بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ الکریم
برِّصغیر اور پوری دنیا میں بسنے والے میرے مسلمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پاکستان میں سیلاب کےباعث آج کروڑوں ہمارے بھائی بہن بے گھر ہیں ، لاکھوں کی تعداد میں ان کے مویشی ہلاک ہوگئے ہیں اور زرعی اراضی کا کوئی دو تہائی حصہ تباہ ہوگیا ہے، اسی طرح لاکھوں مرد، خواتین اور بچے وبائی امراض کا شکار ہیں اور اس سے بھی زیادہ بڑی تعداد کو خوارک کی کمی کا سامنا ہے ۔
یہ ہمارا موضوع ہے ، اس پر ان شاء اللہ آج بات کریں گے ،مگر یہاں یہ وضاحت بھی عرض کر دینا مناسب سمجھتاہوں کہ بعض ناگزیر مسائل اور سفر کے سبب ہم اپنی یہ باتیں اپنے بھائیوں تک بروقت نہیں پہنچا سکے اور اب ، جب موقع میسر آیا ہے توآپ کے سامنے یہ رکھ رہے ہیں۔
تو عرض یہ ہے کہ سیلاب اور اس کے بعد کی یہ صورت ِ حال مسلمانان پاکستان ، بلکہ پوری دنیا کے اہل ایمان کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہے ۔ ایک طرف خود سیلاب سے متاثرہ افراد سے یہ امتحان تقاضہ کرتاہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں،اس تکلیف میں بھی ان کے ہاتھ سے صبر کا دامن نہ چُھوٹے اور یہ یقین رکھیں کہ اس مصیبت میں اگر انہوں نے اپنے رب ،اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو راضی رکھا، اس سے خیر ہی کی امید رکھی تو جس نقصان کاانہیں سامنا ہے، وہ رب دنیا میں بھی انہیں اس کا بہترین بدلہ عطا کردیں گے اور آخرت میں بھی اس کے ثمر سے ان شاء اللہ یہ محروم نہیں ہوں گے ۔
دوسری طرف پاکستان کے دیگر اہلِ ایمان ، بلکہ پوری امت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کی مدد کرے اور مصیبت کی اس گھڑی میں انہیں اکیلا نہ چھوڑے ۔بے شک مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور مصیبت میں مبتلا اپنے بھائی کی مددکرنا اللہ کوراضی کرنے کا ایک یقینی وسیلہ ہے ، جو بھی اپنے بھائی کی ایسے وقت میں داد رسی کرتاہے، اللہ دنیا و آخرت دونوں میں اس کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا ، جبکہ جو استطاعت کے باوجود اپنے ضرورت مند بھائی کی پکار پر لبیک نہیں کہتا ، اللہ ایسے فرد کو اس کی اس بے حسی پر جلد یابدیر ضرورپکڑتا ہے۔ آپﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتاہے ، اللہ اس کی ضرورت پوری کرتاہے ، من کان فی حاجۃ أخیہ کان اللہ في حاجتہ،اوراسی طرح آپﷺ نے فرمایا ہے کہ جوکسی بیوہ اور مسکین کی حاجت روی کرتاہے اور ان کی خدمت کے لیے محنت اٹھاتاہےتو اس کی مثال اللہ کی راہ کے مجاہد جیسی ہے،’’الساعی علی الأرملۃ والمسکین کالمجاھد فی سبیل اللہ‘‘۔
اس موقع پر ہم پاکستان میں موجود تمام مجاہدین اور تحریک جہاد سے محبت رکھنے والے سب اہل ایمان سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ خود بھی متاثرین کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں ، اس میں اپناحصہ ڈالیں اور دیگر لوگوں کو بھی اس کی تحریض دیں۔ ہماری تحریک ِجہاد کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہمارے بھائیوں کا دین اور دنیا محفوظ ہو اور وہ عزت ، عافیت اور اطمینان کے ساتھ اپنے رب کی بندگی کریں۔ اس مقصد کے لیے جہاں ظالم طواغیت کے خلاف ہم مجاہدین برسرجنگ ہیں اور اپنے جہاد کو عدل وانصاف اور امن وامان کے قیام کا ایک بڑا وسیلہ سمجھتے ہیں ، بالکل اسی طرح اپنے بھائیوںمسلمان عوام کی خدمت کر نا ، ان کے دکھ درد میں ان کا ساتھ دینا ،ضرورت میں ان کے کام آنا اور ان سے تکلیف ہٹانابھی ہم مجاہدین کی ذمہ داری ہے اور ضروری ہے کہ یہ بھی ہماری تحریکی جہادی زندگی کا ایک اہم حصہ ہو۔ اس موقع پر اچھا ہوگا کہ اپنی اور دیگر بھائیوں کی تذکیر کے لیے یہاں ایک اور مبارک حدیث بھی آپ کے سامنے رکھوں جس کو طبرانیؒ نے نقل کیا ہے۔ آپﷺ کا فرمان مبارک ہے:’’أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللهِ تَعَالَى أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ‘‘…… لوگوں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ آدمی ہے جو دیگر لوگوں کے لیے زیادہ مفید ہو……’’وَأَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ تَعَالَى سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ‘‘……اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے محبوب عمل کسی مسلمان کوخوشی دیناہے……’’أَوْ تَكَشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً‘‘…… یا اس سے تکلیف ہٹانا ہے ……’’أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا‘‘…… یااس کی طرف سے قرض اتارناہے ……’’أَوْ تَطْرُدُ عَنْهُ جُوعًا‘‘…… یا اس کی بھوک میں اس کو کھانا کھلانا ہے……’’وَلَأَنْ أَمْشِيَ مَعَ أَخِي فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ – يَعْنِي مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ – شَهْرًا‘‘…… اور ایک مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کے لیے اگر میں اس کےساتھ چلوں تو یہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں اس مسجد میں (یعنی مسجد نبوی میں ) ایک ماہ کا اعتکاف کروں ……’’وَمَنَ كَفَّ غَضَبَهُ سَتَرَ اللهُ عَوْرَتَهُ‘‘…… اور جس نے اپنا غصہ روک لیا اللہ اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا ……’’ وَمَنْ مَشَى مَعَ أَخِيهِ فِي حَاجَةٍ حَتَّى يَتَهَيَّأَ لَهُ‘‘…… اور جو اپنے بھائی کے ساتھ اس کی حاجت پوری کرنے کے لیے چلا اور اس کو پورا کیا ……’’أَثْبَتَ اللهُ قَدَمَهُ يَوْمَ تَزُولُ الْأَقْدَامِ‘‘……اللہ اُس دن اس کے قدموں کو مضبوط کرے گاجس دن قدم ڈگمگائیں گے۔1
افسوس ہے کہ قوم پر مسلط سیاسی و عسکری طبقے کو مصیبت کی اس گھڑی میں بھی اللہ کی طرف رجوع کی توفیق نہیں ہوئی اور یہ اپنی روش سےتوبہ تائب ہونے کی بجائے الٹامزید اپنی سرکشی میں آگے بڑھ گئے۔ اس موقع پر بھی انہوں نے باہر جاکر امت کے دشمنوں کے سامنے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دینے کی بھرپور یقین دہانی کرائی اور نام نہاد ’دہشت گردی ‘ کے خلاف جنگ کا ڈھونگ رچاکر ایک دفعہ پھر ڈالروں کی بھیک مانگی ۔یہ طرزِ عمل ایک دفعہ پھر دکھا رہاہے کہ اس طبقے کو نہ اللہ کا خوف ہے اور نہ ہی یہ کسی طرح قوم کا خیرخواہ ہے ، یہ واضح کرتاہےکہ اس طبقے کا ہدف بس اپنا مفاد، اپنا پیٹ ، اپنی ترقی ،اپنا روپیہ اوراقتدار ہے اوریہ وہ مقاصدہیں کہ جن کی وجہ سے ان کا اول و آخر مقصد بس اپنی برائے نام خدمت کی نمودو نمائش ہے۔
