9.
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ عَنْ رَسُوْلِ اللہِﷺ أَنَّہُ قَالَ:یُبْعَثُ مُنَادٍ عِنْدَ حَضْرَۃِ کُلِّ صَلَاۃٍ، فَیَقُوْلُ: یَابَنِیْ اٰدَمَ! قُوْمُوْا، فَأَطْفِئُوْا مَاأَوْقَدْتُّمْ عَلیٰ أَنْفُسِکُمْ، فَیَقُوْمُوْنَ، فَیَتَطَهَّرُوْنَ، وَیُصَلُّوْنَ الظُّهْرَ، فَیُغْفَرُ لَهُمْ مَابَیْنَهَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الْعَصْرُ فَمِثْلُ ذٰلِكَ، فَإِذَا حَضَرَتِ الْمَغْرِبُ فَمِثْلُ ذٰلِكَ، فَإِذَا حَضَرَتِ الْعَتَمَۃُ فَمِثْلُ ذٰلِكَ، فَیَنَامُوْنَ؛ فَمُدْلِجٌ فِيْ خَیْرٍ وَمُدْلِجٌ فِيْ شَرٍ. (رواہ الطبراني في الکبیر،کذا في الترغیب)
حضورِاقدس ﷺکاارشاد ہے کہ جب نماز کاوقت آتاہے توایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ اے آدم کی اولاد! اُٹھو، اورجہنم کی اُس آگ کوجسے تم نے (گناہوں کی بدولت) اپنے اوپر جَلانا شروع کردیا ہے بجھاؤ؛ چنانچہ (دین دارلوگ)اُٹھتے ہیں، وُضوکرتے ہیں، ظہرکی نماز پڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے (صبح سے ظہر تک کے)گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے، اِسی طرح پھرعصر کے وقت، پھرمغرب کے وقت، پھر عشاء کے وقت (غرض ہر نماز کے وقت یہی صورت ہوتی ہے)؛ عشاء کے بعد لوگ سوجاتے ہیں، اِس کے بعد رات کے اندھیرے میں بعض لوگ بھلائیوں (نماز، وظیفہ، ذکر وغیرہ) کی طرف رجوع کرتے ہیں اوربعض لوگ برائیوں (زناکاری، بدکاری، چوری وغیرہ) کی طرف چل دیتے ہیں۔
فائدہ: حدیث کی کتابوں میں بہت کثرت سے یہ مضمون آیا ہے کہ اللہ جل شانہٗ اپنے لُطف سے نمازکی بدولت گناہوں کومعاف فرماتے ہیں، اور نماز میں چونکہ استغفار خود موجود ہےــجیسا کہ اوپر گزراــ اِس لیے صغیرہ اورکبیرہ ہر قسم کے گناہ اِس میں داخل ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ دل سے گناہوں پر ندامت ہو، خود حق تعالیٰ شانہٗ کاارشاد ہے: ﴿ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ…﴾ جیسا کہ حدیث؍۳ میں گزراہے۔حضرت سلمانؓ ایک بڑے مشہورصحابی ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جب عشاء کی نماز ہولیتی ہے توتمام آدمی تین جماعتوں میں منقَسم ہوجاتے ہیں: ایک وہ جماعت ہے جس کے لیے یہ رات نعمت ہے اورکمائی ہے اوربھلائی ہے، یہ وہ حضرات ہیں جورات کی فرصت کوغنیمت سمجھتے ہیں، اور لوگ اپنے اپنے راحت وآرام اورسونے میں مشغول ہوجاتے ہیں تویہ لوگ نماز میں مشغول ہوجاتے ہیں، اِن کی رات اِن کے لیے اَجروثواب بن جاتی ہے۔ دوسری وہ جماعت ہے جس کے لیے رات وَبال ہے، عذاب ہے، یہ وہ جماعت ہے جورات کی تنہائی اور فُرصت کو غنیمت سمجھتی ہے اورگناہوں میں مشغول ہوجاتی ہے، اِن کی رات اِن پر وَبال بن جاتی ہے۔ تیسری وہ جماعت ہے جوعشاء کی نماز پڑھ کرسوجاتی ہے، اِس کے لیے نہ وبال ہے نہ کمائی، نہ کچھ گیا نہ آیا۔ (دُرِّمنثور)
10.
