خطوط کا انسانی زندگی، زبان و ادب اور تاریخ پر گہرا اثر ہے۔یہ سلسلہ ہائے خطوط اپنے انداز میں جدا اور نرالا ہے۔ اس کو لکھنے والے القاعدہ برِّ صغیر کی لجنۂ مالیہ کے ایک رکن، عالم و مجاہد بزرگ مولانا قاری ابو حفصہ عبد الحلیم ہیں، جنہیں میادین جہاد ’قاری عبد العزیز‘ کےنام سے جانتے ہیں۔قاری صاحب سفید داڑھی کے ساتھ کبر سنی میں مصروفِ جہاد رہے اور سنہ ۲۰۱۵ء میں ایک صلیبی امریکی چھاپے کے نتیجے میں، قندھار میں مقامِ شہادت پر فائز ہو گئے، رحمہ اللہ رحمۃ ً واسعۃ۔ قاری صاحب نے میدانِ جہاد سے وقتاً فوقتاً اپنے بہت سے محبین و متعلقین (بشمول اولاد و خاندان) کو خطوط لکھے اور آپ رحمہ اللہ نے خود ہی ان کو مرتب بھی فرمایا۔ ادارہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ ان خطوط کو شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ اللہ پاک ان خطوط کولکھنے والے، پڑھنے والوں اور شائع کرنے والوں کے لیے توشۂ آخرت بنائے، آمین۔ (ادارہ)
بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم
ابو کی طرف سے پیارے بچوں کے نام
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
امیدِ قوی ہے کہ بفضل اللہ آپ سب پیارے اپنی والدہ کے ساتھ خیروعافیت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو عافیت میں رکھیں، زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دیں، آمین!
پیارے بچو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ (سورۃ الحشر: 18-20)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے (اچھی طرح جائزہ لے) کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اللہ کو بھول گئے، تو اللہ نے انہیں خود اپنا نفس بُھلا دیا، یہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔ دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے۔ جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔‘‘
بچو! قیامت ہماری آخری منزل ہے اور جنت کا حصول ہمارا اصل ہدف ہے۔ آخرت کی کامیابی ہی ہمارا اصل مقصود ہونا چاہیے۔ دنیا تو محض گزرگاہ ہے، اسی دوران ہمیں آخرت کو کامیاب بنانا ہے اور ہر ایک کو یہاں سے چلے جانا ہے اور بس! اس لیے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کو دھیان میں رکھنا اور اللہ تعالیٰ کو ہمہ وقت یاد رکھنا اور کبھی بھی اس کی یاد سے غفلت نہ برتنا۔ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر سے غفلت دنیا و آخرت دونوں کی بربادی کا موجب ہے۔ جو لوگ اللہ کی یاد اور اس کے ذکر سے غافل رہتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺ سے کہتے ہیں کہ:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا (سورۃ الکہف: 28)
’’(اے رسولؐ!) اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں (یعنی صحابہؓ)، اور ان (صحابہؓ) سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔‘‘
تم لوگ اس بات کو اپنے ذہن میں ہمیشہ کے لیے راسخ کرلو کہ اللہ تعالیٰ نے جس قدر رزق تم لوگوں کی تقدیر میں لکھ رکھا ہے اسے ہر حال میں تمہیں دنیا میں مل کر ہی رہے گا خواہ تم لوگ اسے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا اطاعت گزار بندے بن کر وصول کرلو یا اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نافرمان بن کر چوری چکاری اور غلط طریقے سے رزق لینا چاہو۔ مگر غلط طریقے سے رزق ذرا مشکل ہی سے ملتا ہے!!!
