نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home آخرت

قیامت کی علاماتِ صغریٰ | نواں درس

انور العولقی by انور العولقی
9 فروری 2023
in جنوری 2023, آخرت
0

آسمان سے کثرت سے بارش برسے گے مگر پیداوار نہ ہوگی

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُمْطَرَ النَّاسُ مَطَرًا عَامًّا وَلَا تَنْبُتَ الْأَرْضُ شَيْئًا (مسند احمد)

’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک بارشیں خوب کثرت سے نہ ہوں، لیکن زمین سے پیداوار بالکل نہ ہوگی‘‘۔

یعنی کثرت سے بارش ہوگی، ہر طرف پانی ہی پانی ہوگا مگر زمین کچھ اگانے پر تیار ہی نہ ہوگی۔ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا لفظ بیان فرمایا جو قحط یا خشک سالی کے لیے استعمال ہوتا ہے، زمین پر بارش کی کمی نہیں ہوگی مگرزمین سے اگنے والی پیداوار، نباتات، فصلیں کم ہوجائیں گی۔زمین پر برکت نازل نہیں ہورہی ہوگی،یا لوگوں نے زمین پر اس قدر فساد برپا کردیا ہوگا کہ بظاہر جو بارش نظر آرہی ہوگی وہ عام بارش نہیں بلکہ تیزابی بارش ہو گی، واللہ اعلم۔

فرات سے سونے کا پہاڑ ظاہر ہونا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِکُ الْفُرَاتُ أَنْ يَحْسِرَ عَنْ کَنْزٍ مِنْ ذَهَبٍ فَمَنْ حَضَرَهُ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا (بخاری)

’’ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے ،انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عن قریب دریائے فرات سے سونے کا خزانہ ظاہر ہوگا، جو کوئی وہاں موجود ہو وہ اس میں سے کچھ نہ لے ‘‘۔

یعنی فرات کا پانی کم ہوجائے گااور اس کی تہہ سے ایک سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ اس خزانے میں سے کوئی کچھ نہ لے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ کی وجہ ذیل کی حدیث سے واضح ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَحْسِرَ الْفُرَاتُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَهَبٍ يَقْتَتِلُ النَّاسُ عَلَيْهِ فَيُقْتَلُ مِنْ کُلِّ مِائَةٍ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ وَيَقُولُ کُلُّ رَجُلٍ مِنْهُمْ لَعَلِّي أَکُونُ أَنَا الَّذِي أَنْجُو

’’ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ دریائے فرات سونے کے ایک پہاڑ کو ظاہر کرے گا۔ اس پر (لڑتے ہوئے) ہر سو میں سے ننانوے لوگ مارے جائیں گے اور ان (لڑنے والوں ) میں سے ہر کوئی کہے گا کہ شاید میں ہی بچ جاؤں (اور سارے سونے کا مالک بن جاؤں)‘‘۔

یہ لالچی لوگوں کا معاملہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی آفت میں مبتلا نہ ہوں گے اور تمام فوائد و ثمرات سمیٹنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لوگ چوری کرتے ہوئے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ میں تو نہیں پکڑا جاؤں گا، مگر وہ پکڑے جاتے ہیں اور مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس پہاڑ پر لڑنے والوں کو لالچ اندھا کردے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سو میں سے ننانوے مارے جائیں گے۔ لالچ اور خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ جو کوئی اس خزانے کو دیکھے، اس کے قریب بھی نہ پھٹکے اور اس میں سے کچھ لینے کی کوشش نہ کرے۔

جانوروں اور بےجان چیزوں کا بولنا

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ عَدَا الذِّئْبُ عَلَى شَاةٍ فَأَخَذَهَا فَطَلَبَهُ الرَّاعِي فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ فَأَقْعَى الذِّئْبُ عَلَى ذَنَبِهِ قَالَ أَلَا تَتَّقِي اللَّهَ تَنْزِعُ مِنِّي رِزْقًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيَّ فَقَالَ يَا عَجَبِي ذِئْبٌ مُقْعٍ عَلَى ذَنَبِهِ يُكَلِّمُنِي كَلَامَ الْإِنْسِ فَقَالَ الذِّئْبُ أَلَا أُخْبِرُكَ بِأَعْجَبَ مِنْ ذَلِكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَثْرِبَ يُخْبِرُ النَّاسَ بِأَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ قَالَ فَأَقْبَلَ الرَّاعِي يَسُوقُ غَنَمَهُ حَتَّى دَخَلَ الْمَدِينَةَ فَزَوَاهَا إِلَى زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهَا ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُودِيَ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ لِلرَّاعِي أَخْبِرْهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ وَيُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَيُخْبِرَهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ (مسند احمد)

’’حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ایک بھیڑیے نے ایک بکری پر حملہ کیا اور اس کو پکڑ کرلے گیا، چرواہا اس کی تلاش میں نکلا اور اسے بازیاب کرا لیا، وہ بھیڑیا اپنی دم کے بل بیٹھ کر کہنے لگا کہ تم اللہ سے نہیں ڈرتے کہ تم نے مجھ سے میرا رزق، جو اللہ نے مجھے دیا تھا، چھین لیا؟ وہ چرواہا کہنے لگا: تعجب ہے کہ ایک بھیڑیا اپنی دم پر بیٹھ کر مجھ سے انسانوں کی طرح بات کررہا ہے؟ وہ بھیڑیا کہنے لگا کہ میں تمہیں اس سے زیادہ تعجب کی بات نہ بتاؤں ؟ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یثرب میں لوگوں کو ماضی کی خبریں بتا رہے ہیں۔ جب وہ چرواہا اپنی بکریوں کو ہانکتا ہوا مدینہ منورہ واپس پہنچا تو اپنی بکریوں کو ایک کونے میں چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ گوش گزار کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر الصلوٰۃ جامعۃ کی منادی کردی گئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے اور چرواہے سے فرمایا کہ لوگوں کے سامنے اپنا واقعہ بیان کرو، اس نے لوگوں کے سامنے سارا واقعہ بیان کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس نے سچ کہا، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے! قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک درندے انسانوں سے باتیں نہ کرنے لگیں اور انسان سے اس کے کوڑے کا دستہ اور جوتے کا تسمہ باتیں نہ کرنے لگے اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے پیچھے اس کے اہل خانہ نے کیا کیا ‘‘۔

کچھ جانور اور کچھ چیزیں انسانوں کی طرح گفتگو کریں گی نہ کہ تمام جانور اور چیزیں۔ ممکن ہے کہ حدیث کے الفاظ بعینہ اسی طرح ظاہر ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نئی ایجادات کی جانب اشارہ ہو جن میں سے کوئی ایسی معلوم ہو جیسے کہ انسان کے ہاتھ کا کوڑا اور وہ باتیں کرے۔ یہ سیل فون بھی ہوسکتا ہے اور کوئی اور ایسا جاسوسی کا آلہ بھی جس کی مدد سے بیویاں اپنے شوہر اور شوہر اپنی بیویوں کی جاسوسی کریں اور یہ انسان کی ران یا اس کے جوتے میں چھپا ہوا ہو؛ آج کل ایسی مصنوعات دستیاب ہیں ۔ لیکن جہاں تک جانوروں کے کلام کرنے کی بات ہے تو یہ معجزہ ہے اور جیسا کہ میں کہتا ہوں کہ ہم حدیث کا صریح معنی ہی لیں گےکہ انسان کی ران اور اس کے جوتے کا تسمہ کلام کریں گے الّا یہ کہ اس کے خلاف جانے کے لیے کچھ شواہد موجود ہوں۔

