برادرِ محترم، ابو اَنور الہندی کا تعلق حاجی شریعت اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی سرزمینِ بنگال سے ہے، جس کے مشرقی حصے کو بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برادر ابو اَنور نے یہ تحریر بنگلہ دیش ہی میں قلم بند کی ہے۔ (ادارہ)
مجیب الرحمٰن کا کردار
پاکستان میں مجیب الرحمٰن کو ایک غدار سمجھا جاتا ہے۔اسے پاکستان توڑنے کا مرکزی مجرم بھی سمجھا اور کہا جاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف بنگلہ دیش میں مجیب کو قومی ہیرو اور قائدگردانا جاتا ہے، بلکہ کئی لوگوں کے نزدیک وہ ’بابائے قوم‘کی حیثیت رکھتا ہے۔
مگر ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ مجیب کے بارے میں یہ تمام خیالات و آراء اس کے کردار کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مجیب ایک ظالم طاغوت تھا۔ بنگلہ دیش میں مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر اس نے انسانی ساختہ قوانین اور نظریات کے بل پر حکومت کی۔۷۲ء سے ۷۵ء تک، اس نے اور اس کی پارٹی نے ملک پر خوف و دہشت کی حکمرانی قائم کی۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ۱۹۶۴ء سے لے کر ۱۹۷۱ء کے عرصے تک، وہ بہر لحاظ بنگلہ دیش کا مقبول ترین لیڈر تھا۔ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں منتخب ہونے سے بہت پہلے مشرقی بنگال کی عوام نے اسے اپنا لیڈر منتخب کر لیا تھا۔ مگر پاکستان توڑنے میں واحد ہاتھ مجیب الرحمٰن کا تھا اور نہ ہی وہ اس کا مرکزی مجرم ہے، گو کہ اس نے اس عمل میں ایک نمایاں کردار ضرور ادا کیا۔
تمام سیاستدانوں کی طرح مجیب کو بھی طاقت و اقتدار سے محبت تھی۔اس کا کردار بیک وقت مشتبہ، دو رخہ، نرجسیت کا شکار اور میکاوِلیائی1 تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ وہ اقتدار کی خاطر بیک وقت متکبر و غاصب فطرت پاکستانی جرنیلوں سے لے کراپنی پارٹی میں موجود باؤلے بنگالی قومیت پرستوں اور آزادی کے حامی عناصر تک، سب کو خوش کرنے اور رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ باہم متضاد صفات کا مجموعہ تھا۔ مگر بنیادی طور پر وہ ایک موقع پرست سیاستدان تھا۔لہٰذا ۱۹۶۰ء سے ۷۱ء تک کے دس سالہ دور میں ہمیں مجیب میں متضاد رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایک طرف وہ ۶۰ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان سے علیحدگی حاصل کرنے کی خاطر سازشی منصوبے تیار کرتا نظر آتا ہے جبکہ دوسری طرف۱۹۶۹ء کے بعد ہم اسے ایک بے حد مختلف کردار ادا کرتے دیکھتے ہیں۔
مجیب…… ایک غدّار
بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک بنگالی لکھاری مَنوج باسو کی روایت کے مطابق ۱۹۵۶ء میں شیخ مجیب الرحمٰن نے اس سے بیجنگ میں کہا کہ وہ بالآخر مشرقی پاکستان آزاد کرائے گا2۔ ۱۹۷۲ء میں کلکتہ میں دوبارہ ملاقات کے موقع پر مجیب نے باسو کو بیجنگ میں کہی یہ بات یاد دلائی 3، مگر یہاں قاری کے لیے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس دور میں کئی بنگالی سیاستدانوں میں یہ طرزِ فکر عام تھی۔ گزشتہ گفتگو میں ہم اس کی کئی مثالیں پیش کر چکے ہیں۔
۱۹۶۳ء میں مجیب نے مشرقی پاکستان کو بھارت کی مدد سے پاکستان کے بائیں بازوسے علیحدہ کرنے کے خیالی پلاؤ پکاتے ہوئے اگرتلہ (بھارت) کا ایک خفیہ دورہ کیا۔ مجیب کے بھتیجے شیخ شاہدالاسلام کے مطابق، مجیب الرحمٰن کے ساتھ علی رضا بھی اس سازش میں شامل تھا۔شاچندرہ لال سنگھا، جو اس وقت بھارتی ریاست تریپورہ کا وزیرِ اعلیٰ تھا، نے بنگلہ دیش کے ایک مشہور و معروف صحافی اور لکھاری فیض احمد کو ۱۹۹۱ء میں دہلی میں ایک دستخط شدہ بیان دیا، جس میں اس نے کہا کہ:
’’۱۹۶۳ء میں شیخ مجیب الرحمٰن دس افراد کے ساتھ …… اگرتلہ میں میرے بنگلے پر آئے۔ مجیب بھائی کی درخواست پر میں اپنے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے ملا……مگر وہ مجیب الرحمٰن کو تریپورہ سے کسی قسم کا پروپیگنڈہ کرنے کی اجازت دینے پر رضامند نہ ہوئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ چین سے جنگ کے بعد وہ (نہرو)اتنا بڑا خطرہ مول لینے پر تیار نہ تھے۔لہٰذا ۱۵ دن ٹھہرنے کے بعد وہ (مجیب) تریپورہ سے چلے گئے۔‘‘4
ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ۱۹۶۳ء میں مجیب بھارتی امداد کے ساتھ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہتا تھا۔مگر نہرو کو اس منصوبے میں خطرے کا عنصر بہت بڑھا ہوا محسوس
ہوا۔ مجیب کی معاشی اور فوجی امداد کرنے میں نہرو کے تامل نے مجیب کی حوصلہ شکنی کی۔ اس کے باوجود مجیب مقامی ہندو علیحدگی پسندوں سے رابطے میں رہا، بالخصوص چتارنجن سوترسے، جس کی خواہش و ارادہ مشرقی پاکستان میں سے چار پانچ اضلاع کو ’سوادھن بنگا بھومی‘ (یعنی خود مختار ہندو علاقے) کے طور پر آزاد کرانا تھا۔مزید برآں مجیب نے ڈھاکہ میں موجود بھارتی کاروباری شخصیتوں اور بھارتی قونصلیٹ سے بھی روابط برقرار رکھے۔
ان حقائق کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ مگراس کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔
مجیب ……ایک محبِ وطن
