نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home یومِ تفریق

القاعدہ نے گیارہ ستمبر کے حملے کیوں کیے؟

شیخ ابو بصیر ناصر الوحیشی by شیخ ابو بصیر ناصر الوحیشی
28 ستمبر 2023
in یومِ تفریق, ستمبر 2023
0

شیخ ابو بصیر شیخ اسامہ بن لادن کے رازدان اور قریبی ساتھی تھے اور ۲۰۱۵ء میں تا دمِ شہادت شیخ ایمن الظواہری کی امارت میں پوری دنیا میں تنظیم القاعدہ کے نائب امیر رہے۔ زیرِ نظر مضمون دراصل شیخ ابو بصیر کی ایک گفتگو ہے جو انہوں نے ساتھی مجاہدین کی ایک مجلس میں کی۔ اس گفتگو میں شیخ ابو بصیر گیارہ ستمبر کی کارروائیوں کے حملہ آورو شہیدی مجاہدوں،اس کارروائی کی تنفیذ کرانے والوں، القاعدہ سے منسلک مجاہدین کی عمومی سوچ و فکر اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے مجاہدین خاص کر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد کا ذکر کیا ہے۔چونکہ یہ گفتگو مجاہد ساتھیوں کی محفل میں گپ شپ کے انداز میں کی گئی ہے اس لیے اس مضمون میں بعض مقامات پر شاید باہمی ربط پیدا کرنا مشکل ہو ، بہر کیف بہت سے قیمتی تجربات اورنادر واقعات اس میں بیان ہوئے ہیں۔ (ادارہ)


ہمارے مذہبی دینی معاشروں میں برپا جہادی تحریکیں جاہلیت کا اور اس جاہلیت کے حاملین کا سامنا کر رہی تھیں،ان کا یہ ٹکراؤاور معرکہ نہایت شدت اختیار کرتا جا رہا تھا کیونکہ جہادی تحریکیں مسلمان عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب نہ ہو پا رہی تھیں کہ دراصل اُن کے اہداف کیا ہیں اور اُن کےجہادی تحریک کو کھڑا کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟جس کی وجہ سے ان کا منشور اور مقصد مسلمان عوام کی سمجھ سے بالاتر بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جہادی تحریکوں کے مقاصد اُن کے لیے ناقابلِ فہم تھے۔

اس مرحلے پر اسلامی دنیا میں بہت سی جہادی تحریکیں موجود تھیں جو کہ امتِ مسلمہ کے مختلف علاقوں میں جہاد فی سبیل اللہ کی عبادت سر انجام دے رہی تھیں،وہ نہایت ہی اخلاص،شدت اور جذبے کے ساتھ مقامی طواغیت کے خلاف بر سرِ پیکار تھیں،جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کبھی مجاہدین کا پلڑا بھاری ہو جاتا اور کبھی نظام وطواغیت ان پر حاوی ہو جاتے۔مجاہدین نہایت ہی شدید حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔طواغیت اور نظام اکثر و بیشتر جہادی تحریکوں کو مختلف وسائل و طریقہ کارکے ذریعے سے گھیرنے میں کامیاب ہو جاتے جو ہماری اس گفتگو کا موضوع نہیں ہے،کہ کیسے انہوں نے اسلحہ حاصل کیا؟انہوں نے امت مسلمہ کے دفاع میں لڑنے والوں کے گرد اپنا گھیراکیسے تنگ کیا؟کس طرح وہ عامۃ الناس کے اذہان کو اپنے قابو میں کر پائے؟انہوں نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے معصوم لوگوں کے ذہنوں کو کیسے اپنے حق میں موڑ لیا؟لیکن مختصر عرض یہ ہے کہ مجاہدین اور جہادی تحریکوں کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا تھا،چنانچہ انہیں افغانستان کی صورت میں ایک بہترین ٹھکانہ میسر آیاجہاں اکٹھے ہونے کے بعد بھی دشمن کی جانب سے ان کا پیچھا نہ چھوڑا گیا بلکہ تمام عالمی و مقامی طواغیت اس کے درپے ہو گئے۔

ہماری جہادی قیادت نے اس صورتحال کا نہایت ہی درست انداز میں تجزیہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیا اسباب ہیں جن کی بابت جہادی تحریک کو اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس مشکل سے نکلنے کا کیا حل ہے؟اس موضوع پر گفت و شنید کے لیے کابل و قندھار میں مشائخ کی آپس میں بہت سی مجالس منعقد ہوئیں۔

شیخ ا سامہ کی سوچ یہ تھی کہ جہادی تحریک کو ایک ایسے دشمن کا سامنا کرنا چاہیے جس کا کفر واضح ہو بجائے اس کے کہ اس دشمن کا کفر شدید ہو۔لہٰذا اگر مرتدین اور مقامی طواغیت شدید اور گندے کافر ہیں تو عالمی صلیبی صہیونی اتحاد کا کفر نہایت واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہے۔یعنی آپ کے ساتھ دو افراد بھی یہود ونصاریٰ کے خلاف قتال کرنے پر اختلاف نہیں کریں گے لیکن اگر آپ مقامی طواغیت اور مرتد حکمرانوں کے خلاف اپنے ملک میں قتال شروع کر دیں گے تو آپ کے اپنے لوگ ہی آپ کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ دینی اور جہادی جماعتیں بھی اس ہدف پر آپ کے ساتھ متفق نہیں ہو پاتیں،جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان جہادی و دینی جماعتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں مثلاً وہ آپ سے کہیں گے کہ ہم مقامی حکمرانوں کے خلاف فی الحال قتال شروع نہیں کر سکتے ، وغیرہ وغیرہ……