عَنْ أَبِيْ قَتَادَۃَ بْنِ رِبْعِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: قَالَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالیٰ: إِنِّيْ افْتَرَضْتُ عَلیٰ أُمَّتِكَ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، وَعَهِدْتُ عِنْدِيْ عَهْداً أَنَّہٗ مَنْ حَافَظَ عَلَیْهِنَّ لِوَقْتِهِنَّ أَدْخَلْتُہُ الْجَنَّۃَ فِيْ عَهْدِيْ، وَمَنْ لَمْ یُحَافِظْ عَلَیْهِنَّ فَلَا عَهْدَ لَہٗ عِنْدِيْ. (کذا في الدرالمنثور بروایۃ أبي داود وابن ماجہ)
حضورﷺ کاارشاد ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے یہ فرمایا کہ میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اور اِس کا میں نے اپنے لیے عہد کرلیا ہے کہ جو شخص اِن پانچوں نمازوں کواُن کے وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے، اُس کو اپنی ذمہ داری پر جنت میں داخل کروں گا، اور جو اِن نمازوں کا اہتمام نہ کرے تومجھ پر اُس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔
فائدہ: ایک دوسری حدیث میں یہ مضمون اَور وَضاحت سے آیا ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جوشخص اِن میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے، اچھی طرح وُضو کرے اور وقت پر اَداکرے، خشوع خضوع سے پڑھے، حق تعالیٰ شانہٗ کاعہد ہے کہ اُس کوجنت میں ضرور داخل فرمائیں گے، اور جو شخص ایسا نہ کرے اللہ تعالیٰ کاکوئی عہد اُس سے نہیں، چاہے اُس کی مغفرت فرمائیں چاہے عذاب دیں۔(ابوداود)
کتنی بڑی فضیلت ہے نماز کی کہ اِس کے اہتمام سے اللہ کے عہد میں اور ذمہ داری میں آدمی داخل ہوجاتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی معمولی ساحاکم یا دولت مند کسی شخص کواِطمینان دلادے، یاکسی مُطالبے کاذمہ دار ہوجائے، یا کسی قسم کی ضَمانت دے تووہ کتنا مطمئن اور خوش ہوتا ہے، اور اُس حاکم کا کس قدر احسان مند اور گرویدہ بن جاتا ہے، یہاں ایک معمولی عبادت پر ــجس میں کچھ مشقت بھی نہیں ہےــ مالک الملک ، دوجہاں کا بادشاہ عہد کرتاہے، پھربھی لوگ اِس چیزسے غَفلت اورلاپرواہی برتتے ہیں، اِس میں کسی کا کیا نقصان ہے! اپنی ہی کم نصیبی اور اپناہی ضَرر ہے۔
11.
عَنْ اِبْنِ سَلْمَانَ أَنَّ رَجُلًا مِّنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّﷺ حَدَّثَہٗ قَالَ: لَمَّا فَتَحْنَا خَیْبَراً أَخَرَجُوْا غَنَائِمَهُمْ مِنَ الْمَتَاعِ وَالسَّبِيِّ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَتَبَایَعُوْنَ غَنَائِمَهُمْ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللہِ! لَقَدْ رَبِحْتُ رِبْحاً مَّارَبِحَ الْیَوْمَ مِثْلَہٗ أَحَدٌ مِّنْ أَهْلِ الْوَادِيْ، قَالَ: وَیْحَكَ! وَمَارَبِحْتَ؟ قَالَ: مَازِلْتُ أَبِیْعُ وَأَبْتَاعُ حَتّیٰ رَبِحْتُ ثَلَاثَ مِائَۃِ أَوْقِیَۃٍ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ: أَنَا أُنَبِّئُكَ بِخَیْرِ رَجُلٍ رَبِحَ؟ قَالَ: مَا هُوَ یَارَسُوْلَ اللہِ؟ قَالَ: رَکَعْتَیْنِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ. (أخرجہ أبوداود)
