نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | تیسرا درس

خواطر، نصائح اور تفسیر

احمد فاروق by احمد فاروق
28 ستمبر 2023
in حلقۂ مجاہد, ستمبر 2023
0

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وذریتہ اجمعین اما بعد

فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم

﴿ اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ۝ وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ (سورۃ الانفال: ۹، ۱۰)

صدق اللہ مولانا العظیم،رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ

گزشتہ آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اہل ایمان کی اور بالخصوص جہاد کے میدان میں اترنے والوں کی مطلوبہ صفات کا ذکر کیا۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بدر کے معرکے کےآغاز کا نقشہ کھینچا جب مسلمان دو گروہوں میں بٹ گئے؛ اس موقع پہ کےجب وہ اصلاً نکلے قافلے کے پیچھے تھے اور آگے لشکر سے مقابلہ کرنا پڑ گیا تو ایک وہ لوگ تھے جو بالاصل ہی ثابت قدم رہے اور دوسرے وہ لوگ تھے جو کچھ متردد ہوئے کیونکہ ذہن میں قافلے کا مقابلہ کرنا تھا ناکہ اپنے سے تین گنا بڑے لشکر کا مقابلہ کرنا۔ تو اسی پس منظر میں بات آگے بڑھتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ کہ جب تم اپنے رب کو پکار رہے تھے، اس سے مدد طلب کر رہے تھے۔ یعنی یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے مدد طلب کرہے تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا کہ تین سو تیرہ کے قریب کا لشکر تھا اور مقابلے میں ایک ہزار کے قریب کا لشکر تھا۔ یہاں صرف ستّر سواریاں تھیں اور وہاں سب کے سب سواریوں سے لیس تھے۔ یہاں گنتی بھر تلواریں اور اسلحہ تھا اور ان سب کے پاس اسلحہ کہیں زیادہ تھا۔ مادی اعتبار سے کوئی مقابلہ نہیں بنتا تھا؛ تب صحابہؓ نے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور اللہ سے دعا کی اور مدد طلب کی اور رسول اکرم ﷺ بھی ، احادیث میں آتا ہے کہ پوری رات اور خود اس معرکے کے آغاز کے وقت بھی مستقل دعا میں، اللہ کے سامنے گریہ و زاری میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان سے کہا کہ یوں تو آپ اپنے آپ کو تھکا ڈالیں گے، کچھ دیر تو آرام فرمالیں۔ آپﷺ کی چادر بار بار آپ کے شانو ں سے گرتی، دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند اور روتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا میں مصروف رہے اور زبان پہ یہ بات تھی کہ اے اللہ یہ چھوٹا سا گروہ ہے، اگر آج یہ ہلاک ہو گیاتو تیری عبادت کرنے والا دنیا میں کوئی نہیں بچے گا۔ تو اسلام کا ایک ایسا تاریخی معرکہ ہے یہ کہ جس میں مسلمانوں کے پاس جو کچھ تھا وہ لے کر میدان میں آگئے۔یہ تیرہ سال کا حاصل تھا ،یہ مکہ کی اس بھٹی سے ،ان آزمائشوں سے گزرنے والے ،جو مٹھی بھر اخیار تھے وہ بہترین لوگ تھے جن کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے محمدﷺ کی صحبت کے لئے چنا ،اور جن پہ اپنے دین کی عمارت کو کھڑا کیا ، جنہیں مکہ کی سخت آزمائشوں سے گزارا ،تو ایسے معرکے کے موقع پہ جب سب کچھ لے کے یہ میدان میں آئے اور وہ بھی بغیر اپنی منصوبہ بندی کے، ذہن میں تھا ہی نہیں کہ لشکر سے ٹکر ہونی ہے ، ذہن میں یہ تھا کہ ایک غیر مسلح قافلے کے پیچھے جا رہے ہیں،تو ایسی آزمائش کے موقع پہ اللہ نے نقشہ کھینچا کہ صحابہ کا حال کیا تھا،اور خود اللہ کے نبیﷺ کا حال کیا تھا ، کہ اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ کہ تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے اللہ سے دعائیں کر رہے تھے ، اللہ کے سامنے گڑ گڑا رہے تھے۔