ایسے افکار کے حاملین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ……حق کو واضح کرنے کے بعد ہی آپ کو مقامی طواغیت کے خلاف قتال شروع کرنا چاہیے کیونکہ بعد میں قتال کے زور و شور میں حق کو واضح کرنے کا موقع نہیں ملتا۔مثال کے طور پر آپ نے سعودی شاہی خاندان کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا تو سب سے پہلے آپ کے خلاف کون کھڑا ہو گا؟بہت سی دینی تحریکیں!کیوں ؟کیونکہ وہ اس معاملہ میں آپ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ،وہ کہیں گی کہ ہمارے پاس استطاعت نہیں ہے،ہمارے لیے فی الحال ممکن نہیں ہے،تمہاری وجہ سے ہم بھی مشاکل و مسائل کا شکار ہو جائیں گے،تم ہمیں بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کرواؤ گے۔ان کے ساتھ مقابلہ اور لڑائی میں جلدی نہ کرو،وقت کا انتظار کرو،یہ وقت نہیں ہے،یعنی اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں اور اس قسم کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔

اسی لیےشیخ اسامہ کا کہنا تھا کہ ’’ہم اپنے دشمنوں میں سے واضح دشمن کی جانب رخ کریں گے جو کہ امریکہ ہے۔اس پر تمام لوگ متفق بھی ہیں کہ یہ ہمارا دشمن ہے،اسلام کا دشمن ہے۔لہٰذا ہم لوگوں کو فتنے میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی ہم انہیں کسی شش و پنج میں رکھنا چاہتے ہیں۔یہ اس لیے کیونکہ آپ کے ساتھ ہر مسلمان امریکہ کے کفر اور اس کے خلاف قتال کے لیے موافق ہے۔لہٰذا یہ تو فائدہ ہمیں ضرور مل جائے گا کہ اسلامی تحریکیں خود بخود اس واضح کفر کے خلاف آپ کی ہم نوا ہو جائیں گی‘‘۔

چنانچہ ایسے افکار و خیالات کے گرد افغانستان میں موجود جہادی تحریک کے مابین بہت سے مذاکرے اور بحث مباحثے ہوئے۔لہٰذا وہاں موجود اکثر و بیشتر جماعتیں اس منہج کے حوالے سے مکمل طور پر متفق اور قائل تھیں۔وہ اس امر پر شیخ اسامہ کے ساتھ متفق تھے کہ ہم یہودیوں اور صلیبیوں کے خلاف ایک اسلامی جہادی محاذ قائم کریں گے۔بعض جماعتوں نے اس سے اختلاف بھی کیا مثلاً لیبیا کی ایک جہادی جماعت نےیا مصر کی جماعت الاسلامیہ نے پہلے موافقت ظاہر کی لیکن بعد میں اس نے اپنے موقف بلکہ نفسِ جہاد ہی سے رجوع کر لیا،اسی طرح مراکش کی ایک جہادی تنظیم نے بھی اس موضوع سے اختلاف کیا لیکن اکثر جہادی جماعتیں اور افراد شیخ اسامہ کے ہم نوا تھے کہ یہودیوں ا ور امریکیوں کے خلاف قتال ہونا چاہیے۔

یہ اتفاق اور موافقت ۱۹۹۸ء میں ہوئی چنانچہ شیخ نے ۱۹۹۸ء ہی میں خوست کے مقام پر ایک پریس کانفرنس بلوا کر ’’عالمی محاذ برائے قتالِ یہود و امریکہ ‘‘ کا اعلان فرمایا۔

یہ وہ وقت تھا جب افریقہ میں بالعموم امریکہ کو ضرب لگانے کی تیاری اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔اس لیے شیخ کی یہ بھرپور کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ اجتماعات اور مجالس کا انعقاد کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اس منہج اور سوچ و فکر پر اکٹھا کیا جا سکے ،ان سے بحث مباحثے کا باب کھولا جائے اور ایک نتیجے و موقف پر اکٹھا ہوا جائے،اس سے قبل کہ حالات تنگ ہو جائیں اور امریکہ کی جانب سے مزید دباؤ میں اضافہ ہو ۔ یوں ایک ماہ کے عرصہ ہی میں کینیا اور تنزانیہ کے امریکی سفارت خانوں پر کارروائیاں ہوگئیں ۔ان کارروائیوں کے بعد بعض جہادی جماعتوں نے شیخ سے اختلاف کیا کہ ہم امریکہ کو مارنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور اس طرح تو آپ تمام افغانستان اور جہادی نظام کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں گے۔لیکن شیخ نے نہایت نرمی سے ان کے ساتھ بحث کی اور انہیں سمجھایا کہ ’کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم پہلے ایک ایجنٹ کے پیچھے پڑیں ،پھر اسے ختم کر کے دوسرے کے پیچھے جائیں ،پھر تیسرے اور پھر آخر میں ایجنٹوں کے باپ امریکہ کو ہدف بنائیں؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ایک ہی بار ایجنٹوں کے باپ اور سرغنہ کے خلاف محاذ کھولیں اور اسے آنِ واحد میں متحد ہو کر نشانہ بنائیں تاکہ اس کا زبردست طریقے سے اختتام ہو سکے‘۔

ان کارروائیوں کے بعد صلیبیوں کے خلاف کارروئیوں کی منصوبہ بندی میں تیزی آ گئی،اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اس منہج اور سوچ کےساتھ موافق ہو تے ہوئے مختلف جماعتوں سے شیخ اسامہ کے پاس آ کر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔اس عرصہ میں امریکہ کو زمین سے نشانہ بنایا جا چکا تھا،سمندر میں ا س پر حملے کی کوششیں بھی زیر غور تھیں مگر فضا سے حملہ کرنا کسی کے ذہن میں نہ تھا اور نہ ہی جہازوں کو استعمال کرنے کی سوچ وفکر موجود تھی۔

