ایک شاعر ابوعزہ مسلمانوں کے خلاف اشعار کہا کرتا تھا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر گرفتار ہوکر حضور اکرم ﷺ کے سامنے لایا گیا تو گڑگڑانے لگا۔ آپ ﷺ نے اس شرط پر چھوڑ دیا کہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا۔ لیکن یہ اپنے وعدے سے پھر گیا اور مسلمانوں کے خلاف اشعار کہتا رہا۔ ایک موقع پر یہ دوبارہ گرفتار ہوا۔ اب پھر اس نے رونا گڑگڑانا شروع کیا، لگا معافی مانگنے…… اس نے کہا ’’اے محمد! مجھے چھوڑدیجیے! مجھ پر احسان کیجیے! میری بیٹیوں کی خاطر رہا کردیجیے۔ میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا‘‘۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ نہیں اب تُو مسلمانوں کو دکھ نہیں پہنچا سکے گا‘‘…… اس کے بعد اس کو قتل کردیا گیا۔
حضور اکرم ﷺ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا‘‘۔ حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان کی وضاحت علماء نے یہ بھی لکھی ہے کہ مومن کو چاہیے کوئی اسے دھوکہ دے تو اس سے ہوشیار رہے اور پھر اس کے دھوکے میں نہ آئے۔
حال ہی میں یومِ سقوطِ ڈھاکہ گزرا۔ موجودہ حالات میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہماری قوم اس دور کے بنگالیوں سے بھی بدتر حالت میں ہے کہ ہمیں اپنے دشمن اور دوست میں فرق تمیز کرنا بھی ناممکن لگتا ہے۔ ہم اُس وقت بھی انجان رہے، فوج کے پھیلائے گئے جھوٹ کو آنکھیں بند کرکے مانتے رہے؛ بنگالی غدار ہیں، ایجنٹ ہیں، سب کچھ بھارت کروا رہا ہے۔ بنگالیوں یا عالمی ابلاغ کی خبروں پر یقین کرنے یا اس متعلق تحقیق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے تو ان گواہیوں کو اہمیت دینا بھی مناسب نہ سمجھا جو پاکستانی فوج ہی کے افسران نے وہاں ہونے والے ظلم کے متعلق دیں۔ آج بھی ہم میں سے اکثریت یہی سمجھتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ نائن الیون کے بعد اور بلوچستان میں قوم پرست آزادی کی مزاحمت پنپنے کے بعد شروع ہوا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی جیسے واقعات کی ابتدا فوج نے بنگلہ دیش سے ہی شروع کی۔
میجر جنرل راؤ فرمان علی اپنی کتاب “How Pakistan got divided” میں لکھتے ہیں کہ فوج نے (مشرقی پاکستان میں) اپنے قید خانے اور عدالتیں بنا رکھی تھیں اور سویلینز کو بغیر وجہ اٹھا لیا جاتا تھا۔ کئی دانشوروں کو میری مداخلت پر رہا کیا گیا۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی نے حمود الرحمان کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ ’’یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہو گئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے‘‘۔ میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا جنہوں نے مشرقی پاکستان میں فرائض سرانجام دیے، انہوں نے بھی اپنی کتاب ’’بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ہمارے خفیہ ادارے مشرقی پاکستان میں جن کو غائب کر دیتے تھے، ان میں ۹۰ فیصد مسلمان ہوتے تھے۔ ان حرکتوں سے پاکستان کے حامی ہمارے مخالف بن گئے۔ جنرل مٹھا کے پاس لاپتہ افراد کے لواحقین آتے تھے لیکن کوئی بازیاب نہ ہوتا تھا‘‘۔
