان منصوبوں کا مقصد سیاچن گلیشئر کے برفانی علاقے میں تعینات فوجیوں کے لیے حرارت اور توانائی کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔
پاکستان کے نئے سائبر قوانین |
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نئے سائبرکرائم قانون کو تنقیدی آوازوں کو خاص طور پر صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ پیکا ایکٹ کی قانون سازی کے چند ماہ بعد صحافیوں فرحان ملک اور وحید مراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ سعودی عرب کے روزنامہ اردو نیوز کے رپورٹر وحید مراد کو مبینہ طور پر ’’آن لائن غلط معلومات‘‘ پھیلانے کے الزام میں راتوں رات ان کی رہائش گاہ پر چھاپا مار کر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ وحید مراد نے ڈی ڈبلیو کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس طرح قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے پہلے ہی انہیں اٹھا لیا جاتا ہے۔ میرے کیس میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا گیا‘‘۔ پاکستان کے ایک انٹرنیٹ میڈیا چینل ’’رفتار‘‘ کے بانی فرحان ملک کو بھی اسی طرح ’’غلط معلومات پھیلانے اور تشدد کو ہوا دینے کے لیے ریاست مخالف اشاعتوں اور ویڈیوز بنانے اور پھیلانے‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان پر جن دو مقدمات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک لاکھ روپے کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان دونوں صحافیوں نے پاکستان کی طاقتور فوج کے مبینہ کردار کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی۔ پاکستانی فوج ملک کی 77 سالہ تاریخ میں ایک طویل عرصے تک براہ راست حکمران رہی ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ بہت سے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ احتیاط سے کام لیتے ہوئے اس پر تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایمان مزاری، ایک وکیل اور ایکٹیوسٹ ہیں انکے مطابق ’’ریاست مین اسٹریم میڈیا پر اپنے مکمل کنٹرول سے مطمئن نہیں ہے اور اس لیے سوشل میڈیا کو دبانے کی اس کی بے چینی اور کوتاہ بینی ظاہر ہو رہی ہے‘‘۔ سائبر کرائم کے قانونی ماہر اسامہ ملک نے پی ای سی اے کے قوانین کو ’’ڈریکونین‘‘ یا ’’سفاکانہ ‘‘ قرار دیا ہے۔ سحرش قریشی، اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کی جوائنٹ سیکرٹری، جو ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ پریس کی آزادی کی وکالت بھی کرتی ہیں، PECA کے بارے میں کہتی ہیں، ’’یقیناً، یہ قانون ریاستی بیانیے پر تنقید کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ آپ حکومتی اقدامات پر سوال بھی نہیں اٹھا سکتے، آپ کو خاموش کر دیا جائے گا اور اگر آپ بولیں گے تو پولیس آپ کو اٹھا لے گی۔‘‘ ماہر قانون ملک کا ماننا ہے کہ نام نہاد ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ جس سے مراد ملک کی طاقتور فوج ہے، جزوی طور پر پی ای سی اے قوانین کے ذریعے بیانیے کو کنٹرول کر رہی ہے۔ ڈیپ اسٹیٹ کے لیے ایسے صحافیوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے جو یوٹیوب کو اپنے خیالات کو پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ خاص طور پر پاکستان سے باہر کام کرنے والے یوٹیوب تخلیق کاروں کا معاملہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا ، ’’ریاست ان کے خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتی ہے جو پاکستان میں رہتے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے اغوا ، تشدد اور قتل کروانے کے کیسز کی لمبی فہرست ہے۔ سلیم شہزاد ، حیات اللہ خان، ارشد شریف تو وہ کیسز ہیں جو عالمی سطح پر مشہور ہوئے ۔ ان تمام قتل کے کیسز میں پاکستانی خفیہ ادارے ملوث رہے۔
سعودی NEOM میگا سٹی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے |
ماحولیاتی طبیعیات اور کیمسٹری کے پروفیسر اور ’نیوم‘ منصوبے کے ایک مشیر ڈونلڈ ووئبلز نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ سعودی عرب کے نئے مستقبل کے شہر کے منصوبے موسم کے نمونوں اور ہوا اور ریت کے طوفانوں کے راستے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اثرات میں بارش کے پیٹرن میں تبدیلی، ہوا اور صحرائی علاقے میں طوفان شامل ہو سکتے ہیں، جن کا ’مناسب مطالعہ نہیں کیا گیا‘۔ ڈونلڈ ووئبلز نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ انہوں نے NEOM کی پیشرفت کے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر The Line، جو 170 کلومیٹر طویل، 500 میٹر اونچی دو لینئنر سٹی کمپلیکس ہیں۔ ووئبلز نے کہا کہ نیوم کے ڈھانچے کا پیمانہ اور شکل، بلند درجہ حرارت کے ساتھ مل کر، ہوا کے دھارے اور بادل کی تشکیل میں خلل ڈال سکتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ تبدیلیاں بارش کے نمونوں کو متاثر کر سکتی ہیں اور صحرائی ہواؤں اور طوفانوں کو بڑھا سکتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ شہری ڈیزائن اور گرمی ماحولیاتی نظام کو متاثر کر سکتی ہے۔
نیوم کی پائیداری کی مشاورتی کمیٹی کے ایک دوسرے رکن نے بھی اسی طرح کے خدشات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ پورے آپریشن میں چھ سے 12 ماہ کی تاخیر ہوئی تھی۔ ماہر نے مزید کہا کہ ایڈوائزری کمیٹی کا مستقبل اب NEOM کے ترقیاتی منصوبوں کے وسیع تر تجزیے کے حصے کے طور پر زیر جائزہ ہے۔ سعودی عرب کے متنازع ویژن 2030ء کا حصہ، NEOM ایک ۵ سو بلین ڈالر کا میگا پروجیکٹ ہے جو مملکت کے شمال مغربی تبوک صوبے میں واقع ہے، جس کا مقصد ایک تکنیکی طور پر ترقی یافتہ، ماحولیاتی طور پر پائیدار شہری مرکز بنانا ہے جو مکمل طور پر قابل تجدید توانائی سے چلتا ہے۔ دی لائن کے علاوہ، اس ترقی میں آکساگون نامی مستقبل کا تیرتا ہوا شہر، سکی گاؤں کے ساتھ ایک پہاڑی ریزورٹ، لگژری ہوٹل، ثقافتی اور تفریحی مرکز، ایک نیچر ریزرو، کھیلوں اور بیرونی سرگرمیوں کا زون، اور ایک پہاڑ میں تعمیر کردہ ’’زیر زمین ڈیجیٹائزڈ کمیونٹی‘‘ شامل ہے۔ سعودی حکام پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ انہوں نے NEOM کے لیے زمین خالی کروانے کے لیے اس علاقے کے مقامی باشندے حویتات قبیلے کے ارکان کو زبردستی بے گھر کیا۔ مبینہ طور پر درجنوں افراد کو اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کرنے پر حراست میں بھی لیا گیا تھا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق اس میگا پراجیکٹ کا ایک ’’جامع جائزہ‘‘ شروع کیا گیا ہے۔ اس جائزے سے واقف ایک شخص نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ نیوم کے ارد گرد کئی منصوبوں کے دائرہ کار کا جائزہ ’’محدود وسائل‘‘ کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ نیوم ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030ء کا علم بردار منصوبہ ہے جس کا مقصد مملکت کی معیشت کو تبدیل کرنا اور تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرنا ہے۔
نومبر 2020ء میں ایک اسرائیلی نیوز ویب سائٹ کی جانب سے دعوی کیا گیا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے نیوم میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی میزبانی کی۔ بعد ازاں سعودی عرب نے اس بات کی تردید کی کہ ملاقات ہوئی تھی۔ وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے صاف صاف کہا: ’’ایسی کوئی ملاقات نہیں ہوئی‘‘۔ ہوائی ٹریفک پر نظر رکھنے والوں نے دیکھا کہ نیتن یاہو کے زیر استعمال ایک طیارے اسرائیل سے NEOM کے قریب کے علاقے کے لیے اڑان بھری، زمین پر کئی گھنٹے گزارے، اور واپس لوٹا۔ یہ بظاہر اسرائیل میں لیک ہونے والی خبر کی تصدیق تھی۔ رپورٹس نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے باضابطہ آغاز کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ بظاہر لگتا ہے ہر فریق نے عوامی موقف اختیار کیا جو اس کی سیاسی ضروریات کو پورا کرتا ہے؟ یقینی طور پر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین کے ساتھ معاہدوں کے بعد، اور سوڈان کے ساتھ معمول پر آنے کی شروعات کے بعد، ایسی ملاقات ناممکن دکھائی نہیں دیتی۔ اگر ہم نقشے میں نیوم کے محل وقوع کا مشاہدہ کریں تو یہ کئی سوالات بھی اٹھاتا ہے۔ اسرائیلی بارڈ کا ساحلی حصہ ایلات جہاں ایک طرف مصر اور ایک طرف اردن کی سرحد ہے اور وہیں اردن کی سرحد سے متصل سعودی عرب کی سرحد بھی ہے۔ اردن کی سرحد کے قریب حقل نامی سعودی شہر سے اسرائیلی علاقے ایلات 50 کلومیٹر ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر اور یہاں سعودی ساحل سے سے اگر براہ راست اسرائیلی ساحل تک کا فاصلہ ناپا جائے تو یہ بیس کلومیٹر سے بھی کم بنتا ہے۔نیوم شہر اور حقل شہر کا فاصلہ دو سو کلومیٹر ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ نیوم شہر کے پروجیکٹ کا اسرائیل سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ۔ ایک ایسے پروجیکٹ پر اتنی خطیر رقم اور ملکی وسائل جھونکنا کہ جس کی مثال مادہ پرست مغرب پیش کرنے سے بھی عاجز ہے دوسری جانب غزہ میں بھوک سے بلکتے اور جان دیتے بچے ۔ آخر کیسے کوئی بھی انسان یہ سب نظر انداز یا برداشت کر سکتا ہے؟
