نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

اجنبی ___ کل اور آج | پانچویں قسط

احسن عزیز by احسن عزیز
28 ستمبر 2023
in فکر و منہج, ستمبر 2023
0

الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شہادۃ في سبیلك واجعل موتنا في بلد رسولك صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)


ترقی جس کو سمجھے ہم وہ اُنؓ کے ہاں ہلاکت تھی!

ان تعلیمات کے صحابہؓ پر نہایت گہرے اثرات تھے ۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج ہمیں دنیا میں اسلام کاجو پھیلاؤ نظرآتا ہے، وہ صحابہ ؓ کے انھی تصوّراتِ فلاح و ترقی( اور امن )کا ثمرہ ہے۔ آسمان نے یہ منظر دیکھا ہے کہ جب ایک صحابی حرام ؓبن مِلحان کے پیٹ سے نیزہ آر پار ہوا تو جانے والا خون کے قطرے اپنے چہرے اور سر پر چھڑک کر پکار اٹھا: ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ! فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃ ‘‘(البخاري،کتاب المغازي)’’اللہ ہی سب سے بڑا ہے، ربِّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا‘‘۔ کامیابی کا یہ اعلان اُس جہنم سے چھٹکارے اور اُس جنت میں داخلے سے متعلق تھا جہاں انسان کو ہمیشہ رہنا ہے۔کتنا عرصہ؟لاکھ، کروڑ، ارب، کھرب، نیل، پدم، سنکھ___ سال ؟ نہیں بلکہ لا محدود مدّت تک،کیونکہ موت تو ذبح ہو چکی ہو گی۔اتنے بڑے فائدے کو فلاح(مکمل کامیابی) نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟

اخروی کامیابی کی اس قدر و قیمت کا احساس عام تھا۔ حیاتِ صحابہؓ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر پانچ میں سے چار اصحابِؓ رسول کو میدانِ جہاد میں ___اور صرف ایک کو بستر پر موت آئی۔اس طرح جنگی معرکوں میں شہید ہونے والے صحابہ ؓ کاتناسب اسّی فیصد تک پہنچتا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جہاد کے احکام اترنے کے بعد فلاح کا ایسا لائحہ عمل جو اس عظیم عبادت کی ادئیگی سے تہی ہو،ان کے حاشیہ ٔ خیال میں بھی نہیں تھا:

……لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَالّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ وَاُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْخَیْرَاتُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ (سورۃ التوبۃ:۸۸)

’’……ہاں لیکن رسول اورجو لوگ ان کی ہمراہی میں ایمان لا چکے ہیں، انھوں نے اپنے مال اور جان سے جہاد کیا۔اور ساری بھلائیاں انھی کے لیے ہیں ا ور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔ ‘‘

اس کامیابی کے مقابلے میں ’’ہلاکت ‘‘کی تعریف ان کے نزدیک کیا تھی؟ اس کا اندازہ حضرت ابو عمرانؓ کی زبانی سننِ ترمذی اور ابوداودمیں روایت شدہ اس صحیح حدیث سے ہوتا ہے :