آج پاکستان میں فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والوں میں صرف جہادی اور دیندار نہیں بلکہ ہر رنگ، نسل اور فکر کے لوگ شامل ہیں۔ کسی کی زمین قبضہ کرنی ہو، وہ تعاون نہیں کررہا اسے لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ کوئی صحافی یا حتیٰ کہ کوئی سرکاری افسر ان کے کسی غیرقانونی اور ناجائز کاموں میں تعاون کرنے کو تیار نہیں یا اس پر خاموشی اختیار کرنے کو تیار نہیں، اسے لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ پھر سلسلہ یہیں تک نہیں رکتا بلکہ ظلم و استحصال کے اس غلیظ نظام کا ساتھ دینے والوں اور اسے مضبوطی فراہم کرنے والوں کو بھی فوج و خفیہ اداروں نے ایک طرح سے چھوٹ اور لائسنس دے رکھا ہے کہ وہ خود کو سیاسی اور معاشی لحاظ سے مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے، جتھے پالنے کے لیے اور کئی دوسرے غیرقانونی کاموں کے لیے لوگوں کو اغوا کریں، لاپتہ کریں یا مغوی افراد کے اہلخانہ سے تاوان وصول کریں…… انہیں کھلی چھوٹ ہے۔ یہ کام پولیس اور دوسرے سکیورٹی ادارے بھی کررہے ہیں اور دیہی علاقوں میں خفیہ اداروں کے حمایت یافتہ چودھری، وڈیرے اور سردار بھی کررہے ہیں۔
فوج جنہیں لاپتہ کرتی ہے اس میں پھر سویلین اور فوجی کی کوئی تخصیص بھی نہیں ہے۔ کرنل انعام الرحیم ایک وی لاگ (Vlog) میں این ایل سی کے ایک کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جس افسر نے فوج کے (تجارتی) ٹرانسپورٹ کے ادارے این ایل سی میں ایک آئل فیلڈ سے یومیہ دوکروڑ کے تیل کی چوری پکڑی، اسے لاپتہ کرکے تشدد کیا گیا اور مردہ سمجھ کر پھینک دیا گیا۔ اللہ کا کرنا ہوا کہ اس کی جان بچ گئی۔ جب اس افسر کی اہلیہ نے معاملے کی شکایت کور کمانڈر کراچی احسن سلیم حیات تک پہنچائی تو اس نے اس افسر کو دوبارہ اٹھا کر لاپتہ کرنے کے احکامات جاری کردیے کیونکہ کور کمانڈر خود بھی اس چوری کا حصہ تھا۔ یہ کور کمانڈر بعد میں وائس چیف آف آرمی سٹاف بنا۔ کرنل انعام الرحیم جنہوں نے جبری طور پر گمشدہ افراد کے کیسز کی پیروی کرنے سے اپنی شناخت بنائی وہ خود کو بھی لاپتہ ہونے سے نہ بچاسکے۔ ان کی گرفتاری پر پاکستانی میڈیا نے فوج کی فراہم کردہ خبر من و عن چلائی کہ ان کے پاس ملک کے ایٹمی اثاثوں کے اہم راز تھے جسے انہوں نے دشمن ملک سے شیئر کیا اور وہ دشمن ملک کے جاسوس ہیں۔ بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں یہ تمام الزامات واپس لیے گئے اور اس عمل پر ندامت کا اظہار کیا گیا۔
۱۹۷۱ء میں میجر جنرل خادم حسین راجہ جنرل آفیسر کمانڈ ڈھاکہ تھے۔ اپنی کتاب “A stranger in my own country” میں لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی نے ہمیں کہا کہ میں اس حرامزادی قوم کی نسل بدل دوں گا، یہ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ نیازی کے یہ الفاظ سن کر پاکستانی فوج کا ایک بنگالی افسر میجر مشتاق ایسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے باتھ روم میں گیا اور اس نے اپنے سر میں گولی مار کر خود کشی کر لی۔
جنرل نیازی کی سنجیدگی کا اندازہ ان کے اس رویے سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے محاذ پر بحیثیت چیف ان کمانڈ تعیناتی کے موقع پر جب جنرل خادم نے مشرقی پاکستان کی فوج کی کمانڈ جنرل نیازی کے سپرد کی تو جنرل نیازی نے جنرل خادم سے کہا کہ فوج کا چارج تو آپ نے مجھے دے دیا، اب یہ بتائیں کہ اپنی داشتاؤں کا چارج کب مجھے دیں گے؟1