کہا جاتا ہے کہ ۱۹۶۶ء میں عوامی لیگ اور دیگر بنگالی پارٹیوں کی جانب سے پیش کیا جانے والا چھ نکاتی مطالبات کا چارٹر اپنی فطرت و اساس کے اعتبار سے علیحدگی پسندانہ تھا۔ ایوب خان اور بھٹو سمیت مغربی پاکستان کے تقریباً تمام سیاستدانوں نے اس پر شدید تنقید اور نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے قوم مخالف اور علیحدگی پسندقرار دیا۔ مگر ان کے برعکس مجیب نے ہمیشہ یہ دعوی کیا کہ اس کے چھ نکاتی مطالبات اپنی فطرت میں علیحدگی پسندانہ نہیں تھے۔علاوہ ازیں، وہ ان مطالبات میں ترمیم و تخویف اور رد و بدل کرنے پر بھی تیار تھا۔
مئی ۱۹۶۶ء میں حکومت نے مجیب کو یہ ’علیحدگی پسندانہ‘ چھ نکات پیش کرنے پر گرفتار کر لیا، اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اسے اگرتلہ سازش کے معاملے میں ملزم قرار دے دیا ۔۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۵ء کے دوران وہ متعدد بار جیل گیا اور ۲۲ فروری ۱۹۶۹ء تک مجیب نے طویل عرصہ جیل میں گزارا،بعض دفعہ چند دنوں کے لیے اور بعض دفعہ سالوں کے حساب سے ۔
مگرمجیب کے چھ نکات کے خلاف پاکستان حکومت کی اس درشت انتقامی کارروائی کا نتیجہ بالآخر ان کی خواہشات و توقعات کے برعکس نکلا۔ مجیب پہلےسے بھی زیادہ مقبول ہو گیا۔۱۹۶۹ء کے آغاز میں ۱۷ جنوری کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک تحریک کا آغاز کیا جس کا مطالبہ اگرتلہ سازش کے مقدمے کو واپس لینا تھا۔یہ تحریک بالآخر ایوب خان کو مجبور کرنے میں کامیاب ہو گئی اور اس مقدمے کے تمام ملزمان ، بشمول شیخ مجیب الرحمٰن کو رہا کر دیا گیا۔
رہائی کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن نے علیحدگی یا آزاد بنگلہ دیش کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا، ۱۳ مارچ ۱۹۶۹ء کو اسلام آباد میں ایک نجی عشائیے کے دوران، مجیب نے ایوب خان کو ذاتی طور پر یقین دہانی کرائی کہ اس کے چھ نکات پاکستان کو متحد و متفق اور مضبوط بنانے میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ اس کو یقینی بنائیں گے۔ مجیب کے نائب مودود احمد بھی اس موقع پر موجود تھے، انہوں نے بعد ازاں بتایا کہ:
’’مجیب اس عشائیے کے بعد بہت خوش اور مطمئن نظر آ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید فوج کو معاملے کی حساسیت ونزاکت اور سنجیدگی کا احساس ہو گیا ہے……اور وہ پاکستان کی حفاظت (عوام کی)رضامندی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں نہ کہ بزورِ قوت۔‘‘5
اسلام آباد سے مجیب کی مشرقی پاکستان واپسی کے فوراً بعد عوامی لیگ نے ۱۹۶۲ء کے دستور میں ترمیمی بِل کا مسودہ تیار کیا، جس میں دیگر چیزوں کے ساتھ، ان نکات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ
- ملک کا نام ’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘ برقرار رکھا جائے گا
- مملکت کے صدر کے لیے مسلمان ہو نے کی شق کو برقرار رکھا جائے گا جیسا کہ ۱۹۶۲ء کے دستور میں کہا گیا
- ملک میں ایک ہی کرنسی جاری رکھی جائے گی۔6
اس مسودے میں سیکولرازم یا علیحدگی کے بارے میں کوئی نقطہ شامل نہیں تھا۔
بعد ازاں مجیب نے یحیی خان کے لیگل فریم ورک آرڈر (جس میں پاکستان کو یکجا و متحد رکھنے کی شرط رکھی گئی تھی)کی پاسداری کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے ۱۹۷۰ء کے پارلیمانی الیکشن میں بھی شرکت کی تاکہ آئین کا مسودہ تیار کیا جا سکے۔۱۹۷۰ء کی الیکشن کمپین کے دوران بھی مجیب یا عوامی لیگ نے بنگلہ دیش کی آزادی کی بات نہیں اٹھائی۔ لہٰذا یہ دعویٰ کرنا درست نہیں کہ مجیب کا مقصد و ہدف پاکستان کو دو لخت کرنا تھا اور اس کے چھ نکات بالآخر پاکستان توڑنے کا سبب بنے۔
۱۹۷۰ء کے الیکشن میں عوامی لیگ بھاری اکثریت کے ساتھ جیت گئی۔یہ وہ وقت تھا جب مجیب متحدہ پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا ۔اگرچہ اس نے ۶۰ء کی دہائی کے شروع میں مشرقی پاکستان کو اس کے مغربی بازو سے علیحدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ۱۹۶۳ء میں نہرو کی سردمہری نے مجیب کو اپنی فکر تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔پھر ۱۹۶۳ء سے ۱۹۷۱ء کے عرصے میں بنگلہ دیش کی مکمل آزادی کے بارے میں بھی اس کا موقف نرم پڑ گیا۔ اور دسمبر ۱۹۷۰ء میں پاکستان کے قومی الیکشن جیتنے کے بعد اسے کوئی ضرورت نہ تھی کہ وہ مغربی پاکستان سے علیحدگی حاصل کرنے کے لیے جنگ اور ماردھاڑ کا مشکل اور دشوار گزار راستہ اپناتا۔ اس کے پاس پاکستان کا اگلا وزیرِ اعظم بننے کی توقع کرنے کی بے حدجائز وجوہات تھیں۔ازلی موقع پرست مجیب الرحمٰن کی تمامتر کوششوں کا محور اپنے آپ کو متحدہ پاکستان کے مستقبل کے وزیرِ اعظم کے روپ میں دیکھنا تھا۔ پھر صدر یحیی خان نے الیکشن کے بعد ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کے اپنے پہلے دورے میں، ڈھاکہ میں بر سرِ عام مجیب الرحمٰن کا تذکرہ ’پاکستان کے مستقبل کے وزیرِ اعظم‘ کے طور پر کیا۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک خفیہ ڈاکومنٹ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ مجیب اور یحیی خان کے درمیان ایک ڈیل طے پا گئی تھی جس کے مطابق یحیی خان پاکستان کا صدر ، جبکہ مجیب الرحمٰن اس کا وزیرِ اعظم ہو گا7۔ ان دونوں کے درمیان مفاہمت اتنی اچھی تھی کہ مجیب یحیی کو اپنی قیادت میں عوامی لیگ کی حکومت میں بطور صدر برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آرچر بلَڈ(۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں امریکہ کا قونصل جنرل) ۲۹ جنوری ۱۹۷۱ء کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو بھیجے گئے اپنے طویل خفیہ خط میں لکھتا ہے کہ عوامی لیگ کی حکومت میں ممکنہ افسران کی فہرست میں مندرجہ ذیل افراد انتظامیہ کے اہم عہدوں کے حامل ہوں گے8:
عہدہ
نام
وزیرِ اعظم
شیخ مجیب الرحمٰن
صدر
اے۔ایم یحیی خان
سپیکر نیشنل اسمبلی
ظہیرالدین احمد (عوامی لیگ ایم این اے)
وزیرِ خارجہ
ڈاکٹر کمال حسین(عوامی لیگ ایم این اے)
اہم وزارت
سید نذر الاسلام(عوامی لیگ ایم این اے)
وزیرِ مالیات یا چیف برائے معاشی منصوبہ بندی
رحمٰن سبحان، (ڈھاکہ یونیورسٹی میں بائیں بازو کے ماہرِ اقتصادیات)
وزیرِ کامرس
مطیع الرحمٰن یا ایم آر صدیقی (دونوں عوامی لیگ کے ایم این ایز)
اس تمام منصوبے کو خراب کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور وہ پاکستانی جرنیل تھے جنہوں نے مارچ ۱۹۷۱ء یا کسی بھی دوسرے وقت میں مجیب کو اقتدار واختیار منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے لیے یہ تصور ہی محال تھاکہ ایک بنگالی پاکستان کا لیڈر بن جائے۔ ۲۸ فروری ۱۹۷۱ء کو یحیی خان نے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے دباؤ میں آ کر مارچ میں ہونے والی نیشنل اسمبلی کی میٹنگ ملتوی کر دی۔ یہ میٹنگ ملتوی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجیب اور بھٹو کو پاکستان کی حکومت کا ڈھانچہ بنانے کے لیے کسی اتفاقِ رائے پر لایا جا سکے۔
یکم مارچ کو یحیی کی تقریر کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے مجیب پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ آزادی کا اعلان کر دے۔مگر یہ کہنے کے بجائے کہ وہ ایک آزاد و خود مختار بنگلہ دیش چاہتا ہے، مجیب نے یحیی سے اپنی درج ذیل چارشرائط پوری کرنے کا مطالبہ کیا۔
’’مارشل لاء کا فوری خاتمہ؛فوج کی بیرکوں میں واپسی؛فوجی مداخلت کے سبب ہونے والے جانی نقصان کی منصفانہ تحقیق اور قوت و اقتدار کی (مجیب کی جانب) فوری منتقلی…… یعنی اسمبلی کے ملنےاور آئینی ڈھانچہ تیار کرنے سے پہلے……(یہ شرائط پوری کی جائیں)۔9‘‘
اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس موقع پر مجیب کا ہدف و مقصد پاکستان کو دو لخت کرنا نہیں، بلکہ ایک متحدہ پاکستان کا وزیرِاعظم بننا تھا۔ آئیے ان شواہد پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔
صدر یحییٰ خان کی تقریر جس میں اس نے نیشنل اسمبلی کے پہلے سیشن کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا، مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں انتہائی تند و تیز عوامی ردّ عمل کا سبب بنی۔ ۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو مجیب کی تقریر اسی عوامی ردّ عمل کا نتیجہ تھی اور اگرچہ اس میں بہت سے مبہم اشارے کیے گئے، اس کے باوجود یہ آزادی یا خود مختاری کا اعلان نہیں تھی۔
۷ مارچ کو مجیب نے یحییٰ حکومت کے خلاف ایک پر امن اور غیر متشدد تحریکِ عدم تعاون کا آغاز کیا۔ اس نے یہ الفاظ ادا کیے:
’’اس بار ہم نجات حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔ اس بار ہم آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘
تاہم مجیب نے ۷ مارچ کی اس تاریخی تقریر کا اختتام دو نعروں پر کیا: ’’جے بنگلہ!‘‘ اور ’’جے پاکستان!‘‘۔ اس امر کی تصدیق و توثیق بہت سے افراد نے کی ہے جن میں ائیر وائس مارشل اے کے خوندکر، شاعر شمس الرحمٰن، صحافی نیرمل سن، ڈاکٹر ظفر اللہ چودھری اور دیگر حضرات شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجیب الرحمٰن نے اپنی تقریر کا خاتمہ پاکستان اور بنگلہ دیش، دونوں کے جیتنے کی تمنا پر کیا10۔
مارچ ۱۹۷۱ء میں مجیب نے پاکستان میں موجود امریکی سفیر (فارلینڈ) سے درخواست کی کہ وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے یحییٰ خان پر دباؤ ڈالے کہ وہ طاقت و اقتدار مجیب کو منتقل کرنے پر تیار ہو جائے۔اور اگر یہ نہ ہو سکے تو پھر اس ( یعنی مجیب) کی زندگی اس کی پارٹی میں موجود علیحدگی پسندوں سے بچانے کے لیے اسے اپنی تحویل میں لے لے۔کہا جاتا ہے کہ مجیب نے اوائل مارچ میں امریکی سفیر فارلینڈ سے کہا کہ وہ ایک آزاد و خود مختار بنگلہ دیش نہیں بنانا چاہتا، بلکہ بنگالیوں کے لیے ایک وفاقی پاکستان (فیڈریشن آف پاکستان)بنانا چاہتا ہے، جس میں وہ برابر شہریوں کی طرح عزت سے رہ سکیں نا کہ کسی کالونی یانو آبادی میں بسنے والے محکوم لوگوں کی مانند۔11
حتی کہ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو پاکستان کی جانب سے سخت بہیمانہ فوجی ایکشن کے آغاز سے عین پہلے بھی مجیب کی طرف سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے بارے میں اس کے اصل عزائم کے بارے میں ملے جلے اشارے مل رہے تھے۔۲۴ مارچ کو پریس کو دیے گئے بیان میں سہ فریقی مذاکرات (جو مجیب، یحییٰ اور بھٹو کے درمیان جاری تھے)کے آگے بڑھنے میں امید کا اظہار کرنا، مجیب کے خلوص اور امیدوں کو ظاہر کرتاہے کہ فوجی انتظامیہ سے اقتدار کی سِوِ ل انتطامیہ کو منتقلی کا ایک پر امن حل نکالا جا سکتا ہے۔اس کی یہ امید تب بھی قائم تھی کہ وہ ایک متحدہ پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب ہو جائے گا۔
