پہلا باب
(گزشتہ سے پیوستہ)
حقوق و تعلیمِ نسواں
تحریرِ ہٰذا کے پہلے باب کے آخری عنوان تلے بعض مزید معلومات و حقائق درج کرنا فائدہ مند رہے گا۔
اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر، فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!
امارتِ اسلامیہ کا عورتوں کو ان کے حقوق دینا
جبری نکاح کے خلاف اقدام
لڑکیوں اور خصوصاً کم سِن لڑکیوں کا جبری نکاح ایک قبیح روایت ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوندزادہ (نصرہ اللہ) اپنے ایک فرمان کے ذریعے نکاح اور نکاح سے متعلقہ عورتوں کے حقوق سے متعلق کئی احکام جاری کر چکے ہیں اور حضرت امیر المومنین نے اللہ کی شریعت کے نفاذ میں ’ولا یخافون لومۃ لائم‘ کے مصداق کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا کیے بغیر اقدامات اٹھائے ہیں (نحسبہ کذلك والله حسيبه ولا نزكي على الله أحدا) اور اپنے تحت تمام منصوبین و مسئولین کو ان احکام کی کڑی پابندی کرنے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
فروری ۲۰۲۳ء کے وسط میں صوبۂ قندوز کے ضلع امام صاحب میں وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر و سمعِ شکایات کے فاضل اہلکاروں کو معلوم ہوا کہ ایک بارہ سالہ لڑکی کا نکاح ایک پچاس سالہ آدمی سے جبراً کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ فاضل وزارت کے اہلکاروں نے مداخلت کرتے ہوئے اس جبری نکاح کو رکوایا اور اس جرم سے متعلقہ افراد کو گرفتار کیا جنہیں بعد میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان مولوی محمد صادق عاکف مہاجر نے اسی واقعے کے حوالے سے تفصیلات فراہم کیں اور آئندہ اس قسم کے جرائم کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ۔1
اولاد (خاص کر بیٹیوں) کو بیچنے کی روک تھام
فقر و غربت کے سبب اپنی اولاد خصوصاً بیٹیوں کو بیچنا ایک عرصے سے بڑھتا ہوا جرم ہے، ایسے کئی واقعات ہم نے ماضی میں پاکستان میں دیکھے۔ یقیناً فقر بری بلا ہے، لیکن مشکل حالات اور آزمائشوں کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے غلط راستوں کا انتخاب کرے۔افغانستان کے صوبے ننگرہار میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس میں قرض کے ہاتھوں مجبور ایک آدمی نے اپنی کم سن بیٹی کو بیچنے کی کوشش کی۔ وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فاضل اہلکاروں کو جب اس معاملے کا علم ہوا تو انہوں نے فوری مداخلت کرتے ہوئے اس جرم کو رکوایا، اس غریب شخص کا قرضہ بیت المال سے ادا کیا اور اعلان کیا کہ آئندہ اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور سزا بھی دی جائے گی۔
عورتوں کے لیےکام کے مواقع اور ان کو گھر بیٹھے وظائف دینا
جیسا کہ پہلے ہم یہ بات قدرے تفصیل سے کر چکے ہیں کہ مغرب کے جدید نظام نے بھی عورتوں کو قید ہی کیا ہے، بلکہ جدید نظام نے عورتوں کا بدترین استحصال کیا ہے۔ عورتوں کو گھروں سے نکال کر بازار و دفتر کی زینت بنانا اس نظام اور اس نظام کے ٹھیکے داروں کا مطمح و مقصد ہے۔ ایک عرب عالم کا ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’آزادیٔ نسواں کا مطالبہ کرنے والے دراصل عورت کی آزادی کے نام پر ’’عورت تک پہنچنے کی آزادی‘‘ چاہتے ہیں!‘۔
۱۵ اگست ۲۰۲۱ء کو فتحِ کابل کے بعد سے سرکاری دفاتر میں عورتوں کی آمد عموماً بند ہے2، الا یہ کہ بعض ایسے سرکاری دفاتر یا کارخانوں میں انہیں اب بھی آنے کی اجازت ہے جہاں کا سارا عملہ ہی عورتوں پر مشتمل ہے اور عموماً ایسے کام کاج ہیں جو عرف میں عورتوں سے بھی منسوب ہیں جیسے کپڑوں کی سلائی وغیرہ3، یا پولیس فورس جہاں عورتوں یا عورت مجرموں سے متعلق بعض کارروائیوں میں زنانہ پولیس کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن بیوروکریٹک و دفتری کاموں وغیرہ کے لیے عورتوں کو دفاتر میں آنے کی اجازت نہیں۔ اس پابندی کے سبب عورتوں کی ایک بڑی تعداد دفتروں کو نہیں جا سکتی۔ امریکہ اور اس کے زیرِ اثر اقوامِ متحدہ کا ادارہ اور ان کے نمک خوار مستقل یہ پروپیگنڈہ کر رہےہیں کہ عورتیں دفاتر میں نہیں جا سکتیں اور وہ اپنے خاندانوں کی واحد کفیل اور’bread winners‘ ہیں۔ امریکہ، اقوامِ متحدہ اور ان کے ٹوڈی اداروں اور اہلکاروں نے ’نان، کار، آزادی‘ کا نعرہ مشہور کروایا ہے۔ لیکن نہایت چالاکی سے یہ سبھی فتنہ گر ایک اہم بات چھپا رہے ہیں اور وہ یہ کہ یہ بات صد فیصد درست ہے کہ طالبان کی حکومت آنے بعد عورتوں کے سرکاری دفاتر جانے پر عموماً پابندی ہے لیکن سبھی ملازم (کارمند)خواتین کو ان کی تنخواہیں گھر بیٹھے بنا کام کیے دی جا رہی ہیں۔ گھر بیٹھے بغیر کام کے تنخواہوں کی فراہمی کے سبب ان خواتین کو بہت سی سہولتیں حاصل ہو گئی ہیں جبکہ حکومت کو نقصان کا سامنا ہے۔
یہ خواتین اپنی معاشی مجبوریوں کے سبب گھر سے باہر نکل کر کام کرنے پر مجبور تھیں اور یہ مشاہدۂ عام ہے کہ نوکری پیشہ خواتین اپنے خانگی فرائض انجام نہیں دے پاتیں۔ اب ان خواتین کو گھر بیٹھے تنخواہیں مل رہی ہیں اور یہ اپنے اسی وقت میں جو یہ پہلے حکومت کو دیا کرتی تھیں اپنے خانگی فرائض ادا کرتی ہیں۔
جبکہ دوسری طرف حکومتِ وقت یعنی امارتِ اسلامیہ افغانستان کو مادّی طور سے نقصان ہو رہا ہے۔ متعلقہ کارمند خواتین کام نہیں کر رہیں اور ان کی تنخواہیں جاری ہیں اور جو کام یہ خواتین پہلے کیا کرتی تھیں اب ان کاموں کے لیے متبادل مرد کارمند لائے گئے ہیں جنہیں الگ سے معاوضہ دیا جا رہا ہے۔
امریکی قبضے کے دوران بیس سال تک افغانستان کا سالانہ بجٹ امریکہ اور اس کے حواریوں اور ان کے معاشی اداروں کے مرہونِ منت تھا، جبکہ فتحِ کابل کے بعد سے پوری افغان معیشت افغانستان ہی سے حاصل ہونے والی رقم (کسٹمز، ٹیکس، برآمدات و درآمدات، معادن وغیرہ) سے چل رہی ہے۔ یوں افغانستان کی معیشت پر پہلے سے ہی ایک خاص بوجھ ہے اور اسی کے ساتھ عورتوں کو بِنا کام کیے معاوضہ و تنخواہیں دینا ایک الگ سے مسئلہ و بوجھ ہے۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے بعض وزراء نے یہی مسئلہ امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ کے سامنے پیش کیا، وزراء اور امیر المومنین کی گفتگو کو امیر المومنین نے خود ہی ایک اور مجلس میں بیان کیا:
’’وزیروں نے مجھ سے کہا کہ یہ جو بعض (سرکاری کارمند)عورتیں وزارتوں (کے دفاتر) میں کام کے لیے نہیں آتیں ، ہم اگر ان کی تنخواہیں بند کر دیں تو کیا ہی اچھا ہو؟ سرکاری خزانے پر بھی بلاوجہ کا بوجھ ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ تم دعا کرو کہ اللہ ہمیں اتنی استطاعت دے دے کہ افغانستان میں بسنے والی، گھر بیٹھی ہر ہر عورت کے لیے تنخواہ مقرر کر سکیں، جن کو پہلے سے تنخواہ دی جارہی ہے، ان کو تو لازماً تنخواہ دینی ہی دینی ہے!‘‘4
بے حجابی پر پابندی
اللہ ﷻ کا ارشادِ پاک ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً(سورۃ الاحزاب: ۵۹)
’’ اے نبیؐ ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں۔ اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ‘‘
ایک طرف جہاں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ عورتوں کو یہ حکم فرما رہے ہیں کہ وہ جب گھروں سے باہر نکلیں تو باحجاب ہو کر نکلیں تو ساتھ ہی دوسرے مقام پر مردوں كو عفت و حیا و پاک دامنی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (سورۃ النور: ۳۰)
’’مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سب سے پوری طرح باخبر ہے۔ ‘‘
پھر اس کے بعد اگلی آیت میں فرمایا:
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة النور:۳۱)
’’اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہوجائے۔ اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں، اور اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ، یا اپنے شوہروں کے باپ کے، یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا ان کے جو اپنے ہاتھوں کی ملکیت میں ہیں یا ان خدمت گزاروں کے جن کے دل میں کوئی (جنسی) تقاضا نہیں ہوتا یا ان بچوں کے جو ابھی عورتوں کے چھپے ہوئے حصوں سے آشنا نہیں ہوئے اور مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہوجائے۔ اور اے مومنو ! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔ ‘‘
حکمِ اصلی تو ان آیاتِ مبارکہ میں بیان ہو چکا ہے، یہ مضمون علمائے کرام کی تشریحات کا محل نہیں ہے فلہٰذا ان آیات کی تفسیر دیکھنا بہت سودمند ہے۔ اللہ ﷻ نے پردے کا حکم اس قدر وضاحت سے بیان کیا ہے کہ اس کی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں بچتی اور ایک مسلمان کے سامنے جب حکمِ الٰہی بیان ہو جائے تو اس کا ردِّ عمل تو بس اس حکم کے سامنے تسلیم ہو جانا ہوتا ہے۔ بہر کیف اگر عقلی پیمانے سے بھی سوچا جائے تو حجاب عورتوں ہی کے لیے نہیں مردوں کے لیے بھی بڑی رحمت ہے اور اس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ عورت کی ساخت ہی اللہ ﷻ نے ایسی بنائی ہے کہ اس کی چال سے لے کر اس کی آواز تک میں مرد کے لیے جاذبیت پنہاں ہے۔ یہ کارخانۂ حیات رب ﷻ نے گاہِ آزمائش بنایا ہے کہ جانے اور پرکھے کہ کون ہے جو اس کی اطاعت کرتا ہے، بہترین عمل کرتا ہے، فرائض ادا کرتا ہے اور حرام سے بچتا ہے۔ پھر جو اس آزمائش میں کامیاب ہو جائے تو اس کے لیے دنیا میں حیاتِ طیبہ کا وعدہ ہے اور آخرت میں ابدی نعمتوں اور راحتوں کا۔ یہ دنیا اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہے، اس نے ہر ہر شئے میں ہر ذی روح کے لیے آزمائش رکھی ہے۔ انسان تو عقل مند، با شعور، حیوانِ ناطق ہے۔ جن ذی ارواح میں اللہ نے عقل و شعور نہیں رکھا تو ان کے لیے بھی بہت سی چیزوں میں جاذبیت و لذت بلکہ ضرورت بھی رکھ دی ہے۔ کتنی مشہور مثالیں ہیں کہ اگر آپ مٹھائی کو ڈھانپ کر نہ رکھیں گے تو مکھیاں اس پر آ بیٹھیں گی اور اگر ہاتھ میں گوشت بنا ڈھانپے لے کر چلیں گے تو راہ میں کتے اس پر لپکیں گے۔ پھر کیسی بے عقلی کی بات ہے کہ ہم جب اپنے سفید کپڑے دھو کر خشک کرنے کے لیے تار پر لٹکاتے ہیں تو ان کو کبھی تو الٹا کر کے پھیلاتے ہیں تو کبھی انہیں کپڑوں پر ایک اور رنگ کی چادر پھیلا دیتے ہیں کہ مکھیاں اور گرد و غبار ان کو گندا میلا نہ کریں، لیکن جس کو اللہ ﷻ نے ’عورت‘ یعنی چھپانے کی شئے بنایا ہے اس کو زینتِ زمانہ سمجھتے ہیں۔ چند روپے ہم جیب میں چھپا کر چلتے ہیں اور اپنی قیمتی ماں، بہن، بیٹی اور انہی رشتوں میں جڑی بیوی کو بازار میں بے حجاب گھماتے ہیں، فیا للعجب!