’’کُنَّا بِمَدِیْنَۃِ الرُّوْمِ فَاَخْرَجُوْا اِلَیْنَا صَفًّا عَظِیْمًا مِنَ الرُّوْمِ فَخَرَجَ اِلَیْھِمْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ مِثْلُھُمْ اَوْ اَکْثَرُ، وَعَلٰی اَھْلِ مِصْرَ عُقْبَۃُ ابْنُ عَامِرٍ وَ عَلَی الْجَمَاعَۃِ فَضَالَۃُ بْنُ عُبَیْدٍ فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی صَفِّ الرُّوْمِ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْھِمْ فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا:سُبْحَانَ اللّٰہِ ، یُلْقِي بِیَدَیْہِ اِلَی التَّھْلُکَۃِ فَقَامَ اَبُوْ اَیُّوْبَ الْاَنْصَارِیُّ فَقَالَ: یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّکُمْ لَتُأَوِّلُوْنَ ھٰذِہِ الْاٰیَۃَ ھٰذَا التَّأْوِیْلَ، وَاِنَّمَا نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ فِیْنَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ لَمَّا اَعَزَّاللّٰہُ الْاِسْلَامَ وَکَثُرَ نَاصِرُوْہُ۔ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّادُوْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ اَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَاِنَّ اللّٰہَ قَدْاَعَزَّ الْاِسْلَامَ وَکَثُرَ نَاصِرُوْہُ فَلَوْ اَقَمْنَا فِیْ اَمْوَالِنَا فَاَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْھَا، فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی عَلٰی نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم یَرُدُّ عَلَیْنَا مَا قُلْنَا، ’وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ‘ (البقرۃ:۱۹۵) فَکَانَتِ التَّھْلُکَۃُ الْاِقَامَۃَ عَلَی الْاَمْوَالِ وَ اِصْلَاحَھَا وَتَرْکَنَا الْغَزْوَ۔فَمَا زَالَ اَبُواَیُّوْبَ شَاخِصًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّٰی دُفِنَ بِاَرْضِ الرُّوْمِ.‘‘ (الترمذي،ابواب تفسیر القرآن)

’’ہم روم کے ایک شہر میں تھے تو ہمارے مقابلے میں رومیوں کی ایک بڑی فوج میدان میں اتری۔ادھرمسلمانوں کی طرف سے ان کے مقابلے پر انھی جیسا یا ان سے بھی ایک بڑا لشکر میدان میں اترا ۔ مصر والوں کی قیادت عقبہ بن عامر فرما رہے تھے جبکہ پورے لشکر کے سالار فضالہ بن عبید تھے کہ ایسے میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (تنِ تنہا) رومیوں کی فوج پر حملہ کر دیا یہاں تک کہ وہ ان کی صفوں کوچیرتا ہوا ان کے اندر جا گھسا۔اس پر لوگ چیخ اٹھے،یہ کہتے ہوئے کہ ’سبحان اللہ،اس شخص نے اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاک کر دیا‘۔(لوگوں کا اشارہ سورۂ بقرہ کی آیت کی طرف تھا) ۔ اس بات پر ابو ایّوب انصاریؓ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے’اے لوگو! کیاتم اس آیت کی یہ تاویل کر رہے ہو؟ حالانکہ بالیقین یہ آیت ہم انصار ہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی،جب اللہ نے اسلام کوغلبہ عطا فرمایا اور کثرت سے اس کے مددگار پیدا ہو گئے۔ تو ہم میں بعض نے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے بغیر چپکے سے آپس میں یہ بات کی کہ بے شک ہمارے اموال (مسلسل آزمائشوں کے نتیجے میں) ضائع ہو گئے ہیں اور بے شک اللہ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے اور اس کے مدد گار بھی بہت زیادہ ہو گئے ہیں تو کیوں نہ ہم اپنے مال اسباب میں ٹھہر جائیں تاکہ جو کچھ ضائع ہو چکا ہے ا س کو پھر سے درست کر سکیں ۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہماری بات کے ردّ میں اپنے نبی ؐپر یہ آیت نازل فرمائی: ’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘۔ پس اپنے مال اسباب کی دیکھ بھال (اور افزائش) میں پڑ جانا ا ور جنگ کو چھوڑ بیٹھنا ہلاکت تھا۔ چنانچہ ابو ایّوب انصاری ؓ ہمیشہ اللہ کی راہ میں نکلتے رہے یہاں تک کہ سرزمینِ روم میں دفن ہوئے۔‘‘

