یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپریشن سائلنس کو گزرے تھوڑا ہی وقت ہوا تھا۔ لال مسجدو جامعہ حفصہ کو اجاڑنے کے بعد یہ پیشہ ور قاتل دن رات پاکستان کے اسلام پسند عوام اور مجاہدین کی بو سونگھ رہے تھے اور ان کو پس زنداں دھکیل کر اس کے بدلے امریکیوں سے ڈالر وصول کرتے تھے۔ ایک دن میں اپنے مدرسے سے چھٹی لے کر کسی تقریب کے سلسلے میں گھر آیا ہوا تھا۔ اچانک تقریباً رات کے ۲ بجے شور شرابے سے میری آنکھ کھلی۔ پہلے تو مجھے سمجھ میں نہیں آئی کیا ہورہا ہے، تھوڑے حواس بیدار ہوئے تو مجھے سمجھ آئی کہ پاکستانی فوج وپولیس اور ایجنسی کے کارندے گھر میں چادر وچاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھس چکے ہیں۔ ابھی میں کچھ کہتا یا اپنی چارپائی سے اٹھتا، اتنے میں کچھ سپاہی رعونت سے بندوقیں تانے میری چارپائی کی طرف بڑھے۔ جاگ تو میں پہلے ہی چکا تھا مگر اب سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، ایک فوجی نے رعونت بھرے انداز میں مجھے اپنی چارپائی سے اٹھنے کا اشارہ کیا اور مجھے چپل پہننے کا کہا۔ میں چپل پہن کر ابھی قمیض پہننے ہی لگا تھا کہ اس نے مجھے اٹھ کر کھڑا ہونے اور چلنے کا کہا۔ اتنے میں دو سپاہیوں نے مجھے کالر سے پکڑا اور گھر کے صحن میں لے آئے۔ میں جب صحن میں پہنچا تو میری آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں، گھر کے صحن میں چھتوں اور دیواروں پر بھی جابجا سپاہی بکھرے ہوئے تھے۔ ساتھ والے دیگر کمروں سے ایجنسی کے کارندے سفید ریش والد صاحب اور بڑے بھائی کو بھی نکال کر صحن میں لے آئے۔ انہوں نے ہم تینوں کو اپنی نگرانی میں گاڑیوں کی طرف چلنے کا اشارہ کیا، گاڑیاں قریب ہی تھیں۔ خیر کرنا کیا تھا، سو ہم خاموشی سے اذکار کرتے ہوئے چل پڑے۔
سردیوں کی راتیں تھیں۔ رات کی تاریکی میں سردی کی شدت ستارہی تھی۔ چلتے ہوئے سب سے زیادہ غصہ اس بات پر آرہا تھا کہ انہوں نے مجھے قمیض بھی نہیں پہننے دی۔ دائیں بائیں ایجنسی والے ساتھ چلتے ہوئے سوالات بھی کررہے تھے؛ فلاں کدھر ہے، وغیرہ وغیرہ۔ میرا جواب نفی میں سن کر ایک فوجی نے مجھے ٹھڈا مارا اور کہا تم لوگ سارے ہی دہشت گرد ہو، اگر تم نہیں بتاؤ گے تو بہت براحال ہوگا۔ ہمیں سب کچھ علم ہے چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت میری عمر بھی کم تھی اور انجانے خدشات بھی تھےکہ نجانے اب کیا ہوگا (تھوڑی بہت تو ان کی تاریخ سے واقفیت بھی تھی)۔ کیونکہ جنہوں نے اخلاقیات اور عسکری مہمات اپنے فرنگی آقاؤں سے سیکھی ہوں، جو اپنی ہی قوم کی بیٹیوں کو پکڑ کر امریکی کافروں کے حوالے کردیں اور اس پر ذرا بھی نہ شرمائیں، جن کے نزدیک چادر و چاردیواری کا تقدس پامال کرنا روز کی بات ہو، جن کے قید خانوں میں احد احد کی صدائیں گونجتی ہوں اور مساجد و مدارس جن کے نزدیک دہشت گردی کے اڈے ہوں…… آپ اس فوج اور ان کے متصل اداروں سے اخلاقیات اور اس جیسی چیزوں کی کیا امید رکھیں گے؟
ہم ایجنسی والوں کے گھیرے میں چل کر ان کی گاڑیوں تک پہنچ گئے۔ انہوں نے ہمیں گاڑیوں میں بٹھا کر آپس میں بات کرنے سے بھی منع کردیا۔ فوج اور پولیس والے کچھ دیر آپس میں نجانے کیا کھسر پھسر کرتے رہے۔ اس کے بعد فوجیوں نے ہمیں مقامی پولیس کے حوالے کیا اور چلے گئے۔ مقامی تھانیدار نے آکر ہمیں تھانے کے لاک اپ میں بند کردیا۔ نیند تو ان بدبختوں نے خراب کر ہی دی تھی، سو بقیہ رات آنکھوں میں کاٹی۔
اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی۔ ہم تینوں نے نمازِ فجر لاک اپ میں اداکی۔ اس کے بعد پولیس والوں نے ہمیں لاک اپ سے نکال کر ملاقاتیوں والے کمرے میں بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد خاندان اور گاؤں والے بھی اطلاع ملتے ہی تھانے پہنچ گئے۔ تھوڑی سی پوچھ گچھ کے بعد ایک فارم لایا گیا جس پہ ہمارے انگوٹھے کے نشان لگواکر ہمیں گھر واپس جانے کی اجازت مل گئی۔ الحمدللہ!