ایک صاحب تھے جن کا نام محمد البطوطی تھا،یہ صاحب مصر سے تعلق رکھتے تھے اور البطوطی پائلٹ کے نام سے معروف تھے۔اللہ ہی بہتر جانتے ہیں کہ یہ پائلٹ کون تھے مگر انہوں نے ایک جہاز جس میں مصری و اسرائیلی افسران سوار تھے ، تو انہوں نے ان سمیت اپنے جہاز کو سمندر میں ڈبو ڈالا اور سب کے سب افسران جہنم واصل ہو گئے۔جب یہ واقعہ پیش آیا تو شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جہاز کو کسی عمارت میں لے جا کر کیوں نہیں مارا۔چنانچہ اس کے بعد سےیہ سوچ و فکر پنپنا شروع ہوئی اور اس سوچ کو دوام ملنا شروع ہواکہ جہاز اُن عمارتوں کے ساتھ ٹکرائے جائیں جو ہمارا ہدف ہیں ۔غرض یہ بنیادی سوچ و فکر تھی۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔جب روس افغانستان میں لڑ رہا تھا اور اسے مجاہدین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی یہاں تک کہ وہ خوار اور تباہ وبرباد ہو کر افغانستان سے نکلا…وہ زوال پذیر ہوا۔ اس عرصہ میں بھی مجاہدین کے مابین یہ سوچ و فکر عام موجود تھی کہ امریکیوں کو بھی نشانہ بنایا جائے۔شیخ عبداللہ عزام رحمہ اللہ مجاہدین کے مابین اس جدید فکر کو عام کرتے ،اور آپ کے آخری خطبوں میں سے کسی ایک خطبہ میں یہ بات ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اگر اللہ مجھے زندہ رکھیں تو میں ا ٓپ لوگوں کو بم بنا کر امریکیوں پر برساؤں گا ‘‘۔غرض شیخ عبداللہ عزام مغرب اور اس کی افواج کے خلاف شدید رائے رکھتے تھے۔

خالد شیخ محمد فک اللہ اسرہ، مجاہدین کے بڑے بزرگوں اور رہنماؤں میں سےتھے اور اس دور میں اللہ تعالیٰ کے اولیاء میں سے تھے،جن کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے امریکیوں کو کاری ضرب پہنچانے کا عظیم کام لیا۔اسی طرح رمزی فک اللہ اسرہ،یعنی رمزی یوسف جو کہ خالد شیخ محمد کے بھانجے تھے۔یہ عظیم بطل اور اللہ کے اولیاء میں سے ایک ولی جنہیں جیل کی آزمائش سے گزرنا پڑا اور وہ اس عظیم فتح اور کامیابی یعنی گیارہ ستمبر کے حملوں کی خوشی کا ذائقہ نہ چکھ سکے……اللہ انہیں رہائی دیں، آمین۔

اسی طرح ’ازمرے ‘جن کے بارے میں شیخ اسامہ رحمہ اللہ کا کہنا تھا کہ: ’’ میں اس سے بڑھ کر کسی کو شجاع نہیں پاتا،اس شخص کے تو دل میں خوف نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں ہے‘‘۔

یہ حضرات اپنی ایک کارروائی کی کوشش میں مگن تھے جس میں ان کاہدف امریکی صدر بل کلنٹن کی متوقع طور پر عیسائی پوپ کی فلپائن کے دورے کے موقع پر ملاقات کے دوران حملہ تھا……اس مقصد کے لیے بارود کی تیاری اور بارودی سرنگیں بنانےمیں مشغول تھے۔ ’ازمرے‘ مائن بنا رہے تھے کہ اچانک کچھ خرابی پیش آئی اور بہت کثیف دھواں نکلنا شروع ہو گیا اور دھواں اس اپارٹمنٹ سے باہر آنے لگا جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔ساتھیوں نے صورتحال پر قابو پانےکی کوشش کی مگر کامیابی نہ ملی تو وہ فرار ہو گئے۔جب فائر بریگیڈ وہاں پہنچا تو اس کا گمان تھا کہ اندر کوئی جلا ہوا شخص ہو گا لیکن اندر جب کسی کو نہ پایا تو انہیں اصل منصوبہ کی خبر ہو گئی۔لیکن تمام ساتھی فرار ہو چکے تھے۔ازمرے ایک قبرستان میں جا کر بیٹھ گئے جبکہ رمزی و خالد شیخ بھی فرار ہو گئے۔

اس کے بعد ازمرے فلپائن سے نکلنے کی کوشش میں تھے تو ائیر پورٹ کے باہر شک کی بنیاد پر حکام نے انہیں گرفتار کر لیا اور انہیں جیل میں بند کر دیا ۔اس بھائی کوا للہ نے بہت ذہانت سے نواز اتھا،وہ بہت ذہین اور شجاع تھے۔انہوں نے ہر چیز کی تربیت حاصل کر رکھی تھی یہاں تک کہ مجاہدین کے پاس آنے سے قبل وہ ایک جزیرہ پر گئے تاکہ حیوانات اور مگر مچھوں کے ساتھ جنگ کرنے کا فن سیکھ سکیں۔انہیں جہاز سے پھینکاجاتا تھا عین جنگل کے مابین جہاں وہ ان وحشی جانوروں سے لڑائی کرتے تھے۔انہیں جسمانی تربیت بہت مرغوب تھی اور اس کا جنون تھا،اسی طرح وہ نہایت مہم پسند (Adventurous) اور چیلنج قبول کرنے والے تھے۔ازمرے جیل میں اس قابل ہوئے کہ وہ جیلر پر قابو پا لیں چنانچہ انہوں نے اس پر قابو پایا اور اسلحہ لے کر جیل سے فرار ہو گئے۔پھر پشاور میں اپنے ساتھیوں سے رابطہ کیا کہ میں فلاں جگہ پھنسا ہوا ہوں مجھے پاسپورٹ ایک مقام پر بھیجو اور جب تم پہنچو گے تو میں تم سے دوبارہ رابطہ کروں گا اور اپنی خاص جگہ تمہیں بتاؤں گا۔ہمارے ساتھی ان کے پیچھے پاسپورٹ کے ہمراہ فلپائن پہنچے اور اللہ کے حکم سے وہ ازمرےسے ملے اور دوسری مرتبہ وہ ائیرپورٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور سفر کر کے ساتھیوں کے پاس آپہنچے،الحمد للہ۔