تو یاد کرو اس وقت کو، فَاسْتَجَابَ لَكُمْ تو اللہ نے تمہاری دعاؤں کو قبول کیا ،اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تمہاری دعائیں سن لیں ، اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ،کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کروں گا ،یا تمہاری نصرت کیے دیتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اتار کے مسلمانوں کو تقویت پہنچائی ان کے دلوں کی سکینت کا سامان کیا۔ اور یہاں سے اگلی جو تین چار آیات ہیں ، ان میں کرامات کا یا جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نےاپنی طرف سے خصوصی مدد فرمائی صحابہ کی،اس کا اللہ سبحانہ تعالیٰ ذکر فرماتے ہیں۔

کرامات میں سے پہلی کرامت، اور جو اللہ نے نصرت فرمائی اس میں سے پہلی نصرت کا ذریعہ ایک ہزار فرشتوں کا اترنا تھا جوپے درپے اترے صحابہ کی مدد کرنے کے لیے، مسلمانوں کے اس لشکر کی مدد کرنے کے لیے؛ اور جیسا کہ علما نے ذکر کیا ہے کہ فرشتوں کا اترنا،محض رسول اکرم ﷺ کے زمانے ہی سے خاص نہیں ہے ،ہر زمانے کے اندر اگر اہل حق ، اہل صدق ہوں اور حق منہج کے اوپر لڑ رہے ہوں اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوں ،اللہ سبحانہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنی قوت و قدرت ِقاہرہ دکھانے کے لیےان کے دلوں کو سکون دینے کے لیے فرشتوں کو نازل فرماتے رہتے ہیں ۔فرشتے موجود تو ہوتے ہی ہیں جیسا کہ مختلف احادیث میں آتا ہے؛ آیت الکرسی پڑھنے سے اللہ تعالیٰ فرشتہ مقرر کر دیتے ہیں، مجاہد کے گھر سے نکلنے پر پیچھے اللہ تعالیٰ فرشتے مقرر کردیتے ہیں……، لیکن بعض مخصوص حالات میں اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر بھی کر دیتے ہیں، لوگوں کو نظر بھی آجاتا ہے انسانوں کے علاوہ کسی اور مخلوق کا وجود کہ جو نصرت کر رہی ہوتی ہے۔ تو وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور آج بھی وہ سب موجود ہے اگر صدق موجود ہو اور اللہ کی طرف کما حقّہ رجوع کرنا موجود ہو۔

وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جو اللہ نے فرشتے اتارے یہ صرف ایک بشارت کے لیے تھے، وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ اور اس لیے تھے کہ تمہارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو جائے، تمہارے دلوں کو سکون حاصل ہوجائے۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ غیر معمولی معرکہ تھا ۔ پورا پس منظر ذہن میں ہو تو پھر انسان سمجھ سکتا ہے کہ کتنا اہم موڑ تھا اسلام کی تاریخ کا اور اس میں کتنی شدت سے ضرورت تھی مسلمانوں کو اللہ کی نصرت کی اور اس موقع پہ دلوں کی کیا کیفیت ہوگی جب پتہ ہو کہ آج اگر شکست ہوئی تو شاید اسلام واقعتاً جڑ سے اکھڑ جائے کیونکہ اللہ کےنبی ﷺ اور بعد میں آنے والے خلفا سمیت اس وقت کے جو جرنیل تھے، جنہوں نے بعد میں روم اور بڑی بڑی ریاستوں کو فتح کیا، وہ ساری cream (ست) میدان میں اتری ہوئی تھی۔ تو اس موقع پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ نصرت جو اتاری یا فرشتے جو اتارے یہ اس لیے تھے تاکہ بشارت ہو تمہیں، تم خوش ہوجاؤ اور تمہارے دلوں کو سکون حاصل ہوجائے۔

وَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ اور فتح یا نصرت تو فقط اللہ ہی کی طرف سے ہے؛ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ بلاشبہ اللہ تعالیٰ قوت والے ہیں اور حکمت والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ بات واضح فرماتے ہیں کہ فتح و نصرت، مدد کرنے کی طاقت، یہ اللہ کے سوا کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ حتی کہ فرشتوں کے بھی ہاتھ میں نہیں ہے۔ یعنی فرشتے بھی اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کن کردار نہیں ادا کرسکتے۔ فرشتے اپنی طرف سے مسلمانوں کی نصرت کے لیے نہیں اتر سکتے۔ فرشتے بھی فتح و شکست کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی یہ صفات ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ المُعز اور المذل ہیں۔ عزت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ذلت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ الخافض الرافع ہیں ۔ پست کرنا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور بلند کرنا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ القابض الباسط ہیں۔ تنگی لانا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کشادگی دینا ، وسعت دینا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں زمین و آسمان کے سارے خزانے ہیں اور فرشتے بھی اللہ کے جنود میں سے ایک جند ہے جو اللہ کے حکم کے بغیر نہیں اترتے اور اللہ ہی کے حکم سے وہ آئے مدد کرنے کے لیے ورنہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی حاجت نہیں تھی۔ اصل میں تو اللہ کا ایک اذن، ایک حکم کافی ہے پورے کے پورے میدان ِ جنگ کا پانسہ پلٹ دینےکے لیے۔ تو یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک مسلمان کے سینے میں راسخ کروایا کہ اس نے کس کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنا ہے فتح و نصرت کے معاملے میں، اس نے کس سے مدد مانگنی ہے، کس کے سامنے سر جھکانا ہے اور کس کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ پھیلانے ہیں…… وہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔

تو پیارے بھائیو!