حجاب کی ضرورت کو عقلاً بیان کرتے ہوئے ہم ایک قدامت پسند امریکی مصنف اور ریڈیو میزبان ’ڈینس پریگر‘ کا ایک قول پیش کرتے ہیں۔ یہ قول ڈینس پریگر کے اعلامی ادارے ’پریگر یونیورسٹی‘ کی ایک ویڈیو کی تعلیق (commentary) ہے۔ ذیل میں یہ قول نقل کرتے ہوئے ہم نے ’انتہائی فحش‘ جملے، الفاظ و مکالمے حذف کر دیے ہیں، لیکن للاسف بعض ’سنگین‘ نوعیت کی باتیں اب بھی شامل ہیں:
’’ مرد ہر سال مختصر لباس میں ملبوس عورتو ں کو دیکھنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔مثلاً سالانہ کھیلوں کے موقع پر زنانہ لباسِ تیراکی کو دیکھ لیجیے۔ یا پھر مطلقاً بے لباس عورتوں کو دیکھنے کے لیے انٹرنیٹ ویب سائٹس اور ’مردانہ ‘ میگزینوں کے صفحات……جبکہ دوسری جانب عورتیں بے لباس مردوں کو دیکھنے کے لیے فعلاً کچھ بھی خرچ نہیں کرتیں،کیوں؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مردوں کی معاشرتی تربیت ہی عورتوں کو جنسی تلذذ کی شئے کے طور پر دیکھنے کی کی جاتی ہے۔ جبکہ عورتوں کی معاشرتی تربیت مردوں کو جنسی نظر سے نہ دیکھنے کی جاتی ہے۔ لیکن اگر یہی حقیقت ہے تو پھر یہ لوگ(ایب نارمل و بدفطرت)5 ہم جنس پرست افراد کی کیسے وضاحت کرتے ہیں؟ ہم جنس پرست افراد مردوں کی برہنہ تصویروں سے اسی طرح برانگیختہ ہوتے ہیں جیسے عام (نارمل) مرد عورتوں کی برہنہ تصویروں سے ہوتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ معاشرتی تربیت کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ فطرت ……نہ کہ معاشرے…… نے مردوں کو بنایا ہی ایسا ہے کہ وہ نظر آتے منظر سے جنسی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں مرد عورتوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ عورتوں کے لیے اس حقیقت کو صحیح سے سمجھنا غالباً ناممکن……بلکہ غالباً نہیں ، یقیناً و فی الواقع ناممکن ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتیں بھی بعض مردوں کی طرف راغب ہوتی ہیں۔ بلاشبہ ایک عورت بھی کسی بے حد جاذب النظر مرد کو دیکھ کر شدید ردعمل کا اظہار کر سکتی ہے۔ لیکن ان دو باتوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ محض دیکھنا ہی مرد کے جذبات بھڑکانے کے لیے کافی ہوتا ہے، جبکہ ایک عورت میں شہوانی جذبات ابھارنے کے لیے محض ایک برہنہ مرد کو دیکھنا کافی نہیں ہوتا۔ ایک عام مرد میں جنسی خواہش دن میں بے شمار دفعہ بیدار ہوتی ہے، محض عورتوں کو اپنے سامنے دیکھنے سے ، یا بِل بورڈز اور میگزین یا ٹی وی کی سکرین پر، یا فقط اپنے تصور میں ہی دیکھنے سے۔
حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے لیے کوئی ایسا میگزین نہیں پایا جاتا جو ان کے دیکھنے اورجذبات بھڑکانے کے لیے مردانہ ٹانگیں پیش کرے۔ مگر مردوں کے لیے ایسے مناظر سے بھرپور ویب سائٹس اور میگزین موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتوں میں بعض مردوں کو محض دیکھنے سے جنسی خواہش پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسا ہوتا ہے ، مگر صرف بعض مردوں کو دیکھنے سے اور وہ بھی نہایت شاذ۔ مثلاً کسی اجنبی کو دیکھنے سے ، یا زیادہ تر کسی نامور شخصیت کو دیکھ کر ایسا ہوتا ہے۔ مرد کے جذبات تقریباً ہر عورت کا محض زنانہ جسم دیکھ کر ہی برانگیختہ ہو جاتے ہیں۔ محض دیکھنے کا اثر ہی مردوں پر اس قدر شدید ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس کی شدّت پر حیران ہوتے ہیں۔
مردانہ شہوانیت پر میرے لیکچر سننے کے بعد ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں ایک دکان کے سامنے کھڑا تھا جس کی کھڑکی میں نمائش کے لیے ایک عورت کا بیٹھا ہوا مجسمہ رکھا تھا۔ مجھے خود پر یقین نہیں آ رہا تھا لیکن میں نے خود کو اس کی سکرٹ کے پاس جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے پایا‘۔ یہاں ایک بالکل نارمل اور ذمہ دار مرد ہے جو خود کو ایک بے جان چیز کی سکرٹ پر جھانکتا ہوا پاتا ہے صرف اس لیے کہ وہ چیزاپنی ساخت میں عورت سے مشابہہ ہے۔ مردوں کے لیے عورت کی جانب دیکھنا اس قدر فطری و جبلّی امر ہے۔
یہ بات قابلِ فہم ہے کہ عورتیں پوری طرح مرد کی اس طبیعت کو نہیں سمجھ پاتیں۔ لیکن اگر کوئی عورت مرد کی شہوانی طبیعت سمجھنا چاہے ، تو جو پہلی چیز اسے سمجھنی چاہیے وہ نظر آتے منظر کی طاقت (power of visual) ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو بِل بورڈز پر، میگزینوں میں، ٹی وی پر، ہر جگہ عورت کے اشتہار نظر آتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو کوئی مرد خریدنا چاہے ، اسے بیچنے کے لیے کمپنیاں قلیل کپڑوں میں ملبوس ایک عورت کو…… اور بعض اوقات محض اس عورت کے جسم کے ایک حصّے کو ظاہر کرتے ہوئے بیچتی ہیں۔ مجھے ایک مشہور شراب کا اشتہار یاد ہے کہ جس میں صرف ایک عورت کی ٹانگیں دکھائی گئیں اور ان کے ساتھ رکھی ہوئی شراب کی بوتل۔ کوئی چہرہ نہیں، محض ٹانگیں۔ کیا آپ کبھی ایسا اشتہار دیکھنے کی توقع کرتے ہیں جس میں کسی مرد کی ٹانگیں دکھائی جا رہی ہوں؟ لوگ ہنسیں گے کہ کیسی فضول اور مضحکہ خیز بات ہے۔ مگر ایک عورت کی ٹانگوں پر مشتمل اشتہار نہ لغو و فضول ہے اور نہ مضحکہ خیز……بلکہ وہ مائل کرنے والا اور اشتہا انگیز ہے۔
اس میں سے کسی بھی بات کو مردانہ غیر مناسب رویّے کے لیے عذر کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔مردوں کو ہمیشہ خود کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ مگر نظر آتی چیز یا منظر کے مرد پر اثر (power of visual) کا انکار کرنا ایسا ہی ہے، جیسے زمین کے گول ہونے کا انکار کرنا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ ’ڈینس پریگر‘ کو ہدایت دے کہ وہ ایمان لے آئے، ڈینس پریگر کی باتیں عقل کے مطابق عقل کو مخاطب کرنے والی ہیں اور ڈینس پریگر ان سبھی باتوں کے لیے کسی آسمانی صحیفے یا مذہب سے متاثر نہیں ہوا ۔پس ڈینس پریگر کو یہ باتیں اس کی عقل اور فطرت نے سمجھائی ہیں، یہ نہایت rational باتیں ہیں۔ فلہٰذا ہم یہاں یہ سوال کرتے ہیں کہ اس فطرت اور اس عقل کا خالق کون ہے؟ اور اس عقل اور فطرت کے خالق نے اس مخلوق یعنی انسان کے لیے جو طریقۂ عمل ’مینوئل‘ اتارا ہے اس کی طرف رجوع کیوں نہ کیا جائے؟ کیسی عجیب بات ہے کہ جب ہم محض چند ہزار روپے کی کوئی مشین خرید کر لاتے ہیں تو اس کا مینوئل بغور پڑھتے ہیں کہ کہیں کوئی غلط بٹن دبا دینے سے یہ مشین خراب نہ ہو جائے، جبکہ انمول ترین مشین یعنی اپنا ہی جسم ، اس کے مینوئل کو پڑھتے ہی نہیں اور اس کے مینوئل پر عمل ہی نہیں کرتے؟!
