نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | آٹھویں قسط

(سورۃالعصر کی روشنی میں)

عاصم عمر سنبھلی by عاصم عمر سنبھلی
14 مارچ 2025
in جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!, جنوری و فروری 2025
0

قیادت آزمائش کی بھٹی میں

باطل تحریکات کی طرح اہلِ حق کی تحریک میں ایسا نہیں ہوتا کہ قربانیوں کے لیے صرف کارکنوں کو آگے کیا جاتا رہے، اور قائدین اور ان کی اولاد دنیا کی لذتوں اورآسائشوں سے لطف اندوز ہوتے ر ہیں۔ یہاں تک کہ یہ قیادت اور ان کی اولاد اسی گندگی میں ڈوب کر خود اسی ظالم اشرافیہ کا حصہ بن جائے، جس کےخلاف اس نے انقلاب کا نعرہ لگایا تھا۔

بلکہ اہلِ حق کی قیادت کارکنوں سے پہلے آزمائش کی بھٹی میں جھونکی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو پہلے آزمائشوں سے گذارا، بعد میں ان کے متبعین کی باری آئی۔

سیدنا ابراہیم ﷤ کو کیسی کیسی آزمائشوں سے گذاراگیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبﷺ کو ہر طرح کی آزمائش سے گذارا، آپﷺ کی صاحبزادیوں کو، آپ کے خاندان کو اور آپ کے داماد ونواسوں کو اس مرحلے سے گذرنا پڑا۔

حضرت ابو بکر صدیق ﷜ کو بالاتفا ق پہلا خلیفہ منتخب کیاگیا، اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ کون تھے، ان کا کردار کیا تھا؟ اسلام کی آبیاری اور اللہ کے رسولﷺ پر فداکاری و جانثاری میں ان کا کیا مقام تھا؟

تمام عالم ِ عرب اس عظیم شخصیت، ان کی اہلیت، ان کی قربانی اور ان کی قیادت کے حق کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔

اسی طرح خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب﷜ کون تھے، اسلام اور اہلِ اسلام کو ان سے کیا فائدہ پہنچا؟ اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کس طرح وقت گذارا؟ عرب کے صحراء و پہاڑ اس مردِ درویش کو اچھی طرح جانتے تھے۔

اسی طر ح حضرت عثمان﷜ اور حضرت علی﷜ کی دین کے لیے قربانیوں سے اپنے پرائے سب اچھی طرح واقف تھے۔

اور یہی سنت اللہ تعالیٰ نے اہل ِ حق کے ساتھ آج تک جاری رکھی ہے۔ عالمی کفری نظام کے مقابل کھڑی ہونے والی جہادی قیادت نے سب سے پہلے اپنی قربانی پیش کی۔ اپنے گھر بار، اپنے وطن، اپنے مال و دولت اور اپنے عیش و آرام کو اس امت کے مستقبل پر قربان کیا، اسی راستے میں اپنی اولاد کو آنکھوں دیکھی موت کے راستے پر ڈالا اور امت پر قربان کردیا۔

امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد﷫نے قربانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی جس پر اسلامی بیداری کی تحریکات بجا طور پر فخر کرسکتی ہیں۔ علمائے حق سینہ تان کر لادین طبقے کے سامنے ا س ہستی کو اپنے سرتاج کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ امیر المؤمنین، اللہ اس مردِ مجاہد کو امت کی جانب سے بہترین بدلہ دے،اپنی، اپنے خاندان کی قربانی، اپنی ریاست اور اقتدار کی قربانی،اسی طرح آپ کے رفقائے جہاد نے خود اپنی اور اپنی اولاد، اپنی قوم و قبیلے کی قربانی پیش کی۔ مجددِ جہاد شیخ اسامہ بن لادن﷫ نے سب سے پہلے اپنی جان و مال اور گھر بار کی قربانی پیش کی، اپنے بچوں کو اس راستے پر ذبح کرایا، ان کی صاحبزادیاں بیوگی کی زندگی سے دوچار ہوئیں۔اسی طرح شیخ ایمن الظواہری خود اپنی جوانی سے قید و بند کی صعوبتوں، ہجرت و دربدری، جنگ کی مشکلات سے گذرتے رہے۔ آپ کی شریک ِ حیات اللہ کے راستے میں اس طرح شہید کردی گئی کہ قبر پر مٹی ڈالنا بھی نصیب نہیں ہوسکا، ان کے ساتھ آپ کا بیٹا اسلام و امت کے نام پر قربان ہوگیا،اس کے بعد بیٹیاں، نواسے اور نواسیاں سالہا سال تک اسیری کی اذیت سے گذرے کہ ایک مدت تک آسمان دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا، پھر دو بیٹیوں کے سہاگ اس راستے میں قربان ہوگئے۔