قرآن کی یہ تفسیر میزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عین تلواروں کے سائے میں کھڑے ہو کر بیان فرمائی۔ کفار سے مقابلہ کرنے کے بجائے مادی مفادات کو ترجیح دینا،دنیا داری میں مگن ہوجانا___ یہ تھا وہ تصورِ ہلاکت جو صرف اُن کے لیے نہیں __ بلکہ ہر ا ہلِ ایمان کے لیے آسمان سے اترا تھا،لیکن صحابۂ کرامؓ نے اسے سمجھا اور اس پر عمل کا حق ادا کر دیا۔ تب سننے والوں کے پاس ترقی کا کوئی ایک نہیں ___بلکہ سو درجے تھے ۔ یہی ان کا ’کیرئیر‘ تھا ۔ اسی ’اسٹیٹس‘ کے خواب وہ دیکھتے تھے:

’’اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ اَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ، فَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْاَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَاِنَّہٗ اَوْسَطَ الْجَنَّۃِ، وَاَعْلَی الْجَنَّۃِ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُاَ نْھَارُ الْجَنَّۃِ‘‘ (صحیح البخاري،کتاب الجہاد و السیر )

’’بے شک جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجا ہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں ہے ، تو جب تم اللہ سے مانگو توفردوس کا سوال کرو، کیونکہ وہ جنت کا سب سے ا ونچا ا ور بیچ کا حصہ ہے ا ور اس کے ا وپر رحمن کا عرش ہے اوراسی (فردوس) سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں‘‘۔

یہ تھے وہ تصوراتِ کامرانی و ترقی،جو اسلام کی اُس نسل نے اختیار کیے،جس نے دینِ حق کو اپنی جانوں پر___ اور اس زمین پر غالب کیا۔

غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت رکھی تو نہ سہولیاتِ تمدّن، نہ مادی ترقیات ،نہ غربت، نہ علومِ دنیا، نہ صحت، نہ امنِ مطلق اور نہ اتحادِ محض کو موضوعِ دعوت بنایا،نہ ہی (معاذاللہ) ان نعروں پر لوگوں کو جمع کر کے اپنے پیچھے چلایا۔سننے والوں کو بھی معلوم تھا کہ پکارنے والے نے کس چیز کی طرف پکارا ہے: رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِ یْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا (سورۃ اٰلِ عمران:۱۹۳ ) ’’ اے ہمارے ربّ!ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا کہ وہ ایمان لانے کے واسطے اعلان کر رہے ہیں کہ تم اپنے ربّ پر ایمان لاؤ،سو ہم ایمان لے آئے‘‘___لبیک کہنے والوں کو بھی معلوم تھا کہ نتیجے میں ہمیں اپنے مالک سے ہر چیز سے بڑھ کر کیا لینا ہے : رَبَّنَافَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَاوَکَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰ تِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ(سورۃ اٰلِ عمران:۱۹۳ ) ’’اے ہمارے پروردگار ! ہمارے گناہوں کو بھی معاف فرما دیجیے اور ہماری برائیوں کو بھی ہم سے زائل کر دیجیے اور ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ موت دیجیے‘‘۔

لا ریب کہ اسلامی تہذیب کا دورِ عروج دورِ رسالت مآب ہی تھا۔ بعد میں بھی جب تمدن نے اپنے بازو پھیلائے، ملک فتح ہوئے،نئے شہر بسائے گئے اور تمدّنی انتظامات،ضروری تعمیرات اور محکمہ جات کے قیام کے مراحل پیش آئے تو بھی خلفائے راشدین نے غیروں(عجمیوں) کی تہذیبی و تمدنی چکا چاند کو اپنے سامنے معیار نہیں بنایا حالانکہ فارس و روم کی مادی ترقیات اور اہتمامِ دنیا کے نظارے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسے اپنے پیروں کی ٹھوکر میں رکھ کر ہی وہ پورے عالم کو اسلام کی آغوشِ رحمت میں لا پائے تھے۔اقتدار و فتوحات کے اس مرحلے پر بھی اللہ کی عبادت اور اس کے دین کی نصرت ،نیکی کا حکم دینا ،برائی سے روکنااور اللہ کے کلمے کی سربلندی ان کا بنیادی ہدف تھا:

وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہَ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۝الَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝ (سورۃ الحج: ۴۱-۴۲)

