چوتھی پانچویں اور چھٹی نشانی: الخُسُف (زمین کا دھنسنا)
یہ کوئی شدید زلزلہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس کی وجہ سے زمین کا کچھ حصہ دھنس جائے۔مسلم کی اس حدیث میں، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس علامات کبریٰ بیان فرمائیں، فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے :
وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ
’’اور تین جگہوں کے دھنسنے، ایک دھنسنا مشرق میں اور ایک دھنسنا مغرب میں، ایک دھنسنا جزیرۂ عرب میں ہونے‘‘ کا ذکر فرمایا۔
زمین کانپے گی اور اس کا کچھ حصہ دھنس جائے گا۔ یہ عام زلزلے نہیں ہوں گے بلکہ بہت بڑے زلزلے ہوں گےاتنے خوفناک کہ ان کے نتیجے میں پورا مغربی امریکہ تک زمین کے نقشے سے حذف ہوسکتا ہے۔ کیونکہ میرا خیا ل ہے کہ برِ اعظموں کو تقسیم کرنے والی لکیر یا continental divide ایری زونا کے بعض حصوں یا کیلی فورنیا کے مشرقی حصے سے گزرتی ہے، لہٰذا اس پورے علاقے کو بہت خطرناک گردانا جاتا ہے اور اسی لیے ایک اشتہار میں لوگوں کو ایری زونا میں جائیداد خریدنے کی تحریض دلائی جارہی تھی کہ ایک دن یہ علاقہ ساحل سمندر کے قریب ترین علاقوں میں شامل ہوگا، لہٰذا بہتر ہے آپ اسے آج خرید لیں کہ ایک دن یہ بحرالکاہل کی ساحلی زمین ہوگی ۔ زمین بہت بڑے پیمانے پر دھنس جائے گی جس میں گویا زمین نگل لی جائے گی اور یہ واقعات یونہی بیٹھے بٹھائے واقع نہیں ہوجاتے، جیسا کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے، یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مقدر فرما رکھے ہیں اور یہ بے وجہ نہیں ہیں۔ یہ لوگوں کے اعمال کی سزا ہے، یہ اللہ کی طرف سے لوگوں کا امتحان اور آزمائش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ Northridge کا زلزلہ جو کہ بہت شدید تھا، وادیٔ Northridge میں برپا ہوا کیونکہ فحش فلمیں بنانے والے سٹوڈیو وہیں ہیں۔ سبحان اللہ وہی مقام زلزلے کا مرکز تھا۔ اسی طرح سان فرانسسکو کا زلزلہ؛ ہم جانتے ہیں وہاں کی اخلاقی گراوٹ اور فساد کے بارے میں…… لہٰذا یہ واقعات یونہی رونما نہیں ہوجاتے ، ان کے واقع ہونے کی ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ایک زلزلہ آیا، پھر دوبارہ آیا اور پھر تیسری مرتبہ بھی آیا۔ چھوٹا سا زلزلہ تھا۔ حضرت عمر بن خطابؓ منبر پر کھڑے ہوئے اور اہل مدینہ سے خطاب فرماتے ہوئے کہا، ’یا تو تم لوگ گناہوں سے باز آجاؤ ورنہ میں مدینہ چھوڑ دوں گا‘، حضرت عمرؓ یہ سمجھ گئے کہ یہ لوگوں کے گناہوں کا وبال ہے۔اگر ہم ہوتے تو کہتے کہ پہلا تو زلزلہ تھا اور دوسری اور تیسری مرتبہ اس زلزلے کے مابعد جھٹکے (aftershocks) تھے۔
ایک مرتبہ احد پہاڑ ہلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ
’’احد! ٹھہر جا کہ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدہیں‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی، ابوبکرؓ صدیق اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما شہید۔
تویہ خسوف ہیں، تین خسوف اور یہ قیامت کی تین نشانیاں ہوئیں۔
ساتویں نشانی: الدخان (دھواں)
قرآن پاک کی ایک پوری سورت اس نام سے موسوم ہے۔
﴿فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ﴾ (سورۃ الدخان: ۱۰)
’’ اچھا تو انتظار کرو اس دن کا جب نمودار ہوگا آسمان صریح دھویں کے ساتھ۔ جو چھا جائے گا انسانوں پر، (اور کہیں گے وہ کہ) یہ ہے بڑا درد ناک عذاب۔ ‘‘
یہ دھواں کفار کے لیے عذاب ہوگا۔ اس کے سوا ہم اس دھویں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ یہ زمین پر کفار کے لیے عذاب بن کر آئے گا ۔
آٹھویں نشانی: مغرب سے سورج کا طلوع
يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا (الانعام : ۱۵۸)
’’ جس دن آئے گی کوئی نشانی تیرے رب کی تو نہ نفع دے گا کسی شخص کو ایمان لانا اس کا، جو ایمان نہ لایا ہو اس سے پہلے یا جس نے (نہ) کمائی ہو اپنے ایمان میں کوئی بھلائی۔ ‘‘
