حضرت مولانا فضل الرحمٰن قاسمی کا تعلق شہید سراج الدولہ، سید تیتومیر اور حاجی شریعت اللہ کی سرزمین سے ہے جس کے مشرقی حصے کو آج بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے، مولانا نے یہ تحریر بنگلہ دیش میں ہی قلم بند کی ہے۔
زیرِ نظر سلسلہ کل چار حصوں پر مشتمل تھا۔ مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں اس تحریر کا پہلا حصہ؛ جنوری ۲۰۲۱ء، دوسرا حصہ؛ جنوری ۲۰۲۲ء، تیسرا حصہ (پہلی قسط)؛ اکتو بر و نومبر ۲۰۲۲ء، تیسرا حصہ (دوسری قسط) دسمبر ۲۰۲۲ء کے شماروں میں دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ چوتھا اور آخری حصہ ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
برِّ صغیر جب مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر غیر مسلموں کے قبضے میں چلا گیا اور مسلمان ایک دارالحرب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے تو وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے دو کام کیے: ایک تو مسئلہ کی شرعی حیثیت واضح کی اور ببانگ دہل بتایا کہ اب ہندوستان کی حیثیت دارالحرب کی ہے اور پھر یہ واضح کیا کہ دارالحرب میں بسنے والے مسلمانوں کی کیا ذمہ داری ہے۔ دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ دارالحرب کو دوبارہ دارالاسلام میں تبدیل کرنے کے لیے عملی جہاد کا آغاز کیا اور اس کے لیے جو تیاری مطلوب تھی اس میں مصروف ہوگئے۔
اس موقع پر میں مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جن کے بارے میں امید رکھتا ہوں کہ کسی کو ان سے اختلاف نہیں ہوگا اور امید کرتا ہوں کہ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہمارے لیے آسان ہوگا۔ وہ باتیں یہ ہیں:
- ذمہ داری کی ادائیگی میں تاخیر اور تکاسل کی وجہ سے ذمہ داری میں تخفیف نہیں ہوتی۔
- ایک نسل اگر خود پر عائد شدہ ذمہ داری ادا نہ کرسکے تو آنے والی نسلوں سے وہ ذمہ داری ساقط نہیں ہوتی۔
- ان ممالک میں کفری نظام قائم رکھنے والی قوت ان ممالک کے حکمران ہیں، دوسرے عناصر ان کے معاونین ہیں۔
- اقامت دین و شریعت، اقامت خلافت اور امارت اسلامیہ کا قیام مسلمانوں پر عائد فرض ہےاور اس فرض کی ادائیگی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا بھی فرض ہے۔
- حالات کے عذر سے فرض کی ادائیگی کی کیفیت تو بدل سکتی ہے لیکن حکم معطل نہیں ہوسکتا۔
- فرض جہاد کی ذمہ داری جہاد کی تیاری اور عملی جہاد ہی کے ذریعے ہی ادا ہوسکتی ہے، دوسرے فرائض کی ادائیگی اس کا متبادل نہیں ہوسکتی، مثلاً نماز، روزہ اور حج کی ادائیگی جہاد کا بدل نہیں ہوسکتی۔
- جہاد کی تیاری انہی امور کو کہا جائے گا جنہیں قرآن و حدیث نے جہاد کی تیاری کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔
یہ چند باتیں عرض کرنے کے بعد ہم دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ فی الحال برصغیر، یعنی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں پر اس باب میں کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
مندرجہ بالا عنوانات پر بات شروع کرنے سے پہلے ہم یہ طے کرلیں کہ ہم ہر بات کو شریعت کی رو سے پرکھنے کی کوشش کریں گے اور اس کے لیے اللہ پاک سے توفیق بھی مانگتے ہیں۔ تاریخ سے ہم عبرت حاصل کریں گے، رہنمائی لیں گے، راستے تلاش کرنے کا اسلوب سیکھیں گے، دشمن کا مقابلہ کرکے جیتنے کا گر سیکھیں گے، منافقین، ملحدین، زنادقہ کے مکائد اور مکاریوں سے اپنے آپ اور اپنی امت کو بچانا سیکھیں گے مگر فیصلہ ہم قرآن وحدیث یعنی ادلہ شرعیہ اور ائمہ مجتہدین سے ہی لیں گے، ان شاء اللہ۔ اللہ توفیق عطا فرمائیں۔
ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ہماری اولین ذمہ داری آج وہی ہے جو اس وقت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اور اس زمانے کے دیگر ائمہ نے ادا کی تھی یعنی ان ممالک کی شرعی حیثیت سب کے سامنے دلائل کی رو سے واضح کرنا۔ اسی طرح سید احمد بریلوی ؒاور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے جو ذمہ داری ادا کی تھی وہی آج ہم مسلمانوں پر عائد ہے یعنی جتنا کچھ میسر ہے اس کو دشمن سے مقابلے کے لیے میدان جہاد میں اترنے کی خاطر مرتب کرنا، عملی جہاد کے لیے بالفعل فکر شروع کرنا اور ایک کامیاب جہاد کے لیے جو جو تیاریاں ہونی چاہییں وہ سب کرنا۔ اب ہم اس سب کی کچھ تفصیل بیان کرتے ہیں۔
پہلی ذمہ داری: عدوصائل اور ا ن کے نائبین سے مغصوبہ دارالاسلام آزاد کرانا
تاریخ کے مختصر مطالعے سے ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ برصغیر جب ایک مرتبہ دارالحرب کی حیثیت اختیار کرگیا تو دوبارہ دارالاسلام بننا اسے نصیب نہ ہوا۔ جن حالات و خلفیات کے تحت اس خطۂ زمین کو دارالحرب قرار دیا گیا تھا بعینہٖ وہی حالات آج بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی درپیش ہیں۔
لہٰذا دارالاسلام کے حصول کی کوشش مسلمانوں پر فرض ہے اور اس سلسلے میں جو رکاوٹیں بھی درپیش ہوں ان کو دور کرنے کے لیے جہاد بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور چونکہ یہ جہاد اپنے خطۂ زمین کو واپس لینے کا جہاد ہے لہٰذا یہ فرض عین دفاعی جہاد ہے۔
اس بارے میں دلائل ملاحظہ کرنے سے پہلے مقدمے کے طور پر جو چند باتیں عرض کی تھیں ان کو دوبارہ یاد کریں اور غور کریں۔
مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
(فإن هجم) أي: غلب (العدو) أي: على بلد من بلاد الإسلام، أو ناحية من نواحيها.
وفي المغرب الهجوم الإتيان بغتة، والدخول من غير استئذان (ففرض عين فتخرج المرأة، والعبد بلا إذن الزوج، والمولى) ؛ لأن المقصود لا يحصل إلا بإقامة الكل فيفرض على الكل وحق الزوج، والمولى لا يظهر في حق فروض الأعيان، وكذا يخرج الولد بغير إذن والديه، والغريم بغير إذن دائنه وإن الزوج، والمولى إذا منعا أثما.
