اصل خیرخواہی کیا ہے اور ہم خیرخواہی کس کو سمجھتے ہیں، اپنی اولاد،بھائی، دوستوں اور نسلِ نو کے حق میں ہماری کیا چیز بھلائی ہے، ہمدردی ہے، ان کے اوپر شفقت ہے اور کیا چیز ان کے حق میں فی الحقیقت زیادتی ہے، یہ جانچنے کے لیے آئیے سیرتِ رسول ﷺ کے ایک اہم پہلو پر غور کرتے ہیں۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی کتابِ عظیم میں گواہی دی ہے، اعلان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت پر بہت زیادہ شفیق اور مہربان ہیں۔ ملاحظہ ہو کہ اس تعبیر کو اللہ سبحانہ ٗ وتعالی نے کس شدت کے ساتھ اور کتنے مؤثر انداز میں بیان فرمایا ہے، اللہ کا فرمان ہے:
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
فرماتے ہیں: ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ﴾ تمہارے پاس اللہ کے رسول ﷺ آئے ہیں، جو تم ہی میں سے ہیں، تمہاری ہی طرح گوشت پوست کے ہیں، جس طرح تمہیں دکھ درد ہوتاہے، اسی طرح آپﷺ بھی اسے محسوس کرتے ہیں، لہٰذا یہ نہ سمجھو کہ وہ تمہارا درد محسوس نہیں کرتے۔ پھر فرمایا: ﴿عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ﴾ جو چیز تمہیں تکلیف دے،وہ آپﷺ پر بہت شاق ہوتی ہے، آگے فرمایا: ﴿حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ﴾ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لیے بہت حریص ہیں۔ آپﷺ چاہتے ہیں کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ سبحان اللہ! یہ فرمانے کے بعد، اللہ سبحانہٗ وتعالی مزید تاکید کرتے ہیں: ﴿بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ مومنین پر آپ بے حد مہربان اورانتہائی شفیق ہیں۔ ﷺ!
اب آئیے! ذرا قرآن میں اس آیت کریمہ کے موقع محل اور پھر آپ ﷺ کی سیرت پر غور کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے جس آیت میں یہ بلیغ اور انتہائی عظیم گواہی دی ہے، یہ سورۂ توبہ کی آخری آیات میں سے ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ التوبہ اور الانفال، دونوں ساتھ جڑی سورتیں ہیں، جو ایک دوسرے کا حصہ سمجھی جاتی ہیں اور یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ مضمون کے لحاظ سے دونوں کا ایک ہی موضوع ہے، ’جہاد وقتال‘۔ نبی ﷺ کا صحابۂ کرام کو جہاد پر نکالنے، جن صحابہ نے قتال میں آپﷺ کا ساتھ دیا ان کی تعریف کرنے، جن افراد نے بلا عذر شرعی پیچھے بیٹھنے کو ترجیح دی، ان کی مذمت کرنے، انہیں وعید سنانے اور جہاد و قتال ہی سے متعلق دیگراہم امور کا اس میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس پورے مضمون کا خاتمہ پھراس اعلان پر ہوتا ہے کہ آپﷺ صحابہ پر بہت زیاد ہ مہربان اور شفیق ہیں۔ گویا جس عملِ جہاد کی ان آیات میں تحریض دی گئی ہے اور آپ ﷺ نے جو تمہیں اس کے کٹھن راستوں پر ڈالا،یہ سب تمہارے ساتھ خیر خواہی ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپﷺ تم پر بہت زیادہ شفیق ہیں۔ آپ ﷺ نے صحابۂ کرام پر کس انداز میں یہ شفقت فرمائی، چند مناظر یہاں ملاحظہ ہوں:
یہ میدان بدر ہے، آپﷺ نے مشرکین کے ہزار، کیل کانٹے سےلیس جنگجوؤں کے مقابل اپنے محض تین سو تیرہ صحا بہ کو لاکھڑا کر دیا ہے۔ صحابہ کی تعداد بھی انتہائی کم ہے اور ان کے پاس ہتھیار بھی برائے نام ہیں۔سورۃ توبہ کی آیت بتاتی ہے کہ آپﷺ کا اپنے صحابہ کو مدینہ کی راحت چھڑ واکر دشمن کی تلواروں اور نیزوں کے سامنے لاکھڑا کرنا اور بظاہر موت کے منہ میں انہیں لےجانا، یہ آپﷺ کی صحابہ کے ساتھ خیر خواہی ہے بدخواہی نہیں۔
بدر کے صرف ایک سال بعد، غزوۂ احد میں آپﷺ نے صحابۂ کرام کو جب میدان کارزار میں اتارا تو اُس وقت پوری امت ہی کی تعداد کل کتنی تھی؟ بہت کم، مگر اس کے باوجود آپﷺ سات سو صحابہ کرام کے ساتھ مشرکین مکہ کے تین ہزار جنگجوؤں پر مشتمل لشکرِجرار کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ نتیجے میں فقط ایک دن کے اندر، بلکہ چند لمحوں میں ستّر صحابہ شہید ہوگئے اور اس سے کہیں زیادہ تعداد ان کی زخمی ہوگئی۔ شہداء میں آپﷺ کے انتہائی محبوب چچا سیدنا حمزہ، مصعب بن عمیر، عبداللہ بن جحش اورسعدبن ربیع انصاری رضی اللہ عنہم جیسے عظیم صحابہ شامل ہیں، دیگر شہداء میں بھی ہر ایک اپنی جگہ انتہائی قیمتی ہیرا تھے۔
اُحد کے اس میدان میں دل کے یہ ستّر ٹکڑے دفن کر نے کے بعد جب یہ قافلہ مدینہ منورہ لوٹا، تو آپﷺ نے پہنچتے ہی اعلان کروایا کہ ہتھیار نہیں اتارنے، آرام نہیں کرنا، بلکہ دشمن کے خلاف ایک دفعہ پھر میدان میں نکلناہے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ صرف وہ صحابہ ہی ساتھ چلیں جو ابھی جنگ سے واپس لوٹے ہیں، گویا جواُحد میں ساتھ نہیں تھے، وہ ابھی ساتھ نہ نکلیں!
سبحان اللہ! اس اعلان کے بعد کیا ہوا؟ وہ جو بری طرح تھکے ہوئے تھے، جن کے زخم خوردہ جسموں کو ابھی آرام کی ضرورت تھی، انہوں نے یہ پکار جب سنی تو درد و الم کا خیال نہیں رہا۔ جسم بوجھل، قوت مضمحل، ایک اور جنگ کے لیے جانا۔ مگر انہیں کوئی چیزبھی بیٹھنے پر مجبور نہ کرسکی، وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ مرہم جو ابھی زخموں پر لگ بھی نہیں سکا تھا، پھینکا گیا اور یوں دکھوں اور زخموں سے چُوریہ قافلہ دوبارہ جنگ پر آمادہ،انتہائی کٹھن سفر کے لیے چل پڑا۔
اس لشکر میں دو انصار ی بھائیوں کا واقعہ بھی سیرت کی کتابوں نے نقل کیا ہے1سیرۃ ابن ہشام، یہ دونوں شدید زخمی ہیں۔ ان کے پاس پہلے ایک سواری تھی مگر وہ بھی احد میں کام آگئی، اب سواری بھی نہیں، اوردونوں کے زخم بھی معمولی نہیں، بہت گہرے ہیں۔ اعلان سن کر یہ دونوں بھی کھڑے ہوگئے، جس بھائی کے زخم زیادہ گہرے ہیں، وہ گرنے لگتاہے تو دوسرا بھائی، اسے پیٹھ پر اٹھاکر آگے بڑھتاہے، یہ اٹھانے والا خود بھی ضعیف، زخمی اور تھکا ہوا ہے، مگر بھائی کو اٹھاکر تھوڑا آگےلےجاتاہے۔ جب اُس کی طبیعت چلنے کے قابل ہوجاتی ہے تو وہ خود چلنا شروع کرتاہے، مگر آگے جب پھر سے وہ گرنے لگتاہے تو زخمی بھائی دوبارہ اپنی پیٹھ پیش کرتاہے۔ اس حال میں یہ آٹھ میل کا سفر طے کرکے حمراءالاسدپہنچتے ہیں۔ تصور کریں، اس قافلے کو اس حالت میں لےجانا، جنگ کے ایک میدان سے نکال کر اسی وقت دوسرے میدان میں اسے اتارنا۔ یہ عمل بھی آپﷺ کا رحم تھا، یہ شفقت تھی اور اس کا سبب امتیوں کے ساتھ آپﷺ کی خیرخواہی ہی تھا۔
