وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر
امام واحدی فرماتے ہیں:
{وتواصوا بالصبر} على طاعة الله والجهاد في سبيله۔1
’’اللہ کی اطاعت اور جہاد فی سبیل اللہ پر ثابت قدمی کی تلقین کرتے رہے۔‘‘
امام رازی فرماتے ہیں:
وَالتَّوَاصِي بِالصَّبْرِ يَدْخُلُ فِيهِ حَمْلُ النَّفْسِ عَلَى مَشَقَّةِ التَّكْلِيفِ فِي الْقِيَامِ بِمَا يَجِبُ، وَفِي اجْتِنَابِهِمْ مَا يَحْرُمُ إِذِ الْإِقْدَامُ عَلَى الْمَكْرُوهِ، وَالْإِحْجَامُ عَنِ الْمُرَادِ كِلَاهُمَا شَاقٌّ شديد۔2
’’واجبات کو اداکرنے میں تکلیف کی مشقت پر نفس کو تیار کرنا بھی تواصوا بالصبر (ایک دوسرے کو ثابت قدمی کی تلقین میں) میں داخل ہے، اور حرام چیزوں سے اجتناب بھی۔ کیونکہ وہ عمل کرنا جو نفس کے لیے ناپسند ہو اور خواہشات کو چھوڑنا… دونوں ہی نفس پر سخت شاق ہوتے ہیں۔‘‘
اسلامی بیداری کی تحریکوں کے لیے تواصوا بالحق کی گونج سے معاشرے میں ایک شور بپا کردینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی، حق کے نعروں سے دلوں کو گرما کر،نوجوانوں کے سینوں میں جذبات کی آگ بھڑکادینا بھی کوئی انہونی نہیں سمجھی جاتی، اس تحریک کا ایک اچھی تعدا د کو اپنے اردگرد جمع کرلینا بھی معمول کی بات ہوا کرتی ہے۔ تواصوا بالحق کی صداؤں سے گلی کوچے، بازار و چوپالیں اور عوام و خواص کی محفلیں سب گونجنے لگتی ہیں۔
یہ سب ابتدائی مرحلہ میں ہوتا ہے۔
لیکن امتحان کا پہلا مرحلہ اس کے بعد شروع ہوتا ہےجب مقابل نظام حرکت میں آتا ہے، اپنی سیادت و قیادت، حکومت و ریاست، اپنے نظریے و عقیدے اور اپنے ہاتھوں سے تراشے اپنی خواہشات کے معبودوں کو بچانے کے لیے مقابل حریف طاقت کا استعمال شروع کرتا ہے۔
جب اقتدار کے نشے اور طاقت کے گھمنڈ میں ڈوبی اشرافیہ کے پاس دلائل ختم ہوجاتے ہیں، پھر ان کی دہلیزوں سے یہ آوازیں آنی شروع ہوتی ہیں:
﴿قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا اٰلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِينَ﴾ (سورۃالأنبياء: 68)
’’کہنے لگے: اس (ابراہیم)کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم مدد کرنے والے ہو ۔‘‘
﴿فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ﴾ (سورۃ النمل: 56)
’’سو ان کی قوم کا جواب یہی تھا کہ لوط() اور ان کی اولاد کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو ،یہ بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔‘‘
اب امتحان شروع ہوتا ہے، تاکہ کھرے کھوٹے پرکھ لیے جائیں، سچے اور جھوٹے الگ الگ کردیئے جائیں، دین کے راستے میں ابتلاء و آزمائشوں کے بارے میں یہ سمجھنا مناسب نہیں کہ ہر دور میں یہ صرف رخصت و عزیمت کا مسئلہ رہا ہے کہ جو کرلے بڑا عظیم اور جو نہ بھی کرے اس کے دین پر اس کا کوئی وبال نہیں، بلکہ بسا اوقات امتحان و آزمائشوں کا یہ دور واجباتِ دین اور ضروریاتِ دین کا مسئلہ بنتا رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی سنت ہے جو اللہ نے پہلے سے جاری کررکھی ہے۔
﴿الٓم اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ﴾ (سورۃالعنکبوت:1،2)
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انھیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا کہ بس وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے، اور انھیں آزمایا نہ جائے گا؟‘‘
﴿وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ﴾ [العنکبوت:3]