ایک صحابیؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ لڑائی میں جب خیبر کوفتح کرچکے، تولوگوں نے اپنا مالِ غنیمت نکالا، جس میں متفرق سامان تھا اور قیدی تھے، اور خریدوفروخت شروع ہوگئی، (کہ ہرشخص اپنی ضروریات خریدنے لگا دوسری زائد چیزیں فروخت کرنے لگا)، اِتنے میں ایک صحابی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیاکہ یارسولَ اللہ! مجھے آج کی اِس تجارت میں اِس قدر نفع ہوا کہ ساری جماعت میں سے کسی کوبھی اِتنا نفع نہیں مل سکا، حضورﷺ نے تعجب سے پوچھاکہ کتنا کمایا؟ اُنھوں نے عرض کیا کہ حضور! میں سامان خریدتا رہا اور بیچتا رہا جس میں تین سو اَوقِیہ چاندی نفع میں بچی، حضورﷺنے ارشاد فرمایا : میں تمہیں بہترین نفع کی چیزبتاؤں؟ اُنھوں نے عرض کیا: حضور! ضروربتائیں، ارشاد فرمایا : فرض نماز کے بعد دو رکعت نفل۔
فائدہ: ایک اوقیہ چالیس درہم کاہوتا ہے، اورایک درہم تقریباً چارآنے کا، تواِس حساب سے تین ہزار روپیہ ہوا، جس کے مقابلے میں دوجہاں کے بادشاہ کاارشاد ہے کہ یہ کیانفع ہوا! حقیقی نفع وہ ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنے والا اورکبھی نہ ختم ہونے والا ہے۔ اگرحقیقت میں ہم لوگوں کے ایمان ایسے ہی ہوجائیں، اور دو رکعت نماز کے مقابلے میں تین ہزار روپے کی وقعت نہ رہے، تو پھر واقعی زندگی کاایک لُطف ہے، اورحق یہ ہے کہ نماز ہے ہی ایسی دولت،اِسی وجہ سے حضورِ اقدس، سیدالبشر، فخرِرسل ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بتلائی ہے۔(نسائی) اور وِصال کے وقت آخری وصیت جو فرمائی ہے اُس میں نماز کے اہتمام کاحکم فرمایا ہے۔ متعدد حدیثوں میں اِس کی وَصیت مذکور ہے، مِن جُملہ اُن کے حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آخری وقت میں جب زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے، اُس وقت بھی حضورِ اقدس ﷺ نے نماز اور غلاموں کے حقوق کی تاکید فرمائی تھی۔ (ابن ماجہ) حضرت علیؓ سے بھی یہی نقل کیاگیا کہ آخری کلام حضورِ اقدس ﷺ کانماز کی تاکید اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم تھا۔ (ابوداود، باب ماجاء في حق المملوک، حدیث: ۵۱۵۶۔ ابن ماجہ، ابواب الوصایا، حدیث: ۲۶۹۸)
حضورِاقدس ﷺ نے نجد کی طرف ایک مرتبہ جہاد کے لیے لشکر بھیجا، جو بہت ہی جلدی واپس لوٹ آیا، اور ساتھ ہی بہت سارا مالِ غنیمت لے کرآیا، لوگوں کو بڑا تعجب ہوا کہ اِتنی ذرا سی مدت میں ایسی بڑی کامیابی اورمال ودولت کے ساتھ واپس آگیا! حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اِس سے بھی کم وقت میں اِس مال سے بہت زیادہ غنیمت اوردولت کمانے والی جماعت بتاؤں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح کی نماز میں جماعت میں شریک ہوں، اور آفتاب نکلنے تک اُسی جگہ بیٹھے رہیں، آفتاب نکلنے کے بعد (جب مکروہ وقت ــجو تقریباً بیس منٹ رہتاہےــ نکل جائے تو) دو رکعت (اشراق کی) نمازپڑھیں، یہ لوگ بہت تھوڑے سے وقت میں بہت زیادہ دولت کمانے والے ہیں۔(ابن حبان، حدیث: ۲۵۳۵۔ مجمع الزوائد، ۲:۲۳۵)
