ربیع الاوّل آتے ہی واقعی بہاریں اپنی نیرنگیاں دکھانے لگتی ہیں، مرجھائے گل پھر کھل اٹھتے ہیں ، صبح فروزاں شاداں و فرحاں نظر آتی ہے، چڑیوں کی چہک، سبزے کی لہک، کویل کا ترنم، کلیوں کا ذوق تبسم، فضاؤں کی خوشگواری، سورج کی تابکاری، تاروں کی سحر انگیزی اور اور مہر و ماہ کی جلوہ نمائی کائنات کو ایک کیف و سرور عطا کرتے ہیں، لیکن ایسا کیوں؟ یہ اس لیے کہ یہ مبارک مہینہ آپ ﷺ کی ولادت اور جہانِ رنگ و بو میں آنکھیں کھولنے اور فیضان رحمت سے مستفید کرنے کا مہینہ ہے، وہ دیکھو! ساڑھے چودہ سو سال پیچھے، یہ بوقت سحر نور کیسا ہے؟ ارے ہزاروں سال سے جلتی آگ کیوں خاموش ہوگئی؟ یہ محل کے کنگرے زمیں پہ کیوں آ گرے؟ مائی آمنہ کا گھر کیوں جگمگا رہا ہے، یہ صبح صبح شہر مکہ میں کون آیا ہے؟ اوہ یہ تو وجہِ کائنات خاتم الانبیاء محبوب خدا خاتم المرسلین امام المجاہدین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، صنم خانے میں کہرام مچ گیا، بت سارے ٹوٹ پڑے، کفر و ظلمت سر چھپانے کے لیے کوشاں ہیں، جی ہاں آمدِ رسول سے دنیا کو طریقۂ ہدایت ملا، گم گشتہ راہیں اب راہ راست پا چکی ہیں، محمد کیا آئے کہ پروانۂ نبوت پر سلسلۂ نبوت کے لیے آخری مہر بن گئے اب تا قیامت کوئی نبی پیدا نہ ہوگا، قرآن مجید اس زندہ عقیدے کو کچھ یوں بیاں کرتا ہے:
مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا (سورة الاحزاب: 40)
(مسلمانو ! ) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے۔
اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے تین باتیں بیان فرمائی ہیں: نبی کا نام، نبی کا کام، نبی کا مقام۔ جس نبی کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے اس کا نام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اس نبی کا کام رسالت ہے، اس نبی کا مقام ختم نبوت ہے، ان تین موضوعات کو اگر سمیٹا جائے تو دو لفظوں میں اسے یوں تعبیر کرسکتے ہیں: پیغمبر کی ذات اور پیغمبر کی بات۔
پیغمبر کی ذات عالی مقام کی بابت بات کرنا مناسب خیال کرتے ہوئے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کو سینۂ قرطاس پہ تحریر کرتا ہوں۔
معزز قارئین کرام! اس ناپائیدار جہاں میں کئی سعادت مند نصیبہ ور حضرات آئے جنہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور بات کو موضوعِ سخن بنایا۔ کسی نے آپ کے کمال و جمال کو معرضِ تحریر میں لانے کی غیر معمولی سعی فرمائی، لیکن قلم تھک ہار کر اپنی نب سے یہی لکھتا آیا ہے کہ ’بعد از خدا بزرگ توئی قصۂ مختصر‘، محبوب کے حسن و جمال کو کامل و مکمل بیان کرنا کیوں کر ممکن ہے، پھر محبوب بھی محبوب خدا ہے۔
تھکی ہے فکر رسا مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا مدح باقی ہے
حسن و جمال کے لغوی معنی ہیں روشنی چمک وغیرہ ۔
جبکہ اصطلاع میں مختلف شخصیات نے مختلف تعریفات کی ہیں لیکن سب کا ماحصل ایک ہی ہے، بس فرق اتنا ہے:
عباراتنا شتى و حسنك واحد
و كل إلى ذاك الجمال يشير