اس آیت کی تفسیر سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَإِذَا رَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا فَذَاکَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ
’’ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو لے۔ جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایمان لائیں گے لیکن یہ وقت ہوگا جب کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا ۔ ‘‘
یعنی جو کوئی اس وقت سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھ کر ایمان لایا تو اس کا ایمان قبول نہیں کیا جائے گا۔نیز اَوْ كَسَبَتْ فِيْٓ اِيْمَانِهَا خَيْرًا یعنی یہ کہ جو کوئی پہلے سے ایمان لاچکا تھا مگر اس نے کوئی نیکی نہیں کی تھی، اب اگر وہ اعمال خیر کی جانب متوجہ ہوبھی جائے تو وہ اعمال اسے کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔
یعنی اگر کوئی شخص سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے بھی اعمال صالحہ کرتا تھا تو اس طلوع کے بعد بھی وہ جو خیر کے کام کرے گا ان کا اجر اسے ملے گا ، لیکن جو کوئی اس طلوع کے بعد اعمال خیر کی ابتدا کرے گا تو اس کے لیے ان کا کوئی اجر نہیں لکھا جائے گا۔ انسان کو سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے پہلے اپنے اعمال نامے کی درستگی کی فکر کرنی چاہیے۔
القرطبیؒ اس کی تفسیر یوں بیان فرماتےہیں کہ جب سورج مغرب سے طلوع ہوجائے گا تو لوگ جان جائیں گے کہ بس اب سب ختم ہوگیا ، لہٰذا یہ ایسا ہی ہے جیسے موت۔ جب ایک انسان موت کے فرشتے کو دیکھ لیتا ہے تو کیا اس کے بعد وہ توبہ کرسکتا ہے؟ اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو لوگ جان جائیں گے کہ یہ دنیا کا اختتام ہےاور یہ وہ وقت ہے کہ جب توبہ کا دروازہ بند کردیا جائے گا اور کسی کی توبہ اس کے بعد قبول نہیں کی جائے گی۔
نویں نشانی: الدابۃ (حیوان)
﴿وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَاۗبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَ﴾ (سورۃ النمل: ۸۲)
’’ اور جب ان پر ہماری بات واقع ہوجائے گی تو ہم نکالیں گے ان کے لیے زمین سے ایک جانور جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ‘‘
تُكَلِّمُهُمْ کا معنی کلام کرنا بھی ہوسکتا ہے اور نشان زد کرنا بھی۔کیونکہ عربی میں تُكَلِّمُهُمْ کلام کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور کَلَمَ یعنی کسی کو زخمی کرنے کے معنی میں بھی۔جب آپ کسی چیز پر کوئی نشان چھوڑ دیتے ہیں تو اسے کَلَمَ کہتے ہیں۔ اور یہ دونوں معنی ہی صحیح ہیں۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: کلاھما، ’دونوں معنی درست ہیں‘،جس کا مطلب ہے کہ یہ جانور نکلے گااور یہ لوگوں سے بات کرے گا کہ تم مومن ہو اور تم کافر ہو اور ان پر مہر لگائے گا۔ وہ اہل ایمان کے چہروں پر بھی مہر لگائے گا اور کفار کے چہروں پر بھی۔
اوپر مذکور آیت میں جو یہ بات ہے وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ، اس کا کیا معنی ہے؟ القرطبی فرماتے ہیں:
’’یعنی یہ ان پر اللہ کے عذاب کا وقت ہے، فساد اور برائی میں ان کی انتہا پسندی کی وجہ سے ، ان کے تکبر کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات سے پہلو تہی برتی اور انہوں نے ان میں غور و فکر نہ کیا۔ ‘‘
ابن مسعودؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ تب ہے جب علماء فوت ہوجائیں گے اور علم ناپید ہو جائے گااور قرآن اٹھا لیا جائے گا‘‘۔[ہم پہلے اس موضوع پر بات کر چکے ہیں کہ جب قرآن لوگوں کے دلوں سے نکال لیا جائے گا]۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجْنَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَالدَّجَّالُ وَدَابَّةُ الْأَرْضِ۔ (مسلم)
’’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” تین چیزیں ہیں جب ان کا ظہور ہوجائے گا تو اس وقت کسی شخص کو ، جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا تھا یا اپنے ایمان کے دوران کوئی نیکی نہ کی تھی ، اس کا ایمان لانافائدہ نہ دے گا : سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دجال اور دابۃ الارض ( زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور کا نکلنا )“۔