موت کی خواہش

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي مَکَانَهُ (صحیح بخاری)

’’ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی حتیٰ کہ ایک شخص دوسرے کی قبر کے پاس سے گزرے گا تو کہے گا : کاش ! اس کی جگہ میں ہوتا ‘‘۔

حالات اس قدر شدید ہوں گےکہ انسان یہ حالات کی سختی کی وجہ سے کہے گا کہ کاش اس قبر میں میں ہوتا، یہ بدترین دور ہوگاجب لوگ مرنا چاہیں گے۔ ایک اور حدیث میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّی يَمُرَّ الرَّجُلُ عَلَی الْقَبْرِ فَيَتَمَرَّغُ عَلَيْهِ وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي کُنْتُ مَکَانَ صَاحِبِ هَذَا الْقَبْرِ وَلَيْسَ بِهِ الدِّينُ إِلَّا الْبَلَائُ (صحیح مسلم)

’’ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! دنیا اس وقت تک رخصت نہیں ہوگی، یہاں تک کہ ایک شخص (کسی کی) قبر کے پاس سے گزرے گا تو اس پر لوٹ پوٹ ہوگا اور کہے گا : کاش ! اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا اور وہ دین (کے بارے میں پیش آنے والی مشکلات) کی وجہ سے ایسے نہیں کرے گا بلکہ (دنیوی) مشکلات کی وجہ سے کرے گا‘‘۔

ابن مسعودؓ کا فرمان ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اگر موت کہیں بکتی ہو تو انسان اسے خرید لے گا۔لوگ موت کی اس قدر خواہش کریں گے کہ اگر کہیں سے قیمت دے کر موت ملتی ہوتی تو وہ اسے خرید لیتے۔ حافظ العراقیؒ اس حدیث کی ایک دلچسپ تشریح بیان فرماتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی دور میں لوگوں کا موت کی خواہش کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہے، لوگ کبھی نہ کبھی مرنا چاہتے ہی ہیں، لیکن جب وہ موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں، یعنی کسی کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور جب وہ قبریں اور قبرستان دیکھتے ہیں تو موت کی خواہش ان کے اندر سرد پڑ جاتی ہے۔ سبحان اللہ! فطری طور پر انسان کو موت سے نفرت ہے۔ العراقیؒ کہتے ہیں کہ (جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا) انسان کسی قبر پر جائے اور پھر اسے دیکھنے کے بعد بھی موت کی خواہش کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بہت ہی بری حالت میں خود کو پاتا ہے۔موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر، مرنے والوں کا حال اور قبروں کا مشاہدہ بھی جسے موت کی خواہش سے نہ روکے تو اس کی حالت یہ بیان کرتی ہے کہ وہ بدترین دور سے گزر رہا ہے، ہم اللہ ہی سے ہر آزمائش سے پناہ چاہتے ہیں۔ اور ضمناً یہاں یہ بات بھی آتی ہے کہ مصائب اور آلام یا آزمائش اور امتحان کے طور پر آتے ہیں یا سزا کے طور پر۔

رومیوں کی تعداد میں اضافہ

قَالَ الْمُسْتَوْرِدُ الْقُرَشِيُّ عِنْدَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرُّومُ أَکْثَرُ النَّاسِ ( صحیح مسلم)

’’ مستورد قرشی نے حضرت عمرو بن عاص کی موجودگی میں کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت اس وقت قائم ہوگی جب نصاری تمام لوگوں سے زیادہ ہوں گے ‘‘۔

اور رومی کون ہیں؟ رومی یورپی ہیں اور پھر امریکہ، کینیڈا اور لاطینی امریکہ تک ، جہاں ان کے اجداد ہیں وہ رومی ہیں۔ کاکیشیائی لوگ یا یورپی اقوام اپنے آپ کو رومی کہتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قیامت قائم ہوگی تو یہ لوگ تعداد میں سب سے زیادہ ہوں گے۔ درحقیقت اس حدیث کا کیا معنی ہے؟ یہ منفی علامت ہے یا یہ مثبت علامت ہے، اللہ اعلم، یہ مسلمان ہوں گے یا غیر مسلم ہوں گے، ہم نہیں جانتے۔ بہرحال یہ ایک علامت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا۔ فی الحال تو یورپ کی آبادی میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یورپ کے بعض ممالک میں شرح نمو منفی میں ہے۔ مثلاً اٹلی اور کچھ دوسرے ممالک میں افراد کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ سبحان اللہ! یہ کوئی ایسی تبدیلی ہے جو ابھی واقع نہیں ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پوری دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے تباہ کردیں اور صرف یورپی ہی باقی رہ جائیں، اللہ اعلم۔ رومی ہونے کا مطلب صرف غیر مسلم نہیں ہیں، وہ مسلمان بھی ہوسکتے ہیں اور اگلے نکتے میں ہم بعض ایسی احادیث کا ذکر کریں گے جن سے معلوم ہوگا کہ اس دور میں بعض رومی مسلمان بھی ہوں گے۔

رومیوں کے ساتھ جنگیں

ہم نے بتایا کہ رومیوں سے کیا مراد ہے۔ رومی وہ سیاسی گروہ تھا جس کی حکومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یورپ اور مشرقِ وسطی کے اکثر حصوں پر تھی۔ دنیا اس وقت دو بڑی طاقتوں میں منقسم تھی، فارس اور روم۔ مملکت فارس کی حکومت عراق، ایران، مشرقی عرب کے بعض حصوں اور وسطی ایشیا کے بہت سے حصوں میں قائم تھی۔ اور آج کے ترکی، شام، فلسطین، اردن، لبنان، عراق کے مغربی حصوں پر نیز مشرقی یورپ پر مشرقی رومی مملکت کی حکومت تھی جو بازنطینی سلطنت کہلاتی تھی اور پھر رومی مملکت کا صدر مقام روم ، یعنی اٹلی میں تھا۔ لہٰذا روم آج اگر کہا جائے تو اس کا معنی یورپ ہےاور جیسا کہ ہم نے کہا کہ یورپ کے جوارح یا مغرب ہے۔یہ حدیث جس کا ہم ذکر کررہے ہیں، دو باتوں کا ذکر کرتی ہے، ایک یہ کہ مسلمانوں اور رومیوں کے مابین بڑی جنگیں ہوں گی اور دوسری بات جو یہ حدیث ظاہر کرتی ہے وہ یہ کہ رومیوں میں سے بہت سے لوگ مسلمان ہوں گے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام بہت پھیل چکا ہوگا۔یہ حدیث بخاری میں ہے۔اس ذیل میں چند احادیث ہیں۔ پہلی وہ ہے کہ جس کے بارے میں ہم پہلے بات کرچکے ہیں اور اس کے مختلف حصوں کو دیکھ چکے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرب قیامت کی چھ نشانیوں کا ذکر فرماتے ہیں، ان میں سے ایک نشانی یہ ہے:

…… هُدْنَةٌ تَکُونُ بَيْنَکُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَکُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً تَحْتَ کُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا

’’ پھر( چھٹی نشانی) وہ صلح ہے جو تمہارے اور بنو اصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہوگی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسّی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہوگی (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج کے ساتھ وہ تم پر حملہ آور ہوں گے)‘‘۔

مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان معاہدہ ہوگا اور رومی اس معاہدے کو توڑ کر مسلمانوں پر لشکرکشی کریں گے اور مسلمانوں اور رومیوں کے بیچ جنگ شروع ہوجائے گی۔ جنگ شروع کرنے والے رومی ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جو لشکر لے کر آئیں گے اس میں اسّی جھنڈے ہوں گے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسّی فوجیں ہوں گی جو اس ایک لشکر کا حصہ ہوں گی اور ہر فوج بارہ ہزار فوجیوں پر مشتمل ہوگی اور ان کی مجموعی تعداد نولاکھ ساٹھ ہزار بنتی ہے۔ غایۃ کا معنی بٹالین بھی ہوسکتا ہے یعنی اس لشکر میں اسّی بٹالین ہوں گی اور ہر بٹالین میں بارہ ہزار سپاہی ہوں گے۔ اگلی حدیث ہے:

عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ قَالَ فَأَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ عَلَيْهِمْ ثِيَابُ الصُّوفِ فَوَافَقُوهُ عِنْدَ أَکَمَةٍ فَإِنَّهُمْ لَقِيَامٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ قَالَ فَقَالَتْ لِي نَفْسِي ائْتِهِمْ فَقُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ لَا يَغْتَالُونَهُ قَالَ ثُمَّ قُلْتُ لَعَلَّهُ نَجِيٌّ مَعَهُمْ فَأَتَيْتُهُمْ فَقُمْتُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ قَالَ فَحَفِظْتُ مِنْهُ أَرْبَعَ کَلِمَاتٍ أَعُدُّهُنَّ فِي يَدِي قَالَ تَغْزُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ ثُمَّ فَارِسَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ ثُمَّ تَغْزُونَ الرُّومَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ ثُمَّ تَغْزُونَ الدَّجَّالَ فَيَفْتَحُهُ اللَّهُ فَقَالَ نَافِعٌ يَا جَابِرُ لَا نَرَی الدَّجَّالَ يَخْرُجُ حَتَّی تُفْتَحَ الرُّومُ (مسلم)

’’حضرت نافع بن عتبہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک غزوہ میں شریک تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مغرب کی طرف سے ایک قوم آئی جن پر سفید اونی کپڑے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ٹیلے کے پاس ملے۔ وہ کھڑے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ مجھے میرے دل نے کہا کہ تو بھی ان کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جا کر کھڑا ہو جا کہ کہیں وہ دھوکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہی نہ کردیں۔ پھر میں نے سوچا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کوئی راز کی بات کر رہے ہوں۔ بہرحال پھر میں ان کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ان کے درمیان کھڑا ہوگیا اور اسی دوران میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چار کلمات یاد کیے جنہیں میں نے اپنے ہاتھوں پر شمار کرلیا۔ آپ نے فرمایا: تم جزیرۂ عرب میں جہاد کرو گے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں فتح عطا فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے، ان پر بھی اللہ تمہیں فتح عطا فرمائیں گے، پھر تم روم سے جہاد کرو گے اور اللہ تعالیٰ اس پر بھی تمہیں فتح عطا فرمائیں گے، پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اس پر بھی اللہ تمہیں فتح عطا کریں گے، تو نافع نے کہا اے جابر! پھر ہم روم کی فتح سے پہلے تو دجال کو نہ دیکھیں گے‘‘۔

اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ یہ واقعات پے درپے ہوں گے، ممکن ہے کہ ان کے واقع ہونے کے درمیان کئی سو سال کافاصلہ ہو۔ جزیرۂ عرب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی فتح ہوگیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی پورے کا پورا جزیرۂ عرب اسلام کے زیر سایہ آچکا تھا۔ پھر فارس حضرت عمرؓ کے دور میں فتح ہوا۔ پھر رومیوں کے ساتھ کئی لڑائیاں ہوئیں جو اب تک جاری ہیں۔ ایک حدیث جو شاید سند کے اعتبار سے زیادہ قوی نہیں ہے، میں اسی کا بیان ہے:

فَارِسُ نَطْحَةٌ أَوْ نَطْحَتَانِ، ثُمَّ لَا فَارِسَ بَعْدَ الرُّومِ ذَاتُ الْقُرُونِ، كُلَّمَا ذَهَبَ قَرْنٌ خَلَفَهُمْ قَرْنٌ مَكَانَهُ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مملکت فارس کے لیے ایک یا دو ٹکریں ہی کافی ہیں‘‘، نطحۃ کہتے ہیں سینگوں والے مینڈھے کی ٹکر کو، جب وہ کسی چیز کو اپنے سر سے ٹکر مارے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مملکت فارس پر ایک یا دو حملے ہی کافی ہوں گے اور وہ ختم ہوجائے گی مگر رومی، وہ بہت سے سینگوں والے ہیں۔ جب ایک سینگ ٹوٹے گا تو اس کی جگہ دوسرا سینگ لے لےگا۔ اور سبحان اللہ ایسا ہی ہوا۔ مملکت فارس کے خلاف مسلمانوں نے دو بڑی لڑائیاں لڑیں اور پھر اس مملکت کی قوت ختم ہوگئی۔ پہلی جنگ قادسیہ کی اور دوسری نہاوند کی اور فارسی مملکت ختم ہوگئی،مگر رومی سلطنت کے خلاف حملوں کا ایک تسلسل ملتا ہے۔ خلفائے راشدین کے پورے دور میں مسلمان رومی سلطنت کے خلاف صف آرا رہے۔ اس کاآغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غزوۂ تبوک سے ہوا اور پھر غزوۂ موتہ ہوا۔ پھر ابوبکر ؓ کے دور میں انہوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کا لشکر روانہ فرمایا رومی سلطنت کے خلاف، پھر عمر بن خطابؓ اور پھر عثمانؓ رومیوں کے خلاف لڑےاور پھر حضرت معاویہؓ کے دور میں پھر رومیوں سے جنگ ہوئی اور اموی خلافت کے دور میں بھی یہ جنگیں جاری رہیں، پھر عباسی خلافت کے دور میں، پھر محمد الفاتح کے ہاتھوں مشرقی رومی سلطنت یعنی بازنطینی سلطنت مغلوب ہوئی لیکن پھر مغربی رومی سلطنت نے زور پکڑا اور عثمانی خلافت کے خلاف لڑنا شروع کیا۔ عثمانی خلافت اپنے پورے دور میں ا ن کے خلاف لڑتی رہی اور پھر مسلمانوں کی سرزمینوں پر یورپی ممالک ، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کا قبضہ ہوگیا…… المختصر یہ ایک طویل سلسلہ ہے، جب ایک شاخ ٹوٹ کر گرتی ہے تو ایک نئی شاخ اگ جاتی ہے۔ اگلی حدیث مبارک صحیح مسلم کی ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ أَوْ بِدَابِقٍ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ مِنْ الْمَدِينَةِ مِنْ خِيَارِ أَهْلِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ فَإِذَا تَصَافُّوا قَالَتْ الرُّومُ خَلُّوا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الَّذِينَ سَبَوْا مِنَّا نُقَاتِلْهُمْ فَيَقُولُ الْمُسْلِمُونَ لَا وَاللَّهِ لَا نُخَلِّي بَيْنَکُمْ وَبَيْنَ إِخْوَانِنَا فَيُقَاتِلُونَهُمْ فَيَنْهَزِمُ ثُلُثٌ لَا يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ أَبَدًا وَيُقْتَلُ ثُلُثُهُمْ أَفْضَلُ الشُّهَدَائِ عِنْدَ اللَّهِ وَيَفْتَتِحُ الثُّلُثُ لَا يُفْتَنُونَ أَبَدًا فَيَفْتَتِحُونَ قُسْطَنْطِينِيَّةَ فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْغَنَائِمَ قَدْ عَلَّقُوا سُيُوفَهُمْ بِالزَّيْتُونِ إِذْ صَاحَ فِيهِمْ الشَّيْطَانُ إِنَّ الْمَسِيحَ قَدْ خَلَفَکُمْ فِي أَهْلِيکُمْ فَيَخْرُجُونَ وَذَلِکَ بَاطِلٌ فَإِذَا جَائُوا الشَّأْمَ خَرَجَ فَبَيْنَمَا هُمْ يُعِدُّونَ لِلْقِتَالِ يُسَوُّونَ الصُّفُوفَ إِذْ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَيَنْزِلُ عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مسلم)

’’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قیامت قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ رومی اعماق (شام میں حلب اور انطاکیہ کے درمیان ایک پر فضا علاقہ جو دابق شہر سے متصل واقع ہے) یا دابق میں اتریں گے۔ ان کے ساتھ مقابلے کے لیے اس وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں کا ایک لشکر روانہ ہوگا؛ جب وہ (دشمن کے سامنے) صف آراء ہوں گے تو رومی (عیسائی ) کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے، ہم ان سے لڑیں گے ( یہ وہ رومی ہوں گے جو یا تو اپنی صفوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں شامل ہوگئے یا پھر مسلمانوں نے ان کو جنگی قیدی بنایا اور اب رومی ان کا مطالبہ کریں گے تاکہ وہ انہیں قتل کرسکیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے۔ یہ رومی فوج کے وہ سپاہی ہوں گے جو مسلمان ہوگئےلہٰذا رومی فوج ان کو قتل کرنا چاہےگی)، جواباً مسلمان کہیں گے: اللہ کی قسم ! نہیں! ہم اپنے بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیں گے کہ تم ان سے لڑتے رہو (اسلام نے انہیں بھائی بھائی بنا دیا۔وہ ایک دوسرے سے جنگ کرنے آئے تھے، مگر جب ان رومی سپاہیوں نے اسلام قبول کرلیا تو مسلمانوں نے انہیں اپنا بھائی کہا اور ان کی واپسی سے انکار کردیا)۔ چنانچہ وہ ان (عیسائیوں ) سے جنگ کریں گے۔ (جنگ شروع ہوجائے گی اور یہ خوب شدید جنگ ہوگی اور رومی فوج بہت طاقتور اور مضبوط ہوگی)۔ بالآخر ایک تہائی مسلمان بھاگ جائیں گے (جنگ کی شدت کی بنا پر، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اللہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا (یہ ایک تہائی مسلمان جو جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، اللہ رب العزت کبھی ان کی توبہ قبول نہیں فرمائے گا کیونکہ جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے، الّا یہ کہ جنگی حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹا جائے)اور ایک تہائی قتل کردیے جائیں گے،جو اللہ کے نزدیک افضل ترین شہداء ہوں گے۔ اور ایک تہائی فتح حاصل کریں گے اور وہ کبھی فتنے میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ ( ان فتح یاب ہونے والوں کو اللہ رب العزت ثبات نصیب فرمائے گا اور یہ کبھی گمراہ نہیں ہوں گے) ۔ پس وہ قسطنطنیہ کو (دوبارہ) فتح کریں گے (قسطنطنیہ آج کے دور کا استنبول ہے ۔ اسے ایک مرتبہ پہلے محمد الفاتح فتح کرچکے ہیں مگر وہ دوسرا دور تھا۔ لہٰذا رومیوں سے اس جنگ کے بعد مسلمان اسے دوبارہ فتح کریں گے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رومیوں نے مسلمانوں کے کچھ علاقوں پر قبضہ کررکھا ہوگا)۔ (پھر) جب وہ مال غنیمت تقسیم کر رہے ہوں گے اور اپنے ہتھیار انھوں نے زیتون کے درختوں سے لٹکائے ہوئے ہوں گے تو اچانک شیطان چیخ کر کہے گا: مسیح دجال تمہارے بال بچوں تک پہنچ چکا ہے۔ وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوں گے مگر یہ جھوٹ ہوگا ۔ جب وہ شام پہنچیں گے تو اس وقت دجال نکلے گا (یعنی یہ تمام واقعات مسیح دجال کے خروج کے قریب کے زمانے میں پیش آئیں گے) ۔ اس دوران جب وہ جنگ کے لیے تیاری کررہے ہوں گےاور صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی، اس وقت حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نازل ہوں گے ‘‘۔

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاء أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ فُسْطَاطَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الْمَلْحَمَةِ بِالْغُوطَةِ إِلَی جَانِبِ مَدِينَةٍ يُقَالُ لَهَا دِمَشْقُ مِنْ خَيْرِ مَدَائِنِ الشَّامِ (ابو داؤد)

’’ سیدنا ابودرداءؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگ کے موقع پر مسلمانوں کا خیمہ ( مرکز ) دمشق نامی شہر کی جانب میں واقع مقام غوطہ ہوگا اور دمشق شام کے بہترین شہروں میں سے ہوگا ‘‘۔