نہ ہم نے بنگالی خواتین کے خلاف آبرو ریزیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے الزام پر یقین کیا اور نہ ہی ہمیں تب یقین آیا کہ جب بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کے ریپ کیس میں ایک فوجی کیپٹن کا نام سامنے آیا۔ اگرچہ پاکستانی فوجیوں پر ریپ کیس بننا، ان کا کورٹ مارشل ہونا، یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ فرق یہ تھا کہ ایسے کیسز کے متعلق کبھی بھی خبر نہیں بنتی، اسے ہمیشہ خفیہ رکھا جاتا ہے اور ایسے اہلکاروں کا کورٹ مارشل خفیہ انداز سے ہوتا۔ اب ڈاکٹر شازیہ کیس میڈیا میں آچکا تھا لہٰذا فوج نے کیپٹن کے دفاع کو اپنی انا کا مسئلہ بنایا اور پورے بلوچستان کو جنگ میں جھونکنا بھی قبول کیا۔
پاکستانی فوج نے جو کچھ بنگلہ دیش میں بنگالی مسلمانوں کے ساتھ کیا اس پر انہیں کبھی کوئی افسوس یا پشیمانی نہیں رہی۔ یہ کوئی انفرادی افعال بھی نہیں تھے جیسا کہ اکثر لوگ اسے چند جرنیلوں پر ڈال کر فوج کو ان جرائم سے بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ مشرف کو قصوروار ٹھہراتے ہیں مگر حاضر سروس جرنیلوں کی شان میں قصیدے پڑھنے لگتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں جو کچھ کیا گیا بنگالی عوام کو اس سبب پاکستانی فوج سے آج بھی بےانتہا نفرت ہے لیکن پاکستان کے ساتھ جو کچھ اس فوج نے کیا وہ کچھ کم نہیں ہے، بلکہ یوں کہیے کہ منظم اور ادارے کی سطح پر ہونے کے سبب بنگلہ دیش میں کیے گئے جرائم سے بڑھ کر ہے۔ یہ لفاظی اور مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ یہاں ہم چند ایک کیسز کا تذکرہ کرتے ہیں، اس گندگی کو آج کوئی ماڈرن لبرل بھی برداشت کرنے کو تیار نہ ہوگا چہ جائیکہ دین کے نام لیواؤں کے لیے یہ حقائق نظرانداز کیے جانے کے قابل ہوں۔
ابصار عالم نے اپنے ایک کالم میں تین واقعات کا ذکر کیا ہے۔ اسی سے آپ اس فوج کی موجودہ اخلاقیات کا اندازہ لگائیے۔ ایک جگہ انہوں نے جنرل باجوہ کا ذکر کیا ہے جو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو کسی پاکستانی خاتون کی غیر ملکی سفارتکار کے ساتھ غیراخلاقی حرکات کی ویڈیو دکھاتے ہوئے بتارہے تھے کہ دیکھیے ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہم کیا کیا کرتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے اس کارنامے کا ذکر کئی سینیئر صحافیوں کی موجودگی میں کیا۔ ابصار عالم جو چیئرمین پیمرا بھی رہ چکے ہیں، ایک اور واقعے کا ذکر کرتے ہیں کہ جن دنوں سلیم صافی فوج کی پی ٹی آئی کے لیے غیرمعمولی حمایت کو تنقید کا نشانہ بنارہے تھے، جو فوج کے لیے ناقابلِ برداشت تھا، ان دنوں بتول راجپوت نامی ایک اینکر جو ریٹائرڈ فوجی افسر کی بیٹی ہیں، آئی ایس آئی کے افسر کی جانب سے انہیں آفر کی گئی کہ وہ سلیم صافی کے ساتھ مراسم قائم کریں، ادارہ ویڈیو بنائے گا اور خاتون کی شناخت چھپائی جائے گی۔ اس طرح سلیم صافی کو بلیک میل کیا جاسکے گا۔ معاوضے میں خاتون کو اچھی خاصی رقم اور کیریئر میں ترقی کے لیے مدد ملے گی۔ خاتون نے اسے اپنی تذلیل سمجھا اور انہیں انکار کیا۔ ان صاحب نے پھر آفر کی اور یہ یقین دہانی کروائی کہ یہ آفر ادارے کی طرف سے ہے، خاتون نے انکار کیا۔ بعد ازاں ان خاتون کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ابصار عالم اسی کالم میں مزید انکشاف کرتے ہیں کہ اسلام آباد کے ایف ۶/۳ سیکٹر کی گلی نمبر ۱۶ میں جہانگیر ترین کے گھر کے بالکل ساتھ ایک چار کنال کا سرکاری ادارے کا گھر ہے۔ اس گھر کے اوپر والے فلور پر آئی ایس آئی اسلام آباد ڈائریکٹریٹ کا ایک سابق انچارج کرنل اپنا ’پرائیویٹ پراپرٹی آفس‘ بھی چلاتا رہا ہے۔ اس گھر کے گراؤنڈ فلور پر ایک سویلین مکروہ، جرائم پیشہ شخص ایجنسیوں کی مدد سے پچھلے ۲۰ سال سے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے تعلیم کی غرض سے اسلام آباد آنے والی معصوم، کم عمر لڑکیوں کو پھانسنے اور پھر بلیک میل کر کے، دھمکیاں دے کر ان سے ’ناقابل دید اور ناقابل داد‘ کاموں کا گندا دھندہ چلاتا رہا۔ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے سینئر افسران اکثر اوقات وہاں پائے جاتے تھے۔ وہ مکروہ شخص لڑکیوں کو نوکری یا یوٹیوب چینل پر پروگرام دینے کے بہانے پھانستا اور سینئر فوجی افسران کا نام اور شکل استعمال کر کے ان لڑکیوں کو خوفزدہ کرتا ہے۔ پہلے سگریٹ، چرس اور شراب کے نشے پر لگاتا ہے پھر ان کو مختلف مردوں کے ساتھ نتھی کر کے دوستی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ وہی گھر ہے جہاں ۲۰۱۴ء کے دھرنے سے قبل اور دھرنے کے دوران آئی ایس آئی کے سینئر افسران جہانگیر ترین سے معاملات طے کرنے کے لیے آتے تھے اور جہانگیر ترین اپنے گھر کی پچھلی طرف سے اس گھر میں میڈیا کی نظروں میں آئے بغیر رازداری سے داخل ہو جاتا تھا۔ اگر آپ کو کچھ عرصہ قبل کا واقعہ یادہو جس میں بہاولپور یونیورسٹی کا سکیورٹی افسر کچھ اسی قسم کے دھندوں میں ملوث تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں ایسا ہی ایک اسکینڈل سامنے آیا تھا جس میں خفیہ اداروں کے منظورِ نظر فرد کو میرٹ سے ہٹ کر ترقی دلوائی گئی، اسے اختیارات دیے گئے اور اس نے سکیورٹی کیمروں کے استعمال سے طالبات کو بلیک میل کیا اور پھر ان طالبات کا جنسی استحصال کیا جاتا رہا۔
سابق اداکار عاشر عظیم جو کراچی میں کسٹم محکمے میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا، بتاتا ہے کہ ایک روز اسے خفیہ ادارے کے اہلکار نے نجی محفل میں شرکت کی دعوت دی۔ عاشر ٹال دیتا ہے تو وہ اہلکار ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ آفر کرتا ہے۔ بالآخر عاشر مجبور ہوکر اس کی دعوت قبول کرتا ہے۔ جب وہ وہاں پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو شراب و شباب کی محفل ہے۔ عاشر سمجھ جاتا ہے کہ یہاں کے آرگنائزرز خفیہ ادارے ہیں تو یقیناً سب ریکارڈ بھی ہورہا ہوگا۔ بقول عاشر اس قسم کے انتظامات ہماری ایجنسیوں نے ہر بڑے شہر میں بنائے ہوئے ہیں۔