جبکہ دوسری جانب اس نے اپنے قریبی لوگوں کو ڈھاکہ سے نکلنے کو کہا، اور یک طرفہ اعلانِ آزادی کرنے سے انکار کر دیا۔ ممکنہ طورپر وہ اب بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اسلام آباد کے ساتھ متحدہ پاکستان کے تحت اس کے دونوں بازؤوں کے مابین کسی سمجھوتے پر پہنچا جا سکتا ہے۔
حتی کہ مجیب نےتاج الدین احمد کے تیار کردہ مسودے پر دستخط کرنے سے بھی انکار کر دیا اور ۲۵ مارچ کو آزادی کا اعلان ریکارڈ کروانے سے بھی، کیونکہ مجیب کو پاکستان کی جانب سے غداری کے مقدمات کا سامنا کرنے کا خوف تھا۔ تاج الدین نے مجیب سے آزادی کے اعلان پر دستخط کرنے یا آزادی کا اعلان ریکارڈ کروانے کا مطالبہ کیا، اور اپنے ساتھ کسی محفوظ مقام پر چلنے کو کہا، مگر مجیب نے صرف یہی جواب دیا کہ :
’’گھر جاؤ اور آرام سے سو جاؤ، میں نے ۲۷ مارچ کو عام ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔‘‘12
دلچسپ بات یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ مجیب نے بنگلہ دیش بنانے کا الزام تاج الدین کے سر ڈالا۔۱۰ جنوری ۱۹۷۲ء کو پاکستان سے ڈھاکہ ائیر پورٹ پہنچنے کے فوراً بعد، مجیب الرحمٰن نے تاج الدین سے کہا:
’’تاج الدین! آخر تم لوگوں نے پاکستان توڑ ہی دیا!‘‘13
میجر جنرل خادم حسین راجہ (جو کہ اس وقت مشرقی پاکستان میں جنرل آفیسر کمانڈ تھا) بھی یہی رائے رکھتاہے کہ مجیب ایک خود مختار بنگلہ دیش کے حق میں نہ تھا۔مجیب نے میجر جنرل راجہ (جی او سی، 14th ڈویژن پاکستان آرمی، ڈھاکہ) کی طرف ۶ اور ۷ مارچ کو اس درخواست کے ساتھ قاصد بھیجے کہ اس کی زندگی بچانے کے لیے اسے حفاظتی تحویل میں لے لیا جائے۔ خادم حسین راجہ لکھتا ہے:
’’۶ مارچ کی سہ پہر کو ایک بنگالی جنٹلمین میری رہائشگاہ پر تشریف لائے اور مجھ سے ملنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ مجیب کے ایک قریبی معتمد ہیں اور مجیب نے انہیں مجھ سے ایک گزارش کرنے کے لیے بھیجا ہے۔شیخ مجیب کا پیغام مختصراً یہ تھا کہ وہ اپنی پارٹی میں موجود شدت پسندوں اور طلبہ لیڈروں کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار ہیں اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ۷ مارچ کے عوامی خطاب میں یک طرفہ طور پر آزادی کا اعلان کر دیں۔ شیخ مجیب کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک محب وطن ہیں اور پاکستان توڑنے میں کوئی کردار ادا کرنا نہیں چاہتے۔لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ میں انہیں اپنی حفاظتی تحویل میں لے لوں اور انہیں کینٹ کی حدود تک محدود کر دوں۔ اس کے لیے وہ چاہتے تھے کہ میں انہیں ان کی دھانمنڈی رہائش سے لانے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کروں۔‘‘14
لیکن مجیب کی یہ درخواست رد کر دی گئی۔جنرل راجہ کے مطابق شیخ مجیب نے پھر بھی ہار نہ مانی۔انہوں نے ۷ مارچ کو رات کے دو بجے پھر دو قاصد بھیجے جنہوں نے دوبارہ یہی التجا کی۔مجیب پاکستانی فوج کی حفاظتی تحویل میں آنا چاہتا تھا۔ مجیب کی اس خواہش کی تصدیق پاک فوج کے ایک دوسرے افسر کے بیان سے بھی ہوتی ہے جس نے جنرل راجہ اور امریکی سفیر فارلینڈ کے بیانات کی بھی تصدیق کی۔15
ایک پاکستانی خفیہ پولیس انسپکٹر راجہ انار خان، جس نے مجیب کی پاکستان میں گرفتاری کے دنوں میں مجیب کے باورچی اور ذاتی خدمتگار کا کردار ادا کیا، نے مجیب اور بھٹو کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بار ے میں دلچسپ معلومات فراہم کیں۔ بنگلہ دیش بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد بھٹو مجیب سے ملنے کے لیے آیا تو مجیب اپنی گرفتاری کے دوران ہونے والے واقعات سے قطعی بے خبر تھا۔ ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھٹو کی زبانی یہ سن کر کہ مشرقی پاکستان کے سقوط اور بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد وہ (بھٹو) صدرِ پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن چکا ہے، وہ حیرت زدہ رہ گیا اور اس نے کہا:
’’تم صدر کیسے بن سکتے ہو؟ اکثریتی پارٹی کا لیڈر ہونے کی حیثیت سے صدر بننے کا حق میرا ہے، تمہارا نہیں……مجھے فوراً کسی ریڈیو یا ٹی وی سٹیشن پر لے کر جاؤ تاکہ میں مشرقی پاکستان کو (پچھلی حیثیت میں ) بحال کروں اور سب کچھ ٹھیک کروں……‘‘16
ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ مجیب الرحمٰن ایک خود مختار مشرقی بنگال یا بنگلہ دیش بنانے……کہ جس کا عَلَم لیے عوامی لیگ کے بہت سے علیحدگی پسند رہنما اور سٹوڈنٹ لیڈر کھڑے تھے…… کے لیے نصرت و حمایت فراہم کرنے سے زیادہ ایک متحدہ پاکستان کا وزیرِ اعظم بننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ تاہم اس کھیل میں اور بھی کھلاڑی موجود تھے جنہوں نے کھیل کا پورا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔
سراج اور نیوکلئیس