فسطاط بڑے خیمے کو کہتے ہیں اور یہاں اس کا معنی مسلمان فوجوں کا پڑاؤ ہے۔ پس اس حدیث کے مطابق مسلمان فوجوں کا مرکز غوطہ میں ہوگا جو شام کے ایک شہر، دمشق کے قریب یا اس کے اطراف میں واقع ہوگا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دمشق شام کے شہروں میں سے اس وقت بہترین شہروں میں شمار ہوگا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعْتُمْ بِمَدِينَةٍ جَانِبٌ مِنْهَا فِي الْبَرِّ وَجَانِبٌ مِنْهَا فِي الْبَحْرِ قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَغْزُوَهَا سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ بَنِي إِسْحَقَ فَإِذَا جَائُوهَا نَزَلُوا فَلَمْ يُقَاتِلُوا بِسِلَاحٍ وَلَمْ يَرْمُوا بِسَهْمٍ قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ فَيَسْقُطُ أَحَدُ جَانِبَيْهَا قَالَ ثَوْرٌ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ الَّذِي فِي الْبَحْرِ ثُمَّ يَقُولُوا الثَّانِيَةَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ فَيَسْقُطُ جَانِبُهَا الْآخَرُ ثُمَّ يَقُولُوا الثَّالِثَةَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ فَيُفَرَّجُ لَهُمْ فَيَدْخُلُوهَا فَيَغْنَمُوا فَبَيْنَمَا هُمْ يَقْتَسِمُونَ الْمَغَانِمَ إِذْ جَائَهُمْ الصَّرِيخُ فَقَالَ إِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَرَجَ فَيَتْرُکُونَ کُلَّ شَيْئٍ وَيَرْجِعُونَ (مسلم)

’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے ایک شہر کاسنا ہے جس کی ایک جانب خشکی میں اور دوسری طرف سمندر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ بنو اسحاق میں سے ستر ہزار آدمی جنگ نہ کرلیں۔ جب وہ وہاں آئیں گے تو اتریں گے، وہ نہ ہتھیاروں سے جنگ کریں گے اور نہ تیر اندازی کریں گے، وہ کہیں گے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ تو اس سے اس شہر کی ایک طرف گر جائے گی۔ ثور نے کہا میں سمندر کی طرف کے علاوہ کوئی دوسری طرف نہیں جانتا۔ پھر وہ دوسری مرتبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ کہیں گے تو شہر کی دوسری طرف بھی گرجائے گی۔ پھر وہ تیسری مرتبہ کہیں گے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ پس ان کی لیے کشادگی کر دی جائے گی اور وہ اس میں داخل ہو جائیں گے اور مال غنیمت لوٹ لیں گے۔ پس اسی دوران کہ وہ مال غنیمت آپس میں تقسیم کر رہے ہوں گے کہ انہیں ایک چیخ سنائی دے گی جو کہہ رہا ہوگا کہ دجال نکل چکا ہے تو وہ ہر چیز چھوڑ کر لوٹ جائیں گے‘‘۔

اگر علمائے حدیث نے تصریح نہ فرمائی ہوتی تو کوئی یہ گمان کرسکتا تھا کہ یہ شہر یورپ کے شہروں میں سے کوئی شہر ہے مثلاً وینس جس کا کچھ حصہ خشکی میں ہے اور کچھ سمندر میں۔ مگر علمائے حدیث نے تصریح فرمائی کہ اس حدیث میں قسطنطنیہ کا ذکر ہے۔ اور اس کی تطبیق اس طرح سے ہے کہ استنبول کا کچھ حصہ ایشیا میں ہے اور باقی یورپ میں اور دونوں حصوں کو باسفورس ملاتا ہے۔ لہٰذا استنبول کی ایک سمت ایشیائی ہے اور دوسری یورپی اور ان دونوں حصوں میں سے ایک آبنائے گزرتی ہے۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا بعض حصہ سمندر میں ہے اور بعض خشکی میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ بنو اسحاق کے ستّر ہزار مسلمان اس شہر پر حملہ نہ کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کسی قسم کے ہتھیاروں سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ وہ ایک مرتبہ کہیں گے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ اور شہر کی ایک سمت گرجائے گی، پھر وہ دوسری مرتبہ کہیں گے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ اور شہر کی دوسری سمت بھی گرجائے گی اور جب وہ تیسری مرتبہ کہیں گے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ تو شہر فتح ہوجائے گا اور وہ اس میں داخل ہوجائیں گے۔پس یہ بنو اسحاق کون ہیں؟ یہودی بھی بنو اسحاق میں سے ہیں۔ علمائے حدیث مثلاً ابن کثیرؒ اور امام نوویؒ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ رومی ہوں گے جو مسلمان ہوچکے ہوں گے ۔ ابتدائی دور کے مسلمان تاریخ دان رومیوں کو بنو اسحاق کی نسل سے بتاتے ہیں۔ اسلام کی ابتدائی کتابیں جو مسلمان تاریخ دان حضرات نے لکھی ہیں، ان میں درج ہے کہ رومی العیس بن اسحاق کی اولاد ہیں، لہٰذا یہ حدیث رومی مسلمانوں کا ذکر کررہی ہے جو مسلمان فوج کا حصہ ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو استنبول کو فتح کریں گے۔ یہ یہودی بھی ہوسکتے ہیں جو مسلمان ہوگئے ہوں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ بنو اسحاق کی نسل سے ہوں گے اور مسلمان ہوں گے کیونکہ وہ استنبول کو دعا سے، اللہ کے نام سے فتح کریں گے۔یا یہ وہیں پر بسنے والے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ ترکی کی سرزمین، ایشیائے کوچک، بازنطینی سلطنت کا حصہ ہوتی تھا، تو ممکن ہے کہ جو لوگ وہاں بستے ہیں اور اب مسلمان ہوچکے ہیں وہی اس شہر کو فتح کریں۔ ہم جب قرب قیامت کی نشانیوں کی بات کرتے ہیں تو ہم غیب کی بات کرتے ہیں، مستقبل میں آنے والے واقعات جن کا ہمیں علم نہیں ہے۔ ہم اگر کچھ جانتے ہیں تو وہ احادیث کے لغوی معنی ہیں، لہٰذا علمائے حدیث کی تشریح درست بھی ہوسکتی ہے اور نہیں بھی کیونکہ یہ مستقبل کے واقعات ہیں جن کا علم صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کے پاس ہے۔اور ان احادیث کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہمارے لیے مستقبل میں پیش آنے والے حالات کا نقشہ بنا دیا جائے بلکہ ان احادیث کا پہلا مقصد یہ ہے کہ اسلام کا معجزہ ظاہر کیا جائے، حدیث کا معجزہ کہ یہ مستقبل میں آنے والے واقعات ہیں جن کا علم کسی کو نہیں اور یہ اسی طرح واقع ہورہے ہیں جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان فرمائے گئے ہیں، ان احادیث کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کے لیے بشارت ہیں۔ ان میں سے بہت سی احادیث ہمارے لیے خوشخبریوں پر مبنی ہیں سو یہ ہمیں اپنے دین پر اعتماد اور مضبوطی عطا کرتی ہیں اور یہ مستقبل کے لیے نشانیوں کا کام بھی کرتی ہیں کیونکہ دور فتن میں ہمیں بہرحال رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مستقبل کے بعض ادوار میں جب حالات بہت سخت ہوجائیں گے ، اس وقت یہ احادیث ہمارے لیے سنگ ہائے میل اور رہنمائی کا کام دیں گی، البتہ یقینی طور پر ہم ان احادیث میں بیان کردہ واقعات کی تطبیق اسی وقت کرسکتے ہیں جب یہ واقعات ظہور پذیر ہوں گے۔مثلاً وہ حدیث جس میں مدینہ سے ایک آگ کے نکلنے کا ذکر ہے جس کی روشنی میں بُصرہ کے اونٹوں کی گردنیں دکھائی دیں۔ اس آگ کا کیا مطلب تھا، کوئی نہیں جانتا تھا حتی کہ یہ واقعہ رونما ہوا۔یہ ایک آتش فشاں تھا۔ بہت سے لوگوں نے شاید کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ حدیث میں جس آگ کا ذکر ہے وہ دراصل ایک آتش فشاں ہے، کیونکہ حدیث میں مدینہ سے نکلنے والی آگ کا ذکر ہے۔ آگ آتش زدگی سے بھی ہوسکتی ہے اور بڑھ پھیل کر بہت بڑا ا لاؤ بھی بن سکتی ہے، لیکن جب یہ واقعہ رونما ہوگیا تو ہمیں یقینی علم حاصل ہوگیا کہ حدیث شریف کا کیا معنی تھا۔اسی طرح دیگر احادیث کا بھی معاملہ ہے، واللہ اعلم۔