دراصل رزق کا دارومدار تقویٰ پر ہے۔ اگر تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے رزق دے گا جو کسی کے وہم و گمان میں نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۭ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ۭ (سورۃ الطلاق: 2-3)
’’جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا۔ اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔‘‘
اور اگر تقویٰ اختیار کرنے کے بجائے الٹا اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر ہی سے روگردانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ روزی کے ذرائع ہی تنگ کردے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا(سورۃ طہٰ: 124-125)
’’اور جو میرے ذکر (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا، پروردگار! دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟‘‘
اس لیے تم سب سے ابو کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہمیشہ تقویٰ کی روش اپنا کر زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے رہنا کیونکہ یہ دنیا فانی ہے۔ تقویٰ اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ سے ہر معاملے میں ڈرتے رہنا اور کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ تعالیٰ ہمہ وقت ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اس عقیدے کو دل و جان کا جزو بنانا اور اس کے مطابق ہر کام کو سرانجام دیتے رہنا، اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
یہ چند باتیں ہیں جن کو ہمیشہ یاد رکھو، ان پر عمل پیرا ہو، ان شاء اللہ کامیاب رہو گے:
- تم لوگ تو جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت معمول کے مطابق کرتے ہو گے۔ جمعہ کے دن اس کو ضرور تلاوت کرتے رہنا اور صبح و شام کے اذکار کا ضرور اہتمام کرنا۔
- جو بڑے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ چھوٹوں کو ادب سکھائیں، ان کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آئیں، انہیں پیار کریں اور چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کا احترام کریں۔
- میرے پیارے بچو! (خصوصاً بڑے لڑکوں اور بڑی بچیوں سے کہہ رہا ہوں) اپنی نظر کی ضرور حفاظت کرتے رہنا اور اس کے لیے اس دعا کو یاد کرنا اور اس کو اپنی دعاؤں کے ساتھ پڑھتے رہنا۔
اَللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِي مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِي مِنَ الرِّيَاءِ وَلِسَانِي مِنَ الكَذِبِ وَعَيْنِي مِنَ الخِيَانَةِ. فَإنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الأعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ
’’اے اللہ! تو میرے دل کو نفاق سے پاک کردے اور میرے عمل کو دکھاوے(ریاکاری) سے محفوظ فرما اور میری زبان کو جھوٹ سے پاک فرما اور میری آنکھوں کو خیانت کرنے سے محفوظ فرما۔ کیونکہ تو ہی آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور تو ہی دلوں کے مخفی راز سے بھی باخبر ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، باب جامع الدعاء)
- اس دعا کو بھی یاد کرنا اور اس کو اپنی دعاؤں کے ساتھ پڑھتے رہنا:
اَللّٰھُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَأَکْرِمْنَا وَلَا تُھِنَّا وَأَعْطِنَا وَلَا تُحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَیْنَا وَأَرْضِنَا وَأْرِضْ عَنَّا
’’اے اللہ! تو ہمیں (اپنی نعمتوں میں سے) زیادہ عطا فرما اور کم نہ کر، اور ہمیں عزت دے اور ذلیل نہ کر، اور ہمیں (تُو اپنے خزانوں سے) عطا فرما اور محروم نہ کر، اور ہم کو ترجیح دے اور ہم پر دوسروں کو ترجیح نہ دے، اور تو ہم سے راضی ہوجا اور ہم سے بے رخی نہ برت۔‘‘ (کنز العمال)
- ان کے علاوہ ان دونوں دعاؤں کو بھی یاد کرلینا اور ان کو اپنی دعاؤں کے ساتھ پڑھتے رہنا:
اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَسَأَلُکَ رِضَاکَ وَالجَنَّۃَ وَأَعُوْذُ بِکَ مَنْ غَضَبِکَ وَالنَّارِ
’’اے اللہ! میں تجھ سے تیری رضا اور جنت مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے تیرے غضب اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (رد المحتار)
اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيْمَانًا لَا يَرتَدُّ، وَنَعِيْمًا لَا يَنْفَدُ، وَمُرَافَقَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَعْلَى غُرَفِ الْجَنَّةِ جَنَّةِ الْخُلْدِ
اے اللہ! میں تجھ سے ایسے ایمان کا طالب ہوں جو پلٹنے والا نہ ہو، اور ایسی نعمتوں کا طالب ہوں جو نا ختم ہونے والی ہوں، اور میں تجھ سے نبیﷺ کی معیت کا طالب ہوں جنت کے ایسے بلندوبالا محل میں جو دائمی ہو۔ (مسند احمد)
پہلے بھی جو کچھ لکھا ہے ان کو مت بھولنا اور ان پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین پر عمل کی توفیق دیں اور اس کی راہ میں استقامت عطا فرمائیں، آمین!
اب میں اجازت چاہوں گا۔ اپنے سب چچاؤں، ماموؤں، نانو کو میری طرف سے سلام عرض کر دینا اور یحییٰ کے لیے خصوصی پیار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
۲۳ شوال ۱۴۳۶ھ مطابق ۸ اگست ۲۰۱۵ء
[قاری عبد العزیز صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ نے یہ خط اپنی شہادت سے محض دو ہفتے قبل تحریر کیا تھا۔ (ادارہ)]
٭٭٭٭٭