ان جگہوں پر پہنچنے والے جج، صحافی، سیاستدان اور بیوروکریٹ کتنی ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوں گے یا بس ایک واٹس ایپ میسج کی مار ہوں گے اس کا انداہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس جگہ اس کسٹم افسر عاشر کو کیوں لایا گیا اور مطلب حاصل نہ ہونے یعنی ویڈیو نہ بننے پر کیا ہوا یہ بھی سن لیجیے۔ عاشر نے دورانِ ملازمت پتہ لگایا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر کنٹینرز بغیر کسٹم ڈیوٹی کراچی میں آف لوڈ ہوجاتے تھے۔ امپورٹر بجائے حکومت کو ٹیکس دینے کے چند جرنیلوں کو سات سے دس لاکھ دیتے۔ اس طرح حکومت کو ٹیکس کی مد میں بھاری نقصان ہوتا رہا جبکہ چند جرنیل فی کنٹینر لاکھوں میں رشوت بٹور رہے تھے۔ یہ کیس عاشر نے جب اوپن کیا تو انہیں ملازمت سے برخاست کیا گیا، را اور امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ یہ بھی واضح رہے کہ عاشر غیر مسلم ہے، اسے بھی فوج کی ان ویڈیوز کے دھندوں سے گھن آئی اور اس نے اس کے خلاف میڈیا میں بولا۔
انصاف سے فیصلہ کیجیے…… پاکستانی فوج کے بنگالی خواتین کے ریپ اور یہاں پاکستان میں سیاست، معیشت وسائل و اقتدار پر کلی قبضے کے لیے ویڈیوز اور قحبہ خانوں کے دھندوں کے لیے اسی ملک کی بیٹیوں کا جنسی استحصال اور ان کو اس مکروہ کاروبار کا ایندھن بنانا، کیا فرق ہےان دو ادوار میں……؟ ان بنگالیوں کو تو معلوم تھا کہ ان پر ظلم کرنے والا کون ہے، کیا ہمیں اندازہ ہے کہ فوج نے جس پیمانے پر یہ ویڈیوز کا دھندہ شروع کیا اس کے معاشرے پر کیا اثرات ہیں۔ جہاں ایک طرف ان مکروہ افعال کے متعلق بے حسی بڑھی ہے وہیں اب سیاسی جماعتیں بھی مخالفین کے خلاف اسے بطور ہتھیار استعمال کررہی ہیں۔
تحریک انصاف کے سپورٹرز تو اب کھل کر سوشل میڈیا پر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ فوج چاہے عمران خان کی کیسی ہی غیر اخلاقی ویڈیو لیک کردے، ہماری عمران خان سے محبت میں ذرا کمی نہیں آئے گی۔ کچھ یہی حال ن لیگ اور دوسری سیکولر جماعتوں کا ہے کہ ان میں سے بھی کسی کی ویڈیو خفیہ ادارے یا کوئی اور لیک کردے تو چند دن سوشل میڈیا پر لوگ بات کریں گے اور پھر بھول جائیں گے جیسے کچھ مسئلہ ہی نہیں۔
اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ حمودالرحمان کمیشن جس میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر سمیت چیف جسٹس حمود الرحمان، جسٹس انوار الحق، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان شامل تھے، اس کمیشن کے سامنے ۳۰۰ سے زائد گواہوں نے بیانات قلم بند کروائے۔ کمیشن نے ۹ اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی، ۶ افسران کے کورٹ مارشل کی سفارش کی، دو کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی، جبکہ ۲۳ افسران کے بارے میں کہا کہ یہ مزید عسکری ذمہ داریوں کے قابل ہی نہیں۔ لیکن فوج نے اپنے طرز عمل سے مستقبل کے پاکستان کے لیے جیسے مستقل بنیادوں پر ’رہنما اصول‘ متعین کردیے کہ چاہے کتنا ہی بڑا اور سنگین جرم ہو اس ملک میں فوج اور فوجی جرنیلوں کا احتساب نہیں کیا جاسکے گا، انہیں کٹہرے میں نہیں لایا جاسکے گا، ان کے کسی فعل پر قدغن نہیں لگائی جاسکے گی، چاہے اس سے اس ملک و قوم کو کیسا ہی نقصان پہنچتا ہو۔ جنرل یحییٰ جن کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی تھی، اس پر عملدرآمد نہیں ہوا، انتقال ہوا تو فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔
لیفٹیننٹ جنرل گل حسن پر بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی گئی تھی مگر بھٹو حکومت نے ان کی برطرفی کے بعد آسٹریا میں سفیر تعینات کیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کا ایک اہم کردار میجر جنرل غلام عمر تھے (یہ اسد عمر کے والد ہیں)، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے صنعتکاروں سے لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع کیے جسے مختلف سیاسی شخصیات میں تقسیم کیا گیا۔ انہوں نے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے تحریری معافی مانگی تھی جس کے سبب ان کی قید بھٹو حکومت نے نظربندی میں تبدیل کی۔
الیکشن اور سیاست پر کنٹرول کے لیے صنعتکاروں سے رقم اینٹھنے کا سلسلہ جو ۷۱ء سے پہلے شروع کیا گیا تھا وہ آج بھی جاری ہے جس نے پاکستانی معیشت کو تباہی سے دوچار کیا ہے۔ لیکن کوئی ان کی طرف انگلی نہ اٹھاسکے اس لیے کبھی کوئی وجہ گھڑ کر عوام کے ذہنوں میں ٹھونستے ہیں تو کبھی کوئی وجہ۔ جیسے آج کل افغان مہاجرین اور افغان بارڈر پر ہونے والی تجارت کو سمگلنگ کا نام دے کر اسے پاکستانی معیشت کے زوال کا سبب بتایا جارہا ہے۔ اپنے ایک ویلاگ میں میجر عادل راجہ اقرار کرچکا ہے کہ بارڈر پر تعینات ہونے والے فوجی افسران کو ہفتہ وار کروڑوں کا بھتہ اوپر فوجی افسران کو دینا ہوتا ہے۔ کراچی میں ایک عرصے تک ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو اقتدار میں رکھنے کے لیے انہیں کھلی چھوٹ دی گئی۔ دونوں جماعتوں کے جرائم پیشہ گروہ کراچی کی صنعتوں سے بھتہ خوری کرتے رہے اور یہ سب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت اور ملی بھگت سے ہوتا رہا ۔ بلدیہ کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں ۲۰ کروڑ بھتہ نہ دینے پر جان بوجھ کر آگ لگائی گئی جس میں ۲۵۰ افراد زندہ جل گئے۔ کاروبار کی اسی مخدوش صورتحال کے سبب پاکستان سے گارمنٹ اور ٹیکسٹائل کی بہت سی فیکٹریاں بند ہوئیں اور صنعتکار یہاں سے بنگلہ دیش چلے گئے۔ انہیں بنگلہ دیشی حکومت نے بہت سی مراعات دیں جس سے دوسروں کو بھی اپنی فیکٹریاں وہاں شفٹ کرنے کی رغبت ملی۔
گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کی برآمدات میں تقریباً ۱۲ فیصد کمی واقع ہوئی اور یہ ۲۸ ارب ڈالر بھی نہ ہوسکیں۔ جبکہ اسی دوران بنگلہ دیش کی برآمدات چھ فیصد اضافے کے ساتھ ۵۵ ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ ان برآمدات میں اہم کردار ریڈی میڈ گارمنٹس کا ہے جو ۴۶ ارب ڈالر سے زائد کی بنتی ہیں۔
چند دن قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے ملک بھر سے علماء کو بلا کر ان سے خطاب کیا اور اپنے خطاب میں پاک افغان معاملے پر تفصیلی گفتگو کی۔ شاید اس کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ فوج افغان مہاجرین کے ساتھ جو کچھ کررہی ہے اس میں اسے علماء کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کو ۵۲ برس بیت چکے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ جو اس سانحے کے اصل ذمہ دار تھے انہوں نے نہ کبھی اپنی غلطی تسلیم کی اور نہ کریں گے۔ ایک کے بعد ایک صوبہ ان کی ہوس کی بدولت آج انہی بدانتظامیوں کا شکار ہے جس کا حل ان کے پاس سابقہ مشرقی پاکستان کی طرح گولی چلانے اور کچلنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم لاکھوں مسلمانوں کی جان، مال، عزت و آبرو کی قربانیوں سے حاصل کیے گئے ملک کے ساتھ ان جرنیلوں کا کھلواڑ صرف تماشائی بن کر دیکھیں گے؟
٭٭٭٭٭
1 Witness to Surrender by Siddique Salik p # 10