بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله صلى الله عليه واله واصحابه وسلم
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا(سورۃ الاحزاب: ۳۵)
’’جو لوگ خدا کے آگے (سرِ اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، اور فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیںِ اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں، اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیںِ اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اور پاک دامن مرد اور پاک دامن عورتیں، اور خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے خدا نے بخشش اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں دس صفات کا ذکر کیا ہے، لیکن ہر مرتبہ وہ تذکیر و تانیث کے الگ الگ صیغوں میں مردوں اور عورتوں کا ذکر فرماتا ہے، اور ان کی ایک ایک صفت کا ذکر کرتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنی بندیوں سے کتنی محبت ہے، اور ان کے لیے ہر عمدہ صفت اور کمال میں ترقی و امتیاز حاصل کرنے کا کتنا امکان اور وسیع میدان ہے۔ اس سے اس کا بھی اشارہ ملتا ہے (اور مذاہب و اخلاقیات کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس کی تصدیق کریں گے) کہ بہت سے قدیم مذاہب اور نظام ہائے اخلاق میں طبقہ نسواں کو بہت سے اخلاقی فرائض اور کمالات سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ اس کے لیے عیب نہ تھا۔ اعمال کی یہ طویل فہرست اس لیے بیان کی تاکہ معلوم ہو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جس طرح اپنے بندوں پر شفقت کرتا ہے، اسی طرح اپنی بندیوں پر شفقت کرتا ہے، اس کی صفتِ ربوبیت اور اس کی صفتِ رحمت مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے عام اور ان پر سایہ فگن ہے۔ اس کا پورا امکان تھا کہ ایمان و یقین، عبادت و اطاعت، صداقت و خلوص، صبر و ایثار، خوف و خشیت، صدقہ و خیرات اور پاک بازی اور پاک دامنی کے میدان میں پوری اجارہ داری مردوں کی ہو جائے، اس لیے کہ یہ اوصاف و خصوصیات، بلکہ کمالات و امتیازات، بڑی ہمت و عزم اور قربانی و ایثار کے طالب ہیں، اور مذاہب و اخلاق اور علم و تمدّن کی تاریخ میں زیادہ تر بلکہ تمام تر مردوں ہی کے نام آتے ہیں، پھر عورتوں کی بہت سی ایسی صنفی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں جن سے مرد آزاد ہیں، مثلاً خانہ داری کی ذمہ داریاں، اولاد کی پرورش، ان کی غذا اور پوشاک، ان کی دیکھ بھال اور تیمارداری۔
کم سے کم ولایت کے سلسلہ میں بالکل امکان تھا کہ ہم صد ہا بلکہ ہزاروں اولیاء اللہ سے واقف ہوتے، اور اس سلسلہ میں ایک خاتون کا نام بھی نہ سنا ہوتا۔ لیکن اس نورانی فہرست میں بھی حضرت رابعہ بصریہ کا نام درخشاں اور تاباں نظر آتا ہے، اور ان کا نام اب بھی زندہ ہے۔ کتنی بچیوں کا نام تبرّکاً یہی رکھا جاتا ہے۔ سوانح اور سِیَر کی تاریخوں اور تصوف و سلوک کی کتابوں میں ان کی عبادات، ولایت و کرامات، اور مقبولیت و عظمت کے واقعات درج ہیں۔ اسی طرح صد ہا مقبولینِ بارگاہِ الٰہی، اور پیشوایانِ طریقت و سلوک کی روحانی تربیت و ترقی میں ان کی ماؤں کا بنیادی حصہ ہے، اور انہوں نے خود اس کا اظہار و اعتراف کیا ہے۔ ان سب کے نام لینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ نمونہ کے طور پر ہم عالمِ اسلام کے سب سے مشہور و مقبول بزرگ پیرانِ پیر سیدنا عبد القادر جیلانی کا، اور ہندوستان کے مشہور و مقبول بزرگ محبوب الٰہی سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا نام لیتے ہیں۔ ان کے تذکرے، حالات و سوانح کی کتابیں پڑھی جائیں تو معلوم ہو گا کہ وہ اپنی ماؤں کی تربیت اور اپنے بچپن میں اپنے گھر کی فضا اور ماحول کا کتنی اہمیت اور ممنونیت کے ساتھ ذکر کرتےہیں، اور اس کے احسان مند اور شکر گذار نظر آتے ہیں۔
علمی کمالات اور علم کی خدمات و اشاعت کے سلسلہ میں مجھے افسوس ہے کہ فضلائے امّت کی تو سیکڑوں تاریخیں ہیں، لیکن فاضلاتِ امّت کی تاریخ بہت کم لکھی گئی ہے، لیکن پھر بھی تذکرہ نویسوں نے خواتین کو بالکل نظر انداز نہیں کیا۔ دینی علوم و ادبی کمالات کے سلسلہ میں ان کے نام آتے ہیں، علمی ذوق و شوق اورشغف کی کامیابی ، اور علمی جدوجہد کی یہاں صرف ایک ایسی روشن مثال پیش کی جاتی ہے، جس سے اچھے خاصے واقف آدمی پر بھی ایک عَالَمِ تحیر چھا جاتا ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید کے بعد اسلام کے پورے کتب خانہ اور اس کے پورے علمی ذکریہ میں کس کتاب کا درجہ ہے؟ یہ صحیح بخاری ہے جس کو ’’أصح كتاب بعد كتاب الله‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ وہ ہر مدرسہ اور دارالعلوم کے لیے معیارِ فضیلت ہے، ختمِ بخاری کی تقریب بڑے سے بڑے دارالعلوم کے لیے قابلِ فخر اور قابلِ شکر تقریب ہوتی ہے، اور اس جامعہ میں بھی اس کے ختم کی تقریب منائی گئی ہے۔ آپ کے علم میں ہے کہ وہ بخاری شریف ہندوستان میں اور اکثر علمی مرکزوں میں کس کی روایت سے پہونچی ہے، اور فضلائے مدارس کو اس کی سند دی جاتی ہے؟ یہ ایک فاضلہ خاتون کریمہ کی روایت ہے، ایک معتبر تذکرہ کی کتاب میں ان کا تعارف ان الفاظ میں آیا ہے:
كريمة بنت احمد بن محمد المروذية محدثة كانت تروى صحيح البخارى قال ابن الأثير انتهى إليها علو الإسناد للصحيح عاشت تقريبا مأة سنة أصلها من مروالروذ ووفاتها بمكة ويقال لهاأم الكرام وبنت الكرام1
’’کریمہ دختر احمد بن محمد مروالرّوذ کی رہنے والی محدّث خاتون ہیں، جو صحیح بخاری کی خاص راویہ ہیں، مؤرخ ابن الاثیر کہتے ہیں کہ صحیح بخاری کی سب سے اونچی سند انہیں کے ذریعہ سے ہے، تقریباً سو سال کی عمر پائی، مروالرّوذ کی رہنے والی تھیں، انتقال مکہ مکرّمہ میں ہوا، امّ الکرام اور بنت الکرام کے لقب سے یاد کی جاتی ہیں۔ ‘‘
اب ادب کے میدان کو لیجیے۔ ولادہ بنت المستکفی اندلس (اسپین) کے حکام میں سے ایک سربر آوردہ شخصیت کی صاحبزادی تھیں، ان کا ادبی ذوق، سُخن فہمی، اور بالغ نظری مسلّم اور ان کا نام اس سلسلہ میں تذکرہ اور تاریخ کی کتابوں میں روشن ہے، ان کا ادبی اور شعری دربار ایسا منعقد ہوتا تھا، جیسے بادشاہوں کے دربار منعقد ہوتے تھے، بڑے بڑے ادباء ان کے پاس استفادہ کے لیے آتے تھے۔2
