رحمۃ للعالمین، صلی اللّٰہ علیہ وسلم دینِ اسلام کی کامل و اکمل صورت کے ساتھ مبعوث فرمائے گئے۔ اللّٰہ ﷻ نے حضور علیہ ألف صلا ۃ وسلام کے بارے میں فرمایا ’ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ‘، بے شک آپ اخلاق کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہیں ۔ آپؐ کے اخلاقِ عالیہ کا ایک پہلو ازلی دشمنوں کو بخش دینا تھا اور اپنے ہی اصحاب کو فتحِ مکہ کے دن یہ وعظ فرمانا تھا کہ ’الْيَوْمُ يَوْمُ الْمَرْحَمَةِ‘1 کہ آج تو رحمت و مہربانی کا دن ہے، ساتھ میں انہی اخلاقِ عالیہ کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ اللّٰہ ﷻ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو حکم فرما رہے ہیں ’يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ‘کہ اے محبوبؐ کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجیے اور ان پر نرمی نہ کریں۔ حضرتِ عطاء تابعی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس آیت کے اس حکم ’وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ‘نے (کفار و منافقین کے ساتھ )عفو و درگزر کے ہر حکم کو منسوخ کر دیا‘2۔ نیز غلظت(یعنی سختی)، رحمت وشفقت کا متضاد ہے۔ اللّٰہ ﷻ کی تمام مخلوقات میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی بھی اللّٰہ ﷻ کا مطیع و فرماں بردار نہیں! اور یہی آپ کے اخلاقِ عالیہ کی معراج ہے، یعنی اطاعتِ ربّ العالمین!
پھر حضور علیہ ألف صلاۃ وسلام کے صحابہ رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے بارے میں اللّٰہ کا قرآن گواہی دیتا ہے کہ ’مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ‘ کہ محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اللّٰہ کے رسول ہیں اور آپ کے ساتھی کفار پر سخت ہیں اور آپس میں رحمت کا پیکر! اسی شان کو اقبال نے یوں بیان کیا کہ:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اور حالی نے کہا:
جہاں کر دیا نرم نرما گئے وہ
جہاں کر دیا گرم گرما گئے وہ
کفایت جہاں چاہیے واں کفایت
سخاوت جہاں چاہیے واں سخاوت
جچی اور تلی دشمنی اور محبت
نہ بے وجہ الفت نہ بے وجہ نفرت
رسولِ محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ، أفضل الخلائق بعد الأنبیاء، آپ کے اصحاب، رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کو نرمانے اور گرمانے والی شئے کا نام ’شریعتِ محمدی‘ (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام) ہے۔ یہ شریعت ہی وہ ضابطۂ حیات ہے کہ جو انسانوں کی زندگیوں اور ایوانوں کا نظام بننے کے لیے سات آسمانوں کے اوپر سے اتاری گئی ہے۔ یہ شریعت عفو و درگزر کا پیغام بھی ہے اور جو اس شریعت کے سامنے اکڑے تو اکڑنے والوں کی گردنوں کا سریہ یہ شریعت تلوار سے توڑنے کا حکم بھی دیتی ہے۔ ہر زمانے میں کچھ لوگوں کو اللّٰہ ﷻ اختیار و اقتدار کی قدرت دیتا ہے کہ یہ اس کی حکمتِ بالغہ ہے۔ اہلِ اقتدار میں ہمارے پاس حضرتِ داود علیہ السلام بھی ہیں اور آپؑ کے بیٹے حضرتِ سلیمان علیہ السلام بھی کہ جن کی پادشاہی انسانوں ہی پر نہیں بلکہ، جنات و عفریت، ہوا و پانی، چرند و پرند بلکہ سمندر کی مخلوقات پر بھی قائم تھی، آپؑ جیسی پادشاہی آپ کے بعد کسی کو نہ ملی نہ ملے گی۔ انہی پادشاہوں میں حضرتِ ذوالقرنین بھی ہیں جو مشرق و مغرب کے درمیان کا سبھی علاقہ فتح کر لیتے ہیں۔ حضرتِ فاروقِ اعظم رضی اللّٰہ عنہ اور حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللّٰہ عنہ بھی ہیں جن کی حکومتیں نصف دنیا پر قائم ہوئیں اور یہ سبھی اللّٰہ ﷻ کی حمد و ثنا بیان کرتے ، اس کی اطاعت و عبادت کرتے اور سبھی مخلوق میں اسی وحدہٗ لا شریک کی حکومت قائم کرتے تھے۔ لیکن دوسری طرف نمرود و فرعون اور ابرہہ و ابو جہل ہیں جو اپنی پادشاہت کو اپنا کمال سمجھتے ہیں اور پھر رعونت و تکبر سے ’ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى ‘ ڈکارتے ہیں۔ پس ایسے متکبر طاغوتوں کو اللّٰہ اپنی شان سے کبھی مچھر و پانی سے اور کبھی ابابیلوں کے لشکر سے تباہ کر دیتا ہے۔ ابو جہل کو اپنے مومن بندوں کے ہاتھوں قتل کرواتا ہے۔ پھر رہتی دنیا تک میں ظلم و فساد کا بازار گرم کرنے والوں کے لیے، ابو جہل کے وارثوں کے لیے فرماتا ہے ’قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ ‘ کہ ان سے لڑو، اللّٰہ ان کو تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں رسوا کرے گا، اور تمہاری مدد کرے گا اور ان پر غالب کر دے گا، اور مومنوں کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا۔ علمائے کرام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ پچھلی قوموں کو اللّٰہ ﷻ آسمان یا زمین سے عذاب میں مبتلا فرماتے تھے اب مستحقینِ عذاب کے لیے جہاد کا ’کوڑا‘ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کافروں پر مسلمانوں کے ذریعے مسلط فرماتے ہیں۔ گویا آج اللّٰہ ﷻ کی جانب سے کفارِ متکبرین و طواغیتِ جبارین پر مجاہدینِ اسلام مسلط کر دیے جاتے ہیں جو انہیں اس دنیا میں عذابِ الٰہی میں مبتلا کرتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو ان کے لیے ہے ہی!
ایسا ہی ایک طاغوت ہمارے زمانے میں امریکہ ہے۔ جس نے زمین کے کونے کونے میں فساد مچایا۔ دریا و سمندر کیا فضا و خلا بھی اس کے فساد سے نہ بچ سکے۔ اس نے ساری دنیا کو اپنی کمانوں میں تقسیم کیا اور پھر ایک کمان خلا کے لیے بھی بنا ڈالی، امریکی فوج کی ایک مسلح فوجی قوت ’خلا میں فتح 3‘حاصل کرنے کے لیے موجود ہے جس میں دس ہزار کے قریب افسر و اہلکار کام کرتے ہیں4۔ اس امریکہ نے دنیا بھر میں ظلم و فساد کا بازار گرم کیا، جاپان تا ویتنام ظلم و جبرکے پہاڑ توڑے اور بالخصوص اسلام و اہلِ اسلام کا دشمن بنا۔ امریکہ نے مسلمانوں کے اموال لوٹے، ان کی زمینیں غصب کیں، ان کے معدنیات و وسائل خاص کر پٹرول کی دولت لوٹی، اللّٰہ کی شریعت کی جگہ اپنے بنائے نظام نافذ کیے، پھر مسلمانوں پر ان مسلمانوں میں سے چند نام نہاد مسلمانوں کو جو منافقین دراصل امریکہ ہی کا کلمہ پڑھتے تھے مسلط کیا، مسلمانوں کے مقدسات خاص کر حرمِ مکی کے گرد گھیرا تنگ کیا اور یہی امریکہ ہے جو یہودِ نامسعود کا سب سے بڑا حامی و محافظ و مددگار ہے، یہی بالواسطہ مسجدِ اقصیٰ پر قابض ہے اور بلا واسطہ اسرائیل کا سب سے بڑا رکھوالا ہے۔ اس امریکہ نے دنیا پر ایک ایسا جابرانہ و ظالمانہ نظامِ حکومت کہیں براہِ راست تو کہیں ورلڈ بینک و آئی ایم ایف اور اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کے ذریعے مسلط کیا، جس کا مقصد اپنے سرمائے کی ہوس کی آبیاری، یہود کے لیے انسانوں کی ایک خادم و غلام نسل تیار کرنا ہے تا کہ مسیح الدجال کی ’نصرت‘ کی جا سکے۔ پس آج یہی امریکہ مسلمانوں اور انسانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
اس دشمن کی حقیقت کو چند اللّٰہ والوں نے سمجھا اور پھر اس طاغوتِ اکبر، فرعونِ زماں کے سامنے موسیٰٔ دوراں بن کر کھڑے ہو گئے۔ ان اللّٰہ والوں کے سرخیل کو امتِ مسلمہ شیخ اسامہ بن لادن اور آج کے صہیو صلیبی ’بن لیڈن‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللّٰہ علیہ نے امتِ مسلمہ میں سے ایک ایسا گروہ تیار کیا جو امریکہ سے کسی بھی طرح مرعوب و مغلوب نہ تھا، بلکہ ان اللّٰہ والوں اور آج تک ان اللّٰہ والوں کے قدم پر قدم رکھ کر چلنے والوں کی نگاہ میں امریکہ کی وہی حیثیت تھی اور ہے کہ یہ مکڑی کے جالے سے زیادہ حقیر اور مچھر کے پر سے بھی زیادہ ذلیل مخلوق ہے اور اس کے حقیر و ذلیل ہونے کا سبب اس کا اللّٰہ ﷻ کو الٰہ و ربّ ماننے سے انکار ہے، ’كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلاً‘!
