نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تزکیہ و احسان

بدگمانی اور اس کا علاج | پہلی قسط

شاہ حکیم محمد اختر by شاہ حکیم محمد اختر
28 ستمبر 2023
in تزکیہ و احسان, ستمبر 2023
0

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی، اَمَّا بَعْدُ

فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ1

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا2

سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر مومن کے ساتھ نیک گمان رکھو۔ اس حدیث کی شرح میں علمائے ربّانیّین فرماتے ہیں کہ اگر کسی چیز کے اندر ننانوے دلائل ہوں بدگمانی کے لیکن ایک راستہ ہو حسنِ ظن کا تو عافیت کا راستہ یہی ہے کہ حسن ظن کے اس ایک راستے کو اختیار کرلو۔ کیوں؟ اس کی وجہ شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ میرے مرشدِ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ بدگمان پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقدمہ دائر فرمائیں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ بدگمانی کے تمہارے پاس کیا دلائل تھے، اور نیک گمانی پر بلادلیل انعام عطا فرمائیں گے۔ حسن ظن پر بغیر دلیل کے ثواب ملتا ہے کیونکہ امر ہے ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا، لہٰذا مقدمہ میں جان پھنسانا بے وقوفی، حماقت اور نادانی ہے۔ حضرت ہنس کر فرماتے تھے کہ احمق ہے وہ شخص جو مفت میں ثواب لینے کے بجائے اپنی گردن پر مقدمات قائم کرنے کے انتظامات کر رہا ہے اور اپنے لیے مصیبتیں تیار کر رہا ہے۔ نیک گمان کر کے مفت میں ثواب لو اور بدگمانی کر کے دلائل پیش کرنے کے مقدمات میں اپنی جان کو نہ پھنساؤ۔

حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اعتراض کے منشاء دو ہوتے ہیں۔ قلتِ محبت یا قلتِ علم یعنی اعتراض عموماً دو قسم کے لوگوں کو ہوتا ہے۔ یا تو اس کے اندر محبت کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہر آدمی کے اندر کیڑے نکالنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر نہایت درجہ کا جاہل ہوتا ہے کیونکہ قرآن و حدیث اور فقہ کے اصول اس کے سامنے نہیں ہوتے اس لیے جہالت کی وجہ سے اعتراض کرتا ہے۔ اور فرمایا کہ ہماری خانقاہ میں دو ہی قسم کے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یا تو انتہائی درجہ کا فقیہ ہو کر میرے ہر عمل کو سمجھ جائے کہ یہاں فقہ کا فلاں قانون لاگو ہو سکتا ہے یا پھر انتہائی درجہ کا عاشق ہو جس کو سوائے بھلائیوں کے کچھ نظر ہی نہ آئے کیونکہ عاشق کو تو محبوب کی ہر ادا پسند آتی ہے، اور اگر نہ اس میں محبت کامل ہے نہ علم کامل ہے تو ایسے لوگ پھر محروم ہی رہتے ہیں۔ پس دینی خدّام پر اعتراض اور ان کے فیوض و برکات سے محرومی کے یہ دو ہی سبب ہیں؛ یا محبت کی کمی یا علم کی کمی۔

دیکھیے تھانہ بھون جیسا قصبہ جہاں اپنے زمانہ کا مجدّد موجود، جب دور دور سے بڑے بڑے علماء اور بزرگ آتے تھے تو قریب کے رہنے والے یعنی قصبہ کے بعض لوگ مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کلکتہ سے، مدراس سے، بمبئی سے، اعظم گڑھ سے، جون پور سے چلے آرہے ہیں، کیسے بے وقوف لوگ ہیں، ہمیں تو کوئی خاص بات ان بڑے میاں میں نظر نہیں آتی۔ لہٰذا دور دور کے لوگ کامیاب ہوگئے اور قریب کے لوگ جنہوں نے قدر نہ کی محروم رہ گئے۔

حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے کہا کہ حاجی صاحب آپ تو کوئی بڑے عالم بھی نہیں ہیں، پھر ان علماء کو کیا ہوگیا کہ مولانا گنگوہی جیسا عالم، مولانا قاسم نانوتوی جیسا عالم اور حضرت حکیم الامت جیسا عالم آپ سے مرید ہوگیا ہے، مجھے تو اس بات پر سخت صدمہ اور تعجب ہے کہ یہ علماء کیوں آپ سے بیعت ہوگئے۔ اب حاجی صاحب کا جواب سن لیجیے، فرمایا کہ ’’جتنا آپ کو تعجب ہے اس سے زیادہ مجھے تعجب ہے کہ یہ علماء اور علما۴ بھی ایسے کہ علم کے سمندر، نہ جانے مجھ جیسے کے ہاتھ پر کیوں بیعت ہوگئے‘‘۔ یہ حاجی صاحب کا کمال تواضع تھا، لیکن یہ بدگمانی اور اعتراض کرنے والا کوئی بہت ہی محروم شخص تھا۔ برعکس ان حضرات کے اندر کتنا ادب تھا۔ حاجی امداد اللہ صاحب نے ایک رسالہ لکھا اور مولانا قاسم نانوتوی کو دیا اصلاح کے لیے۔ اس میں علمی لحاظ سے کوئی لفظ مسوّدہ میں غلط ہو گیا تو مولانا قاسم صاحب نے اس مقام پر یہ نہیں لکھا کہ حضرت آپ سے یہاں غلطی ہوگئی ہے بلکہ دائرہ بنا کر یہ لکھ دیا کہ حضرت یہ لفظ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔

اللہ اللہ! کیا ادب تھا۔ نقص کی نسبت شیخ کی طرف نہیں کی، اپنی سمجھ کی طرف کردی۔

اے خدا جوئیم توفیق ادب

مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ اے خدا ہم آپ سے ادب مانگتے ہیں۔

بے ادب محروم مانداز فضل رب

کیونکہ بے ادب انسان اللہ کے فضل سے محروم رہتا ہے۔ لہٰذا بے ادبوں کی صحبت سے بھی بچنا چاہیے۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی عقل مند ہو لیکن اگر کسی بے ادب کے پاس رہتا ہے تو اس کے اندر بھی بے ادبی کے جراثیم پیدا ہوجائیں گے۔ اس لیے جس قوم نے یا جس طبقہ نے اکابر پر اعتراضات کیے ہیں ایسے لوگوں کے لٹریچر سے، ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہیے ورنہ و ہ جراثیم اس کے اندر بھی آجائیں گے، اور یہ سارا راستہ اکابر کے اعتماد پر چلتا ہے۔

اس بات کو محدث عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں بہت عمدہ سمجھایا ہے کہ شیطان کی مثال اس کتے کی سی ہے جو بڑے لوگوں کے بنگلوں پر کھڑا رہتا ہے۔ دنیا میں جتنے بڑے لوگ کہلاتے ہیں ان کا کتا بھی بڑا ہوتا ہے، بھیڑیا نسل کا ’فارن کنٹری3‘ سے منگواتے ہیں۔ کارنر کا اگر پلاٹ ہے تو کتا فارنر کا ہوتا ہے۔ جب کسی کو دیکھتا ہے کہ یہ بنگلہ میں آنا چاہ رہا ہے تو بھونکنا شروع کردیتا ہے اور اتنی زور سے بھونکتا ہے کہ قبض کشا گولی کی ضرورت نہیں پڑتی، اس کا قبض ویسے ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ آنے والا پھر گھنٹی بجاتا ہے اور مالک مکان سے کہتا ہے کہ صاحب میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں مگر آپ کے کتے نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے، اس کو خاموش کرائیے، تو کتے کا مالک کوئی خاص لفظ خصوصی کوڈ استعمال کرتا ہے جس سے وہ دُم ہلاتا ہوا بیٹھ جاتا ہے۔ محدّث عظیم ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ ابلیس اللہ تعالیٰ کا کتا ہے، گیٹ آؤٹ کیا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کے دربار سے باہر ہے، مردود کیا ہوا ہے، جب دنیا کے بڑے لوگ بڑے کتے پالتے ہیں تو اللہ میاں تو سب سے بڑے ہیں ان کا کتا بھی اتنا ہی بڑا، یہ وسوسے ڈالتا ہے اگر اس سے لڑو گے اور چپ کرانا چاہو گے تو وہ بھوکے گا جیسے کتے بھونکتے ہیں اگر کوئی ڈانٹنا شروع کرے اور خاموش کرانا چاہے۔ تو یہ شیطان اللہ تعالیٰ کا کتا ہے کہ کسی کے قابو میں نہیں آسکتا جب تک کہ وہ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ نہ پڑھے۔ لہٰذا اللہ سے کہو تو اللہ تعالیٰ پھر شیطان کو حکم دے دیتے ہیں، اس کی برکت سے پھر شیطان اس پر قابو نہیں پاتا۔ اس لیے اللہ پاک نے خود اپنی ذات پاک سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، شیطان سے لڑنے کا حکم نہیں دیا۔