مجیب الرحمٰن کی قید اور گرفتاری کے عرصے (۱۹۶۶ء تا ۱۹۶۹ء) میں، بنگالی نوجوانوں اور طلبہ نے مشرقی پاکستان میں سیاسی میدان پر فی الحقیقت مکمل قبضہ جما لیا۔ ۱۹۶۹ء میں سراج العالم خان، اے ایس ایم عبدالرب اوردیگر کی اقتدا میں عوامی لیگ کے طلبہ وِنگ میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور بنگلہ دیش (بنانے) کے حامی نوجوانوں کی انتہائی تیز رفتار اٹھان نے سٹوڈنٹ لیگ کے ممبران کی اکثریت کو مسحور کر دیا۔اس دوران جبکہ مجیب جیل میں تھا، ان سٹوڈنٹ لیڈروں نے ایک مکمل طور پر خود مختار اور آزاد بنگلہ دیش کے لیے نہ صرف عوامی حمایت حاصل کی بلکہ اس تحریک کو منظّم اور فعال بھی کیا، اور ۱۹۶۹ء کے اوائل سے ہی وہ مشرقی پاکستان یا بالفاظِ دیگر بنگلہ دیش کے لیے کھلے عام آزادی کا مطالبہ کرنے لگے۔۱۹۷۰ء کے نیشنل اسمبلی کے الیکشن میں عوامی لیگ کی زبردست کامیابی میں بھی انہوں نے ناگزیر کردار ادا کیا۔
یہ تمام صورتحال پیدا کرنے اور بنانے میں ایک نہایت اہم کردار سراج العالم خان کی پراسرار شخصیت کا تھا۔ سراج ایک پکّا لیفٹسٹ (بائیں بازو کے نظریات کا حامی) تھا جو قصداً عوامی توجہ اور نگاہوں سے دور رہتا تھا۔ وہ جلد ہی مجیب کی حامی سٹوڈنٹ لیگ کے چوٹی کے قائدین میں شامل ہو گیا اور دیگر سٹوڈنٹ لیڈر اسے ’دادا‘ یا ’بڑے بھائی‘ کے لقب سے جاننے پہچاننے لگے۔
اگرچہ وہ چھاترا لیگ کا ایک اہم رکن تھا اور مجیب کا قریبی معتمد بھی، مگر سراج نے اپنا ایک خفیہ سیل، المعروف ’نیوکلئیس‘ بھی قائم کر رکھا تھا۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے آغاز سے ہی، یہ ’نیوکلئیس ‘ خفیہ طور پر بنگالی طلبہ کو بھرتی کرتا، ان کی فکری تربیت کرتا اور مشرقی پاکستان میں جاری علیحدگی پسند تحریک کے مرکزی اراکین کے طور پر تیار کرتا۔سن ۱۹۶۹ء کے لگ بھگ اس نیوکلئیس کے ارکان نےانتہا پسند بنگالی قوم پرستی اور ’سائنسی سوشلزم ‘کے نظریات کی تائید کرنا شروع کر دی۔
یہ نیوکلئیس ہی تھا جس نے بنگلہ دیش کے قومی پرچم کا ڈیزائن تیار کیا، اسے سب سے پہلے بلند کیا، ٹیگور کے ’امار سونار بانگلہ‘ کو بطور قومی ترانہ منتخب کیااور ’پاکستان زندہ باد‘ کی جگہ ’جے بنگلہ ‘ کا نعرہ لگایا۔جنگ کے دوران سراج اور اس کے ساتھی بھارتی حکومت اور جرنیلوں کے بے حد قریب رہے، جنہوں نے آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والوں میں سے چن چن کر اسے افراد تیار کیے جنہیں بعد ازاں ’مجیب باہنی‘ کا رکن بننا تھا17۔بھارتی ایجنٹ چتارنجن سُوتر (جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے) کے ساتھ بھی سراج کے بے حد قریبی تعلقات تھے۔ بنگلہ دیش کی پیدائش کے بعد بھی سراج اکثر سوتر سے ملنے کلکتہ جاتا اور اس کے پاس قیام کرتا۔۱۹۷۵ء میں جس روز مجیب کو قتل کیا گیا، تب بھی سراج سُوتر کی کلکتہ رہائشگاہ میں موجود تھا۔سراج اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ مجیب۱۹۶۹ء کے اوائل میں جیل سے اپنی رہائی تک نیوکلئیس کے مقاصد و اہداف سے واقف نہیں تھا۔مزید برآں ، وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مجیب ’جے بنگلہ ‘ کے خلاف تھا اور بنگلہ دیش کے لیے ایک قومی پرچم بنانے پر بھی اس کے تحفظات تھے18۔
بہرکیف،باوجود اس کے کہ مجیب سراج اور اس کے انتہاپسند ’قومی سوشلسٹوں ‘ سے کثرتِ رائے کی بنیاد پر شکست کھا گیا، وہ ان کے دباؤ میں نہیں آیا اور آزادی کا یک طرفہ اعلان کرنے سے بچنے میں کامیاب رہا۔ درحقیقت اس نے اپنی ذہانت سے ان سب کو مات کیا۔ مجیب لوگوں کو وہی بات بتانے میں ماہر تھا جو وہ اس سےسننا چاہتے تھے یا سننے کی توقع رکھتے تھے۔ اس نے ان پاکستانیوں کے سامنے جو پاکستان توڑنے کے خلاف تھے خود کو ایک وفادار و محبِ وطن پاکستانی کی صورت پیش کیا۔جبکہ اپنی پارٹی میں موجود بنگلہ دیش کے حامی انتہا پسند عناصر کے سامنے وہ اکثر ایک کٹر بنگالی قوم پرست کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔
بھٹو
۱۹۷۱ء کے واقعات کی ذمہ دار، ایک اورکلیدی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی۔راقم کی عاجزانہ رائے کے مطابق سقوطِ ڈھاکہ کی ذمہ داری مجیب کی نسبت کہیں زیادہ پاکستان کی فوجی قیادت اور بھٹو پر عائد ہوتی ہے۔
۱۹۷۰ء کے الیکشن میں بھٹو کی پارٹی کو ۸۸ سیٹیں ملیں، جبکہ عوامی لیگ کو ۱۶۰۔اس کے باوجود بھٹو اور غاصب فطرت پاکستانی جرنیلوں نے مارچ ۱۹۷۱ء یا اس کے بعدکسی بھی دوسرے وقت میں مجیب کو طاقت و اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ وہ بنیادی سبب تھا جس کے بعد حالات و واقعات از خود بھارت کے اصل منصوبے……یعنی تیز رفتار فوجی ایکشن کے ذریعے پاکستان کو دو لخت کرنے …… کی طرف بڑھنے لگے ۔ انہی حالات سے مجبور ہو کر پاکستان نے ۳ دسمبر کو بھارت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا، اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔
یہی وہ اسباب تھے جن کے باعث یحیی نے مجیب اور نیشنل اسمبلی کو اقتدار کی منتقلی کو ملتوی کیا۔وہ چاہتا تھا کہ پاکستان کی اگلی حکومت قائم کرنے کے لیے مجیب اور بھٹو کو کسی اتفاقِ رائے پر لایا جا سکے۔ مگر جب التوا کی یہ خبر یکم مارچ ۱۹۷۱ء کو ریڈیو سے نشر کی گئی تو اس کا فوری نتیجہ چھاترا لیگ (عوامی لیگ کا طلبہ فرنٹ) کے سڑکوں پر نکل آنے کی صورت میں نکلا۔
۱۹۷۸ء میں ضیاء الحق کی طرف سے اپنی نظر بندی ختم کیے جانے پر یحییٰ خان نے ایک خفیہ بیان حلفی لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروایاجس میں اس نے پاکستان توڑنے کا ذمہ دار مجیب کو نہیں، بلکہ بھٹو کو قرار دیا:
’’پاکستان کو دو لخت کرنے والا مجیب نہیں، بلکہ بھٹو تھا۔ ۱۹۷۱ء میں بھٹو کے موقف اور اس کی ہٹ دھرمی نے پاکستان کی یکجہتی کو شیخ مجیب کے چھ نکاتی مطالبے سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا۔یہ اس کی جاہ طلبی اوراس کا بے لچک موقف تھا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں بغاوت اٹھی۔ اس نے بنگالیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور پاکستان کی یکجہتی ختم کر ڈالی۔ مشرقی پاکستان ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا۔ ‘‘19
یحییٰ خان نے اپنے اس بیان میں کہاکہ اسےپاکستانی جرنیلوں نے’شطرنج کی بساط پر مہرے کی طرح استعمال کیا‘۔ ۱۹۷۱ء کے آغاز سے لے کر دسمبر ۱۹۷۱ء میں بھٹو کی طرف سے ہٹائے جانے تک، اسےمشرقی پاکستان کے مستقبل کی بابت کسی کے ساتھ کوئی مصالحتی گفت و شنید کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔
مجیب پاکستان کو دو ٹکڑوں میں بٹنے کے عمل سے بچانے میں ناکام رہا جبکہ بھٹو عمداً و قصداً اسی عمل کی رفتار بڑھاتا رہا۔ مجیب اس لیے ناکام ہوا کیونکہ وہ اپنی انتہا پسند قوم پرست نوجوان قوّت کو قابو میں نہ رکھ سکا، اور بھٹو اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ پاکستان کے حاکم طبقے……جس کی وہ نمائندگی کرتا تھا…… کے نسلی و استعماری عزائم کے لیے یہی تدبیر کارگر تھی۔ پاکستان کو حسبِ سابق ایک مضبوط مرکزی حکومت کے تحت ہی رہنا تھا جس میں مشرقی پاکستان کو محض ایک منڈی کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا، اور اگر ایسا ممکن نہ ہوتا تو اسے ٹوٹنا ہی تھا۔ ان دو کے مابین ان کے نزدیک تیسرا کوئی راستہ نہ تھا۔20
سو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مارچ ۱۹۷۱ء میں یہ مجیب نہیں بلکہ بھٹو اور باؤلے پن کی حد تک بنگالیوں کے مخالف پاکستانی جرنیل، اور تاج الدین اور سراج العالم خان کے پیروکار تھے جنہوں نے پاکستان توڑنے میں اپنا اپنا حصّہ ڈالا۔اس عمل میں بعض بیرونی عوامل بھی کار فرما تھے، جیسے سوویت یونین اور بھارت جنہوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
ذمہ دار کون؟
جیسا کہ قاری کے لیے واضح ہے، ۱۹۷۱ء کے واقعات کے رونما ہونے کے پیچھے متعدد مختلف اسباب و عوامل کارفرما تھے۔ جانتے بوجھتے مشرقی پاکستان کا اس کے مغربی بھائی کے ہاتھوں حقیقی استحصال، فوجی قیادت، زمینی سیاسی وجوہات کی بنا پر بھارت و روس کی پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کی خواہش، متعصب و جارح پاکستانی جرنیلوں اور سیاستدانوں کی مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کی خواہش، مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بنگالی مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل، شدت پسند طلبہ تنظیمیں اور ان کا بنگالی قومیت کا تصور……یہ سب وہ عوامل تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کو ناگزیر بنا دیا۔ بھارت کی تیز و زیرک مشرک سیاستدان، اندرا گاندھی نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۱ء میں اس نے وہ سب کرنے کی جرأت کی، جس کو کرنے سے اس کے باپ نہرو نے ۱۹۶۳ء میں انکار کیا۔
مجیب الرحمٰن بھی اس سارے عمل کا حصّہ اور ایک سبب تھا۔ مگر وہ اس کا واحد سبب نہیں تھا، نہ ہی سب سے بڑا یا بنیادی سبب تھا۔ مجیب ایک پیشہ ور سیاستدان تھا، جو اپنے ہدف کی طرف بڑھتے ہوئے تمام فریقین کو خوش اور راضی رکھنا چاہتا تھا۔ وہ ایوب اور یحییٰ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہا کہ وہ ایک محبِ وطن پاکستانی ہے۔ مگر ساتھ ہی وہ اگرتلہ سازش بُننے والوں کے ساتھ بھی مراسم قائم کیے رہا اوراپنے انتہا پسند آزادی کے حامی سٹوڈنٹ لیڈروں کو بھی خوش و مطمئن رکھنے میں کامیاب رہا۔ اس نے اپنی مبہم اور غیر واضح ، عوام کے جذبات و تعصبات کو اپنے مقاصد کے لیے انتہائی عمدگی سے استعمال کرنے والی سیاسی پالیسی کے ذریعے مشرقی بنگال میں اپنی حیثیت اہم ترین قائد کے طور پر مستحکم کی۔
دو نئے ممالک……پاکستان اور بنگلہ دیش……کی تخلیق کے اعتبار سے مجیب کا تقابل جناح صاحب سے کیا جا سکتا ہے۔جیسے جناح اپنی حکمت عملی میں تبدیلیاں لائے اور۱۹۴۶ء کے وسط تک، وہ تقسیمِ ہند کے مطالبے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے بخوبی آمادہ و رضامند تھے، اسی طرح مجیب نے بھی پاکستان کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے پاکستان کو اپنے تحت متحد اور جوڑے رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔اگر نہرو اور کانگرس پارٹی کے دوسرے لیڈرایک متحدہ وفاقی ہندوستان کی تجویز پر متفق ہو جاتے، ایسا وفاق کہ جس میں مسلم اکثریتی صوبوں کے پاس بھی مناسب مقدار میں خود مختاری ہوتی……تو آج دنیا کے نقشے پر کوئی پاکستان نہ ہوتا۔
جناح ہندوستانی مسلمانوں کے واحد ترجمان تھے، جبکہ مشرقی پاکستان میں مجیب بنگالیوں کا واحد نمائندہ نہیں تھا۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو پاک فوج کا آپریشن شروع ہونےسے پہلے بھی، مجیب کے بہت سے قریبی ساتھی اور مولانا بھاشانی جیسے بڑے سیاستدان بھی مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کے لیے مکمل آزادی اور خود مختاری کے حق میں تھے۔ان کے مقابلے میں مجیب مشرقی پاکستان کے لیے ایک متحدہ پاکستان میں محض مکمل خود مختاری اور مساوی مواقع کا حصول چاہتا تھا۔