پس یہ اللّٰہ والے اٹھے اور انہوں نے فرعونِ امریکہ کے آگے نعرۂ ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ بلند کیا اور کہا کہ ہم کوئی نظام نہیں مانتے ما سوائے شریعتِ ’محمد رسول اللّٰہ‘ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے! ان کا یہ نعرہ فقط زبانی کلامی نہ تھا، بلکہ ایمان کی عشق و مستی میں ڈوب کر ان مجاہدوں نے جو اقدام کیا اس کو دنیا ’نائن الیون‘ کے نام سے جانتی ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکی مرکزِ دفاع پنٹاگون اور امریکی اقتصادی مراکز ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹوئن ٹاور ہی زمین بوس نہ ہوئے بلکہ تہذیبِ انسانی کی معراج سمجھے جانے والا، نئی دنیا کہلائے جانے والا، اینڈ آف ہسٹری کے دعوے دار امریکہ کو بھی اہلِ ایمان میں سے چند پہلوانوں نے اٹھا کر زمین سے پٹخ دیا اور اس کی ناک خاک آلود کر دی۔ تین گھنٹے سے زائد تک لاکھوں کی فوج رکھنے، کھربوں ڈالروں کے اسلحہ و ٹیکنالوجی سے مسلح امریکہ کو محض انیس بہادروں نے حیران و ششدر کیے رکھا، خلائی کمانیں رکھنے والے امریکہ کی فضا تین گھنٹے تک مجاہدینِ اسلام کے قبضے میں رہی، اسی اقدام کو گزرے زمانے کی جنگوں میں ’مبارزہ‘ کہا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی کو قتل کرنے کے لیے اس کی سونڈ پہلے کاٹی جاتی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے دن اس ہاتھی کی سونڈ کاٹی گئی اور آج بائیس سال گزر جانے کے بعد یہ ہاتھی اپنا اور اپنے لشکر کا بے پناہ نقصان کر چکا ہے۔ چند اعداد و شمار اور حقائق ملاحظہ ہوں:
امریکی اخبار ’بوسٹن گلوب‘ اور امریکی اعلیٰ تعلیمی ادارے ’براؤن یونیورسٹی ‘ کے مطابق سنہ ۲۰۲۱ء تک صرف نائن الیون کے سبب فقط جنگی میدان میں امریکہ کو آٹھ ٹریلین یعنی اسّی کھرب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے جس میں سے صرف افغانستان میں ہونے والا جنگی معاشی نقصان دو ٹریلین یعنی بیس کھرب ڈالر ہے۔
براؤن یونیورسٹی کے ذیلی ادارے واٹسن انسٹیٹیوٹ کی جون ۲۰۲۱ء میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق نائن الیون کے بعد خالصتاً جنگ یا جنگ کا حصہ رہنے والے ہلاک شدہ امریکی فوجیوں کی تعداد سینتیس ہزار سے زیادہ ہے جن میں سے سات ہزار ستاون (7,057) براہِ راست دورانِ جنگ قتل ہوئے جبکہ تیس ہزار ایک سو ستتر (30,177) فوجیوں نے دورانِ جنگی ڈیوٹی یا جنگ سے گھر لوٹنے کے بعد خود کشی کی۔
واٹسن انسٹیٹیوٹ ہی کی رپورٹ کے مطابق امریکی کرائے کے فوجیوں (contractors) مثلاً بلیک واٹر وغیرہ کے سات ہزار آٹھ سو بیس (7,820) فوجی براہِ راست جنگ میں افغانستان و عراق میں مارے گئے۔
سابقہ امریکی فوجیوں کے امور کے شعبے (U.S. Department of Veterans Affairs) کے مطابق عراق و افغانستان جنگ میں شامل رہنے والے امریکی فوجیوں میں سے انتیس فیصد (29%) پی ٹی ایس ڈی (Post-Traumatic Stress Disorder) کا شکار رہے، جبکہ امریکی مجلّے ’نیوز ویک‘ میں شائع ہونے والی ’پیو ریسرچ سنٹر‘ کے ایک سروے پر مبنی رپورٹ کے مطابق عراق اور افغانستان جنگ میں شامل رہنے والے فوجیوں (جنہوں نے سروے میں حصہ لیا)میں سے ہر دس میں سے چار کے خیال میں وہ پی ٹی ایس ڈی میں مبتلا رہے یعنی چالیس فیصد (40%)۔
