محمدرسول اللہ ﷺ کا شجرہ نسب اس طرح ہے: آپ ﷺبن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد المناف بن قُصَیْ …… آپ ﷺقریشی اور ابراہیمی تھے۔
آپ ﷺ کا تعلق عرب کے مشہور شہر مکہ سے تھا جو کہ جزیرہ نما عرب میں واقع ہے(اس کا اکثر حصہ آج اس ریاست کی حدود میں واقع ہے جسے سعودی عرب کہا جاتا ہے)۔
بہت سے جغرافیہ دانوں، ماہرین ارضیات اور علم نجوم کے ماہرین کےمطابق مکہ دنیا کا مرکز ہے یا دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ مکہ تقریباً کرۂ ارض کے مرکز میں واقع ہے۔یہ ایک پہاڑی اور بنجر صحرائی علاقہ ہے جو زمانہ قدیم سے عربی النسل لوگوں کا مسکن ہے۔
پیغمبروں کے سردار سیدنا ابراہیم سے بھی پہلے عرب موجود تھے اور دور قدیم کی شاندار اور مضبوط تہذیب رکھنے والے بڑے بڑے قبائل یہاں آباد تھے۔
مؤرخین کے مطابق تمام قدیم عرب قبائل یا ان میں سے بیشتر اب معدوم ہو چکے ہیں اور ان کا وجود ختم ہو چکا ہے اور موجودہ عرب دیگر قبائل ہیں جنہوں نے عربی زبان قدیم قبائل سے سیکھی اور زیادہ تر عالی منصب پیغمبر اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں جو اسحاق کے بھائی اور ابراہیم کے بیٹے تھے۔
مشرق وسطیٰ کہلانے والے اس علاقے، کرۂ ارض کے مرکز اور پیغمبروں اور مقدس پیغامات کے گہوارے میں (صحیح لفظوں میں جزیرہ نما ئےعرب میں) ان لوگوں نے فطر ت کے قریب اور شہری زندگی کی پیچیدگیوں سے دور سادہ زندگی بسر کی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی فطرت اور ذہنیت میں میانہ روی کی بنا پر ان کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اور انہیں اپنی حیرت انگیز خصوصیات مثلاً، ایمانداری، صاف گوئی، وفاداری، فیاضی، حوصلہ، عزتِ نفس، ظلم و ذلت کے استبداد، انسان دوستی، مردانہ وار خصوصیات، وعدوں کی پاسداری، عزم و ارادے کی مضبوطی، عظیم ولولے، فصاحت، ہوشیاری، فنون سے رغبت، حافظے کی تیزی اور پختگی کی بنا پر امتیازی وصف سے نوازا گیا، حالانکہ یہ لکھنے کے فن سے نابلد تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت تھی کہ زمین کے اس خطے کوتمام آسمانی پیغمبروں اور صحیفوں کے لیے چن لیا گیا تھا۔
محمدﷺ تمام مسلمان مؤرخین (جو آپ ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور آپ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں) اور غیر مسلم مؤرخین (یہودی، عیسائی اور دیگر) کے نزدیک ایک عظیم انسان تھے۔ آپ ﷺ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے پانچ سو اکہتر برس بعد پیدا ہوئے اور یتیم بچے کی طرح پرورش پائی کیونکہ آپ ﷺ کے والد تب ہی وفات پا گئے تھے جب آپ ﷺ ابھی اپنی والدہ کے رحم میں تھے۔ بچپن میں ہی، چھ برس کی عمر میں، آپ ﷺ کی والدہ بھی وفات پاگئیں۔ اسی طرح اپنے دادا کی وفات کے بعدآپ ﷺ نے یتیم بچے کی حیثیت سے اپنے چچا کی زیر نگرانی پرورش پائی حتیٰ کے آپ ﷺ جوانی کی دہلیز پر پہنچ گئے۔
چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد، یعنی جب آپ ﷺ ایک مکمل آدمی بن گئے، زندگی اور اس کے تجربات سے واقف ہو چکے، شادی کرلی اور اپنے بچوں کی پرورش کرلی، معاشرے اور لوگوں سے آپ ﷺ اچھی طرح واقف ہو چکے اور معاشرہ اور لوگ آپﷺ سے متعارف ہو چکے تھے اور لوگوں کے درمیان آپ کا ایک مقام بن چکا تھا، ایک ایسا مقام جو تمام مؤرخین کے مطابق ایمانداری، اعتبار، ہوشیاری، پختہ ذہانت، خوش گفتاری، بہترین اطوار اوراعلیٰ اخلاقیات کے گرد گھوم رہا ہو۔ آپﷺ ایسی تمام خوبیوں سے سیر تھے جن کو پانے کے لئے انسان ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں مثلاً: فیاضی، ظلم و جبر اور ذلت کا انکار، ضرورت مندوں کا خیال رکھنا، کمزوروں سے ہمدردی کرنا، لوگوں کی مدد اور خدمت کرنا اور ان خامیوں، برائیوں اور قابل اعتراض خصلتوں سے پاک رہنا جنہیں تمام سمجھدار لوگ قابل نفرت گردانتے ہیں۔ ان سب کے باوجود آپ ﷺ بھی باقی سب کی طرح (اپنے وقت کے بیشتر لوگوں کی طرح) ناخواندہ اور پڑھنے لکھنے سے قاصر تھے۔