یہ ہے وہ فطری تقاضہ جسے اللہ ﷻ نے ایک طرف انسانیت کی آزمائش اور دوسری طرف انسانیت کی بقا کے لیے پیدا کیا (اگر یہ فطری جذبہ نہ ہو تو نسلِ انسانی بڑھنا بند ہو جائے)، لیکن ساتھ ہی انہی فطری جذبات کو صحیح سمت استعمال کرنے اور مضر راستوں سے بچنے کا طریقہ بھی بتا دیا۔
یہ موضوع پہلے زیرِ بحث آ چکا ہے کہ اسلام کی نظر میں مرد و عورت مساوی نہیں ہیں، نہ عقل میں، نہ وراثت میں، نہ امامت میں،نہ فیصلے کے اختیار میں ، نہ شہادت یعنی گواہی پیش کرنے میں، نہ نکاح و طلاق کے معاملے میں وغیرہ اور اسی سب کے پیشِ نظر عورتوں کی مکلفیت بھی شریعت نے کم رکھی ہے، تفصیل کا مقام نہیں لیکن نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔البتہ اسلام نے ان دونوں کے تعلق کو متاوزن کر دیا ہے، دونوں ایک دوسرے کے بِنا نا مکمل ہیں۔ انسانی فطری جبلت و ساخت کے مطابق جہاں اسلام نےعورت کو اپنا جسم ڈھانپنے، سفر میں فاصلے کی تعیین، بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنے کا حکم کیا ہے تو وہیں مردوں کو بھی عین اسی فطری جبلت اور ساخت (جسے ڈینس پریگر ’power of visual‘ کہتاہے )کے مطابق ’غضِ بصر‘ کا حکم دیا ہے۔ قربان جائیے ربّ العالمین پر کہ اس نے جب مردوں کو غضِ بصر یعنی نا محرم عورتوں کے سامنے نظریں جھکانے کا حکم فرمایا تو اس کے فوراً بعد شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم بھی دیا۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ’سب سے پہلے نظر بہکتی ہے، پھر دِل بہکتا ہے اور پھر شرم گاہیں صحیح راہ سے ہٹ جاتی ہیں‘۔
انہی الٰہی احکامات اور شرعی و عقلی دلائل کے سبب مختلف علمائے کرام ، وزرائے امارتِ اسلامیہ اور دیگر ذمہ داران نے امیر المومنین کی خدمت میں افغانستان کی بے حجابی سے متعلق حقیقی صورتِ حال مختلف خطوط و پیغامات میں لکھ کر بیان کی اور ساتھ ہی حجاب کی تطبیق سے متعلق ایک مجوزہ حکم نامہ بھی بھیجا۔ امیر المومنین کو بھیجے گئے ان پیغامات اور مجوزہ حکم نامے کے بعد امیر المومنین نے اس مجوزہ حکم نامے کو منظور کیا اور وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو امر جاری کیا کہ وہ اس فرمان کو نشر کریں اور اس میں موجود اوامر کی تطبیق عملاً شروع کریں۔ فلہٰذا وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے افغانستان میں ایک عوامی اجتماع میں حجابِ شرعی کی تطبیق کا فرمان جاری کیا اور حجاب کو شرعی واجب کے طور پر لازمی قرار دیا۔ ذیل میں اس فرمان کو نقل کیا جاتا ہے:
خواتین کے پردے اور حجاب سے متعلق ہدایات
(از)وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر
باوجود اس کے کہ ملک بھر میں عرصۂ دراز سے خواتین کی بے پردگی کو عام کرنے کے لیے ایک منظم شکل میں پروگرامات اور منصوبے تشکیل دیے جارہے تھے، لیکن جہاد اور غیرت سے سرشار ملت کی عفت مآب خواتین سو میں سے ننانوے فیصد پردے کو شریعت کے حکم اور افغانی رسم ورواج کے طور پر قبول کرتی ہیں۔ چونکہ شرعی پردے کے بارے میں ہمارے معاشرے کے اندر کوئی عذر اور موانع موجود نہیں، لہٰذا باقی خواتین کو بھی چاہیے کہ اس شرعی حکم پر عمل اپنے اوپر لازم کریں۔
پردے کا حکم:
مسلمانوں کی بالغ خواتین کے لیے شرعی پردہ کرنا فرض اور ضروری ہے۔
پردے کی تعریف:
ہر وہ لباس جس سے جسم کو ڈھانپا جائے اسے حجاب کہتے ہیں، لیکن وہ لباس اتنا باریک نہ ہو جس میں سے جسم نظر آئے اور اتنا چست بھی نہ ہو کہ جس میں جسم کے اعضاء معلوم ہوں۔
پردے کی اقسام:
• چادرے (ٹوپی برقع) جو ملک بھر میں عرصۂ دراز سے باعزت افغانی رسم و رواج کا حصہ ہے، شرعی پردے کا بہترین ذریعہ ہے۔
• برقع کے نام سے سیاہ رنگ کا لباس اور چادر بھی شرعی پردے کا ذریعہ ہے، لیکن تنگ اور چست نہ ہو۔
• گھر سے بغیر ضرورت کے باہر نہ نکلنا بھی شرعی پردے کا اوّلین اور بہترین طریقہ ہے۔
پردے کی شرائط:
وہ خاتون جو عمر کے لحاظ سے بوڑھی یا چھوٹی نہ ہو، نامحرم مردوں کاسامنا کرتے وقت فتنے کے خوف سے شرعی ہدایات کے مطابق آنکھوں کے علاوہ پورے چہرے کو پردے میں لازماً چھپائے گی۔
پردےکے فوائد:
• پردہ امرِ خداوندی ہے اور اس پر عمل کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے۔
• حجاب مسلمان اور باعفت خواتین کی نشانی ہے۔
• باپردہ خواتین اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے محفوظ رہتی ہیں۔
• عزت اور وقار سے معمور ہوتی ہیں۔
• مفسدین کے شرور اور فساد سے امن میں رہتی ہیں۔
• فتنہ پروروں کے منصوبوں کا آسانی سے شکار نہیں ہوتیں۔
شرعی پردے کی تطبیق کا طریقہ اور اس کے مراحل:
۱. ترغیب:
• میڈیا اور مساجد کے منبروں سے پردے کا حکم، اہمیت اور اس کے فوائد سمیت بے پردگی کے نقصانات بیان کرنا۔
• بازاروں، تفریح گاہوں اور عوامی جگہوں پر شرعی پردے کے بارے میں ترغیبی جملے لکھنا اور اس موضوع پر پمفلٹ جاری کرنا اور سٹیکر لگانا۔
۲. تنبیہہ اور ترہیب:
• بے پردہ عورت کا پہلی بار گھر معلوم کیا جائے اور اس کے ولی کو نصیحت اور تنبیہہ کی جائے۔
• دوسری دفعہ عورت کے ولی کو متعلقہ ادارے میں بلاکر اس کا محاسبہ کیا جائے۔
• تیسری دفعہ عورت کے ولی کو تین دن کے لیے قید میں رکھا جائے۔
• چوتھی دفعہ عورت کے ولی پر مقدمہ چلایا جائے اور اس کو مناسب سزا دی جائے۔
• وہ خواتین جو امارت یا حکومتی اداروں میں کام کرتے ہوئے پردہ نہیں کرتیں، ان کو کام سے نکالا جائے۔
• اگر حکومتی مامورین اور مسئولین کی خواتین اور بیٹیاں شرعی پردہ نہیں کرتیں تو ان افراد کو کام سے روکا جائے۔(فرمان ختم ہوا)
کابل میں منعقد ہ اس مذکورہ اجتماع میں یہ فرمان پڑھ کر سنایا گیا اور ساتھ ہی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان مولوی محمد صادق عاکف مہاجر نے بعض باتوں کو تکراراً دوبارہ کہا:
’’ایسی خواتین جو عمر کے لحاظ سے ادھیڑ عمر یا کم عمر نہ ہوں، ان پر آنکھوں کے علاوہ اپنا چہرہ ڈھانپنا لازمی ہے!‘‘6
امارتِ اسلامیہ کے اس فرمان اور اس کے بعد اس حکم کہ خواتین پر چہرہ چھپانا بھی لازمی ہے پر افغانستان سمیت دنیا بھر میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا عورت کا چہرہ ’ستر‘ میں داخل ہے یا نہیں؟ آج کے ’جدید‘ علماء قدیم علمائے کرام کی آراء کی بنیاد پر عورت کے چہرے کے پردے کے قائل نہیں۔ اور بلا تکلف عرض ہے کہ جدید علماء کے عورت کے چہرے کے پردے کے قائل نہ ہونے کا سبب علمائے متقدمین اور اسلاف کے فتاویٰ و طرز العمل نہیں بلکہ جدیدیت سے متاثر ہونا ہے۔ ہمیں یہی علماء(انہی میں جاوید احمد غامدی اور اس کی قبیل کے عمار خان ناصر جیسوں کو بھی شامل کر لیا جائے) مسلمانوں کو مغربی ممالک میں مورگیج، انشورنس، بینک انٹرسٹ، امریکی و یورپی افواج و پولیس و انٹیلی جنس اداروں میں نوکریوں کے جائز ہونے کے فتاویٰ بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ علمائے متقدمین (بشمول ائمۂ اربعہ) بھی خاص کر اَحناف عورت کے چہرے کے پردے کے قائل نہیں، لیکن آج کے اہلِ حق علمائے کرام عورت کے چہرے کو ستر میں داخل سمجھتے ہیں اور اس کے چھپانے کو فرض قرار دیتے ہیں اور اس کا سبب اسلامی فقہ کے قاعدۂ ’سد الذرائع‘ کو بیان کرتے ہیں۔ یعنی ایسے ہر فعل کا پیشگی سدِ باب جو آئندہ شر و فساد ،گناہوں اور اللہ کی معصیت کی طرف لے جائے۔ البتہ متقدمین میں سے بھی تمام فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ اگر فتنے کا خدشہ ہو تو عورت کا چہرہ ہی کیا اس کے ہاتھ پیر بھی چھپانا لازمی ہے۔نیز امارتِ اسلامیہ کا بطورِ حکومت ایک ایسے فعل کا امر کرنا جو اصلاً مباح ہے، خود واجب کے درجے میں آ جاتا ہے کہ شرعی حاکمِ وقت یعنی شرعی اولوالامر (امام المسلمین) کے مباح امور کو کرنے کا حکم دینے سے وہ کام کرنا واجب اور منع کرنے سے وہ کام ناجائز و حرام ہو جاتا ہے، اور اس قاعدے پر علمائے اسلام سلف تا خلف متفق ہیں اور یہ امر اجماعِ امت سے ثابت ہے۔