جمال تصویر اور ترکیب خلقت میں ہوتا ہے، اور یہ باطنی اخلاق میں بھی پایا جاتا ہے، اور اعمال میں بھی۔ تو جمالِ خلقت وہ چیز ہے جو بصارت کے ذریعے محسوس کی جاتی ہے اور دل میں ایک ہم آہنگی پیدا کرتی ہے، جس کی وجہ سے نفس اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اس کے کہ اس کی وجہ یا کسی انسان کے ساتھ اس کی نسبت معلوم ہو اور جمال اخلاق کی بات کریں تو یہ وہ صفات ہیں جو علم، حکمت، انصاف، عفت، غیظ کو دبانے اور ہر ایک کے لیے بھلائی کی خواہش رکھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور جمال اعمال میں یہ ہے کہ وہ مخلوق کی مصالح کے لیے مناسب ہوں اور ان کے لیے فائدے لائیں اور ان سے نقصان دور کریں اور جانوروں اور مویشیوں کا جمال بھی جمالِ خلقت سے ہے، جو آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے اور بصیرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے اور ان کا جمال یہ بھی ہے کہ ان کی کثرت ہوتی ہے، اور جب لوگ انہیں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ فلان کی بھیڑیں ہیں۔1
جان لو کہ جو شخص خیالات اور محسوسات کی تنگی میں محبوس ہے، وہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ حسن اور جمال کا کوئی معنی صرف جسم کی تناسب، شکل، رنگ کی خوبصورتی، اور چہرے کی سرخی کے ساتھ سفید رنگ کے امتزاج میں موجود ہے، انسان کی شکل و صورت کی خوبصورتی کا زیادہ تر حسن بصری احساس پر منحصر ہے، اور وہ صرف ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو نظر آتی ہیں، اس لیے وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو چیزیں بصری، خیالی، یا شکل و رنگ میں نہیں ہیں، ان کا کوئی حسن نہیں ہے۔ اور جب وہ ان کا حسن تصور نہیں کر سکتا، تو اس کے ادراک میں کوئی لذت نہیں آتی، لہذا وہ محبوب نہیں ہوتا ، یہ ایک واضح غلطی ہے، حسن صرف بصری ادراک پر مختصر نہیں ہے، نہ ہی یہ صرف جسم کے تناسب اور رنگوں کے امتزاج تک محدود ہے، ہم کہتے ہیں کہ یہ خط خوبصورت ہے، یہ آواز خوبصورت ہے، یہ گھوڑا خوبصورت ہے، بلکہ یہ لباس بھی خوبصورت ہے اور یہ برتن بھی خوبصورت ہے۔ تو اگر حسن صرف شکل میں تھا تو پھر حسن کی تعریف میں خط، آواز، اور دیگر چیزوں کا کیا معنی ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھ خوبصورت خط کو دیکھنے میں لذت محسوس کرتی ہے اور کان خوبصورت اور دلکش نغموں کو سننے میں لذت محسوس کرتا ہے۔2
خلاصہ یہ ہے کہ حُسن قد و قامت کی موزونیت اور کاملیت کو کہتے ہیں، یا پھر حُسن صرف صورت کی خوبی، عمدگی اور رونق کا نام ہے، جبکہ جمال صورت و سیرت دونوں کی کمالِ خوبی، کمالِ عمدگی اور کمالِ رونق کا نام ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیغمبر کو حسین اور جمیل بنایا ہے، جب کسی کو کسی سے محبت ہو اور محبت حد سے بڑھتی ہے تو سامنے والا جان سے بھی پیارا ہوجاتا ہے، اس کا مکان بھی عزیز ہوجاتا ہے، بلکہ ہر چیز کو اس کی کہنا یا اس کی چیز کو اپنی کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے، اس کو مختلف القاب سے پکارتا ہے، اس کی مختلف اداؤں کو بیان کرتا ہے اور اس سے متعلقہ چیزوں کی قسمیں اٹھاتا ہے، اس کی اطاعت کو اپنی اطاعت کہتا ہے۔