’’ا ور بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اس (اللہ ) کی مدد کرے گا۔بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا اور غلبے و الا ہے۔یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار سونپ دیں تویہ لوگ (خود بھی ) نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور (دوسروں کو بھی) نیک کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘

یہ تھے زندگی کے وہ اعلیٰ و ارفع مقاصدجن کو اپنا کررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے ساتھیوں نے دین کی غربت و اجنبیت کا خاتمہ کیااور یوں ایمان کی بہار سے پورا عالم مہکنے لگا۔

اس اطاعت کی برکت سے زمین نے اپنے خزانے اُگلے، آسمان نے موتی برسائے اور تجارتوں نے مٹی کو سونا بنا دیا۔علم و فضل،امن و اخوت اور خوشحالی و اطمینان اور ہیبت و قوت کی نعمتیں انھیں اپنے ربّ سے ملیں ۔دنیا کے وسائل ان کے قدموں میں ڈھیر تھے، لیکن وہ جب بھی اپنا دامن جھاڑ کر اس سے گزر گئے ۔ان میں سے ہر ایک نے آخرت کو اپنا غم بنایا تھا،اللہ نے انھیں دنیا کے سب غموں سے آزاد کر دیا اور دنیاان کے پاس آئی مگر ناک رگڑتی ہوئی:

’’مَنْ جَعَلَ الْہَمَّ ہَمًّا وَاحِدًا کَفَاہُ اللّٰہُ ہَمَّ دُنْیَاہُ وَمَنْ تَشَعَّبَتْہُ الْہُمُوْمُ لَمْ یُبَالِ اللّٰہُ فِیْ اَیِّ اَوْدِیَۃِ الدُّنْیَا ہَلَکَ‘‘ (رواہ الحاکم،وصححہ ووافقہ الذہبي)

’’جس نے بس ایک غم (یعنی آخرت اور رضائے الٰہی) کو ہی اپنا غم بنا لیا،اللہ اس کے لیے دنیا کے غم اور فکر میں کافی ہو گیا۔ اور جس کو (طرح طرح کی دنیاوی) فکروں نے الجھا دیا، تو اللہ تعالیٰ نے بھی پروا نہیں کی کہ وہ دنیا کی کس گھاٹی میں گر کر ہلاک ہوا۔ ‘‘

حوض پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی خواہش، جنت کی حرص، آخرت طلبی اور دنیا سے بے رغبتی( زہد) نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات کے تمام نشیب و فراز میں___ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کے لیے مستعد رکھا۔بھوکوں کوکھانا کھلانا، بیماروں کی عیادت ، یتیموں بیواؤں کی سرپرستی،تنگدستوں کی کفالت،مصیبت زدوں کی دادرسی، مسافروں کی خدمت و تواضع اور مہمانوں کی مدارت ___ ان نیکیوں میں تو وہ اس زمانے میں بھی پیچھے نہ رہتے تھے جب دنیا والے ان کے منہ سے نوالہ اور سر سے چھت کا سایہ تک چھیننے کے درپے تھے،لیکن جب آسودگی کے دن آئے ،رزق کی فراوانی ہوئی اور شاہانِ عرب و عجم کی غنیمتیں ان کے ہاتھ لگیں تو بھی مُصحف ِ قرآنی میں پڑھا جانے والا ہدایت و فلاح کا پہلا درس وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفقون ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھا۔

ایک طرف اللہ کے معاملے میں وہ وَاَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ(الزمر:۵۴) ’’اپنے ربّ کی طرف رجوع کرو ‘‘ اور فَفِرُّوْا اِلَی اللّٰہِ(الذّٰریٰت:۵۰) ’’اللہ کی طرف بھاگو ‘‘کی تصویر تھے تو دوسری طرف اللہ کے بندوں کے لیے وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر۵۹:۹) ’’ اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں ،خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں‘‘جیسے اخلاق سے متصف تھے ۔