حمراء الاسد ہی کا ایک اور واقعہ، ایک دوسرامنظر ملاحظہ ہو۔2سیرۃ ابن ہشام جب یہ لشکر مدینہ سے نکلنے لگا تو حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے۔ پوچھا: یارسول اللہﷺ میں بھی ساتھ چلوں؟ میرے والد اُحد میں شہید ہوگئے ہیں، جاتے وقت انہوں نے مجھے میری بہنوں کے ساتھ چھوڑا تھا، کہا تھا عورتوں کو اکیلے چھوڑنا مناسب نہیں، اباجی شہید ہوگئے، اب میں اکیلاہوں، مگر میں نہیں چاہتا کہ آپ ﷺ تو جنگ پر نکلیں اور پیچھے میں گھر بیٹھا رہوں! سبحان اللہ! ذرارکیے، سوچیے! احد میں جابر رضی اللہ عنہ شریک نہیں تھے، اب اصولاً آپؓ کونکلنا نہیں چاہیے تھا، خود آپﷺ نے اعلان کروایا تھا کہ جو احد میں شریک نہیں ہوئے، وہ اب ساتھ نہ نکلیں، دوسرا یہ کہ اُحد جاتے وقت والد نے انہیں بہنوں کے ساتھ جب چھوڑا تھا، تو اب تو والد شہید ہوگئے، اب تو گھر میں ان کی پہلے سے زیادہ ضرورت تھی، مگر اس کے باوجودجابر رضی اللہ عنہ کو دیکھیے کہ وہ نکلنے کی اجازت مانگ رہے ہیں! اور اس کے بعد آپﷺ کی طرف بھی نظریں اٹھایےکہ آپﷺ نے کیا جواب دیا؟ آپﷺ نےجابر رضی اللہ عنہ کی طرف التفات کیااور فرمایا ’آؤ جابر! ساتھ چلو!‘ اجازت دےدی گئی!
عمر وابن الجموح رضی اللہ عنہ معذور تھے، آپ ؓکی ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی اور یہ لنگڑاہٹ بھی کم نہیں، بہت زیادہ تھی، آپ کے چار ایسے خوش نصیب جوان بیٹے بھی تھے جو رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک رہتےتھے، اُحد کی طرف نکلنے کا وقت آیاتو عمر و ابن الجموح رضی اللہ عنہ نے پیچھے رہنا گوارا نہیں کیا، بیٹوں نے سمجھایا بجھایا، منع کیا،کہا کہ ’ہم کافی ہیں، ہم آپﷺ کے ساتھ جارہے ہیں، آپ معذور ہیں، آپ کو نہیں نکلنا چاہیے‘۔ حضرت عمرو نہیں مانے اور اپنی بات، مطالبے پر مُصر رہے، قضیہ آپﷺ کے پاس لایا گیا، آپﷺ نے حضرت عمرو سے فرمایا: ’’آپ کا تو عذر ہے، اللہ نے آپ سے جہاد کی فرضیت ساقط کر دی ہے۔‘‘، جبکہ ان کے بیٹوں کی طرف رُخ کر کے فرمایا: ’’آپ کو انہیں روکنا نہیں چاہیے، کیا پتہ اللہ انہیں شہادت سے سرفراز کردیں‘‘، یوں حضر ت عمرو بن الجموح رضی اللہ عنہ جیسے معذور شخص کو بھی آپ ﷺ نے اپنے ساتھ شاملِ جنگ کیا اور وہیں پر آپ رضی اللہ عنہ لیلائے شہادت سے جا ملے۔ آپﷺ نے ان کی شہادت کے بعد فرمایا ’’میں دیکھتاہوں کہ وہ اپنی لنگڑی ٹانگ کے ساتھ جنت میں چل پھررہے ہیں!‘‘
غزوہ مؤتہ میں دیگر صحابہ کے ساتھ جعفر طیار رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے، آپﷺ جعفررضی اللہ عنہ کے گھر اطلاع دینے آئے، ان کے بچوں کو سینے سے لگایا، رخسارِ مبارک پر آنسو بہہ رہے ہیں، جعفرؓ کا فراق چھوٹاغم نہیں تھا، ابھی تھوڑا ہی عرصہ پہلے توآپؓ حبشہ سے لوٹے تھے جہاں آپؓ نے دس سال گزارے تھے۔ خیبر کی فتح کے دن جب آپ رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا، مجھے نہیں معلوم کہ خیبر کی فتح پر مجھے زیادہ خوشی ہے یا جعفرؓ کی واپسی پر۔ مگر جیسے ہی جہاد کا موقع آیا،دس سال بعد آئے ہوئے اس جگر کے ٹکڑے کوآپ ﷺ نے اپنے پاس نہیں رکھا، بلکہ رومیوں کے ایک عظیم لشکر کے خلاف روانہ کردیا، کیوں؟ اس لیے کہ آپﷺ اپنے صحابہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے بہت حریص تھے۔