یمنی نژاد، امریکہ ہی میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے ثم ارضِ یمن کی طرف ہجرت کرنے اور وہیں پر امریکہ کہ ہاتھوں شہید ہونے والے شیخ انور العولقی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے ایک صوتی لیکچر میں کہتے ہیں کہ ’نائن الیون سے قبل امریکہ میں امن و امان اس قدر تھا کہ آپ اپنے مقامی کالج کے اخبار سے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خرید سکتے تھے اور ہوائی اڈے میں داخلے سے جہاز میں بیٹھنے تک کوئی یہ بھی نہ پوچھتا تھا کہ ٹکٹ پر درج نام اور حقیقت میں سفر کرنے والا ایک ہی شخص ہے یا کوئی اور؟ نائن الیون کے بعد امریکہ کی حالت یہ ہو گئی کہ آج دسیوں قسم کی تلاشیاں، شناختی کارڈوں کی پڑتال، باڈی سکینز (body scans)، کتوں کا سونگھنا وغیرہ ایک معمول ہے‘۔ امریکہ کو اپنا وطن؍ ہوم لینڈ محفوظ رکھنے کے لیے افریقہ کے کسی پسماندہ ملک کے ایک چھوٹے سے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھی وہ آلات نصب کرنے یا کروانے پڑتے ہیں جو امریکہ کی سکیورٹی کے لیے ’تھریٹ‘ ہوں!
اور یہ سب ابھی آغاز ہے۔ امریکہ ہاتھی ہے، ہاتھی کو مرتے مرتے بھی کچھ وقت لگتا ہے۔ ابھی یہ ہاتھی اپنے بہت سے اور حواریوں کو اپنے پاؤوں تلے روندے گا۔ واٹسن انسٹیٹیوٹ کے مطابق افغانستان و عراق جنگ میں اس ہاتھی کے ساتھ کینیڈا اور برطانیہ کا فوجی خرچہ امریکی فوجی خرچے کا نصف تھا، اس امریکی جنگ میں شامل بین الاقوامی اتحادیوں (برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، فرانس، اٹلی، پولینڈ، آسٹریلیا، ساؤتھ کوریا) کے ہلاک یافتگان کی تعداد ایک ہزار انتالیس (1,039)، جبکہ مقامی اتحادی فوجیوں (پاکستان، افغانستان، عراق اور شام) کے ہلاک یافتگان کی تعداد ایک لاکھ ستتر ہزار (177,000) ہے۔ یہ ہے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اللّٰہ کا رسول ماننے والوں کی طاقت، جن کی طاقت کا سرچشمہ خود قدرت و مہربانیٔ ربّ العالمین ہے۔ جب اس جنگ کا آغاز ہوا تو یہ اللّٰہ والے اس وقت صرف افغانستان میں تھے، جبکہ آج یہ افریقہ کے صحرائے اعظم میں بھی موجود ہیں اور ایک بڑا علاقہ کنٹرول کرتے ہیں، مشرقی افریقہ بھی ان کے زیرِ نگین ہے، جزیرۃ العرب میں بھی یہ افواج رکھتے ہیں، شام بھی ان کا مرکز ہے اور ایک لشکر پاکستان تا بنگال بھی اس امریکہ کے خلاف لڑنے کو میدانِ قتال میں موجود ہے۔
اسی لشکر کے آباء و اجداد نے کل کے طواغیت کے حکومتی و تمدنی مراکز مدائن تا قسطنطنیہ پاؤں تلے روندے تھے۔ انہی آباء کے بیٹوں کے لیے لوحِ ازل میں یہ فیصلہ ثبت ہے کہ یہ رومِ جدید و قدیم کو بھی محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دین کی پادشاہی میں داخل کر دیں گے۔ امریکہ ’بہادر‘ کو ’نوید‘ ہو کہ اس کا زوال بہت قریب آ گیا ہے اور اللّٰہ کا دین غالب ہو رہا ہے، افغانستان میں کفر کی شکست اس فتح و ظفر کی پہلی سیڑھی ہے:
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی
اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 فتح الباري شرح صحيح البخاري
2 تفسیرِ مظہری
3 Space Truths by General James Dickinson, Commander United States Space Command
4 Center for Strategic and International Studies