رمزی یوسف نے ایک مرتبہ فلپائن میں ایک غیر ملکی جہاز میں مائن رکھی، وہ مائن پھٹی مگر جہاز تباہ نہ ہو سکاکیونکہ جس سیٹ کے نیچے انہوں نےمائن رکھی تھی وہاں ایک بجلی کا پوائنٹ تھا،جب مائن پھٹی تو وہ مقام تو تباہ ہوا مگر اس نے پورے جہاز کو نقصان نہ پہنچایا۔یہ مائن رمزی نے خود رکھی تھی اور وہ یہ مائن رکھ کر خود اس قابل ہو سکے کہ راستے میں ایک ائیر پورٹ پر جب جہاز رکا تو وہ خود اتر گئے اور پیچھے مائن پھٹی،جس میں ٹائمر نصب تھا۔

خالد شیخ محمد فک اللہ اسرہ کویت میں رہتے تھے اور وہ اخوان المسلمین کے ساتھ تھے۔انہوں نے نوجوانی میں ایک مرتبہ ایک تھیٹر ڈرامہ کیاجس میں انہوں نے ایک ایسےنوجوان کا کردار ادا کیا جو اکثر یہ پوچھتا تھا کہ امریکی جہاز کیسے گرایا جاتا ہے۔وہ اس وقت ایک کم عمر نوجوان تھے۔یہ ڈرامہ موجود ہے میں نے اسے نیٹ پر تلاش کروانے کی کوشش کی مگر مجھے نہیں مل سکا،ایک بھائی کے ذمہ میں نے لگایا ہے کہ اگر وہ ڈرامہ مل سکے ،شاید اس کا نام معلوم نہیں اگر نام معلوم ہو جائے تو شاید مل سکے، واللہ اعلم ۔الغرض خالد شیخ ہی تھے جنہوں نے اس ڈرامہ کوتحریر کیاتھا،یعنی وہ چھوٹی عمر ہی سے اس بارے میں سوچ بچار کرتے تھے، اللہ انہیں رہائی دیں۔بعد میں انہوں نے ایک مرتبہ ۱۲ امریکی جہازوں کو ایک ساتھ ہی فضا میں تباہ کرنے کے منصوبہ کے بارے میں منصوبہ بندی شروع کی۔آپ کا مجموعہ مغربی ممالک میں کام کرنے والا ابتدائی مجموعہ تھا۔

شیخ اسامہ کی خالد شیخ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے خالد کے سامنے اپنی عمارتوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ پیش کیا جبکہ خالد نے اپنا منصوبہ یعنی ہوا میں تباہ کرنے کا پیش کیا،چنانچہ یہ دونوں افکار اور منصوبہ اکٹھے ہوئے اور منصوبہ اور بہتر ہوا۔چنانچہ اب ایسے ساتھیوں پرغور شروع ہوا جن کے پاس بیرونی پاسپورٹ تھے یا جو امریکہ کا سفر کر سکتے تھے۔ان میں ایک ساتھی شیخ عبد الرحمان تھے۔ ابتدائی افراد میں ایک بھائی ربیعہ جن کا نام نواف حازمی رحمہ اللہ تھا اور خالد المحضار بھی شامل تھے جنہیں امریکہ بھجوایا گیا تاکہ وہ جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کریں۔انہیں اس مقصد کے لیے شیخ اسامہ نے بھجوایا تھا جبکہ وہ اپنے اصل اہداف سے بالکل بے خبر تھے۔یہ جب اپنی تربیت مکمل کر کے آئے تو ان کے ہمراہ بھائی مروان الشحی بھی تھے جو کہ متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھتے تھے اور پائلٹ تھے۔یہ قندھار آئے اور جرمنی میں موجود اپنےساتھیوں کے بارے میں بتایا اور اجازت طلب کی کہ میں جرمنی جاؤں ۔لیکن شیخ نے انہیں کہا کہ وہ ان کے ہمراہ دو ہفتے رہیں۔اسی دوران محمد عطاء،زیاد الجراح اور رمزی بن الشیبہ تین ساتھی بھی آگئے ۔غرض یہ چار ساتھی تھےبشمول مروان الشحی کے۔اب شیخ ا سامہ نے مروان الشحی سے کہا کہ وہ جائیں اور جرمنی میں اپنے ساتھیوں سے رابطہ بحال کریں۔

شیخ اسامہ ؒ ان نوجوانوں سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے۔اور انہوں نے ان بھائیوں کا بہت عرق ریزی سے چناؤ کیا تھا۔شیخ ان پر بہت قریبی نظر رکھتے اور ہر ساتھی کی ذاتی طور پر سرپرستی ورہنمائی فرماتے اور اگر وہ دور ہوتے تو اکثر ان ساتھیوں کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔بالخصوص وہ مجموعہ جس کے خالد امیر تھے اور جس میں معتز ،عکرمہ ،جہاد، جلبیب اور مہند الشھری شامل تھے جبکہ دوسرا مجموعہ جو ہمارے ساتھ موجود تھا یعنی وائل،ولید، ابو ہاشم اور احنف۔ ان دونوں مجموعوں کے بارے میں شیخ بہت زیادہ فکر مند رہتے اور ان کے لیے زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔

جہاں تک بھائی محمدعطاء ،طارق اور رمزی کا تعلق ہے تو انہیں شیخ نے امر کیا کہ وہ امریکہ چلے جائیں۔یہ بات محمد عطاء کے نفس پر بہت بھاری گزری کیونکہ وہ امریکہ اور مغرب کی طرزِ زندگی سے بیزار تھے اور انہیں دوبارہ جانا قطعاً ناپسند تھا۔

رمزی اور طارق امریکہ چلے گئے مگر جب محمد عطاءکی باری آئی اور انہیں کہا گیا کہ اللہ پر توکل کریں اور نکلیں ۔ہم نے انہیں رخصت کیا تو وہ رونا شروع ہو گئے،بہت شدید روئے اور کہنے لگے کہ میں جانا نہیں چاہتا، میں ا سی مبارک سر زمین پر رہنا چاہتا ہوں۔لیکن شیخ نے انہیں تسلی دی کہ ’’اے محمد! آپ کا وہاں کام زیادہ افضل ہے‘‘۔