ہجرتیں، فرقتیں، دربدریاں، جیلیں اور شہادتیں، الحمد للہ یہ اعزاز امارتِ اسلامی افغانستان اور عالمی جہادی تحریک کی قیادت کو حاصل ہے کہ اس نے اس دینِ مبین کے لیے، اس امت کی عظمت و رفعت کے لیے، اپنا سب کچھ قربان کیا ہے، اور ابھی تک کر رہی ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اہلِ حق کی قیادت مصنوعی تحریکات، دجالی میڈیا کی چکا چوندھ اور باپ دادوں کی وراثت کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ دیوانے جنگوں کی گھن گرج میں پروان چڑھتے ہیں، ہجرتیں انہیں اس دنیا کی حقارت سکھاتی ہیں، آئے روز کی شہادتیں انہیں اس فانی جسم کی حقیقت سمجھاتی ہیں، اسیری انہیں زندگی جینے کا قرینہ سکھاتی ہے، ڈرون کے میزائل ان کے حوصلوں کو مہمیز لگاتے ہیں، ہر وقت موت کا سایہ ان کی خواہشات کے لیے صیقل کا کام کرتاہے، جو انہیں ان کا حال قربان کرنے پر ابھارتا ہے تاکہ یہ اپنا مستقبل (آخرت) سنوار سکیں۔

جمہوریت پسندو ں کی طرح اہلِ حق کی قیادت کوئی عہدہ و منصب نہیں ہوتا، بلکہ یہ کانٹوں کی سیج ہوتی ہے جس پر لیٹ کر بھی انسان آرام سے نہیں رہ سکتا، یہ غم کا ایسا بوجھ ہوتا ہے جسے اگر پہاڑوں پر ڈال دیاجائے تو شدتِ کرب سے وہ بھی کالے ہوجائیں، یہ لیڈری کے نام پر اپنے بنگلے نہیں بناتے بلکہ اپنے گھر بار کو کھنڈرات بنواکر امت کے دین، اس کے عقیدہ و ایمان اور ان کے گھروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ کے نظام سے محروم اس بنجر و اجاڑ زمین کو یہ اپنے گرم لہو سے سیراب کررہے ہیں تاکہ اس پر شریعت نافذ کرکے اسے تعمیر کے قابل بنایا جاسکے۔ اس کی تعمیر میں ان کی آہیں اور سسکیاں شامل ہیں، اس کی تزئین و آرائش ان کے ارمانوں کو جلاکر اور ان کی خواہشات کا خون کرکے کی جارہی ہے۔