وفي البحر امرأة مسلمة سبيت بالمشرق وجب على أهل المغرب تخليصها ما لم تدخل حصونهم وحرزهم قال في الذخيرة إذا جاء النفير إنما يصير فرض عين على من يقرب من العدو وهم يقدرون على الجهاد فأما من وراءهم يبعد من العدو، فإن كان الذين هم بقرب العدو عاجزين عن مقاومة العدو القادرين إلا أنهم لا يجاهدون لكسل بهم، أو تهاون افترض على من يليهم فرض عين، ثم من يليهم كذلك حتى يفترض على هذا التدريج على المسلمين كلهم شرقا وغربا انتهى. (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، أحكام الجهاد)
’’(اگر حملہ کرے) یعنی غالب ہوجائے (دشمن) یعنی دارالاسلام کے کسی شہر پر یا دارالاسلام کے کسی خطے پر:
اور مغرب میں ہے: ہجوم کا معنی ہے اچانک آجانا اور اجازت مانگے بغیر داخل ہوجانا (تو فرض عین ہے، پس عورت اور غلام اپنے شوہراور مولا کی اجازت کے بغیر نکل جائے) کیونکہ سب کی شرکت کے بغیر مقصد ادا نہیں ہوگا لہٰذا سب پر فرض ہوجائے گا اور شوہر اور مولا کا حق فرض عین امور میں ظاہر نہ ہوگا۔ اسی طرح لڑکا اپنے باپ کی اجازت کے بغیر اور قرض لینے والا قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر نکل جائے گا اور شوہر اور مولا اگر منع کریں تو گناہ گار ہوں گے۔
بحر میں ہے کہ اگر کوئی مسلمہ عورت مشرقی علاقوں میں دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوجائے تو مغرب کے مسلمانوں پر اس کو چھڑوانا واجب ہے، جب تک کہ وہ ان کے قلعہ اور ان کی حفاظت کی حدود میں داخل نہ ہوجائے۔ ذخیرہ میں ہے کہ جب نفیر عام ہوگی تب فرض عین ہوجائے گا ان پر جو دشمن سے قریب ہیں ، جبکہ وہ جہاد کی طاقت رکھتے ہوں، اور جو دشمن سے دور ہیں ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ دشمن کے قریب والےمسلمان اگر دشمن کے مقابلے سے عاجز ہوں یا وہ مقابلہ کرنے کی قوت تو رکھتے ہوں لیکن سستی یا غفلت کی وجہ سے جہاد نہ کریں، تو پھر ان سے قریب والے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجائے گا اور اس کے بعد جو ان سے قریب ہیں ان پر… اور اس طرح مشرق و مغرب میں بسنے والے سب مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجائے گا۔‘‘
عنایہ شرح ہدایہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:
’’ ثم الجهاد يصير فرض عين عند النفير العام على من يقرب من العدو وهو يقدر عليه، وأما من وراءهم فلا يكون فرضا عليهم إلا إذا احتيج إليهم، إما لعجز القريب عن المقاومة مع العدو، وإما للتكاسل فحينئذ يفرض على من يليهم ثم وثم إلى أن يفترض على جميع أهل الإسلام شرقا وغربا على هذا التدريج.‘‘ (العناية شرح الهداية كتاب السير)
’’اس کے بعد جب نفیر عام ہوگی تو جو مسلمان دشمن کے قریب ہوں گے اور وہ دشمن سے مقابلے پر قادر بھی ہوں تو ان پر جہاد فرض عین ہوجائے گا، ان کے علاوہ جو ان سے دوری پر ہیں ان پر فرض نہ ہوگا تآنکہ ان کی ضرورت پڑے، یا تو قریب والوں کے دشمن کے مقابلے سے عاجز ہوجانے کی وجہ سے یا ان کی سستی کی وجہ سے، اس وقت ان سے قریب جو ہیں ان پر فرض ہوجائے گا، اس کے بعد ان سے قریب جو ہیں ان پر، اس کے بعد ان سے قریب جو ہیں ان پر…… اس طرح یکے بعد دیگرے مشرق و مغرب کے ہر مسلمان پر فرض ہوجائے گا۔‘‘
موسوعہ فقہیہ کویتیہ کی عبارت ملاحظہ کیجیے:
’’ إذا استولى الكفار على بقعة من دار الإسلام صار الجهاد فرض عين على جميع أفراد الناحية التي استولى عليها الكفار، رجالا ونساء، صغارا وكبارا، أصحاء ومرضى، فإذا لم يستطع أهل الناحية دفع العدو عن دار الإسلام، صار الجهاد فرض عين على من يليهم من أهل النواحي الأخرى من دار الإسلام، وهكذا حتى يكون الجهاد فرض عين على جميع المسلمين، ولا يجوز تمكين غير المسلمين من دار الإسلام. ويأثم جميع المسلمين إذا تركوا غيرهم يستولي على شيء من دار الإسلام.
……
ولا يجوز لغير المسلمين دخول دار الإسلام إلا بإذن من الإمام أو أمان في مسلم. ولا يجوز لهم إحداث دور عبادة لغير المسلمين: كالكنائس، والصوامع، وبيت النار،…‘‘. (الموسوعة الفقهية الكويتية في كلمة دار)
’’جب کفار دارالاسلام کے کسی خطے پر غالب ہوجائیں تو جس علاقے پر کفار نے حملہ کیا اس علاقے کے ہر فرد پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے، مردعورت، چھوٹے بڑے ،تندرست بیمار سب پر۔ اگر اس علاقے کے مسلمان دارالاسلام سے دشمن کو ہٹانے پر قادر نہ ہوں تو ان سے ملے ہوئے دارالاسلام کے قریبی علاقوں کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجائے گا، اسی طرح سب مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہوجائے گا اور کفار کو دارالاسلام میں جگہ کرلینے کے لیے فرصت دینا جائز نہیں، اگر غیر مسلموں کو دارالاسلام کے کسی حصہ پر جگہ کرلینے کے لیے چھوڑ دے تو سب مسلمان گناہ گار ہوں گے۔
……
اور غیر مسلموں کے لیے دارالاسلام میں داخل ہونا امام المسلمین کی اجازت یا کسی مسلمان کی امان کی ماتحتی کے بغیر جائز نہیں، اسی طرح غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بنانا بھی جائز نہیں جیسے گرجا، مندر، آگ خانہ وغیرہ……‘‘
مذکورہ نصوص کی رو سے اگر دشمن کسی دارالاسلام پر مسلط ہوجائے تو اہل دارالاسلام پر واجب ہے کہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کر کے دارالاسلام کو دوبارہ حاصل کریں اور یہ فرض عین ہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ اگر دارالاسلام کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش چھوڑ کر دشمنان اسلام کے حوالے کردیا جائے تو ہر مسلمان گناہ گار ہوگا۔ اس بارے میں فقہ کی عبارت اس طرح ہے: ويأثم جميع المسلمين إذا تركوا غيرهم يستولي على شيء من دار الإسلام۔لہٰذا برصغیر کے مسلمانوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ فرض عین جہاد کی ادائیگی کے لیے میدان میں اتریں اور اس کے لیے مطلوب تیاری بہم پہنچائیں۔
چونکہ ان ممالک کے حکمران ان ملکوں کو دارالاسلام بنانے پر تیار نہیں ہیں لہٰذا ان ممالک کے حکمرانوں کے خلاف مسلح کارروائی شروع کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں کے لیے موجودہ حالات میں جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، لہٰذا برصغیر کے مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہے۔
دوسری ذمہ داری: کافر اور مرتد حکمرانوں کو حکومت سے ہٹانے کے لیے جہاد کرنا
علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مسلمانوں پر اگر کوئی کافر حکمران مسلط ہوجائے یا مسلم حکمران پر کفر طاری ہوجائے تو اس کو ہٹا کر ایک مسلمان حکمران کو مسند اقتدار پر بٹھانا فرض ہے؛ قاضی عیاضؒ کی ایک عبارت ملاحظہ ہو:
’’لا خلاف بين المسلمين أنه لا تنعقد الإمامة للكافر، ولا تستديم له إذا طرأ عليه، وكذلك إذا ترك إقامة الصلوات والدعاء إليها، وكذلك عقد جمهورهم البدعة.