اگر قرآن مجید میں غور کیا جائے تو یہ آیت اس کی منظر کشی کرتی دکھائی دیتی ہے:
يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّل قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا (سورۃ المزمل: ۱،۲)
صفحہ الٹتے ہیں تو نظر آتا ہے:
يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْوَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (سورۃ المدثر: ۱،۲،۳)
مزید ورق گردانی کی جائے تو آنکھیں خیرہ رہ جاتی ہیں:
وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (سورۃ الانفال: ۱۷)
اے نبی جی یہ مٹی آپ نے نہیں پھینکی، یہ مٹی ہم نے پھینکی ہے، پھر محبت کی انتہا کو تلاش جائے تو قرآن کہتا ہے:
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ (سورۃ الحجر: ۷۲)
قرآن اٹھائیے قرآن کہتا ہے:
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ (سورۃ النسائ: ۸۰)
جو رسول اللہ کی اطاعت کرے گا ، گویا کہ اس نے میرے پیروی کی۔
جب خدا کو اپنے پیارے محمد سے اتنا پیار ہے، اتنی محبت ہے، تو ضرور پیارے کو پیارے کی چاہت کے مطابق بنایا ہوگا، اور حسن و جمال کے اعلیٰ مقام سے نوازا ہوگا۔
آپ کا دل ضرور گویا ہوگا کہ آخر پیغمبر کا حسن و جمال کیسا تھا؟
تو آئیے ساڑھے چودہ سو سال پیچھے چلتے ہیں، آپ کی حسن و جمال کی جھلک دیکھتے ہیں۔ چلیے تو پھر اپنے اکابر کے دروازے پر تمہیں لے چلوں، شاید وہ اپنے علم کے سمندر سے کچھ موتی چن کر میرے اور آپ کے دامن میں ڈال دیں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب ابو طالب سے دریافت کرتے ہیں کہ چچا جان آپ نے پیارے محمدﷺ کو دیکھا ہے، ذرا بتا دیجیے پیارے محمد ﷺ کا حسن و جمال کیسا تھا؟
ابو طالب فرماتے ہیں:
وأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الغَمَامُ بوَجْهِهِ
ثِمَالُ اليَتَامیٰ عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
کہتے ہیں وہ ایسا خوبصورت ، وہ ایسا حسین ، وہ ایسا دلبر ہے کہ اس کے صدقے اور اس کے وسیلے سے بارانِ رحمت کو طلب کیا جاتا ہے ۔
آئیے اماں عائشہ صدیقہ سے دریافت کرتے ہیں کہ اماں آپ نے پیغمبر ﷺ کو قریب سے دیکھا ہے، بار بار دیکھا ہے، جی بھر کے دیکھا ہے، ذرا بتاؤ تو سہی آپ کا حسن و جمال کیسا تھا؟ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :
لواحی زلیخا لو رأين جبينه
لأثرن بالقطع القلوب على الإيدى
مصر کی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو اپنی انگلیاں کاٹ دیں ، میرے کو دیکھتیں تو اپنے دل کاٹ لیتیں۔ 3
آخر اماں عائشہ نے یہ کیوں فرمایا؟ ہمارے جسم میں ایک دل ہے اور انگلیاں بھی ہیں لیکن جسم میں دل مرکز بدن ہے، انگلیاں شاخ بدن ہیں، ہمارے پیغمبر ﷺ صفات کا منبع ہیں، آپ سے صفات پھوٹتی ہیں، حسن بھی صفت ہے جو آپ سے پھوٹتی ہے، لہذا آپ مرکزِ حسن ہیں، حضرت یوسف شاخِ حسن ہیں، تو جنہوں نے شاخِ حسن کو دیکھا شاخِ بدن کو کاٹا، اگر مرکزِ حسن کو دیکھ لیتیں تو پھر مرکزِ بدن کو کاٹ لیتیں۔