جب دنیا ان کے پیغام سے نامانوس تھی تو بھی وہ اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ ہُمْ لَہَا سَابِقُوْنَ (المؤمنون:۶۱) ’’یہی ہیں جو نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں‘‘کے مصداق تھے اور جب اسلام کی یہ کھیتی برگ و بار لائی تو بھی ان کا حال یہی تھا کہ:تَرٰہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا (الفتح:۲۹)’’تم انھیں دیکھوگے کہ رکوع و سجود میں مشغول ہیں،اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی کی تلاش میں لگے ہیں‘‘۔

پس ترقی ان کے لیے نیکیوں اور اصلاح میں ترقی تھی،فلاح ان کے لیے آخرت کی فلاح تھی۔ دعوت ان کی ہمیشہ اللہ کی طرف ( دعوت الی اللہ) ہوتی تھی، فضیلت کا معیار صرف تقویٰ تھا،اخوت صرف اہلِ ایمان کے لیے تھی، امن اہلِ فساد کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی عبادت کے لیے مطلوب تھا اور اہلِ توحید کی خاطر تھا، یاپھر ان کے لیے جو اہلِ توحید کی شرائطِ امن کو پورا کرتے ہوں مثلاً ذمّی، مستأمن ،معاہد وغیرہ۔

یہ دعوت ِایمان قبول کرنے والوں کو آج ___ فلاح ،ترقی، امنِ مطلق ،مساواتِ انسانی، حقوقِ انسانی وغیرہ کے جدید جاہلی تصورات کو صرف چھوڑنا نہیں، بلکہ ان سے جنگ کرنا ہو گی : فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاہِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا(الفرقان:۵۲) ’’پس کافروں کی بات ہرگز نہ مانواور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہادِ کبیر کرو‘‘۔ خیروشر، فوزو خسران ،حقوق و فرائض، مساوات و عدل ،امن و فسادکے ان مغربی پیمانوں کو قبول کرنا اللہ پر افتراء باندھنا ہے ۔سچ یہ ہے کہ جس چیز کی طرف یہ بلاتے ہیں اور زندگی کے جس لائحہ عمل میں مشغول رکھنا چاہتے ہیں وہ دھوکہ ہے نہ کہ کامیابی: اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُونَ ۝ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝ (النحل: ۱۱۶-۱۱۷) ’’بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹے افتراباندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے،بس دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا فائدہ(ہی ان کی کل متاع ہے) اور (مرنے کے بعد)ان کے لیے درد ناک سزا ہے‘‘۔لہٰذا بطور مسلمان ہمیں اپنے ذہنوں میں یہ عقیدہ اچھی طرح راسخ کرنا ہو گا کہ مغرب کی دھوکے باز(دجّالی) دنیا میں رہنے اور ان کی تہذیب و اقدر کو اختیار کرنے والا کافرچاہے کتنے ہی عیش میں ہوہمارے لیے وہ تباہ حال ہے، عبرت کا نشان ہے اور قابلِ ترس حالت میں جی رہا ہے اس لیے کہ وہ ’’عبد الدنیا ‘‘ہے اور شَرُّ الْبَرِیَّۃِ’’بد ترین خلائق ‘‘میں سے ہے ،اورایسے میں یہ کبھی فلاح نہیں پائے گااور سر تا سر نقصان میں ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَکَفَرُوْا بِاللّٰہِ اُولٰئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ (العنکبوت۲۹:۵۲)

’’اور جن لوگوں نے باطل کو مانا اور اللہ کا انکار کیا وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ ‘‘

جب کہ اس کے مقابلے میں اللہ کی اطاعت کرنے والا مومن، چاہے ان تمدنی سہولیات سے کتنا دور ہو،چاہے غاروں یا کہیں دشت و جبل میں رہ کر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی عبادت کررہا ہو، ایمانی تقاضوں کو پورا کر رہا ہو تو وہ ہمارے لیے مثال ہے ، نمونہ ہے اور قابلِ رشک حال میں ہے کیونکہ وہ اللہ کا بندہ ہے، ان میں سے ہے جو: خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ ’’بہترین خلائق‘‘ ہیں۔ ا ور اس نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جس میں فلاح یقینی ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمؤْمِنُوْنَ…… (المؤمنون:۱)’’یقیناً ایمان والے فلاح پا گئے……‘‘۔

