سویڈن میں کلام اللّٰہ، مُنَزّل علی رسول اللّٰہ(صلی اللّٰہ علیہ وسلم)، قرآنِ عظیم الشان کی توہین کے واقعے نے اہلِ ایمان کے دل تو چھلنی کیے ہی، ساتھ ہی اہلِ کفر خاص کر صلیبی صہیونی کافروں کے خبثِ باطن کو بھی ظاہر کیا اور اہلِ نفاق کی منافقت بھی عیاں کر دی۔ ہتک و توہین بڑی چیزوں ہی کی، کی جاتی ہے۔ جب كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلاً1، کوتاہ و پست لوگ ایمان کے نور کے سامنے شکستہ ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے بغض و عناد اور غضب بسببِ کفر میں اللّٰہ وحدہٗ لا شریک، رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)، کلام اللّٰہ اور شعائرِ دینُ اللّٰہ کی توہین کرتے ہیں۔ یوں وہ اپنے کفر میں مزید پکے ہو جاتے ہیں۔ فرعونِ دہر، طاغوتِ اکبر امریکہ قرآنِ عظیم الشان کی توہین کے واقعے کو ’lawful‘ قرار دیتا ہے، پس اس طاغوت کے سبھی پیروکار، امریکہ کی اقتدا کرتے ہیں۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ کا ترجمان ’نیڈ پرنس‘ اس واقعے کو جمہوریت و آزادیٔ اظہار کا ’اظہار‘ کہتا ہے۔ کیسی منافقت پر مبنی ہے یہ ’آزادیٔ اظہار‘؟ امریکی آئین و قانون اور نام نہاد ’اقدار‘(values) کی گستاخی ناجائز، برطانوی امپیریل ازم پر انگلی اٹھانا نا جائز، قابض و جارح اسرائیل کے خلاف بولنا ’اینٹی سیمی ٹیزم‘ کے عنوان تلے نا جائز! لیکن قرآن کی توہین جائز؟!
دراصل عالمی کفری نظام کا یک نقاطی مشن و ایجنڈا ہے، مخالفتِ اسلام! اسلام کے بالمقابل ہر کتاب، ہر نظریہ، ہر عقیدہ، ہر دین، ہر نظام اور ہر ازم مقبول ہے اور اسلام کے مقابل ان سارے نظاموں کے ڈھیلے ڈھالے اکٹھ کا نام جدید عالمی نظام ہے۔ اس نظام کا رنگ روپ امریکہ میں ذرا معتدل سیکولرازم ہے تو فرانس میں شدت پسند سیکولرازم ، ہندوستان میں یہی نظام ہندتوا کے پرچارکوں کا حامی ہے تو پاکستان میں یہی نظام ’اسلامی جمہوریہ‘ کے عنوان تلے کام کرتا ہے۔پھر یہ نظام امریکہ میں ٹیری جونز کا سہولت کار و محافظ بھی ہے، برطانیہ ثم امریکہ میں سلمان رشدی کا، سویڈن و امریکہ میں تسلیمہ نسرین کا، پاکستان و کینیڈا و فرانس میں سلمان تاثیر، رمشا مسیح، آسیہ مسیح کا، بھارت میں نپور شرما کا اور حال ہی میں سویڈن و ڈنمارک میں راسموس پلودان کا اور امریکہ تو اس سب کو lawful جانتا ہی ہے۔
بلا شبہ ہم اہلِ ایمان کا یہ شرف و اعجاز ہے کہ خاکم بدہن اہلِ کفر گستاخ چاہے جتنے بھی نسخہ ہائے قرآن نذرِ آتش کر دیں، ہم اور ہماری اولادیں اس قرآن کی حفاظت اس کو اپنے سینوں میں محفوظ کر کے کرتی ہیں، لیکن یہ نکتہ اہلِ ایمان کو بہر حال یاد رکھنا چاہیے کہ اللّٰہ کی شریعت اس طرح کی گستاخیوں کا علاج کیا بتاتی ہے؟ حفظِ قرآن، قرآن کے نسخوں کو مزید چھاپ کر ان کی تقسیم اور حضور (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کی سیرت کا فروغ، اس مسئلے کا حلِ محض نہیں۔ اگر ان گستاخیوں کا علاج فروغِ معلوماتِ اسلام و فروغِ علم ہوتا تو دنیا میں (مسلمانوں کے بعد)سب سے زیادہ علم رکھنے والے یہودیوں میں سے ان کے سردار کعب بن اشرف اور ابو رافع (اور دیگر گستاخوں) کا قتل نبیٔ رحمت صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ کہہ کر نہ کرواتے کہ ’مَنْ لِي بھذا الخبیث؟!‘2 اور ’من لکعب بن الأشرف، فإنّه قد آذى الله ورسوله‘3 جو صحابہؓ ان گستاخوں کے سر کاٹ کر لائے تو آپؐ نے ان کو فرمایا ’أفلحت الوجوہ‘، ’یہ چہرے کامیاب رہیں!‘۔ ایسے گستاخوں اور ان گستاخوں کے سہولت کاروں کے لیے اہلِ ایمان کے پاس محمدؓ بن مسلمہ و عبد اللّٰہؓ بن عتیک کی تلوار ہے، سویڈن کے تیمور عبد الوہاب کی بارودی جیکٹ، عامر چیمہ کا چاقو اور ممتاز قادری و کواشی برادران کی کلاشن کوف! ناسور درد کش دواؤں سے نہیں عملِ جراحی سے ہی شفا پاتے ہیں!