’’حالانکہ ہم نے ان سب کی آزمائش کی ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ لہٰذا اللہ ضرور معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ ہیں جنھوں نے سچائی سے کام لیا ہے اور وہ یہ بھی معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘
﴿وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ﴾ (سورۃ العنکبوت:11)
’’اور اللہ تعالی ضرور معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ ایمان لائے ہیں اور وہ ضرور معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ منافق ہیں۔‘‘
﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِينَ﴾ [آل عمران: 142]
’’بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ( یونہی) جنت کے اندر جاپہنچو گے؟ حالانکہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانچ کر نہیں دیکھا جو جہاد کریں، اور نہ انھیں جانچ کر دیکھا ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہیں۔‘‘
﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِيْبٌ﴾ (سورۃالبقرۃ:214)
’’(مسلمانو!) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں (یونہی) داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں ، اور انھیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھی بول اٹھے کہ ’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘ یا درکھو! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔‘‘
سو حق کی صدا لگانے والوں میں اللہ کی یہ سنت جاری ہوتی ہے اور انھیں آزمائش کی بھٹیوں میں جھونکا جاتا ہے۔ دشمن کے قید خانے اور پھانسی کے تختے ان کی ابتدائی تربیت گاہ بنتے ہیں، حوادث و مصائب کے طوفان ان کی تجربہ گاہ ہوتے ہیں۔ ان حوادث و مصائب میں ان کےغم کا مداوا ایک اور نئے غم کے ذریعہ کیا جاتاہے، ﴿فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ﴾، تاکہ ایک نئے غم کے ذریعہ پچھلے غم کے حزن و ملال پر تسلی ہوجائے، یہ راہ ہی ایسی ہے جہاں زخم کا علاج ایک نئے زخم سے کیا جاتاہے، تاکہ زخمی زخمی دل کو کچھ قرار آجائے، ﴿ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُم﴾ (سورۃآل عمران:153)3
کیونکہ امتحان کی یہ سنت جاری ہےاور جاری رہے گی، اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے :
﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ وَنَبْلُوَا اَخْبَارَكُمْ﴾ سورۃمحمد:31)
’’اور ہم ضرور تمہیں آزمائش میں ڈالیں گے ، تاکہ ہم یہ دیکھ لیں کہ تم میں سے کون ہیں جو مجاہد اور ثابت قدم رہنے والے ہیں، اور تاکہ تمہارے حالات کی جانچ پڑتال کرلیں۔‘‘
یہ آیت ہر مسلمان اور خصوصاً ہر مجاہد کے رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے کہ عالم الغیب رب تاکید کے ساتھ اعلان فرمارہا ہے کہ مجاہد و غیر مجاہد کو ظاہر کرنے کے لیے اور ثابت قدم رہنے والے مجاہد اور اعلائے کلمۃ اللہ سے منہ موڑ جانے والے کو ظاہر کرنے کے لیے ہم ضرور تمہیں آزمائش میں ڈالیں گے۔ ایسے حالات تمہارے اوپر لائیں گے کہ سب کچھ ظاہر ہوجائے کہ توحید کا اقرار کرنے کے بعد اس توحید پر کون پورا اترا، اور جہاد میں آنے کے بعد کون اس جہاد پر ثابت قدم رہا، یہاں تک اپنی جان اسی کلمہ توحید پر قربان کرکے کامیاب لوگوں میں شامل ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر انتہائی شفیق و مہربان ہیں۔ چنانچہ سورۂ محمد ہی میں طریقہ بھی بتادیا کہ اس جانچ پڑتال میں خود کو کامیاب کرانے کا طریقہ کیا ہے۔ فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰہِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ سَيَہْدِيْہِمْ وَيُصْلِحُ بَالَہُمْ﴾ (سورۃ محمد:4،5)