یہ آیت ختم ہوتی ہے اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ پہ کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ قوت والے ہیں ۔ ’’عزیز‘‘ وہ ذات ہے جو ہر حال میں بلند اور غالب رہتی ہے، وہ ذات ہے کہ جو تمام قوتوں کا سر چشمہ ہے۔ اصل قوت کا ، قدرت کا مالک ہے۔ تو اللہ کی قوت کے سامنے کوئی اور قوت نہیں ٹک سکتی۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو ذلیل کرنے کا فیصلہ کریں تو پھر وہ عزیز نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہر عزت والے سے اوپر اور ہر قوت والے سے اوپر ہیں۔ تو یہ جو صفات قرآن میں جگہ جگہ آتی ہیں، بہت سی آیات اسی طرح اللہ کی صفات پر ختم ہوتی ہیں، چاہے کسی بھی طرح کے احکامات کا ذکر ہورہا ہو، تو یہ سر سری گزر جانے والی صفات نہیں ہیں بلکہ ان پہ رک کے غور کرنا چاہیے۔ یہی آیات اور یہی صفات ہمیں اپنے رب کا تعارف دیتی ہیں۔ رب کی محبت ہمارے دل میں پیدا کرتی ہیں۔ رب کی قوت اور رب کی قدرت کا اندازہ ہمیں ان ہی صفات کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ لیکن بالعموم آیات کا اختتام ان صفات پر ہورہا ہوتا ہے اور بار بار ہورہا ہوتا ہے تو اگر انسان تدبر نہ کرے تو وہ ان آیات پر سر سری گزر جاتا ہے کہ یہ صفات تو بار بار گویا دہرائی جارہی ہیں۔ لیکن ہر جگہ ان کا دہرایا جانا کسی حکمت کے لیے ہے اور اس لیے ہے کہ ہمارے قلوب اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ تو یہ ایمان ہی ہمیں میدانِ جنگ میں لاتا ہے اور یہی ایمان میدان جنگ میں ٹکاتا ہے کہ ہم اللہ کی قوت کے سہارے لڑ رہے ہیں جو العزیز ہے۔ تو یہ ایمان نہ ہو تو ہمارے پاس کیا چیز ہے جس سے ہم دشمن کا مقابلہ کریں؟ یعنی عقلی اعتبار سے دیکھیں تو کوئی مقابلہ بنتا ہی نہیں ہے۔گر کسی دنیاوی عقل کے اعتبار سے بات کریں تو کسی عقل مند آدمی کا کام نہیں ہے پھر اس میدان میں آنا۔ یہ تو وہی شخص آئے گا جس کے پاس یہ حقیقی ایمانی عقل ِ سلیم موجود ہے جو اس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قوت کا ادراک اور یقین دیتی ہے۔ تو ہم اگر آج کسی بھی اعتبار سے دیکھیں، مثلاً ہمارے پاس سوچنے والے کتنے افراد ہیں؟ اور ان کے پاس سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کے لیے کتنے تھنک ٹینکس موجود ہیں جو دن رات، آج سے نہیں بلکہ سالوں سے، منصوبہ بندی کررہےہیں اور آنے والے سالوں ، دہائیوں بعض اوقات صدیوں کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں۔ تو اگر ہم اس اعتبار سے دیکھیں کہ ہمارے پاس کیسا اسلحہ ہے اور ان کے پاس کون سا اسلحہ ہے تو سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا ہمارے اور ان کے درمیان؛ ہم اس اعتبار سے دیکھیں کہ بعض تو وہ میدان ہیں کہ جن میں ہم ہیں ہی نہیں۔ چلو زمین میں ہم ان کے ساتھ کسی درجے میں مقابلہ کر ہی لیتے ہیں لیکن فضا میں تو ان کے پاس جہاز، ڈرون ، سیٹلائیٹ ، ہیلی کاپٹر…… اور بہت کچھ موجود ہے۔ ہمارے پاس فضا میں اڑنے کے لیے ، چند فٹ اوپر جانے کے لیے بھی کوئی چیز موجود نہیں۔ پانی کے اندر ان کے بحری بیڑوں نے پوری دنیا کا گھیراؤ کیا ہوا ہے، ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں، جس کے ذریعے سے ہم اس چیز کے مقابلے پہ آسکتے ہوں۔ تو یہ اسباب کا مقابلہ نہیں ہے ۔ یہ مقابلہ کوئی اگر ان پیمانوں سے جانچنا شروع کرے گا تو وہ کبھی بھی اس میدان میں نہیں نکلے گا۔ جو مجاہد اللہ کے رستے میں نکل کر آتا ہے وہ سب سے پہلے اس توکل کے ساتھ میدان میں اترتا ہے کہ جو اسباب ہیں ان شاءاللہ ان کو تو پوری طرح اختیار کریں گے، جو وسائل اللہ نے اس امت کو دیے ہیں ، جو مجاہدین کو میسر ہیں ان کو تو لگائیں گے لیکن ہم اللہ کی طاقت سے لڑ رہے ہیں، اللہ کی قوت کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رستے پہ چلنے والے بندوں کی نصرت فرمائیں گے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی خشیت ہوگی، اللہ تعالیٰ کفار کو شکست دیں گے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی قوت کو، ان کے زور کو توڑیں گے۔ تو اس ایمان پر ہم کھڑے ہیں اور یہی ایمان ہر مشکل آزمائش کے موقع پہ ہمارے قدم جماتا ہے۔ دنیاوی اعتبار سے بات کریں، ماضی میں لوٹ کے دیکھیں، امریکہ اور روس کی مثال لےلیں…… دونوں قوت میں تقریباً برابری کی سطح پہ تھےلیکن دونوں اپنی جنگ کو کسی گرم جنگ میں نہیں تبدیل کرتے تھے۔ کولڈ وار (سرد جنگ )رہتی تھی ان کے درمیان۔ اس لیے کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ۔ وہ دونوں حسابات لگا رہے ہیں کہ جنگ کرنے کا فائدہ نقصان کتنا ہے؟ عسکری پیمانوں سے ، مادی پیمانوں سے کیا رزلٹ اس کا نکلے گا؟ اسی اعتبار سے ہم موجودہ حالات کو اگر دیکھ لیں تو یورپ کے بہت سے ممالک ہیں جن کے آپس میں تنازعات ہوتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی کسی عملی جنگ سے پہلے ہزار مرتبہ سوچتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ قوت کی کمی ہے، بلکہ اس لیے کے وہ رب کو نہیں دیکھتے یا رب کو نہیں جانتے۔ اس لیے وہ سارے پیمانے مادی ہی پیمانے ہیں ان کے ہاں چیزوں کو جانچنے کے لیے۔ بھارت اور چین ایک دوسرے کے سرحد پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سالوں سے ان کے درمیان چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ٹینشن بھی بنتی رہتی ہے، لیکن وہ اس سے آگے بڑھنے کی بات نہیں کرتے۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ جنگ کتنی خطرناک ہوگی اور اس کے کیا نتائج ہوں گے مادی اعتبار سے۔

