آپﷺ کے حقوق میں جو امت کے ذمہ ہیں جن میں ام الحقوق1 محبت و متابعت فی الاصول والفروع2 ہے۔ جاننا چاہیے کہ کسی سے محبت ہونا اور اس محبت کا مقتضا متابعت ہونا تین سبب سے ہوتا ہے۔ ایک کمال محبوب کا، جیسے عالم سے محبت ہوتی ہے، شجاع سے محبت ہوتی ہے اور دوسرا جمال، جیسے کسی حسین سے محبت ہوتی ہے۔ تیسرا نوال یعنی عطا و احسان، جیسے اپنے منعم و مربی سے محبت ہوتی ہے۔ جناب رسولﷺ کی ذاتِ مقدسہ میں تینوں وصف علی سبیل الکمال مجتمع ہیں۔ وصف اول سے یہ تمام رسالہ مشحون3 ہے۔ دوسرا وصف فصل اکیسویں میں مخزون4 ہے اور چونتسویں فصل لانے سے مقصود خاص تیسرے وصف کا مضمون ہے۔ جب تینوں وصف جو علت و محبت ہیں آپﷺ میں جمع ہیں تو خود اس کا طبعی مقتضا ہے کہ آپﷺ کے ساتھ امت کو اعلیٰ درجہ کی محبت ہونی چاہیے اگر نص شرعی5 بھی نہ ہوتی۔ اور جبکہ نصوصِ شریعہ بھی اس کے ایجاب میں موجود ہیں تو داعی عقل و طبع کے ساتھ داعی شرعی بھی مل کر آپﷺ کے وجوبِ محبت کو پختہ کرتا ہے اور درحقیقت اعظم غایت6 اس رسالہ کی اسی امر کی طرف اہلِ ایمان کو متوجہ کرنا ہے اور یقینی امر ہے کہ ان اسبابِ دواعی کے ہوتے ہوئے محبت کے اتباع کا انفکاک7 عادۃً محال ہے۔ جس درجہ کی محبت ہوگی اسی درجہ کا اتباع ہوگا اور ظاہر ہے کہ محبت علیٰ سبیل الکمال8 واجب ہے۔ پس متابعت بھی علیٰ سبیل الکمال واجب ہوگی اور اس میں گو کسی کو بھی کلام نہیں ہو سکتا محض تجدید استحضار کے لیے مختصر طور تنبیہ کردی گئی اور اسی کی تقویت کے لیے چند روایات بھی ذکر کی جاتی ہیں۔
پہلی روایت: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد اور تمام آدمیوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ روایت کیا اس کو بخاری و مسلم کذا فی المشکوٰۃ۔ یعنی اگر میری مرضیات میں تزاحم9 ہوتو جس کو ترجیح دی جاوے اسی کے محبوب ہونے کی یہ علامت ہوگی۔
دوسری روایت: امام بخاریؒ نے ایمان و نذور میں عبداللہ بن ہشام سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ میرے نزدیک ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں بجز میرے نفس کے جو میرے پہلو میں ہے (یعنی وہ تو بہت ہی محبوب ہے)۔ جناب رسولﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک خود اس کے نفس سے بھی زیادہ اس کو میں محبوب نہ ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی کہ آپ میرے نزدیک میرے اس نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں جو میرے پہلو میں ہے۔ جناب رسولﷺ نے فرمایا کہ بس اب بات ٹھیک ہوئی۔ کذ افی المواہب۔ حضرت عمرؓ نے اول محبت بلا اسباب کو محبت بالاسباب سے اقویٰ سمجھ کر نفس کو مستثنیٰ کیا پھر آپ کے ارشاد سے کہ نفس سے بھی زیادہ محبوب رکھنا ضروری ہے، یہ سمجھ گئے کہ اقویٰ ہونے کا مدار کوئی ایسا امر ہے کہ اس کے اعتبار سے کوئی چیز نفس سے بھی زیادہ محبوب ہوسکتی ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ کی خوشی کو نفس کی خوشی پر طبعاً مقدم و راجح پایا سو اس حقیقت کے انکشاف کے بعد آپ کی اجیت من النفس10 کا مشاہدہ کیا اور خبر دی۔ اور مواہب کے مقصد سابع میں دوسرے صحابہؓ کی بھی حکایتیں محبت کی عجیب و غریب ذکر کی ہیں۔