اس عمر تک پہنچنے کے بعدآپ ﷺ نے اعلان کیا کہ آسمان سے آپ ﷺ پر وحی نازل ہو ئی ہے اور اللہ تعالی ٰ نے ایک فرشتے کو آپ ﷺ کی طرف بھیجا ہے جو آپ ﷺ کو دین کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دنیا والوں کے لیے پیغمبر کے طور پر چن لیا ہے اور آپﷺ رسولوں اور پیغمبروں پر مہر ہیں جن کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا۔
پہلے پہل آپ ﷺ نے اپنی تبلیغ کا اعلان خفیہ طور پراپنے قابل اعتماد دوستوں، جاننے والوں اور رشتہ داروں کے سامنے کیا۔ مقامی آبادی کے مردوں اور عورتوں پر مشتمل ایک گروہ نے مثبت ردّ عمل کا اظہار کیا جس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے پیغام کی اعلانیہ تشہیر شروع کر دی۔
یہ وہ وقت تھا جب لوگوں نے آپ ﷺ کی دعوت کے خاتمے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہٹ دھرمی کے ساتھ آپ ﷺ کی مخالفت کی، جھوٹا ہونے کا الزام لگایا اور ہر طرح کے الزامات سے آپ ﷺ پر بوچھاڑ کر دی۔ انہوں نے آپ ﷺ کو (نعوذ باللہ) جادوگر، جھوٹا اور پاگل کہا۔ انھوں نے آپ ﷺ پر فصیح شاعر ہونے کی تہمت لگائی جو اپنے کلام سے لوگوں پر جادو کر دیتا ہو۔ اسی طرح انھوں نے بہت سی دوسری متنازع باتیں بھی آپ ﷺ سے منسوب کیں۔
ان لوگوں نے آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کیا، آپ ﷺ کی ساکھ اور احترام کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ جسمانی اذیت بھی دی۔ آپ ﷺ نے صبر کے ساتھ اللہ کے نازل کردہ پیغام کو پھیلانے کے لیے ان الزامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اگر آپ ﷺ نے یہ سب اتنے صبرو تحمل سے برداشت نہ کیا ہوتا اور انہی لوگوں میں سے اپنے حمایت کار نہ نکالے ہوتے تو یہ دعوت کبھی نہ پھیلتی۔
آپ ﷺ نے اپنے لوگوں کی طرف سے روا رکھے گئے ظلم و تشدد کا سامنا نرمی، عظمت، عفو و درگزر اور بردباری سے کیا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ آپ ﷺ کو صدمہ پہنچاتے، آپ ﷺ کے کمزور ساتھیوں کو جسمانی اذیت دیتے، مذاق اڑاتے اور مضحکہ خیز حرکتیں کرتے، بائیکاٹ کرتے اور ان کا محاصرہ کرتے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ ان کو نیکی کی دعوت دیتے اور جس پیغام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھیجا اس کی وضاحت فرماتے۔ آپ ﷺ نے انھیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی، جس کا کوئی ہمسر نہیں۔ آپ ﷺ نے انھیں ان کے آبا و اجداد کے معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا جنہیں وہ اللہ کا ہمسر ٹھہراتے یا اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے۔ آپ ﷺ نے انھیں نمازوں کی پابندی، زکوۃ کی ادائیگی، ایمانداری اور پاکیزگی، عہدو پیمان کی پابندی، قرض کی ادائیگی، امانت کی ادائیگی اور اپنی رشتہ داریوں کواستوار کرنے اور نیکی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا حکم دیا۔ ان کے نازیبا الفاظ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ ﷺ نے دن رات ان کو اس پیغام کی یاد دہانی کروائی اور ان کی بہتری چاہی۔ آپ ﷺ کی پکار میں یقینا سچائی تھی لیکن انسان عام طور پر اس شے کا مخالف ہو جاتا ہے جس سے وہ بے خبر ہوتا ہے۔
آپ ﷺ نے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بھلائی، عزت، شرافت اور خوشی چاہی جبکہ انھوں نے اپنے لیے خسارے کے راستے کا انتخاب کیا۔ ان کے سرداروں اور بڑوں نے اپنی تمام طاقت اور مال کے ساتھ آپ ﷺ کے خلاف رسوا کن جنگیں لڑیں اور آپ ﷺ کو بدنام کرنے کے لیے خبریں پھیلائیں۔