محمد عطاء ایک صالح نوجوان تھے جو مغرب سے شدید نفرت رکھتے تھے، اس کے طرز حیات سے نفرت کرتے تھے۔انہوں نے ہمیں بتایا کہ مغرب کے لوگ خنزیرکھاتے ہیں اور دیگر ایسے حرام کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں، نعوذ باللہ۔

انہوں نے ہمیں سلام کیا اور پاکستان چلے گئے۔پاکستان میں ایک ٹیکسی کے ذریعے سے منتقلی کے دوران ان کا پاسپورٹ گم ہو گیاکیونکہ انہیں لے جانے والے خالد شیخ گاڑی میں ایک لفافہ بھول گئے جس میں ان کا پاسپورٹ تھا۔جب وہ اترے تو محمد عطاء سے خالد شیخ نے کہاکہ میرا لفافہ گاڑی میں رہ گیا ہے اور اسی میں تمہارا پاسپورٹ تھا تو محمد نے خوشی سے کہا اللہ اکبر! خالد شیخ نے دیکھا تو حیران ہو کر کہا کیا تم دیوانے ہو؟محمد نے کہا اب تو میں واپس افغانستان جاؤں گا۔

خالد شیخ نے مختلف اخباروں میں گمشدہ پاسپورٹ کا اشتہار دیا اور انعام کا اعلان بھی کیا۔الحمدللہ پاسپورٹ مل گیا اور محمد عطاء امریکہ روانہ ہو گئے۔

حملہ آوروں میں سے بعض بھائی بلادِ حرمین جاتے ،جہاں سے امریکی ویزہ حاصل کر کے وہ امریکہ روانہ ہو تے اور اسی رستہ سے واپسی بھی کرتے۔اسی عرصہ میں میڈیا پر طالبان کے بارے میں گفتگوبڑھ گئی اور ان پر آہستہ آہستہ شیخ اسامہ سے متعلق دباؤ بڑھایا جانے لگا اور کہا گیا کہ طالبان عالمی نظام حکومت سے خارج ہو کر کام کررہے ہیں۔اسی عرصہ میں شیخ اسامہ ذرائع ابلاغ کے ساتھ بھی رابطہ میں رہا کرتے تھے۔

انہی دنوں ساتھیوں کے مابین یہ گفتگو جاری رہتی تھی کہ کیا طالبان امریکہ کے خلاف کارروائی کرنے کے بعد دباؤ برداشت کر پائیں گے یا نہیں۔اور کیا امریکہ کے جوابی حملہ کو سہہ سکیں گے؟ مجھے یاد ہے میں نے شیخ اسامہ سے سوال کیا تھا کہ افغانستان میں جنگ کتنے سال جاری رہے گی،دو سال،تین یا کتنا عرصہ؟تو شیخ کا جواب تھا کہ نہیں ! شاید یہ جنگ دہائی یا دو دہائیوں تک جاری رہے کیونکہ استعماری ریاستوں کی زندگی یا مدت سالوں میں شمار نہیں کی جا سکتی،یہ تو دہائیوں پر مبنی سلسلہ ہے۔لیکن کم سے کم ہمارے لیے یہ امر اہم ہے کہ ہم ۱۵ سال تک امریکہ کے خلاف جنگ جاری رکھنےکی کوشش کریں اور اگر اس میں ہم کامیاب رہے تو یہ ریاست اور استعمار اپنے ہی بوجھ تلے سکڑتے سکڑتے ختم ہونا شروع ہو جائے گی۔شیخ جانتے تھے کہ امریکہ کارروائی کی صورت میں ضرور بالضرور جواب دے گا اور ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کرے گا۔ لیکن اسی کے بعد ہی یہ استبدادی ریاست اقتصادی و عسکری طور پر سکڑنا شروع ہو گی۔

ہمارا ذرائع ابلاغ کا شعبہ اسی عرصہ میں ’’واقع الامۃ‘‘ یعنی ’’امت کے حالات‘‘ نامی فلم پر کام کر رہا تھا،اس فلم کی تیاری کے لیے شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے اور اس فلم کے چھوٹے چھوٹے معاملات پر بھی شیخ کی نظر تھی۔

طالبان کے حوالے سے بات کرتے ہیں ،ہم نے طالبان کے ساتھ امریکہ کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے کیسے بات کی، مجھے یاد ہے کہ طالبان کا وفد جس میں محمد حسن1،معتصم آغا،عبدالحلیم، سعید آغا اور دیگر افراد شیخ اسامہ اور ان کے ساتھیوں سے قندھار ائیرپورٹ کے قریب ایک مقام پر ملنے آئے تو شیخ اسامہ نے ان کا استقبال کیا اوران کا اکرام کیا۔ مجھے اس مجلس کے شرکاء میں سے جو افراد یاد ہیں ان میں شیخ ابو الخیر رحمہ اللہ،شیخ ابو حفص رحمہ اللہ،شیخ ایمن الظواہری ،شیخ مصطفیٰ ابو الیزید،شیخ عبدالرحمان مہیمن وغیرہ شامل تھے۔شیخ اسامہ نے ان سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’اے افغان قوم کے حضرات! تاریخ یقیناً آپ لوگوں کے بارے میں لکھے گی۔ پہلی بات یہ کہ آپ نے عربوں کی امریکیوں سے حفاظت کی، یہ تو آپ کے ہی شایان ِ شان ہے، جبکہ دوسری بات یہ کہ کیا آپ عربوں سے امریکیوں کو بچا ئیں گے؟ یہ بات آپ پر قرض ہو گی‘‘۔ شیخ اسامہ کی یہ بات سن کر ملا حسن جو کہ حکومتی وزیر تھے نے فوراً جواب میں کہا کہ’’نہیں نہیں اے شیخ ! ایسا بالکل نہیں، ہم بالکل آپ لوگوں کے ساتھ ہیں‘‘۔

