یہ تحریر یمن کے ایک مجاہد مصنف ابو البراء الاِبی کی تصنیف’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
چودہویں وجہ: عجب
عجب کیا ہے؟ امام ابن المبارک نے اسے مختصر عبارت میں بیان کیا ہے:
”کہ تم دیکھو کہ تمہاری پاس ایسی چیز ہے جو دوسرے کے پاس نہیں۔“
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے آپ کی بھلائی بیان کرنے اور تعریف کرنے سے منع کیا ہے۔ پس فرمایا:
فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (سورۃ النجم: ۳۲)
’’تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ۔ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے۔ ‘‘
امام قرطبی فرماتے ہیں: ”انسان کا اپنے آپ کے بارے میں عجب کرنا یہ ہے: کہ وہ یہ گمان کرے کہ وہ کامل ہے۔ جبکہ اللہ کے انعامات بھول جائے۔ اگر اس احساس کے ساتھ وہ دوسروں کو حقیر بھی جانے تو یہ وہ تکبر ہے جس کی مذمت کی جاتی ہے“۔
حضرت صہیب نے فرمایا کہ (غزوۂ حنین کے موقع پر) نبی کریم ﷺ کے ہونٹ ہلتے رہتے تھے اور مجھے سمجھ نہ آتی تھی وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اور نہ ہی وہ ہمیں بتاتے تھے۔ بعد میں آپ ﷺ نے فرمایا :’أَفَطِنْتُمْ لِي‘، ”کیا تم لوگوں نے محسوس کر لیا ؟“۔ ہم نے کہا : جی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:إِنِّي ذَكَرْتُ نَبِيًّا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ أُعْطِيَ جُنُودًا مِنْ قَوْمِهِ (وفي رواية: أعجب بأمته)، فَقَالَ: مَنْ يُكَافِئُ هَؤُلَاءِ؟ أَوْ مَنْ يَقُومُ لِهَؤُلَاءِ؟ أَوْ غَيْرَهَا مِنْ الْكَلَامِ (وفي الرواية الأخرى: من يقوم لهؤلاء ولم يشك). فَأُوحِيَ إِلَيْهِ أَنْ اخْتَرْ لِقَوْمِكَ إِحْدَى ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ نُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ أَوْ الْجُوعَ أَوْ الْمَوْتَ. فَاسْتَشَارَ قَوْمَهُ فِي ذَلِكَ. فَقَالُوا: أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ فَكُلُّ ذَلِكَ إِلَيْكَ خِرْ لَنَا. فَقَامَ إِلَى الصَّلَاةِ وَكَانُوا إِذَا فَزِعُوا فَزِعُوا إِلَى الصَّلَاةِ فَصَلَّى مَا شَاءَ اللَّهُ. قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَيْ رَبِّ أَمَّا عَدُوٌّ مِنْ غَيْرِهِمْ فَلَا أَوْ الْجُوعُ فَلَا وَلَكِنْ الْمَوْتُ. فَسُلِّطَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتُ فَمَاتَ مِنْهُمْ (في يوم) سَبْعُونَ أَلْفًا فَهَمْسِي الَّذِي تَرَوْنَ أَنِّي أَقُولُ: اللَّهُمَّ بِكَ أحول ولك أصول وبك أُقَاتِلُ (وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ).
” مجھے ایک نبی کی یا دآئی جنہیں اپنی امت میں بڑی تعداد میں جنگجو دیے گئے۔ ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ: ان لوگوں کے برابر کون ہے۔ یا ان کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ یا اسی طرح کی کوئی اور بات۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی طرف وحی بھیجی اور انہیں تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیا کہ: یا تو ان پر کسی دوسری قوم کا دشمن مسلط کر دوں ۔ یا بھوک کو مسلط کر دوں۔ اور یا موت کو؟ پیغمبر نے اپنی قوم سےمشورہ کیا۔ انہوں نے کہا: آپ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ یہ سب آپ کی مرضی ہے۔ آپ ہمارے لیے منتخب کریں۔ وہ پیغمبر نماز پڑھنے لگے۔ کیونکہ جب انہیں مشکل پیش آتی تو وہ نماز کی طرف لپکتے تھے۔ انہوں نے جتنی چاہی نماز پڑھی۔ پھر فرمایا: اے رب! دوسری قوم سے دشمن تو نہیں۔ اور بھوک بھی نہیں۔ البتہ موت مسلط کر دیں۔ تو ان میں سے ستر ہزار مر گئے۔ تو آپ جو میرے ہونٹ ہلتے دیکھتے ہیں تو میں یہ کہتا ہوں:اللَّهُمَّ بِكَ أحول ولك أصول وبك أُقَاتِلُ (وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ).
