نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

مفتی جمیل احمد تھانوی by مفتی جمیل احمد تھانوی
28 ستمبر 2023
in ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!, ستمبر 2023
0

حضورﷺ کا ذکرِ مبارک زبان سے یا قلم سے، نظم ہو یا نثر، ایک عبادت اور کارِ ثواب ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں طرح طرح سے آپﷺ کا ذکر فرمایا ہے۔ انبیائے کرام کے ذکر کو دلوں کو ثابت و مطمئن بنانے والا قرار دیا ہے۔ آپﷺ کے ذکر کی رفعتِ شان کا اعلان فرمایا: ’’وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ‘‘1۔ حضورﷺ کی بعثت کو تمام مسلمانوں پر ایک احسانِ عظیم بتایا: ’’ لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا‘‘2۔ اور خود حضورﷺ اور صحابہ﷢ نے بہت بہت بار اور بار بار ہر طرح سے ذکرِ مبارک فرمایا، حق تعالیٰ نے حضورﷺ سے وعدہ کیا کہ جو ایک بار آپ پر درود شریف پڑھے گا اس پر دس رحمتیں نازل ہوں گی۔

افسوس جس محسن اعظمﷺ کے طفیل بت پرستی اور کفر و شرک کی غلاظتوں سے نجات ملی، عذابِ ابدی سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اور جنت کی وہ نعمتیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی دل پر خیال تک ہو کر گزریں مقرر ہوئیں، ہم احسان فراموش و ناقدرشناس اپنے ایسے محسن کے ذکر و اذکار سے بھی غافل ہیں یا کچھ کرتے ہیں تو اس طرح کہ ’نیکی برباد گناہ لازم‘ یا صحیح طریقے سے بھی کرتے ہیں تو ناقص اور کوتاہ۔

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی ظالم نے تو کیا کی

ادارہ فروغِ اسلام کی تحریک پر جی چاہا کہ اس لذیذ ترین عبادت کا صحیح طریقِ کار اور اس میں کی جانے والی کوتاہیاں عرض کردی جائیں تاکہ مسلمان ایسے محسنِ اعظم کے احسان فراموش نہ بن سکیں اور عبادت کو ناقص و کوتاہ یا غیر عبادت یا گناہ سے مخلوط کرکے کارِ خیر کی جگہ کارِ شر نہ کرنے لگیں۔

ذکرِ رسولﷺ ایک دریائے ناپیدا کنار ہے۔ اس کے ٹھاٹھیں مارنے والے سمندر کو طرح طرح کی تقییدات کے کوزوں میں قید کر لینا اچھی بات نہیں۔ ایک قسم کی ناقدری اور بعض دفعہ گستاخی بن جاتا ہے۔ ذرا اس کی وسعت کی جھلک ملاحظہ کیجیے۔

مراتبِ ذکرِ رسولﷺ

ذاتِ مبارک کا ذکر اور اس کے بہت سے مرتبے ہیں۔ (الف)ابتدائے عالم سے تابہ ولادت شریفہ (ب)ولادت مبارکہ (ج)بچپن (د)جوانی (ہ)جوانی کے بعد سے وفات تک (و)وفات (ز)بعد وفات (ح)قیامت اور درجاتِ عالیہ3 (ط)شفاعت (ی)جسم مبارک کے یہ سب ادوار حیات نبوت اور روح معلیٰ4 کے تمام انوار و کمالات (یا)حسن اعضاء سر سے لے کر پیر تک (یب)قوت جسمی (یج)قوت گویائی (ید)قوت نظر (يه)قوت سماعت (یو)قوت احساسات (یز)قوت ذہن (یح)قوت حفظ (بط)قوت عقل (ک)قوت دل (کا)قوت توکل (کب)قوت حب الٰہی (کج)قوت حضور5 و استحضار (کد)قوت معیت الٰہی (که)افضلیت از انبیاء و ملائکہ بلکہ خدا کے بعد ہر موجود سے (کو)خاتمیت باعتبار نبوت و رسالت و جملہ کمالات ظاہری و باطنی اختیاری و غیر اختیاری (کز)خاتمیت باعتبار دین و کتاب و معجزات (کح)خاتمیت باعتبار علم (کط)خاتمیت باعتبار اخلاق و اعمال (ل)خاتمیت باعتبار تبوع6 کل مخلوق۔