حضرت شقیق بلخیؒ جومشہور صوفی اوربزرگ ہیں، فرماتے ہیں کہ ہم نے پانچ چیزیں تلاش کیں اور اُن کوپانچ جگہ پایا: (۱)روزی کی برکت چاشت کی نماز میں ملی (۲) اورقبر کی روشنی تہجد کی نماز میں ملی (۳) منکرنکیر کے سوال کاجواب طلب کیا تو اُس کوقراء ت میں پایا (۴) اور پُل صراط کا سہولت سے پار ہونا روزے اورصدقے میں پایا (۵)اورعرش کاسایہ خلوت میں پایا۔ (نُزہۃُالمجالس،۱:۱۳۸)
حدیث کی کتابوں میں نمازکے بارے میں بہت ہی تاکید اوربہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، اُن سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے، تبرکاً چند احادیث کا صرف ترجمہ لکھاجاتا ہے:
- حضورﷺ کاارشاد ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے میری امت پرسب چیزوں سے پہلے نماز فرض کی، اورقِیامت میں سب سے پہلے نمازہی کاحساب ہوگا۔ (مسند ابی یعلیٰ، حدیث: ۴۱۲۴)
- نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرو، نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرو، نمازکے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ (کنزالعمال)
- آدمی اورشرک کے درمیان نماز ہی حائل ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، حدیث: ۸۲)
- اسلام کی علامت نماز ہے، جوشخص دل کوفارغ کرکے اور اوقاتِ مستحبات کی رعایت رکھ کر نماز پڑھے وہ مومن ہے۔
- حق تعالیٰ شانہٗ ٗنے کوئی چیز ایمان اور نماز سے افضل فرض نہیں کی، اگراِس سے افضل کسی اور چیز کو فرض کرتے توفرشتوں کو اُس کاحکم دیتے، فرشتے دن رات کوئی رکوع میں ہے کوئی سجدے میں۔(کنزالعمال، حدیث: ۱۹۰۳۸)
- نمازدین کاستون ہے۔(شعب الایمان، حدیث: ۲۸۰۷)
- نماز شیطان کامنہ کالاکرتی ہے۔(کنزالعمال)
- نماز مومن کانور ہے۔ (کنزالعمال)
- نماز افضل جہاد ہے۔
- جب آدمی نماز میں داخل ہوتا ہے توحق تعالیٰ شانہٗ اُس کی طرف پوری توجہ فرماتے ہیں، جب وہ نمازسے ہٹ جاتا ہے تووہ بھی توجہ ہٹالیتے ہیں۔
- جب کوئی آفت آسمان سے اُترتی ہے تومسجدیں آباد کرنے والوں سے ہٹ جاتی ہے۔(کنزالعمال)
- اگرآدمی کسی وجہ سے جہنم میں جاتا ہے تو آگ اُس کی سجدے کی جگہ کو نہیں کھاتی۔
- اللہ نے سجدے کی جگہ کو آگ پرحرام فرما دیا ہے۔ (بخاری، باب فضل السجود، حدیث: ۸۰۶)
- سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ کے نزدیک وہ نماز ہے جو وقت پر پڑھی جائے۔ (بخاری، کتاب المواقیت، حدیث: ۵۲۳)
- اللہ جل شانہٗ کوآدمی کی ساری حالتوں میں سب سے زیادہ یہ پسند ہے کہ اُس کو اپنے سامنےسجدے میں پڑا ہوا دیکھیں، کہ پیشانی زمین سے رگڑ رہاہے۔ (معجم اوسط، حدیث: ۶۰۷۵)
- اللہ جل شانہٗ ٗکے ساتھ آدمی کو سب سے زیادہ قُرب سجدے میں ہوتا ہے۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، حدیث: ۴۸۲)
- جنت کی کنجی نماز ہے۔ (ترمذی (في النسخۃ المصریۃ)، حدیث: ۴)
- جب آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے توجنت کے دروازے کھُل جاتے ہیں، اور اللہ جل شانہٗ اور اُس نمازی کے درمیان کے پردے ہٹ جاتے ہیں جب تک کہ کھانسی وغیرہ میں مشغول نہ ہو۔