وذهب بعض البصريين إلى أنها تنعقد لها وتستديم على التأويل، فإذا طرأ مثل هذا على وال من كفر اْو تغير شرع أو تأويل بدعة، خرج عن حكم الولاية وسقطت طاعته، ووجب على الناس القيام عليه وخلعه، ونصب إمام عدل أو والي مكانه إن اْمكنهم ذلك.‘‘ (إكمال المعلم شرح صحيح مسلم للقاضي عياض)
’’ مسلمانوں کے اندر اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کافر کے لیے امامت منعقد نہیں ہوتی اور کسی مسلمان حکمران کی امامت باقی نہیں رہتی جب اس پر کفر طاری ہوجائے، اسی طرح جب نماز قائم کرنا اور اس طرف بلانا چھوڑ دے تو اس کے لیے امامت منعقد نہیں ہوتی، اسی طرح بدعت میں بھی جمہور کا یہی مذہب ہے۔
بعض بصری علماء کا مذہب ہے کہ تاویل کی بنا پر بدعتی کی امامت منعقد ہوگی اور باقی رہے گی لہٰذا اگر اسی طرح کفر یا شریعت کو بدل دینے یا بدعت کی تاویل کسی مسلم والی میں پائی جائے تو وہ ولایت سے نکل جائے گا اور اس کی اطاعت ساقط ہوجائے گی اور مسلمانوں پر اس کے خلاف کھڑے ہونا، اس کو معزول کرنا اور اس کی جگہ کسی امامِ عادل کو مقرر کرنا واجب ہوجائے گا ، اگر یہ ان کے لیے ممکن ہو۔‘‘
قاضی عیاضؒ نے یہاں امت کا متفقہ فیصلہ ذکر کیا ہے کہ اگر کافر حکمران مسلمانوں پر مسلط ہوجائے یا مسلم حکمران پر کفر طاری ہوجائے تو اس کو ہٹا کر کسی مسلمان حکمران کو تخت حکومت پر بٹھانا مسلمانوں پر فرض ہے اور ظاہر بات ہے کہ ایک کافر یا مرتد حاکم کو تخت حکومت سے ہٹانا مسلح کارروائی کے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ ان حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ برصغیر کے حکمرانوں کے کافر یا مرتد ہونے کے بارے میں ہم نے اس مقالے کی دوسری قسط میں مفصل عرض کیا ہے، اب موضوع کی مناسبت سے مختصراً اس طرف دوبارہ اشارہ کرتا ہوں۔
بھارت کا حکمران کافر اصلی ہے، مشرک معلن ہے، اس کے کفر کے بارے میں تردد کرنا کفر ہے۔ کافر کو کافر سمجھنا فرض ہے۔ اور پاکستان و بنگلہ دیش کے حکمران اگر پیدائشی طور پر مسلمان تھے بھی تو وہ مرتد ہوچکے ہیں، اگرچہ وہ خود کو مسلمان ظاہر کریں اور اسلام کے بعض اراکین پر عمل بھی کریں تب بھی وہ مرتد ہیں کیونکہ ان میں کفرِ بواح موجود ہے۔ سلف و خلف کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اگر کوئی حکمران ملک کو چلانے کے لیے شریعت اسلامیہ یعنی قرآن اور سنت کو یعنی حکم الٰہی کو دستور کے طور پر اختیار نہ کرے اور اس کے بجائے غیر اللہ کے احکام اختیار کرےتو وہ کافر ہے۔ اس بارے میں آپ سلف و خلف کی کچھ عبارات ملاحظہ فرمائیں:
حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’امر مخل بالامامت:
- اختیاری یعنی خلع بلا سبب
- غیر اختیاری مثل مرض مانع عن العمل واسر ممتد وعجز عن العمل
- کفر
- غیر متعدی الی الغیر مثل شرب خمر وغیرہ
- متعدی یعنی ظلم باخذ الاموال اجتہادی
- متعدی یعنی ظلم باخذ الاموال غیر اجتہادی
- بالاکراہ علی المعصیۃ
قسم ثالث: نعوذ باللہ کافر ہوجاوے خواہ بکفر تکذیب و جحود و خواہ بکفر عناد و مخالفت خواہ بکفر استخفاف و استقباح امور دین…… ‘‘(امداد الفتاوی، جلد ۵، ص ۱۲۹)
قسم ثالث کا حکم: حکمران معزول ہوجاوے گا اور اگر جدا نہ ہو تو (مسلمانوں پر)بشرط قدرت جدا کردینا علی الاطلاق واجب ہے۔ لقولہ فی العبارۃ الثالثۃ کالردۃ۔ مگر اس میں شرط یہ ہے کہ وہ کفر متفق علیہ ہو، بدلیل الحدیث الاول کفرا بواحا عندکم من اللہ فیہ برہان مع انضمام الاجماع المذکور سابقا۔ اور جس طرح اس کا کفر ہونا قطعی ہو اسی طرح اس کا صدور بھی یقینی ہو، مثل رؤیت عین کے، نہ کہ محض روایات ظنیہ کے درجہ میں، کما دل علیہ قولہ علیہ السلام: إلا إن ترو المراد رویۃ العین، بدلیل تعدیتہ إلی مفعول واحد۔ ‘‘(امداد الفتاوی جلد ۵، ص ۱۳۳)
مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتےہیں:
’’اس کے علاوہ حضرت حکیم الامتؒ فرماتے ہیں کہ ایک اور صورت ایسی ہے جس میں امیر کا فسق دوسروں تک متعدی ہورہا ہو، یعنی امیر لوگوں کا دین خراب کررہا ہو، مثلاً لوگوں کو معصیت پر مجبور کررہا ہو تو اگر یہ عمل کسی ایک یا دو افراد کے ساتھ ہو تو اس کا حکم اکراہ کا ہوگا اور اکراہ کے احکام جاری ہوں گے، لیکن اگر امیر نے اس کو ایک مستقل پالیسی بنا لیا کہ وہ مستقل طور سے لوگوں کو معصیتوں پر مجبور کرنے لگا ہے اور اس میں غیر اسلامی قوانین کو شریعت کے مقابلے میں زیادہ بہتر سمجھتا ہے تو یہ کفر صریح ہے اور اگر فوقیت نہیں دیتا لیکن تاویلا (شریعت کی غلط تشریح کرکے) یا تکاسلا (سستی کی بنا پر) اس کو چھوڑا ہوا ہے تو بھی اگرچہ یہ کفر صریح نہ ہو، لیکن کفر کے حکم سے ملحق ہوسکتا ہے، کیونکہ اس سے شریعت کا استخفاف لازم آتا ہے، لہٰذا اس صورت میں بھی خروج جائز ہے……‘‘(اسلام اور سیاسی نظریات، ص ۳۶۷)
مفتی کفایت اللہؒ کا فتوی ملاحظہ ہو:
’’خلاف شرع حکم کرنے والے حکمران طاغوت ہیں، ان کو ’اولی الامر‘ میں داخل کرنے والے کی امامت ناجائز ہے۔‘‘
سوال: جو شخص آیت شریفہ ﴿ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ﴾ کو حکام آئین پر محمول کرتا ہو اور حکام آئین موجودہ کے حکم کو اس آیت شریفہ سے استدلال کر کے واجب العمل کہتا ہو تو ایسے شخص کا شریعت میں کیا حکم ہے اور اس شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ (المستفتی نمبر ۱۴۶۲، مولوی محمد شفیع صاحب مدرس اول مدرسہ اسلامیہ شہر ملتان ۲۳ ربیع الاول ۱۳۵۶ھ، بمطابق ۳جون ۱۹۳۷ء)
جواب : ﴿ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ﴾ سے علماء یا حکام مسلمین مراد ہیں۔ یعنی ایسے حکام جو مسلمان ہوں اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق احکام جاری کریں۔ایسے مسلمان حاکم جو خدا اور رسول کے احکام کے خلاف حکم جاری کریں ﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ﴾ میں داخل ہیں اور خدا اور سول کے خلاف حکم جاری کرنے والوں کو قرآن پاک میں طاغوت فرمایا گیا ہے اور طاغوت کی اطاعت حرام ہے۔ پس جو شخص ایسے حکام کو جو الٰہی شریعت اورآسمانی قانون کے خلاف حکم کرتے ہیں ﴿ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ﴾ میں داخل قرار دے وہ قرآن پاک کی نصوص صریحہ کی مخالفت کرتا ہے۔ انگریزی قانون کے ماتحت خلاف شرع حکم کرنے والے خواہ غیر مسلم ہوں خواہ نام کے مسلمان؛ طاغوت ہیں اور اولی الامر میں کسی طرح داخل نہیں ہوسکتے۔ان کو اولی الامر میں داخل کرنے والا یا مجنون ہے یا جاہل یا فاسق اور ایسی حالت میں اس کو مقتدا بنانا اور امام مقرر کرنا ناجائز ہے۔ فقط محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ۔ (کفایۃ المفتی، جلد۱، ص ۱۳۹)
مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کا فتوی
سوال: حکومت برما اپنے مسلم باشندوں پر ظلم کررہی ہے حتی کہ ان کے مذہبی احکام پر پابندی لگا رہی ہے، فرائض شرعیہ کی ادائیگی میں مانع ہورہی ہے، دریں حالات مسلم باشندوں پر ایسی حکومت سے جہاد کرنا فرض ہے یا نہیں؟ نیز اموال زکوۃ کے ذریعے ایسے مجاہدین کی مدد کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ بینوا تؤجروا۔