جبکہ بھٹو اور غاصب فطرت پاکستانی جرنیل، جو کبھی بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان پر بنگالی اکثریت کی حکومت قائم ہو، اور طرح کے عزائم رکھتے تھے۔ ۲۵ مارچ کے فوجی آپریشن اور مشرقی پاکستان میں نسل کشی سے مماثل جنگ برپا کر کے انہوں پاکستان کے دونوں بازؤوں کے درمیان کسی بھی قسم کے سمجھوتے اور مصالحت کے امکانات پر پانی پھیر دیا۔بعد ازاں، پانی سر سے گزرچکا تھا اور واپس مڑنے کی کوئی صورت ممکن نہ تھی۔
نتیجہ
۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۱ء کے واقعات اپنے دامن میں ہمارے لیے بہت سے اسباق رکھتے ہیں۔یہ حقیقت سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ کسی بھی قوم کو رنگ و نسل اور اپنے نقطۂ نظر کی بنیاد پر مغلوب کرنے کی کوشش کرنا کبھی بارآور ثابت نہیں ہوتا۔آپ اپنے رسم و رواج، اپنی زبان اور اپنے تصورات دوسروں پر نہیں تھوپ سکتے۔کسی کو بھی یہ پسند نہیں آتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان اور توحید کی بنیاد پر جڑنے اور متحد ہونے کا حکم دیا۔اور یہی وہ شناخت ہے جو دوسری ہر شناخت اور علامت پر بھاری ہے۔ اور جب ہم ایمان کی بنیاد پر اکٹھے و متحد ہوتے ہیں تو ہم ایک دوسرے کی تہذیب و رواج، زبان و عادات اور قوم و نسل کا احترام کرنا اور اسے قبول کرنا سیکھتے ہیں (جب تک کہ شریعتِ الٰہی سے ٹکرانے والا کوئی امر نہ ہو) ، یوں ہم ایک دوسرے سے مستفید ہوتے ہیں ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (سورۃ الحجرات:۱۳)
’’ اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘
اور ہمارے محبوبﷺ نے فرمایا: (خطبہ حجۃ الوداع)
’’فلیس لعربي علی عجمي فضل ولا لعجمي علی عربي فضل ولا لأسود علی أبیض ولا لأبیض علی أسود فضل إلا بالتقوی۔‘‘21
’’کسی عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر، کالے کو گورے پر کوئی امتیاز وفضیلت نہیں ، سوائے تقویٰ کے امتیاز کے۔‘‘
کس قدر خوبصورت ہیں اسلام کی تعلیمات!وہ اسلام کہ جس نے حبشہ کے بلالؓ اور قریش کے مصعبؓ کو متحد کر دیا۔ جس نے فارس کے سلمانؓ اور روم کے صہیبؓ کو لا ملایا۔جس نے اوس اور خزرج کے جانی دشمنوں کو ایک مواخات کی لڑی میں پرو دیا۔ کس قدر دلنشین ہے اسلام، جس نے پوری دنیا میں پھیلے بے شمار قبائل اور مشرق و مغرب کی قوموں کو اخوت کے ایک پرچم تلے متحد کر دیا۔کتنا خوبصورت ہے اسلام، جس نے ایک ایسا نظام وضع کیا کہ جس میں ہر قسم کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد؛ ایمان، انصاف ارو عدل کی بنیاد پر متحد ہو گئے۔افسوس کہ آج ہم اپنی جدید ریاستوں، اپنے جدید تصورِ قومیت اور جدید نظریات کے باعث اس کامل و مثالی نمونے سے کس قدر دور چلے گئے۔
پاکستان کے ساتھ غداری مجیب کے آنے سے بہت پہلے ہو چکی تھی۔ ۷۱ء کے بپا ہونے سے بھی پہلے۔ پاکستان سے بے وفائی اور غداری تو مسلم لیگ نے کی، جس نے مسلمانانِ برصغیر کو اسلامی سرزمین کے خواب تو دکھائے، مگر اس خواب کو تعبیر دینے کا کبھی ارادہ نہ کیا۔اسلام کے نام پر انہوں نے ایک ایسی لادین و سیکولر ریاست قائم کی جو آج تک اسلام کے بدترین دشمنوں کی مدد کرتی چلی آ رہی ہے۔
پاکستان سے غداری اس کی اپنی فوج نےکی۔ جو پاکستان کی پیدائش سے بھی پہلے سے مغرب کی ہرکارہ و غلام تھی، اور آج بھی ہے۔اس فوج کی خصوصی مہارت مسلمانوں کو قتل کرنا ہے، چاہے وہ مشرقی پاکستان کے ہوں یا افغانستان کے بارڈر کے پاس بسنے والے قبائل کے۔
پاکستان سے غداری اشرافیہ پر مشتمل سیاسی طبقے نے کی جو ایک قسم کی موروثی حاکمیت میں مشغول ہیں، اور جو پورے ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔
پاکستان سے غداری اسی دن ہو گئی تھی جب انسان کے بنائے قوانین اور نظریات اسلام سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے۔اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کی LGBTQ جیسی غلاظتوں کو کھلے عام پاکستان میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ اس ریاست کا حال ہے جسے اسلام کے نام پر تخلیق کیا گیا۔
دوسری طرف اہلِ بنگال کے ہاتھ کیا آیا؟ آج بنگلہ دیش بھارت پر بے تحاشا انحصار کرنے والی ایک ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے۔آج تہذیب اور بنگالی شناخت کے نام پر اسلام پر حملے کیے جاتے ہیں۔ حکومت لوگوں کو اغوا اور قتل کراتی ہے۔وزیرِ اعظم اور اس کے غنڈے اربوں ڈالروں کی لوٹ مار میں مشغول ہیں۔ علمائے اسلام پابند سلاسل ہیں جبکہ طلبائے علم کو گولیوں سے بھونا جاتا ہے۔ خواتین کی عزت و عصمت محفوظ نہیں اور مرد ذلیل و خوار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش، دونوں ہی اپنے عہد نبھانے میں ناکام رہے۔مسلمانانِ برصغیر اسلام چاہتے تھے۔وہ ایک اللہ کی غلامی میں آنا چاہتے تھے۔ مگر اس کے بجائے ملا تو کیا؟! کہیں امریکہ اور کہیں بھارت کی غلامی!تو ہم نے کیا پایا؟ اور کیا کھویا؟ہم کس کی خوشی منائیں اورکس کو موردِ الزام ٹھہرائیں؟وہ کون سا راستہ تھا جو ہمیں اختیار کرنا چاہیے تھا، اس محبوب منزل تک پہنچنے کے لیے……؟!