- نمازی شہنشاہ کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، اوریہ قاعدہ ہے کہ مسلسل کھٹکھٹاتا رہے تو دروازہ کھل ہی جاتا ہے۔(کنزالعمال، حدیث: ۱۸۹۷۰)
- نماز کا مرتبہ دِین میں ایسا ہی ہے جیساکہ سَر کا درجہ بدن میں۔(معجم اوسط، حدیث: ۲۲۹۲)
- نمازدل کانور ہے، جواپنے دل کو نورانی بناناچاہے (نمازکے ذریعے) بنا لے۔ (کنزالعمال، حدیث: ۱۸۹۷۳)
- جوشخص اچھی طرح وضوکرے، اُس کے بعدخشوع وخضوع سے دو یا چار رکعت نماز فرض یانفل پڑھ کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہے، تواللہ تعالیٰ شانہٗ معاف فرمادیتے ہیں۔(مسند احمد، حدیث: ۲۷۵۴۶)
- زمین کے جس حصے پر نمازکے ذریعے سے اللہ کو یاد کیا جاتا ہے، وہ حصہ زمین کے دوسرے ٹکڑوں پر فخرکرتاہے۔ (کنزالعمال، حدیث: ۱۸۹۷۶)
- جوشخص دو رکعت نمازپڑھ کر اللہ تعالیٰ سے کوئی دعامانگتا ہے توحق تعالیٰ شانہٗ وہ دعا قبول فرمالیتے ہیں، خواہ فوراً ہو یاکسی مصلحت سے کچھ دیرکے بعد؛ مگر قبول ضرورفرماتے ہیں۔(کنزالعمال، حدیث: ۱۹۰۱۸)
- جوشخص تنہائی میں دورکعت نماز پڑھے کہ اس کواللہ اوراُس کے فرشتوں کے سواکوئی نہ دیکھے، تواُس کو جہنم کی آگ سے بَری ہونے کاپَروانہ مل جاتاہے۔ (کنزالعمال، حدیث: ۱۹۰۱۹)
- جوشخص ایک فرض نمازاداکرے اللہ جل شانہٗ ٗ کے یہاں ایک مقبول دُعا اُس کی ہوجاتی ہے۔ (کنزالعمال، حدیث: ۱۹۰۴۰)
- جو پانچوں نمازوں اہتمام کرتا رہے، اُن کے رکوع وسجود اور وضو وغیرہ اہتمام کے ساتھ اچھی طرح پورا کرتا رہے، جنت اُس کے لیے واجب ہوجاتی ہے اور دوزخ اُس پر حرام ہوجاتی ہے۔(مسند احمد، حدیث: ۸۴۴۵)
- مسلمان جب تک پانچوں نمازوں کا اہتمام کرتا رہتا ہے شیطان اُس سے ڈرتارہتا ہے، اورجب وہ نمازوں میں کوتاہی کرنے لگتاہے توشیطان کو اُس پر جرأت ہوجاتی ہے اور اُس کے بہکانے کی طمع کرنے لگتاہے۔
- سب سے افضل عمل اوَّل وقت نمازپڑھنا ہے۔(مسند احمد، حدیث: ۲۷۴۷۶)
- نماز ہرمتقی کی قربانی ہے۔ (کنزالعمال)
- اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ، نمازکو اوَّل وقت پڑھنا ہے۔ (بخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث: ۵۲۷)
- صبح کوجوشخص نماز کو جاتا ہے اُس کے ہاتھ میں ایمان کا جھنڈا ہوتا ہے، اور جو بازار کو جاتا ہے اُس کے ہاتھ میں شیطان کا جھنڈا ہوتاہے۔ (ابن ماجہ، ابواب التجارات، حدیث: ۲۲۳۴)
- ظہر کی نمازسے پہلے چاررکعتوں کاثواب ایسا ہے جیسا کہ تہجد کی چار رکعتوں کا۔ (کنزالعمال، حدیث:۱۹۳۷۹)
- ظہرسے پہلے چار رکعتیں تہجد کی چار رکعتوں کے برابر شمار ہوتی ہے۔ (معجم اوسط، حدیث: ۶۳۳۲)
- جب آدمی نماز کو کھڑا ہوتاہے تورحمتِ اِلٰہیہ اُس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ (کنزالعمال، حدیث:۱۸۹۰۵)
- افضل ترین نمازآدھی رات کی ہے؛ مگر اُس کے پڑھنے والے بہت ہی کم ہیں۔
- میرے پاس حضرت جبرئیلؑ آئے اورکہنے لگے: اے محمد! خواہ کتنا ہی آپ زندہ رہیں آخر ایک دن مرنا ہے، اور جس سے چاہے محبت کریں آخر ایک دن اُس سے جدا ہونا ہے، اور آپ جس قسم کابھی عمل کریں (بھلا یا بُرا) اُس کا بدلہ ضرور ملے گا، اِس میں کوئی تردّد نہیں کہ مومن کی شرافت تہجد کی نماز ہے، اورمومن کی عزت لوگوں سے استغناء ہے۔ (معجم اوسط، حدیث: ۴۲۷۸)