اس گفتگو کے بعد شیخ اسامہ نے ہمیں امر کیا کہ ایک فائل تیار کریں جس میں فلسطین کی تصاویر ہوں، یہود کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی تصاویر ہوں، خواتین پر تشدد کی تصاویر ہوں۔ یہ فائل تیار ہوئی تو شیخ نے یہ فائل محمد آغا کے ذریعے سے بھجوائی کہ یہ فائل امیر المومنین کو دکھائیں اس میں چند تصاویر ہیں۔ محمد آغا نے کہا کہ ’’یہ تو بالکل ناممکن ہے کہ امیر المومنین تصاویر دیکھیں وہ تصویریں نہیں دیکھتے‘‘۔ شیخ اسامہ نے ان سے کہا کہ’’نہیں! یہ نہایت ضروری ہے اور لازمی ہے کہ وہ یہ تصاویر دیکھیں، بسا اوقات ڈاکٹر بھی پوشیدہ مقامات کے علاج کی خاطر انہیں دیکھ سکتا ہے، امیر المومنین ہمارے اور پوری امت کے طبیب ہیں آپ انہیں یہ فائل ضرور دکھائیں‘‘۔

محمد آغا امیر المؤمنین ملا عمر کے پاس گئےا ور انہیں کہا کہ میرے پاس ایک فائل ہے جو عرب مجاہدین نے دی ہے اور وہ آپ کو دکھانا چاہتے ہیں اور وہ فائل انہیں دی، امیر المومنین نے جب وہ تصاویر دیکھیں تو نہایت شدید غضب ناک ہوئے اور فوراً فائل بند کی اور محمد آغا سے کہا کہ شیخ اسامہ کو فوراً بلواؤ، مجھے ان سے ضروری کام ہے۔

شیخ اسامہ یہ پیغام ملتے ہی فوراً امیر المومنین کے پاس حاضر ہوئے۔ ہمارے ہمراہ زبیر الحائلی فک اللہ اسرہ بھی تھے۔ہم دو یا تین گاڑیوں میں سوار ہو کر امیر المومنین کے گھر پہنچے۔ان کے گھر پر شیخ محمد مجید محمدی رحمہ اللہ موجود تھے جو کہ طالبان کے بڑے عالم تھے اور روس کے خلاف قتال میں شریک رہے تھے۔وہ امیر المومنین کے گھر کے باہر کھڑے تھے۔شیخ اسامہ نے امیر المومنین کے گھر پہنچتے ہی جب انہیں دیکھا تو فوراً گاڑی سے اترے اور انہیں سلام کیا اور کہا’’شیخ محمد! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’میں آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں ہمارے اور آپ کے مابین تو ایک ایسی تاریخ ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا‘‘۔شیخ اسامہ نے ان کی صحت کے بارے میں حال احوال دریافت کیاتو انہوں نے کہا کہ ’’الحمد للہ… اب عمر زیادہ ہو چکی ہے اور ضعیف ہو گیا ہوں‘‘۔

یہ گفتگو جاری تھی کہ اچانک امیر المومنین گھر سے باہر ننگے پاؤں ہی تشریف لے آئے،میرے ساتھ زبیر تھے جو انہیں نہیں جانتے تھے۔میں نے جب اسے بتایا کہ یہ امیر المومنین ہیں تو زبیر اس سادگی پر اتنا متعجب ہوا کہ شاید اس نے میری بات پر یقین ہی نہ کیا ہو۔

امیر المومنین شیخ اسامہ کے پاس آئے ،انہیں سلام کیا اور فوراً انہیں لے کر مسجد چلے گئے جہاں ان کی نشست ہوئی۔ان کے ہمراہ جو افراد مجھے یاد ہیں شیخ ابو الخیر،شیخ ایمن الظواہری اور شیخ ابو حفص بھی اس مجلس میں شریک تھے۔ملا عمر نے ان سے کہا کہ’’اے شیخ اسامہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کسی بھی علاقے میں کسی بھی مقام پر یہودیوں کے خلاف کارروائی کریں اور انہیں سبق سکھائیں۔شیخ اسامہ نے یہ بات سنتے ہی کہا کہ’’اے امیر المومنین ہم سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں،ان شاء اللہ سورج غروب نہیں ہو گا اور ہم یہودیوں کے خلاف کارروائی کی منصوبہ بندی شروع کر چکے ہوں گے‘‘۔

جب اس گفتگو کے بعد شیخ اسامہ نکلے تو نہایت ہی پر سکون اور مطمئن تھے اور ان کے چہرے پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔میں یہ دیکھ کر بہت متعجب ہوا کیونکہ مجھے ان کی ملا عمر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا اندازہ نہیں تھا۔

پھر شیخ اسامہ بن لادن نے ہمیں بتایا کہ :امیر المومنین نے کارروائی کی اجازت دے دی ہے۔چنانچہ اگلے ہی دن سے اس کام پر پیش رفت شروع ہو گئی اور کارروائیوں کی منصوبہ بندی شرو ع ہوئی،ان میں سے بعض کارروائیاں کامیاب ہو سکیں جبکہ بعض مکمل نہ ہو سکیں۔

انہی دنوں سعودی عرب سے ترکی بن فیصل اور عبد المحسن الترکی افغانستان آئے،ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ طالبان سے گفت و شنید کر کے شیخ اسامہ کوافغانستان سے نکال کر واپس اپنے ملک لے جا سکیں ۔انہوں نے طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کی،اس مقصد کے لیے انہوں نے ملا وکیل احمد متوکل کو خطوط لکھے اور اانہیں یہ پیغام بھیجے کہ اسامہ ہمارے حوالے کر دیں ورنہ وہ آپ لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دےگا،وہ اس بارے میں کبھی نرمی سے اور کبھی سختی سے دباؤ مختلف اطراف سے بڑھانے کی کوشش کرتے۔