جہاں تک ہمّت و عزیمت، ایثار و قربانی اور جذبۂ جہاد کا تعلق ہے، اس کی ایک مثال دینی کافی ہے، جس کی نظیر اسلام ہی نہیں، دنیا کی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ حضرت خنساء عربی زبان کی مسلّم و مستند اور غیر فانی شہرت کی مالک شاعرہ ہیں، ان کے دو بھائیوں کا انتقال ہوگیا تھا، ان کے لیے انہوں نے ایسے دل دوز مرثیے کہے کہ ان کی نظیر عربی مرثیوں ہی میں نہیں، دنیا کی دوسری زبانوں کے مرثیوں کے ذخیرہ میں بھی ملنا مشکل ہے، یہ واقعہ ان کے اسلام لانے سے پہلے کا ہے، یہی حضرت خنساء جب اسلام لائیں تو اسلام نے ان کی نفسیات میں عظیم انقلاب برپا کر دیا، جس اللہ کی بندی نے اپنے بھائیوں پر رونا اپنا شعار و معمول بنا لیا تھا، اور ان کی شاعری اسی پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھی، سب کو معلوم ہے (خاص طورپر ہماری بہنوں اور محترم خواتین کو) کہ بھائی اور بیٹے میں کیا فرق ہوتا ہے، بھائی سے ہزار محبت ہو، بیٹا لختِ جگر اور نورِ نظر ہوتا ہے، اور جان سے زیادہ پیارا، انہیں خنساء نے جہاد کے ایک موقع پر اپنے بیٹوں کو بلایا، ایک ایک کو رخصت کیا اور کہا، بیٹا! میں نے اسی دن کو دودھ پلایا تھا، اللہ کے راستے میں جاؤ اور ہم کو سرخ رو کرو۔ اس کے بعد ایک ایک کی شہادت کی خبر سنتی رہیں، جب آخری بیٹے کی شہادت کی خبر سنی تو ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
الحمد لله الذي اكرمنى بشهادتهم
اس خدا کا شکر ہے جس نے ان کی شہادت کی عزت و نسبت سے مجھے سرفراز فرمایا۔
ان اوصاف و کمالات کے علاوہ دو ایسے میدان ہیں جن میں خواتین کو سبقت حاصل ہے، اور وہ ان میدانوں میں جو کارنامہ انجام دے سکتی، اور اس کے ذریعہ امتِ اسلامیہ کا صرف نسلی تسلسل ہی نہیں، اعتقادی، اخلاقی، ذہنی اور تہذیبی تسلسل کے قائم رہنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہیں، وہ انہیں کا حصہ ہے، اور ہر دور میں ان کے نہ صرف تعاون بلکہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور اس کو سر انجام دینے کے بغیر یہ معنوی تسلسل ( جو اس امت کی اصل قیمت اور اس کی ضرورت و افادیت کا ثبوت ہے) قائم نہیں رہ سکتا۔
یہ دو میدان ہیں، ایک نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا ابتدائی کام، اور اس کے قلب و ذہن پر اسلام کا نقش قائم کرنا اور اس کو عمیق و مستحکم بنانا، دوسرے اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت اور نئی نسل کو غیر اسلامی تہذیب و معاشرت کے اثرات سے بچانا ہے۔
ہماری زبان و محاورہ میں جب یہ بتانا ہوتا ہے کہ فلاں عادت، یا یقین، یا خوبی، یا کمزوری، دل و دماغ میں پیوست ہو گئی ہے، اور اب وہ نکالی نہیں جا سکتی، تو کہا جاتا ہے کہ ’’ یہ چیز گھٹی میں پڑی ہوئی ہے‘‘ اور ظاہر ہے کہ یہ گھٹی ماں اور گھر کی شفیق اور مربّی بیبیوں کے ذریعہ ہی بچوں کو ابتدائے شعور میں گھر ہی میں دی جا سکتی ہے۔ ماہرینِ تعلیم و تربیت اور علمائے نفسیات نے اس حقیقت پر بہت زور دیا ہے کہ بچہ کے ذہن کی سادہ تختی پر جوابتدائی نقوش پڑ جاتے ہیں، وہ کبھی نہیں مٹتے، اور خواہ ان کو مٹا ہوا سمجھ لیا جائے، لیکن درحقیقت وہ مٹتے نہیں، دب جاتے ہیں، اور وقت پر ابھرتے ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے کے بعد ماؤں اور بچہ کی تربیت کرنے والیوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے، جو اس سادہ تختی پر آسانی کے ساتھ اچھے سے اچھے نقش بنا سکتی ہیں، اور جن کو کوئی طاقت اور کوئی تعلیم و تربیت آسانی کے ساتھ مٹا نہیں سکتی۔