- اخیر رات کی دو رکعتیں تمام دنیاسے افضل ہیں، اگر مجھے مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو اپنی امت پر فرض کردیتا۔
- تہجد ضرورپڑھاکرو کہ تہجد صالحین کاطریقہ ہے اوراللہ کے قُرب کاسبب ہے، تہجد گناہوں سے روکتی ہے، اورخطاؤں کی معافی کاذریعہ ہے، اِس سے بدن کی تندرستی بھی ہوتی ہے۔ (ترمذی، ابواب الدعوات، حدیث: ۳۵۴۹)
- حق تعالیٰ شانہٗ کاارشاد ہے کہ ا ے آدم کی اولاد! تودن کے شروع میں چار رکعتوں سے عاجز نہ بن، میں تمام دن تیرے کاموں کی کفایت کروں گا۔
حدیث کی کتابوں میں بہت کثرت سے نماز کے فضائل اور ترغیبیں ذکر کی گئی ہیں، چالیس کے عدد کی رعایت سے اتنے پرکفایت کی گئی کہ اگر کوئی شخص اِن کو حفظ کرلے تو چالیس حدیثیں یاد کرنے کی فضیلت حاصل کرلے گا۔ حق یہ ہے کہ نمازایسی بڑی دولت ہے کہ اِس کی قدر وہی کرسکتا ہے جس کواللہ جل شانہٗ ٗنے اِس کامزا چکھا دیا ہو، اِسی دولت کی وجہ سے حضورﷺ نے اپنی آنکھ کی ٹھنڈک اِس میں فرمائی، اوراِسی لذت کی وجہ سے حضورِاقدس ﷺ رات کا اکثر حصہ نمازمیں ہی گزار دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺنے وِصال کے وقت خاص طورپرنمازکی وصیت فرمائی، اور اِس کے اہتمام کی تاکید فرمائی۔ متعدد احادیث میں ارشادِ نبوی نقل کیاگیا: ((اِتَّقُوْا اللہَ فِيْ الصَّلَاۃِ))’’ نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضورﷺسے نقل کرتے ہیں کہ تمام اعمال میں مجھے نماز سب سے زیادہ محبوب ہے۔
ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں ایک رات مسجدِ نبوی پر گزرا، حضورِاقدس ﷺ نمازپڑھ رہے تھے، مجھے بھی شوق ہوا، حضور ﷺکے پیچھے نیت باندھ لی، حضور ﷺ سورۂ بقرہ پڑھ رہے تھے، میں نے خیال کیاکہ سوآیتوں پر رکوع کر دیں گے؛ مگر جب وہ گزر گئیں اور رکوع نہ کیا تو مَیں نے سوچا کہ دوسو پر رکوع کریں گے؛ مگر وہاں بھی نہ کیا تومجھے خیال ہوا کہ سورۃ کے ختم ہی پر کریں گے، جب سورۃ ختم ہوئی توحضورﷺ نے کئی مرتبہ اَللّٰہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، اَللّٰہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ پڑھا، اور سورۂ آل عمران شروع کردی، میں سوچ میں پڑگیا، آخر میں نے خیال کیا کہ آخر اِس کے ختم پر تو رکوع کریں گے ہی، حضورﷺنے اِس کو ختم فرمایا اورتین مرتبہ اَللّٰہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ پڑھا، اور سورۂ مائدہ شروع کردی، اِس کوختم کرکے رکوع کیا، اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمِ پڑھتے رہے، اِس کے ساتھ کچھ اَور بھی پڑھتے رہے جو سمجھ میں نہ آیا، اِس کے بعد اِسی طرح سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلیٰ بھی پڑھتے رہے، اِس کے ساتھ کچھ اور بھی پڑھتے تھے، اِس کے بعد دوسری رکعت میں سورۂ انعام شروع کردی، میں حضورﷺ کے ساتھ نمازپڑھنے کی ہمت نہ کرسکا اور مجبور ہوکر چلا آیا۔ (مصنف عبدالرزاق، حدیث: ۲۸۴۲) پہلی رکعت میں تقریباًپانچ سیپارے ہوئے، اور پھر حضورِاقدس ﷺکا پڑھنا! جو نہایت اطمینان سے تجوید وترتیل کے ساتھ ایک ایک آیت جُدا جُدا کرکے پڑھتے تھے، ایسی صورت میں کتنی طویل رکعت ہوئی ہوگی! اِنہی وجوہ سے آپ کے پاؤں پر نماز پڑھتے پڑھتے ورم آجاتا تھا؛ مگر جس چیزکی لذت دل میں اُترجاتی ہے اُس میں مشقت اورتکلیف دشوار نہیں رہتی۔