’’اے اللہ ! میں تری ہی مدد سے حیلہ کرتا ہوں۔ تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں۔ اور تیری ہی مدد سے قتال کرتا ہوں۔ اور اللہ کے سوا نہ کسی کاچارہ ہے اور نہ قوت۔ “۔(بروایت احمد۔ صحیح از البانی)
اے مجاہد بھائی! پیغمبر کو اپنے سپاہیوں اور ان کی تعداد پر عجب ہو۔ تو اللہ نے ان پر گرفت کی۔ یہ شرعی سنت ہے جس پر ایمان لانا چاہیے۔ اور اسے اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جو بندہ بھی اپنی قوت، جاہ، مال، اقتدار، شرافت، خاندان، عقل یا عسکری تجربہ پر عجب کرتا ہے۔ اللہ اسے بھی سزا دیتا ہے اور جو ان کے ساتھ ہوتے ہیں انہیں بھی۔ چاہے ان کے درمیان سردار کائنات اور بہترین صحابہ ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے کہ اللہ رب العزت نے حنین کے دن اپنے نبی ﷺاور صحابہ کا قصہ بیان کیا:
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ١وَّ يَوْمَ حُنَيْنٍ١ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْـًٔا وَّ ضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ (سورۃ التوبۃ: ۲۵)
’’خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور (جنگِ حنین کے دن۔ جب تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرّہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود )اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی ۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
”اکثر عجب کے ساتھ دکھاوا بھی مل جاتا ہے۔ اور دکھاوا (ریاکاری) لوگوں کو اللہ کے شریک بنانے میں سے ہے۔ جبکہ عجب اپنے آپ کو اللہ کے شریک بنانے میں سے ہے۔ یہ متکبر کی حالت ہے۔ ریاکار اللہ تعالی کے فرمان اِيَّاكَ نَعْبُدُ (اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں)کو پورا نہیں کرتا۔ اور عجب زدہ اللہ کے فرمان وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)کو پورا نہیں کرتا۔ جو اللہ کے قول کو پوراکرے تو ہ ریاکاری سے نکل جاتاہے۔ اور جو اللہ کے قول کو پورا کرتا ہے وہ عجب سے بچ جاتا ہے۔“
نبی اکرم ﷺ نےفرمایا:
ثلاث مهلكات: شح مطاع و هوى متبع وإعجاب المرء بنفسه [وهي أشدهن].
”تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں: ایسا حرص و بخل انسان جس کا غلام بن جائے۔ ایسی خواہش نفس جس کی پیروی کی جائے۔ اور مرد کا اپنے نفس پر گھمنڈ کرنا ہے۔ (اور یہ تیسری چیز ان سب میں بدترین خصلت ہے)۔ (بروایت بیہقی۔ حسن از البانی)
اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي حُلَّةٍ تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ مُرَجِّلٌ جُمَّتَهُ إِذْ خَسَفَ اللَّهُ بِهِ فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ
” ایک آدمی حلہ پہنے ہوئے اپنے سر میں کنگھی کرتا ہوا اپنے دل میں بہت خوش ہوتاجارہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دھنسا دیا اور قیامت تک اسی طرح دھنستا رہے گا“۔ (متفق علیہ)
اپنے کسی کام کو بڑا جاننا عجب ہی ہے۔ اور انسان کا اپنے آپ پر عجب کرنا بھی شر ہے۔ اور بڑا شر ہے۔
ابن المبارک نے فرمایا:
”میں نمازیوں میں عجب سے زیادہ بری چیز نہیں جانتا“۔
اگرچہ گناہ ہلاکت خیز بھی ہوتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ گناہ گار پر رحمت کا سبب بھی بنتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ذریعے سے عجب سے بچ جاتا ہے جو کہ یقینی ہلاکت ہے۔
حضرت انس بن مالک نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لو لم تكونوا تذنبون، خشيت عليكم أكثر من ذلك : العجب.
”اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے ہوں مجھے تم پر اس سے زیادہ چیز کا خطرہ ہوتا (یعنی کہ ) عجب۔ (بروایت بیہقی۔ حسن از البانی)
حضرت ابن مسعود نے فرمایا: ”ہلاکت دو چیزوں میں ہے: عجب اور مایوسی“۔
ان دونوں کو اکٹھا اس لیے ذکر کیا کہ خوشحالی چاہنے اور کوشش کیے بغیر نہیں آتی۔ جبکہ مایوس کوشش ہی نہیں کرتا۔ اور عجب میں مبتلا شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے اپنی مراد حاصل ہو گئی ہے اس لیے وہ بھی کوشش نہیں کرتا۔
امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ: ”جو عجب میں مبتلا ہو۔ اسے چاہیے کہ اپنے گناہوں پر سوچے۔ اگر اسے اپنی اچھائیوں پر عجب ہو تو ڈھونڈے اس میں کتنے برے اخلاق ہیں۔ اگر اسے اپنے آپ میں کوئی غلطی نظر نہ آئے اور وہ گمان کرنے لگے کہ اس میں کوئی عیب ہی نہیں۔ تو جان لے کہ اس کی مصیبت کی انتہا نہیں۔ اور یہ کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ ناقص ہے اور سب سے بڑا عیب اس میں ہے اور تمیز کرنے میں سب سے زیادہ کمزور ہے۔ پہلی بات کہ اس کی عقل کمزور ہے اور جاہل ہے۔ اور اس سے سخت عیب کوئی اور نہیں ۔ اس لیے کہ عاقل وہ ہے جو اپنے نفس کے عیوب کی تمیز کرے اور ان پر غلبہ حاصل کرے اور کوشش کرے کہ وہ ختم ہو جائیں۔ اور احمق وہ ہے جو اپنے عیوب سے جاہل ہو۔ چاہے وہ علم کی کمی کے سبب ہو یا سوچ کی کمزوری کے سبب۔ اور یا اس لیے کہ وہ اپنے عیوب کو خوبیاں سمجھ رہا ہو“۔
ابن بادیس نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے آپ پر عجب کرے تو وہ اپنی خامیوں سے اندھا ہوجاتا ہے۔ اور انہیں دور کرنےکی کوشش نہیں کرتا۔ اور خوبیوں سے غافل ہو جاتا ہے۔ انہیں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس طرح وہ بغیر اخلاق کے جینے لگتا ہے۔ ہر شر کا منبع ہوتا ہے۔ اور ہر خیر سے دور“۔
امام ذہبی میزان میں فرماتے ہیں: ”عالم کو چاہیے کہ وہ اپنے ارادے اور حسن نیت کے مطابق بات کرے۔ لیکن اگر اسے اپنی بات پر عجب ہونے لگے تو چپ ہو جائے۔ اور جب اسے چپ رہنے پر عجب ہو تو بولنا شروع کرے۔ وہ خود احتسابی میں کمزور نہ پڑ جائے۔ کیونکہ نفس کو تو نمایاں ہونا اور تعریف پسند ہوتی ہے“۔
ابن المعتز نے فرمایا: ”عقل کی آ فتوں میں سب سے بری عجب ہے“۔
عجب میں مبتلا شخص اپنے مد مقابل کی طرف سے آنے والے حق کو قبول نہیں کرتا۔ بلکہ اسے ہیچ اور حقیر جانے گا۔ یہ دونوں طرف سے حق قبول کرنے میں مانع ہے۔
اسحاق بن خالد فرماتے ہیں: ”ابلیس کی کمر توڑنے والا اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ انسان کہے: کیا جانوں میرا خاتمہ کیسے ہو گا؟ اس وقت ابلیس مایوس ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: اسے اپنے فعل پر عجب کب ہو گا؟“
اپنے آپ کو حقیر جاننا اور عاجزی نا گزیر ہے۔
جب حضرت عائشہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا کہ:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْرُ(سورۃ فاطر: ۲۰)
’’پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھیرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا۔ تو کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ اور کچھ میانہ رو ہیں۔ اور کچھ خدا کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔ یہی بڑا فضل ہے۔ ‘‘
تو انہوں نے فرمایا:
”نیکیوں میں آگے نکل جانے والے تو وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے اور ان کے لیے آپ ﷺ نے جنت کی گواہی دی۔ میانہ رو تو آپ ﷺ کی پیروی کرنے والے وہ صحابہ ہوں جو ان کے ساتھ جا ملے۔ جبکہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے میری اور تمہاری طرح کے لوگ ہیں“۔ پس انہوں نے اپنے آپ کو سوالیوں کے ساتھ گردانا۔
شیخ محمد حامد الفقی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: ”انہوں نے یہ عاجزی اور انکساری میں کہا ورنہ وہ سابقین مقربین میں سے ہیں“۔
ابن القیم نے فرمایا: ”جو اپنی عیب کو نہ جانتا ہو وہ اسے ختم نہیں کر سکے گا۔ اور جب اپنے عیب پر مطلع ہو جائے تو اللہ تعالی کی خاطر اسے برا جانے گا“۔
بکر المزنی نے فرمایا: ”میں نے جب عرفات والوں کو دیکھا تو مجھے گمان ہو کہ ان کی مغفرت کی جائے گی اگر میں ان میں نہ ہوتا“۔
محمد بن واسع نے فرمایا: ”اگر گناہوں کی بدبو ہوتی تو میرے ساتھ کوئی بیٹھ نہ سکتا“۔
یونس بن عبید نے فرمایا: ”میں بھلائی کی سو خصلتوں میں سے کوئی ایک نہیں جانتا جو مجھ میں ہو“۔
حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں: ”انسان مکمل فقیہ نہیں ہو سکتا ہے جب تک اللہ تعالی کے معاملے میں لوگوں کو برا جانے۔ پھر جب اپنے آپ کو دیکھے تو اسے اور بھی برا جانے“۔
[اے اللہ تحریرِ ہٰذا کے مؤلف، مترجم و دیگر خدام کی مغفرت فرما اور عجب جیسے ہلاکت خیز گناہ سے اپنی پناہ میں رکھ، ولا حول ولا قوۃ إلا بک!]
٭٭٭٭٭