پھر اس بنیاد ی فرق کی وجہ سے ان میں کبھی مساوات قائم نہیں ہو سکتی، کبھی یہ اور وہ ایک سے نہیں ہو سکتے ___حقوق میں، احترام میں، آراء میں۔بھلے انسانی حقوق کا چارٹر اس بارے میں کچھ کہے،کیونکہ اللہ کی آیات ہمارے لیے کافی ہیں:

اَفَمَنْ وَّعَدْنٰہُ وَعْدًا حَسَنًا فَہُوَ لَاقِیْہِ کَمَنْ مَّتَّعْنٰہُ مَتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ ہُوَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ (القصص:۶۱)

’’بھلا وہ شخص جس سے ہم نے ایک اچھا وعدہ کر رکھا ہے ،اور وہ اسے پانے والا ہے کبھی اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے صرف حیاتِ دنیا کا سامان دے رکھا ہو اور پھر وہ قیامت کے روز (سزا کے لیے )گرفتار کر کے لائے جانے والوں میں سے ہو؟‘‘

رہی بات کفار کے دنیا کو امنِ مطلق کا گہوارہ بنانے کی تویہ دعوت بھی کیسے قبول کی جا سکتی ہے جب تک کہ دنیا میں خود ان کا پھیلایا ہوا فتنہ و فساد موجود ہے؟فتنے کے خاتمے تک جہاد قرآن نے ہم پر فرض قرار دیا ہے تو بھلا رحمن کو چھوڑ کر شیطان کی پکار کیسے سنی جا سکتی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں ’’سلامتی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات‘‘سے ہمیں ڈرا کر اپنے آپ کو سلامت رکھنا چاہتے ہیں،(ہمیں جتنا سلامت یہ رکھنا چاہتے ہیں ، اس کا اندازہ لگانے کے لیے مسلم ممالک میںا ن کے فوجی اڈوں کا پھیلاؤ اورعراق ،افغانستان اور فلسطین وغیرہ میں ان کے ظلم کو دیکھنا کافی ہو گا)۔ یہ توچاہیں گے کہ ہم ایسے میں بھی ان کے ساتھ امن و سلامتی کے مذاکرات میں الجھے رہیں،اور سلامتی (صرف جان کی، ایمان کی نہیں) کو ایک مستقل اور مطلوب قدر کے طور پر قبول کر لیں۔ اللہ تعالیٰ جن قوموں کو دنیا و آخرت میں اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں ……مِن عِنْدِہٖ اَوْ بِاَیْدِیْنَا عذاب کی خوشخبریاں دیتا ہے،کس میں یہ مجال کہ انھیں سلامتی کی مطلق ضمانت دے دے؟:

لَہُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَقُّ وَمَا لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ وَّاقٍ (الرعد:۳۴)

’’ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔کوئی ایسا نہیں جو انھیں اللہ سے بچانے والا ہو۔‘‘

امن کا حق دار وہی ہے جسے یہ حق اللہ تعالیٰ کی مؤمن و مھیمن ذات عطا فرمائے:

وَکَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۝ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتِدُوْنَ۝ (الانعام:۸۱۔۸۲)

’’ا ور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حا لانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ، سو ان دونوں فریقوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے؟اگر تم خبر رکھتے ہو۔جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم(شرک) سے آلودہ نہ کیا ایسوں ہی کے لیے امن ہے،اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

اسلامی تہذیب و معاشرت کے بقا و تسلسل میں خواتین کی ذمہ داری

Next Post

القاعدہ نے گیارہ ستمبر کے حملے کیوں کیے؟

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
القاعدہ نے گیارہ ستمبر کے حملے کیوں کیے؟

القاعدہ نے گیارہ ستمبر کے حملے کیوں کیے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version