الجواب باسم ملہم الصواب: ان حالات میں ایسی حکومت کافرہ سے جہاد کرنا فرض ہے، اس مقصد کے لیے ایسی تنظیم ضروری ہے جو علمائے ماہرین، متقینین و اہل بصیرت کی نگرانی میں حدود شریعت کے اندر کام کرے، دوسرے ممالک کے مسلمانوں پر بھی بالترتیب ’الاقرب فالاقرب‘ تعاون کرنا فرض ہے اور جہاد کی استطاعت نہ ہو تو وہاں سے ہجرت کرنا فرض ہے…… ‘‘(احسن الفتاوی، ج۶، ص ۲۸)
ابن کثیرؒ کی تصریح:
ابن کثیرؒ نے اس بارے میں بہت مفصل اور مبین بات کی، آپ آیت کریمہ ﴿اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’قوله: ﴿اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ﴾ ينكر تعالى على من خرج عن حكم الله المحكم المشتمل على كل خير، الناهي عن كل شر وعدل إلى ما سواه من الآراء والأهواء والاصطلاحات، التي وضعها الرجال بلا مستند من شريعة الله، كما كان أهل الجاهلية يحكمون به من الضلالات والجهالات، مما يضعونها بآرائهم وأهوائهم، وكما يحكم به التتار من السياسات الملكية المأخوذة عن ملكهم جنكزخان، الذي وضع لهم اليساق وهو عبارة عن كتاب مجموع من أحكام قد اقتبسها عن شرائع شتى، من اليهودية والنصرانية والملة الإسلامية، وفيها كثير من الأحكام أخذها من مجرد نظره وهواه، فصارت في بنيه شرعا متبعا، يقدمونها على الحكم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم. ومن فعل ذلك منهم فهو كافر يجب قتاله، حتى يرجع إلى حكم الله ورسوله [صلى الله عليه وسلم]فلا يحكم سواه في قليل ولا كثير.‘‘ (تفسير القرآن العظيم لابن كثير)
’’ (اس آیتِ مبارک)’تو کیا یہ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ اور اللہ کے حکم (اور فیصلے) سے بہتر کس کا حکم ہوسکتا ہے، ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھنے والے ہیں۔‘، اللہ رب العالمین ان لوگوں پر نکیر فرما رہے ہیں جو اللہ کے حکم ، جس میں تمام بھلائیاں موجود اور تمام برائیاں مفقود ہیں، سے ہٹ جائیں ۔ ایسے پاک حکم سے ہٹ کر رائے قیاس کی طرف، خواہش نفسانی کی طرف اور ان احکام کی طرف جھکے جو لوگوں نے از خود اپنی طرف سے بغیر دلیلِ شرعی گھڑ لیے ہیں جیسا کہ اہل جاہلیت اپنی جہالت و ضلالت اور اپنی رائے اور اپنی مرضی کے مطابق حکم احکام جاری کرلیا کرتے تھے اور جیسا کہ تاتاری ملکی معاملات میں چنگیز خان کے احکام کی پیروی کرتے تھے جو الیاسق میں مختلف شریعتوں اور مذاہب سے چھانٹ کر وضع کیے گئے تھے۔ یہودیت، نصرانیت، اسلامیت وغیرہ سب کے احکام کا وہ مجموعہ تھا اور پھر اس میں بہت سے احکام وہ بھی تھے جو صرف اپنی عقل اور مصلحت وقت کے پیش نظر ایجاد کیے گئے تھے جن میں اپنی خواہش کی ملاوٹ بھی تھی۔ پس وہی مجموعہ ان کی اولاد میں قابل عمل ٹھہرا اور اسی کو کتاب و سنت پر فوقیت اور تقدیم دی گئی۔ درحقیقت ایسا کرنے والے کافر ہیں اور ان سے جہاد کرنا واجب ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی طرف آجائیں اور کسی چھوٹے یا بڑے، اہم یا غیر اہم معاملے میں سوائے کتاب وسنت کے کوئی حکم کسی کا نہ لیں۔‘‘
تو یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ان تینوں ملکوں (بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش)کے حکام یا تو اصلاً کافر ہیں یا مرتد ہیں، ہر دو صورت میں ان کو اقتدار سے ہٹا کر کسی مسلمان کو حکمران بنانا مسلمانوں پر واجب ہے اور اس سلسلے میں جو کچھ تدابیر ضروری ہیں ان سب کا فراہم کرنا فرض ہے۔ چونکہ یہ مقصد بغیر جہاد کے حاصل کرنا ممکن نہیں لہٰذا برصغیر کے کافر اور مرتد حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
اگر کوئی اس مسئلے میں اختلاف کرے اور مسلمانی کا دعوی کرنے والے حکمرانوں کو کافر ماننے پر تیار نہ ہوتو اس قسم کے اختلاف سے ان حکمرانوں کے خلاف جہاد کی فرضیت کے مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بھارت کے حق میں تو یہ مسئلہ واضح ہے لہٰذا وہاں کے حکمرانوں کے خلاف جہاد کی فرضیت میں ان حضرات کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے اور جو حکمران خود کو مسلمان کہتے ہیں ان کے حق میں بھی فرضیت کے مسئلہ کی حیثیت برابر ہے کیونکہ یہ خلافت اسلامیہ اور امارت اسلامیہ کی اقامت کے مانعین ہیں اور حکم الٰہی کی اقامت کی راہ میں جو بھی مانع ہوگااس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے، لہٰذا ان حکمرانوں کے خلاف فرضیت جہاد کے مسئلہ میں ان حضرات کو اختلاف نہیں کرنا چاہیے۔
حال ہی میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ افغانستان میں امریکی شیاطین سے ان کے انخلا کے معاہدہ (معاہدۂ دوحہ)کے نتیجے میں جنگ بندی کے بعد بھی امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے جہاد موقوف نہیں کیا، جبکہ ان کی لڑائی ایسے لوگوں کے خلاف چل رہی تھی جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں، اس لڑائی کے بارے میں طالبان مجاہدین کا یہی کہنا تھا کہ امارت اسلامیہ کی اقامت کے لیے ان سے لڑائی ہے لہٰذا جب تک امارت اسلامیہ مستحکم نہ ہوگی تب تک جہاد چلتا رہے گا اور یہ جہاد ان لوگوں کے خلاف ہوگا جو امارت اسلامی کی اقامت کے لیے خطرہ ہیں۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ افغان ملی فوجیوں کے خلاف طالبان مجاہدین کے اس رویہ کی پاکستان اور بنگلہ دیش کے علماء کرام نے تائید کی اور مفتی تقی صاحب اور دوسرے علماء حضرات بھی افغان فوجیوں کی تکفیر تو نہیں کرتے مگر طالبان کے اقدام کی تائید ضرور کرتے ہیں۔لہٰذا اسلام کا دعوی کرنے والے حکمرانوں کی تکفیر میں اختلاف رکھنے والے حضرات کو بھی یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ان حکمرانوں کے خلاف جہاد فرض ہے۔
تیسری ذمہ داری: اقامت خلافت اور امارت اسلامیہ کا قیام
مسلمان جب اجتماعی طور پر کسی خطۂ زمین میں بستے ہیں تو ان کی ایک اجتماعی حیثیت بھی ہوتی ہے اور اسی حیثیت پر کچھ شرعی احکامات بھی لاگو ہوتے ہیں جنہیں نفاذ شریعت یا اقامت امارت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں قرآن و حدیث اور فقہ جو فیصلہ کرتی ہے اس کو نہایت اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
قرآن کیا کہتا ہے؟
نوع انسانی کا وجود، حکم الٰہی کی تنفیذ کی ذمہ داری، حکم الٰہی کی تغلیب، ارسال رسول کا مقصد اصلی سارے ادیان و احکام پر حکم الٰہی کی ترجیح، کفار مشرکین اور خواہشات نفسانی کے خلاف حکم الٰہی کا نفاذ، ہر چھوٹی بڑی بات میں اللہ کی حاکمیت اور رسول کی خلافت اور امت کی نیابت اور حکم الٰہی سے تخلف کے نتیجے کا بیان…… یہ کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن کریم پلٹ پلٹ کر توجہ دلاتا ہے اور ان امور میں قرآن کی راہنمائی واضح صاف اور شفاف ہے، مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ کریں:
﴿ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ (سورة البقرة: ۳۰)
’’اور یاد کرو جب کہ کہا تھا تمہارے رب نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ۔ انہوں نے کہا : کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا ؟ اور ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔ فرمایا : میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔‘‘
وفي تفسير الجلالين:
{و} اذكر يا محمد {إذ قال ربك للملائكة إني جاعل في الأرض خليفة} يخلفني في تنفيذ أحكامي فيها.