ماؤں اور پرورش کرنے والی خواتین اور گھر کی ان بیبیوں کا، جو رشتہ میں بزرگ اور گھر کے ماحول میں اثر انداز اور قابل احترام ہوتی ہیں، اتنا ہی فرض اور ذمہ داری نہیں کہ وہ بچوں کو اللہ اور رسول کا نام سکھا دیں، کلمہ یاد کرا دیں، اور جب وقت آئے تو نماز پڑھنا سکھا دیں، یہاں تک کہ قرآن شریف پڑھنا بھی ان کو آجائے، اور اردو پڑھنے کے قابل بھی ہو جائیں، ہندی زبان اور رسم الخط کی اس فرماں روائی کے دور میں جب لاکھوں مسلمان بچے اور بچیاں اردو کی ایک سطر پڑھنے اور اپنا نام تک لکھنے کے قابل نہیں ہوتیں، بلکہ اپنا نام زبانی بھی لینے اور بتانے کی ان میں صلاحیت نہیں ہوتی، جس کی درجنوں مثالیں، انٹرویو کی مجلسوں، اسکولوں میں داخلے اور ملازمت کی درخواست دینے کے موقع پر سامنے آ چکی ہیں، جو زیادہ تر گھر کے اندر اردو لکھنے پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہونے اور اسلامی تاریخ، انبیاء، صحابہ کرام، ازواجِ مطہرات، اہل بیت اور پیشوایانِ اسلام کے ناموں تک سے واقف کرانے کے کام سے غفلت اور سستی کا نتیجہ ہے۔
اس ضروری کام کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ان بچوں کو کفر و شرک سے نفرت، توحید سے محبت، اس پر فخر، اسلامی نسبت اور مسلمان ہونے اور کہلانے پر مسرّت و عزت کا احساس، دین کی حمیت و غیرت، خدا کی نافرمانی، اور خدا کے آخری رسول محمد ﷺ سے عشق، اور شیدائیت کی حد تک محبت، گناہوں سے نفرت اور گھن، دنیاوی ترقی ہی کو زندگی کا مقصد اور کامیابی اور عروج کی دلیل سمجھنے سے حفاظت، راست بازی اور راست گوئی کی عادت، خدمت و ایثار کا شوق، خدمتِ خلق اور وطن دوستی کا جذبہ پیدا کرنا بھی ان کی ذمہ داری اور انہیں کے کرنے کا کام ہے، اور اگر یہ کام بچپن میں اور گھروں کے اندر نہیں ہوا، تو دنیا کی بڑی سے بڑی دانش گاہ اور سرکاری یا عالمی پیمانہ پر کوئی تربیت گاہ نہیں کر سکتی اور اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی صفائی سے کہنا پڑتا ہے کہ جب تک مسلمان بچوں کو بُت پرستی اور کفر و شرک سے خواہ وہ کسی بیرونی و ملکی دیومالا اور نصاب تعلیم کے ذریعہ سے ہو، یا ریڈیو، ٹی وی یا لیکچروں کے ذریعہ سے ہو یا خود مسلمان کے دین سے ناواقفیت اور دنیا دار اور پیشہ ور گروہوں کے اثر سے ہو، اس طرح نفرت اور گھن نہ پیدا ہو، جیسی گندی اور بدبودار چیزوں سے ہوتی ہے، تو ان کے ایمان کی حفاظت نہیں ہو سکتی، اور ان کے صحیح العقیدہ مسلمان ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ یہ تربیت ، یہ محبت و نفرت جو طبیعت کا خاصّہ اور حواسِ خمسہ کے ساتھ ایک نیا حاسّہ بن جائے، مسلمان گھرانوں کی میراث، اور مسلمان نسلوں کے اعتقادی و معنوی تسلسل کا راز ہے، اور جب تک یہ کام گھروں میں اور ماؤں اور گھر کی بڑی بہنوں اور بزرگ خواتین کے ذریعہ انجام نہیں پائے گا، بڑے سے بڑے پُر اثر مواعظ، مؤثر سے مؤثر دینی کتابیں اور مدارسِ دینیہ عربیہ کے لائق ترین اساتذہ کے ذریعہ بھی اس میں کامیابی حاصل ہونی مشکل ہے۔