حقیقتِ ذکر

لیکن اگر غور کیا جائے کل تیس کے تیس شعبہ ہائے حیات کا ذکرِ مبارک حقیقت میں ذکرِ رسولﷺ نہیں ہے۔ صرف مجازی معنی سے کہ ذات رسالت ماب ﷺ کے متعلق ہیں، ذکرِ رسول ہیں ورنہ درحقیقت چونکہ یہ سب اختیاری امور نہیں ہیں محض حق تعالیٰ کے عطائے خاص ہیں ان کا ذکر شریف حضرت حق جل و علا شانہٗ کے عطا و نعمت کا ذکر ہے، اور نعمت ہائے عظیمہ کا ذکر خالق کا شکر ہے۔ اس لیے ان کا ذکر اصل ذکرِ رسولﷺ نہیں بلکہ شکرِ حضرتِ حق7 ہے۔

اقسامِ ذکرِ رسولﷺ

امورِ اختیاریہ جن کا صادر ہونا حضورﷺ کے اختیار سے ہوا ہے جو حقیقی ذکرِ رسولﷺ ہیں۔ مثلاً حضورﷺ کے تمام نظریات، تمام عبادات، تمام معاملات، تمام معاشرات، تمام اخلاق، تمام انتظامات و سیاسیات، تمام تربیت و اصلاحات، حضراتِ صحابہ﷢ کے نفوس کا تزکیہ، تعلیم و تشریحاتِ قرآن، تبلیغِ احکام اور ان کے ذرائع و انتظامات، جہادات اور ان کے اصول و عسکری، انتظاماتِ تدبیرِ ملک و سلطنت وغیرہ وغیرہ، نشست و برخاست8، آمدورفت، ہر ہر بات میں طریقۂ مبارک، وضع قطع، رفتار و گفتار، وفود سے معاملات و گفتگو، پیاماتِ سلاطین9، کھانے پینے اور تمام ضروریاتِ انسانی کے طور طریق، ہر قسم کے استعمالات کے اصول اور طریقے وغیرہ وغیرہ۔ غرض حضورﷺ کی ہر ہر حرکت و سکون جو امت کی فلاح و بہبود کے لیے، حسبِ ارشادِ الٰہی ’بہترین نمونہ‘ ہے۔ خواہ یہ افعال و اعمال بطریق عبادت ہوں جیسے نمبر ۱۲ تک یا بطریق عادت ہوں جیسے بعد میں۔

انہی امورِ اختیاریہ کا اعلیٰ فرد ہے تعلیم و تلقین احکامِ دین جو حضورﷺ کا مقصود اعلیٰ ہے۔ ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ (سورۃ المائدہ: 67)

’’اے رسول! ان تمام احکام کو پہنچا دیجیے جو آپ پر نازل کیے گئے ہیں آپ کے رب کی طرف سے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو حقِ رسالت ادا نہیں کیا۔‘‘

دراصل ذکرِ رسولﷺ امورِ اختیاریہ کا ذکر ہے اور اختیارات میں سے جو بعثتِ مبارکہ کا اصل مقصود ہے وہ دوسرے امور سے اعلیٰ ہے اس لیے تعلیمات و تلقیناتِ نبویہ کا ذکر ذکرِ رسولﷺ کا اصلی اوراعلیٰ ترین فرد ہے۔ پھر اس کے بھی دو شعبے ہیں؛ باطنی اور ظاہری، یعنی قلبِ انسانی کو تمام ناپسندیدگیوں سے پاک کرکے اس میں تمام خوبیاں بہترائیاں عمدہ اخلاق کے مادے اور غیرُاللہ کی طرف سے ہٹا کر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دینا بلکہ عشقِ الٰہی کی ایک لگن پیدا کردینا۔ اس کو کہتے ہیں تزکیۂ نفس اور یہ حضورﷺ کی تعلیمات کا باطنی شعبہ ہے۔ دوسرا شعبہ ظاہری تعلیمات ہیں وہ زندگی اور مابعد سے تعلق رکھنے والے ہر دورِ حیات کی تکمیلات کے ضامن احکام و قوانین ہیں، دونوں میں باہم شدت کا ربط ہے، ایک دوسرے کے بغیر ناممکن ہیں بلکہ ایک درجہ میں باطنی کیفیات ظاہری احکام کی جڑ، ان کی آبیاری کا مدار اور بقاء و دوام اور عمدگی و استحکام کے لیے اصل اصول ہیں۔ اسی لیے حق تعالیٰ نے حضورﷺ کے ان کاموں میں باطنی تعلیمات کا ذکر پہلے اور ظاہری کا بعد میں فرمایا۔ کئی جگہ ارشاد ہے جہاں حضورﷺ کا وصف بیان ہے۔

وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ(سورۃ آل عمران: 164)

’’آپ مومنین کا تزکیہ کرتے اور ان کو کتاب اللہ اور حکمت کا درس دیتے ہیں۔‘‘

لہٰذا حقیقی و اصلی اور اعلیٰ ترین ذکرِ رسولﷺ ان اصول و قوانین کا اعلان و استحسان10 ہے جو حضور اقدسﷺ نے تعلیماتِ باطنیہ11 و ظاہریہ کے ارشاد فرمائے ہیں اور ان کے بعد درجہ ان امورِ اختیاریہ کا ہے جو حضورﷺ نے بطور عبادت کیے ہیں اور ان کے بعد ان اختیاری افعال کا ہے جو بطور عبادت کے نہیں بطریق عادات شریفہ صادر ہوئے ہیں اور ان کے بعد ان امور کا ہے جو حضورﷺ کے اختیار سے سرزد نہیں ہوتے تھے محض انعام و الطافِ الٰہی ہیں جو تعلقِ ذات کی وجہ سے ذکرِ رسولﷺ اور حقیقت میں شکرِ نعمت ہائے ربانی ہے۔

آلاتِ ذکرِ رسولﷺ

ان تینوں قسم کے اذکار اور ان کے درجات کے بعد اب آلاتِ12 ذکر پر غور کیجیے۔ ذکرِ رسولﷺ کا یہ مطلب کہ صرف زبان سے کہہ دینا ہی ذکر ہے، یہ زبانی جمع خرچ اس عبادت کے حساب میں بھی کافی نہیں ہوسکتا، یہ ایک بہت حقیر اور کم درجہ کا ذکر ہوگا۔

آلاتِ ذکر یہ ہیں: زبان، کان، دل، دماغ، روح، اور تمام اعضائے ظاہری۔ پھر ان میں درجہ بدرجہ تفاوت ہے۔ اگر سب آلات سے ذکر ہوگا تو کامل ترین اور بہتر ذکر ہے، اگر بعض سے ہوگا تو اتنا ناقص، پھر اعلیٰ سے ہوگا تو ناقص کے افراد میں سے اعلیٰ اور نقصان میں کم، اور ادنیٰ سے ہوگا تو ادنیٰ اور نقصان میں زائد ہے۔ زبان سے ان اذکار کا ادا کرنا اور کانوں سے سن لینا تو سب جانتے ہیں جن میں ان تمام گزشتہ امور یعنی پورے دین کو پڑھنا، سیکھنا، پڑھانا، سکھانا، تحریرات تقریرات پڑھنا سننا داخل ہیں۔ دل کے ذکر میں دل میں ان کی حقانیت کو قائم کرنا اصل اصول ہے کہ بغیر اس کے زبان اور کان کا ذکر بالکل بے کار ہے۔ صرف صورت ہی صورت ذکر کی ہے، اصل کچھ نہیں۔ زبان پر ذکر اور دل میں نفرت یا حقارت یا سبکی و خفت ہو تو یہ ذکر ایک منافقانہ حرکت سے زیادہ وقعت نہیں رکھ سکتا۔ جیسے آپ بعض ہندوؤں اور انگریزوں کی زبان و قلم سے ذکرِ رسولﷺ کا کوئی شعبہ ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ ذکر نہیں، کسی دنیوی مصلحت کا مظاہرہ ہے، منافقت اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہے کہ اس حرکت سے مسلمان مانوس ہوکر شکار ہوسکیں۔