گو کہ اصلاً عورت کے چہرے کو ڈھانپنے کے احکام قرآنِ مجید میں صراحت کے ساتھ نہیں آئے لیکن احادیث و آثار میں مذکور صحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے اقوال و اعمال چہرے کے پردے پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ جب آیاتِ حجاب نازل ہوئیں تو حضرت امّاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ عورتوں نے اپنی بڑی چادروں کو پھاڑ کر ان سے جلباب بنالیے اور چہرے ڈھانپنے لگیں، یہ کوئی عام عورتیں نہ تھیں امت ہی کیا مخلوقات کی بہترین عورتیں یعنی صحابیات رضی اللہ عنہن تھیں، یہ تو عین حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام کا زمانہ ہے اور آپؐ کے سامنے یہ فعل ہو رہا ہے گویا کہ یہ فعل خود شرعی حجت ہے۔ نیز حضرت امّاں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ دیگر صحابیات کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی جانب حج کے لیے روانہ تھیں اور راستے میں اپنے چہرے کھلے رکھتی تھیں، لیکن جیسے ہی کوئی مرد ان کی سواریوں کے قریب آتا تو وہ اپنی اوڑھنیوں سے اپنے چہرے چھپا لیتیں اور مرد کے جانے کے بعد اپنے چہرے دوبارہ کھول لیتیں7۔ اسی طرح دیگر صحابۂ کرام بھی عورت کے چہرے کے پردے کے قائل تھے۔
عقلی طور پر سوچیے تو چہرے ہی سے انسان سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور یہ چہرہ ہی تو ہے جس کی تزئین و آرائش کے لیے کاسمٹکس انڈسٹری (cosmetics industry) کا وجود ہے، اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۲۶ء میں عالمی کاسمٹک انڈسٹری کا صرف ریونیو (محصول) ایک سو ستاسی اعشاریہ سات ارب ڈالر (187.68 bn USD)پر مشتمل ہو گا اور ۲۰۲۱ء میں مجموعی طور پر عالمی منڈی (global market) میں صرف skin care کا حصہ اکتالیس (41)فیصد تھا8۔ عورتیں تو چہرے کو نہ چھپانے کا جو بھی عذر تراشیں لیکن مردوں کے لیے تو سوائے تلذذ کے عورتوں کے کھلے چہرے سے اور کوئی سروکار نہیں!
افغانستان میں بے حجابی کس قسم کی رائج تھی تو اس کا بیان’ امارتِ اسلامیہ کے ۲۰۲۱ء میں قیام سے قبل افغانستان کی صورتِ حال ‘کے عنوان تلے گزر چکا ہے۔ امارتِ اسلامیہ کے فرمان کے مطابق حجاب کی تطبیق کے دو مراحل تھے: پہلا ترغیب اور دوسرا تنبیہہ اور ترہیب۔ حجاب کی تطبیق کے فرمان کو جاری ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور ابھی ترغیب کا مرحلہ جاری ہے۔ اس مرحلے میں ’ میڈیا اور مساجد کے منبروں سے پردے کا حکم، اہمیت اور اس کے فوائد سمیت بے پردگی کے نقصانات ‘ کا بیان ہو رہا ہے۔ مختلف ٹی وی شوز وغیرہ میں یہ موضوع اکثر اٹھتا رہتا ہے اور افغانستان کا سرکاری ٹیلی وژن چینل ’ملّی‘ اس حوالے سے تحریضی و ترغیبی پیکجز بھی نشر کرتا ہے۔ اسی طرح ’ بازاروں، تفریح گاہوں اور عمومی جگہوں پر شرعی پردے کے بارے میں ترغیبی جملے لکھنا اور اس موضوع پر پمفلٹ جاری کرنا اور سٹیکر لگانا ‘ وغیرہ بھی راقم کی معلومات کے مطابق کافی عام ہے، بلکہ شہرِ کابل سے راقم السطور کے ایک دوست نے مختلف مقامات پر ہونے والی وال چاکنگ کی تصاویر بھی راقم کو بھیجی ہیں (جنہیں مضمونِ ہٰذا کے آخر میں ان شاء اللہ شامل کیا جا رہا ہے)۔ لیکن راقم کی نہایت طالبِ علمانہ اور خام نظر یہ ہے کہ میڈیا کے شعبے میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے متعلقہ اداروں اور وزارتوں مثلاً وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور وزارتِ اطلاعات و فرہنگ کو اپنی فعالیت مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بِتوفیق اللہ راقم السطور کا شروع کردہ یہ سلسلہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے دفاع و مدح کا بیان ہے، بلکہ راقم اپنے کئی افغان دوستوں کو یہ بات کئی بار کہتا رہا ہے کہ اس امارتِ اسلامیہ کی جو اہمیت شاید کسی مہاجر مجاہد کے دل میں ہو وہ شاید اکثر افغان مجاہدین کے دِلوں میں نہ ہو گی اور اس کا سبب یہ ہے کہ مہاجرین ایک خاص مقصد یعنی اقامتِ خلافۃ علی منہاج النبوۃ کی خاطر دنیا کے کونے کونے سے نکل کر دنیا کے مختلف جہادی محاذوں پر پہنچے ہیں اور انہوں نے اپنا مقصدِ محض طاغوتِ اکبر امریکہ اور اس کے ورلڈ آرڈر کو دنیا میں ختم کر کے اقامتِ دین ’ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ‘ كے مصداق بنا ركها ہے، جس کا فہم لازمی نہیں کہ ہر ہر عام مسلمان اور عام مجاہد کے قلب و ذہن میں بھی ہو (اس جملے میں کسی بھی عام مسلمان یا مجاہد کی تحقیر کرنا یا اپنے آپ کو بلند تر بتانا نہیں، بلکہ حقیقتِ حال کا بیان مقصود ہے ورنہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ!)۔ فلہٰذا اس حوالے سے چند طالبِ علمانہ اور خام ذہن کی پیداوار تجاویز تحریرِ ہٰذا کے آخر میں پیش کر نے کی کوشش ہے۔
پارکوں اور تفریح گاہوں میں عورتوں کے دخول پر پابندی
امارتِ اسلامیہ افغانستان نے حجاب کی تطبیق کے حکم کے بعد پارکوں اور تفریح گاہوں میں مردوں کے لیے الگ اور عورتوں کے لیے الگ ایام مختص کر دیے تھے، مثلاً پیر کا دن مردوں کے لیے تو منگل کا دن عورتوں کے لیے۔ اسی طرح بعض بڑی (رقبے کے لحاظ سے)تفریح گاہوں میں مردوں کے لیے الگ حصہ اور عورتوں کے لیے الگ حصہ مختص کر دیا گیا تھا اور فیملی کے نام پر ایک جگہ مردوں اور عورتوں کا اجتماع ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ یہ بات بخوبی معلوم ہے فیملی کے نام پر تفریح گاہوں میں مردوں اور عورتوں کا اجتماع محض ظاہری لیپا پوتی ہے، بلکہ فساد کی طرف ایک قدم ہے۔ فیملی تو ایک جگہ جمع ہو سکتی ہے لیکن دو الگ الگ خاندان جن کا محرم تو درکنار قوم و قبیلے یا محلے و شہر بلکہ مزید آگے بڑھیں تو ملکوں کی بنیاد پر بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا کا اجتماع ایک فاسد تاویل نہیں تو اور کیا ہے۔ سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبد العزیز کے زمانے میں سنہ ۲۰۰۸ء میں راقم السطور کا خود سعودی عرب کے شہر جدہ کے ساحل پر قائم ایک تفریح گاہ پر جانا اسی ’فیملی پلیس‘ کے عنوان تلے ہوا۔ ۲۰۰۸ء کا سعودی عرب اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ کے سبب اپنے ظاہر میں آج ابنِ سلمان کے سعودی عرب سے ایک سو اسّی درجے کے زاویے پر مختلف و متضاد تھا۔ آج تو ابنِ سلمان نے سعودی عرب ہی کیا عین حرمین شریفین کے گرد فاحشاؤں کو لا بٹھایا ہےاور فحش مناظر عین کعبۃ اللہ کے سامنے مطاف میں دیکھے جاتے ہیں، فإنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون! بہر کیف جدہ کی اس ساحلی تفریح گاہ پر بد قسمتی سے ہم نے ایک وِلا (villa)کرایے پر لیا، وہاں ہر ہر وِلے کے ساتھ اولاً ریگِ ساحل اورثم سمندر کے اندر تک تقریباً بیس میٹر تک جنگلا لگا ہوا تھا اور بیس میٹر سے آگے نیلے رنگ کے ڈرم سمندر میں تیر رہے تھے جن کا مقصد ’پردہ‘ تھا۔ اس ریزورٹ میں اپنے وِلے سے ریگِ ساحل پر قدم رکھتے ہی راقم کو احساس ہو گیا کہ ہمارے ’سعودی‘ میزبانوں نے فیملی کے نام پر ایک فریب گاہ بنائی ہے۔ ساحلِ ریگ پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ ساحل پر قطار سے موجود وِلاز اور ان کے جنگلوں کے ساتھ مغربی ساحلوں والا دو چیتھڑوں کا انسانیت و حیا سوز منظر تو نہیں تھا لیکن اس سے کچھ کم بھی نہ تھا ، یہاں عرب بھی تھے، یورپی بھی اور یہ سب فیملی کے نام پر جائز تھا۔ اس سنگین نوعیت کے واقعے کے بیان کا مقصد ’فیملی‘ کے نام پر ہونے والی حیا سوزی اور بے شرمی کا پردہ چاک کرنا تھا۔ فیملی تو اگر ہے تو میری ہے یا تمہاری ہے، کسی بھی دوسرے کا کیا لینا دینا، چاہے تمہارے لیے میں ہوں یا میرے لیے تم ہو ؟!