اس صورت حال میں یہاں کے اہل دین طبقات کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہےاور ان کے لیے ناگزیر ہوجاتاہے کہ وہ بھی اپنی مددآپ کے تحت اس میدان میں خود کھڑے ہوں اور اپنے وسائل و ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنے بھائیوں کی خدمت کی یہ ذمہ داری سنبھالیں۔الحمدللہ اہل دین کی ایک مناسب تعداد اس طرف متوجہ ہے اور بے لوثی کے ساتھ وہ عوام کی خدمت کررہی ہے، ہم ان بھائیوں کا شکر یہ ادا کرتے ہیں اور ان کے لیے دعاگو ہیں، اللہ انہیں اس کارِ خیرپر جزائے خیر دے اور ان کی ان مساعی میں برکت ڈالے ۔ماضی میں ثابت ہوا ہے کہ یہاں ایسے مواقع پر بھی بہت زیادہ بدعنوانی ہوئی ہے نتیجتاً امدادی سازو سامان کی موجودگی کے باوجود حق دار اپنے حق سے محروم رہے ۔ ایسے میں ان دینی شعور رکھنے والے بھائیوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ اخلاص ، ہمدردی اور خداترسی کا جذبہ لیے اس خدمت کو ذمہ داری ا ور دیانت داری کے ساتھ خود منظم کریں ۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ یہ بھائی متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا دین بچانے والے بھی بن جائیں اور اس موقع کو انہیں اپنے رب کے ساتھ جوڑنے کے لیے بھی استعمال کریں۔ افسوس ہے کہ ماضی میں بعض قوتوں نے امداد کے نام پر متاثرین کے دین پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی اور ان کے اس عمل نے دکھا دیا تھا کہ ان کا اہم مقصد مسلمانوں کوبس ان کے دین سے بے زار کرناہے۔
یہاں ہم یہ بھی عرض کریں کہ امداد کے ساتھ ساتھ دوسرا اہم کام مستقبل میں ایسی کسی آزمائش میں نقصان کا سدباب کرنا ہے ، افسوس ہے کہ ۲۰۱۰ ء کے سیلاب کے بعد اگر حکومتی سطح پر سنجیدگی کے ساتھ اس ضمن میں کوئی کوشش ہوچکی ہوتی تو آج نقصان نسبتاً کم ہوتا ۔ اب یہ موقع ہے کہ قوم کے فکرمند افراد منصوبہ بندی کریں اور اصحاب اختیار کو مجبور کریں کہ وہ قومی وسائل کا ایک حصہ قوم کے تحفظ کے اس ضروری کام پر بھی صرف کریں۔
اس سے متصل اور اہم بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر، یہ موجودہ قدرتی آفات آج کے اس سرمایہ دارنہ نظام کی آخری حد تک قباحت اور خطرناکی ہمیں دکھا رہی ہیں ،یہ نظام صرف انسانوں کے اخلاق ، ان کے خاندان اور ان کی روحانی و معاشرتی زندگی کو تباہ نہیں کررہاہے ، بلکہ اس دجالی نظام کےباعث آج زمین پرموجود پوری کی پوری زندگی کو خطرہ ہے ۔ خود مغربی ماہرین کہتے ہیں کہ ان سیلابوں اور طوفانوں کا سبب زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہے اوریہ درجۂ حرارت کیوں بڑھ رہاہے ، اس کا سبب اسباب کی دنیا میں وہ کارخانے ہیں کہ جن میں یہ سرمایہ پرست؍Capitalist محض اپنا سرمایہ بڑھانے کے لیے بے تحاشہ ایسامواد استعمال کرتے ہیں کہ جو climate changeکا باعث ہے اور جس کے سبب نتیجتاً زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہورہاہے اور یوں اس کی قیمت آج ان قدرتی آفات کی صورت میں پوری انسانیت چکا رہی ہے ، بلکہ انسان ہی کیا زمین پر موجود سب چرند پرند اور دریا ؤں اور سمندر وں تک کی مخلوق بھی ان سے محفوظ نہیں ہے ۔