گھر میں بخیر وعافیت واپسی پر سبھی نے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کیونکہ عوام کے خون پسینے پر پلنے والے نظام کے یہ بھیڑیے جب تک بے گناہوں کا خون نہ چوس لیں ان کو آرام نہیں آتا۔ ہم تھانے سے جب واپس گھر پہنچے تو کمروں کے ٹوٹے ہوئے دروازے گھر میں باوردی ڈاکوؤں کے گھسنے کا اشارہ دے رہے تھے۔
اس واقعے کے اگلے روز ہماری والدہ محترمہ کافی دیر سے کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کررہی تھی مگر وہ چیز ڈھونڈے نہیں مل رہی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ والدہ نے گھر کے صحن میں بڑے سائز کی کچھ کیلیں لٹکائی تھیں جو اب نہیں مل رہی تھیں۔ چھوٹے بھائی نے کہا؛ جب فوج والے ہمیں نکال کر صحن میں لائے تو میں نے ایک فوجی کو وہی کیلیں اکھاڑکر اپنے ساتھ لے جاتے دیکھا تھا۔ یہ سن کر ہم سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ جوں جوں دن گزرتے گئے، گھر میں گمشدہ چیزوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی جو وطن کے ان سجیلے جوانوں نے تلاشی کے نام پر اپنی جیبوں میں ٹھونس لی تھیں۔ جن میں ہماری چھوٹی بہن کی آرٹیفشل جیولری بھی شامل تھی جو اس نے اپنے جیب خرچ سے لی تھی۔
جب بھی ان چیزوں کا تذکرہ آتا تو ہماری والدہ سادہ سے دیہاتی لہجے میں بولتیں یوں لگتا ہے کہ جیسے گھر میں چور گھسے ہوں۔ حقیقت بھی یہی تھی…… لیکن یہ چور باوردی تھے۔
یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے جو ہمارے ساتھ پیش آئی۔ لیکن یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہی وہ فوج تھی کہ جب یہ بنگلہ دیش میں بیرکوں سے نکل کر معاشرے میں آئی تو اس وقت کے جنرل نیازی نے اپنے سپاہیوں کو یہ حکم دیا کہ یہ دشمن کی سرزمین ہے ،یہاں سے جو کچھ بھی ملتا ہے لے لو کیونکہ ہم برما میں بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے۔ پھر تاریخ کے صفحات پر یہ بات درج ہوگئی۔ اس فوج نے وہاں کے مسلمانوں کے گھروں کی چارپائیاں تک نہ چھوڑیں اور اس فوج کے سپاہیوں نے وہاں کے بنگالی مسلمانوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا ، جس میں کھلنا کا دھوبی گھاٹ قتلِ عام کا آج بھی عینی شاہد ہے۔
اسی فوج کے سیاہ کارناموں کی تاریخ یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس فوج کے سپہ سالار کبھی جنرل ضیاءالحق کی صورت میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی جنرل نیازی کی صورت میں بنگالی مسلمانوں کی عزتوں سے کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی مشرف کی صورت میں مسجد و مدرسے پامال کرتےاور اپنی ہی بیٹیاں اغیار کے حوالے کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی راحیل شریف کی صورت میں اپنے ہی ملک کی آبادیاں فتح کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کی صورت میں مسلمانوں کی لاشیں ملک کے جنگلوں کھلیانوں یا ملک کے مختلف بیراجوں میں ڈالتے نظر آتے ہیں۔ یہی وہ قاتلین ہیں جنہوں نے اپنے ہی ملک کے عوام کو پناہ گزین کیمپوں میں دھکیلا اور اس زمین کے چپے چپے پر دین اور اہل دین سے محبت رکھنے والے افراد پر اپنی شیطانی آنکھوں کو کڑے پہروں پر بٹھادیا۔ یہی وہ قاتلین ہیں جو اوکاڑہ کی لہلاتی زمینوں کو اناج سمیت کھاگئے، اس کے بدلے مظلوم عوام کو کبھی نہ رکنے والی فاقوں کی چکیوں میں پیس دیا۔ اسی فوج نے اپنی آمد کے بعد سوات کے تمام تجارتی ٹھیکوں پر قبضہ کیااور سوات میں امن میلےکے نام پر وہاں کی عوام کو فحاشی وعریانی کے سیلاب میں دھکیل دیا۔ جس طرح کل برٹش آرمی نے بنگال کو لوٹ کر وہاں کی مقامی آبادی کو دانے دانے کا محتاج بنادیا تھا، اسی طرح اس فوج نے بھی شمالی وزیرستان پر قابض ہوکر چلغوزے اورمہنگی لکڑی کی تجارت کرکے کروڑوں روپے کمائے۔ ردالفساد آپریشن کے وقت جب ان درندوں کو تلاشی کے نام پر مسلمانوں کے گھروں میں دراندازیوں کا موقع ملا تو وطن کے ان سجیلے جوانوں کا چہرہ سبھی کے سامنے کھل کر سامنے آیا۔
اس کے برعکس اس فوج کو عسکری میدان میں جب بھی اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملا تو اس نے ہمیشہ بے غیرتی والا یوٹرن لیا اور سرنڈر ہوگئی۔ اپنی ڈھٹائی کو مزید چار چاند لگانے کےلیے ’یہ کھیل کا حصہ ہے‘ (it is part of game) کہہ کر جان چھڑالی۔
جن دیندار جوانوں نے اس فوج کو اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھ کر ان کا ساتھ دیا تھا، ان کے لیے مکتی باہنی کے خفیہ ٹارچر سیلوں اور اذیت خانوں میں چھپی جبر و اذیت کی المناک داستانیں گواہ ہیں کہ ان کے ساتھ کیا بیتی۔ ان رضاکاروں کے گھروں کو جلاکر دشمن کی طرف سے ان کی املاک کو نیلام کیا گیا۔ ستم ظریفی یہ بھی دیکھیے کہ دہلی میں تیار ہونے والی سرنڈر ہونے کی دستاویز میں ان رضاکاروں کے تحفظ کی کوئی شق بھی شامل نہیں تھی۔ ان میں کتنے ہی رضا کار اپنی جان بچانے کے لیے شہروں اور جنگلوں میں گھومتے رہے اور کچھ بھارتی ریاستوں آسام، تریپورہ، مغربی بنگال کی سرحد پار کرکے انڈیا سے نیپال پہنچ گئے اور کچھ مختلف راستوں سے پاکستان جاپہنچے۔
ادھرایک اور آزمائش ان کی منتظر تھی۔ پاکستانی حکام نے ان کا ساتھ دینا تو درکنار ان کو پہچاننے سے بھی انکار کردیا۔ جبکہ بنگلہ دیش میں بچ جانے والے افراد کی تیسری نسل آج بھی پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہوکر وہاں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔
اے میرے مسلمان بھائیو! ان سب حقائق کو جان لینے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ رائل انڈین آرمی کے وہ سپاہی ہیں جنہوں نےصلیبیوں کے لیے بیت المقدس کی فتح کی راہ ہموار کی تھی اور ان کے سپاہیوں کی قبریں آج بھی بیت المقدس اور اس کے گردونواح میں موجود ہیں۔ اور آج کی پاکستانی فوج کی نظریاتی اساس بھی اسی رائل انڈین آرمی کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ بس فرق یہ ہے ملکۂ برطانیہ کا بازوئے شمشیر زن آج دنیا میں پاکستانی فوج کے نام سے جانا جاتا ہے۔
نابینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی
جو قوم دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں
مجھے تو عالم ربانی استاد احمد فاروق رحمہ اللہ کے کہے ہوئے الفاظ یاد آرہے ہیں جو انہوں نے کئی سال قبل کہے تھے کہ ’’ہرسال منایا جانے والا جشن آزادی ہماری نہیں بلکہ ان کی آزادی کا جشن ہوتا ہے۔ ہمیں تو ایک اور تحریک آزادی سے گزرنا ہوگا، خون کا ایک اور دریا پار کرنا ہوگا‘‘۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین
٭٭٭٭٭