مسلمان کا معاملہ ہی کچھ اور ہے؛ وہ صومالیہ میں بھی لڑ رہا ہے، وہ الجزائر میں بھی لڑ رہا ہے، وہ شام میں بھی لڑ رہا ہے، وہ فلسطین میں بھی لڑ رہا ہے، وہ شیشان کی پہاڑیوں میں بھی لڑ رہا ہے، وہ فلپائن میں بھی لڑ رہا ہے، وہ یہاں افغانستان میں بھی اور خراسان میں بھی لڑرہاہے، پاکستان میں بھی لڑرہا ہے، کشمیر میں بھی لڑرہا ہے…… چاہے اس کےپاس وسائل کتنے ہی محدود کیوں نا ہوں۔ فلسطین میں چھوٹی سی جگہ ہے جس کا چاروں طرف سے گھیراؤ کیا گیا ہے۔ پانی کے رستے سے بھی اسے کچھ پہنچ نہیں سکتا۔ زمین میں جو زیر زمین سرنگیں مجاہدین نے بنائی تھیں ان کو بھی بند کرنے کے لیے انہوں نے گہرائی میں کئی فٹ اونچی دیواریں کھڑی کی ہیں کنکریٹ کی تاکہ کوئی انہیں پار نہ کرسکے اور کوئی مدد ان کو نہ پہنچ سکے۔ لیکن اللہ پہ توکل کرتے ہوئے انہوں نے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ تو یہ ایک اساسی فرق ہے جو ہمیں ان سے فرق رکھتا ہے کہ ہم اللہ کی قوت سے لڑتے ہیں، اپنی قوت سے نہیں لڑتے۔ یہ وہ ایمان ہے جو ہمیں میدان میں کھڑا رکھتا ہے اور یہ جتنا قوی اور جتنا مستحضر ہوگا ، جتنا ذہن میں حاضر ہوگا اتنا ہم ثابت قدم رہیں گے، اتنا مشکل سے مشکل حالات میں دشمن کے سامنے ڈٹنا آسان ہوگا۔ تو آج ہمارے بہت سے وہ بھائی جو میدان ِ جہاد کا رخ نہیں کرتے، شیطان اسی قسم کی باتوں سے ان کو روکتا ہے کہ کیسے مقابلہ کروگے، کیسے وہاں جاؤگے، کیسے وہاں سامنا کرو گے دشمن کا، ان کے پاس اتنی طاقت ہے اور تمہارے پاس کیا ہے؟ حالانکہ ماضی قریب میں اللہ نے دکھایا۔ اللہ نے روس کی کمر تڑوائی انہی مٹھی بھر مجاہدین سے (اور اب امریکہ کی بھی؛ فللّٰہ الحمد)۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے شیشان میں؛ جبکہ روس دو سو سال سے بلکہ ڈھائی سوسال سےان کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن الحمدللہ کبھی قوی اور کبھی کمزورمگر جہادی تحریک آج تک جاری ہے۔ اسی طرح ہم یہاں کی صورت حال دیکھتے ہیں کہ عراق میں بہت اکڑ کے ساتھ امریکہ داخل ہوتا ہے ۔ اللہ اسے شکست کھاکر نکلنے پہ مجبور کرتا ہے۔ افغانستان میں ان شاءاللہ ان کا آخری آخری وقت ہے اور وہ خود اپنے نکلنے کا ٹائم طے کرچکے ہیں۔ تو یہ کھلی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے کہ دنیا کو چلانے والی اصل طاقت اور کائنات کی تمام امور کی تدبیر کا چلانے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے اور اسی کے ہاتھ میں ہیں، اسی کے اشاروں پہ ساری چیزیں چلتی ہیں اور جیسے اللہ قرآن میں فرماتے ہیں کہ کوئی پتہ نہیں گرتا اللہ کے اذن کے بغیر اور کوئی چیز آسمان کی طرف جاتی نہیں اور کوئی چیز آسمان سے آتی نہیں اللہ کے اذن کے بغیر۔ تو یہ وہ طاقت ہے کہ جس کو انسان اپنی اکڑ میں، اپنے تکبر میں، اپنے علمی غرور و پندار میں، یہ سمجھ کے کہ ہم بہت ترقی کر گئے، بہت مہذب ہوگئے، ہم نے بہت کچھ سیکھ لیا، بہت کچھ پڑھ لیا اور یہ سارا جو نتیجہ ہے یہ انقلابِ فرانس کے بعد پھوٹنے والی جاہلی فکر کا ہے ، اس نے انسان کے اندر ایک خاص قسم کا غرور اور تکبر پیدا کیا جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پچھلے تیس سال کی ان جہادی تحریکات کے ذریعے توڑا اور عقل رکھنے والوں کو یہ پیغام دیا کہ انسان اللہ کی بس ایک مخلوق ہے اور دراصل خالق ہی خالق ہے اور وہی اس دنیا کو چلانے والا ہے اور وہی قوی اور وہی عزیز ہے۔