حضورﷺ کے ذکر مبارک کا فرض درجہ

پھر دل کا ذکر ایک دائمی ذکر ہے اور زبان اور کان کا عارضی چند لمحات کا ہے۔ دل میں حقانیت و عظمت مسلسل اور دائمی چیز ہے بلکہ یہ درجہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اور صرف حضورﷺ کے ہی ذکرواذکار کے لیے نہیں، تمام انبیاء و رسل کے اذکار کی حقانیت کا دلی ذکر فرض ہے۔ فقہائے اسلام نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ کسی نبی کی کسی ایک سنت کا بھی کوئی مذاق اڑائے یا ناپسندیدگی ظاہر کرے تو وہ کافر ہے۔ یہ وہ ذکرِ رسول ہے جو گزشتہ تمام اقسام میں ہر ہر مسلمان پر فرض ہے اور ایک دائمی عبادت ہے۔

دل کا ذکر

پھر دل کے ذکر کا اور ایک درجہ ہے جس سے ایمان میں نور اور اسلام میں کمال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ ذاتِ اطہر اور تمام اوصاف وکمالات اور گزشتہ معروضہ13 کے کُل اقسام کے اذکار سے محبت ہونا۔

حضور انورﷺ کا ارشاد ہے:

لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده.

’’تم میں سے کوئی مومن کامل نہیں بن سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘

ذکر دماغ میں ذہن حافظہ اور عقل سے ان تمام اذکار میں کام لینا ہی ان کا ذکر ہے۔ اس کی تفصیلات ہر شخص جانتا اور سمجھتا یا سمجھ سکتا ہے کہ قرآن مجید، احادیث شریفہ کا حفظ، تعلیم و تعلم، تصنیف تالیف، تقریر و گفتگو یہ دین کے تمام کے تمام شعبے سب قسم کے انہی اذکارِ رسولﷺ میں اور اعلیٰ درجہ کے ذکر میں شامل ہیں۔ ذرا نظر صاف، بے لوث اور گہری ہو تو حقیقت بالکل روشن ہے۔

روح کا ذکر

روح کا ذکر ان تمام امور سے مزین ہونا ہے جو حضورﷺ کے ارشادات و افعال و احوال سے سامنے آئے ہیں۔ جن کا تعلق ظاہری اعمال کے بجائے باطن سے ہے۔ اور ظاہری اعمال کے لیے بیخ و بن14 کا کام دیتے ہیں۔ یہ تمام ذکرِ مبارک روح کو روشن، مجلی15، نورانی، اور بڑھ بڑھ کر اس کو بعد16 کی کثافتوں سے پاک کر دیتے ہیں۔ پھر اس کو ملاء اعلیٰ کے اتصال17 سے عجیب عجیب انکشافات معمول و عادت سے زائد باتیں حاصل ہوتی اور ظاہر بھی ہوجاتی ہیں۔ یہی تزکیۂ نفس سے تعبیر ہوا ہے، یہ درجہ نہایت مہتم بالشان18 درجہ ہے۔

اتباعِ رسولﷺ ہی حقیقی ذکر ہے جس سے محبوبیت حاصل ہوتی ہے

ذکرِ رسولﷺ کا اہم اور رعام درجہ یہ ہےکہ تمام اعضائے ظاہری سے بھی ہو۔ خود حق تعالیٰ نے اس کو ضروری قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (سورۃ آل عمران:31)

’’آپ کہہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو محبوب بنا لیں گے۔‘‘

یہاں حکم بھی ہے اور اس پر انعامات بے غایات19 بھی ہیں کہ محبت و عشق ہی مقبول نہیں ہوگا بلکہ خود حق تعالیٰ تم سے محبت فرمانے لگیں گے۔ مرید سے مراد کا درجہ پاؤ گے، محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ پھر اس اتباع میں متفرق درجات ہیں: فرائض و واجبات، سنن، مستحبات اور ترکِ حرام و مکروہِ تحریمی و تنزیہی و لایعنی20 سب اس میں داخل ہیں۔ جس قدر یہ عملی ذکرِ رسولﷺ ہوگا اسی قدر محبتِ الٰہی کا غلبہ اور محبوبیت حاصل ہوگی۔

