مغربی تہذیب و افکار، اپنے ظاہری ملمع سازی اور لچک پن کے ذریعے باستثنائے اسلام تمام ادیان و مذایب کو مات دے چکا ہے۔ اس طوفانِ بلاخیز کے سامنے کوئی بھی مذہب باستثنائے اسلام اپنی فرسودہ تعلیمات کی بنیاد استوار نہیں کر سکتا اور نہ ہی لوگوں کو اپنے نظریات سے ہم آہنگ کر سکتا ہے؛ اسی لیے موجودہ دور میں مذہبِ اسلام کا تقابل جس فکر و فلسفہ کے ساتھ ہے، وہ مغربی تہذیب ہے۔ ہم مسلمانوں کو جس تہذیب کے افکار و نظریات کو رد کرنے کی یا جن نظریات کے خلاف محاذ قائم کرنے کی ضرورت ہے، وہ صرف مغربی تہذیب ہے۔ جس کے فلسفے اور تعلیمات کی بناء پر، الحاد، مساواتِ مرد و زن، لبرل ازم، سیکولرازم، فیمن ازم، ہم جنس پرستی، جمہوریت، سرمایہ دارانہ نظام جیسے بے بنیاد افکار پیدا ہوتے ہیں، جو بظاہر اپنے اندر لچک رکھتے ہیں؛ لیکن ان کے پس پردہ جو خرابیاں ہیں، جو خرابیاں ان فلسفوں میں پنہاں ہوتی ہیں، ان کا نتیجہ فقط ’’دین سے بیزاری‘‘ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نہ صرف اس تہذیب کے افکار کا حامل ہے، بلکہ ان افکار کے مخالفین کو متشدد اور دقیانوس گردانتا ہے اور ان کو دنیاوی معاملات میں بالکل کورا اور اناڑی سمجھتا ہے۔
موجودہ دور میں مغربی تہذیب کے افکار کے حامل مسلمانوں کو دین سے بیزار کرنے اور الحاد کی طرف مائل کرنے میں دو افکار و فلسفوں نے مرکزی رول ادا کیا ہے۔ ان میں پہلی فکر ’’انسانیت پرستی (Humanism) ہے اور دوسری فکر ’’وطن پرستی‘‘ (Nationalism) ہے۔
یہی دو فلسفے ہیں، جس نے مسلمانوں کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ ’’میں پہلے انسان ہوں، پھر بعد میں مسلمان ہوں‘‘ یا ’’میں پہلے ہندوستانی ہوں پھر بعد میں مسلمان ہوں‘‘۔ حالانکہ اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ان جملوں کا قائل مداہن فی الدین، اسلامی تعلیمات سے یکسر ناواقف اور مغربی تہذیب سے پورے طور پر مرعوب ہے۔ کیونکہ اگر مذہبِ اسلام کی تعلیمات اور اس پہلی فکر یعنی ’’انسانیت پرستی‘‘ کے نظریات کا موازنہ کرے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبِ اسلام میں، جس قدر انسانی حقوق کے تعلق سے تعلیمات موجود ہیں، ان تعلیمات کا عُشرِ عشیر بھی اس پہلی فکر میں نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ مذہبِ اسلام کا دوسرا نام انسانیت نوازی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ مزید برآں کہ مذہبِ اسلام میں خالق کا تصور موجود ہے، جبکہ انسانیت پرستی اس تصور سے خالی ہے، جو اس کی احسان فراموشی اور بطلان کی واضح دلیل ہے۔
اور دوسری فکر یعنی ’’وطن پرستی‘‘، تو اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ اس فکر کو ختم کرنے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ؎
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
یہ بات مدِّ نظر رکھنی چاہیے کہ دشمنانِ اسلام نے انہیں دو فلسفوں کے ذریعے مسلمانوں کی اجتماعیت اور شیرازہ بندی میں رخنہ ڈالا تھا۔ تاریخ کے صفحات اس بات پر شاہد ہیں کہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال میں وطن پرستی کا مرکزی رول رہا ہے۔ عربوں کو عجمیوں کی حکومت کا طعنہ دے کر ترکوں سے کاٹ دیا گیا، جس کا نتیجہ مسلمانوں کی عظیم الشان خلافت کے زوال کی شکل میں ظاہر ہوا۔
بہرحال! یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان دو افکار و فلسفوں کی ظاہری لچک سے اس قدر متاثر ہے اور اس قدر غلو کرنے لگتا ہے کہ جس سے بسا اوقات ایمان کے زائل ہونے اور کفر کی طرف مائل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
خیر اب ہمیں بے فائدہ اور لاحاصل بحثوں میں نہ پڑ کر ان افکارِ تہذیبِ مغرب کی تردید میں لکھنے، بولنے ، عوام کے ذہن میں اس کی نفرت پیدا کرنے اور ان پر مواد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب فتنوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔ آمین ثم آمین۔
[مستعار مضمون]
٭٭٭٭٭