گیارہ ستمبر کی کارروائیوں کے حملہ آور بھائیوں کی بعض خصوصی صفات تھیں،وہ دیگر نوجوانوں سے بہت ممتاز تھے،وہ ساتھیوں کو ہمیشہ خوش رکھتے تھے اور خود بھی خوش رہتے تھے(جو کہ مومنین کی صفات میں سے ہے)۔ان بھائیوں کے ساتھ بات کرنے میں آپ کو کسی قسم کی مشکل یا رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔آپ اگر ان بھائیوں میں سے کسی کے بھی ساتھ بیٹھتے تو ایسا محسوس کرتے جیسا کہ آپ انہیں سالوں سے جانتے ہیں،ان کا ایثار ان کی نمایاں صفت تھی۔وہ مستقل پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے اور ان کے لیے معتز بھائی رحمہ اللہ اپنے ذاتی اموال سے مختلف اشیاء خرید کر لاتے تھے، یہ ان کا معمول تھا۔

المختصربات یہ ہے کہ وہ بھائی فطرت پر تھے،ان کے دل اللہ کی قسم صفائی اور پاکیزگی میں ایسے تھے جیسے بچوں کے دل ہوتے ہیں،اللہ ان تمام پر رحمتیں نازل فرمائیں اور انہیں اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں بے شک اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک عظیم کام کے لیے چنا تھا۔

ان بھائیوں میں ایک بھائی ہانی حنجور تھے،وہ عسکری پائلٹ تھے اور سعودی عرب سے ۱۹۹۶ء میں فارغ التحصیل ہوئے تھے۔

حملہ آور ساتھیوں کا ایک مجموعہ امریکہ پہنچ گیا اور اس نے وہاں اپنی تیاریاں مکمل کرنا شروع کر دیں، یہ حملوں سے کم وبیش ایک سال قبل کی بات ہے،امریکہ ا س دوران افغانستان پر پر حملہ کرنےکی منصوبہ بندی کر رہا تھا،وہ شیخ ا سامہ کو پناہ دینے کے جرم میں طالبان کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔وہ اپنی تیاری مکمل کر چکا تھا،اس مقصد کے لیے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں امریکہ کے وزیر خزانہ،وزیر انصاف اور وزیر دفاع نے روس کے وفد کے ساتھ ملاقات کی اور روس کے ساتھ یہ طے کیاکہ روس زمینی طورپر افغانستان میں افواج داخل کرے گا اور امریکہ فضا سے بمباری کرے گا۔طالبان کے ایک رکن عبد الحیٔ مطمئن کو یہ امریکہ کی جانب سے واضح پیغام ملا بلکہ یک نکاتی پیغام ملا کہ ’’اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کر دو ورنہ ہم افغانستان پر حملہ کر دیں گے!‘‘۔

ایسی خبروں اور امریکی تیاریوں کی وجہ سے شیخ اسامہ کی خواہش تھی کہ نیو یارک اور واشنگٹن کے حملے تھوڑے مؤخر کر دیے جائیں اور افغانستان پر حملہ کی صورت میں یہ کارروائیاں ایک جوابی کارروائی کے طور پر سر انجام دی جائیں،یعنی پہلے امریکہ حملہ کرے تو ہم اس کے حملے کا جواب دیں جس سے ہمارےپاس حملے کا جواز بھی پیدا ہو جائے گا۔لیکن اس کا موقع نہیں تھا، امریکہ میں موجود ساتھیوں کے پیغامات وصول ہونا شروع ہو گئے کہ ہم انتظار نہیں کر سکتے۔

ابھی دوسرا مجموعہ افغانستان سے امریکہ کے لیے روانہ نہیں ہوا تھا کہ پہلے مجموعے نے پیغامات بھیجنے شروع کر دیے کہ جلد از جلد باقی مجموعات بھجوا دیں کیوں اندرون امریکہ میں ان کے سکیورٹی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ مزید انتظار کریں اور معمولی سے شبہہ پر انہیں دھر لیا جاسکتا ہے ۔چنانچہ تمام مجموعات ایک کے بعد ایک کر کے مختلف وقفوں سے نکلتے گئے لیکن ان میں ایک آخری مجموعہ رہ گیا جس میں بھائی عبد العزیز العمری الزھرانی (ابو العباس)رحمہ اللہ بھی تھے جو کہ ایک فاضل عالمِ دین ساتھی تھے۔ ان کے ہمراہ بھائی ابو احمد الاماراتی ،زیاد الجراح،سالم الحازمی اور محمد القحطانی جن کی کنیت فاروق تھی ، بھی تھے۔ اللہ ان سب کو قبول فرمائیں، آمین۔

غرض بعد میں یہ تمام مجموعے بھجوا دیے گئے اور کسی کو بھی نہ روکا گیا، یہ تمام ساتھی امریکہ داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے جن کی کل تعداد ۱۹ تھی اور ایک بھائی امریکی سرزمین میں داخل نہ ہو سکے۔

حالات بہت ہی کشیدہ اورتناؤ کا شکار ہو چکے تھے، ان تمام بھائیوں کو کسی بھی لمحے دشمن پکڑ سکتا تھا۔افغانستان میں بھی حالات بہت کشیدہ ہو چکے تھے،شیخ اسامہ نے اسی دوران نہایت صراحت سے کہہ دیا تھا کہ ہمارے کچھ بھائی عصر ِ حاضر کے طاغوت کے خلاف ایک بڑی کارروائی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں، وہ سب سے دعا کا مطالبہ کرتے اور بار بار یہ بات ساتھیوں کے ذہنوں میں ڈالتے کہ آپ کے بھائی موت کی خاطر جانیں ہتھیلی پر لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں اوراللہ سے دعا ہے کہ وہ ان کے کاموں کو آسان کر دیں ۔