سورۃ التوبۃ میں اُن تین صحابہ کا بھی ذکر ہے جوغزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ یہ جلیل القدر صحابہ اس سے پہلے کسی اہم غزوے سے پیچھے نہیں رہے تھے۔ رسول کریم ﷺکو ان کے ایمان و اخلاص پر کوئی شک نہیں تھا۔مگر یہ کیا کہ آپﷺ نے ان کے ساتھ قطع تعلق کردیا، صحابہ کو بھی امر ہوا ’ ان کے ساتھ بات نہ کریں‘، چالیس دن تک مکمل سوشل بائیکاٹ رہا! صحابہ کے بیچ رہتے ہوئے بھی یہ تین صحابہ بالکل تنہا ہوگئے تھے، حضرت کعبؓ مسجد نبوی آتے ہیں، نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو آپﷺ کی نظریں ان پر جمی رہتی ہیں، آپﷺ انہیں دیکھتے ہیں، مگر سلام پھیرتے ہی آپﷺ منہ دوسری طرف پھیرلیتے ہیں، بیویوں تک کے متعلق بھی حکم دیا گیا کہ ان سے جدا ہوجائیں۔ زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود ان کے لیے تنگ ہوگئی تھی۔ کیوں؟ کیا غلطی سرزد ہوئی تھی ان سے؟میدان ِ جہاد سے پیچھے رہ جانا کوئی کم بڑی غلطی نہیں تھی!
یہ چند واقعات نہیں! رسول کریم ﷺکی پوری سیرت گواہی دیتی ہے کہ آپﷺ نے امت کو جہاد وقتال کا کٹھن راستہ اپنانے کا حکم دیا، اسے فرض قرار دیا، اس کی محبت کو دنیا و مافیہا کی محبت پر ترجیح دینے کادرس دیا، اور خود عملی نمونہ بن کر انہیں اس انتہائی مشقت بھری راہ پر چلایا اور ان کی قیادت کی۔ ایک طرف سیرت کا یہ پہلو ہے، یہ پیغام ہے، جو واضح اور اظہر من الشمس ہے۔ دوسری طرف قرآن کی یہ آیت ہےکہ رسول اللہ ﷺ امت پر شفیق و رحیم ہیں اور اہل ایمان کے لیے بہت زیادہ حریص ہیں، یہ دو پہلو کیسے ایک دوسرے کی تشریح کرتے ہیں؟
مفسرقرآن امام رازی رحمہ اللہ اس متعلق لکھتے ہیں:
’’ (سورۂ توبہ کی اس آیت میں )اللہ فرماتاہے کہ رسول اللہﷺ امت پر شفیق و رحیم ہیں جبکہ دوسری طرف یہی سورۃ بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو (جہاد و قتال کے) ایسے کٹھن اعمال پر ڈال دیا جو صرف وہ لوگ ہی کرسکتے ہیں جنہیں اللہ توفیق عطا فرمائیں، (اب اس کا کیا معنی ہے؟) یہ معنی سمجھنے کے لیے ہم ایک ماہر طبیب اور شفیق والد ہی کی مثال سامنے رکھیں، آپﷺ نے صحابہ کرام کو ان کٹھن راہوں پر ڈالا ہی اس لیے کہ انہیں ہمیشگی کے عذاب سے نجات مل جائے اور دائمی اجر و ثواب والی کامیابی انہیں نصیب ہو۔‘‘3تفسير: مفاتيح الغيب
اہل ایمان کو جہاد فی سبیل اللہ جیسی مشقت میں ڈالنا آپ ﷺ کی عین خیر خواہی ہے، یہ فرد ِ مسلم پر بھی آپﷺ کی شفقت واحسان ہے اور پوری امت پر بھی۔ ظاہر ہے کہ کسی کام کی مشقت و راحت دیکھ کر اس کے فائدہ ونقصان کا فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ نتائج ہوا کرتے ہیں جو اس کے مفید و مضر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ﴿وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ ﴾4سورۃ البقرۃ: ۲۱۶؛ ترجمہ: ’’ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور دراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھاسمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہو ‘‘۔ دنیا میں بھی کیا کوئی ایک بھی ایسی اعلیٰ خیر و کامیابی ہے جو بغیر محنت ومشقت کے مل جاتی ہو؟