ذکرِ رسولﷺ کے تینوں درجے اور آلاتِ ذکر کے پورے چھ ذریعوں سے ذکرِ رسولﷺ کرنا ہی کامل اور حقیقی ذکر، دین و دنیا میں بے انتہا نافع بلکہ سارے عالم میں بے مثال ہستی بنانے والا ہمیشہ کا تجربہ کیا ہوا نسخہ ہے۔ حضورِ انورﷺ کے بعد سے آج تک جو بھی مسلمان اعلیٰ قسم کا مسلمان بزرگ، صالح، متقی، ولی کامل آپ نے دیکھا یا سنا ہے وہ اسی طرح پورے پورے ذکرِ رسولﷺ اور اس کے ہر ہر طریقہ سے کرنے سے ہی اس کمال پر نظر آیا ہے خواہ وہ پیرانِ پیر21 رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا کوئی اور بزرگ، یہی ایک کیمیاوی نسخہ ہے۔ یعنی مسلمان کو کامل ترین مسلمان بنانے کا ذریعہ ہے، یہی دین و دنیا کی فلاح و بہبود کی کنجی ہے، اسی سے مسلمان پکا مسلمان بنتا ہے اور اسی سے پاکستان پاکستان اور اس کا ہر باشندہ واقعی پاک بن سکتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جس کی بدولت امت محمدیہ کو خیر البریہ (تمام مخلوقات سے بہتر) اور خیر الامم (تمام امتوں سے بہتر) کا تمغۂ قبولیت عطا ہو اہے۔

ناقص ذکر کرنے کے نقصانات

ذکرِ رسولﷺ کے اس تفصیلی بیان سے آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ مسلمان کمالِ اسلام اسی وقت حاصل کرسکتا ہے کہ جب ذکرِ رسولﷺ کے تمام شعبوں کو تمام ذرائع سے عمل میں لے آئے۔ اگر کوئی شخص نامکمل نسخہ استعمال کرتا ہے تو نہ وہ نسخہ کا قدردان ہے نہ اس کو اس نسخہ سے کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے، نہ وہ اس کا استعمال کرنے والا شمار ہو سکتا ہے۔ بلکہ حقیقی غور و خوض سے کام لے کر دیکھیں تو وہ نسخہ کو بدنام کرنے کا مجرم ہے، اس کی بے تاثیری کا ڈھول پیٹ کر دنیا کو اس سے محروم کرانے کا مجرم اور خود ناقدری بلکہ توہین کا مرتکب معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے بڑا زبردست ظلم اور بڑا غلط پروپیگنڈا ہوگا اگر کوئی شخص ذکرِ رسولﷺ کو صرف کسی ایک شعبہ میں محصور کرکے رکھ دے گا۔

ہم اگر پورے ذکرِ رسولﷺ کی کوشش نہیں کررہے ہیں تو اس عبادت کو ناقص یا ناقص ترین ادا کرتے ہیں پھر اگر بجائے تکمیل کے اسی پر خوش ہوتے ہیں تو اپنی غلط فہمی پر ناز کرنے لگے اور ہمیشہ کو ورطۂ22 جہالت میں پڑے رہے۔

ہم میں جو لوگ ذکرِ رسولﷺ سے بالکل غافل ہیں وہ تو غافل ہیں ہی اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھول دیں اور بعض لوگ ذکرِ رسولﷺ کرتے ہیں مگر جیسے اوپر ذکر کیا گیا تھا ناقص یا ناقص ترین کرکے اس کیمیاوی نسخہ کو بے تاثیری میں بدنام کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اور بعض لوگ اس کوتاہی سے بڑھ کر ایک ایسا اقدام کر بیٹھتے ہیں جو ایک زبردست مجرمانہ اقدام ہے، مگر وہ اپنی ناواقفی یا غلط فہمی سے اس کو صحیح قدم سمجھتے رہتے ہیں اور ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ بھی اس کی تاثیرات و منافع سے ہمیشہ در ہمیشہ محروم رہتے ہیں اور اپنے عمل سے ایک دنیا کو اس مجرمانہ اقدام کا مرتکب بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس کی یہ صورتیں بھی پیش کردی جائیں تاکہ مسلمان اس عبادت کے حقیقی فائدے حاصل کرسکیں اور مجرمانہ حرکات یا انہی صورتوں سے اس عبادت کو پاک صاف کر سکیں۔