یہاں ایک اور واقعہ مجھے یاد ہے کہ قندھار میں ایک مسجد میں ساتھی مجتمع تھےاور شیخ ان کے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے۔وہ انہیں کہہ رہے تھے کہ ہم امریکہ کو ایسی قوی ضرب لگانے والے ہیں کہ وہ اس بارے میں سوچ بھی نہ سکے گا۔شیخ مصطفیٰ ابو الیزید رحمہ اللہ نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ یہ کارروائی ایک اجتہادی مسئلہ ہے جسے کرنے کے لیے امیر المومنین کی اجازت نہایت ضروری ہے اور اس کے نہایت خطرناک نتائج ہوں گے اس لیے خیال کے ساتھ اور مشورے کے ساتھ کام کیا جانا چاہیے۔یہ بات سن کر شیخ اسامہ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے خطاب کو بنیاد بناتے ہوئے ایک مؤثر خطاب فرمایا اور کہا کہ’’میں زندہ ہوں اور ہمارے دین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے،دین کو کمزور کیا جا رہا ہے‘‘۔ یہ بات کہتے ہوئے آپ رو پڑے اور آپ نے کہا کہ’’ہمارے پیچھے ایک امت ہے جو ہماری منتظر ہے کہ ہم اس کے دفاع میں کیا کرتے ہیں ،اس لیے ضروری ہے کہ ہم کچھ نہ کچھ کریں(یعنی اس امت کا بدلہ لیں)۔ جہاں تک امیر المومنین کی اجازت کاسوال ہے تو انہوں نے ہمیں یہودیوں کو مارنے کی اجازت دے رکھی ہے۔جبکہ فقہ یہ کہتی ہے کہ اگر بعض مسلمانوں کے پاس حملہ آور دشمن یعنی عدوِ صائل کو مارنے کا موقع میسر ہو اس سے پہلے کہ وہ مسلمانوں کے علاقوں پر چڑھ دوڑے اور مسلمانوں پر حملہ آورہو تو ایسے موقع پر امیر کی اجازت کے بغیر بھی دشمن کو مارا جا سکتا ہے ۔یعنی اگر امیر سے اجازت لینے میں تاخیر کا امکان ہو اور دشمن کو موقع مل جائے۔ جبکہ ہمیں امیر کی اجازت نہیں بلکہ حکم ملا ہے‘‘۔

مجھے یاد ہےکہ طالبان اور شیخ اسامہ کے مابین جو مراسلت چلتی تھی ان میں سے ایک بار شیخ ابو حفص رحمہ اللہ کو شیخ اسامہ نے ملا عمر کے پاس بھجوایا۔ شیخ ابو حفص رحمہ اللہ نے ملا عمر رحمہ اللہ سے کہا ’’آپ ہمیں کیا امر دیتے ہیں؟ عرب مجاہدین سے آپ کیا خواہش رکھتے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کے دین اور جہاد کی کچھ خدمت کریں اور ہم آپ ہی کے سپاہی ہیں‘‘۔

ملا عمر نے شیخ ابو حفص رحمہ اللہ سے فرمایا’’احمد شاہ مسعود کے خلاف اگر آپ کچھ کر سکیں‘‘۔ شیخ ابو حفص رحمہ اللہ نے انہیں جواب دیا کہ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسعود قتل ہو گیا بس آپ لوگ اسے مقتول سمجھتے ہوئے اپنی افواج کو شمال پر حملہ آور ہونے کا حکم دیں تاکہ انہیں حیران کیا جاسکے‘‘،یعنی جیسےہی اس کے مرنے کی خبر آئے آپ اپنی افواج کو اکٹھا کر کے وہاں حملہ کر دیں تاکہ شمالی اتحاد والوں کو اپنی صفیں ترتیب دینے کا موقع بھی نہ مل سکے۔چنانچہ طالبان ملا دا داللہ رحمہ اللہ کی قیادت میں شمال کی وادی پر حملہ آور ہوئے اور کچھ ہی عرصہ میں مبارک کارروائیوں سے قبل احمد شاہ مسعود بالفعل کیمروں (میں نصب بموں) کے ذریعے سے مارا گیاجو کہ ایک معروف واقعہ ہے ذرائع ابلاغ میں جس کا ذکر ہوتا رہا ہے۔

انہی دنوں بی بی سی سے تعلق رکھنے والا ایک صحافی آیا اور شیخ اسامہ سے ملاقات کی ،دوپہر کے کھانے پر شیخ اسامہ بن لادن نے اسے کہا کہ’’اللہ کی قسم ہم (امریکی)وزارت دفاع کو شیطان کے وسوسے بھلا دیں گے،اللہ کی قسم میں امریکیوں کو مجبور کر دوں گا کہ وہ اپنی شہریت بھی لوگوں سے چھپاتے پھریں‘‘۔

اس صحافی کے جانے کے بعد یہ عام بات بن گئی کہ شیخ اسامہ بن لادن امریکہ کے خلاف ایک بڑی کارروائی کرنے جا رہے ہیں اور یہ کارروائی چند ہی ہفتوں کے اندر ہونے والی ہے۔

اور عملاً تین ہفتوں کے اندر اندر گیارہ ستمبر کے حملے ہو گئے۔ حملوں سے کچھ عرصہ قبل ہم قندھار سے کابل روانہ ہوئے،جہاں راستے میں تور غر کے پہاڑی سلسلے میں اس خبر کے انتظار میں ہم دو ہفتوں کے لیے ٹھہرے جہاں الحمد للہ یہ خبر ہم نے ریڈیو کے ذریعے سے سنی۔اللہ اکبر!

و آخر دعوانا ان الحمدللہ ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭


1 حالاً افغانستان کے وزیرِ اعظم ’ملا محمد حسن اخوند‘۔

Previous Post

اجنبی ___ کل اور آج | پانچویں قسط

Next Post

گیارہ ستمبر کے حملے امریکی جرائم کا ردّعمل ہیں!

Related Posts

ظالم کو مار گرانے والے!
یومِ تفریق

ظالم کو مار گرانے والے!

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

جہاد کے لیے نکلو!

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

یومِ تفریق سے طوفانُ الاقصیٰ تک

15 نومبر 2024
یومِ تفریق
یومِ تفریق

یومِ تفریق

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

شیخ اسامہ بن لادن کیوں ’محسنِ امت ‘ہیں؟

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

ہم گیارہ ستمبر کی یاد کیوں ’مناتے‘ ہیں؟

15 نومبر 2024
Next Post
گیارہ ستمبر کے حملے امریکی جرائم کا ردّعمل ہیں!

گیارہ ستمبر کے حملے امریکی جرائم کا ردّعمل ہیں!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version