عہد قحطانی

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ قَحْطَانَ يَسُوقُ النَّاسَ بِعَصَاهُ (بخاری)

’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم ہونے سے پہلے قحطان (کے قبیلہ) سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو اپنی لاٹھی سے لوگوں کو ہانکے گا‘‘۔

ایک اور حدیث جسے ابن عباسؓ نے روایت کیا ہے اور جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفا کا تذکرہ فرمایا اور فرمایا ’’ایک شخص جو (قبیلۂ) قحطان سے ہوگا اور وہ سب کے سب صالح ہیں‘‘۔ کیونکہ پہلی حدیث سے یہ تاثر لیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ قحطانی کوئی ظالم شخص ہوگا جو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا، لیکن اس دوسری حدیث کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پہلی حدیث میں مذکور شخص خلیفہ ہوگا اور وہ صالح ہوگا۔قحطان کون ہیں؟قحطان یمنی عربوں کے اجداد ہیں، یمنی عرب قحطانی النسل ہیں۔ لہٰذا یہ شخص یمنی ہوگا اور یہ خلیفہ بنے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ یہ لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکے گا۔ یعنی وہ شخص صالح مگر سخت گیر ہوگا۔جس کا معنی یہ ہےکہ وہ برائی کے خلاف اور سزائیں دینے میں بہت سخت ہوگا۔ حدیث کے مطابق وہ شخص قوت والا ہوگا جبھی تو لوگوں کو اپنی لاٹھی سے سیدھا کرے گا مگر اس کی سختی خیر کے لیے ہوگی اور بھلائی لیے ہوئے ہوگی۔ ممکن ہے کہ یہ مہدی کے دور سے پہلے ہو مگر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہدی کے دور کے بعد ہوگا۔

یہود کے ساتھ جنگ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلُهُمْ الْمُسْلِمُونَ حَتَّی يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَائِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوْ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ (صحیح مسلم)

’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور انہیں قتل کردیں، یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا: اے مسلمان !اے عبداللہ! یہ یہودی میرے پیچھے ہے، آؤ اور اسے قتل کردو ،سوائے درخت غرقد کے، کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے‘‘۔

قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ مسلمانوں اور یہود کے مابین جنگ ہوگی اور اس کا نتیجہ اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب مسلمانوں اور یہود کے بیچ جنگ ہوگی تو مسلمان یہودیوں کو قتل کریں گے اور یہودی درختوں اور پتھروں کے پیچھے چھپتے پھریں گے، اور درخت اور پتھر پکار پکار کر مسلمانوں سے کہیں گے کہ اے مسلمان، اے اللہ کے بندے ہمارے پیچھے یہودی چھپاہوا ہے ، آؤ اور اسے قتل کرو، سوائے غرقد کے درخت کے۔غرقد جھاڑیوں کی ایک قسم ہے اور جو لوگ فلسطین سے آتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ یہود اس جھاڑی کو بڑے پیمانے پر کاشت کررہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غرقد کا درخت مسلمانوں کو یہودی کی خبر نہیں دے گا کیونکہ یہ یہود کا درخت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہود اسے کثرت سے کاشت کررہے ہیں۔

یہاں میں آپ کی توجہ ایک نکتے کی طرف دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائیاں ہوتی رہی ہیں مگر وہ واضح نہیں تھیں، قومیت یا قبائلی عصبیت کی وجہ سے تھیں، اسلام کے واضح شعار لا الہ الا اللہ کے جھنڈے تلے نہیں تھیں۔ اب تک کوئی جنگ بھی ’مسلمانوں‘ کی ’یہود‘ کے خلاف نہیں رہی، بلکہ یہ جنگیں سیاسی حکومتوں کے مابین تھیں جن کی وفاداریاں ان کے مفادات سے جڑی تھیں، نہ کہ اللہ تعالیٰ سے۔ امت نے بطور امت اب تک یہود کے خلاف جنگ نہیں لڑی۔ گزشتہ جنگوں کا نتیجہ محض نقصان ہی تھا، ان سب میں یہود کو کامیابی حاصل ہوئی۔ جب کہ اس حدیث میں ہمیں کچھ مختلف چیز نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ فتح مسلمانوں کو ملے گی اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ محض اس لیے لڑرہے ہوں گے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اور جب شجر و حجر پکار پکار کر یہود کے خلاف بلائیں گے تو وہ فلسطینیوں کو نہیں بلائیں گے، وہ کہیں گے اے اللہ کے بندے، اے مسلمان! یہ شجر و حجر کسی ملک کسی قومیت کو نہیں جانتے ہوں گے، یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ آپ کہاں سے آئے ہیں، یہ صرف یہ جانتے ہوں گے کہ آپ مسلمان ہیں اور آپ اللہ کے بندے ہیں۔ اگر آپ کی شناخت مسلمان نہیں ہے، اگر آپ کسی اور شناخت کے ماتحت لڑرہے ہیں تو یہ پتھر آپ کو نہیں پہچانے گا، یہ آپ کو صرف تبھی پہچانے گا جب آپ مسلم شناخت کے تحت لڑیں اور اسی کے ذریعے وہ آپ کو پکارے گا۔

مدینہ خبثاء کو باہر نکال دے گا

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَدْعُو الرَّجُلُ ابْنَ عَمِّهِ وَقَرِيبَهُ هَلُمَّ إِلَی الرَّخَائِ هَلُمَّ إِلَی الرَّخَائِ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ کَانُوا يَعْلَمُونَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَخْرُجُ مِنْهُمْ أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَخْلَفَ اللَّهُ فِيهَا خَيْرًا مِنْهُ أَلَا إِنَّ الْمَدِينَةَ کَالْکِيرِ تُخْرِجُ الْخَبِيثَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تَنْفِيَ الْمَدِينَةُ شِرَارَهَا کَمَا يَنْفِي الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ (بخاری)