تیسری روایت: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی، مگر جس نے میرا کہنا قبول نہ کیا۔ عرض کیا گیا کہ قبول کس نے نہیں کیا۔ فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے قبول نہیں کیا۔ روایت کیا اس کو بخاری نے کذا فی المشکوٰۃ۔ صحابہؓ کے اس سوال سے معلوم ہوا کہ یہ اباء11 مخصوص بہ کفر12 نہیں ہے ورنہ اس میں کون سا خفا تھا۔ پس آپﷺ کا اتباع نہ کرنے کو اباء سے تعبیر فرمایا گیا۔ اس سے متابعت کا وجوب ثابت ہوا۔
چوتھی روایت: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ روایت کیا اس کو ترمذی نے کذا فی المشکوٰۃ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علامت آپﷺ کی محبت کی آپﷺ کی سنت کی محبت ہے اور آپﷺ کی محبت کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ مفتاحِ جنت ہے اور جنت کے ساتھ حضورﷺ کی معیت کا بھی موجب ہے۔
پانچویں روایت: حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو جناب رسولﷺ نے شراب پینے کے جرم میں سزا دی پھر وہ ایک دن حاضر کیا گیا پھر آپﷺ نے حکم سزا کا دیا۔ ایک شخص نے مجمع میں سے کہا کہ اے اللہ! اس پر لعنت کر، کس قدر کثرت سے اس کو (اس مقدمہ میں) لایا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر لعنت مت کرو، واللہ میرے علم میں یہ اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ روایت کیا اس کو بخاری نے۔ اس حدیث سے چند امور ثابت ہوئے۔ ایک بشارت مذنبین13 کو کہ ان سے اللہ و رسول کی محبت کی نفی نہیں کی گئی۔ دوسری تنبیہ مذنبین کو کہ نری محبت سزا سے بچنے میں کام نہ آئی تو کوئی اس ناز میں نہ رہے کہ بس خالی محبت بدون اطاعت کے سزائے جہنم سے بچا لے گی۔ البتہ بعد بعید من الرحمۃ14 سے بچا سکتی ہے کہ نہی عن اللعنۃ سے معلوم ہوا۔ پس جو سزا آخرت کی اس ملعونیت پر مرتب ہے یعنی خلود15 اس سے یہ محبت بچا لے گی، بعد سزا کے مغفرت ہو جائے گی۔ تیسری فضیلت محبت کی جیسا کہ ظاہر ہے۔ چوتھا، تفاوت مراتب محبت کا کہ باوجود ایک عصیان16 کے اثبات محبت کا حکم فرمایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ متابعت کامل نہ ہونے سے گو کمال محبت کا حکم نہ ہوگا مگر نفس متابعت سے کہ ادنیٰ درجہ اس کا کفر سے نکلتا ہے کوئی درجہ محبت کا ثابت کیا جاوے گا۔ پانچویں، مومن خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو مگر اس پر لعنت نہ کرنا چاہیے۔ اس سے عظمت ثابت ہوتی ہے اللہ اور رسولﷺ کی محبت کی کہ اس کا ایک شمہ17 بھی گو مقرون بالمعاصی18 ہو مانع عن اللعنۃ19 ہے۔ تو اس کا کامل اور خالص درجہ کیسا کچھ موثر ہوگا۔
جرعہ خاک آمیز چوں مجنون کند
صاف گر باشد ندانم چوں کند20
یا سائرا نحو الحمی باللہ قف في بانہ
واقرأ طوا میر الجوی منی علی سکانہ
اے جانے والے بجانب گیاہ زار کے اللہ کے لیے اس کے باغ درخت بان میں ذرا ٹھہرنا اور میری طرف دفاترِ غم اس کے رہنے والوں میں پڑھ کر سنانا
اي تسئلو عن حالتي في السقم منذ فقدتھم
فالقلب في خفقانہ والرأس في دورانہ
اگر وہ میری حالت بیماری کے بارے میں دریافت کریں جب سے میں ان سے غائب ہوا ہوں پس قلب اپنے خفقان میں ہے اور سر اپنے دوران میں ہے
ان فتشوا عن دمع عیني بعدھم قل حاکیا
کالغیث في تھتانہ والبحر في ھیجانہ