حقیقتاً ! آپﷺ کے دور کے زیادہ تر لوگوں نے بہت سی ایسی وجوہات کی بنیاد پر، جنہوں نے ان کو گھیر رکھا تھا، جہالت اور گناہ کے پردے کی اوٹ لے رکھی تھی۔ جیسا کہ موجودہ زندگی کے ساتھ پہلے سے موجود تصورات اور انسانی وجود کے حقیقی مقصد سے بے خبری۔ نیز اپنے بزرگوں اور راہنماؤں کی تابعداری اور اطاعت، حالات بدلنے کےنتائج کا خوف اور اپنی موجودہ صورت حال پر اکتفا کرنا۔ ان تمام غیر منصفانہ وجوہات کی بنیاد پر ان لوگوں نے تمام مواقع گنوا دیے۔ اگر ان میں سے کوئی آج زندہ ہو جائے اور ہم اس سے سوال کریں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے جرم اور مایوسی کی بے مثل حالت کو ہی بیان کرے گا۔
جہاں تک ان کے سرداروں اور بڑوں کا تعلق ہے تو اس بات کے خوف سے کہ اگر انھوں نے محمد ﷺ کی بات مان لی تو ان سے ان کی سرداری و قیادت چھن جائے گی، وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے تھے اور بے انتہا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن کیا اس چیز نے انہیں کوئی فائدہ پہنچایا؟ اب صدیوں بعد ہم ان لوگوں کو یاد کر رہے ہیں، آپ ﷺ کو یاد کر رہے ہیں اور یہ یاد کر رہے ہیں کہ اس وقت کیا ہوا تھا؟ ان میں سے کون فاتح اور ہمیشہ کے لیے سر خرو ہوا، اور کون شکست خوردہ اور لعنت کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے بدنام ہوا؟
محمد ﷺ پر جیسے جیسے وحی تھوڑی تھوڑی کر کے نازل ہوتی رہی درجہ بدرجہ اپنی تبلیغ کا اعلان جاری رکھا۔ آپ ﷺ لوگوں کو سچے دین کی تعلیم دیتے رہے۔ ایک ایسی تعلیم جو رحم، انصاف، سخاوت، بھلائی، عقلمندی اور اصلاحی خصوصیات اپنے اندر سموئے ہوئےتھی، اس پیغام کو، جو ہر نیکی کا حکم دیتا اور ہر برائی سے روکتا تھا، پاکیزہ نفوس نے پسند کیا۔ آپ ﷺ نے اس دعوت کو اس وقت تک جاری رکھا جب تک آپ ﷺ اپنی قوم کے اسلام لانے سے مایوس نہیں ہوگئے۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ کو قتل کرنے کی سازشیں کیں، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی جہاں آج آپ ﷺ کا روضہِ مبارک اور مسجد موجود ہے۔
مدینہ میں کئی عرب قبائل آباد تھے، جن میں سے کچھ لوگ حج کے دنوں میں مکہ آنے کے دوران آپ ﷺ کو دیکھنے اور سننے کے بعد آپ ﷺ کی دعوت پر ایمان لا چکے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں جو دعوت دی تھی اس پر پختہ ایمان کی وجہ سے یہ لوگ ہر طرح سے آپ ﷺ کی مدد کرنے کے لیے پرجوش ہوگئے۔ اسی لیے انھوں نے آپ ﷺ کو اپنے شہر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دی، جہاں آپ ﷺ رہ سکیں اور وہ لوگ آپ ﷺ کی مدد کر سکیں، آپ کو پناہ دیں سکیں اور آپ ﷺ وہاں سے اپنی دعوت کو پھیلا سکیں۔
محمد ﷺ نے فی الواقع ہجر ت کی اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ لہذا مردوں، عورتوں اور بچوں نے اپنے دین کی خاطر ہجرت کی۔ ان لوگوں کے ہجرت کرنے کا کوئی ذاتی، دنیاوی، معاشی، سیاسی یا کوئی اور سبب نہ تھا سوائے اس دین کے جس پر وہ ایمان رکھتے تھے اور اسے اللہ کے پیغام کے طور پر جانتے تھے۔ وہ اللہ جس نے انھیں پیدا کیا اور انسان بنایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ صرف اس کی عبادت کریں، اور وہ انھیں دنیا کی آزمائشوں کے ذریعے پرکھ رہا تھا۔
ان سادہ عرب قبائل کے نہ ہی کوئی اعلیٰ سیاسی عزائم یا توسیع پسندانہ منصوبے تھے اور نہ ہی کوئی ایسی قابل ذکر تہذیب تھی جس کا دنیا کی تہذیبوں میں آج کوئی ذکر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقت کے متعلق ان کے پختہ یقین اور حتمی سچائی پر ان کے عقیدے نے ان کی روحوں اور فطرت پر گہرا اثر ڈالا اور جس رد عمل کا انہوں نے اظہار کیا، بہت سے مورخین کے مطابق پہلے پیغمبروں کے چند پیروکاروں کے علاوہ اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