دوسرا میدان جس میں خواتین کو امتیاز اور قیادت و رہنمائی کا شرف حاصل ہے، وہ اسلام کی تہذیبی و معاشرتی امتیاز کا باقی رکھنا، اس کا تسلسل و دوام اور غیر اسلامی تہذیبوں اور طرزِ معاشرت سے حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے قدرے تفصیل اور قدیم اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اسلام کو بالکل ابتدا ہی میں ایک ایسے انوکھے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، جس سے تاریخ میں شاید کسی مذہب کو اس درجہ میں واسطہ نہیں پڑا، جزیرۃ العرب سے نکلنے والے عرب مسلمانوں کو دو ایسے ترقی یافتہ تمدنوں کا سامنا کرنا پڑا جن سے بڑھ کر کسی دوسرے تمدن کا تجربہ، انسانی و تہذیبی تاریخ میں عرصہ سے نہیں کیا گیا تھا۔ یہ دو تمدن رومی و ایرانی تمدن تھے، جو تہذیب، آرٹ، انسانی زندگی کو سنوارنے اور اس کو منظم کرنے، راحت و آسائش کے سامان کی فراہمی اور فراوانی میں کئی منزلیں طے کر چکے تھے، اور ترقی کے آخری درجہ تک پہنچ گئے تھے۔ یہ تمدن اپنی تراش خراش میں بڑی رعنائی رکھتے تھے، اور بڑے دل فریب تھے۔ آلات و وسائل، راحت و دلچسپی کے سامان، زندگی گزارنے کے بلند معیار، خانہ داری کے ترقی یافتہ طور و طریق اور لباس، خوراک، اور گھروں کی زینت و آرائش کے آلات و وسائل سے ان کا تمدن مالا مال تھا۔
اس کے برخلاف عرب اپنے ابتدائی دور میں یا صحیح الفاظ میں تہذیبی طفولیت کے دور میں تھے۔ درحقیقت یہ تجربہ جس سے ابتدائی مسلمانوں کو گزرنا پڑا، بڑا نازک تجربہ تھا۔ اسلام یقیناً آسمانی تعلیمات، عقائد اور اخلاقِ عالیہ، اور آدابِ حسنہ سے آراستہ تھا، لیکن تہذیب و معاشرہ کی قیادت کی باگ ڈور اس وقت رومیوں اور ایرانیوں کے ہاتھ میں تھی، اس لیے اس کا امکان تھا، اور سارئے قرائن بتا رہے تھے کہ یہ عرب اور مسلمان جنہوں نے ایک تنگ و تاریک ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں، اور جن کے پاس بہت محدود وسائل تھے، جن کی زمین دولت کے سرچشموں سے خالی ہے، ان کی زندگی خیموں اور خام و نیم خام مکانات میں گزری ہے، اور ایک طرح سے ’’خانہ بدوشانہ‘‘ زندگی کہی جا سکتی ہے، تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ جب پہلی مرتبہ عرب مجاہدین و مبلغین نے (ایرانی فتوحات کے زمانہ میں) کھانے میں چپاتیاں دیکھیں تو وہ سمجھے کہ یہ ہاتھ پونچھنے کے لیے دستی رومال ہیں، کھانے کے بعد ہاتھ پونچھنے کے لیے جب انہوں نے ان باریک چپاتیوں کو اٹھایا تو معلوم ہوا کہ یہ تو روٹی ہے، اسی طرح جب ان کو پہلی مرتبہ کافور سے سابقہ پڑا تو وہ سمجھے کہ یہ نمک ہے، اور بعض اوقات انہوں نے اس کو آٹے کے ساتھ گوندھ دیا۔
غرض یہ کہ جب فتوحات کا دور شروع ہوا تو ان بادیہ نشینوں کو ایک ایسے ترقی یافتہ اور دلکش تمدن سے سابقہ پڑا جس کو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا، اس لیے اس کا پورا امکان ہی نہیں، بلکہ اس کے سب قرائن موجود تھے کہ وہ اس تمدن پر دیوانہ وار اور پروانہ وار گرتے، اور اس کی ہر خو کو اختیار کرتے اور اس پر فخر کرتے، ان کے تمدن و معاشرت روزمرہ کی زندگی اور خوراک و پوشاک کا معیار اتنا اونچا ہو جاتا کہ اس کے حصول کے لیے ان کو حدودِ شریعت ہی نہیں، اپنے عرف و رواج کے حدود سے بھی تجاوز کرنا پڑتا، وہ اس سب کو ایک فیشن، ترقی پسندی، بلکہ بیداری اور حقیقت پسندی کی علامت کے طور پر اختیار کرتے……