دجال کے بارے میں جب ہم نے پڑھا تو یہ بات ہم نے کی تھی کہ اس کا فتنہ اس قدر شدید ہوگا کہ اگر کسی نے اس فتنے سے پہلے سے اس کی تیاری نہیں کررکھی ہوگی تو وہ اس فتنے کے ظہور کے بعد کبھی اس کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکے گا۔اور دابۃ کے ظہور کے بعد تو ویسے ہی لوگوں کے چہروں پر مہر لگا دی جائے گی ان کے اہل ایمان یا کافر ہونے کی۔ ترمذی اور مسند احمد کی درج ذیل حدیث میں مزید تفصیل ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مَعَهَا خَاتَمُ سُلَيْمَانَ وَعَصَا مُوسَی فَتَجْلُو وَجْهَ الْمُؤْمِنِ وَتَخْتِمُ أَنْفَ الْکَافِرِ بِالْخَاتَمِ حَتَّی إِنَّ أَهْلَ الْخُوَانِ لَيَجْتَمِعُونَ فَيَقُولُ هَاهَا يَا مُؤْمِنُ وَيُقَالُ هَاهَا يَا کَافِرُ وَيَقُولُ هَذَا يَا مُؤْمِنُ وَيَقُولُ هَذَا يَا کَافِرُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
’’ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دابۃ الارض نکلے گا تو اس کے پاس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مہر اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا ہوگا جس سے وہ مومن کے چہرے پر لکیر کھینچے گا اور اس کا چہرہ چمکنے لگے گا، اور کافر کی ناک پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مہر لگا دے گا، یہاں تک کہ لوگ ایک دسترخوان پر جمع ہوں گے تو ایک دوسرے کو کافر اور مومن کہہ کر پکاریں گے (یعنی دونوں میں تفریق ہوجائے گی)۔‘‘
شیخ احمد شاکر کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے جب کہ البانی اسے ضعیف کہتے ہیں۔کیونکہ اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی کو امام البانیؒ کمزور قرار دیتے ہیں جب کہ احمد شاکر اسے مضبوط قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اس راوی سے امام ترمذی اور امام احمد نے روایات نقل کی ہیں، واللہ اعلم۔
دسویں نشانی: آگ
یہ قیامت کی آخری نشانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَآخِرُ ذَلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَی مَحْشَرِهِمْ (مسلم)
’’ اور آخر میں یمن سے آگ نکلنے کا ذکر فرمایا جو لوگوں کو ان کے جمع ہونے کی جگہ (محشر) کی طرف لے جائے گی۔ ‘‘
یہ ایسی آگ ہوگی جو دنیا کے تمام لوگوں کو ہنکا کر ارض مقدس کی طرف لے جائے گی۔یہ آگ لوگوں کا مستقل پیچھا کرتی رہے گی اورتمام دنیا کے لوگ بیک وقت اس سے بچ کر بھاگیں گے اور جو کوئی پیچھے رہ جائے گا، یہ آگ اسے جلا ڈالے گی۔یہ دن کے وقت ان کا پیچھا کرے گی اور رات کو جب وہ سوجائیں گے تب بھی ان کے ساتھ ساتھ رہے گی اور انہیں نہیں چھوڑے گی۔ یہ یمن سے برآمد ہوگی۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص اس علاقے کا نام ’قعر عدن‘ بھی بیان فرمایا جہاں سے یہ برآمد ہوگی ۔ قعر وادی کو کہتے ہیں، یعنی وادی عدن سے۔ عدن ایک آتش فشاں کے دہانے پر واقع ہے۔اور یہاں بہت سے آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے ہیں۔یہ یمن کا ایک ساحلی شہر ہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آگ اس آتش فشاں کے دہانے سے نکلے گی اور یہ لوگوں کو محشر کی جانب ہانکے گی۔اور محشر شام میں ہوگا۔
فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الشَّامِ فَقَالَ إِلَى هَاهُنَا تُحْشَرُونَ
’’ تم سب یہاں (شام کی طرف اشارہ کیا) جمع کیے جاؤ گے ۔ ‘‘
سَتَکُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ فَخِيَارُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ مُهَاجَرَ إِبْرَاهِيمَ وَيَبْقَی فِي الْأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا تَلْفِظُهُمْ أَرْضُوهُمْ تَقْذَرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ وَتَحْشُرُهُمْ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ (ابو داؤد)