عبادت کے اصول

یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ ہر عبادت کے لیے کوئی نہ کوئی شرعی طریقہ ہے۔ اسی طریقہ سے ادا کرنے سے وہ عبادت ہے ورنہ یہی نہیں کہ وہ عبادت ہونے سے نکل جاتی ہے بلکہ گناہ بڑے گناہ اور بعض دفعہ کفر اور سلبِ ایمان کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔

نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور تمام فرائض، واجب، سنت و مستحب عبادتوں کے لیے شرائط و آداب ہیں۔ اسی طرح ذکرِ مبارک کے چونکہ بہت سے شعبے ہیں، ہر ہر شعبہ کے شرائط و آداب ہیں۔ ان کے خلاف کرنا حسبِ مرتبہ جرم بن جاتا ہے اور جو مخالفت توہین کا سبب ہوتی ہے وہ تو اسلام و ایمان کو سلب کرلینے اور کفر میں داخل ہونے کا سبب ہوجاتی ہے۔ اس لیے ہر عبادت کے لیے اور خصوصاً اس عبادت کے لیے جو تمام عبادتوں کی جامع اور میزانِ کُل ہے، شرائط و آداب کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اور ہر ایسی بات سے بچنا ہے جس سے توہین ہوکر گناہِ عظیم یا کفر تک نوبت پہنچتی ہے۔

فقہائے احناف نے تصریح کی ہے کہ بے وضو قصداً نماز پڑھنا کفر ہے، قصداً قبلہ کی طرف پشت کرکے نماز پڑھنا کفر ہے، حرام پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا کفر ہے، قرآن مجید کی تلاوت باجوں کے ساتھ کفر ہے، نعت شریف باجوں کے ساتھ کفر ہے، اذان یا قرآن کا گانا ، تالیاں بجانے کے ساتھ کفر ہے ، وغیرہ وغیرہ۔

راز یہ بتایا گیا ہے کہ عبادت کو حرام یا گندگی سے متصل کرنا کفر ہے۔ ان سب باتوں میں حرام یا ممنوع شے سے ایک عبادت کو ملا کر اس کی توہین کی گئی ہے، اس لیے کفر ہے۔ نتیجہ آپ خود نکال لیجیے کہ اس لذیذ ترین عبادت کو بھی اگر کسی گناہ سے ملوث کیا جائے تو وہ کیا ہوگا اور بجائے کارِ خیر بننے کے کس قدر کارِ شر بن جائے گا۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عبادت کو حرام اور ظاہری و معنوی گندگیوں سے پاک کرکے پوری پوری طرح پورے پورے ذرائع سے ادا کریں۔

ذکرِ رسولﷺ کے مروجہ غلط طریقے

اب عرض کیا جاتا ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ اس عبادت کی ادائیگی میں کس قدر قصور اور کوتاہی کر رہے ہیں یا کس قدر گستاخی و بے ادبی کا ارتکاب کر رہے ہیں تاکہ سب لوگوں کو ان سے بچنے کا اہتمام ہو سکے۔

ذکرِ رسولﷺ کی وسعت آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اس کی ادائیگی کی وسعت آپ کے سامنے آچکی ہے۔ اس کے شعبوں کے مدارج بعض فرض، بعض واجب، بعض سنت، بعض مستحب، بعض اصل مقصود، بعض تابع، یہ سب آپ ملاحظہ کر رہےہیں۔ اب صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر شعبہ کو حسب درجہ مکمل طریقہ سے ادا کیا جائے۔ بعض لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں کہ فرض و واجب کا قطعاً اہتمام نہیں کرتے، ایک امرِ مستحب کو نہایت مہتم بالشان بنالیتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک نہیں۔ بعض لوگ حضورﷺ کے غیر اختیاری اعمال کا تو ذکر کرتے ہیں اور اختیاری اعمال کا ذکر تک نہیں کرتے۔ اس میں نفس و شیطان کی آمیزش معلوم ہوتی ہے کہ عمل میں مشقت ہے اور غیر اختیاری کے ذکر کرنے اور سن لینے میں لذت ۔ وہ اس طرح عمل کی بات پر پردہ ڈالتا اور اس سے محروم کرتا ہے۔ بعض لوگ دل، دماغ کی بات روح اور اعضاء کے ذکر کرنے کو بیان بھی نہیں کرتے نہ اس کی ضرورت سامنے لائی جاتی ہے۔ حالانکہ اصل ذکرِ رسولﷺ اختیاریات اور ان تمام کا کام ہے۔ بعض لوگ احکام و تعلیم و تلقین کے عمل بلکہ بیان کو بھی ذکرِ رسولﷺ کے خلاف قرار دیتے ہیں، یہ ان کی کوتاہ فہمی ہے۔ بعض لوگ بعض غیر اختیاری امور کے کرنے کو عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سخت ترین شیطانی حملہ ہے کہ یہ ذکر محض مستحب ہے، تمام عمر بھی نہ ہونے سے نجات میں خلل نہیں، تمام عمر ہونے پر فرائض و واجب کے خلل کے وقت عذاب سے بچا نہیں سکتا۔ یہ عیسائیوں کی طرح مذہب کو فضول قرار دینے جیسا ہوگیا۔