یہ امن و مساوات اور خدمتِ انسان کا دعویٰ کرنے والے ان جھوٹوں کا اصل چہرہ ہے اور یہی ان کے ظلم وکفر کا وہ کڑوا پھل ہے کہ جو زمین پرموجود سب جان داروں کو آج کھانا پڑ رہاہے ،اللہ رب العزت کا فرمان ہے ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ ﴾’’ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کے اعمال کی وجہ سے خشکی اور تری(یعنی زمین اور دریاؤں اور سمندر ) میں فساد پھیلا‘‘، ﴿لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا﴾’’تاکہ جو اعمال انہوں نے کیے ہیں اللہ انہیں ان میں سے کچھ کا مزہ چکھائے ‘‘﴿لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾‘’’ شاید یہ اللہ کی طرف لوٹ جائیں‘‘۔ لہٰذا یہ موضوع بھی ایک طرف پوری دنیا کو دعوت دیتاہے کہ وہ اللہ کی طرف لوٹ جائے اور خود اپنے ساتھ اورپوری انسانیت کے ساتھ ظلم چھوڑ دے،کیو نکہ انسان کے اعمال اور بالخصوص ظلم وگناہ کا اثر اور اس کی نحوست پوری دنیا پر پڑتی ہے، دوسری طرف یہ موضوع نظامِ ظلم ، سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اس عالمی فساد کے خلاف دعوت و جہاد کی اہمیت بھی واضح کرتاہے اور یہ دکھاتاہے کہ اہل اسلام کے جہاد اور جس پیغام و مقصد کے لیے یہ جہاد فی سبیل اللہ ہو رہاہے اور تاقیامت جاری رہے گا، اس میں نہ صرف عالم اسلام کے مظلوموں کی داد رسی ہے، بلکہ اسی میں پوری انسانیت کی بقاا ور حفاظت ہے، اور یہی جہاد واسلام ہی ہے کہ جو اس دنیا کو غلامیٔ انسان کی تنگیوں سے نکال کر اللہ کی رحمتوں میں داخل کرتاہے۔
آخر میں ہماری دعا ہے کہ اللہ سیلاب سے متاثر ہمارے ان بھائیوں بہنوں کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے، اس نقصان کا انہیں نعم البدل عطا کرے ، ان کے بچوں ، بزرگوں اور خواتین پر رحم فرمائے ، جو بیمار ہیں انہیں شفا دے اور جو اس مصیبت میں وفات پاچکے ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ تمام مسلمانوں اور بالخصوص متاثرین سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ وہ دنیا بھر کے مظلومین کو اپنی دعا میں یاد رکھیں اور مسلمانانِ ہند و کشمیر کے لیے بھی یہ دعا کریں کہ اللہ انہیں مشرکین کے ظلم سے نجات دے ، ان کے دین ، جان ،مال اور عزت کی حفاظت کرے ،بنگلہ دیش کے ہمارے بھائیوں کا بھی اللہ حامی وناصر ہو ، جس سیکولر اور ہندتوا یلغار کا انہیں سامناہے ، یہ ایک نازک اور حساس محاذ ہے ، اس میں اللہ ان کے لیےآسانی پیدا فرمائے ، انہیں رہنمائی سے نوازے اور پورے برِّصغیر کے اہلِ ایمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک انہیں ثابت کرے،یہ بھی دعا کریں کہ اللہ امت مسلمہ کے دفاع میں کھڑے تمام مجاہدین کی مدد ونصرت فرمائے ، ظلم کی اس رات کو برِّصغیر اور پوری دنیا میں ختم کرے اور ہمیں وہ صبح یہاں دکھائے کہ جس میں اللہ کا دین غالب ہو اور غیر اللہ شیاطین کا دین مغلوب ہو ، آمین ثم آمین !
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
[بشکریہ: ادارہ السّحاب برِّ صغیر]
٭٭٭٭٭
1 ( الطبرانی ؍ السلسلۃ الصحیحۃ)