پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ بڑے بڑے اداروں کی شان و شوکت میں کسی سے کم نہیں۔ عدلیہ، بیوروکریسی کے رعب داب، پروٹوکول ہوں یا صدارت، وزارت کی دھوم دھام۔ بڑے شہروں کی سڑکوں پر دمکتی امپورٹڈ گاڑیوں کا اژدہام۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور فارم ہاؤسز میں اکڑفوں۔ مگر ایک دوسرا منظر بھی اسی پاکستان کا ہے۔ مفت یا سستے آٹے کی بوریوں کے حصول کے لیے لڑتے کٹتے مرتے عوام۔ بے ہنگم ہجوم میں عورتیں بچے بھی ہیں، عمر رسیدہ مرد بھی۔ کراچی میں ہاتھا پائی اور بھگدڑ میں آٹے کی بوری کی چاہت میں دب کر مر جانے والے بارہ قیمتی انسان۔ شورکوٹ میں زخمی ہوکر ہسپتال پہنچنے والے ۵ زخمی بشمول ایک خاتون۔ گویا اب جہاں آٹا تقسیم ہو وہاں ایمبولینس اور فوری طبی امداد کا سامان بھی موجود رہے۔ کیا کسمپرسی ہے کہ ایک عورت اپنے سر پر آٹے کے چار تھیلے لادے چلی جا رہی ہے، بھاری بھرکم! بدنظمی، مجروح عزتِ نفس، بنیادی انسانی ضرورت کے لیے دھکے کھاتے عوام! ان کے لیڈر کہاں ہیں؟
حکمران وہ ہیں جو پچھلی حکومت کی ناتجربہ کاریوں کے نتائج بھگتتے، سیاسی سرپھٹول اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے جیسے تیسے حکومت چلانے بچانے میں الجھے پھنسے پڑے ہیں۔ عدلیہ، وہ جو ملک کو عدل وانصاف، عوام کے بنیادی آئینی حقوق دلانے سے بڑھ کر خود سیاسی کردار بنی ہلا مارے جانے والے متنازع فیصلے اور حکم صادر کر رہی ہے۔ جن کے اَمپائروں نے سیاست دھرنوں پر استوار کرنے کی طرح ڈال کر ’دھونس دھمکی جمہوریت‘ مسلط کی تھی، اب وہ چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔ جب عوام آٹے کے تھیلے پر جان سے جا رہے ہیں، سیاست دان اور عدلیہ ان سے منہ موڑے فوری انتخابات کو ترجیحِ اول بنائے گرد باد اٹھائے دھول مچا رہی ہے۔ آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور ہمارے دوست نما دشمن ممالک جو ازل سے اس دن کے متمنی تھے، ہماری کھوکھلی معیشت اور عوام کی بے چارگی پر بغلیں بجا رہے ہیں۔
سبھی پریشانیوں کی وجہ ہمارا قومِ نوح والا حال ہے، جس کی شکایت اولو العزم نبی اللہ نے کی تھی۔ ’جب بھی میں نے ان کو (تیری طرف) بلایا کہ تُو انہیں معاف کردے انہوں نے (نافرمانی کی روش چھوڑنے کے بجائے) کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لیے اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر میں نے اعلانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔ میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ سے کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے۔‘ (نوح: ۷–۱۳) ہمارے حالات کی ابتری ایسی ہی اللہ سے بغاوت کی روش کا نتیجہ ہے۔ آزمائش تو ہر قوم پر آتی ہے مگر رجوع اِلی اللہ اور استغفار، خداخوفی ہر مشکل سے نکلنے کی راہ دکھاتی ہے۔ ہمیں سیکولرازم نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ پھر اس پر تو وعید یہی ہے کہ: ’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اندھا اٹھائیں گے۔