افغانستان کے معاشرے کی قدیم روایت پسندی کے سبب یہاں بھی فساد فیملی ہی کے نام پر لایا گیا اور یہاں کے پارک و تفریح گاہیں اسی فیملی فحاشی کا مظہر تھیں۔ اسی سبب سے اس فیملی فحاشی پر امارتِ اسلامیہ نے کڑی قدغن لگائی۔ لیکن عورتوں اور مردوں کے لیے الگ الگ ایام اور بڑی تفریح گاہوں میں الگ الگ جگہوں کا انتظام بیس سال میں خراب ہوئی نسل کو راہِ راست کے مطابق خوش چلنی فراہم نہ کر سکا۔ نتیجتاً امارتِ اسلامیہ کے مسئولینِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو پارکوں اور تفریح گاہوں میں خواتین کے مطلقاً داخلے پر پابندی کا قدم اٹھانا پڑا۔
بغیر محرم کے سفر پر بندش
رسولِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے منور و مطہر و معطر فرامین میں(اسیر اور دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنے والی عورت کے علاوہ ) عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنے کی واضح شرائط موجود ہیں۔ انہی فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذیل میں بعض علماء عورت کے تنہا یعنی بنا محرم کے سفر کو مطلقاً ناجائز گردانتے ہیں اور بعض نے مخصوص فاصلہ (جیسے بعض کی رائے میں بارہ میل)اس کے لیے بیان کیا ہے۔ حدودِ فاصلہ میں تو علمائے کرام کے یہاں اختلاف موجود ہے لیکن اس امر میں کوئی اختلاف موجود نہیں کہ اصلاً و اصولاً عورت کا بنا محرم کے سفر کرنا نا جائز ہے۔ اسی کے ساتھ علمائے کرام اور خاص کر عصرِ حاضر میں امارتِ اسلامیہ کے مسئولین نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ اپنے مخصوص علاقوں اور شہروں کے اندر عورتوں کا ضرورتِ شرعی کے مطابق بنا محرم سفر کرنا جائز ہے۔
دوسری طرف ایک ایسا واقعہ بھی سامنے آیا جب وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے وابستہ ایک محتسب نے بلخ صوبے میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کو اس بات پر سرِ عام مارا پیٹا کہ اس نے بنا محرم کے ایک مسافر عورت کو اپنی ٹیکسی میں کیوں بٹھایا؟ حالانکہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت حدودِ شہر ہی میں سفر کر رہی تھی۔ اس واقعے پر وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فاضل اہلکاروں نے اپنی ہی وزارت کے اس متعلقہ محتسب کو گرفتار کر لیا اور متعلقہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کر دیا۔9
یہ واقعہ تطبیقِ شریعت کی ایک دلیل ہے کہ حکومتِ وقت فقط عام لوگوں یا عورتوں پر پابندیاں نہیں لگاتی بلکہ اپنے ہی وہ اہلکار جو شریعت اور شریعتِ اسلامی ہی کی روشنی میں مرتب کردہ امارتِ اسلامیہ کے لائحہ جات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو بھی پکڑتی ہے، پابندِ سلاسل کرتی ہے اور ان کے خلاف باقی قانونی کارروائی بھی کرتی ہے۔
تعلیمِ نسواں
عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے حکمِ شرعی اہلِ حق علمائے کرام نے بیان کیا ہے۔ عورتوں کی تعلیم کے حکمِ شرعی اور امارتِ اسلامیہ کے عملی اقدامات کے ضمن میں ہماری نظر میں ایک بہترین موقف، امارتِ اسلامیہ افغانستان کے قاضی القضاۃ فضیلۃ الشیخ علامہ عبد الحکیم حقانی (حفظہ اللہ و رعاہ) کا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ’الإمارۃ الإسلامیۃ ونظامھا‘ میں بیان کیا ہے۔ یہ کتاب امارتِ اسلامیہ کے مختلف شعبوں، امارت کے نظامِ حکومت وغیرہ کے بارے میں ایک مستند دستاویز ہے اور امارتِ اسلامیہ کا رسمی منہج بھی ہے کہ اولاً لکھنے والی شخصیت امارت کے ایک اہم ترین ادارے کی سربراہ ہے ثم امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ (نصرہ اللہ) نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ہے ۔ ہم بھی ان شاء اللہ اپنے اس سلسلے میں بعون اللہ اس کتاب سے گاہے بگاہے مدد لیتے رہیں گے اور ابھی تعلیمِ نسواں کے حوالے سے بھی اس کتاب سے استفادہ کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وأمتہ وسلم نے فرمایا:
’’طلب العلم فريضة على كل مسلم.‘‘ (رواہ البخاري)
یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہاں مسلمان سے مراد مرد و عورت دونوں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابیات رضی اللہ عنہن خصوصی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کیا کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ بعض صحابیات تو فقیہات و عالمات و معلمات تھیں جن میں سرِ فہرست اُم المومنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں جنہوں نے دو ہزار سے زیادہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرمائی ہیں۔
ساتھ ہی حکمِ شریعت یہ بھی ہے کہ:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ (سورة الاحزاب: ۳۳)
’’ اور اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور (غیر مردوں کو) بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، جیسا کہ پہلی بار جاہلیت میں دکھایا جاتا تها۔‘‘
فلہٰذا علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عورتوں کے لیے حکمِ اصلی گھروں میں ٹِک کر رہنا ہے سوائے ضرورتِ شرعی کے، حتیٰ کہ ان کو نمازیں بھی گھر میں اور گھر میں بھی گھر کے اندرونی حصے میں پڑھنی چاہییں جیسا کہ احادیثِ نبویہ (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) میں وارد ہے۔ جن فقہائے کرام نے عورتوں کو ظہر و عصر و جمعہ و عیدین کی نمازیں پڑھنے کی اجازت مساجد یا عید گاہ میں دی ہے تو ان کے بھی نزدیک فتنے کے زمانے میں اس کی اجازت نہیں، لہٰذا کہاں ان فقہائے کرام کا زمانہ اور کہاں آج کا دور جس میں عورت سے متعلق فتنے و فساد کے ایسے ایسے دروازے کھلے ہیں کہ جن کا تصور ان فقہائے کرام کے زمانے میں نہیں بلکہ آج سے بیس سال قبل کرنا بھی نا ممکن تھا۔ علامہ عبد الحکیم حقانی کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ تعلیمِ نساء دراصل گھر میں ہونی چاہیے اور یہ سربراہِ خانہ یا عورت کے اولیاء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کو تعلیم دیں یا ان کی تعلیم کا گھر میں انتظام کریں۔ اور بالفرض اگر عورتوں کی تعلیم کا انتظام گھروں میں نہ ہو سکے تو گھر سے باہر عورتوں کو تعلیم دینے کے لیے استاد عورت ہو، حتیٰ کہ نابینا مرد سے بھی بہتر یہ ہے کہ عورتوں کو تعلیم دینے والی عورت ہو۔ پھر اگر ایسی ضرورت پڑ جائے کہ عورت کو تعلیم کوئی مرد دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان پردہ حائل ہو ’وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ10‘۔ پھر جب اس شرط کے ساتھ تعلیم کا انتظام ہو تو عورت کے لیے علامہ عبد الحکیم حقانی نے درج ذیل شرائط کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کو جائز کہا ہے[یہاں ان شرائط کو ہم نہایت اختصار سے بیان کر رہے ہیں اور اس شکل’{}‘ کے قوسین میں راقم السطور کا اضافہ ہے، تفصیل کے لیے فاضل علامہ (حفظہ اللہ) کی کتاب ملاحظہ ہو]:
اپنی زینت (بناؤ سنگھار، زیور، خاص قسم کے کپڑے وغیرہ) کو چھپا کر نکلنا سوائے اس کے کہ جو خود بخود ظاہر ہو جائے (مثلاً اوڑھنی، برقع وغیرہ کے نیچے کے کپڑے یا ہاتھ اور پاؤں}اور اگر ہاتھ اور پاؤں فتنے کا سبب ہوں تو ان کو بھی ڈھانپنا چاہیے{)۔
جو لباس پہنا ہوا ہو (مثلاً برقع یا اوڑھنی) وہ خود زینت نہ ہو۔}جیسا کہ آج کل کے برقعوں میں عام رواج ہے کہ رنگ برنگے ، کڑھائیوں، لیسوں سے مزین، کمر پر بیلٹ والے برقعے جو عورت کا سارا ہی نقشہ بیان کر رہے ہوتے ہیں، اسی طرح برقعوں کے اوپر ایسے کوٹ پہننا جو خود جاذب النظر ہوں، شہوت کو متوجہ کرتے جوتے خصوصاً اونچی ایڑی کے جوتےوغیرہ، نیز شرائطِ حجاب پہلے حجاب سے متعلق فرمان میں بھی گزر چکی ہیں۔{
لباس؍ برقع ؍ اوڑھنی کا کپڑا باریک نہ ہو۔
لباس؍ برقع ؍ اوڑھنی چست نہ ہو بلکہ کھلی ڈلی ہو۔
خوشبو لگا کر نہ نکلا جائے کہ خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنے والی عورت کے لیے بہت سی وعیدیں وارد ہیں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’جو عورت عطر (یا خوشبو) لگائے اور پھر وہ لوگوں کے پاس جائے اس لیے کہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے ‘ (سنن النسائی)۔
مردوں سے مشابہہ لباس نہ ہو۔
کافر عورتوں سے مشابہہ لباس نہ ہو۔
شہرت و نمود و نمائش کے لیے لباس نہ پہنا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شہرت (ونمود ونمائش) کی خاطر (قیمتی) لباس زیب تن کرے اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کو رسوائی کا لباس پہنائیں گے۔(سنن ابن ماجہ)