’’(اور) یاد کرو اے محمدؐ! (جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں) جو زمین میں میرے احکام کی تنفیذمیں میری نیابت کرے گا ‘۔‘‘
﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾(سورة التوبۃ: ۳۳)
’’ وہ اللہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے وہ غالب کردے سارے بقیہ دینوں پر خواہ مشرکوں کو (کیسا ہی) ناگوار ہو ۔‘‘
﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا﴾ (سورة الفتح: ۲۸)
’’ وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے ۔‘‘
﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ﴾(سورة المائدة:۴۹)
’’ اور فیصلے کیجیے ان کے مابین اس (شریعت) کے مطابق جو کہ اللہ نے اتاری ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے اور ان سے ہوشیار رہیے ، ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ آپ کو ان میں سے کسی چیز سے بچلا دیں جو اللہ نے آپ پر نازل کی ہیں پھر اگر وہ رو گردانی کریں تو جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ لوگوں میں سے اکثر فاسق (نا فرمان ) ہیں ۔‘‘
﴿فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ (سورة المائدة:۴۴)
’’ ……(تو ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ) تم لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو حقیر سی قیمت پر فروخت نہ کرو اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں ۔‘‘
حدیث کی رہنمائی
اسی طرح احادیث نبویہ میں خلافت اور امارت اسلامیہ کی ایسی تصویر پیش کی گئی ہے جس کے بعد امت کے لیے تشویش اور تشکیک کا کوئی گوشہ باقی نہیں رہتا۔
امیر و خلیفہ کا وصف، امام کی ذمہ داری، سیاست کی کیفیت، اطاعت کی کیفیت، سیاست اور اطاعت کی اہمیت، عدم سیاست اور عدم اطاعت پر دھمکی، امیر کے لیے حدود سیاست، مامور کے لیے حدود اطاعت، اجتماعی زندگی کی اہمیت، امیر کے بغیر اجتماعی زندگی کا تصور ناممکن ہونا، خلافت، بیعت، وفائے بیعت، بغاوت کا وجوب، جواز، حرمت وغیرہ سیاسی امور سے حدیث کے مستقل ابواب بھرے ہوئے ہیں۔ یعنی حدیث نبوی میں سیاست کا ایسا کوئی گوشہ مہمل نہیں چھوڑا گیا جس کے بارے میں ہمیں تردد کرنا پڑے، فللّٰہ الحمد۔ آپ مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ کرتے جائیں اور حقیقت کا مشاہدہ کرتے جائیں:
’’عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني وإنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن قال بغيره فإن عليه منه۔‘‘ (صحيح البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب يقاتل من وراء الإمام ويتقى به)
’’ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی، امام ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑائی کی جاتی ہے اور اس کے ذریعے بچاؤ کیا جاتا ہے، پس اگر امام اللہ سے ڈرنے اور عدل و انصاف (قائم کرنے) کا حکم دے تو اس کے لیے اجر و ثواب ہے اور اگر اس کے خلاف کرے تو اس پر اس کا وبال ہوگا۔‘‘
’’وعن أم الحصين قالت: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: إن أمر عليكم عبد مجدع يقودكم بكتاب الله فاسمعوا له وأطيعوا۔‘‘(صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية وتحريمها في معصية)
’’ام الحصینؓ سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم پر کسی کان کٹے غلام کو بھی امیر بنا دیا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کی روشنی میں چلائے تو تم اس کی بات مانو اور اس کی اطاعت کرو ۔‘‘
’’وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وأكره ما لم يؤمر بمعصية فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة۔‘‘(صحيح البخاري كتاب الجهاد والسير، باب السمع والطاعة للإمام، وصحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية وتحريمها في معصية)
’’ابن عمرؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان شخص پر پسند اور ناپسند ہر حال میں سمع و طاعت واجب ہے جب تک کہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے، پس جب معصیت کا حکم دیا جائے تو اس میں کوئی سمع و طاعت نہیں۔‘‘
’’وعن عبادة بن الصامت قال: بايعنا رسول الله صلى الله عليه و سلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره وعلى أثرة علينا وعلى أن لا ننازع الأمر أهله وعلى أن نقول بالحق أينما كنا لا نخاف في الله لومة لائم . وفي رواية: وعلى أن لا ننازع الأمر أهله إلا أن تروا كفرا بواحا عندكم من الله فيه برهان۔‘‘(المصدر السابق)
’’عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ان امور میں بیعت کی کہ ہم سمع و طاعت کریں گے سختی میں بھی اور کشادگی میں بھی، اگرچہ ہمیں پسند ہو یا ناپسند، اور اگرچہ ہم پر دوسروں کو ترجیح ہی دی جائے اور اس بات پر کہ ہم خلافت اور امارت کے امور میں ارباب حکومت سے لڑائی جھگڑا نہ کریں گے اور اس بات پر کہ ہم جہاں بھی ہوں حق بات ہی کہیں گے اور حق کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کریں گے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اور اس بات پر کہ ہم خلافت اور امارت کے امور میں ارباب حکومت سے لڑائی جھگڑا نہ کریں گے الا یہ کہ تم حکمرانوں میں ایسا واضح کفر دیکھو جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل موجود ہے۔‘‘
’’وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من رأى أميره يكرهه فليصبر فإنه ليس أحد يفارق الجماعة شبرا فيموت إلا مات ميتة جاهلية۔‘‘
’’ابن عباسؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی یہ دیکھے کہ اس کا امیر اسے کسی ناپسندیدہ امر پر مجبور کررہا ہے تو چاہیے کہ وہ صبر کرے کیونکہ جو کوئی بھی جماعت سے بالشت بھر بھی دوری اختیار کرے اور اسی حالت میں مرجائے تو اس موت جاہلیت کی موت ہے۔‘‘
’’وعن عبد الله بن عمر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة ولا حجة له . ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية۔‘‘ (المصدر السابق)
’’عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس نے امیر کی اطاعت سے ہاتھ ہٹالیا وہ قیامت کے دن اس حال میں اللہ رب العزت کے حضور پیش ہوگا کہ اس کے حق میں کوئی حجت نہ ہوگی اور جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس کے گلے میں (امام المسلمین کے ہاتھ پر) بیعت کا قلادہ نہیں ہے وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
’’وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء كلما هلك نبي خلفه نبي وإنه لا نبي بعدي وسيكون خلفاء فيكثرون، قالوا : فما تأمرنا؟ قال: فوا بيعة الأول فالأول أعطوهم حقهم فإن الله سائلهم عما استرعاهم۔‘‘ (المصدر السابق)
’’ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کے امور حکومت ان کے انبیاء سنبھالتے تھے۔ جب بھی ایک نبی ہلاک ہوجاتا تو دوسرا نبی اس کے بعد اس کا خلیفہ بن جاتا۔ اور میرے بعد بیشک کوئی نبی نہ آئے گا۔ ہاں خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے صحابہ نے عرض کیا : پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا : پہلے والے کی بیعت کی وفاداری کرو، پھر اس کے بعد والے کی بیعت کی وفاداری کرو اور ان کو ان کا حق دو جو اللہ نے ان کا حق رکھا ہے۔ بیشک اللہ بھی ان سے ان کی رعیت کے حقوق کے بارے میں باز پرس کرے گا ۔‘‘
’’وعن أبي سعيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: إذا بويع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما۔‘‘ (صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب إذابويع لخليفتين)
’’ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو خلفا کے ہاتھ پر بیعت کی جائے تو ان دونوں میں سے بعد میں بیعت لینے والے کو قتل کردو۔‘‘
’’وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من بايع إماما فأعطاه صفقة يده وثمرة قلبه فليطعه إن استطاع فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر۔‘‘ (صحيح مسلم، كتاب الإمارة، باب الوفاء ببيعة الخلافاء الأول فالأول)
’’ جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر خلوص دل کے ساتھ بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو ۔‘‘
’’عن الحارث الأشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: آمركم بخمس: بالجماعة والسمع والطاعة والهجرة والجهاد في سبيل الله وإنه من خرج من الجماعة قيد شبر فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه إلا أن يراجع ومن دعا بدعوى الجاهلية فهو من جثى جهنم وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم۔‘‘ (سنن الترمذي، كتاب الأمثال عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في الصلاة والصيام والصدقة، ومسند أحمد في مسند الحارث الأشعري)
’’حضرت حارث اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کو لازم پکڑنے کا، سمع و طاعت کا، ہجرت کا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا اور جو شخص ملت کی اجتماعی ہئیت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اس نے (گویا) اسلام کی رسی کو اپنی گردن سے نکال دیا الاّ یہ کہ وہ واپس آجائے اور جو شخص جاہلیت کی طرف دعوت دے وہ (گویا) دوزخیوں کی جماعت کا فرد ہے اگرچہ وہ روزے رکھے، نماز پڑھے اور یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
’’أبو سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا خرجَ ثلاثة في سفر فليُؤَمِّروا أحدهم۔‘‘ (سنن أبي داود، كتاب الجهاد، باب في القوم يسافرون يؤمرون أحدهم)
’’ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین آدمی سفر کے لیے نکلیں تو چاہیے کہ اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کر لیں۔‘‘
فقہ و اجتہاد کا فیصلہ
مذکورہ بالا آیات و احادیث سے ہر زمانہ کے مجتہدین، مفسرین اور محدثین نے جو مسائل اخذ کیے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:
’’اعْلَم أَنه يجب أَن يكون فِي جمَاعَة الْمُسلمين خَليفَة لمصَالح لَا تتمّ إِلَّا بِوُجُودِهِ، وَهِي كَثِيرَة جدا يجمعها صنفان:
أَحدهمَا مَا يرجع إِلَى سياسة الْمَدِينَة من ذب الْجنُود الَّتِي تغزوهم وتقهرهم، وكف الظَّالِم عَن الْمَظْلُوم، وَفصل القضايا، وَغير ذَلِك،….