ابواسحاق سُبَیحیؒ مشہور مُحدِّث ہیں، سوبرس کی عمرمیں انتقال فرمایا، اِس پر افسوس کیا کرتے تھے کہ بڑھاپے اور ضُعف کی وجہ سے نماز کا لُطف جاتا رہا،دو رکعتوں میں صرف دو سورتیں: سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران پڑھی جاتی ہیں، زیادہ نہیں پڑھا جاتا۔ (سیر اعلام النبلاء،۵:۳۹۷) یہ دوسورتیں بھی پونے چارپاروں کی ہیں۔ محمد بن سَمَّاکؒ فرماتے ہیں کہ کوفہ میں میرا ایک پڑوسی تھا، اُس کا ایک لڑکاتھا جو دن کو ہمیشہ روزہ رکھتا اور رات بھر نماز میں اور (جنت کا شوق دلانے والے) اشعار میں مشغول رہتا تھا، وہ سوکھ کرایساہوگیا کہ صرف ہڈی اور چمڑا رہ گیا، اُس کے والد نے مجھ سے کہا کہ تم اِس کو ذرا سمجھاؤ۔ میں ایک مرتبہ اپنے دروازے پر بیٹھا ہوا تھا، وہ سامنے سے گزرا، میں نے اُسے بلایا، وہ آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا، میں نے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ وہ کہنے لگا: چچا! شاید آپ محنت کی کمی کا مشورہ دیں گے، چچا جان! میں نے اِس محلے کے چند لڑکوں کے ساتھ یہ طے کیاتھا کہ دیکھیں! کون شخص عبادت میں زیادہ کوشش کرے؟ اُنہوں نے کوشش اور محنت کی اوراللہ تعالیٰ کی طرف بُلالیے گئے،جب وہ بُلائے گئے توبڑی خوشی اور سُرور کے ساتھ گئے، اُن میں سے میرے سِوا کوئی باقی نہیں رہا، میرا عمل دن میں دو بار اُن پر ظاہرہوتا ہوگا، وہ کیا کہیں گے جب اِس میں کوتاہی پائیں گے؟ چچا جان! اُن جوانوں نے بڑے بڑے مُجاہدے کیے، اُن کی محنتیں اور مُجاہدے بیان کرنے لگا جن کو سن کر ہم لوگ متحیر رہ گئے؛ اِس کے بعدوہ لڑکا اُٹھ کر چلا گیا، تیسرے دن ہم نے سناکہ وہ بھی رُخصت ہوگیا۔ رَحِمَہُ اللہُ رَحْمَۃً وَّاسِعَۃً۔(نزہۃ البساتین، حکایت: ۳۵۲ ص:۴۰۴)
اب بھی اِس گئے گزرے زمانے میں اللہ کے بندے ایسے دیکھے جاتے ہیں جو رات کا اکثر حصہ نماز میں گزار دیتے ہیں، اور دن میں دین کے دوسرے کاموں؛ تبلیغ وتعلیم میں منہمک رہتے ہیں؛ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے نامِ نامی سے کون شخص ہندوستان میں ناواقف ہوگا؟ اُن کے ایک خلیفہ مولانا عبدالواحد لاہوریؒ نے ایک دن ارشاد فرمایا: جنت میں نمازنہ ہوگی؟ کسی نے عرض کیا کہ حضرت جنت میں نمازکیوں ہو! وہ تواعمال کے بدلے کی جگہ ہے نہ کہ عمل کرنے کی، اِس پر ایک آہ کھینچی اور رونے لگے، اور فرمایا: بغیرنماز کے جنت میں کیوں کر گزرے گی۔ ایسے ہی لوگوں سے دنیا قائم ہے، اور زندگی کو وصول کرنے والی حقیقت میں یہی مُبارک ہستیاں ہیں۔ اللہ جل شانہٗ اپنے لُطف اور اپنے مرمٹنے والوں کے طفیل اِس رُوسیاہ کوبھی نواز دے تو اُس کے لطفِ عام سے کیابعید ہے!