علامہ عبد الحکیم حقانی مزید لکھتے ہیں کہ گھر سے باہر نکل کر تعلیم حاصل کرنے کی یہ شرائط تو دینی تعلیم کے لیے ہیں، دنیوی تعلیم میں خیاطی اور علمِ طب وغیرہ بھی ان میں شامل کیے جا سکتے ہیں، جبکہ دیگر علوم جیسے علومِ کیمیا و ہندسہ (انجنیئرنگ) وغیرہ تو ان کے لیے تو گھر سے باہر نکلنا شرعی ضرورت نہیں ہے۔ نیز علم کے درجات ہیں فرضِ عین اور فرضِ کفایہ۔ فرضِ کفایہ علوم تو سب کے سب ، سب کے سب مردوں پر بھی حاصل کرنا لازمی نہیں ہیں، لوگوں میں سے ایک خاص تعداد حاصل کر لے تو کافی ہے، سو جب مردوں کے لیے یہ لازمی نہیں تو ان علوم کے حصول کی خاطر عورتوں کو گھروں سے باہر نکالنا کون سی شرعی ضرورت ہے؟
اسی کے ساتھ ایک عجیب و غریب مسئلہ مردوں اور عورتوں کے اختلاط کا ہے۔ یہ اختلاط شرعاً سراسر نا جائز اور حرام ہے۔
علامہ عبد الحکیم حقانی کی ان باتوں سے ہمیں امارتِ اسلامیہ کا صاف اور واضح موقف معلوم ہو جاتا ہے۔ ان شرائط کا پورا نہ ہونا نیز دیگر خرابیوں کا بھی پایا جانا وہ امور ہیں جن کے سبب امارتِ اسلامیہ نے بالغ عورتوں کے تعلیمی اداروں میں عورتوں کی تعلیم پر تا امرِ ثانی بندش لگا دی ہے۔ دوبارہ غور کیجیے کہ حصولِ علم پر بندش نہیں ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں آنے جانے پر تا امرِ ثانی بندش ہے۔ ذرا دیکھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں عورتوں کا گشت و گزار کس طرح سے ہوتا ہے اور ہوتا تھا؟
شریعتِ اسلامی جب بنا محرم کے خاتون کو سفر کی اجازت نہیں دیتی (حدودِ فاصلہ کی شرط کے ساتھ) تو یہ کہاں صحیح ہے کہ صوبہ میدان وردگ کی ایک لڑکی ننگرہار میں جا کر تعلیم حاصل کرے یا یوں سمجھ لیجیے کہ اسلام آباد کی ایک لڑکی لاہور میں جا کر تعلیم حاصل کرے، وہ بھی دنیوی؟ پھر وہ پرائے شہر میں رہ بھی پرایوں کے یہاں یا ہاسٹلوں میں رہی ہو؟ آج ہمارے معاشروں میں جو لڑکیوں کے بھاگ جانے کے واقعات ہیں کیا ان میں ایک بڑا سبب یہی لڑکیوں؍ عورتوں کا اس قدر آزاد چلن نہیں؟ راقم السطور کو اس کے ایک فاضل عالمِ دین ساتھی اور استاد نے بتایا کہ بنات کے بعض دینی اقامتی مدارس میں بعض ایسی کردار و اخلاق کی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کو راقم یہاں لکھتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتا ہے، سو دنیوی اداروں میں کیا حال ہو گا۔ اس بے باکی پر راقم کو عذر دیجیے لیکن راقم کی براہِ راست معلومات کے مطابق پاکستان کی مشہور یونیورسٹی ، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں علومِ دینی پڑھنے والی طالبات کی ایک خاص تعداد ایسی تھی جنہیں عرفِ عام میں ’لوفر‘ کہا جاتا ہے، علومِ دینی پڑھنے والی طالبات ’بوائے فرینڈ‘ بھی رکھتی تھیں، نیز راقم کے پاس اب بھی ارشیف (archive) میں اسی یونیورسٹی کا ایک سرکلر کہیں رکھا ہو گا جس میں طالبات کو ایک ہی بستر پر سونے سے منع کیا گیا تھا اور یہ سبھی مسائل بنیادی طور پر ہاسٹلوں میں پائے جاتے تھے؍ہیں! کیا یہ سب جائز ہے؟ فلہٰذا اگر تو حکومتِ اسلامی کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ خواتین کی تعلیم کا انتظام شرعی شرائط کے ساتھ کر سکے تو فبہا، بصورتِ دیگر اس فساد کو روکنے کا طریقہ ایسے اداروں میں خواتین کا آنا جانا بند کرنے کے سوا کیا ہے؟
اکثر تعلیمی اداروں میں علومِ دینی و دنیوی پڑھانے والے مرد اساتذہ ہوتے ہیں اور ان تعلیمی اداروں میں حجاب یا استاد اور شاگرد کے درمیان پردے کا انتظام نہیں ہوتا۔ یہ منظر بھی یونیورسٹیوں میں کس قدر عام ہے کہ پڑھانے والے مرد اساتذہ بعد میں اپنی ہی شاگرد خواتین کے خاوند بن جاتے ہیں، یہ خاوند بننا تو فی نفسہ برا نہیں لیکن اس سے قبل جو کچھ چلتا ہے اور جس کے متعلق اپنی کتاب میں الشیخ العلامہ عبد الحکیم حقانی نے بھی لکھا ہے کہ عورت کے گھر سے نکلنے کا ایک نتیجہ عشق معشوقی کی بلا کا پھیلنا بھی ہے۔ یہ عشق معشوقی کہیں استاذہ اور شاگردوں کے درمیان پروان چڑھتی ہے تو کہیں شاگردوں کے مابین اور للاسف پڑھانے والے اساتذہ خود بھی تو مخلوط ماحول میں بستے ہیں سو یہ تباہی وہاں بھی آتی ہے۔
بے حجابی جو افغانستان کے شہروں میں چاہے صرف ایک فیصد عورتوں ہی میں عام تھی اور اب تک ختم نہیں ہوئی ہے، اس قدر مضر اور شہوت انگیز ہے کہ امارتِ اسلامی کو پارکوں اور تفریح گاہوں کو اولاً بند کرنا پڑا۔ بار بار شرائط کی تکرار کے باوجود یہ بے حجابی بقول وزیرِ تحصیلاتِ عالی (ہائر ایجوکیشن) شیخ ندا محمد ندیم (حفظہ اللہ) بند نہ ہوئی اور امارتِ اسلامی کو اس پر پابندی لگانا پڑی۔
تَبَرُّ ج یعنی غیر محرم مردوں کے سامنے زینت کا اظہار، چہرے کے میک اَپ سے لے کر کھلے بالوں، کھلے گلوں، کھلی پنڈلیوں، ہاتھوں سے کہنیوں تک کھلے بازوؤں، زیورات، لباس، زرق برق رنگا رنگ چست و ڈیزائن دار برقعوں، خوشبوؤں کا استعمال وغیرہ وہ سبھی امور ہیں جو افغانستان کی ایک فیصد عورتوں میں پائے جاتے تھے اور اب بھی معتد بہ حد تک پائے جاتے ہیں۔ امارتِ اسلامی ان سبھی امورِ غیر شرعی پر ترغیب ثم ترہیب کے ذریعے کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ایک اسلامی حکومت کے لیے یہ کہاں جائز ہو گا کہ وہ اپنے زیرِ انتظام پارکوں، تفریح گاہوں، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں اس بد چلنی کو چلنے کی اجازت دیں؟ تصور کیجیے کہ ایک صاحبِ خانہ کو خدانخواستہ اپنے گھر کی کسی خاتون سے اس قسم کی شکایت ہو اور یہ شکایت ترغیب سے نہ ختم ہوتی ہو تو وہ اپنی حدودِ عملی (jurisdiction) میں کیا اس سب پر جبری پابندی عائد نہیں کرے گا؟ 11 اس سب کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے جو آداب و شرائط شریعت نے بتائے ہیں ان کو پامال کیا جائے کہ شر و فساد مزید بڑھ جائے۔ بلکہ یہاں یہ بتانا بھی لازمی ہے کہ امارتِ اسلامی نے اپنے ہر اہلکار، ہر مجاہد، ہر فوجی، ہر پولیس اہلکار، بلکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اہلکاروں اور محتسبین کو بھی کھلی چھوٹ نہیں دے رکھی کہ وہ جہاں جس بے حجاب عورت کو دیکھیں تو اس پر جا مسلط ہوں اور سختی و درشتی سے پیش آئیں یا اس عورت کی تادیب کریں۔ بلکہ جو ایسا کرے تو وہ اس بے حجاب عورت سے پہلے کٹہرے میں لایا جاتا ہے کہ امارت کی شرعی پالیسی ابھی مرحلۂ ترغیب میں ہے ترہیب میں نہیں اور ترہیب بھی اس عورت کی نہیں کی جائےگی بلکہ اس کے ولی اور سرپرست کی ہو گی اور اس کے بھی مراحل و آداب متعین کیے جا چکے ہیں۔ پچھلے صفحات میں ایک ایسی مثال ہم نقل کر چکے ہیں جہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ایک محتسب نے ناجائز طور پر ایک ٹیکسی ڈرائیور کو مارا تو یہ محتسب بھی پابند سلاسل کر دیا گیا۔
امارتِ اسلامی کی پابندیٔ احکامِ حجاب کے باوجود افغانستان کی کئی یونیورسٹیوں میں لڑکے لڑکیاں جوڑا جوڑا بن کر گھومتے تھے (مثلاً مزار پوہنتون، ننگرہار پوہنتون، کابل پوہنتون، قندھار پوہنتون، کابل لینگوئج سنٹر، کاردان پوہنتون، کاتب پوہنتون وغیرہ۔ پوہنتون: یعنی یونیورسٹی)، بلکہ امارتِ اسلامی کی پابندی کے بعد بھی بعض نجی تعلیمی اداروں میں فئیر ویل (farewell) اور گیٹ ٹوگیدر (get-together) کے نام پر اسی فحاشی و حیا سوزی و بے شرمی کا مظاہرہ کیا گیا، تو یہ اختلاط کہاں جائز ہے اور اس کو بند کرنے کا اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟
ان یونیورسٹیوں میں جو علوم عام طور پر پڑھائے جاتے ہیں یا عورتیں جو پڑھ رہی تھیں وہ تو مردوں کے لیے بھی فرضِ کفایہ ہیں۔ کہاں شریعتِ اسلامی کا یہ حکم کہ فتنہ و فساد و شر سے بچنے کے لیے عورتیں نمازِ ظہر و عصر و جمعہ و عیدین بھی نہ پڑھیں، عیدین بھی نہ پڑھیں ، جو سال میں دو مرتبہ ہیں، اور کہاں ہر روز شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ان علومِ دنیوی کو پڑھنے کے لیے جانا آنا؟
پس یہ وجوہات تھیں جن کے سبب امارتِ اسلامیہ کو بالغ لڑکیوں کی گھر سے باہر نکل کر تعلیمی اداروں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ اسی موضوع سے متعلق ہم امارتِ اسلامیہ کے وزیرِ تحصیلاتِ عالی شیخ مولوی ندا محمد ندیم صاحب (دامت برکاتہم) کے ’ملی ریڈیو ٹیلی وژن‘ کو دیے گئے انٹرویو کی چند باتوں کا خلاصہ ذیل میں پیش کرتے ہیں:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم. حامداً ومصلیاً وبعد!