وَثَانِيهمَا مَا يرجع إِلَى الْملَّة، وَذَلِكَ أَن تنويه دين الْإِسْلَام على سَائِر الْأَدْيَان لَا يتَصَوَّر إِلَّا بِأَن يكون فِي الْمُسلمين خَليفَة يُنكر على من خرج من الْملَّة، وارتكب مَا نصت على تَحْرِيمه أَو ترك مَا نصت على افتراضه أَشد الانكار، ويذل أهل سَائِر الْأَدْيَان وَيَأْخُذ مِنْهُم الْجِزْيَة عَن يَد وهم صاغرون، وَإِلَّا كَانُوا متساوين فِي الْمرتبَة لَا يظْهر فيهم رُجْحَان إِحْدَى الفزقتين على الْأُخْرَى، وَلم يكن كابح يكبحم عَن عدوانهم. (حجة الله البالغة، من أَبْوَاب سياسة المدن)
’’جان لو کہ مسلمانوں کی جماعت میں ایک خلیفہ ہونا واجب ہے کچھ ایسی مصلحتوں کی وجہ سے جو خلیفۃ المسلمین کے بغیر ادا نہیں ہوسکتیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ، یہ دو قسم کی ہیں:
ایک سیاست مدنیہ سے متعلق ہے جس میں اس لشکر کو مار بھگانا جو ان کے ساتھ لڑے اور ان پر قابو پانے کی کوشش کرے، مظلوم سے ظالم کا ظلم دور کرنا، عدالتی معاملات کو دیکھنا وغیرہ ……
اور دوسرا امت مسلمہ سے متعلق ہے اور وہ یہ کہ دین اسلام کو تمام ادیان پر فائق اور فائز کرنا اور یہ مسلمانوں کے ایک خلیفہ کے بغیر ممکن نہیں جو ان لوگوں پر سخت نکیر کرے جو ملت اسلام سے نکل جائے، منصوص علیہ محرمات کا ارتکاب کرے یا منصوص علیہ فرائض کو ترک کرے۔ (نیز خلیفۃ المسلمین) دوسرے ادیان کے ماننے والوں کو ذلیل کرے اور انہیں ذلیل و خوار کرکے ان سے جزیہ وصول کرے اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو وہ مرتبہ میں (مسلمانوں کے) برابر ہوجائیں گے اور ایک پر دوسرے (یعنی کفار پر مسلمانوں ) کی فوقیت ظاہر نہ ہوگی اور ایسی کوئی لگام نہیں ہوگی جو انہیں عداوت سے باز رکھ سکے۔‘‘
امام نسفیؒ فرماتے ہیں:
قال النسفي: والمسلمون لا بد لهم من إمام يقوم بتنفيذ أحكامهم، وإقامة حدودهم، وسد ثغورهم، وتجهيز جيوشهم وأخذ صدقاتهم، وقهر المتغلبة والمتلصصة وقطاع الطريق، وإقامة الجمع والأعياد، وقطع المنازعات الواقعة بين العباد، وقبول الشهادات القائمة على الحقوق، وتزويج الصغار والصغيرات الذين لا أولياء لهم، وقسمة الغنائم، أي ونحو ذلك من الأمور التي لا يتولاها آحاد الأمة. (شرح العقائد النسفية ص: 96-97)
’’مسلمانوں کے لیے ایک امام کا ہونا ضروری ہے جو احکام نافذ کرنے کی ذمہ داری ادا کرے، حدود قائم کرے، سرحدوں کی حفاظت کرے، لشکر تیار کرے، (حق داروں کو) صدقات کی ادائیگی یقینی بنائے اور ظالموں چوروں اور ڈاکوؤں کو قابو میں لانے کے لیے اقدامات کرے، اسی طرح جمعہ و عیدین قائم کرائے، لوگوں کے باہمی تنازعات میں فیصلہ کرائے، حقوق پر شہادت قبول کرائے، جن بچوں اور بچیوں کے ولی نہیں ہیں ان کی شادی کروائے اور غنائم کی تقسیم وغیرہ امور کو ذمہ داری سے ادا کروائے جن کی تولیت امت کے افراد نہیں کرسکتے۔ ‘‘
الفقہ الاسلامی وادلتہ کی عبارت ملاحظہ کیجیے:
وقال (محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله الحسني الحسيني) الإِيجي (الشافعيّ (المتوفى: 905هـ)) في المواقف: «إن في نصب الإمام دفع ضرر مظنون، وإن دفع هذا الضرر واجب شرعاً. وبيان ذلك أننا نعلم علماء يقارب الضرورة أن مقصود الشارع، فيما شرع من المعاملات، والمناكحات، والجهاد، والحدود والمقاصات، وإظهار شعائر الشرع في الأعياد والجماعات، إنما هو مصالح عائدة إلى الخلق معاشاً ومعاداً، وذلك المقصود لا يتم إلا بإمام يكون من قبل الشارع يرجعون إليه فيما تعين لهم»
وهناك برهان آخر يستتبع القيام بالوظيفة المقدسة للبشر: وهو أن مرفق القضاء الذي تقوم به الدولة أمر ضروري لفض المنازعات الدائمة بين البشر، لا سيما بعد زوال النظام القبلي الذي يحكم فيه رئيس القبيلة بالعرف والهوى الشخصي، وعدم جدوى اللجوء إلى التحكيم إذا تعذر اتفاق المتخاصمين، فلم يبق إلا القضاء الذي يلجأ إلىه كل إنسان بمفرده.
ومهمة القضاء في الإسلام لا تقتصر على إقامة العدل بالمفهوم الإلهي، وفصل الخصومات، وتطبيق أحكام الشريعة، وإنما يشمل كل ما من شأنه رعاية الحرمات الدينية، واحترام الفضيلة، وإقرار المعروف، ومكافحة المنكرات والفواحش بمختلف ألوانها.
فلولا القضاء لاستأصل البشر بعضهم، وهلكوا جميعاً، فكان وجوده رحمة، وتنظيمه فريضة، وقيام الدولة به ووجودها من أجله أمراً محتماً.
وإذا لا حظنا أن مهمة الدولة في الإسلام حراسة شؤون الدين والدنيا، وتحقيق السعادة للبشر في الحياة الدنيا والآخرة، علمنا مدى الأهمية المنوطة بالدولة المستلزمة للسعي الفوري في إيجادها، ولولا ذلك لعمت الفوضى، وشاع الفساد، وانتشر الظلم بين العباد.
والخلاصة: إن تلازم وجود الدولة مع دعوة الإسلام ودين الإسلام أمر لا يمكن فصله في مفهوم إنسان، منذ أن قامت دولة المدينة باعتبارها أول نواة لوجود الدولة بالمعنى الحديث القائم على أركان ثلاثة: هي الشعب، والإقليم (الوطن) والسلطة السياسية أو السيادة. (الفقه الإسلامي وأدلته، المبحث الثاني: حكم إقامة الدولة في الإسلام)
’’الایجی نے ’مواقف‘ میں کہا:
امام المسلمین مقرر کرنے پر احتمالی ہر ضرر کا مقابلہ موقوف ہے اور اس ضرر کا مقابلہ کرنا شرعاً واجب ہے۔ اس کی شرح اور تفصیل یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں معاملات، نکاح، جہاد، حدود و قصاص، عید اور جماعت میں شرائع اسلام کا اظہار، ان سب کو مشروع کرنے میں شارع کا مقصد کچھ ایسی مصلحتیں ہیں جو دنیاوی امور اور اخروی امور دونوں سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ مقاصد امام المسلمین کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے جو شارع کی طرف سے مقرر کردہ ہو اور جس کی طرف سب ان مسائل میں رجوع کریں جو ان کے ساتھ مخصوص ہیں ۔
یہاں ایک اور دلیل ہے جو انسان کی ایک مقدس ذمہ داری بجالانے کو اس کے تحت لاتی ہے اور وہ ہے عدالت کا انتظام جس کے ذریعے ایک حکومت قائم ہوتی ہے، لوگوں کے درمیان جو لڑائی جھگڑے چلتے رہتے ہیں ان کو دور کرنے کے لیے ایک ضروری چیز عدالت ہے ، خاص طور پر قبائلی نظام کے ختم ہوجانے کے بعد جس میں قبیلے کا سردار عام رواج اور اپنی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرتا تھا، حاکم ماننے میں اگر دو مخالف فریق متفق نہ ہوسکیں تو حاکم کی طرف رجوع کرنا ہی بے کار ہوجاتا ہے، لہٰذا ایک محکمۂ قضا کے علاوہ اور کچھ باقی نہیں رہتا جس کی طرف ہر انسان رجوع کرسکتا ہے اور اس کے پاس پناہ لے سکتا ہے۔
اور اسلام میں قضا کی ذمہ داری صرف عدل و انصاف کی اقامت، خصومات و معاملات کا فیصلہ اور شرعی احکام کی اقامت پر منحصر نہیں بلکہ اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جس میں دینی حرمت اور فضائل کے احترام کی رعایت کا تقاضا ہے، معروف کی اقامت اور منکرات و فواحش کی ہر قسم کا استیصال اور قلع قمع موجود ہے۔
پس اگر قضا نہ ہوتا تو انسانیت دیگر انسانیت کا قلع قمع کر ڈالتی اور سب کے سب ہلاک ہوجاتے، لہٰذا اس کا وجود ایک رحمت ہے، اس کا انتظام فرض ہے، اس کے ذریعے حکومت کا قیام اور اسی کی وجہ سے اس کا وجود ایک لازمی امر ہے۔
اور جب ہم دیکھیں گے کہ اسلامی حکومت کی اہم چیز دین اور دنیا کے امور کی پاسبانی اور دنیا و آخرت میں انسانیت کی سعادت کا پیغام دینا ہے تو ہم سمجھ سکیں گے کہ اسلامی حکومت کی اہمیت کس قدر ہے اور اس کے وجود کے لیے جو کوششیں کرنی چاہییں وہ کس قدر فوری ضرورت کی حامل ہیں ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو بدنظمی عام ہوجاتی، فساد برپا ہوجاتا اور بندوں میں ظلم و ستم پھیل جاتا۔
خلاصہ یہ کہ دعوت اسلام اور دین اسلام کے ساتھ دولت و حکومت کا تلازم ایک ایسی چیز ہے جس کو علیحدہ کرنا عقل انسانی میں ممکن نہیں۔‘‘
علامہ کاسانیؒ فرماتے ہیں:
كتاب آداب القاضي الكلام في هذا الكتاب في مواضع، في بيان فرضية نصب القاضي، وفي بيان من يصلح للقضاء، وفي بيان من يفترض عليه قبول تقليد القضاء، وفي بيان شرائط جواز القضاء، وفي بيان آداب القضاء، وفي بيان ما ينفذ من القضايا، وما ينقض منها؛ إذا رفع إلى قاض آخر ، وفي بيان ما يحله القاضي وما لا يحله ، وفي بيان حكم خطأ القاضي في القضاء، وفي بيان ما يخرج به القاضي عن القضاء
(أما) الأول فنصب القاضي فرض؛ لأنه ينصب لإقامة أمر مفروض، وهو القضاء قال الله سبحانه وتعالى: يا داود إنا جعلناك خليفة في الأرض فاحكم بين الناس بالحق. وقال تبارك وتعالى لنبينا المكرم عليه أفضل الصلاة والسلام: {فاحكم بينهم بما أنزل الله } والقضاء هو: الحكم بين الناس بالحق، والحكم بما أنزل الله عز وجل، فكان نصب القاضي؛ لإقامة الفرض، فكان فرضا ضرورة؛ ولأن نصب الإمام الأعظم فرض، بلا خلاف بين أهل الحق ، ولا عبرة – بخلاف بعض القدرية -؛ لإجماع الصحابة رضي الله عنهم على ذلك، ولمساس الحاجة إليه؛ لتقيد الأحكام، وإنصاف المظلوم من الظالم، وقطع المنازعات التي هي مادة الفساد، وغير ذلك من المصالح التي لا تقوم إلا بإمام، لما علم في أصول الكلام.