ایک مدت سے ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ایک طویل عرصے سے ہم ایک دوسرے سے بدست وگریبان ہیں۔ایک زمانے سے ہم انسانی ساختہ نظاموں اور نظریات کی بھول بھلیّوں میں گم ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سچائی کی طرف، روشنی کی طرف پلٹیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ، اپنے اسلام پر فخر کرے والے مسلمانانِ بر صغیر، چاہے وہ پنجابی ہوں یا سندھی، پشتون، اراکانی، بنگالی ، بلوچ، تامل یا کسی بھی دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے ہوں، وہ اس جہالت کے اندھیرے سے نکلیں اور اسلام کی روشنی کو مضبوطی سے تھام لیں۔توحید کی خالص ترین بنیاد پر جہاد کریں ،ان تمام خوبصورت علاقوں میں بسنے والے حسین لوگوں کو آزاد کرائیں اور سات آسمانوں کے اوپر سے نازل ہونے والے اللہ کے پاکیزہ نظام کو قائم و نافذ کریں۔
1 اطالوی سیاست دان اور ادیب نکولائی میکیاولی سے نسبت رکھنے والا، جو سیاست و اقتدار کی خاطر ہر قسم کے جائز و ناجائز ہتھکنڈے اپنانے کو روا سمجھتا تھا۔
2 Fifty Years of Bangladesh, 1971-2021: Crises of Culture, Development, Governance, and Identity از تاج ہاشمی
3 Ek Abhijukter Bayane Agartala Mamla(اگرتلہ معاملے پر ایک ملزم کا بیان) از محفوظ الباری
4 The Emergence of Bangladesh: Vol 2, Rise of Bengali Nationalism از بدر الدین عمر
5 Bangladesh: Constitutional Quest for Autonomy ازمودود احمد
6 ایضاً
7 Department of State, Airgram, Confidential, From Archer Blood, US Consul General, Dacca, January 29, 1971, The American Papers: Secret and Confidential, India-Pakistan-Bangladesh Documents 1965–1973, Compiled and Selected by Roedad Khan
8 ایضاً
9 The Last Days of United Pakistan از جی ڈبلیو چودھری
10 Prothoma Prakashan 1971: Bhetore Baire, از اےکےخوندکر، “7 Marcher Bhashon Ebong Sirajul Alam Khan” از ظفر اللہ چودھری، (۷ مارچ کی تقریر اور سراج العالم خان)
(Bengali Daily) Noya Diganta(۷ اپریل ۲۰۱۸ء)
11 The Last Days of United Pakistan از جی ڈبلیو چودھری
12 Tajuddin Ahmed: Neta O Pita ( تاج الدین احمد: قائد اور باپ) از شرمین احمد
13 Bangladesh: Sheikh Mujib’s Stance on “Independent Bangladesh”: Sensational Revelations! از آر ۔چودھری
14 A Stranger in My Own Country, East Pakistan, 1969-1971 از میجر جنرل (ریٹائرڈ) خادم حسین راجہ
15 میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا از صدیق سالک
16 دنیا نیوز، ٹاک شو ’تقطۂ نظر‘، ۱۶ دسمبر ۲۰۱۵ء
17 ’مجیب باہنی‘ بنگال کی آزادی کی جدو جہد کرنے والوں (جو کہ بنگال لبریشن فورس کے نام سے جانے جاتے تھے) پر مشتمل ایک خاص دستہ تھا جسے باغیوں اور انقلابیوں سے نبٹنے میں مہارت رکھنے والے، بھارتی’ را‘ کے میجر جنرل سوجن سنگھ ابان نے سراج العالم خان، (مجیب کے بھانجے) شیخ فضل الحق مونی اور طفیل احمد کی مدد اور تعاون سے تیار کیا۔بنگلہ دیش کے حریّت پسندوں کے چیف جنرل ایم اے جی عثمانی کو اس گروہ کی تشکیل اور اس کے مقاصدو اہداف کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔اس کی تشکیل جون ۱۹۷۱ء میں بھارت میں ہوئی۔ یہ مضبوط سیاسی اہداف و عزائم رکھتی تھی اوراس کی وفاداریاں مکمل طور پر مجیب کے ساتھ وابستہ تھیں۔جنرل ابان نے بنگلہ دیشی حریّت پسندوں میں موجود مجیب مخالف عناصر کا تدارک کرنے کے لیے اسے تشکیل دیا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: “The irregular forces of Bangladesh Liberation War”, Daily Star, March 26, 2020 از میجر جنرل سرور حسین.
18 Sirajul Alam Khan, Ami Sirajul Alam Khan: Ekti Rajnoitik Jibanalekhya (یہ سراج العالم خان ہے: ایک سیاسی سوانح حیات) تدوین و تالیف: شمس الدین پیارا
19 Creation of Bangladesh: Myths Exploded (“Affidavit of General (ret) Agha Muhammad Yahya Khan, In The Lahore High Court, Lahore, 29th May 1978”, Annexture-10.) از جنید احمد
20 Bangladesh: Constitutional Quest for Autonomy از مودود احمد
21 معجم کبیر للطبرانی