‘ (طہٰ: ۱۲۴)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جہاں خوشحالی کا دوردورہ رہا، ابتلا وآزمائش کی سنت بھی پوری ہوئی۔ جاں لیوا قحط، اس سے عہدہ برآ ہونے کا طریقہ، دردمندی دلسوزی، عوام کی خدمت گزاری میں ہلکان ہونا، منصوبہ بندی، رہتی دنیا تک کے لیے نمونۂ عمل ہے۔ ۱۸ھ میں جزیرۂ عرب میں سخت قحط پڑا۔ اسے سیدنا عمرؓ نے اپنی جان پر لیا۔ قسم کھا لی کہ جب تک عوام کو فراخی میسر نہ آئے اس وقت تک گوشت اور گھی کو ہاتھ نہ لگائیں گے۔ فرمایا: میں رعایا کے دکھ درد کو کیسے سمجھ سکوں گا جب تک میں بھی ان کی حالت سے نہ گزروں۔ عوام کی خدمت اور ضروریات کی فراہمی میں جتے، حال یہ ہوا کہ رنگ سیاہ پڑ گیا بھوک، مشقت اور محنت سے۔ لوگ آپس میں کہتے کہ اگر اللہ نے قحط سالی دور نہ کی تو سیدنا عمرؓ شدتِ احساس وغم کے ہاتھوں وفات پا جائیں گے۔ ہر طرف سے لوگ مدینہ پہنچنے لگے۔ عمر فاروقؓ خود کھانا کھلانے کی نگرانی کرتے۔ انتظامات میں تندہی سے اپنے امراء کے ساتھ شریک رہتے۔ شام، مصر، عراق، فارس کے گورنروں کو فوری امدادی سامان روانہ کرنے کے لیے حکم جاری کیا۔ ہر طرف سے خوراک کے قافلے آنے لگے۔ مسلسل باورچی پکاتے اور کھانا تقسیم کیا جاتا۔ بدویوں اور دیہات کے باشندوں کو ’آٹا گھر‘ سے خوراک تقسیم کرتے۔
’آٹا گھر‘ ایک مالی ادارہ تھا جس کے سامان کو دورِ فاروقی میں ایام قحط میں وفودِ مدینہ میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس میں آٹا، ستو، کھجور، کشمش کی نوعیت کی خوراک رہتی۔ بحرانی حالات میں یہ بہت بڑا بنا دیا گیا تاکہ دسیوں ہزار لوگ جو نو مہینے تک مدینہ آتے رہے خوراک سے مستفید ہوتے رہے۔ دن کو یہ عالم کہ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ عمرؓ اپنی پیٹھ پر اناج سے بھری دو بوریاں اور ہاتھوں میں تیل سے بھرا ڈبا اٹھائے ہوئے تھے، پھر میں نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا۔ پھر بیس گھرانوں پر مشتمل ایک جماعت کے لیے کھانا پکانے کھلانے میں لگ گئے، یہاں تک کہ سب کو آسودہ کردیا۔ بکثرت نمازیں پڑھتے، مسلسل استغفار کرتے۔ گریہ کناں رہتے۔ کہتے: ’اے لوگو! مجھے خوف وخطر لاحق ہے کہ اللہ کی ناراضی ہم سب کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ اپنے رب کو راضی کرلو، غلط حرکتوں سے باز آ جاؤ اور اپنے رب سے توبہ کرو، نیک اعمال کرو۔ ایسی بارش کا سوال کرو جو بارانِ رحمت ہو، بارانِ عذاب نہ ہو۔
یہی عمل مسلسل کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اس مصیبت کو ہٹا دے۔‘