’’اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز اکارت نہیں کرے گا۔ انھیں اپنی رضا والے اعمال کی توفیق عطافرمائے گا، اور ان کی حالت کو دنیا و آخرت میں درست فرمادے گا‘‘۔
یعنی جو اسی کلمہ پر جان دے گئے اگر چہ وہ دشمن کے مقابلے جان ہار بیٹھے،لیکن ان کے اعمال، ان کی کوششیں، ان کا جہاد کرنا اور اس میں جان قربان کرجانا بے کار نہیں گیا، بلکہ کار آمد رہا۔ اصل آخرت کی زندگی جس پر یہ ایمان رکھتے تھے اللہ اس کو بنادے گا ،اور ان کی منزل یعنی جنت میں انھیں پہنچادے گا۔
امام ابن جریرطبری نے تفسیرِ طبری میں فرمایا ﴿وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا﴾میں ہمارے نزدیک راجح قرأت ﴿والذین قاتَلُوا﴾ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنھوں نے اللہ کے راستے میں قتال کیا، اللہ ہرگز ان کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا، اور ان کی حالت کو دنیا و آخرت میں درست فرمادے گا۔
اس طرح اللہ کے راستے میں قتال کرنے والوں کا امتحان اور آسا ن کردیا گیا کہ امتحان سے پہلے ہی بتادیا گیا کہ اس امتحا ن میں کامیاب ہونے کا کیا طریقہ ہے۔
جو کلمہ زبان سے پڑھا اس کی سر بلندی کے لیے قتال کرنا، اور اسی پر ڈٹے رہنا یہاں تک کہ دو اچھائیوں، شریعت یا شہادت، میں سے ایک اچھائی مل جائے۔
اللہ تعالیٰ وعدہ فرمارہے ہیں کہ اللہ ایسے لوگوں کو تین انعام عطا فرمائیں گے:
﴿فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ﴾: کوششوں کو ضائع نہیں کریں گے، خواہ جتنے لمبے عرصے بھی جہاد کرتے رہیں، اللہ ایک ایک قدم، ایک ایک لمحہ اور ہر ہر گھڑی کے بدلے اپنی ہمیشہ کی جنتیں عطافرمائیں گے۔
﴿سَيَہْدِيْہِمْ﴾: اور خود ان کی رہنمائی فرمائیں گے، تاکہ یہ راہِ حق پر اللہ کی مرضی کے مطابق جہاد کرتے ر ہیں۔ ہر مشکل وقت میں جب فتنوں کے جھکڑ چل رہے ہوں گے اور بڑے بڑے تناور درخت جڑوں سے اکھڑتے ہوں گے، اللہ انھیں راہِ حق پر ثابت قدم رکھے گا۔
﴿وَيُصْلِحُ بَالَہُمْ﴾: اور دنیا و آخرت میں ان کی حالت کو دست رکھے گا۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ جہاد و مجاہدین کی حالت کی درستگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کا جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے، نبی کریم ﷺ کے بتائے طریقے کے مطابق ہو۔ اگر چہ فتح و شکست کسی کے بھی ہاتھ لگے،حتیٰ کہ سارے کے سارے مجاہدین شہید کردیے جائیں، وہ کامیاب ہیں اگر اللہ کی رضا کے لیے اور نبیﷺ کے طریقے پر ان کا جہاد تھا۔ لیکن اگر مجاہدین کو ظاہراً میدان میں فتوحات پہ فتوحات مل رہی ہوں، لیکن خود اپنے ہاتھوں سے وہ شریعت کی حدود پامال کررہے ہوں، اعلائے کلمۃ اللہ کے بجائے وطنیت، قومیت، تنظیم پرستی یا کسی اور عصبیت کے لیے ان کا جہاد ہو تو یہ ان کی حالت کا اچھا ہونا نہیں، بلکہ یہ بدترین حالت ہے جس سے ہر مسلمان کو پناہ مانگنی چاہیے۔
امت کی حالت درست کرنے کے لیے ایک لطیف نکتہ
اس آیت سے معلوم ہواکہ قتال کے عمل کا جاری رکھنا ہی اس امت کو ہر طرح کے فتنوں سے بچانے کا سبب ہے۔ قتال فی سبیل اللہ، اللہ کی رضا،اس کی جانب سے خاص رہنمائی اور مسلمانوں کی اجتماعی حالت کو درست رکھنے کا ذریعہ ہے۔ جب بھی یہ امت قتال کے عمل کو چھوڑ بیٹھے گی اس کی حالت ابتری کا شکار ہو جائے گی، یہ جیتی جتائی جنگ ہا رجائے گی۔ قیادت اس کے ہاتھ سے نکل کر شریعت کے دشمنوں (کفار و مرتدین و منافقین)کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔
چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ باطل قوتیں بھی اس راز سے واقف ہیں، اسی لیے وہ سب سے پہلی شرط یہ رکھتی ہیں کہ ہمارے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے جائیں، جنگ بندی کی جائے، اسلحہ رکھا جائے، وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانا زیادہ آسان ہے۔
ایک اشکال
جیسا کہ آپ نے بیان کیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ قتال کرنے والوں کے بارے میں وعدہ کر رہے ہیں کہ ان کی رہنمائی کرے گا اور ان کی حالت کو درست کردے گا،تو پھر مجاہد یا جہادی جماعتیں راہِ حق سے منحرف کیوں ہوجاتی ہیں ؟
اس کا جواب خود اسی آیت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کی رہنمائی اور ان کی حالت کی درستگی کا جو وعدہ فرمایا وہ مشروط ہے: الذین قاتلوا في سبیل اللہ یعنی جنھوں نے اللہ کے راستے میں قتال کیا، اور اللہ کی نظر میں قتال فی سبیل اللہ وہی معتبر ہوگا، جسے اللہ کے رسولﷺ نے بیان فرمایا:
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلذِّكْرِ وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ؟ قَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ–4
حضرت ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ ایک شخص رسو ل اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ کوئی آدمی غنیمت کے لیے قتال کرتاہے، کوئی آدمی اپنی تعریف و شہرت کے لیے قتال کرتا ہے اور کوئی عزت وجاہ کے لیے قتال کرتا ہے تو اللہ کے راستے میں کون ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: ’’جو اس لیے قتال کرے کہ اللہ کا کلمہ سربلند ہو (اللہ کی شریعت اللہ کی زمین پر نافذ ہو) وہ اللہ کے راستے میں ہے۔‘‘
چنانچہ اگر کوئی مجاہد انفرادی سطح پر یا کوئی جہادی جماعت اجتماعی سطح پر راہِ حق سے انحراف کرنے لگے، جہاد سے منہ موڑنے لگے، یا اللہ کی ناراضگی والے کاموں میں لگ جائے، اور اس کی حالت خراب ہونے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ الذین قاتلوا في سبیل اللہ یعنی قتال فی سبیل اللہ کے عمل میں کوئی ایسا کام ہورہا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے، مقصدِ جہاد تبدیل ہوگیاہے، غلبہ دین اور اللہ کی رضا کی جگہ دنیاوی مفادات یا عصبیت نے لی ہے، جماعتی طورپرشریعت کی اتباع میں کوتاہی برتی جارہی ہے، یا مجاہد سے انفرادی سطح پر اللہ کی ناراضگی والا عمل ہورہا ہے۔ کیونکہ مجاہد کے اعمال اس کے جہاد میں ثابت قدمی اور کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔
حضرت ابو درداء نے فرمایا:
’’إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ بِأَعْمَالِكُمْ‘‘۔
’’تم اپنے اعمال کی بنیاد پر ہی قتال کرتے ہو۔‘‘
علامہ انور شاہ کشمیری اس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قوله: (إنما تقاتِلُون بأعمالِكُم) أي إنَّ الأعمالَ الصالحة تُورِث ثباتَ القَدَمِ عند القتال، فالقتالُ يكون بسبب بركةِ الأعمال، فهي دخيلةٌ فيه۔5
’’یعنی اعمالِ صالحہ قتال کےوقت ثابت قدمی عطاکرتے ہیں،سو اعمالِ صالحہ کی برکت سے قتال ہوتا ہے چنانچہ اعمالِ صالحہ کا قتال میں دخل ہوتا ہے‘‘۔
جس قدر توفیقِ الٰہی میں کمی اور مجاہدین کی حالت میں ابتری پیدا ہوگی6 یہ پہچان ہوگی اس بات کی کہ اسی قدر قتال کے عمل میں یا انفرادی سطح پر کہیں خلافِ شرع یا خلافِ رضائے رب کام ہورہا ہے۔ یا اسے یوں کہہ لیجیے کہ قتال کے عمل کو جتنا اخلاصِ نیت اور نبی کریمﷺ کے طریقے پر کیا جا ئے گا توفیقِ الٰہی اور مجاہدین اور جماعت کی حالت اتنی ہی بہتر رہے گی۔ اسی طرح مجاہد کا تعلق اپنے رب کے ساتھ جتنا مضبوط رہے گا توفیقِ الٰہی اور اس کی رہنمائی اتنی ہی اس کے ساتھ رہے گی، یہاں تک کہ اُن گھٹا ٹوپ فتنوں میں بھی اس کا دل راہِ حق پر جما رہے گا، جو خاص مجاہدین پر برسنے کے لیے بھیجے گئے ہوں گے۔