’’ عن قریب ہجرت کے بعد ایک ہجرت اور ہوگی پس اس وقت دنیا کے بہترین لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جائے ہجرت (ملک شام) کو اختیار کریں گے۔ اور دنیا کے بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ناپسند فرمائے گا اور آگ انہیں خنزیروں اور بندروں کے ساتھ جمع کرے گی‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام کی سرزمین ہجرت کون سی تھی؟ القدس۔ پہلی ہجرت سے مراد مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت ہے اور پھر ایک اور ہجرت ہوگی جو دنیا کے بہترین لوگ ابراہیم علیہ السلام کے مقام ہجرت، القدس کی طرف کریں گے۔پھر اس دور کے بدترین لوگ جب باقی رہ جائیں گے تب یہ آگ نمودار ہوگی اور ان سب کو اکٹھا کرے گی اور ہانک کر شام کی طرف لے کرجائے گی۔اور یہ بات ہم پہلے کئی مرتبہ کرچکے ہیں کہ شام کا علاقہ دراصل شام، فلسطین، اردن اور لبنان کا ہے اور ان سب میں مقدس ترین القدس ہے، اکناف بیت المقدس اور بہت سی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سرزمین کی تعریف بیان فرمائی ہے اور یہی وہ زمین ہے جہاں تاقیامت جہاد ہوتا رہے گا۔ یہاں ہمیشہ جہاد ہوتا رہا ہے۔ پہلے وہ رومی سلطنت کے خلاف تھا ، پھر صلیبیوں کے خلاف جہاد ہوا، پھر تاتاریوں کے خلاف ہوا، ابھی یہاں یہودیوں کے خلاف جہاد ہورہا ہے اور اس کے بعد ایک بار پھر رومیوں (عیسائیوں) کے خلاف جہاد یہاں ہوگا اور پھر دجال کے خلاف جہاد بھی یہیں ہوگا۔ یہیں پہ ’رباط‘ ہے جہاں مسلمان دجال کے خلاف پڑاؤ ڈالیں گے۔مسند امام احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے:
بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ رَأَيْتُ عَمُودَ الْكِتَابِ احْتُمِلَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِي فَظَنَنْتُ أَنَّهُ مَذْهُوبٌ بِهِ فَأَتْبَعْتُهُ بَصَرِي فَعُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ أَلَا وَإِنَّ الْإِيمَانَ حِينَ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ
’’ ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں میں نے کتاب کے ستونوں کو دیکھا کہ انہیں میرے سر کے نیچے سے اٹھایا گیا، میں سمجھ گیا کہ اسے لےجایا جارہا ہے چنانچہ میری نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں پھر اسے شام پہنچا دیا گیا۔ یاد رکھو ! جس زمانے میں فتنے رونما ہوں گے اس وقت ایمان شام میں ہوگا۔ ‘‘
کتاب یعنی قرآن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب میں ستون کی صورت دکھایا گیا۔ طبرانی کی ایک حدیث کا ترجمہ ہے:
’’جب میں اسراء کے سفر پر گیا، تو میں نے ایک سفید ستون دیکھا، جیسا کہ جنگ کا عَلَم ہوتا ہے، جو مجھ سے دور لے جایا جارہا ہے۔میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ تم اسے کہاں لے جارہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے شام لے جارہے ہیں اور اسے وہاں لگائیں گے۔ ‘‘
لوگوں کا اس طرح شام کی طرف اکٹھا کیا جانا، کیا یہ یوم حشر کے لیے جمع کرنا ہے یا یہ کوئی اور حشر ہے؟ بعض علماء مثلاً امام غزالی اور کچھ دیگر علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ اکٹھا کیا جانا یوم حشر کے لیے ہے، جبکہ علماء کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ یہ دو علیحدہ حشر ہیں۔ ایک دنیا میں اکٹھا کیا جانا ہے اور ایک پھر آخرت میں اکٹھا کیا جانا ہے۔پس وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا میں اکٹھا کیا جانا ہے، دنیا کے خاتمے کے وقت لوگ القدس میں اکٹھے کیے جائیں گے اور پھر جب دنیا ختم ہوجائے گی تو آخرت کے حشر کے لیے لوگوں کو کسی اور جگہ اکٹھا کیا جائے گااور اس کے لیے دلیل میں وہ یہ آیت پیش کرتے ہیں:
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ (ابراہیم: ۴۸)
’’ اس دن جب بدل دی جائے گی یہ زمین دوسری زمین سے ۔ ‘‘
یوم حشر کو زمین، سورج اور ہر چیز ہی مختلف ہوگی۔ واللہ اعلم۔ اس بات میں اختلاف رائے ہے۔
علامات کبریٰ کا بیان یہاں ختم ہوا۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