۱۶۔مجاہدین کے لیے لازم ہے کہ کسی پر کسی قسم کا ظلم نہ کریں ، نہ جانی ، مالی اور نہ کسی اور قسم کا ،اس لیے کہ مظلوم کی دعا مقبول ہوتی ہے ، جیسا کہ حدیث میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں:
أن النبي صلى الله عليه وسلم بَعَثَ مُعاذا إلى اليمنِ فقال:اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ، فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ.
ترجمہ: ’’جب رسول اللہ ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو انہیں فرمایا: مظلوم کی بددعا سے بچو، اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے بیچ کوئی پردہ نہیں ہوتا‘‘۔
تو مجاہد اگر ایک فرد ہو ، امیر ہو یا کوئی قاضی، اسے لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہیے اور ضروری ہے کہ وہ ان کے ساتھ عدل کا معاملہ رکھے اور ان کے درمیان فیصلے انصاف کے ساتھ کرے۔علامہ شیزری کا قول ہے :
’’اعلم ان العدل اشرف اوصاف الملک واقوم لدولتہ لانہ یبعث علی الطاعۃ، ویدعو الی الاُلفۃ، وبہ تصلح الأعمال، تنمو الأموال‘‘
فرماتے ہیں’’جان لو کہ عدل بادشاہ کی سب سے اچھی اور اس کی بادشاہت کو قوی کرنے والی صفت ہے ۔ عدل لوگوں کی اطاعت کا باعث بنتا ہے اور لوگوں کے دل میں محبت پیدا کرتا ہے ۔ عدل کے ذریعہ لوگوں کے اعمال کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے باعث اموال میں اضافہ ہوتاہے‘‘۔
۱۷۔مجاہد کو بہادر، صاحبِ حمیت، اہلِ تقوی اور عفت وحیا والا ہونا چاہیے اور اس کے دل میں اداروں اور امیرلوگوں کے مال کی حرص نہیں ہونی چاہیے۔مالقی اپنی کتاب’الشھب اللامعہ‘ میں فرماتے ہیں:’’جسم الحرب الشجاعۃ و قلبھا التدبیرو عینھا الحذر و جناحھا الطاعۃ و لسانھا المکیدۃ ، قائدھا الرفق وسائقھا النصر!‘‘
’’ جنگ کا جسم بہادری ہے ، اس کا قلب تدبیر ہے ، آنکھیں اس کی بیدار ہوتی ہیں، اس کے پَر اطاعت کے ہیں ، زبان اس کی سمجھدار ہے، نرمی اس کی رہنما ہے اور اسے آگے لے جانے والی چیز نصرت ہے ‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلى الله عَليه وسَلم أَشْجَعَ النَّاسِ وَأَحْسَنَ النَّاسِ وَأَجْوَدَ النَّاسِ قَالَ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً قَالَ فَانْطَلَقَ النَّاسُ قِبَلَ الصَّوْتِ فَتَلَقَّاهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلى الله عَليه وسَلم وَقَدْ سَبَقَهُمْ وَهُوَ يَقُولُ لَمْ تُرَاعُوا قَالَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لأَبِي طَلْحَةَ عُرْىٍ فِي عُنُقِهِ السَّيْفُ فَجَعَلَ يَقُولُ لِلنَّاسِ لَمْ تُرَاعُوا قَالَ وَقَالَ إِنَّا وَجَدْنَاهُ بَحْرًا، أَوْ إِنَّهُ لَبَحْرٌ يَعْنِي الْفَرَسَ.
’’ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ بہادر، سب سے زیادہ خوبصورت ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ غیرت والے تھے ۔ ایک دن اہالیانِ مدینہ نے کوئی آواز سنی اور ڈر گئے ۔ تو رسول اللہﷺ ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہوکر اس آواز کے پیچھے اس حالت میں گئے کہ گھوڑے کی پیٹھ ننگی تھی اور آپﷺ کے گلے میں تلوار لٹکی ہوئی تھی ۔ پھر (واپس آکر ) فرمایا:’ڈرو مت ،ڈرو مت (کچھ نہیں ہے)‘۔ پھر مجھ سے فرمایا ’ سمندر میرے ہاتھ آیا ہے‘،(یعنی گھوڑاتیزہے)۔‘‘
ابن ابی الدنیا کہتے ہیں کہ حسن ابن علی رضی اللہ عنہما فرماتے تھے : یاابن آدم! اذا قنعت بما رزقناک فأنت اغنی الناس۔ یعنی’’اگر تم اُس پر قانع ہوجاؤ جو ہم نے تمہیں دیا ہے تو تم سب لوگوں سے زیادہ غنی اور سرمایہ دار ہو‘‘۔
ابی امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’أظھروا الیأسَ فانہ غنىً و اِیاکم والطمع فانہ فقرٌ حاضرٌ ‘‘۔’’لوگوں کے پاس جو ہے اس کے لیے دل میں طمع مت رکھو ، یہی غنیٰ ہے اور طمع سے اپنے آپ کو بچا ؤ کہ یہی فقر ہے‘‘۔
لقيَ عبدالله بنُ سلامٍ كعبَ الأحبارِ عندَ عمرَ فقالَ يا كعبُ: من أربابُ العلم؟ فقال:الذين يعملون به, قال: فمَا يذهبُ العلمَ من قلوب العلماءِ بعدَ اذ عقِلوه وَحفِظوهُ؟ قال: يذهبُهُ الطمعُ وَ شرَهُ النفسِ وَتطَلبُ الحاجاتِ إلى الناسِ قال: صدقتَ.
عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ نے کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پوچھا:’’اہل علم کون ہیں؟ ‘‘ ۔انہوں نے جواب دیا کہ ’’وہ جو علم پرعمل کرتے ہیں‘‘۔ پھر عبداللہ ؓابن سلام نے پوچھا،’’ وہ کیا چیز ہے جو علم کو اس کے حصول کے بعددلوں سے نکالتی ہے؟‘‘ ۔انہوں نے جواب دیا،’’ وہ حرص ، طمع اور لوگوں سے مانگنا ہے‘‘ ۔عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا ’’آپ نے سچ کہا‘‘۔
زبیربن بکار کہتے ہیں کہ حضرت خنساء رضی اللہ عنہاقادسیہ کی جنگ میں ایسی حالت میں گئیں کہ ان کے چار بیٹے بھی ان کے ساتھ تھے ۔رات کے آخری پہر انہوں نے اپنے بیٹوں کو مخاطب کیا ، فرمایا’’ اے میرے بیٹو! تم نے خود اپنی رضامندی سے اسلام قبول کیاہے اور خوشی سے ہجرت کی ہے۔ اللہ کی قسم مجھے یقین ہے کہ جس طرح تم ایک عورت کی اولاد ہو ، اسی طرح ایک ہی باپ سے تم پیدا ہوئے ہو ۔ نہ میں نے تمہارے باپ کے ساتھ خیانت کی ہے اور نہ ہی تمہارے ماموں کے لیے کبھی باعث ِعار بنی ہوں ۔ میں نے تمہارا نسب و شرف کبھی بدنام نہیں ہونے دیا ۔بیٹو! تم جانتے ہو کہ اللہ کی راہ میں لڑنے کا کتنا عظیم اجر ہے؟ جان لو کہ آخرت کی زندگی دنیا سے بہت ہی زیادہ اعلی اور بہترہے۔ اللہ کا فرمان ہے:’’اے ایمان والو! صبر سے کام لو اور صبر پر خوب استقامت دکھاؤ اور دشمن کے مقابل محاذوں پر ڈٹے رہو اور اللہ کا تقوی اختیا رکرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ‘‘۔اگر صبح تم لوگ صحیح سلامت رہے تو دشمن سے لڑنے کے لیے چلا جانا، اللہ سے دشمن کے خلاف فتح مانگو!اور جب میدان جنگ گرم ہوجائے ،اس کی آگ کے شعلے بلند ہوجائیں تو پھر اس میں کود جانا، خوب بے جگری کے ساتھ لڑنا ، یا تو فتح تمہیں ملے اور غنیمت لاؤگے یا ہمیشہ کی زندگی سے اللہ تمہیں سرفراز کریں گے‘‘۔ ان کے شہزادے اس نصیحت کے ساتھ میدانِ جنگ میں نکل گئے، ان کی زبانوں پر جنگ کے ترانے تھے ، انتہائی بہادری کے ساتھ لڑے اور سب کے سب شہید ہوگئے۔جب حضرت خنساءؓ کو ان کی شہادت کی خبر ملی تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ نے اس احسان ِ عظیم کا انہیں قابل سمجھا اور ان کے تحفوں کو قبول کیا اور دعا کی کہ اللہ مجھے بھی اپنی رحمت سے ان کے ساتھ ملوا دیجئے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی وفات تک ان کے چاروں بیٹوں کا وظیفہ جو ایک فرد کے سر پر دو سو درہم تھا، دیتے رہے ۔ رضی اللہ عنھم و ارضاھم!
(وما علینا إلّا البلاغ المبین!)