حق و باطل کے اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دورِ جدید میں باطل کے ہاں قیادت تیار کرنے کا انداز مصنوعی اور دھوکہ و فریب پر مبنی ہے۔ باطل قوتیں کام کے اعتبار سے کردار تلاش کرتی ہیں،اور پھر کسی بھی کٹھ پتلی کو قائد بناکر دنیا کے سامنے پیش کردیتی ہیں۔ آسمان و زمین پیدا کرنے والا رب گواہ ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ (در حقیقت عیسائی دنیا کی بربادی اولیٰ) سے لے کر اب تک،خصوصاً خلافتِ عثمانیہ ٹوٹنے کے بعدسے اس دجل کے ذریعہ دنیا کے سامنے ایسے کردار قائد بناکر پیش کیے گئے جو اعلیٰ درجے کے نااہل اور نکمے تھے، لیکن یہ ذرائع ابلاغ کا دجل اور دور ِ جدید کے تاریخ سازوں کی عیاری ہے کہ انھوں نے طوائفوں، بھانڈوں، میراثیوں اور بدفعلیوں میں مبتلا کرداروں کو بھی اس جاہلی معاشرے کا ہیرو بناکر پیش کردیا۔ انتہا یہ ہے کہ اگر سینٹ ویلنٹائین جیسے بد کردار و بد فعل لوگ بھی قائد، اسوہ اور ابطال بناکر پیش کیے جاسکتے ہیں تو بہرحال ایرے غیرے تو اس سے زیادہ ہی مستحق ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت تو نام ہی اس پتلی تماشے کا ہے جہاں ملک کی مقتدر قوتیں (فوج وخفیہ ایجنسیاں) ان جمہوری جمہوروں کو قائد بناکر پیش کرتی ہیں اور ایک کے بعد ایک کو استعمال کرکے لات مارتی رہتی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ منصوبے کہاں بنتے ہیں، ریاست کو چلانے کی منصوبہ بندی کہاں کی جاتی ہے، مالیاتی منصوبہ بندی ،داخلی و خارجی امور کہاں طے پاتے ہیں ۔

اس دور کا المیہ اور دجل ہے کہ اس کی تاریخ شیاطین مرتب کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ، عالمی خبر رساں ایجنسیاں اس تاریخ سازی کے بنیادی ذرائع ہیں۔ اس لیے جسے چاہیں قائد بنادیں اور جسے چاہیں دہشت گرد ثابت کردیں، جسے چاہیں رہبر ورہنما بناڈالیں، جسے چاہیں رہزن۔ یہ سب اس دجالی دور کا کمال ہے۔بس دیکھتے جائیےاور اپنے رب کی حقانیت کا مشاہدہ کیجیے کہ وہ کس طرح لوگوں پر باطل راستو ں کو واضح کر رہا ہے کہ ان سے دین کی سربلندی تو دور سوائے پگڑیاں اچھلوانے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔

بہرحال حق و باطل کی قیادت کے مابین اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ دنیا و آخرت کا، ایثار و ہوس پرستی کا، اندھیروں اوراجالوں کا، علم اور جہالت کا۔

چنانچہ وہ تحریک جو دینِ مبین کی دعوت لے کر اٹھتی ہے، اسے اس کے شارع کے بتائے طریقے کے مطابق لے کر چلتی ہے، اسی راستے کو اختیار کرتی ہے جسے اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اختیار کیا، وہ اس منصب کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک امانت سمجھتی ہے،اس کے ذریعہ وہ آخرت کی کامیابی اور جنت کے درجات کی طالب ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس راستے میں ہر قربانی کو وہ اپنے رب کی رضا اور آخرت میں بلندیٔ درجات کا سبب جانتی ہے۔

تواصوا بالحق کے راستے میں آنے والی مشکلات کے باوجود، وہی نعرہ،وہی عزم،وہی لڑائی جس پر تحریک وجماعت کی اٹھان رکھی گئی تھی اور پھر اسی منہج و فکر پر تواصوا بالصبر کی گونجیں،کہیں مقتل سے تو کہیں زندانوں سے، کہیں خفیہ عقوبت خانوں سے تو کہیں تختہ دار پر چڑھ کر، وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیْلا، نہ راستہ بدلا، نہ راہی بدلے، نہ قافلہ چھوٹا، نہ قافلے سے راستہ چھوٹا۔ یہ مرحلہ اسلامی تحریکات کی زندگی میں زندگی و موت اور کامیاب و ناکامی کا مرحلہ ہواکرتا ہے۔ کیونکہ اگر قیادت اپنی کاز ومشن پر اپنی جانیں قربان کرجاتی ہے تو یہ ان کی فتح ہوا کرتی ہے اور باطل نظام کے منہ پر شکست کی ایسی کالک ہوتی ہے جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوتی۔