وہ شہر جہاں آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی، جہاں مہاجرین اور انصار دونوں رہتے تھے محمد ﷺ نے اس شہر کو اپنی حکومت کا مرکز بنایا۔ یہاں آپ ﷺ نے آزادی سے حق کا پیغام پھیلایا اور اپنے پیروکاروں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات ترتیب دیے۔ اللہ کے حکم اوراس کی وحی کی روشنی میں ان کے لیے ایسی قانون سازی کی اور شرعی احکام مرتب کیے جن سے وہ بتدریج لوگوں کے نظریات، عقائد اور معاشرتی زندگی میں رفتہ رفتہ اپنی جگہ بناتے گئے۔
آپ ﷺ اپنی آبائی قوم (قریش) کے ان لوگوں کے ساتھ، جنہوں نے آپ ﷺ کو اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، ایسی جنگوں میں داخل ہوئے جن میں آپ ﷺ نے اپنے چھوٹے اور محدود لشکر کے ساتھ ان پر فتح پائی۔آپ ﷺ اور قریش کے درمیان پہلی جنگ، جنگ بدر تھی جس کو مسلمانوں کی زندگیوں میں اہم مقام حاصل ہے اور یہ جنگ تاریخ اسلام کا ایک اہم جز ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور ان کے درمیان یکے بعد دیگرے کئی جنگیں ہوئیں، کیونکہ ان (کفار) نے آپ ﷺ کو، آپ ﷺ کی تبلیغ کو، آپ ﷺ کے پیروکاروں کو اور آپ ﷺ کی قائم کردہ اسلامی حکومت کو ختم کرنے کی بھر پور کوششیں کیں یہاں تک اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی مدد فرمائی اور آپ ﷺ نے دشمن کو شکست دے کر ان کے دارالحکومت کو فتح کر لیا جو ان کا آبائی وطن تھا جس سے انھوں نے آپ ﷺ کو نکال دیا تھا، یعنی مکہ جو کہ دنیا کا مرکز ہے۔
آخر کار آپ ﷺ کی اپنی قوم کے ان لوگوں کے ساتھ جنگوں کا اختتام ہوا، جو عربوں میں نسب کے لحاظ سے اعلیٰ اور محترم مقام کے حامل تھے کیونکہ یہ مکہ کے رہائشی اور کعبہ کے متولی تھے، جو کہ اللہ کا قدیم اور مقدس گھر تھا جسے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے تعمیر کیا تھا۔
اس پس منظر میں تقریباً پورا جزیرہ نمائے عرب دینِ محمد ﷺ کے دائرے میں داخل ہو گیا، وہاں کے تمام لوگ آپ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ ﷺ کی پیروی کی۔ دوسرے لفظوں میں تمام عرب، کیونکہ اس دور میں جزیرہ نمائے عرب کی حدود سے باہر عرب آباد نہیں تھے۔
پھر محمد ﷺ نے دوسری ریاستوں کے بادشاہوں کوخطوط بھجوانا شروع کیے جن میں انھیں دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پرایمان لانے کا کہا گیا، جو کہ آپ ﷺ پر نازل کیے گئے تھے۔
آپ ﷺ نے بازنطینی، رومی سلطنت کے بادشاہ، فارس کے بادشاہ اور دوسرے بادشاہوں کو خطوط بھجوائے۔
اسی اثنا میں نبی ﷺ وفات پا گئے اور آپ ﷺ ذاتی طور پر ان بڑی سلطنتوں کے ساتھ منطقی برتاؤ کرنے تک زندہ نہ رہ سکے۔
اسلامی شریعت کی بنیادیں اور اصول جن کے ساتھ آپ ﷺ کو بھیجا گیا، ان کی روشنی میں خلافت سنبھالنے، یعنی آپ ﷺ کے بعدانتظامی امورچلانے کے لیے حاضرین نے آپ ﷺ کے دوست اور نائب سیدنا ابو بکر صدیق کا انتخاب کیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق آپ ﷺ کے رفقاء میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والے اور سب سے زیادہ قریبی ساتھی، عزیزومحبوب، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تمام ضروری خصوصیات اور خوبیوں کے مالک تھے۔
چنانچہ آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں اور اسلامی حکومت کی بنیادیں قائم رہیں، جب بھی کسی خلیفہ کی وفات ہوتی تو دوسرا ان کی جگہ لے لیتا، یہاں تک کہ مسلمانوں کے درمیان جھگڑوں اور خانہ جنگیوں کا آغاز ہو گیا، جو کئی برس تک جاری رہنے کے بعد صلح اور امن سے اختتام پذیر ہوئیں۔ اس کے بعد ایک خلیفہ نے حالات کے پیش نظراجتہاد کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ اس وقت سے اسلامی تاریخ میں موروثی بادشاہت کا آغاز ہوااور اسلامی تاریخ میں یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔
تاریخ کا پہیہ چلتا رہے گا جب تک کہ دنیا کے اختتام کا وقت نہ آن پہنچے، اسی لیے مسلمانوں کی تاریخ میں بھی مختلف ادوار آتے رہے، کچھ ان کے حق میں اچھے تھے اور کچھ اتنے اچھے نہ تھے۔ ان (بادشاہوں) میں سے کچھ نے دین اسلام اور نبی ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور کچھ نے دین کو نظر انداز کیا اور صرف دین کا نام اور مقصودِ اصلی کے بغیر صرف چند نعروں کو استعمال کیا۔