نجانے پاکیزگی کے اس دور میں وہ کن غلط حرکتوں کا غم کھا رہے تھے۔ یہاں اللہ کا کون سا حکم ہے جو ہم نے توڑا نہ ہو۔ پوری بے خوفی سے LGBTQ کے گناہِ عظیم کو بڑھاوا دینے اور دنیا کی حیا باختہ اقوام کے ساتھ ہم قدم ہونے کو ڈٹ کر فلم بنائی، دکھائی، بل پاس کیا۔ سود نے مزید ہماری معیشت آلودہ کر رکھی ہے۔ رمضان میں اکادکا صفحات پر روزے کے تذکرے کے آگے پیچھے فحش تصاویر حسبِ سابق رہیں، ماہِ مقدس کی تقدیس کو پامال کرتی۔ ادھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قحط سالی کی بلا سے نمٹنے میں انتظامات کے ساتھ ساتھ مسلسل استغفار اور دعاؤں پر متوجہ تھے۔ بالآخر تمام گورنروں، افسروں کو لکھا کہ فلاں دن سب میدان میں نکلیں، رب سے عاجزی وتضرع کریں کہ یہ بلا ہم سے ہٹا دے۔ آپؓ خود بھی نکلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اوڑھے۔ لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اللہ سے گریہ زاری کی۔ آپؓ کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔ (یہاں سارے آنسو عوام کا مقدر ہیں!) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباسؓ کا ہاتھ پکڑا اور ان سے دعا کرائی۔ دعاؤں کے بعد رب تعالیٰ کی رحمت بھرپور برسی، یہاں تک کہ ہریالی چھا گئی اور لوگوں کو زندگی مل گئی۔
یہاں رجوع اِلی اللہ کی طرف حکمرانوں، سر پھٹول سیاست دانوں، قانون کا ہتھوڑا بجاتے منصفوں کے ہاں دور دور کوئی شائبہ، کوئی تصور تک نہیں۔ وہاں حساس حکمران (سیدنا عمرؓ جیسے بارعب، ہیبت طاری کرنے والے!) کا عالم دیکھیے۔ جب لوگ سیراب مطمئن ہوکر گھروں کو واپس ہونے لگے تو عمر رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ آنکھیں احساسِ تشکر سے اشک بار ہیں۔ ایک شخص نے آپؓ کی تعریف کرتے ہوئے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ بلا آپؓ سے ٹل گئی، آپؓ آزاد خاتون کے سپوت ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: تیرا ستیاناس ہو! اس (تعریف) کا میں اس وقت حقدار ہوتا جب اپنے یا اپنے باپ خطاب کے مال سے خرچ کیا ہوتا۔ میں نے تو اللہ کا مال خرچ کیا ہے۔ سیرت وکردار، طرز ِحکمرانی، احساس جواب دہی کا تقابل کر دیکھیں۔ ہم کیا تھے، کیا ہوگئے! تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو!
ہمارے حالات فرنچ انقلاب سے مشابہ ہیں۔ آٹا، روٹی تاج اچھالنے اور تخت گرانے کا سبب بن جایا کرتے ہیں۔ طبقاتی خلیج اتنی بڑھی ہو کہ ایک طرف راج کرنے والوں کی دولت ملک میں سما نہ سکے اور جائیدادیں یہاں سے پیسہ لوٹ کر دبئی، برطانیہ تک پھیلی ہوں۔ دوسری طرف عوام قسط در قسط آئی ایم ایف کے ہاتھ بھوک ننگ وصول کر رہے اور امراء کا پس خوردہ کھانے پر مجبور ہوں۔ یہ بے رحم خوفناک نظام تادیر چلنا ممکن نہیں۔ نظریہ، اقدار، آخرت کے تصور سے تہی دامن خانہ جنگی کی راہ دکھاتے ہیں۔ خدانخواستہ۔ انسانیت سوز نظام کا تریاق اسلام کی طرف لوٹنے میں ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کا فرمان فیصل ہے: ’خدا کی یہ ساری زمین سب انسانوں کے لیے ایک مسجد اور ایک سرائے کی طرح وقف ہے۔ جس طرح ایک وقف میں سب مسافروں کو فائدہ اٹھانے کا پورا پورا حق ہوتا ہے، اسی طرح سب لوگ خدا کے اس وقف (زمین) سے فائدہ اٹھانے میں برابر کے شریک ہیں۔‘
[مستعار مضمون۔یہ کالم ایک معاصر روزنامے میں شائع ہو چکا ہے۔[
٭٭٭٭٭