کسی نبی یا ولی کا دن منانا ہندوانہ اور مشرکانہ رسم ہے

وہ حضرت عیسیٰ﷤ کو کفارہ قرار دے کر تمام جرائم کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ بعض لوگ سارا سال سو کر صرف ربیع الاول میں جاگتے ہیں اور کچھ ذکرِ رسولﷺ کرتے ہیں لیکن ذکرِ رسولﷺ کی وسعتوں کا تقاضا ہے کہ کامل ذکرِ رسولﷺ ہر ہر وقت کا کام ہے، کوئی سیکنڈ بھی اس سے خالی رہنا صحیح نہیں۔ پھر کسی دن یا وقت کو معین کرنا، اس کو ضروری اور افضل قرار دینا، دونوں باتیں بغیر شریعت کے بتائے جرم ہیں۔ بعض لوگ عید یا ڈے23 مناتے ہیں، یادگار قرار دے کر کرتے ہیں تو اسلام میں یادگار اور ڈے کی کوئی اصلیت نہیں، ورنہ حضورﷺ انبیاء سابقین﷩ کی اور صحابہ﷢ حضورﷺ کی، یا سنہ ۶۰۰ھ سے پہلے کوئی مسلمان تو مناتے۔ یہ ہندوؤں اور انگریزوں سے لی ہوئی رسم محض ہے اور ان کی مشابہت سے جرم ہے۔ بعض لوگ بطور کھیل تماشے کے کرتے ہیں حالانکہ یہ عبادت کی سخت گستاخی ہے۔ فقہاء نے بطور کھیل تماشا کھانا کھانے اور پانی پینے تک کو منع لکھا ہے۔ بعض لوگ جلسہ و جلوس انگریزی طور طریق سے نکالتے ہیں۔ مشابہتِ کفار کی آلودگی سے آلودہ کرنا سخت بے ادبی ہے۔ بعض لوگ جھنڈیاں لگا کر انگریزوں کی نقالی کا جرم کرکے عبادت کو اس سے ملوث کرتے ہیں۔ ایسے ہی بعض لوگ ہندوؤں کی دیوالی کی طرح چراغاں کرکے کافرانہ رسم سے آلودہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ ذکرِ رسولﷺ کی نظموں کو گا کر پڑھتے ہیں حالانکہ شریعت میں گانا حرام اور حرام سے ملوث کرنا بڑا جرم ہے۔ بعض لوگ سڑکوں اور بازاروں میں ذکرِ رسولﷺ کرتے ہوئے چلتے ہیں جس کو حضورﷺ نے شرالبقاع بدترین جگہ فرمایا۔ اس طرح عبادت کی بڑی بے ادبی ہے۔