اور اس سے وہ سب خرابیاں پیدا ہوتیں، جو مادہ پرست، دنیا دار، اور تمدن و ترقی کی وبا زدہ اقوام و ممالک میں پیدا ہوتی رہی ہیں، اور تاریخ میں اس کی صد ہا مثالیں ملتی ہیں۔ اس کے تصور کے لیے ان مشرقی ممالک و اقوام کا نقشہ اور ان کا طرزِ عمل دیکھ لینا کافی ہے، جو مغربی تمدن و ترقی کی نقالی کا شکار ہوئیں، اور ان کی خوشہ چیں بن گئیں، اور انہوں نے دینی تعلیمات و احکام، حدودِ شریعت اور اپنی قدیم تہذیبی روایات سے یکسر آنکھیں بند کر لیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس مشکل پر مردو ں اور عورتوں کے باہمی تعاون سے قابو پایا، اس میں بہت بڑا دخل مسلمان خواتین کے ایمان و یقین، قناعت و ایثار، دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے، اور صحابیات و گزشتہ صاحبِ ایمان و صلاح مستورات کا نمونہ سامنے رکھنے کا نتیجہ تھا، مرد رومی و ایرانی تمدن کی نقّالی اور اس کے ترقی یافتہ طور طریق، طرزِ معاشرت، اور زیب و زینت کے آلات و وسائل کے اختیار کرنے سے کتنے ہی روکنے کی کوشش کرتے، اور کتنی ہی مؤثر اور بلیغ تقریریں کی جاتیں، اسلامی معاشرہ رومی و ایرانی تمدّن اور طرزِ معاشرت اور اس کی نقّالی سے بچ نہیں سکتا تھا، علماء و واعظین، حکّام و سلاطین، اخلاقی احتساب کرنے والے ذمہ دار، فوجی کمانڈر اور افسران بھی اسلامی معاشرہ ، اسلامی شخصیت، اور اسلامی تہذیب و تمدّن کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے، ان خواتین کا اسلامی تشخص کی حفاظت ہی نہیں، بلکہ اسلامی وجود کے بقا میں بھی بڑا حصہ ہے۔
اب بھی اگر کوئی طاقت مغربی تہذیب کی نقّالی اور یہی نہیں بلکہ نئی ابھرنے والی، اور تیزی سے پھیلنے والی ہندو تہذیب کے مسلم معاشرہ میں رائج اور مقبول ہونے سے بچا سکتی ہے، جو (ایک خاس دیومالائی نظام رکھنے اور اسلامی بنیادی عقائد سے متصادم ہونے کی بنا پر) زیادہ خطرناک ہے، تو وہ ہماری ان بہنوں اور مسلمان خواتین کی صحیح دینی تعلیم ، ایمانی و دینی تربیت، اور اسلامی اخلاق و سیرت کو دوسرے قوموں کے اخلاق و سیرت پر ترجیح دینے ہی سے ممکن ہے۔
یہ حقیقت طبقۂ نسواں میں دینی تعلیم و اسلامی تربیت کے انتظام کی ضرورت ایک اہم وجہ و محرّک ہے،ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ مدارس نسواں اور جامعۃ الصالحات، یا جامعہ نور الاسلام کے ناموں سے جو زنانہ دینی مدارس اور جامعات قائم ہو رہی ہیں، وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک مؤثر دانش مندانہ اور تعمیری قدم ہے، جس سے تہذیبی ارتداد (اور اس سے بڑھ کر نئی نسل کے اعتقادی انقلاب سے) مسلمانوں کی نئی نسل کو بچایا جا سکتا ہے ، اور اس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے، اور اگر اس مخلصانہ اور دانش مندانہ کوشش کا سلسلہ جاری رہا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرتِ غیبی کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔
وصدق الله العظيم
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ(سورۃ محمد: ۷)
(اے مسلمانوں) اگر تم اللہ کے دین کی نصرت کرو گے، تو اللہ تمہاری نصرت (مدد) فرمائے گا، اور تمہارے قدموں کو جما دے گا۔
٭٭٭٭٭
1 الأعلام للذركلى ج 6 ص 78
2 ايضا ج 9 ص 135- 136