بیان: PR_113_AQS
تاریخ:14 رمضان المبارک 4144 ھ بمطابق5اپریل 2023ء
القدس تا ہندوستان…… ایک امت…… ایک دشمن …… ایک جنگ
مسجدِ اقصیٰ اور ہندوستان کی مساجد و مدارس پر ہونے والے حالیہ حملوں کے تناظر میں
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد
ایسے وقت میں کہ جب امتِ مسلمہ رمضانِ کریم کی بابرکت ساعتوں سے مستفیض ہو رہی تھی، تو ۱۲ رمضان المبارک ۱۴۴۴ ھ کو اللہ ﷻ کی نظر میں مبغوض و مغضوب ترین قومِ یہود سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی فوجی، قبلۂ اول اور سیّد الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ اسریٰ و معراج، مسجدِ اقصیٰ پر حملہ آور ہوگئے۔ مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی کی گئی، قرآنِ کریم کے نسخوں کو زمین پر پھینکا گیا، انبیاء کے مصلّے کے قالینوں کو جلایا گیا، نمازیوں کو الٹا لٹا کر ان کے ہاتھ اور پیر باندھے گئے، نمازیوں پر تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد اہلِ ایمان زخمی ہوئے اور باحجاب مسلمان خواتین کو مارا پیٹا گیا، مسجدِ اقصیٰ کے صحن میں ان عفت مآب بہنوں کو گھسیٹا گیا اور ان کے حجاب لہو سے تربتر کیے گئے۔ شریعتِ الٰہی اور کتاب اللہ ’قرآنِ کریم‘ کی منکر اور انبیاء اللہ کی قاتل قومِ یہود کا مسجدِ اقصیٰ پر یہ حملہ تا دمِ تحریر تین روز سے جاری ہے۔ یہودی ربیوں کے ایک گروہ نے چند دن قبل یہ اعلان کیا تھا کہ جو لوگ امسال یہودِ نا مسعود کے ایامِ پیساح (اس سال ۵ اپریل تا ۱۳ اپریل)میں مسجدِ اقصیٰ کے دالان میں دنبہ ذبح کریں گے تو ایسے افراد کو چند سو سے چند ہزار ڈالر تک کے انعامات دیے جائیں گے۔ اس یہودیوں کے گروہ نے امریکی پشت پناہی میں کام کرتی اسرائیلی حکومت کی آشیر باد سے یہودیوں کو مسجدِ اقصیٰ پر حملہ کرنے کی بھی تحریض دلائی۔
دوسری طرف اہالیانِ توحید کی سرزمینِ ہندوستان کے مختلف مقامات پر مشرک ہنودِ نامسعود نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے کے اواخر اور دوسرے عشرے کے اوائل میں کئی مساجد و مدارس پر حملے کیے۔ جشنِ رام نوامی کے دوران راجستھان میں ایک مسجد پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا، بِہار میں مدرسۂ عزیزیہ پر حملہ کر کے آگ لگا دی گئی اور قرآنِ عظیم الشان کے نسخوں کے علاوہ ساڑھے چار ہزار کتابوں کو آگ لگا دی گئی، اترکھنڈ میں نمازِ تراویح پڑھتے مسلمانوں پر بجرنگ دَل کے دہشت گردوں نے حملہ کر دیا اور گجرات میں مساجد پر پتھراؤ کیا گیا۔ بجرنگ دَل کے بھگوا دہشت گردوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بے ادبی سے لیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا اور بیت اللہ کو گرا کر اور مکہ معظمہ کو تہہ تیغ کر کے وہاں’ مکہ دیشور‘ مندر بنانے کی ہذیان بکی۔
القدس میں مسجدِ اقصیٰ پر حملے سے تمام اہلِ ایمان کے دل چھلنی ہیں اور یہی حال بہار تا رجستھان کے مدارس و مساجد کی بے حرمتی کے نیتجے میں بھی تمام عالَمِ اسلام میں بستے اہلِ ایمان کا ہے۔ تاریخ شاہد ہےکہ القدس سیّدنا فاروقِ اعظم کے زمانے میں جہاد فی سبیل اللہ سے فتح ہوا اور بعداً قبضۂ اہلِ صلیب بھی صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں جہاد فی سبیل اللہ ہی سے ختم ہوا ۔ محمد بن قاسم نے قوتِ جہاد فی سبیل اللہ ہی سے سندھ کا علاقہ فتح کر کے سرحداتِ ہند میں قدم رکھا اور محمود غزنوی نے ہندوستان میں مثلِ ہبل سومنات کا بت توڑا اور سالوں پر محیط سترہ جہادی مہمات سر کر کے ہندوستان کو اسلام کا گہوارا بنایا۔
بیت المقدس میں قبلۂ اول مسجدِ اقصیٰ کی آزادی سے ایودھیا کی بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر تک کا طریق جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ القدس تا ہندوستان ایک ہی توحید و رسالت پر ایمان رکھتی امتِ مسلمہ بستی ہے، اس امت اور اس کے دین، دینِ اسلام کا دشمن ایک دشمن ہے جو کہیں اہلِ شرک کی صورت میں ہے اور کہیں یہود کی صورت۔ اسلام کے خلاف عالمی جنگ میں سبھی دشمنانِ اسلام کا عالمی پشت پناہ طاغوتِ اکبر امریکہ ہے جو اسرائیل کا سب سے بڑا حامی اور مددگار بھی ہے۔ اس امت کا جہاد بھی ایک جہاد ہے اور اللہ ﷻ پر ایمان کے بعد اس امت کے لیے سب سے بڑا پشت پناہ اور فوز و فلاحِ دنیوی و اخروی کا ضامن عمل، عملِ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پس بھگوا ہنودِ نا مسعود ہوں یا امریکی پشت پناہی میں لڑتے یہودِ نا مسعود کے مظالم، ان کا جواب جہاد فی سبیل اللہ ہے اور ان قبیح افعال کی مذمت کی راہ بھی در حقیقت جہاد فی سبیل اللہ ہی ہے!
امام نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ’الفتن‘ میں حضرتِ کعب رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے جو غزوۂ ہند اور بیت المقدس کے تعلق کو بھی واضح کرتا ہے:
’’بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی طرف ایک لشکر روانہ کرے گا۔ مجاہدین سر زمین ہند کو پامال کر ڈالیں گے، اس کے خزانوں پر قبضہ کر لیں گے، پھر بادشاہ ان خزانوں کو بیت المقدس کی تزئین و آرائش کے لیے استعمال کرے گا۔ وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے روبرو پیش کرے گا۔ اس کے مجاہدین بادشاہ کے حکم سے مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کر لیں گے۔ اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے۔‘‘
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین، آمین!