ایک شخص نے حضرت حکیم الامت کو لکھا کہ میرے قلب میں کفر کے وسوسے آتے ہیں، ایسے ایسے وسوسے آتے ہیں کہ میں ہندو ہوجاؤں یا عیسائی ہو جاؤں یا یہودی ہوجاؤں۔ عجیب عجیب کافرانہ خیال آتے ہیں جن کی وجہ سے مجھے تو اپنے ایمان ہی میں شبہ ہے، تو حضرت نے اس کو لکھا کہ جب آپ کو کفر کے یہ وسوسے آتے ہیں توآپ کا دل خوش ہوتا ہے یا صدمہ اور دکھ ہوتا ہے؟ اس نے لکھا کہ دل کو سخت صدمہ ہوتا ہے، تو فرمایا کہ پھر آپ پکے مسلمان ہیں۔ ان وسوسوں پر دل کا دکھنا اور کڑھنا اور صدمہ ہونا دلیل ہے آپ کے ایمان کی۔ دنیا میں کسی کافر کو اپنے کفر پر صدمہ اور افسوس نہیں ہے اگر افسوس ہو تو اپنے کفر پر قائم ہی کیوں رہے، کافر کو اپنے کفر پر کبھی کوئی وسوسہ نہیں آتا لہٰذا ان وسوسوں سے آپ کے ایمان کو نقصان نہیں بلکہ آپ کا درجہ بلند ہو رہا ہے۔ ہمارے ذمہ بس اتنا ہے کہ برے وساوس کو برا سمجھیں، وساوس کا آنا برا نہیں لانا برا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے سپر ہائی وے پر ایک شہزادہ جارہا ہے، اس کی منزل حیدرآباد ہے، ساتھ ہی گدھا گاڑی بھی جارہی ہے اور ایک کتا بھی بھونکتا ہوا جارہا ہے تو بتائیے کیا یہ کتے اور گدھے کا ہونا اس شہزادہ کے سفر میں کچھ مضر ہوگا؟ سپر ہائی وے پر اگر بادشاہوں کے ساتھ کتے اور بھنگی اور جمعدار چل سکتے ہیں تو مومن کا قلب بھی شاہراہ ہے اور وہ مثل شہزادہ کے اللہ کی طرف جارہا ہے، اس میں اگر وسوسے آتے ہیں تو کوئی فکر کی بات نہیں بلکہ ان وسوسوں کو معرفت کا ذریعہ بنا لیجیے۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وسوسوں اور خیالات کا ہجوم ہو تو کہو واہ کیا شان ہے اے اللہ آپ کی کہ ڈیڑھ چھٹانک کے دل میں آپ نے خیالات کا سمندر بھر دیا، کیماڑی کا سمندر بھی بھرا ہوا ہے، کلفٹن بھی ہے اور کشمیر کی پہاڑیاں بھی گھسی ہوئی ہیں۔ سارا عالَم ایک ذرا سے دل میں سمایا ہوا ہے، ایک چھوٹی سی چیز میں خیالات کا سمندر چلا آرہا ہے۔ تو فرمایا کہ یہ خیالات کا ہجوم جو شیطان نے ڈالا تھا اللہ سے دور کرنے کو اس شخص نے بزرگوں کی تعلیمات کی برکت سے اس کو ذریعۂ معرفت اور ذریعۂ قرب بنا لیا تو پھر شیطان ہاتھ ملتا ہے اور افسوس کرتا ہوا بھاگتا ہے کہ اس نے تو میرے وساوس کو بھی معرفت کا سبب بنا لیا، یہ تو ایسا عاشق معلوم ہوتا ہے کہ جس نے،

آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ملا اسے غمِ جاناں بنا دیا

اس طرح وسوسوں کو ذریعۂ معرفت بنا لیجیے اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے، سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ4 اے اللہ! میرے دل کے خیالات کو اپنا خوف اور اپنی یاد بنا دے اور ایک دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، مشکوٰۃ شریف کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہٗ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ5 شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے معاملے کو، اس کے مکروکید کو صرف وسوسہ تک محدود کردیا، اس سے زیادہ اس کو طاقت نہیں دی ورنہ مان لیجیے یہاں جو لوگ بیٹھے ہوئے دین کی بات سن رہے ہیں اگر شیطان آتا اور سب کو اٹھا اٹھا کر سینما ہاؤس میں لے جاکر بٹھا دیتا تو بڑی مشکل میں جان پھنس جاتی، لوگ کہتے کہ بھائی ہم تو گئے تھے خانقاہ میں اللہ کی بات سننے مگر وہاں شیاطین کا ایک لشکر آیا اور سب کو اٹھا اٹھا کر وی سی آر اور سینما ہاؤس میں بٹھا دیا۔ شیطان کو اگر یہ طاقت ہوتی تو بتائیے ہم کتنی مشکل میں پھنس جاتے! اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ادا کرو، کہو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ اَمْرَہٗ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک ہیں۔ عربی میں یاد رہے تو سبحان اللہ ورنہ اردو ہی میں کہہ لیجیے کہ شکر ہے اس اللہ کا جس نے شیطان کے کید کو، اس کی طاقت کو صرف خیالات اور وسوسہ ڈالنے تک محدود کردیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر سکھایا اور شکر سے اللہ کا قرب ملتا ہے۔ پس وسوسہ کو ذریعۂ قرب و معرفت بنا دیا کہ شکر ہے کہ شیطان صرف خیالات اور وسوسہ ڈال سکتا ہے، تم کو عمل پر مجبور نہیں کرسکتا۔ گندا تقاضا دل میں پیدا ہوا آپ اس پر عمل نہ کیجیے، بالکل آپ کا تقویٰ قائم ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کا روزہ ہے، جون کا مہینہ ہے، شدید پیاس لگ رہی ہے، بار بار دل چاہتا ہے کہ پانی پی لوں مگر پیتا نہیں۔ بتائیے روزہ اس کا ہے یا نہیں؟ کیا پانی پینے کے وسوسوں سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا؟ پانی پینے کے لاکھ تقاضے ہوتے رہیں جب تک پیے گا نہیں روزہ اس کا قائم ہے۔ بلکہ اس کو ڈبل اجر مل رہا ہے، تقاضے کی وجہ سے، پیاس کی وجہ سے۔ اسی طرح گناہ کے لاکھ وسوسے آئیں جب تک گناہ نہیں کرے گا یہ شخص بالکل متقی ہے، وسوسہ سے تقویٰ میں ہرگز نقصان نہیں آئے گا۔

سبحان اللہ! یہ ہمارے باپ داداؤں کے علوم ہیں، اُولٰٓئِکَ آبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ۔ لہٰذا گناہوں کے تقاضوں پر آپ بس عمل نہ کریں، لاکھ تقاضے ہوں، تو آپ کا تقویٰ بالکل ٹھیک ہے۔ دیکھیے اس وقت بھی سب کے پیٹ میں کچھ نہ کچھ پاخانہ ہوگا، ابھی ایکسرے کرا لیجیے تو نظر بھی آجائے گا لیکن جب تک گندگی باہر نہ نکلے آپ کا وضو ہے۔ اس طرح دل میں گندے خیالات آئیں، اس میں مشغولی نہ ہو، اس پر عمل نہ ہو بس آپ کا تقویٰ قائم ہے۔ دین کتنا آسان ہے۔

جو آسان کر لو تو ہے عشق آساں
جو دشوار کر لو تو دشواریاں ہیں

دین تو بہت آسان ہے، ہم خود اس کو دشوار کرتے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ جس شخص نے بھی شیطان کے وسوسوں کا جواب دیا پاگل ہوگیا۔ ایک وسوسہ کا جواب دیا، اس نے دوسرا پیش کردیا، اب رات بھر بیٹھے ہوئے وسوسوں کا جواب دے رہے ہیں۔ بتائیے کیا ہوگا! دماغ خراب ہوگا یا نہیں؟ آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کو جواب ہی مت دیجیے، بس یہی کہیے کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے اس کا اختیار وسوسہ ڈالنے تک ہی رکھا، اور بزرگوں کے پاس آئیے جائیے، ان کی صحبتوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ ابلیس کے تمام مکروکید کو ختم کر دیتا ہے کیونکہ اہل اللہ اسم ہادی کے مظہر ہیں، اسم ہادی کی تجلی ان پر ہوتی ہے، ان کے پاس بیٹھنے والوں پر بھی وہ تجلی پڑ جاتی ہے جس سے ان کو ہدایت ہوجاتی ہے۔ اور ابلیس اللہ تعالیٰ کے اسم مضل کا مظہر ہے، گمراہ کرنے کی طاقت کا ظہور اس پر ہوتا ہے، لہٰذا گمراہ لوگوں سے بھاگیے اور اللہ کے خاص بندوں کی صحبت میں رہیے جو بزرگانِ دین کے صحبت یافتہ ہیں، اسم مضل کے مقابلے میں اسم ہادی کے سائے میں آجائیے۔ جس شخص کو دیکھو کہ اس نے بزرگوں کی صحبت نہیں اٹھائی چاہے مطالعہ اس کا بہت وسیع ہو ہرگز اس کی صحبت میں نہ بیٹھیے۔ میں نہایت اخلاص کے ساتھ کہتا ہوں، کسی تعصب سے نہیں، جو اپنے بزرگوں سے سنا ہے وہی سنا دیتا ہوں، عمل پر تو ہم آپ کو مجبور نہیں کرسکتے لیکن جو اپنے بزرگوں سے سنا ہے وہ سنا تو سکتے ہیں، اور ان کا اخلاص و للہیت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ تو ہمارے بزرگوں نے فرمایا کہ جن لوگوں نے بزرگانِ دین کی صحبتیں نہیں اٹھائیں، صحبت یافتہ نہیں ہیں، تربیت یافتہ نہیں ہیں، جو مربّہ نہیں بنے، ان کو اگر اپنا مربّی بناؤ گے تو بس فتنہ میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ اس لیے ہر ایک کی کتابیں بھی نہ پڑھیے۔

حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اپنے بزرگوں سے پوچھو کہ ہم کون سی کتابیں پڑھیں اور کون سی نہ پڑھیں۔ آپ خود دیکھ لیجیے حضرت حکیم الامت کی تعلیمات میں یہ بات موجود ہے۔ ان بزرگوں کی کتابیں دیکھیے جنہوں نے بزرگوں کی صحبتیں اٹھائیں ہیں اور تمام علماء جن کی تائید کرتے ہیں، مثال کے طور پر جیسے مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر لکھی ہے معارف القرآن۔ اس لیے ہمارے بزرگوں نے یہ خاص نصیحت کی ہے کہ جب تک یہ معلوم نہ کرلو کہ یہ شخص کسی شخص کا صحبت یافتہ ہے ہرگز اس کی صحبت میں مت بیٹھو، نہ اس کی تصانیف پڑھو، چاہے وہ بظاہر بیعت بھی کرتا ہو، اس سے پوچھو کہ اس نے بھی کسی سے بیعت کی ہے یا نہیں؟ کسی کو اپنا بابا اور مربّی بنایا کہ نہیں؟ اگر وہ کہہ دے کہ میرا کوئی بابا نہیں، میں خود مادرزاد بابا پیدا ہوا ہوں تو پھر سمجھ لیجیے کہ یہ کیسا شخص ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں لَا تَأخُذُوْہُ بَابَا مَنْ لَّا بَابَا لَہُ، اس کو ہرگز بابا مت بناؤ جس کا کوئی اگلا بابا نہ ہو کیونکہ خاندان سے اس کا رشتہ بالکل کٹا ہوا ہے، جس لوٹے سے پانی پینا چاہتے ہو پہلے جھانک کر دیکھو کہ اس کے اندر کیا ہے؟ کیونکہ لوٹے میں جو کچھ ہوگا وہی ٹونٹی سے آئے گا۔ اگر صاف پانی ہے تو صاف آئے گا اور اگر پانی میں گندگی ملی ہوئی ہے تو ٹونٹی سے بھی وہی گندا پانی آئے گا۔ مسلم شریف میں حضرت ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کا قول منقول ہے، فرماتے ہیں اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَأخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ6 یہ علم دین ہے، پس خوب دیکھ لو، تحقیق کرلو کہ تم کس شخص سے دین حاصل کر رہے ہو۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ جس سے دین سیکھ رہے ہیں اس نے کس سے سیکھا ہے۔ اَلْاِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ7 اسناد کی دین میں خاص اہمیت ہے۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں نے مثنوی حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی اور انہوں نے حضرت حاجی صاحب سے پڑھی، اور الحمدللہ! میں نے شاہ عبد الغنی صاحب سے پڑھی۔ دیکھیے سند دیکھنی پڑتی ہے یا نہیں؟ اس سے اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ان کے استاد فلاں، ان کے استاد فلاں ہیں۔ اور اگر کسی سے نہیں سیکھا، محض ذاتی مطالعہ سے حاصل کیا ہے تو پھر وہ ایسے ہی ترجمہ کرے گا جیسے کسی نے کتاب میں دیکھا کہ نماز ہلکے پڑھو لہٰذا وہ پوری نماز میں ہل رہا تھا حالانکہ لکھا تھا کہ نماز ہلکی پڑھو۔ پہلے زمانے میں ’ی‘ کو لمبا کھینچ کر ’ے‘ لکھ دیتے تھے تو اس نے ہلکی کو پڑھا ہلکے، اب جناب نماز میں ہل رہے ہیں، کسی کو استاد بنایا نہیں تھا کہ پوچھ لیتا۔ کتاب دیکھ کر دین سیکھنے والوں اور دین سکھانے والوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ خود بھی ہلیں گے آپ کو بھی ہلا دیں گے۔

میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے عجیب بات فرمائی کہ ایک شخص کسی سے کچھ کہتا ہے، وہ کان پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کیا کہا؟ اس کے معنیٰ ہیں کہ دوبارہ کہیے میں نے نہیں سنا اور وہی شخص اگر اسی جملے کو کہتا ہے سینہ تان کر آنکھیں نکال کر کیا کہا؟ اب دیکھیے دونوں جملوں کے معنیٰ بدل گئے یا نہیں؟ اگرچہ الفاظ وہی ہیں لیکن جس نے سینہ تان کر کہا، کیا کہا؟ اس کے معنیٰ ہوئے کہ کیا بکواس کرتے ہو، میں تمہاری پٹائی کردوں گا لیکن یہ بات کون بتائے گا؟ وہی لوگ جو وہاں موجود تھے اور جنہوں نے کہنے والے کو دیکھا ہے۔ جن شاگردوں نے استاد کی زندگی کو دیکھا ہے وہی استاد کے کلام کا مفہوم متعین کرسکتے ہیں۔ حدیث ہرگز وہ شخص نہیں سمجھ سکتا جو صحابہ کرامؓ سے مستغنی ہوگا، جو شاگردِ اوّل ہیں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے، جنہوں نے آپﷺ کا لب و لہجہ، آپ کا اندازِ بیان، آپ کی آنکھوں کی سرخیاں، آپ کا چہرہ مبارک دیکھا ہے۔ بتلائیے ان کے بغیر مفہوم متعین ہو سکتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ سوائے عذاب و پریشانی و حیرانی کے اس شخص کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جو بزرگوں سے مستغنی ہوتا ہے، ساری زندگی ناک رگڑ کر تسبیحات پڑھ لو لیکن جب تک کسی شیخ سے تعلق نہیں ہوگا، اس کے مشورہ کے مطابق عمل نہیں ہوگا، کامیابی نہیں ملے گی۔ مگر بھائی شرط یہ ہے کہ شیخ شیخ ہو، متبع سنت و شریعت ہو، گنجیڑی بھنگیڑی، سٹہ باز نہ ہو، آج کل لوگ ایسوں کو بھی شیخ بنا لیتے ہیں جو سمندر کے کنارے لنگوٹی باندھے راکھ ملے ہوئے سٹہ کا نمبر بتا رہے ہیں، روزہ نماز کچھ نہیں کیونکہ نماز تو کعبہ شریف میں پڑھ لیتے ہیں، پھر یہاں کیوں پڑھیں؟ ان سے کہو کہ جب نماز کعبہ میں پڑھتے ہو تو کعبہ ہی میں زم زم پی لو، وہیں کھجور کھا لو، ایسا مبارک کھانا چھوڑ کر یہاں کیوں کھاتے ہو؟ ہم اب کھانا نہیں دیں گے۔ تین دن کے بعد پھر کراچی ہی میں نماز پڑھے گا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 صحیح البخاری: ۲/۸۹۶، باب قولہ تعالی یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ

2 الدر المنثور: ۱۰/۶۷۴، المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۶/۴۹۷

3 foreign country

4 الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی: ۱/۴۷۴

5 سنن ابی داؤد: باب فی رد الوسوسۃ، ذکرہ بروایۃ ابن قدامۃ

6 صحیح مسلم: ۱/۱۱، باب بیان الاسناد من الدین

7 صحیح مسلم: ۱/۱۲، قول عبداللہ ابن مبارک، باب بیان الاسناد من الدین

Previous Post

علاماتِ کبریٰ: آخری سات نشانیاں | تیرھواں درس

Next Post

بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

Related Posts

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

14 اگست 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | ساتویں قسط

14 جولائی 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط

9 جون 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | پانچویں قسط

25 مئی 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چوتھی قسط

31 مارچ 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | تیسری قسط

14 مارچ 2025
Next Post
بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version