قال اللہ تبارک و تعالیٰ:
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ (سورۃ آلِ عمران: ۱۹)
’ بیشک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔‘
وقال تعالیٰ:
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (سورۃ المائدۃ: ۴۴)
’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم (وحی)کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی لوگ کافر ہیں۔ ‘
ہمارا نظام اسلامی نظام ہے اور ہماری مملکت اسلامی مملکت ہے ۔ اسلامی نظام اس کو کہا جاتا ہے جہاں اسلامی نظام کے پاس اسلام کو نافذ کرنے کے لیے قوتِ تنفیذ ہو۔ چونکہ نظام اسلامی ہے، مملکت اسلامی ہے اور عوام مسلمان ہیں اس لیے مسلمانوں کے امیر پر واجب ہے کہ جو ہدایت اللہ کی کتاب لے کر آئی ہے وہ ہدایت لوگوں تک پہنچائے اور جس چیز سے اللہ کی کتاب نے منع کیا ہے اس سے منع کرے۔
ہمارا جو نظام افغانستان پر مکمل طور پر حاکم ہوا ہے یعنی کہ اسلامی امارت تو اس کو چودہ پندرہ ماہ ہو چکے ہیں اور اس میں عورتوں کی تعلیم رواں تھی۔ اس رواں نظام میں کئی رکاوٹیں اور مشکلات موجود تھیں اور حصولِ تعلیم کے نظام میں منکرات موجود تھے۔ اسلامی نظام کے حکام نے مصالحت سے کام لیتے ہوئے کوشش کی کہ یہ نظام چلتا رہے اور اس نظام میں جو مشکلات و منکرات موجود ہیں وہ حل ہو جائیں اور نظام صحیح سمت گامزن ہو جائے اور جس طرح عورتوں کی تعلیم کا نظام جاری ہے یہ چلتا رہے اور یہ مستقل بنیادوں پر قائم ہو جائے۔
لیکن متاسفانہ، وزارتِ تحصیلاتِ عالی یا امارتِ اسلامیہ نے جو ہدایات عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے جاری کی تھیں، چودہ ماہ گزر جانے کے باوجود ان پر عمل نہ ہو سکا۔ فلہٰذا بوجوہ امارتِ اسلامی اس امر پر مجبور ہو گئی کہ ایک ایسا فیصلہ کرے جو اسلامی شریعت کا تقاضہ ہے، اللہ کے دین کا تقاضہ ہے اور ملت کے مسلمان عوام کی فکر کے مطابق ہو۔ اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ عورتوں کی تعلیم تا امرِ ثانی معطل کر دی جائے۔ مختلف مسائل کے سبب عورتوں کی تعلیم کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
- پہلا مسئلہ یہ تھا کہ یونیورسٹیوں میں ہاسٹل فعال تھے۔ ایک صوبے کی عورتیں دوسرے صوبے میں جا کر تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ کئی کئی ماہ دوسری جگہ اقامت اختیار کرتی تھیں اور راستے میں آنے جانے کے لیے ان کے ساتھ کوئی محرم نہیں ہوتا تھا۔ ہماری اسلامی اور افغانی غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک مسلمان دوشیزہ اپنے صوبے سے ایک دور دراز ولایت میں اقامت اختیار کرے اور زندگی گزارے۔ ہاں اگر اس کا باپ اس کے ساتھ ہو، اس کا بھائی اس کے ساتھ ہو یا اس کا خاوند اس کے ساتھ ہو تو اور بات ہے اور پھر اپنے محرم کے ساتھ یہ خاتون تعلیم حاصل کرے۔
- دوسری مشکل یہ تھی کہ جو طالبات اپنے علاقوں میں رہتے ہوئے ہی گھر سے یونیورسٹیوں تک آتی جاتی تھیں تو ان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ پوری طرح سے حجاب اوڑھیں پہنیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ حجاب عملاً نہ اوڑھا پہنا گیا۔ اسلامی امارت نے مصالحت سے کام لیا کہ آج اصلاح ہو جائے گی، کل بہتری آ جائے گی، لیکن چودہ ماہ گزر گئے اور بہتری نہ آئی اور حجاب صحیح سے نہ کیا گیا۔ یونیورسٹیوں کی طرف رفت آمد ایسے لباس میں کی جاتی رہی جو زینت میں داخل ہے اور ایسے حلیے میں یہ خواتین یونیورسٹیوں میں حاضر ہوتی تھیں جیسے عورتیں شادی میں جا رہی ہوں۔ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے اور مشکل ہے۔اللہ ربّ العالمین نے فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ (سورۃ الاحزاب: ۵۹)
’اے نبیؐ ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں۔ ‘
جو حکم اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو بڑی چادریں اوڑھ پہن کر گھروں سے باہر نکلنے کا دیا ہے، اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی ہے وہ حجاب عملاً نہیں پہنا جا رہا تھا۔ یہ بھی ایک نہایت اہم مسئلہ تھا۔اور حجاب کا اسلام میں درجہ فرضیت کا ہے، حجاب اسلام میں فرض ہے۔
- ایک اور اہم مسئلہ یہ تھا کہ اکثر یونیورسٹیوں میں عورتوں اور مردوں کے درمیان مخلوط ماحول ختم نہیں ہوا تھا۔ شریعت اس اختلاط کی قائل نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اختلاطِ مرد و زن ایک ممنوع اور نا جائز امر ہے۔
- چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ یونیورسٹیوں کا موجود نصاب ایک سو ساٹھ مضامین پر مشتمل ہے اور اس میں بعض ایسے مضامین ہیں جو طبقۂ نسواں کی شان کے، عزت اور وقار اور افغانی کلچر کے منافی ہیں ۔ مثلاً انجنیئرنگ اور اس کی اقسام اور زراعت کا شعبہ ہے یا اور دیگر اسی قسم کے مضامین ۔
پس ان وجوہات و مسائل کے سبب امارتِ اسلامی نے تا امرِ ثانی خواتین کی تعلیم کو معطل کر دیا۔ اسلامی نظام ہو، اسلامی مملکت ہو، مسلمان عوام ہوں، مسلمانوں کی سرزمین ہو اور اس میں ایسے منکرات ہورہے ہوں تو مسلمانوں کا امیر اس بات کا مکلف ہے کہ اس کو روکے اور اکابرینِ ملت ان مسائل کا حل نکالیں، اس لیے امارتِ اسلامی اس فیصلہ پر مجبور ہو گئی۔
آئندہ کے لیے ہمارا کیا منصوبہ ہے؟ تو ہم افغانستان کے سبھی عوام کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں سبھی کے حقوق کے قائل ہیں اور ہر ایک کو اس کا حق ادا کرنا اپنی ذمہ داری جانتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیم سے متعلق حقوق ہوں یا عزت و ناموس کے حوالے سے حقوق ہوں یا مادّی (دنیوی)حقوق ہوں ۔ جو حقوق اللہ تعالیٰ نے کسی بھی شخص کو عطا کیے ہیں تو اسلامی امارت مکلف ہے کہ لوگوں کو وہ حق دے۔ لہٰذا آئندہ کے لیے پلان یہ ہے کہ شریعت کے تقاضوں کے مطابق ان حقوق (تعلیمِ نسواں )کا اجرا کیا جائے اور بڑی سطح پر ذمہ داران اور اکابرینِ امارت اس بارے میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں، پھر چاہے جواز کا فیصلہ ہو یا عدمِ جواز کا یہ سلسلے آگے بڑھایا جائے گا۔
لیکن اصولاً ہماری فکر و نظر یہ نہیں ہے کہ خدانخواستہ ہم تعلیم کے خلاف ہیں یا عورتوں کے خلاف ہیں یا یہ نہیں چاہتے کہ افغانستان ترقی نہ کرے ۔ ہم نے، مسلمانوں نے، مجاہدین نے جو اتنی قربانیاں دی ہیں تو ان کا مقصد یہی تھا کہ افغانستان کے عوام کی عزت اور آبرو کی حفاظت کریں اور اللہ کے دشمن جو ان لوگوں پر مسلط تھے اور ان مسلمانوں پر ظلم ہو رہے تھے ان کو ختم کرنے کی خاطر یہ سب قربانیاں پیش کی گئیں۔ پس ہم تمام لوگوں کے حقوق کے، عورتوں کے حقوق کے قائل ہیں اور اللہ کی شریعت کے دائرے میں سبھی کو ان کے حقوق عطا کریں گے اور یہ ہمارا عہد اور وعدہ ہے!‘‘12
یہاں تعلیمِ نسواں کے عنوان کو روکتے ہیں، امید ہے کہ امارتِ اسلامیہ کا موقف صراحت و وضاحت کے ساتھ قارئین کے سامنے آ گیا ہو گا۔
مرحلۂ ترغیبِ تطبیقِ حجاب کے لیے امارتِ اسلامیہ کی خدمت میں گزارشات
اب یہاں اس باب کے آخر میں راقم السطور امارتِ اسلامیہ افغانستان کی وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے معزز و مکرم، فاضل مسئولین کی خدمت میں حجابِ شرعی کی عملی تطبیق میں مرحلۂ ترغیب کے ضمن میں چند طالبِ علمانہ گزارشات پیش کرتا ہے۔ اگر ان گزارشات کو پیش کرنے میں انداز بے باکانہ یا بے احترامانہ ہو جائے تو یہ قصداً نہیں اور اگر کچھ امور پہلے سے جاری ہیں تو ان کی تکرار کا سبب راقم کی کم علمی ہے، امید ہے کہ اکابرینِ محترمین شفقت و عفو کا معاملہ فرمائیں گے:
خصوصی میڈیا پروڈکشنز بنانا
مختصر و مفصل دستاویزی ویڈیوز بنانا ۔ معاشرے کے بااثر افراد (علمائے کرام، داعیانِ دین و صوفیائے کرام، اسلامی فلاحی و خیریہ مؤسسات سے وابستہ لوگ اور دین کا درد رکھنے والے سوشل میدیا انفلوئنسرز)خصوصاً جو حکومت میں شامل نہ ہوں کے مختصر پیغامات ریکارڈ کرنا (تاکہ عوام اس دعوت و ترغیب کو محض ’سرکاری پروپیگنڈہ‘ کہہ کر رد نہ کریں)۔ حجاب کی شرعی حیثیت کو مستقل بیان کرنا۔ حجاب کی معاشرے میں عقلی ضرورت کو واضح کرنا۔ تاریخِ حجاب جو کفار میں بھی رائج رہی ہےکو بیان کرنا۔
اسی نوعیت کی تحریرات لکھنا۔
اسی نوعیت کے پوسٹرز بنانا۔
ترانے اور آڈیو پروڈکشنز بنانا۔
سوشل میڈیا کا استعمال
آج کے زمانے میں اعلام و ابلاغ کے لیے سوشل میڈیا ایک نہایت اہم آلہ ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی مہمات (campaigns) کا ترغیبِ حجاب کے لیے استعمال نہایت مفید و معاون ہو گا۔
عام طور پر عوام میں استعمال ہونے والے میڈیا پلیٹ فارمز مثلاً یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر و انسٹاگرام پر چینلز اور اکاؤنٹس کا اجرا اور ان پر درج ذیل اصناف کی پروڈکشنز کی نشر:
ویب پوسٹرز
GIFS
انفو گرافکس
مختصر ویڈیوز
مفصل دستاویزی ویڈیوز (جو پہلے ذکر ہوئیں)
سٹیٹس اپڈیٹس یا ٹویٹس
درج بالا اصناف کا #ہیش_ٹیگز کے ساتھ استعمال
پچھلی قسم کے سوشل میڈیا کے لیے بنائی گئی اصدارات (پروڈکشنز) کو واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور سگنل کے گروپس میں پھیلانا اور اپنے بھی مخصوص گروپس و چینل بنانا۔
معاشرے میں موجود اہلِ خیر اصحابِ درد کو تھرڈ پارٹی پراجیکٹس دینا جن کے ذریعے غیر حکومتی لوگ سوشل میڈیا وغیرہ پر مہمات چلائیں۔
پیسوں کے عوض اشتہاروں کے ذریعے اپنے مقصد اور نعروں کو فروغ دینا۔
ٹی وی اور ریڈیو پر اپنی دعوت کا فروغ
عملاً اس وقت سرکاری ٹیلی وژن و ریڈیو ، ’ملی‘ پر حجاب سے متعلق اشتہارات و مہمات و ویڈیوز؍آڈیوز وغیرہ چل رہی ہیں لیکن عوام کی ایک کثیر تعداد اس چینل کو نہیں دیکھتی یا سنتی۔ ایسے چینل جو افغانستان ہی سے براڈ کاسٹ ہوتے ہیں جیسے، طلوع، شمشاد، آریانہ (ریڈیو چینلز کے نام راقم کو معلوم نہیں)وغیرہ تو ان پر ائیر ٹائم خرید کر بھی اپنے اشتہارات، مختصرو مفصل دستاویزی ویڈیوز؍آڈیوز دکھائی جا سکتی ہیں۔
ایڈورٹزمنٹ کمپنیوں سے مدد لینا
ایڈورٹزمنٹ کمپنیوں کا کام ہی پراڈکٹس، آئیڈیاز، نعروں وغیرہ کو بیچنا ہوتا ہے۔ ایسی کمپنیوں سے بھی اپنی دعوت میں فروغ کے لیے مدد لی جا سکتی ہے۔ بلکہ وزارتِ اطلاعات و فرہنگ کے تحت پہلے سے یقیناً ایسے سرکاری ادارے بھی موجود ہوں گے جن سے سرکاری معاہدوں کے تحت مدد لی جاسکتی ہے۔
معاشرے کے بااثر افراد کے لیے خصوصی کاوشیں
معاشرے کے با اثر افراد (علمائے کرام خصوصاً مساجد کے ائمہ اور مدارس کے مہتممین، داعیانِ دین و صوفیائے کرام، اسلامی فلاحی و خیریہ مؤسسات سے وابستہ لوگ اور دین کا درد رکھنے والے سوشل میدیا انفلوئنسرز) کے لیے لائحہ جات تشکیل دینے کی بھی ضرورت ہے اور ایسے نکات واضح کرنے کی ضرورت ہے جو ان کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنے میں معاون ہوں۔
کانفرنسوں، سیمیناروں اور اجتماعات کا انعقاد جن میں با اثر افراد کو اس کام کو کرنے کی تحریض دلائی جائے۔
با اثر افراد کے لیے واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور سگنل پر خصوصی گروپس جہاں پہلے ذکر کردہ امور کو شریک (share) کیا جا سکے اور فیڈ بیک بھی لیا جا سکے۔
درج بالا چند گزارشات ہمارے ذہن کی خام پیداوار تھیں۔ یقیناً امتِ مسلمہ اور خصوصاً افغان قوم زرخیز دماغوں سے بھری پڑی ہے اور خود جن کی خدمت میں یہ گزارشات پیش کی گئی ہیں بہتر فکر و نظر اور وژن رکھتے ہیں۔ راقم السطور کا مقصد بس اس کارِ خیر میں شریک ہو جانا ، باقی امت کے سامنے امارتِ اسلامی کے نظامِ اسلامی کی تصویر پیش کرنا اور عند اللہ اپنی حاضری اللہ کی شریعت کے نفاذ کی دنیا بھر میں کوشش و محنت کرنے والے احباب میں لگوانا تھا۔
وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.
[تحریرِ ہٰذا کا پہلا باب یعنی ’حقوق و تعلیمِ نسواں‘ بحمد اللہ اختتام کو پہنچا ۔ اللہ ﷻ اس سلسلے کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، اور اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائیں، آمین! قارئینِ کرام اپنے مشورے، تبصرے اور آراء مجلۂ ہٰذا سے وابستہ برقی پتوں (emails) پر ارسال فرما سکتے ، جزاکم اللہ خیراً کثیراً]
٭٭٭٭٭
1 بحوالہ ٹوئٹر: @SadiqAkif
2 اس کا سبب آگے تحریر میں درج ہے۔
3 اس کی ایک مثال افغانستان کی وزارتِ دفاع ہے جہاں ایک پورا شعبہ عورتوں ہی کے حوالے ہے اور یہ عورتیں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی فوج کی وردیاں سیتی ہیں۔
4 بروایت: ہدایت اللہ ہدایت، رئیس ادارۂ فراہمیٔ معلومات (Head of Access to Information Department)، بحوالہ ٹوئٹر اکاؤنٹ ’ہدایت اللہ (ہدایت)‘ (@Hedayutullah111)۔
5 قوسین میں یہ اضافہ از طرف راقمِ تحریرِ ہٰذا ہے۔
6 بحوالہ ٹوئٹر پر نشر کردہ ویڈیو از یلدا حکیم (@BBCYaldaHakim)
7 سنن أبي داود (کتاب المناسك باب في المحرمة تغطي وجهها)
8 www.statista.com/topics/3137/cosmetics-industry
9 بحوالہ ٹوئٹر: @SadiqAkif (محمد صادق عاکف مہاجر : ترجمان وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر و سمعِ شکایات) اور راحم لغمانی (@RahimLaghmani)
10 ’’ جب تمہیں نبیؐ کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا۔ ‘‘ (سورة الاحزاب: ۵۳)علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اس میں تمام مسلمان عورتیں شامل ہیں۔
11 بلکہ ذرا غور کیجیے کہ آخر الزمان کے فتنوں اور تاریخِ انسانی کے سب سے بڑے فتنے، فتنۂ دجال کے بیان میں ایک حدیث میں وارد ہے کہ ’ دجال مرقناۃ کی دلدلی زمین سے نکلے گا اس کی طرف زیادہ نکلنے والی عورتیں ہوں گی یہاں تک کہ آدمی لوٹے گا تو اپنے دوست، ماں، بیٹی، بہن اور پھوپھی کو مضبوطی سے باندھ دے گا کہ کہیں اس کی طرف نہ چل دے‘ (مسندِ احمد و طبرانی بحوالہ کنز العمال)۔ پس بعض دفعہ فتنوں سے مامون ہونے اور اپنے اہل کو مامون کرنے کے لیے ان پر حد درجہ سختی بھی کرنا پڑتی ہے۔ اللہ ﷻ کا ارشادِ پاک ہے ’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً ‘ یعنی ’ اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ ‘۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہمارے گھر کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو ہم اسے لے لے کر ہسپتالوں میں پھرتے ہیں کہ کہیں یہ بیماری جان لیوا نہ ہو جائے ئا خدانخواستہ کوئی خودکشی پر آمادہ ہو جائے اور چھت سے اپنے آپ کو سب کے سامنے گرانے لگے تو ہم مل کر اسے دیوانہ وار روکتے ہیں، جبکہ جان سے بھی زیادہ قیمتی، قیمتی ترین متاع ’ایمان‘ اور اس ایمان کے تقاضے میں ’فرائض و واجبات‘ قربان ہونے لگ جائیں جس کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے تو ہماری عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں؟! فاعتبروا یا أولی الألباب!
12 بحوالہ یوٹیوب چینل ’RTA Pashto‘ (_تر امر ثاني پورې د_ اناثو د_ پوهنتونونو بندېدو په اړه د لوړو زده_کړو سرپرست وزیر سره ځانګړې مرکه)