یہ امتحان و ابتلاء تو سنتِ الٰہی ہے، ورنہ اللہ چاہے تو یوں ہی کفر کو ختم کردے۔ سورۂ محمد میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ذٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ…﴾ [محمد:4]

’’تمہیں تو یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو خود ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (تمہیں یہ حکم اس لیے دیا ہے) تاکہ تمہارا ایک دوسرے کے ذریعے امتحان لے۔‘‘

یہ امتحان کیا ہے؟

اہلِ ایمان کا یہ امتحان ہے کہ زبان سے کلمہ پڑھنے کے بعد اس کلمہ کی حقانیت پر کسے کتنا یقین ہے اور کون اس کلمہ کی خاطر اپنی جان و مال قربان کرسکتا ہے؟

‌اس کلمہ کی حقانیت اور اس کے بدلے ملنے والے انعام کا جسے ایسا یقین ہے جیسا کہ اہلِ دنیا آنکھوں دیکھی دنیا پر یقین رکھتے ہیں ،تو وہ اس کلمہ پر اپنا سب کچھ قربان کرنے میں ذرا تردد نہیں کرتے۔یہ کلمہ کس کے دل میں کتنا گھر کرگیا ہے اس کا اندازہ اس کے دنیا و آخرت پر یقین کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ جو یومِ آخرت پر ایسا یقین رکھتا ہو جیسے ابھی پلک جھپکتے ہی وہ اپنے اللہ کے سامنے جاکھڑا ہونے والاہے ،اس کا مطلب ہے کہ کلمہ توحید اس کے دل میں ایسا پیوست ہوچکا ہے کہ اس کے غیر اس دل سے نکل چکے ہیں۔ لیکن اگر کوئی یومِ آخرت کے مقابلے آنکھوں دیکھی دنیا کو ترجیح دیتا ہے، اس کی فانی زندگی اور اس کے مال و متاع کو ترجیح دیتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کے دل میں توحید کتنی ہے اور غیروں کی شرکت کس قدر بیٹھی ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نےسورۂ توبہ کی ایک آیت میں ہے یہ سارا مضمو ن سمجھا دیا کہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے کوئی مشکل نہ رہے۔ فرمایا:

﴿لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَاللهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِين﴾ [التوبة: 44]

’’جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اپنے مال و جان سے جہاد نہ کرنے کے لیے تم سے اجازت نہیں مانگتے، اور اللہ متقی لوگوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘

یعنی جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ جہاد سے بیٹھے رہنے کی اجازت نہیں مانگتے۔بلکہ وہ تو اللہ سے ملاقات اور آخرت کے دن اس کلمہ پر قربان ہونے کے بدلے ملنے والے انعام کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔

یہ اجازت مانگنا تو ان کی عادت ہے جن کے دل میں یہ کلمہ بیٹھا ہی نہیں ہے اور وہ آخرت کے مقابلے اس دنیا کو ہی اصل سمجھتے ہیں اور اس دنیا پر ان کا یقین آخرت سے زیادہ ہے۔ کلمہ تو بس یوں ہی پڑ ھ لیا ہے کہ چند رسومات ادا کرلیں اور مسلمانوں کی فہرست میں نام شامل ہوجائے۔

امام المفسرین امام ابن جریر طبری﷫ اس کی تفسیر میں کتنی سخت بات کر تے ہیں:

وهذا إعلامٌ من الله نبيَّه صلى الله عليه وسلم سِيمَاء المنافقين: أن من علاماتهم التي يُعرفون بها تخلُّفهم عن الجهاد في سبيل الله، باستئذانهم رسول الله صلى الله عليه وسلم في تركهم الخروجَ معه إذا استنفروا بالمعاذير الكاذبة۔

’’یہ اللہ کی جانب سے اپنی نبیﷺ کو منافقین کی علامات کی اطلاع دینا ہے۔ان کی علامات میں سے،جن سے انہیں پہچاناجاسکتا ہے… ایک علامت ان کا جہاد فی سبیل اللہ سے پیچھے رہنا ہے، جھوٹے عذر پیش کرکےا للہ کے رسولﷺ سے جہاد سے پیچھے بیٹھے رہنے کی اجازت طلب کرنے کے ذریعہ سے۔‘‘