امت مسلمہ اپنی تاریخ میں سیاسی، فوجی، معاشی، ثقافتی، سماجی، نظریاتی، سائنسی اوردیگر مراحل میں کئی طاقتور اورکمزور ادوار سے گزری ہے۔
تاریخ میں ایک وقت وہ بھی تھا جب امت مسلمہ نے دنیا پر حکومت کی اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ دنیا نے انصاف، رحم دلی اور سخاوت کا مزہ چکھا۔ یہ وہ تین صفات ہیں جن کے متعلق غیر جانبدار تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ صفات سوائے اسلامی دورِ حکومت کے، کبھی دنیا میں اکٹھی نہیں پائی گئیں۔
خلفاء میں سے نیکوکار لوگوں نے محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، اسلام کو پھیلایا اور لوگوں کو اس کی دعوت دی، اور دنیا کے بہت سے ممالک کو دین اسلام کے ذریعے فتح کیا۔ تاریخ میں ان کی فتوحات اور توسیعات منفرد ہیں۔ وہ فتوحات کسی معاشی سبب، سیاسی مفادات کی غرض سے، نفسیاتی خواہش کی تسکین یا کسی بدلے کے لیے نہ تھیں، بلکہ یہ دینِ حق کو اور اس اچھائی کو پھیلانے کے لیے تھیں جو نبی ﷺ لائے تھے۔ کمزوروں اور مظلوموں کو ہر ایسی طاقت سے، جو ان سے انتخاب کا حق چھین لیتی تھی، آزادی دلوا کر یہ اختیار مکمل طور پر انھی کو سپرد کردیا کہ وہ چاہیں تو اس کو اپنالیں اور چاہیں تواس کو چھوڑ دیں۔
بالآخر بہت سی وجوہات کی بنیاد پر مسلم مملکت کمزور پڑ گئی اور کئی وجوہات کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی جن میں سے بعض یہ ہیں: غرور، خود غرضی، بڑے بول، حصولِ شہرت، اپنے لئے بڑے بڑے القابات اور ناموں پرفخرکرنا، خواہشات نفس اور ہوس کے احساسات میں کھو جانا۔ اس کے علاوہ ان میں وہ خامیاں آچکی تھیں جو قوموں کے زوال کا باعث بنتی ہیں۔
تاہم امت مسلمہ ان تمام کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود، جن سے وہ متاثر ہوئی تھی، مجموعی طو پر عزم وحوصلے کے ساتھ ان اصولوں، بنیادوں اور عملی ڈھانچے کے ساتھ مضبوطی سے چمٹی رہی جو نبی ﷺ لائے تھے۔ تاہم آج اپنے درمیان سے نئی تبدیلیوں کے ابھرنے اور سختیوں، جارحیت، ظلم وتشدد کا مزہ چکھنے کے بعد، جو کہ خاص طور پر یورپیوں نے روا رکھا، مسلمان اپنی حالت زار اور اپنے ارد گرد موجود دنیا سے پھر سے واقف ہوئے اور یہ جان لیا کہ انھوں نے بہت سی چیزوں کو نظر انداز کر دیا تھا اور وہ اقوام کے مابین ترقی کی راہ میں پیچھے رہ گئے ہیں، تو اس احساس نے انھیں ہلا کر رکھا دیا، اور سالوں کی پڑی یہ گرد اور بے قراری اب دور ہو گئی اور وہ ایک بار پھر(انسانیت کی) راہبری کرتے نظرآ رہے ہیں۔ یہ شعور و آگاہی ایک نشاط ثانیہ کی گواہی دے رہی ہے۔
دعوتِ محمد ﷺ پرایک نظر:
محمد ﷺ لوگوں کے پاس آئے اور ان سے کہا:
’’میں تم سب کی طرف اللہ کے دین اسلام کے ساتھ اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یہ وہی دین ہے جو مجھ سے پہلے اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کا بھی تھا۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمام پیغمبر آپس میں بھائی ہیں۔ ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہےاور ہمارا لایا ہوا دین بھی ایک ہی ہے۔ یہ دین اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی ہمسر نہیں، ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کے ساتھ کسی شے کو لائق عبادت سمجھتے ہیں بلکہ ہم اس کے سوا ہر معبود کی تکفیر کرتے ہیں۔ پس اللہ کے سوا ہر وہ چیز جسے پوجا جاتا ہے وہ باطل خدا ہے جو کہ عبادت کے لائق ہی نہیں۔ صرف اللہ عزوجل ہی عبادت کے لائق ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔
یہ میرے لائے ہوئے دین کی بنیاد اور پیغام ہے۔ یہی دین مجھ سے پہلے آنے والے تمام رسولوں اور پیغمبروں کا دین ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں۔ یہ دین لوگوں کو اللہ کے پیغمبروں اور ان پر نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اور ان کے درمیان فرق کرنے سے منع کرتا ہے کہ بعض پر ایمان لایا جائے اوربعض پرایمان نہ لایا جائے، بلکہ اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ یہ ایمان رکھا جائے کہ وہ سب سچے ہیں اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔
تمام پیغمبروں کا یہی دین تھا اور انہوں نے لوگوں کو یہی دعوت دی تھی کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائےاور دوسروں کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
جہاں تک قوانین، دستوروں اور ضابطوں کی بات ہے تو یہ ہر رسول کے لائے ہوئے پیغام میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر عبادات کے ادا کرنے کے ضوابط مختلف ہو سکتے ہیں جیسا کہ نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ کا طریقہ، وقت، تعداداور مقدار میں فرق ہو سکتاہے۔ نیز حلال اور حرام میں تبدیلیاں ہو سکتیں ہیں۔ کچھ قوانین ایک رسول کے پیغام میں دوسرے رسول کے لائے ہوئے پیغام سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو کسی خاص چیز سے منع فرماتا ہے جبکہ باقی تمام رسولوں کے پیغام میں منع نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ تمام حکمت کا مالک ہے اور ہمارے لیے بہتری، رحمت اورفلاح چاہتا ہے۔
پہلے رسول صرف اللہ کی طرف سے اپنی اپنی قوموں کی طرف بھیجے گئے، لیکن محمد ﷺ جو اللہ کا آخری پیغام لائے فرماتے ہیں، ’’میں اللہ کا آخری رسول ہوں جو کہ تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں، تمام رنگ و نسل کے لوگ چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، تب تک کے لیے جب تک یہ دنیا فنا ہو کر اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ اسی لیے میرا پیغام آخری ہے چونکہ اس کے بعد اور کوئی پیغام نہ آئے گا اس لیے یہ کامل، انتہائی وسیع، اور بہت جامع پیغام ہے اور ساتھ ہی یہ بہت واضح، آسان اور سب سے زیادہ کامل خصوصیات رکھنے والا ہے‘‘۔ اس لیے دنیا پر بسنے والے ہر انسان کو محمد ﷺ اور جس پیغام کے ساتھ اللہ نے ان کو بھیجا ہے اس پرایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ محمد ﷺ پر ایمان لائے اور جو پیغام وہ لائے ہیں اس کی پیروی کرے اور ایسا کرنے سے ہی وہ مسلمان ہو گا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کسی سے کچھ اور قبول نہیں کرے گا۔
عیسیٰ کے پیروکار یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم عیسیٰ کے پیروکار ہیں اور عیسیٰ اور ان کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی ہمارے لیے کافی ہے، کیونکہ ایسا کہنے سے وہ محمد ﷺ کو جھٹلانے اور ان کی تکذیب کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پس جو کوئی بھی اللہ کے ایک بھی رسول یا پیغمبر کا انکاری ہوتا ہے تو وہ اللہ کا انکاری ہوتا ہے، جس نے انہیں بھیجا۔
اے کمزور، بے بس تخلیق کردہ انسان! تیرے بس میں نہیں کہ تو اللہ کے بھیجے ہوئے پیغام سے انکار کرے یا یہ کہے کہ میں اس رسول یا پیغام کو تسلیم نہیں کرتا۔
تیرے سامنے صرف دو ہی معاملے ہیں:
یا تو تم محمد ﷺ پر اور ان کے لائے ہوئے اللہ کے پیغام پرایمان لے آؤ اور اس کی پیروی کرو جو وہ لے کر آئے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’یہ پیغام اللہ کا آخری پیغام ہے، پس جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرے گا وہ کالعدم اور باطل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ صرف اسی پیغام کے مطابق ہونے والی عبادات قبول فرمائے گا۔‘‘
یا تو تم محمد ﷺ کا انکار کرو اور ان کی تردید کرو اور کہوکہ (نعوذ باللہ) آپ ﷺ جھوٹے ہیں، اللہ نے آپ ﷺ کو نہیں بھیجا ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کا حکم دیا ہے!