ہمارے لیے آج سیرت کا یہ پہلو سمجھنا اس لیے مشکل ہے کہ ہم نے دنیا وی سودوزیاں کو ہی اصل خیر وشر سمجھا ہوا ہے،حالانکہ دنیا کی زندگی کل کتنی ہے ؟ یہ دنیا تو دارالامتحان ہے، اس چار دن کی زندگی کی خیر یا اس کا شر موت کے بعد معلوم ہوگا اور اگر ہم نے دنیا کی راحت، اس کے عارضی فائدے اوراس کی ترقی کو اپنا اصل مطمح نظر سمجھ لیا تو یہ ہماری آخری حد تک کوتاہ نظری ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے لامحدود احسانوں میں سے ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے امت کو کوتاہ نظری کی ذلت میں گرنے سے بچایا اور نظر کی ایک ایسی بلندی اس کو عطا کردی جو اس کو حیوانات کی سطح سے اٹھاکر اشرف المخلوقات کے مقام ِ عظیم پر پہنچاتی ہے، دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے، آپﷺ نے اس کے مقابل حب الٰہی اور فکرآخرت دلوں میں بٹھائی اور یہ عظیم درس بھی پھر امت کو دیا کہ دین کی محبت، اللہ، رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت ہر دوسری محبت سے اگر زیادہ نہ ہو تو یہ وہ بدترین سودا ہے جو بدترین اور ناقابل تلافی تباہی اپنے پیچھے لاتا ہے۔
آپﷺ کا فرمان ہے:
مَنْ خَافَ أَدْلَجَ، وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ الْجَنَّةُ (الترمذی و صحیح ابن حبان)
’’جس کو ( نقصان کا) ڈر ہو، وہ رات (کے آغاز میں ہی ) سفر شروع کردیتاہے، اور جو آغازِ شب میں روانہ ہوتاہے وہ منزل پر پہنچ جاتاہے، سن لو! اللہ کا سودا قیمتی ہے، سن لو! اللہ کا سودا جنت ہے۔‘‘
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت، اللہ کی رضا اور اس کی دائمی جنتیں،کیا یہ سب کچھ ان کی قیمت ادا کیے بغیر مل جائیں گی؟ ان کی قیمت کیا ہے؟ یہ قیمت اپنا تن من دھن، اللہ کے حوالے کرنا اور اس کے راستے میں قتل کرنا اور قتل ہونا ہے:؎
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ (سورۃ التوبۃ: ۱۱۱)
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں۔‘‘
جس وقت دین وامت کی حالت گھر سے نکلنے کا تقاضا کر تی ہو، راہ جہاد پر جب نکلنے کی بار بار نفیر (پکار) دی جا تی ہو، ایسے حال میں بھی جب پیچھے بیٹھنا گوارا کیاتاہے تو اللہ رب العزت نے ایسے بیٹھ جانے والوں کو ہی تنبیہ دی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(سورۃ التوبۃ: ۳۸، ۳۹)
’’ اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو ؟ (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو؟ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔ اگر تم نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا (جو خدا کے پورے فرمانبردار ہوں گے) اور تم اسکو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے۔ اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ‘‘