﴿إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ﴾ [التوبۃ:45]

’’تم سے اجازت تو وہ لوگ مانگتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں، اور وہ اپنے شک کی وجہ سے ڈانواں ڈول ہیں۔‘‘

ظاہر ہے جب دل میں ہی شک و نفاق پیدا ہوگیا اور جو کچھ محمدﷺ لے کر آئے ہیں اس کے بارے میں ہی شک و شبہ میں پڑ گئے، کہ محمدﷺ کی لائی شریعت خسارے سے بچاسکتی ہے یا وہ شریعت جس کو عالمی سود خوروں نے عالمی نظام کے طور پر اقوامِ متحدہ کے ذریعہ مسلط کرایا ہے۔

سو جن کے کلمہ پڑھنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ اپنے ایمان لانے اور کلمہ پڑھنے میں جھوٹے ہیں توان کا صرف زبان سے کلمہ پڑھنا انہیں کتنا خسارے سے بچاسکتا ہے ، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

اپنے دین و ایمان کو مغلوب دیکھ کر باطل نظام کے خلاف قتال نہ کرنا،کفرکی غلامی میں جی کر جانیں بچائے پھرنا، کس قوم کی لغت میں ’فتح‘ کہلاتا ہے؟ اپنے گھر بار بچانے کے لیے مسلمانوں کے گھر بار کو جلتا اجڑتا، کھنڈرات بنتا دیکھ کر خاموش تماشائی بنے رہنا کہاں کی شرافت ہے؟ جب ایک طرف حزب الرحمٰن اور دوسری جانب حزب الشیطان آمنے سامنے ہوں، دونوں اپنے اپنے عقیدے و نظریے کے لیے اپنا سب کچھ جھونک دینے پر تیار ہوں، الذین آمنوا، اپنے اسلام کے لیے، جبکہ والذین کفروا، کفری نظام کے لیے جنگ کر رہے ہوں، اس جنگ میں خود کو حق کی صفو ں سے الگ کرکے یہ سمجھ لینا کہ ہم تو غیر جانبدار ہیں! سوال یہ ہے کہ آپ کس سے غیر جانبدار ہوگئے؟ اس اسلام سے جس کے لیے مر مٹنا آپ پر فرض کیا گیا تھا۔ رحمۃ للعالمینﷺ کے لائے قرآن سے،جس کے لیے اپنا گھر بار، مال و دولت وآل اولاد سب کچھ قربان کردینے کا حکم کیا گیا تھا۔ آپ نبیﷺ کے اس اسلام سے صرف اس لیے غیر جانبدار ہوگئے کہ کفری نظام کی محافظ قوتیں کہیں آپ سے ناراض نہ ہوجائیں۔

اللہ کے مکمل دین کی دعوت خواہ ساری دنیا ناراض ہوجائے، علماء کی ذمہ داری ہے۔اس دور میں داعیانِ دین اور خصوصاً اسلامی تحریکات کو یاد رکھنا چاہیے کہ [إن الإنسان لفي خسر] کا نعرہ لگانے کے بعد، اس سورت کے دوسرے حصے [وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر] کومضبوطی سے پکڑنا ہوگا۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلامی تحریکات کے کمزور مؤقف، کھوکھلے نعروں یا کمزور کردار کی وجہ سے لوگ اسلامی بیداری کے بارے میں ہی فتنے کا شکار ہوجائیں۔

جب ایک بار زبان سے [ربنا اللّٰہ] کا اعلان کردیا توپھر لازم ہے کہ اسی پر ثابت قدمی دکھائی جائے، اسی پر جینا ہو اور اسی پر موت آئے، غیر اللہ کے ہر نظام سے اعلانِ بغاوت اور صرف محمدﷺ کے لائے نظام کا نفاذ، اس کے لیے عداوتیں، دشمنیاں، کال کوٹھریاں، پھانسی کے پھندے اور دربدریاں، یہ خسارہ نہیں کامیابی ہی کامیابی ہے ۔ کیونکہ یہ سب اللہ کی رضا کے لیے، اس کے دین کی سربلندی کے لیے ہے۔