سو ’تواصوا بالحق‘ کے بعد شر کی قوتیں حرکت میں آتی ہیں۔ کیونکہ حق و باطل اورخیر و شر کی اس جنگ میں باطل کی ہمیشہ سے یہ روش رہی ہے کہ وہ اہلِ حق کو دبانے، انھیں دین کے درست منہج و راستے سےہٹانے اور ان کی دعوت کا گلا گھوٹنے کے لیے ہر قسم کی ظلم و زیادتی کو اپنے لیے جائز سمجھتا ہے۔ اس میں وہ نہ کسی اخلاقیات کا لحاظ کرتا ہے اور نہ کسی تعلق و قرابت داری کا پاس کرتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان کی فوج شریعت کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ کر رہی ہے۔
کیونکہ یہ ایسا معرکہ ہوتاہے جہاں حق کی جانب اپنے دین و عقیدے اور باطل کی جانب اپنی خواہشات و اقتدار کی حساسیت ہوتی ہے۔ حق والے حق کے لیے اور خواہشات پرست اپنی خواہشات اور اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہیں۔
اہلِ حق پر ظالم نظام کی جانب سےاس ظلم و زیادتی کا مقصد صرف یہ نہیں ہوتا کہ حق کی دعوت دینے والوں کے وجود کو ختم کردیا جائے بلکہ مکار دشمن کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ یہ جماعت جو دعوت لے کر اٹھی ہے اسے اس دعوت و منہج سے منحرف کردیا جائے۔ وہ جانتا ہے کہ ان سب کو قتل کرڈالنے کے مقابلے زیادہ مفید یہ ہے کہ ان کے منہج و نظریہ میں انحراف پیدا کردیا جائے، یہ جو نعرہ لے کر اٹھے ہیں ا س نعرے سے انھیں کسی بھی درجے میں ہٹادیا جائے اور تراجع پر مجبور کردیا جائے۔ کیونکہ ان تمام کو قتل کردینے سے یہ نظریہ و منہج ختم نہیں ہوگا بلکہ پہلے سے زیا دہ پھیلے گا، جبکہ اسی جماعت کو اس کی بنیاد سے منحرف کردینے کی صورت میں جماعت کے باقی رہنے کے باوجود ان کا منہج و نظریہ اپنی موت آپ مرجائے گا ۔ چنانچہ ایسی جماعت جتنی بھی پھیل جائے دشمن کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کی بقاء و وجود دشمن کے لیے فائدہ مند ہی ہوتا ہے تاکہ اس جماعت کا حال دیکھ کر آئندہ کوئی اٹھنے کی ہمت ہی نہ کرسکے۔ نیز انقلاب کا ساتھ دینے والے ہمدرد و انصار بھی آئندہ یہ غلطی نہ کریں، کیونکہ اتنی قربانیوں کا انجام کیا نکلا؟ چند حکومتی مناصب، عہدے اور کرسیاں؟ جبکہ بعض تو صرف جان بچانے کے لیے ہی اپنے نعروں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں!
باطل کے پاس اس حق کی دعوت کو دبانے کے لیے ریاست کی قوت ہوتی ہے جبکہ اہلِ حق کے پاس اپنی جانیں ہوتی ہیں جنھیں قربان کرکے وہ اپنی کاز، اپنے مشن اور اپنے نعرے کی صداقت و حقانیت کو ثابت کیا کرتے ہیں۔
چنانچہ اہلِ حق کو امتحان کے اس مرحلے میں تواصوا بالصبر کی قوت سے مسلح کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو ان آزمائشوں پر جمے رہنے، ڈٹے رہنے اورحوصلے بلند رکھنے کی تلقین کسی بھی تحریک کے کارکنوں کو آزمائش کی اس بھٹی سے کندن بناکر نکالنے میں بنیادی کردار ادا کیا کرتی ہے۔
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾(سورۃ لقمان: 17)
’’نیکی کا حکم کیجیے اور برائی سے روکیے، اور جو کچھ (تکالیف)پیش آتی ہیں ان پر صبر کیجیے، بیشک یہ بہت ہمت کا کام ہے۔‘‘
﴿فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ﴾(سورۃ الأحقاف: 35)
’’سو آپ صبر کیجیے جیسا کہ اولوالعزم رسولوں نے صبرکیا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ کو کس پیار بھرے انداز میں صبر کی تلقین کرتا ہے:
﴿يٰأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ﴾ (سورۃ المدثر: 1۔7]
’’اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور گندگی سے کنارہ کرلو۔ اور کوئی احسان اس نیت سے نہ کرو کہ زیادہ وصول کرسکو۔ اور اپنے پروردگار کی خاطر صبر سے کام لو۔‘‘
حق و سچ کی دعوت پر ثابت قدمی،استقامت اور تمام تکالیف کو ہنستے مسکراتے برداشت کرتے رہنا اہلِ حق کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا کرتا ہے۔
ظالم نظام کی جانب سےوحشیانہ مظالم،قتل و غارت گری اور سفاکیت کا عمل جاری رہتا ہے، جیلیں آباد ہوجاتی ہیں، تختہ دار سجائے جاتے ہیں، عقوبت خانے ان دیوانوں کےنعروں سے گونج رہے ہوتے ہیں، لیکن حق کی دعوت لے کر اٹھنے والے یہ اولو العزم ’تواصوا بالصبر‘ کے عمل سے ایک دوسرے کو گرما رہے ہوتے ہیں۔ پھانسی گھاٹ پر جاتے ہوئے اور پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالتے ہوئے بھی، ان کی زبانوں پر نعرۂ تکبیر اور شریعت یا شہادت کا نعرہ ہواکرتاہے،سو یہ معرکہ جاری رہتا ہے۔
الحمد للٰہ آج بھی اللہ نے ایسے جواں مرد پیدا کیے ہیں جو اللہ کے دین کے نام پر، محمدﷺ کی لائی شریعت کے نفاذ کے لیے دنیا بھر میں اپنے اسلاف کی یادیں تازہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایسی جیلیں آباد کیں کہ جیلوں کے نقشے ہی بدل ڈالے، جیلوں سے نکالے گئے تو دوبارہ اسی پرانی روش پر لوٹ آئے۔ خوئے بغاوت اور رحمۃ للعالمینﷺ کی شریعت پر فدا ہونے کا عشق ختم نہیں ہوا، تختہ دار پر چڑھے تو ایوان کانپ اٹھے، اور یوں بڑے کرو فر سے پھانسیوں کا اعلان کرنے والے، چپکے چپکے پھانسیاں دینے لگے۔
آج پاکستان میں علمائے حق اور شریعت کی صدا لگانے والے دیوانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے، انھوں نے گوانتانامو کی ظلم کی داستانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
خصوصاً اسلام کے نام پر بننے والے ہمارے پاکستان میں حق نواز جھنگوی شہید و ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید سے لے کر غازی عبد الرشید شہید اور مفتی عبد المجید دین پوری شہید تک جتنے علماء شہید ہوئے یہ سب وہ تھے جنھیں ریاستِ پاکستان نے شریعت کے نفاذ کے لیے کوشش کرنے کے جرم میں شہید کیا۔
پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے عقوبت خانوں میں جو مظالم مجاہدینِ اسلام پر ڈھائے گئے، اس کی مثال گوانتانامو اور بگرام میں بھی نہیں ملتی۔
ان تمام مظالم کے باوجود اس مرحلے میں فتح بہرحال اِنھی دیوانوں کی صاف نظر آرہی ہوتی ہے، ریاست کا مقتدر طبقہ باوجود ہر طرح کی قوت و وسائل رکھنے کے، انھیں ان کی دعوت سے ہٹانے میں ناکام رہتا ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 الوجيز للواحدي (ص: 1231)
2 تفسیرِ کبیر؛ سورۂ عصر
3 ترجمہ آیت: ’’پس تمہیں غم کے بدلے غم دیا، تاکہ جو چیز تم سے کھو جائے، اس پر افسوس نہ کرو اور جو مصیبت تمہیں پہنچے اس پر دل شکستہ نہ ہو‘‘۔
4 صحيح البخاري؛ باب مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، صحیح مسلم؛ باب مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا
5 فيض الباري شرح صحیح البخاري للكشميري (5/ 160)
6 یہاں پھر یاد دلاتے چلیں کہ مجاہدین کی حالت کی ابتری یہ نہیں کہ وہ سب کے سب شہید کردیے جائیں، یا میداں میں بظاہر شکست کھاجائیں، یہ تو ان کی کامیابی کا ہی ایک انداز ہے۔ حالت کی ابتری یہ ہے کہ وہ راہِ قتال سے منحرف ہوجائیں۔