اور عزیز کے ساتھ ساتھ جو آخری صفت آیت بتاتی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے۔ وہ اپنی قوت کو حکمت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ تو جب بھی یہ دو چیزیں علیحدہ ہوں، قوت اور حکمت ایک جگہ اکٹھی نہ ہوں تو نتیجہ برا ہی نکلتا ہے۔ قوت ہو اور حکمت نہ ہو تو وہ قوت ظلم کے لیے استعمال ہوتی ہے اور حکمت ہو لیکن قوت نہ ہو تو اس حکمت کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ حکمت کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ عزیز بھی ہیں اور حکیم بھی ہیں۔ قوت والے بھی ہیں اور اس قوت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق استعمال فرماتے ہیں۔ کبھی نصرت اترنے میں تاخیر ہوتی ہے تو انسان کی ناقص عقل نہیں سمجھ پاتی کہ کیوں تاخیر ہورہی ہے جبکہ ہم حق پہ ہیں لیکن اللہ کی کچھ اور حکمتیں اس میں پوشیدہ ہوتی ہیں جو ہمارا خالق ہم سے بہتر جانتا ہے۔ اور قرآن کو جب ہم پڑھنا شروع کرتے ہیں تو پیارے بھائیو! پڑھنے کا آغاز ہی اس یقین کے ساتھ ہوتا ہے کہ واللہ یعلم و انتم لا تعلمون، اللہ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے، اللہ علم رکھتے ہیں اور تم علم نہیں رکھتے۔ اگر یہ عاجزی سینے میں نہ ہو تو بندہ کیوں کسی کتاب کو اٹھائے رہنمائی لینے کے لیے؟ پھر وہ خود مغرب کے ایک انسان طرح، جو اللہ سے باغی ہو ، اسی کی طرح وہ بھی اپنی عقل اور اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارسکتا ہے؛ لیکن وہ اللہ کی کتاب اٹھاتا ہی اس لیے ہے کہ اس کا یقین ہے کہ وہ علم نہیں رکھتا اور علم کا سرچشمہ جو ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اللہ جانتے ہیں اور ہم نہیں جانتے۔ اللہ ہی جانتے ہیں کہ اللہ کی حکمتیں کیا ہیں اور اللہ ہی جانتے ہیں کہ کہاں پہ اپنی قوت کا استعمال کس انداز سے کرنا مناسب ہے اور کہاں مناسب نہیں ، یہ اللہ تعالیٰ خود طے فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان آیات کے مفہوم کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے اعمال کو درست کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

سبحانک اللھم و بحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک وصلی اللہ علی النبی

Previous Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: اکیس(۲۱)

Next Post

علاماتِ کبریٰ: آخری سات نشانیاں | تیرھواں درس

Related Posts

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)

9 جون 2025
Next Post
موت وما بعد الموت | سترھواں درس

علاماتِ کبریٰ: آخری سات نشانیاں | تیرھواں درس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version