سو داعیانِ دین اور اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کی بلندی کے لیے اٹھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ سورت کی آخری آیت کو اپنا لائحہ و منہج بنائے رکھیں تاکہ قافلہ کامیابی کے راستے پر چلتا رہے۔

نیز امتِ مسلمہ کے سنجیدہ طبقے کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ اپنی دعوت اور اپنے منہج و نظریات کو غالب کرنے کے لیے طاقتور قوتوں کے سامنے اعلانِ بغاوت کرنا انبیاء کی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کی مکمل دعوت، خواہ کافروں کو جتنی بھی بری لگی، ہر حال میں دی جاتی رہی ہے۔ خواہ اس کے لیے اپنی جان، اپنا گھر بار اور اپنا وطن بھی چھوڑنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ پوری کی پوری جماعتیں اسی دعوت و منہج پر شہید کردی گئیں۔

مردانِ حر کی تاریخ میں اسے شکست نہیں کہتے کہ پوری کی پوری جماعت میدانِ کارزار میں شہید کردی جائے، یا مقتدر طبقے کی کال کوٹھریوں سے ان کے جنازے نکلیں، یہ تو ان کے منہج و نظریات کی فتح ہوا کرتی ہے۔ شکست تو یہ ہے کہ جماعت کی قیادت اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے کارکنوں کی قربانیوں سے سودے بازی کر کے اپنے منہج و نظریات سے پیچھے ہٹ جائے، وہ دنیا کی چند دن کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے آخرت کی دائمی ،ابدی اور لافانی زندگی سے غافل ہوجائے۔ انقلابات کی تاریخ میں یہ بدترین شکست ہوتی ہے کہ قیادت اپنے بنیادی نظریات سے منحرف ہوجائے، ڈر کر، تھک کر، سست ہوکر یا جیسے بھی، قافلہ حق کا اپنے نعرے اور نظریے پر مر مٹنا ایسی فتح ہوتی ہے جس سے تاریخ کا چہرہ ہمیشہ روشن رہا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے دیوانوں کی تعریف بیان کی ہے جو راہِ حق میں مصائب و مشکلات اور مادی نقصانات اٹھانے کے بعد بھی اسی راستے پر چلتے رہتے ہیں۔ فرمایا:

﴿وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ مَعَہٗ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ فَمَا وَھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا وَاللّٰہُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ﴾ [آل عمران:146]

’’اور کتنے سارے پیغمبر ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی! نتیجتاً انہیں اللہ کے راستے میں جو تکلیفیں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ انھوں نے ہمت ہاری ، نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انھوں نے اپنے آپ کو جھکایا، اللہ ایسے ثابت قدم لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘

امام ابن جریر طبری﷫ فرماتے ہیں: اہلِ حجاز و بصرہ کی قرأت میں ﴿وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ﴾ میں جو ﴿قٰتَلَ﴾ ہے، اسے ﴿قُتِلَ﴾ پڑھا گیا ہے، کہ کتنے ہی نبی ایسے تھے جن کے ساتھ علماء و فقہاء شہید کردیے گئے لیکن ان کے بعد والے نہ قتال کرنے میں سست پڑے، نہ کمزوری دکھائی۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

اِک نظر اِدھر بھی! | جنوری و فروری 2025

Next Post

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | قسط دوم

Related Posts

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | بارہویں اور آخری قسط

14 جولائی 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط

9 جون 2025
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | دسویں قسط

26 مئی 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | نویں قسط

31 مارچ 2025
علیکم بالشام

وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ!

14 مارچ 2025
ہمیشہ سے بپا اک جنگ ہے ہم اس میں قائم ہیں!
اداریہ

ہمیشہ سے بپا اک جنگ ہے ہم اس میں قائم ہیں!

14 مارچ 2025
Next Post

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | قسط دوم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version