بحرہند کے جزیرے میں ڈیگو گارشیا ہوائی اڈہ |
مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق اگر ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکہ بمباری کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو وہ بحر ہند میں ایک چھوٹے سے جزیرے ‘ڈیگو گارشیا‘ پر موجود ہوائی اڈ
ے کو استعمال کرے گا۔ قطع نظر اس بات سے کہ اس رپورٹ میں کتنے فیصد صداقت ہے، اس ہوائی اڈے کے محل وقوع کی اہمیت کے پیش نظر اس کی تفصیلات جاننا نہایت ضروری ہے۔ امریکی فوج نے مارچ میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ وہ امریکہ برطانیہ کے مشترکہ فوجی اڈے پر بی ٹو سٹیلتھ بمبار طیاروں کو جمع کر رہی ہے جو فضائی دفاعی نظام سے بچ سکتے ہیں۔ یہ چھوٹا فوجی اڈہ 10km x 20 km ہے، جو بحر ہند میں Chagos جزائر کا سب سے بڑا جزیرہ ہے، اور مالدیپ سے 700 کلومیٹر جنوب میں ہے۔ وہاں امریکی فوج کی موجودگی برطانوی سلطنت کے زوال کے دوران 1960ء کی دہائی سے شروع ہوئی، جب برطانیہ نے اپنی کالونیوں سے دستبرداری اختیار کی، اس کا مقصد اپنے عالمی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے ڈیگو گارشیا جیسے چند اسٹریٹجک مقامات پر قبضہ کرنا تھا۔ برطانیہ نے ماریشس کو مجبور کیا کہ وہ چاگوس کو تین ملین پاؤنڈ میں فروخت کر دے، پھر ڈیگو گارشیا پر امریکی اڈہ بنانے کے لیے جزیرے کے ۱۵ سو مقامی افراد کو جزیرے سے بے دخل کر دیا گیا۔ 1966ء کے ایک خفیہ معاہدے میں، امریکہ کو 50 سال کی لیز ملی جس میں 20 سال کی توسیع ہو سکتی تھی اور برطانیہ کو بدلے میں رعایتی قیمت پر بیلیسٹک میزائل مل گئے۔ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں جب سعودی عرب نے عراق پر امریکی بمباری کی اجازت دینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو امریکہ نے سعودی عرب کے بجائے ڈیگو گارشیا کا رخ کیا۔ گزشتہ سالوں کے دوران، ڈیگو گارشیا وسیع تر مشرق وسطیٰ اور ہندو بحرالکاہل میں امریکی پاور پروجیکشن کے لیے مختصر نوٹس پر استعمال میں لائے جانے والے اڈے کے طور پر اہم بن گیا ہے۔ امریکی بمبار طیاروں نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے دوران عراق اور افغانستان میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیگو گارشیا سے براہ راست پروازیں کیں، تب ڈیگو گارشیا کو ایندھن بھرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک امریکی دفاعی اہلکار نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ خلیجی ریاستوں نے، حال ہی میں، یمن میں حوثیوں پر حملہ کرنے کے لیے اپنے فضائی اڈوں کے استعمال کے لیے امریکہ پر سخت پابندیاں عائد ک ی تھیں۔ اور جب کہ ٹرمپ انتظامیہ کو حوثیوں پر حالیہ حملوں کے لیے مشرق وسطیٰ میں فضائی میدان استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے، امریکی بمبار طیاروں کو خلیجی ریاستوں سے ایران کے خلاف اڑان بھرنے کی اجازت دینا خطے کے بادشاہوں کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہو گا۔ ڈیگو گارشیا پچھلے سال کے آخر میں اس وقت سرخیوں میں آیا جب لندن نے ایک معاہدے کے تحت چاگوس جزائر ماریشس کو واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی جس نے برطانیہ کو یہ جزائر 99 سالہ لیز پر دیے تھے۔ فروری میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارہ دیا تھا کہ وہ اس معاہدے کی حمایت کریں گے، لیکن اسے امریکی قدامت پسندوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس پر دستخط ہونا باقی ہیں۔ ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ نے ڈیگو گارشیا کو دوبارہ سپاٹ لائن دی ہے۔ بی ٹو بمبار طیاروں کی تیاری اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ اور تہران دونوں ممکنہ جوہری مذاکرات سے قبل طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ امریکہ پہلے ہی یمن میں حوثیوں پر حملے کر چکا ہے، جو ایران کے ساتھ منسلک ہیں، جسے بہت سے تجزیہ کار ایران کے لیے ایک اشارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