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني الحنفي 587هـ، كتاب آداب القاضي بيان فرضية نصب القاضي)
’’کتاب آداب القاضی میں متعدد جگہوں پر اس بارے میں گفتگو ہے جیسے قاضی مقرر کرنا فرض ہونے کا بیان، قاضی ہونے کی لیاقت کا بیان، قاضی کے آداب و شرائط کا بیان، فیصلوں میں سے جن کی تنفیذ ہوگی اور دوسرے قاضی کے پاس جو ملتوی ہوجائے گی ان کا بیان، قاضی جس کو حلال کہتا ہے اور جس کو حلال نہیں کہتا ان کا بیان، فیصلوں میں قاضی کی غلطیوں کا بیان اور جن امور سے قاضی قضا کا حق دار نہیں رہتا ان کا بیان۔
ان میں سے پہلی بات ہے قاضی مقرر کرنا، سو یہ فرض ہے کیونکہ اس کو مقرر کیا جاتا ہے ایک فرض عمل کے لیے اور وہ ہے قضا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں: اے داؤد! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ بنایا لہٰذا تم حق کے ذریعے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے نبی مکرم علیہ الصلاۃ والسلام کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: تم لوگوں کے درمیان اس سے فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ اور قضا یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان حق فیصلہ کرنا اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس سے فیصلہ کرنا، پس قاضی مقرر کرنا فرض کی اقامت کے لیے ہے لہٰذا ضرورتاً یہ فرض ہوا اور چونکہ امام اعظم کا مقرر کرنا فرض ہے اور اس بارے میں اہل علم کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے اور بعض قدریہ جو اختلاف کرتے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور اس کی ضرورت بھی واضح ہے: احکام کی تنفیذ کے لیے، ظالم سے مظلوم کا حق دلوانے کے لیے، آپس کے لڑائی جھگڑوں کو دور کرنے کے لیے جو کہ فساد کی جڑ ہیں وغیرہ مصلحتیں جو امام کے بغیر نہیں ہوسکتیں، جو علم کلام کے اصول سے معلوم ہوتا ہے۔‘‘
ان نصوص سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کسی امام اور حاکم کے بغیر نہیں چل سکتی لہٰذا مسلمانوں کے لیے ایک امام اور حاکم کا تقرر مسلمانوں پر فرض ہے، جب بھی کسی وجہ سے یہ امام اور حاکم موجود نہ ہو تو اس وقت امام اور حاکم مقرر کرلینا ضروری ہے اس کے بغیر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا کوئی تصور نہیں اور اس امام مسلم اور حاکم کے تقرر میں اور اس فرض عمل کو بروئے کار لانے میں جو جو رکاوٹیں پیش آئیں انہیں دور کرنا ضروی ہے۔ یہ رکاوٹیں دور کرنے کے لیے جو تیاری مطلوب ہے وہ کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔
اور ظاہر بات ہے کہ برصغیر کے ہر خطہ پر مسلمانوں کے امام اور حاکم مقرر کرنا اور شرعی قانون کا نفاذ غیر شرعی اور کفری قوانین کے علم بردار یعنی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکمرانوں کو ہٹائے بغیر ممکن نہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے جہاد کرنا لازم ہے لہٰذا برصغیر کے کافر اور مرتد حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
خلاصہ
اب خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ برصغیر کے حکمرانوں کے خلاف تین ایسی وجہوں سے جہاد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے جن میں سے کسی ایک وجہ کا ہونا بھی جہاد کے واجب ہونے کے لیے کافی ہے۔ وہ تین وجوہ اور اسباب جن کی تفصیل ہم بیان کرچکے ہیں وہ یہ ہیں:
اول: مسلمانوں کا اس خطۂ ارض کو (جسے دوسوبرس قبل دارالحرب قرار دیا گیا تھا اور جسے دوبارہ دارالاسلام بننا نصیب نہیں ہوا)دارالاسلام بنانے کی راہ میں حائل مانعین اور رکاوٹیں پیدا کرنے والوں کے خلاف جہاد کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔
دوم: مسلمانوں کے اس خطۂ زمین کے بعض حکمران کافر معلن مشرک ہیں اور بعض کفر بواح کے مرتکب ہونے کی وجہ سے مرتد ہوچکے ہیں، ان کافر حکمرانوں کو ہٹا کر ایک مسلم حکمران مقرر کرنے کے لیے کافر حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔
سوم: اس خطۂ زمین میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی ہے، کروڑوں مسلمان یہاں بستے ہیں لیکن ان کا کوئی امام مسلم نہیں جو ان کو حکم الٰہی کے تحت چلائے، صدیوں سے وہ غیر شرعی قوانین کے تحت اور غیر مسلم حکمرانوں کی حکومت میں زندگی گزار رہے ہیں، ان کے لیے نہ تو کوئی خلافت اسلامیہ ہے نہ ہی امارت اسلامیہ اور نہ ہی ان کے لیے کوئی امیر مسلم ہے جس کے تحت وہ شرعی قوانین کی روشنی میں زندگی بسر کریں اور شریعت کی طرف سے مسلمانوں کو اس طرح زندگی گزارنے کی اجازت نہیں ہے لہٰذا ایک امارت اسلامیہ اور خلافت اسلامیہ کی اقامت کے لیے اس کے مخالف حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔
ایک دارالاسلام کے دارالحرب ہوجانے کے بعد اس کو واپس دارالاسلام کی حیثیت دلانا ایک مستقل فریضہ ہے۔ دارالاسلام کے حکمران کےکفر بواح کے مرتکب ہونے کے بعد اس کو ہٹا کر مسلم امام کو حاکم بنانا ایک مستقل فریضہ ہے، اسی طرح کسی خطۂ زمین میں اگر حکم الٰہی کا نفاذ نہیں ہے تو حکم الٰہی کا نفاذ اور خلافت اسلامیہ اور امارت اسلامیہ کی اقامت ایک مستقل فریضہ ہے۔
ان تینوں باتوں میں کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا برصغیر کے حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا مسلمانوں پر واجب ہے چاہے وہ حکمران بھارت کے ہوں، پاکستان کے یا بنگلہ دیش کے۔
ايك مرتبہ پھر نظر ڈالیں
أ۔ بر صغیر كے یہ تینوں ملك، چوں كہ دار الاسلام سے دار الحرب بنے اور اب تك دار الاسلام كی طرف نہیں لوٹے، لہٰذا اس كو دار الاسلام كی طرف لوٹانا مسلمانوں پر فرض ذمہ داری ہے، اس میں ركاوٹ پیدا كرنے والا اپنے كو مسلمان ظاہر كرتا ہو یا كافر اس كا مقابلہ كرنا اور اس كے خلاف جہاد كرنا فرض ہے۔
ب۔ برصغیر كے بعض خطوں كے حكمران كافر معلن ہیں اوربعض حكمران كفر بواح میں مبتلا ہیں، ہر صورت میں كافر حكمرانوں كو ہٹا كر مسلمانوں كے حاكم كے طور پر كسی مسلم حكمران كو تختِ حكومت پر لانا مسلمانوں پر فرض ہے، اس كے لیے جہاد كے بغیر كوئی چارہ نہیں، لہذا اس فرض کو ادا كرنے میں جو بھی ركاوٹ ڈالے گا اس كے خلاف جہاد كرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