ایک پرلطف قصے پر اِس فصل کو ختم کرتاہوں؛ حافظ اِبن حجرؒ نے ’مُنبِّہات‘ میں لکھا ہےکہ ایک مرتبہ حضورِاقدس ﷺنے ارشاد فرمایا کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں: خوشبو، عورتیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں ہے۔حضورﷺکے پاس چند صحابہؓ تشریف فرما تھے، حضرت ابوبکر صدیؓق نے ارشاد فرمایا: آپ نے سچ فرمایا، اورمجھے تین چیزیں محبوب ہیں: آپ کے چہرے کو دیکھنا، اپنے مال کو آپ پرخرچ کرنا، اوریہ کہ میری بیٹی آپ کے نکاح میں ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: سچ ہے، اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں: امربالمعروف، نہی عن المنکر، (اچھے کاموں کا حکم کرنا اور بُری باتوں سے روکنا) اور پرانا کپڑا۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا، اور مجھے تین چیزیں محبوب ہیں: بھوکوں کو کھلانا، ننگوں کو کپڑا پہنانا، اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا۔ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا: آپ نے سچ فرمایا، اور مجھے تین چیزیں پسند ہیں: مہمان کی خدمت، گرمی کاروزہ، اور دشمن پر تلوار۔ اِتنے میں حضرت جبرئیل ؑ تشریف لائے، اورعرض کیا کہ: مجھے حق تعالیٰ شانہٗ ٗ نے بھیجا ہے، اور فرمایا کہ اگر میں (یعنی جبرئیل) دنیا والوں میں ہوتا تو بتاؤں مجھے کیا پسندہوتا؟ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: بتاؤ! عرض کیا: بھولے ہوؤں کو راستہ بتانا، غریب عبادت کرنے والوں سے محبت رکھنا، اور عَیال دار مُفلِسوں کی مدد کرنا۔اورا للہ جل جلالہٗ کو بندوں کی تین چیزیں پسند ہیں: (اللہ کی راہ میں) طاقت کاخرچ کرنا (مال سے ہویاجان سے)، اور (گناہ پر) ندامت کے وقت رونا، اور فاقہ پر صبرکرنا۔ (منبہات ابن حجر، ص:۲۱، ۲۲)
حافظ ابن قیمؒ ’زادُ المَعاد‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ نماز روزی کو کھینچنے والی ہے، صحت کی محافظ ہے، بیماریوں کو رفع کرنے والی ہے، دِل کو تقویت پہنچاتی ہے، چہرے کوخوب صورت اور منور کرتی ہے، جان کو فرحت پہنچاتی ہے، اعضاء میں نشاط پیداکرتی ہے، کاہِلی کو رَفع کرتی ہے، شرحِ صدر کاسبب ہے، رُوح کی غذا ہے، دل کومُنور کرتی ہے، اللہ کے اِنعام کی محافظ ہے، اور عذابِ الٰہی سے حفاظت کاسبب ہے، شیطان کو دُورکرتی ہے اور رحمان سے قُرب پیدا کرتی ہے؛ غرض رُوح اور بدن کی صحت کی حفاظت میں اِس کو خاص دخل ہے، اور دونوں چیزوں میں اِس کی عجیب تاثیر ہے؛ نیزدنیا اورآخرت کی مضرتوں کے دُور کرنے میں اور دونوں جہاں کے منافع پیدا کرنے میں اِس کوبہت خصوصیت ہے۔
٭٭٭٭٭