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں راہ جہاد کی اہمیت اس حقیقت کو بالکل واضح کرکے چھوڑتی ہے کہ اسلام و کفر میں فرق کلمہ طیبہ کرتاہے جبکہ ایمان ونفاق کے بیچ فرق جہاد فی سبیل اللہ سے ہوتاہے،سورۃ توبہ ہی میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
﴿ لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ﴾ (سورۃ التوبۃ: ۴۴، ۴۵)
’’ جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تم سے اجازت نہیں مانگتے (کہ جہاد سے پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور خدا پرہیزگاروں سے واقف ہے۔ یہ اجازت تو تجھ سے وہی طلب کرتے ہیں جنہیں نہ اللہ پر ایمان ہے نہ آخرت کے دن کا یقین ہے، جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے شک میں ہی سرگرداں ہیں ‘‘۔
آج اس راستے پر نہ نکلنے اور دنیا کے ساتھ چمٹ جانے کی قیمت پوری کی پوری امت چُکا رہی ہے، اللہ سبحانہٗ وتعالی کا فرمان ہے: ﴿ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ﴾ اگر تم اہل ایمان ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ہو، جہاد وہجرت کی راہوں پر اگر قدم نہیں رکھتے ہو، تو پھر جان لو! زمین پر فتنہ اور فساد کا غلبہ ہوگا، شرک،ظلم اور گمراہی پوری کی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لےگا۔ آج کا فتنہ وفساد کوئی معمولی نہیں،جس بھرپور انداز میں یہ پوری دنیا پر مسلط ہورہاہے، تاریخ ِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ غزہ کو جہنم بنادیا گیا، اس کا تو نام لیتے اب دل کانپ جاتاہے، کیوں؟ امت کی یہ بدترین حالت آخر کیوں بن گئی؟یہ اللہ کانام لینا، دین وشریعت کی بات کرنا جرم عظیم کیوں بن گیا ؟یہ شر اور اہل شر ہر جگہ غالب جبکہ خیر مغلوب کیوں ہوگئی ہے؟ سبب ایک ہے، اور وہ یہی کہ ہم نے خود اپنے ساتھ پہلے اورپھر ایک دوسرے کے ساتھ، خیر خواہی کو بدخواہی اور شفقت و ہمدردی کو زیادتی و بے دردی کا نام دیا ہوا ہے۔
جہاد کی فرضیت کے متعلق آج کسی کو کوئی ابہام نہیں ہے،یہ حکم مزید کسی فتویٰ کا آج محتاج نہیں رہا، شرق و غرب کے معروف علمائے کرام تک بھی اب اس کی فرضیت کا اعلان کر چکے ہیں، اور جن وجوہات کے باعث یہ آج فرض ہے، غزہ وقدس کی حالت ِ زار ہو یا پوری امت کی صورتِ حال، یہ ببانگ دُہل ہر سننے والے کوپکارتی ہے، جھنجھوڑ تی ہے کہ اللہ کے دین کی خاطر لڑنا آج فرد فرد پر فرض ہوگیاہے اور اگریہ آج فرض نہیں تو پھر کب ہوگا؟ ایسے حالات میں پھر کیسے کوئی شک کرسکتاہے کہ اللہ کے ہاں کامیابی اور سرخروئی اس راہ ِپُرخطر پرقدم رکھے بغیر بھی مل سکتی ہے؟ جہاد کی یہ فرضیت ایسی حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کہ کوئی ایک بھی صاحبِ علم وتقویٰ آج اس کا رد نہیں کرسکتا۔ اور جب یہ حال ہے تو پھر ذرا ٹھہر کرسوچیے! آج کے اس دور میں، پھر وہ فرد، یا وہ قائد، ہمارا خیر خواہ ہوگا یابہت ہی بڑا بدخواہ جو ہمیں اس راہِ ناگزیر سے دور کرتاہو، لیت ولعل کرکے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتاہو اور اس کے برعکس ایسے راستوں پر ہمیں ڈالتاہو جس پر چلنا دین کا تقاضا نہ ہو؟
آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے:
“أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ “
ہم میں سے ہرفرد پہلے اپنے متعلق اللہ کو جواب دہ ہے اور پھر اس کے متعلقین اور حلقہ ٔ اثر کے بارے میں بھی اس سے بازپرس ہوگی، ایسے میں ہم میں سے ہر ایک پہلے خود اپنے گریبان میں جھانکے، پھر اپنے گھر، جماعت اور اُس حلقۂ اثر پر نظر ڈالے جہاں اس کی بات سنی جاتی ہے۔ اگر تو ہم نے امت کی اس نازک ترین حالت میں بھی جہاد و قتال سے اپنا آپ الگ رکھا، اپنی اولاد اور ساتھیوں کواس کی جگہ دیگر ایسی سرگرمیوں اور تحریکوں پر ڈالا ہو جن کی اس وقت دین و امت مطالبہ نہیں کرتی ہو، تو ہم اپنے اس طرزعمل کےلیے چاہے ہزار تاویلیں پیش کریں،لاکھ توجیہات بیان کریں، حقیقت یہی ہے کہ ہم اپنے ساتھ بھی مخلص نہیں اور اپنے متعلقین کے ساتھ بھی نہیں۔ رسول اللہﷺ سے زیادہ امت کا کوئی خیر خواہ نہیں! آپﷺ نے جب غلبہ دین کی خاطر اپنے محبوب ترین صحابہ کو موت کی وادیوں میں اتارا اور اس میں ان کی مشقت کی پروا نہیں کی،اپنے ہاتھوں سے ان کے جسم کے ٹکڑے تک جمع کیے، تو ہم جہاد وقتال سے لوگوں کو دور رکھ کر کس منہ سے اپنے آپ کو ان کا خیرخواہ اور ہمدرد کہتے ہیں؟ اگر جہاد وقتال آسان نہیں، یہ خطرات اور تکالیف سے بھرا راستہ ہے تو کیا یہ حقیقت ہم بھول گئے ہیں کہ جنت کو مشکلات نے گھیرا ہے جبکہ جہنم کو شہوات نے؟ آج اگر ہم نے محض اپنی راحت و خواہش کی پروا کی، ظلم وکفر کی ان بے رحم آندھیوں کے آگے کھڑ ے نہیں ہوئے،توسچ یہ ہے کہ اپنے آپ،اپنے پیاروں اور اپنی امت کے معاملے میں ہم سے زیادہ کوتاہ نظر،زیادہ خود فریب اورزیادہ بدخواہ کوئی نہیں۔
یہ وقت دین وامت کے ساتھ سردمہری، بے وفائی اور لاتعلقی کا متحمل نہیں۔ امتحان یہود و ہنود کا نہیں، ہم اہل اسلام کا ہے۔ اللہ کی وحدانیت اور اس کے دین کی نصرت کا دعویٰ ہم نے کیا ہے ان ظالموں نے نہیں کیا، دین اسلام کی خاطر قربانی دینے کا مطالبہ ہم سے ہے شیطان کے پجاریوں سے نہیں۔ آسمانوں سے ہماری کامیابی یا ناکامی دیکھی جارہی ہے، ان مغضوب علیہم اور ضالین سے بھی کیا کسی کو خیر کی امیدہے؟ اہل ایمان کے خلاف کفر کی جو ایک عالمی جنگ چھڑ چکی ہے اور جس نے آگے مزید سے مزید شدت اب اختیار کرنی ہے، اس سب کا فقط ایک ہی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ ہم میں سے کون اللہ کی جنتوں کی قیمت ادا کر رہاہے اور کون نہیں؟ کون ایمان کے دعویٰ میں مخلص ہے اور کون جھوٹا، فریبی اور دغابازہے؟ یہ سب فقط اس لیے ہورہاہے کہ ہم میں سے طیب اور خبیث، مومن اور منافق کوجدا جدا کیا جائے، دو الگ الگ خیموں میں بانٹا جائے، یہاں تک کہ پھر کسی کے پاس بھی اللہ کے ہاں پیش کرنے کو کوئی عذر باقی نہ رہے۔
آخر میں یہاں ایک عملی گزارش آپ کے سامنے رکھنا چاہتاہوں:
اس وقت نظری طورپر جہاد کی تائید وحمایت کافی نہیں ہے، آج ایک ہی طرز عمل مطلوب ہے اور وہ یہ کہ قافلہ ٔجہاد کو اپنا آپ سپرد کیا جائے،جس جہادی جماعت پر بھی اعتماد ہو، جس کے بھی مقصدا و رطرز عمل پر آپ کو اطمینان ہو، اسے اپنا آپ حوالے کیجیے، اپنی قوت، صلاحیت،ہنر اور وقت اس کےسپرد کیجیے، یہ بات کسی طورپر درست نہیں کہ ہم خیر کے کسی ایک کام میں اپنی مصروفیت دیکھ کر قافلۂ جہاد میں شامل ہونے سے اپنا آپ معاف سمجھ لیں۔ خیر و ثواب کا جو بھی کام ہو، تعلیم وتعلم ہو، دعوت وتزکیہ،خدمت خلق یا کوئی اور مطلوب ِ شریعت کام ہو، ان سب کا جہادی عمل کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں، بلکہ تحریک ِ جہاد کو ان تمام افعالِ خیر کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ کسی کارِ خیرکے لیے خود سے اپنا آپ وقف کردینا ایک صورت ہے اور اپنا آپ اُس کار ِ خیر سمیت جہاد کے لئے پیش کرنا اور نظم ِ جہاد کو اپنے متعلق فیصلے کا اختیار دے دینا،یہ دوسری صورت ہے،پہلی صورت کیسے صحیح ہوسکتی ہے جبکہ اہل جہادمستقل دُہائی دے رہے ہیں کہ تحریک جہاد کو آپ کی ضرورت ہے؟
تحریک جہاد کا بنیادی اور اہم کام دشمنانِ امت کے خلاف جنگ وقتال ہے، اس کے بغیر جہادی تحریک، جہادی نہیں رہتی،مؤثر و کامیاب نہیں ہوتی مگر اس کو فقط جنگی عمل ہی کی تحریک بھی نہ سمجھی جائے، اس لئے کہ یہ ایک ہمہ جہت و ہمہ گیر معاشرتی عمل کا بھی نام ہے۔جس قدر یہ معاشرے میں جڑیں گھسائے، عوام و خواص کے قلوب واذہان میں جگہ بنا لے، اُسی قدر یہ باطل قوتوں کے خلاف مؤثر قوت بن کر ابھرتی ہے اور اُس نسبت سے یہ خیر و حق کی نصرت کا اچھا وسیلہ پھر ثابت ہوتی ہے۔لہٰذا ہماری آپ کی خواہش جنگ وقتال میں صفِ اول پر لڑنا ہی ضروری ہے، یہ خواہش اور اس کی پرخلوص کوشش ہوگی تو ہم یہ فرض ادا کرپائیں گے اور اللہ کو راضی کرسکیں گے۔لیکن یہ بہرحال حقیقت ہے کہ تحریک جہاد عملِ قتال سے کہیں زیادہ وسیع عمل و میدان کا تقاضا بھی کرتی ہے اور اس انتہائی و سیع کام کے لیے امت کے ہر ہر فرد کی اس میں شمولیت ضروری ہے۔
اللہ ہم سے دین وجہاد کی خدمت و نصرت کا کام لے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی ذات، اولاد، ساتھیوں اور سب احباب و متعلقین کے لیے حقیقی خیرخواہ اور ہمدرد بن جائیں اور سیرت رسول ﷺ کے اصل پیغام کو اپنا حرزِ جاں بنائیں۔ اللہ ہماری نگاہیں دنیا کی آلائشوں سے اٹھاکر اپنی رضا اور جنتوں پر مرکوز کرلے اور اپنے محبوب بندوں سے جو کام لیتاہے، اس میں ہمیں قبول فرمائے، آمین ثم آمین!
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭
1 سیرۃ ابن ہشام
2 ایضاً
3 تفسير: مفاتيح الغيب
4 سورۃ البقرۃ: ۲۱۶؛ ترجمہ: ’’ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور دراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھاسمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہو ‘‘۔
- 1سیرۃ ابن ہشام
- 2سیرۃ ابن ہشام
- 3تفسير: مفاتيح الغيب
- 4سورۃ البقرۃ: ۲۱۶؛ ترجمہ: ’’ ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور دراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھاسمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لیے بری ہو ‘‘۔