اگر وہ میرے اشکِ چشم کے متعلق اپنے بعد کے زمانہ میں تحقیق کریں تو بطور حکایت کے کہنا کہ مثلِ ابر کے ہے اس کے برسنے میں اور مثلِ بحر کے ہے اس جوش میں
لکنہ مع ماجري مشغوف حب المصطفی
فخیالہ في قلبہ وحدیثہ بلسانہ
لیکن وہ محب باوجود اس تمام تر ماجرے کے فریفتہ ہے عشقِ مصطفیٰﷺ کا پس آپ کا خیال اس کے قلب میں ہے آپ کا تذکرہ اس کی زبان پر ہے
ولطالا یدعو لحاحا في الدعاء مبالغاً
لیطوف في بستانہ ویشم في ریحانہ
اور بہت زمانۂ طویل سے دعا کر رہا ہے اور دعا میں الحاح و مبالغہ کر رہا ہے تاکہ وہ آپ کے باغ میں طواف کرے اور آپ کے ریحان سے خوشبو سونگھے
یا من تفوق أمرہ فوق الخلائق في العلا
حتی لقد أثنی علیک اللہ في قرآنہ
اے وہ ذات پاک جن کا رتبہ تمام خلائق پر بلندی میں فائق ہوگیا یہاں تک کہ آپ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن میں ثنا فرمائی
صلی علیک اللہ أخر دھرہ متفضلا
مترحما وحیالک الموعود من أحسانہ
اللہ تعالیٰ آپ پر درود نازل فرماوے زمانہ کے اخیر تک تفضل کرتا ہوا اور ترحم فرماتا ہوا اور آپ کو اپنے احسانات موعودہ عطا فرماوے
بعض حکم درود شریف
بعد بیانِ فضیلت کے بمقتضائے وار و قلبی اس کی بعض حکمتیں لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
حکمت اول: جناب رسولﷺ کے احسانات امت پر بے شمار ہیں، کہ صرف تبلیغ ماموریہ ہی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان کی اصلاح کے لیے تدبیریں سوچیں، ان کے لیے رات رات بھر کھڑے ہوکر دعائیں کیں، ان کی احتمال مضرت سے دلگیر ہوئے اور تبلیغ گو ماموریہ21 تھی لیکن تاہم اس میں واسطۂ نعمت تو ہوئے بہرحال آپ محسن بھی ہیں اور واسطۂ احسان بھی۔ پس اس حالت میں مقتضا فطرتِ سلیمہ کا یہ ہوتا ہے کہ ایسی ذات کے واسطے دعائیں نکلتی ہیں خصوصاً جبکہ مکافاتِ بالمثل نہ ہوسکے اور ہمارا عاجز ہونا اس مکافات سے ظاہر ہے کیونکہ ان نعماء22 کا اضافہ غیر نبی سے نبی پر محالات سے ہے اور دعائے رحمت سے بڑھ کر کوئی دعا نہیں اور اس میں بھی رحمتِ خاصہ کاملہ کی دعا جو کہ مفہوم ہے درود کا۔ اس لیے شریعت نے اسے فطرتِ سلیمہ کے مطابق درود شریف کا امر کہیں وجوباً کہیں استحباباً فرمایا۔ ونحوہ فی المواہب۔
حکمت دوم: چونکہ آپﷺ حق تعالیٰ کے محبوب ہیں اور محبوب کے لیے کسی خیر کی درخواست کرنا گو محبوب کو بوجہ اس کے کہ جس سے درخواست کی جاوے وہ خود بوجہ محبت کے وہ خیر اس محبوب کو پہنچاوے گا۔ اس خیر کے ملنے میں اس درخواست کی حاجت ہی نہ ہو لیکن ایسی درخواست کرنا خود سبب ہوتا ہے اس درخواست کرنے والے کے تقرب کا، پس درود شریف میں چونکہ درخواستِ رحمت ہے محبوبِ حق کے لیے، اس لیے یہ ذریعہ ہوجاوے گا خود اس شخص کو حق تعالیٰ کی رضا و قرب میسر ہونے کا۔ ونحوہ فی المواہب۔
حکمت سوم: نیز اس درخواست میں اظہار ہے آپﷺ کے شرفِ خاص عبدیت کاملہ کا کہ رحمتِ الٰہی کی آپﷺ کو بھی ضرورت ہے۔ وہذا من سوانح الوقت۔