اگر دوسرا معاملہ ہے تمہاری دو حالتوں میں سے ایک حالت ہوگی:
یا تو تم ہدایت نہیں چاہتے، نہ اسے تلاش کرتے ہو اور نہ ہی اس کی کوئی پرواہ کرتے ہو۔ تمہاری تمام ترتوجہ، تمہارا مقصد اور تمہاری اولین ترجیح صرف اپنی خواہشات کی تکمیل، عیاشی کرنا اور اپنے دنیاوی اور مادی معاملات کو طے کرنا ہے، اس صورت میں تم ایک ایسے شخص ہو جو غفلت اور نشے سے صرف بستر مرگ پر پہنچ کر جاگتا ہے، جبکہ اس وقت کا شعور کسی کام کا نہیں کیونکہ امتحان کا وقت ختم ہو چکا ہو تا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی قوت والی اور عظیم ذات کے غصے اور سزا کے حقدار ہیں، اور ان لوگوں کا انجام آگ ہے۔
یا تم کہتے ہو کہ میں نے تلاش کیا لیکن محمد ﷺ کو اللہ کا رسول ماننے کا کوئی ثبوت نہیں پایا، جس کا ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ کیا تم نے پیغمبرعیسیٰ کے رسول ہونے کا کوئی ثبوت پایا، جس کا تمہارے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) وہ اللہ کے بیٹے ہیں؟ کوئی ایسا ثبوت ہے جس سے تم کسی بھی نبی کی نبوت کا ثبوت پیش کر سکو جس پر تم یقین رکھتے ہو؟ اس ثبوت کا اطلاق محمد ﷺ پر بھی اسی طرح ہوتا ہے۔
اپنے آپ سے پوچھو! مثال کے طور پر کیا تم نے نوح، ابراہیم، موسیٰ، داؤد یا سلیمان یا عیسیٰ کی نبوت کی پڑتال کی ہے (یا ان میں سے کسی کی بھی جسے تم نبی مانتے ہو)؟ اگر ایسا ہے، تو تم اسے کیسے ثابت کر سکتے ہو؟ اگر ایک بارتم نے اسے ثابت کر دیا، تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہی ثبوت محمد ﷺ کی نبوت کو بھی ثابت کرتا ہے اور وہ اس کے زیادہ لائق ہیں۔ مزید ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اس ثبوت کو بغور دیکھو، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اگر تم چاہتے ہو کہ تم ان لوگوں میں سے ایک ہوجاؤ جو آخرت میں کامیاب ہوں گے تو تمہیں اس معاملے میں تحقیق کرنی اور علم حاصل کرنا چاہیے۔ اس ہمیشہ رہنے والے معجزے قرآن کو دیکھو اور اسے پڑھو، جس میں ہدایت اور (علم کی) روشنی موجود ہے۔ پھر اس سوال کا جواب دوکہ کیا یہ کسی انسان کا بیان ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی فانی چیز اسے بنا سکتی تھی؟ اس نظام کو دیکھو جو آپﷺ لائے ہیں اور دیکھو کہ آپ کس چیزکی طرف بلاتے ہیں اور کس سے روکتے ہیں۔ آپﷺ کے دین اور شریعت میں موجود حکمت، بھلائی، انصاف اور درستگی کو دیکھو اور قانون، اور اس کے مضبوط شواہد اور منطق میں موافقت اور ان کی راست بازی دیکھو۔آپ ﷺ کی زندگی اور مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھو اور اچھائی، پرہیزگاری، پاکیزگی، علم، حکمت، لگن اور نیکی کو دیکھو جو آپ کا خاصہ ہے۔
خلاصۂ کلام:
اسلام کہتا ہے کہ یہ زندگی جو ہم گزار رہے ہیں (جسے وہ دنیا کہتا ہے جو کہ ہماری پہلی قیام گاہ ہے) یہ عارضی اور ختم ہو جانے والا مسکن ہے اور یہاں ہم ہمیشہ نہیں رہیں گے، نہ ہی ہم اس میں رہنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، بلکہ ہم اس میں سے گزر کر اسے پار کرنے کے لیے اور اس میں مقدس احکامات اور تفویض شدہ (فرائض) کاموں کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ جہاں تک ابدی اور دائمی ٹھکانے کی بات ہے تو دائمی ٹھکانا وہ ہے جو موت اور حیات بعد از موت کے آگے ہے اور اس میں یا تو لوگ دائمی سعادت حاصل کریں گے یا مسلسل تکلیف دہ سزا پائیں گے۔ یہ حقیقی امتحان، آزمائش اور ذمہ داری ہے۔
ہمیں اللہ نے پیدا کیا ہے اور اس دنیا کو ہمارے لیے پیدا کیا پھر ہمیں اس میں بھیجا، تاکہ ہم آزمائے جائیں کہ ہم میں سے کون کسی کواللہ کا شریک ٹھہرائے بغیر اس کی عبادت کرتا ہے، اس کا حکم مانتا ہےاور اس کے پیغمبروں اور کتابوں کی پیروی کرتا ہے، اور ہم میں سے کون ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتا اور اپنے اعمال ان باتوں سے الگ رکھتا ہے۔ یہ بہت بڑا سچ ہے اور اگر آپ اس کو سمجھ جائیں تو آپ سکون پاجائیں گے اور بہت سے معاملات کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے، پھر نہ ہی آپ کو دین کی اصل روح تک رسائی حاصل کرنے میں دقت ہو گی جو اللہ کو پسند ہے اور جس میں اس کی خوشنودی ہے، نہ ہی آپ اس عارضی ٹھکانے اور اس دنیا کی آرائشوں سے دھوکہ کھائیں گے۔
مثال کے طور پر آپ جان جائیں گے کہ اللہ کے نزدیک اور اس کی مخلوق میں سے اس کے ذہین ترین پیروکاروں کے مطابق ایک مفلس مسلمان جو افریقہ کے صحراؤں کو اپنا گھر کہتا ہے اور جو دنیا کے تمام معیارات کے لحاظ سے پسماندہ ہے، افریقہ میں قحط، غربت یا بیماری سے اس حال میں مرتا ہے کہ اس سچے عقیدے پر قائم ہے تو وہ ہر اس کروڑ پتی سے بہتر ہے جس کا اللہ پر ایمان نہیں، جس کا محمدﷺ پر ایمان نہیں اور وہ جو سکینڈی نیویا یا لاس اینجلس میں رہتا ہے اور ہر طرح کے دنیاوی تعیش سے لطف اندوز ہوتا ہے مگر اس حال میں مرتا ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح نہیں۔
اس اثنا میں اسلام نہ تو یہ کہتا ہے کہ آپ جاہل اور غریب بن جائیں، نہ یہ کہ بھوک اور بیماری سے مرجائیں، اس کے برعکس اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ مضبوط، مکمل اور جامع بن جاؤ۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ اپنی جائیداد اور دولت چھوڑ دیں۔
سب سے اہم آخرت اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ جہاں تک عارضی دنیا کا تعلق ہے، اس کی اہمیت حساب میں نظر انداز کئے گئے اعداد و شمار جتنی ہے (یعنی نہ ہونے کے برابر )۔
اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو کیا پسند ہے، نہ کہ وہ جو ہم خود اپنے ذہنوں سے تجویز کرتے ہیں۔ ہمارا ذہن ہمارے لیے اللہ کی رحمت ہے جو کہ اس لیے عطا کیا گیا کہ ہم اسے استعمال کر کے حق کو، سچائی کو پا سکیں اور یہ جان سکیں کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ لہذا اگر ہم اس کو اللہ کے حکم کے خلاف استعمال کریں، تو پھر ہم نے اسے غیر قانونی طریقے سے استعمال کیا ہے جو کہ غلط نتیجے کی طرف لے جاتا ہے۔
الحمدللہ الذی تتم الصالحات
٭٭٭٭٭