عید میلاد النبیؐ یا بارہ وفات منانے کی خرابیاں

بعض لوگ ۱۲ ربیع الاول کو عید قرار دیتے ہیں حالانکہ یہی تاریخِ وفات ہے۔ اول تو عید بے اصل پھر یومِ وفات میں بعض لوگ جھوٹی اور غلط روایات بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھ پر جان کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ قرار دے۔ بعض لوگ عورتوں سے نظم پڑھواتے ہیں، بعض کم عمر بے ریش لڑکوں سے پڑھواتے ہیں۔ یہ گانا حرام ہے اور غیر محرم اور ایسے لڑکوں سے پڑھوانا گناہ ہے۔ بعض لوگ باجے بھی ساتھ لگاتے ہیں جن کے ساتھ عبادت کو فقہاء نے کفر لکھا ہے۔ بعض لوگ روحِ مبارک کے آنے کا یقین رکھتے ہیں، بلا شرعی دلیل یہ خیال گناہ ہے اور عقلاً ناممکن بھی ہے کہ بوقت واحد لاکھوں جگہ آنا ہے۔ بعض لوگ ذکرِ خاص پر قیام کرتے ہیں حالانکہ حضورﷺ نفسِ نفیس کے لیے قیام کرنا ناگوار سمجھتے تھے، اس لیے صحابہ﷢ نہیں کرتے تھے۔ تو یہ ہر وقت ناگواری پیدا کرتے اور تکلیف دیتے ہیں۔ اگر ذکرِ قیام پسند ہوتا تو نماز میں درود و قیام ہوتا نہ کہ قعدہ24 میں۔ بعض لوگ محض نام و نمود شہرت کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ یہ سب گناہ ہے اور عبادت کی روح خلوص غائب کرنے کا جرم ہے وغیرہ وغیرہ۔

حاصل یہ ہے کہ عبادت کو ان کفار کی مشابہت اور حرام یا ناجائز امور سے آلودہ کرکے کرنا عبادت کی توہین یا سخت گستاخی و بے ادبی ہوتی ہے۔ ان سب باتوں سے بچ کر اس عبادت کو انجام دیا جائے اور ناقص طریقے سے نہیں، کامل عبادت اور کامل طریقوں سے انجام دینا ہی اس کے منافع کا حاصل کرنا ہے۔ اوپر کے بیان میں غور کرنے سے آپ معلوم کرسکتے ہیں کہ اس عبادت کے اجزاء میں اگر بعض کو اختیار کرنا ہی ہے تو اہم ترین کو اہم درجہ دے کر اور اس سے کم کو کم۔

ورنہ ہر ہر مسلمان کے لیے ذکرِ رسولﷺ پورا پورا پوری طرح اور تمام ذرائع سے ہر وقت ہر سیکنڈ ہونا ضروری ہے۔ یہی فلاح و کامیابی کا چودہ سو سالہ کامیاب اور کیمیاوی نسخہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی پوری شکل سے ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔

٭٭٭٭٭


1 ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا۔‘‘ (سورۃ الشرح: 4)

2 حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ بھیجا ان میں ایک پیغمبر۔‘‘ (سورۃ آل عمران:164)

3 بلند درجات

4 پاکیزہ روح

5 ہر وقت اس بات کا خیال رہنے کی طاقت کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔

6 ساری مخلوق کے متبوع

7 اللہ تعالیٰ

8 اٹھنا بیٹھنا

9 بادشاہوں کو پیغامات

10 احسان ماننا

11 دل سے برائیوں کو نکالنا

12 ذرائع

13 ذکر کی گئی

14 جڑ اور اصل

15 چمکیلا

16 دوری

17 ملنے

18 تعظیم کے لائق

19 بے انتہا

20 بے کار

21 شاہ عبدالقادر جیلانیؒ

22 گرداب

23 دن

24 التحیات کے بعد

Previous Post

گیارہ ستمبر کے حملے…… حقائق و واقعات | پہلی قسط

Next Post

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق

Related Posts

ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

پیغمبر ﷺ کا حُسن و جمال

15 نومبر 2024
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

محمد رسول اللہ ﷺ

15 نومبر 2024
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

مروجہ طریقے سے میلاد منانا شرعاً درست نہیں!

15 نومبر 2024
بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
اداریہ

بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا

28 ستمبر 2023
بدگمانی اور اس کا علاج | دوسری (آخری) قسط
تزکیہ و احسان

بدگمانی اور اس کا علاج | پہلی قسط

28 ستمبر 2023
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

علاماتِ کبریٰ: آخری سات نشانیاں | تیرھواں درس

28 ستمبر 2023
Next Post
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version