جہاں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور قرآنِ عظیم الشان کے دفاع میں گستاخوں کی گردنیں مارنا فرض ہے وہیں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شریعت اور اس قرآنِ عظیم الشان کے لائے پیغام و نظام کا دنیا میں نافذ کرنا بھی فریضۂ مہمہ ہے ۔ پھر اسی فریضے کی ادائیگی کی صورت میں نظامِ اسلام گستاخوں کی زبانوں اور ہاتھوں کو دراصل لگام ڈالنے کا مستقل ذریعہ ہے۔
یہی قرآنِ عظیم الشان جو طاقوں میں سجایا جاتا ہے، آنکھوں سے لگایا جاتا ہے، تعویذ بنایا جاتا ہے، دھو دھو کے پلایا جاتا ہے، جو حریر و ریشم کے جزدانوں میں لپیٹا جاتا ہے، جس پر مہنگے عطر چھڑکے جاتے ہیں، جس پر ہاتھ رکھ کر قسمیں اور حلف اٹھائے جاتے ہیں، وہ قرآن جو باراتوں اور رخصتیوں میں سائے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے، اس کا اصل حق یہ ہے کہ اسے دستورِ حیات بنایا جائے، آئینِ مملکت اور دستورِ حکومت بنایا جائے۔ مقننہ قانون و ضابطے اس قرآن کے مطابق بنائے۔ عدلیہ کے سامنے کالی انگریزی کتابیں، انگریزی ایکٹ اور انگریزی پریسیڈنس نہ ہوں بلکہ یہ قرآن ہو، تشریحاتِ قرآن یعنی سنن و حِکمِ رسول اللّٰہ (علیہ صلاۃ اللّٰہ و سلام) اور کتاب و سنت سے اخذ کردہ فقہ کے اصول و قاعدے اور ضابطے و عبارتیں ہوں۔ لیکن متاسفانہ! پاکستان کا دستور جو کہنے کو ایک اسلامی دستور ہے، قرآن و سنت سے اخذ کردہ نہیں۔ آج سے پچاس برس قبل، اہلِ اسلام کو رام کرنے کے لیے اس وقت کی سول–ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ملی بھگت سے کالے انگریزی قوانین کے کچھ ناک کان مروڑ کر اور ’مقدمہ‘ کے طور پر قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا۔یہ بھی کیسی افسوس ناک بات ہے کہ پچھتر برس ہو چلے اور اس آئین کو بھی بنے پچاس سال بیت گئے، پھر اس آئین کی جڑ سے پھوٹنے والے ہزاروں چھوٹے اور دسیوں بڑے بڑے غیر اسلامی اقدامات ظاہر ہوتے رہے، لیکن ہم اس آئین کو اسلامی اسلامی ہی کہنے کی مالا جپتے رہے۔ یہ کیسا مدینۂ ثانی ہے جس پر مدینۂ اول کا نہ کوئی حکم لاگو ہوتا ہے اور نہ جس میں کوئی مظاہر ہی مدینۂ اول جیسے ہیں؟ مدینۂ اول کے قانون میں تو دشمن کافروں کا اتحادی بن جانے پر قتل کی سزا سات آسمانوں کے اوپر سے نافذ ہوتی تھی اور سعدؓ ابنِ معاذ کے فیصلے کو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، اللّٰہ کی تائید کے ساتھ نافذ کرواتے تھے، لیکن مدینۂ ثانی کا دستور، مدینۂ ثانی کے سربراہ کو ’crusade‘، صلیبی جنگ کا اکیسویں صدی میں آغاز کرنے والے بش کا فرنٹ لائن اتحادی بنا دیتا ہے، پھر یہ فرنٹ لائن اتحادی امریکی صلیبی فوجیوں کے آگے آگے (فرنٹ لائن میں) قتل ہوتے ہیں لیکن یا للعجب! ’شہید‘ قرار پاتے ہیں۔یہ کیسا اسلامی دستور ہے جس میں لکھا ہے کہ ’یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کے مخالف نہیں بنایا جا سکتا‘ لیکن اسی دستور کے تحت ’دستور ساز اسمبلی‘ زنا بالرضا کو جائز قرار دے دیتی ہے اور حدود اللّٰہ سے کھلواڑ کرتی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ سود اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے، لیکن مدینۂ ثانی کی اول و آخر معیشت ہی سودی ہے، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سود کا اختتام اپنے گھر سے شروع کر کے اپنے چچا عباس رضی اللّٰہ عنہ کے سودی لین دین کو ختم کر کے کیا، لیکن مدینۂ ثانی کو عجیب استثنیٰ حاصل ہے۔ ابھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام پر جس بے ہودگی، بے غیرتی اور فحاشی کی راہ ہموار ہوئی وہ بھی اسی ’اسلامی‘ دستور اور قراردادِ مقاصد کے ساتھ ہوئی۔ قرآنِ عظیم الشان ایسےگھناؤنے افعال پر نوحہ کناں ہے:
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رُسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
برحق بات تو یہ ہے کہ اسلام کسی ’جدید ریاست‘ (modern state) کے تصور کو نہیں مانتا۔ لیکن بحث کے لیے اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ’ریاست‘ ایک شخصیت ہوتی ہے، جس کے کچھ حقوق اور واجبات ہیں اور پاکستان کی ریاست ایمان لا چکی ہے، اس کی قراردادِ مقاصد اور اس ریاست کا یہ اقرار کہ ’یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کے مخالف نہیں بنایا جا سکتا‘، اس ریاست کا کلمۂ شہادت ہے۔ جیسے کوئی انسان مسلمان ہوتا ہے اور ذنوبِ صغیرہ و کبیرہ کے سبب وہ اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقیدے کے مطابق کافر نہیں ہوتا اسی طرح یہ ریاست بھی کبیرہ صغیرہ گناہوں کے سبب کافر نہیں قرار دی جا سکتی۔ لیکن اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ اس مردِ مسلمان کے لیے کچھ نواقضِ اسلام بھی تو بیان کرتا ہے[ ہاں ان نواقض کا بیان، ان کی تشریح اور ان کی تطبیق (جسے شریعت کی اصطلاح میں ’تکفیر‘ کہا جاتا ہے)علمائے راسخین کا کام ہے]۔ فلہٰذا، جب یہ ریاست، انسان کی طرح ہے، اگر یہ مسلمان ہوئی ہے اور بعض حضرات کے مطابق فاجر و فاسق ہی سہی لیکن مسلمان ہے تو جس طرح ایک حقیقی انسان کے لیے کچھ نواقضِ اسلام ہیں، اس ریاست کے لیے بھی تو کچھ نواقض ہوں گے۔ ریاست کے لیے ایمان و کفر کے معیارات کا بیان بھی تو ضروری ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ریاست نیکی بھی کر سکتی ہے اور گناہ، فسق و فجور بھی، ایمان و اسلام بھی لا سکتی ہے لیکن کفر اس کے لیے ممکن نہیں؟! ہم صرف اپنے وطن کی محبت میں اس ریاست کے نظریے، اس کے دستور و قانون اور اس کی مقننہ و انتظامیہ و فوج کے ہر قسم کے اقدامات کا ساتھ تو نہیں دے سکتے؟
وطن کس کو محبوب نہیں ہوتا؟ وطن کی محبت تو چرند پرند میں بھی دکھائی دیتی ہے اور ہم تو ہوش مند، عقل والے، با حس، حساس دل انسان بنائے گئے ہیں، ہم میں محبتِ وطن کیسے نہ ہو گی؟ لیکن سنتِ انبیاء ہے کہ جب وطن میں اسلام کا بول بالا نہ ہو پائے تو ہجرت کا راستہ اختیار کیا جائے۔ رسولِ محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تو وطن ترک فرمایا، پھر مدینے والوں کو بتوفیق اللّٰہ ایمان کی راہ پر لا کر انہی کے ساتھ مل کر اپنے وطن والوں پر جنگ مسلط کر کے وہاں اسلام کو غالب کر دیا۔ آج وطن کو ہجرت کے معنیٰ میں ترک کرنا تو ضروری نہ ہو لیکن اس وطن کی تقریباً نو لاکھ مربع کلومیٹر حدود میں واقع ہر ہر نظریے، ہر ہر ادارے، ہر ہر سولین و فوجی شخص سے محبت کرنا اور اس وطن میں نافذ آئین و دستور و نظام سے یوں محبت کرنا کہ ہر شئے اسلامی قرار دے دی جائے، تو یہ تو لازمی نہیں۔ وطن تو ہے، لیکن اگر وہاں کی فوج کا سپہ سالار قرآن کو مُنّزل من اللّٰہ اور محمدؐ کو رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) ماننے سے انکاری ہو جائے تو وہ ابو جہل’میری امت کا فرعون ‘ قرار پاتا ہے۔ انہی بیان کردہ پیرایوں میں وطن میں رہتے ہوئے ہی دیکھیے:
ہے ترکِ وطن سنتِ محبوبِ الٰہیؐ
دے تُو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی
اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 ’’ ان کی مثال تو بس چار پاؤں کے جانوروں کی سی ہے، بلکہ یہ ان سے زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ ‘‘ (سورۃ الفرقان: ۴۴)
2 طبقاتِ ابنِ سعد
3 صحیح بخاری