ج۔ مسلمانوں كی اجتماعی زندگی شرعی قانون اور قرآن وحدیث كے قوانین كے ماتحت چلنا فرض ہے، جہاں یہ قرآنی قوانین كی ماتحتی نہیں ہے، وہاں قرآنی قوانین كی اقامت یعنی خلافت اسلامیہ اور امارت اسلامیہ كی اقامت مسلمانوں پر ایك فرض ذمہ داری ہے، اس فرض ذمہ داری کو ادا كرنے میں جو بھی ركاوٹ ڈالے گا اس كے خلاف جہاد كرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
اس مسئلہ میں مشتبہ ہونا اور مشتبہ کرنا نامناسب ہے ۔ بلکہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی روحانی اولاد سید احمد بریلوی شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے وارثین، اکابر و اسلام کے مقتدائے امت افراد کے لیے مناسب ہے اور وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ کو واضح طور پر امت کے سامنے پیش کریں۔ یہ شرعی ذمہ داری ہے، علمی امانت ہے اور سلف کی صحیح اقتدا ہے۔
مسئلہ کی تحقیق کرتے وقت اور امت کے سامنے اس کی شرعی حیثیت پیش کرتے وقت مسئلہ پر عمل کرنے کی دشواریاں، حالات کی نزاکت وغیرہ غیر اہم ہیں اور اظہار حق میں اسے مانع نہ بننا چاہیے۔ مسئلہ کی تحقیق کے وقت دلیل اور استدلال کا درست ہونا مطلوب ہے، استنتاج کی صحت مطلوب ہے، امانت داری مطلوب ہے، تحریف نہ ہونا مطلوب ہے، ان امور کو ملحوظ رکھتے ہوئے ا ن کی رعایت کرکے مسئلہ کی صورت حال صاف صاف زبان میں بتلا دینا ہی شرعی ذمہ داری ہے۔
یہ ہے علمی ذمہ داری جس کو ادا کرنا ہم نے ضروری سمجھا، اس علمی دسترخوان پہ علمائے کرام اور مفتیا ن عظام کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ مسئلہ کی شرعی حیثیت امت کے سامنے واضح ہوجائے تو اس کے بروئے کار کی صورت بھی نکل آئے گی ان شاء اللہ۔ مسئلہ کی تحقیق اور اعلان اگر نہ ہو تو عمل کا داعیہ ہی پیدا نہ ہوگا اور ادائے فرض کی تڑپ بھی مفقود رہے گی۔
مسئلہ کی وضاحت کے بعد جس کو عمل کی مرتب صورت مل جائے اسے اس میں شریک ہونا چاہیے اور اسے اپنے لیے اللہ کی جانب سے سعادت سمجھنا چاہیے اور جس کو مرتب صورت نہ ملے وہ اس کی تلاش میں لگا رہے اور تب تک حسب استطاعت اعداد کے مراحل طے کرتا رہے تاکہ شرعی مسئولیت سے اور اللہ کی جانب سے مواخذہ سے بچ پائے۔
جہاد ایک اجتماعی عمل
یاد رہے کہ جہاد ایک اجتماعی عمل ہے، انفرادی طور پر یہ ذمہ داری ادا نہیں کی جاسکتی لہٰذا یا تو ہم جہاد کی کسی اجتماعی سرگرمی کے ساتھ لاحق ہوجائیں اور اگر معتمد علیہ کوئی اجتماعی کیفیت نہ ملے تو اپنے حوصلے کے مطابق کوئی اجتماعی کیفیت تشکیل دینے میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کریں۔ ایک امر لابدی اور ایک حتمی فرض ذمہ داری کو بجالانے کے لیے ایک مکلف مسلمان کو جوجو کرنا چاہیے وہ سب کریں، انفرادی تیاری جاری رکھیں اور اجتماعی جہاد کی ہر ممکنہ صورت بروئے کار لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ تلاش کی تڑپ ایسی ہونی چاہیے جو اس تائب بندے کی تھی جس نے ننانوے قتل کرنے کے بعد توبہ کی راہ تلاشنی چاہی اور اجتماعی قوت تشکیل دینے کی جہد ایسی ہونی چاہیے جو تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں نظر آتی رہی۔ اسلامی خلافت اور اسلامی امارت نے دشمنوں کے ہاتھوں پامال ہونے کے بعد جس طرح دوبارہ سر اٹھایا ہمیں بھی اسی راستے پر چلنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ماضی بعید میں تاتاریوں کے خلاف مسلمانوں کی کامیاب لڑائی اور ماضی قریب میں روس کے خلاف اور اب امریکی سامراج کے خلاف افغان مجاہدین کے جہاد کو اسوہ کے طور پر سامنے رکھ سکتے ہیں اور موجودہ حکومتوں سے بے زاری اور براءت اس طرح ہونی چاہیے جیسے اصحاب کہف نے اپنے دور کے حکمرانوں سے کی تھی۔
ہماری کمزوری اور عذر
ہماری کمزور ی یہ ہے کہ امت کی اکثریت عرصے سے اس ذمہ داری سے غافل ہے اور اس غفلت کی وجہ سے جو کمزوریاں پیدا ہوئیں ان کا پیدا ہونا لابدی تھا، ایک کمزوری فرضیت جہاد کے مسئلے کا واضح نہ ہونا ہے اور دوسرا ایک کامیاب جہاد کا نقشہ اور کیفیت نگاہوں سے اوجھل ہوجانا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جس مسئلہ کی تمرین نہیں ہوگی اور جس کا کوئی عملی نمونہ سامنے نہ ہوگا اس کی شرعی حیثیت سے مسلمان غافل ہوتے چلے جائیں گے اور یہی ہوا۔
مزید براں عالمی طور پر دشمنان اسلام کی طرف سے جہاد کے خلاف پروپیگنڈہ اس پیمانے پر پھیلایا گیا ہے کہ مسلمان اپنے فریضۂ جہاد کے بارے میں شکوک و شبہات میں پڑگئے، اسی طرح جہاد و اہل جہاد کو اس قدر بدنام کیا گیا کہ مسلمان اس فرض کی ادائیگی کو فتنہ اور فساد سمجھنے لگے نتیجتاً جہاد کی کسی ممکنہ صورت کا تصور بھی ان کے لیے محال ہوگیا۔
اس قدر نامساعد حالات میں اس مسئلہ کی حقیقت اور شدت کو واضح کرنا، فرضیت جہاد کا اعلان عام مسلمانوں کے سامنے کرنا، اس کی عملی تطبیق کے لیے فکرمند ہونا، اور اس کو عملاً نافذ کرنے کے لیے کوشش کرنا وقت کے رہبروں کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔
لہٰذا اب ہمیں اپنی کمزوریوں اور اعذار کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا، خیالی کمزوریاں، تصوراتی عذر اور نباء فاسق کی بنا پر فریضۂ جہاد سے دور رہنا اور مسئلے کی شرعی حیثیت واضح کرنے سے بچنا جائز نہیں ہے۔ جو مرد مجاہد اس میدان میں قربانیاں دے رہے ہیں ان کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہونا چاہیے، یہ آج کی دنیا کا اہم ترین مسئلہ ہے۔
یاد رہنا چاہیے کہ جس طرح یہ بات صحیح ہے کہ جب تک جہاد کے لیے مناسب تیاری فراہم نہ ہو اور دشمن سے مقابلے کے لیے جو قوت درکار ہے وہ بہم نہ پہنچائی جائے تب تک کھلے میدان میں دشمن کے ساتھ لڑائی میں اترنا مناسب نہیں، اسی طرح یہ بات بھی صحیح ہے کہ ضعف و کمزوری کا عذر پیش کرکے فرض کی ادائیگی سے بے فکر ہوجانا، کسی جماعت کی تلاش یا کسی جماعت کی تشکیل کی سرے سے کوشش ہی نہ کرنا، انفرادی طور پر جو اور جتنی تیاری کی جاسکتی ہے اس کی طرف توجہ نہ کرنا، مجاہدین کی اعانت سے بے نیازی بھی جائز نہیں۔ اس قسم کا کوئی بھی رویہ اختیار کرنا درست نہیں جس کی وجہ سے مجاہدین کی جہادی سرگرمیوں میں خلل واقع ہو۔
اللہ رب العالمین ہمیں اپنے دین کی خاطر جہاد فی سبیل اللہ میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین!
تمت ولله الحمد
٭٭٭٭٭