حکمت چہارم: چونکہ آپﷺ بھی بشریت23 میں، مادیت24 میں، عنصریت25 میں امت کے ساتھ شریک ہیں اور بعض امور زائدہ مثل کثرتِ مال وغیرہ میں اوروں کے ساتھ ساتھ مساوی بھی نہیں اور یہ اشتراک اور عدم مساوات بسا اوقات منجر26 ہوجاتا ہے استنکاف27 کی طرف اعتقاد و عظمت و اتباعِ ملت سے، جیسا امم ضالہ28 کو پیش آیا کہ بعض نے یوں کہا ’فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ‘29 اور بعض نے کہا ’ فَقَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهٗٓ ۙ اِنَّآ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ‘30 کسی نے کہا ’ وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ‘31۔ اس لیے درود شریف میں اس کا پورا علاج ہے کیونکہ اس میں دعا ہے رحمتِ خاصہ کی تو استحضار ہوا اس کا کہ آپﷺ رحمتِ خاصہ کے مستحق ہونے میں سب سے ممتاز ہیں۔ تو اس اشتراک کے ساتھ اس امتیاز کو بھی تو دیکھو جس کے سامنے دوسروں کا امتیازِ مالی وغیرہ گرد ہے اور نیز اس میں حکمت اول کے لحاظ سے استحضار ہے اس کا کہ ہم لوگ آپ کے ممنون ہیں اور عظمت و سنت کا استحضار رافع32 ہوتا ہے استنکاف33 کا بالخصوص جب نامِ مبارک کے قبل لفظ سیدنا و مولانا وغیرہ بھی بڑھایا جاوے اور نامِ مبارک کے بعد ایسے صفات بڑھائے جاویں جن میں صریح ہو آپﷺ کے جدوجہد کی اشاعتِ دین کے لیے جو اعظم احسانات ہے ہم پر اور اس رفع استنکاف سے افتقار34 و انکسار35 حادث36 ہوگا جوکہ اعظم مقامات مقصود سے ہے۔ خصوص اس محل میں جس کے معظم ہونے کا نصوص میں اہتمام کیا گیا ہو جیسے مقبولانِ الٰہی بالخصوص حضراتِ انبیاء علیہم السلام پھر خصوص سردارِ انبیاء کہ آپؐ کی طرف افتقار کا استحضار عین مرضیٔ حق اور آپ سے اباء37 استغنا بغایت نامرضی ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ:
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (سورۃ الجمعہ: 2)
’’وہی ہے جس نے (عرب کے) ناخواندہ لوگوں میں اسی کی قوم میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو عقائدِ باطلہ اور اخلاقِ ذمیمہ سے پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور دانش مندی کی باتیں سکھلاتے ہیں اور یہ لوگ آپ کی بعثت سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
حکمت پنجم: بعض طبائع38 میں غلبہ مذاق توحید کے وسائط39 کے ساتھ کہ ان وسائط میں انبیاء بھی ہیں دل زیادہ آویختہ40 نہیں ہوتا، گو بعد حصول قدر41 واجب اعتقاد و انقیاد رسول اللہﷺ کی اس زیادۃ کا انتفاء42 مضر نہیں جیسا کہ مواہب کے مقصد سابع میں امام قشیری سے ابو سعیف خراز کی حکایت نقل کی ہے کہ انہوں نے خواب میں جناب رسول اللہﷺ کو دیکھا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ مجھ کو معذور رکھیے کہ خدائے تعالیٰ کی محبت مجھ کو آپ کی محبت میں مشغول نہیں ہونے دیتی۔ آپﷺ نے فرمایا اے مبارک! جو شخص حق تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ مجھی سے محبت کرتا ہے۔ (کیونکہ یہ تو وہ جانتا ہی ہے کہ میرے توسط سے تو یہ بات نصیب ہوئی اور اس جاننے کے بعد ممکن نہیں کہ واسطہ سے محبت نہ ہو گو التفات نہ ہو۔ سو امر ضروری محبت ہے نہ کہ التفاتِ دائم۔) اور بعض نے کہا کہ یہ واقعہ ایک انصاری عورت کا سرکار نبویﷺ کے ساتھ جاگنے میں پیش آیا تھا۔ لیکن کمال حال یہ ہے کہ جس واسطہ کی طرف اسی واحدِ حقیقی43 نے التفات کرنے کو اپنی رضا کا ذریعہ فرمایا ہے اس کی طرف التفات کرنے کو ذوق بھی شاغل عن التوحید44 نہ سمجھے بلکہ مکمل توحید جانے جیسا کوئی اپنے معشوق کے پاس جانا چاہے اور وہ معشوق اپنا ایک مقربِ خاص اس کے پاس بھیج دے کہ اس کو اپنے ہمراہ لے آوے تو مقتضائے عقل یہ ہے کہ جس قدر اپنے محبوب کی مقصودیۃ حقیقیہ اس کے دل میں بسی ہوئی ہوگی اسی قدر ہر قدم پر اس موصل الی المقصود45 کے قدم و زبان پر اس کی توجہ ہوگی کیونکہ اس میں کمی ہونے سے خود وصول الی المقصود46 ہی مشکوک ہوجاوے گا۔ جس کو یہ ناگوار اور محبوب بالذات کی مقصودیۃ حقیقیہ کے خلاف سمجھے گا سی طرح جب اس عاشق کو معلوم ہوگا کہ میں جس قدر اس کا اکرام اس محب کی نظر میں ہوگا اس درجہ کا التفات موصل کی حرکت و سکون پر ہوگا۔ اسی طرح حضورﷺ کی طرف جس قدر التفات47 ہو وہ عین علامت ہوگی واحد تعالیٰ کے مطلوب و ملتفت الیہ ہونے کی۔ پس دونوں التفاتوں میں تزاحم48 نہ ہوا بلکہ تلازم49 ہوا۔ پس اس ذوقی نقص کے رفع کرنے کے لیے درود شریف مشروع ہوا گویا صلوا علیہ وسلموا تسلیما میں حکم ہوا کہ اس واسطہ کی طرف توجہ بالاحترام کرنے سے ہم خوش ہوتے ہیں۔
پس اگر کوئی ہمارا اور ہماری رضا کا طالب ہے تو اس واسطہ کی طرف توجہ بالاحترام کرے اور اس کو اشتغال بالغیر50 نہ سمجھے کیونکہ اشتغال بالغیر بالمعنیٰ الاعم51 منافی توحید نہیں بلکہ اشتغال بالغیر بایں معنیٰ کہ وہ غیر حاجب ہو مقصود سے منافی توحید ہے اور جو غیر کہ خود موصل ہو اس کی طرف توجہ کرنا تو لوازم توحید سے ہے کہ بدون اس کے توحید ہی تک وصول نہیں ہوتا۔ وھاتان الحکمتان من سوانح سالف الوقت۔
٭٭٭٭٭
1 حقوق کی اصل
2 اصول اور فروع کا اتباع
3 بھرا ہوا
4 خزانہ میں رکھی ہوئی
5 شرعی حکم
6 بڑا مقصود
7 جدا ہونا
8 کامل درجہ کی
9 اولاد ماں باپ کی محبت ایک بات کا تقاضا کرتی ہے اور حضورﷺ کی محبت دوسری بات میں ہے تو ایسے وقت میں آپﷺ کی مرضیات پر عمل کرنا آپﷺ کی محبت کی دلیل ہے۔
10 نفس سے زیادہ محبوب ہونا
11 انکار
12 کفر کے ساتھ خاص نہیں
13 گناہ گاروں
14 رحمت سے بہت دوری
15 ہمیشہ رہنے
16 گناہ
17 قطرہ
18 گناہوں سے ملا ہوا
19 لعنت سے روکنے والا
20 ایک خاک آمیز گھونٹ نے جب مجنوں بنا دیا ہے
اگر خالص محبت کی شراب میسر آجاتی تو نہ معلوم کیا کرتی
21 حکم کیے ہوئے
22 نعمتوں
23 آدمیت
24 مادہ ہونے
25 عنصر ہونے
26 کھینچ لینا
27 برا سمجھنے کی طرف
28 گمراہ امتوں
29 ’’چنانچہ وہ باہم کہنے لگے کہ کیا ہم ایسے دو اشخاص پر جو ہماری طرح کے آدمی ہیں ایمان لے آئیں اور ان کے مطبع بن جائیں حالانکہ ان کی قوم کے لوگ تو خود ہمارے زیرِ حکم ہیں۔‘‘ (سورۃ المؤمنون: 47)
30 ’’اور کہنے لگے ایسے شخص کا اتباع کریں گے جو ہماری جنس کا آدمی ہے اور اکیلا ہے تو اسی صورت ہم بڑی غلطی اور بلکہ جنون میں پڑ جائیں گے۔‘‘ (سورۃ القمر: 24)
31 ’’یہ قرآن اگر کلامِ الٰہی ہے تو ان دو بستیوں (مکہ اور طائف) کے رہنے والوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔‘‘ (سورۃ الزخرف: 31)
32 اٹھانے
33 برا سمجھنے
34 محتاجگی
35 عاجزی
36 پیدا ہوئی
37 انکار
38 طبیعتوں
39 واسطوں
40 لگتا
41 واجب کی مقدار حاصل ہو جانے کے
42 اٹھ جانا
43 اللہ تعالیٰ
44 توحید سے روکنے والا
45 مقصود تک پہنچانے والا
46 مقصود تک پہنچنا
47 توجہ
48 ٹکراؤ
49 ایک دوسرے کے لازم
50 غیر سے مشغول ہونا
51 عام معنیٰ کے اعتبار سے