’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی اپنے بھتیجے اور اپنے قرابت والے کو پکارے گا کہ خوشحالی کے ملک میں چلو، خوشحالی کے ملک میں چلو۔ حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا کاش کہ وہ جانتے ہوتے۔ اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے! کہ کوئی شخص مدینہ سے بےزار ہو کر نہیں نکلتا مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر دوسرا شخص مدینہ میں بھیج دیتا ہے۔ آگاہ رہو کہ مدینہ لوہار کی بھٹی کی مانند ہے کہ وہ میل کو نکال دیتی ہے اور قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ مدینہ اپنے شریر لوگوں کو نکال نہ دے جیسے کہ بھٹی لوہے کی میل کو نکال دیتی ہے‘‘۔

حدیث میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو آسانی اور سہولت کی خاطر مدینہ سے نقل مکانی کرتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو بھی مدینہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں سکونت اختیار کرنے کی تحریض دیتے ہیں کہ یہاں معیار زندگی بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے اگر وہ جانتے۔ دنیا کے مختلف حصوں سے لوگ مثلاً امریکہ آتے ہیں اور یہاں کا معیار زندگی انہیں بہتر نظر آتا ہے تو وہ اپنے بھائیوں، اپنے چچا زاد بھائیوں کو بھی یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح مدینہ سے نکلنے والے بھی جب کہ وہ جانتے ہیں کہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بھی کوئی مدینہ کو اس لیے چھوڑ جاتا ہے کہ اسے مدینہ سے محبت نہیں تو اللہ اس سے بہتر کسی شخص کو وہاں لابساتے ہیں۔

کیا یہ حدیث عموم کو مخاطب ہے؟یا یہ کسی مخصوص دور کا ذکر ہے یا مستقل ہی مدینہ کا یہ معاملہ ہے؟قاضی عیاضؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص ہے۔جب کہ امام نوویؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث دجال کے دور کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ دو آرا ہیں اور دونوں ہی دلائل پر مبنی ہیں۔ قاضی عیاض اپنی رائے کے حق میں یہ حدیث لاتے ہیں :

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْإِسْلَامِ فَأَصَابَهُ وَعْکٌ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَی ثُمَّ جَائَهُ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَی فَخَرَجَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةُ کَالْکِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا (بخاری)

’’جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر اسے شدید بخار آگیا تو اس نے کہا کہ میری بیعت واپس کر دیجیے۔ آپﷺ نے انکار کردیا، وہ پھر آپ کے پاس آیا اور کہا کہ میری بیعت واپس کر دیجیے، آپ ﷺنے انکار کیا، آخر وہ (خود ہی مدینہ سے) چلا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ بھٹی کی طرح ہے اپنی میل کچیل دور کردیتا ہے اور صاف مال کو رکھ لیتا ہے‘‘۔

مدینہ کا موسم بہت غیر موزوں ہے، حتی کہ اپنے اردگرد کے علاقوں سے مختلف ہے۔مدینہ کا موسم بہت گرم اور بہت خشک ہے۔ جب صحابہ کرام ؓ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ گئے ، تو چونکہ وہ ایک خاص طرح کے موسم اور ماحول کے عادی تھے لہٰذا مدینہ جاکر وہ بیمار ہوگئے۔اس دور میں مدینہ میں بخار پھیلا ہوا تھا۔ مستقل بخار کی کوئی کیفیت تھی مدینہ میں، فُلو یا اس قسم کی کوئی بیماری۔ مہاجرین صحابہ کو مدینہ میں بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔ انصار کا تو وہ اپنا علاقہ تھا وہ وہاں کے موسم کے عادی تھے لہٰذا ان کے لیے اتنی مشکل نہ تھی مگر مہاجرین کو بہت مشکل اٹھانا پڑی۔ قریش کو بھی خبر پہنچی کہ مہاجرین بہت برے حال میں ہیں اور بہت کمزور ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریش پر مسلمانوں کی قوت واضح کردینا چاہتے تھے جب آپ نے عمرہ کیا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ طواف کے ابتدائی تین چکر بھاگ کر طے کریں تاکہ صحابہ کی قوت نظر آئے اور یہ معلوم ہو کہ مدینہ کے بخار نے انہیں کمزور نہیں کیا۔ یہ سنت ہے کہ طواف کعبہ کے ابتدائی تین چکر بھاگ کر طے کیے جائیں۔ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخار کو مدینہ سے باہر نکالنے کے لیے دعا فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے بخار مدینہ کے اطراف منتقل ہوگیا۔لیکن پھر بھی مدینہ کی آب و ہوا غیر موزوں ہے۔ قاضی عیاض کی دلیل مذکورہ حدیث ہے کہ مدینہ میں سکونت ترک کرنے کے حوالے سے حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص ہے۔امام نوویؒ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث دجال کے دور کے ساتھ مخصوص ہے، ان کی دلیل بھی بخاری کی ایک حدیث ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِيئُ الدَّجَّالُ حَتَّی يَنْزِلَ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ کُلُّ کَافِرٍ وَمُنَافِقٍ

’’سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دجال آئے گا اور مدینہ طیبہ کے ایک کنارے پر ٹھہرے گا (کیونکہ دجال مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا)۔ اس کے بعد مدینہ تین مرتبہ بھونچال سے دو چار ہوگا یا مدینہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا۔ اس کے نتیجے میں ہر کافر اور منافق نکل کر اس (دجال) کی طرف چلا جائے گا‘‘۔

یہ دلیل امام نووی کی ہےکہ مذکورہ حدیث فتنۂ دجال کے دور کے بارے میں ہے۔ ابن حجر عسقلانیؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک اور دجال کے دور دونوں سے متعلق ہے۔ بعض دیگر علما فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عمومی ہے اور یہ تمام حالات کے لیے ہے مگر پھر کوئی سوال کرسکتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بڑے بڑے صحابہ نے مدینہ چھوڑا؟ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ معاذ بن جبل، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم نے مدینہ چھوڑا اور حضرت علیؓ نے تو اپنا دارالخلافہ ہی مدینہ سے باہر عراق میں بنایا۔ اگر یہ حدیث عمومی ہے اور ہر دور پر منطبق ہوتی ہے تو بڑے بڑے صحابہ کرام نے یہ جانتے ہوئے کہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے مدینہ کو کیسے چھوڑا؟ واللہ اعلم۔

لہٰذا آنے والے ادوار میں برے لوگ، خبثا مدینہ چھوڑ دیں گے مگر پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب مدینہ کو خالی چھوڑ دیا جائے گا، سب کے سب مدینہ سے چلے جائیں گے اور مدینہ بالکل خالی رہ جائے گا۔اور یہ بالکل آخر الزمان میں ہوگا، امام مہدی کے ظہور کے بعد اور حضرت عیسی علیہ السلام کے بابرکت دور کے بھی بعد۔ بخاری شریف کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د ہے:

يَقُولُ يَتْرُکُونَ الْمَدِينَةَ عَلَی خَيْرِ مَا کَانَتْ لَا يَغْشَاهَا إِلَّا الْعَوَافِ يُرِيدُ عَوَافِيَ السِّبَاعِ وَالطَّيْرِ وَآخِرُ مَنْ يُحْشَرُ رَاعِيَانِ مِنْ مُزَيْنَةَ يُرِيدَانِ الْمَدِينَةَ يَنْعِقَانِ بِغَنَمِهِمَا فَيَجِدَانِهَا وَحْشًا حَتَّی إِذَا بَلَغَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ خَرَّا عَلَی وُجُوهِهِمَا (بخاری)

’’تم لوگ مدینہ کو اچھے حال میں چھوڑو گے۔ پھر وہاں وحشی جانور یعنی درندے اور چرندے ہی چھاجائیں گے اور آخر میں مزینہ کے دو چرواہے مدینہ آئیں گے تاکہ اپنی بکریاں ہانک کرلے جائیں تو وہاں صرف وحشی جانور پائیں گے، پھر جب وہ ثنیۃ الوداع پر پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گرجائیں گے‘‘۔

ایک اور حدیث جسے موطا امام مالک نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَتُتْرَکَنَّ الْمَدِينَةُ عَلَی أَحْسَنِ مَا کَانَتْ حَتَّی يَدْخُلَ الْکَلْبُ أَوْ الذِّئْبُ فَيُغَذِّي عَلَی بَعْضِ سَوَارِي الْمَسْجِدِ أَوْ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلِمَنْ تَکُونُ الثِّمَارُ ذَلِکَ الزَّمَانَ قَالَ لِلْعَوَافِي الطَّيْرِ وَالسِّبَاعِ (موطا امام مالک)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مدینہ کو اس کے اچھے حال میں چھوڑ دو گے یہاں تک کہ کتا یا بھیڑیا آکر مسجد کے ستونوں یا منبر پر پیشاب کرے گا۔ صحابہ نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! اس زمانے میں مدینہ کے پھلوں کا کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ وہ پرندوں اور جانوروں کے لیے رہ جائیں گے‘‘۔

یقینی بات ہے کہ مدینہ انسانوں سے بالکل خالی ہوگا جبھی کتے اور بھیڑیے اور دیگر جانور مسجد نبوی میں داخل ہوسکیں گے اور وہاں گندگی کریں گے۔ اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ آخر الزمان میں ہوگا اور اس کے بعد قیامت قائم ہوجائے گی۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ مدینہ کے پھلوں کا کیا ہوگا ؟ کون ان سے فائدہ اٹھائے گا کیونکہ مدینہ اپنی کھجور اور پھلوں کی فراوانی کے لیے مشہور ہے۔ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ خروج دجال تک مدینہ پھلتا پھولتا شہر ہوگا ، لوگ اس میں بستے ہوں گے اور یہ بہت اچھی حالت میں ہوگا اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک ایسا ہی رہے گا حتی کہ حضرت عیسیٰؑ مدینہ میں وفات پاجائیں گے اور وہیں دفن کیے جائیں گے ۔اس کے بعد مدینہ کو خالی چھوڑ دیا جائے گا اور یہ تباہ ہوجائے گا، مگر یہ آخر الزمان میں ہوگا جب نیک لوگ باقی نہیں ہوں گے۔

حافظ ابن حجر عوف بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ مدینہ کتنا عرصہ خالی رہے گا؟ آپ صلی اللہ نے فرمایا، چالیس سال۔مدینہ کے خالی ہونے کی وجہ یہ ہوگی کہ اس دور میں کوئی اللہ کی عبادت کرنے والا باقی نہیں رہے گا۔ آج مدینہ کو آباد رکھنے والی کیا چیز ہے؟ مدینہ تجارت اور کاروبار کی وجہ سے آباد نہیں ہے بلکہ اللہ کی عبادت نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔ مکہ اور مدینہ کو باقی اور آباد رکھنے والی چیز امت ہے جو ان دونوں مقدس مقامات پر مراسم عبودیت ادا کرتی ہے۔ جب کوئی عبادت کرنے والا باقی نہیں رہے گا تو یہ شہر خالی اور ویران ہوجائیں گے۔

بابرکت ہوا اہل ایمان کی روحیں قبض کرے گی

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ رِيحًا مِنْ الْيَمَنِ أَلْيَنَ مِنْ الْحَرِيرِ فَلَا تَدَعُ أَحَدًا فِي قَلْبِهِ قَالَ أَبُو عَلْقَمَةَ مِثْقَالُ حَبَّةٍ و قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ (مسلم)

’’ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بےشک اللہ تعالیٰ یمن سے ایک ہوا بھیجے گا جو ریشم سے زیادہ نرم ہوگی اور کسی ایسے شخص کو نہ چھوڑے گی جس کے دل میں ( ابو علقمہ نے کہا : ایک دانے کے برابر اور عبد العزیز نے کہا : ایک ذرے کے برابر بھی) ایمان ہوگا مگر اس کی روح قبض کرلے گی‘‘ ۔

تمام اہل ایمان کی روح قبض کرلی جائے گی،لہٰذا آخر الزمان میں باقی رہ جانے والے صرف وہ لوگ ہوں گے جن کے دلوں میں ذرہ برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔اور یہی وقت ہوگا جب مقامات مقدسہ ویران ہوجائیں گے۔جب زمین کی پیٹھ پر ایک بھی اہل ایمان باقی نہیں رہے گا اور دنیا میں کوئی بھی نیک او رصالح شخص نہ ہوگا۔اور اسی دور میں کعبہ بھی تباہ ہوجائے گا جو اگلی نشانی ہے قیامت کی۔

[یہ سلسلۂ مضامین نابغۂ روزگار مجاہد و داعی شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انگریزی میں ارشاد کیے گئے سلسلۂ دروس ’Al-Aakhirah – The Hereafter‘ کا اردو ترجمہ ہیں، جو بِتوفیق اللہ، قسط وار مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں ۔ شیخ انور کو دعوت الی اللہ کے جرم میں امریکہ نے ایک ڈرون حملے کا نشانہ بنایا جس میں آپ اپنی ایک اہلیہ سمیت سنہ ۲۰۱۱ء کے نصفِ ثانی میں جامِ شہادت نوش کر گئے! ]

Previous Post

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوندزاہ نصرہ اللہ کی ہدایات……مجاہدین کے نام

Next Post

فضائلِ نماز | دوسری قسط

Related Posts

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | پچیسواں درس

14 اگست 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

14 جولائی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بائیسواں درس

25 مئی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | اکیسواں درس

14 مارچ 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بیسواں درس

15 نومبر 2024
Next Post

فضائلِ نماز | دوسری قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version