آئیے! حضرت جابر بن سمرہ کے پاس چلتے ہیں اور پوچھتے ہیں، حضرت! آپ پیغمبر ﷺ کے صحابی ہیں، آپ نے پیغمبر ﷺ کو دیکھا ہے، ذرا بتا دیجیے کہ پیغمبر ﷺ کا حسن و جمال کیسا تھا ؟ حضرت فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا اور چاند اپنی چاندنی سے دنیا کو منور کیے ہوئے تھا، پیارے محمد ﷺ مسجد نبوی کے صحن میں کھڑے ہوئے ہیں، اور سرخ رنگ کا لباس جس میں سرخ دھاریاں تھیں زیب تن فرمایا ہوا تھا، میں کبھی چاند کی طرف دیکھتا ، کبھی پیارے محمد کی طرف دیکھتا، کبھی چاند کی طرف دیکھتا کبھی پیارے محمد کی طرف دیکھتا، فإذا هو عندي أحسن من القمر، خدا کی قسم محمد رسول اللہ کا حسن چاند سے بھی بڑھا ہوا نظر آرہا تھا۔4
آئیے! حضرت کعب بن مالک کے پاس چلتے ہیں اور پوچھتے ہیں،حضرت! آپ پیغمبرﷺ کے صحابی ہیں، آپ نے پیغمبر ﷺ کو دیکھا ہے، ذرا بتا دیجیے کہ پیغمبرﷺ کا حسن و جمال کیسا تھا ؟ حضرت فرماتے ہیں کہ میں غزوے سے پیچھے رہ گیا تھا، جب پچاس دنوں بعد میری توبہ قبول ہوئی تو میں شاداں و فرحاں جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ کا رخِ انور طمطما رہا تھا، گویاکہ آپ چاند کے ٹکڑے ہوں، إذا سر استنار وجهه كأنه قطعة قمر، آپ پہلے سے زیادہ حسین و جمیل نظر آتے تھے ۔5
آئیے! حضرت ام معبد الخزاعیہ کے پاس چلتے ہیں اور پوچھتے ہیں، حضرت! آپ پیغمبر ﷺ کی صحابیہ ہیں، آپ نے پیغمبر ﷺ کو دیکھا ہے، ذرا بتا دیجیے کہ پیغمبر کا حسن و جمال کیسا تھا؟ فرماتی ہیں کہ دو شخص میرے در پہ آئے، اور دودھ طلب کیا، لیکن بکریوں کے تھنوں میں دودھ نہیں تھا اور پھر ایک ہاتھ پھیرا اور دودھ نکل آیا ، تھوڑی دیر بعد ابو معبد چلے آئے اور انہوں نے پوچھا اے ام معبد! کیا بات ہے؟ یہ دودھ کہاں سے آگیا؟ یہ برتن کیسے بھرے ہوئے ہیں؟ ام معبد کہتی ہیں:
رأيْتُ رجُلًا ظاهِرَ الوَضاءةِ، أبلَجَ الوَجهِ، حسَنَ الخَلْقِ، لم تَعِبْه ثَجْلةٌ، ولم تُزرِ به صَعْلةٌ، وَسيمٌ قَسيمٌ، في عَينَيْه دعَجٌ، وفي أشْفارِه وَطَفٌ، وفي صَوْتِه صَهَلٌ، وفي عُنقِه سَطَعٌ، وفي لِحيَتِه كَثافةٌ، أزَجُّ أقرَنُ، إنْ صمَتَ فعليه الوَقارُ، وإنْ تكلَّمَ سَماهُ وعَلاهُ البَهاءُ، أجمَلُ النّاسِ وأبْهاهُ من بَعيدٍ، وأحسَنُه وأجمَلُه من قَريبٍ، حُلوُ المنطِقِ فَصلٌ، لا نَزْرٌ فيه ولا هَذْرٌ، كأنَّ مَنطِقَه خَرَزاتُ نَظمٍ، يَتحَدَّرْنَ، رَبْعةٌ لا تَشْنؤُهُ من طولٍ، ولا تَقتَحِمُه عَينٌ من قِصَرٍ، غُصنٌ بيْنَ غُصنَينِ، فهو أنضَرُ الثَّلاثةِ مَنظرًا وأحسَنُهم قَدْرًا ، لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ،إِنْ قَالَ سَمِعُوا لِقَوْلهِ، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ، مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ، لَا عَابِسَ، وَلَا مُفَنِّدَ
میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کی نظافت نمایاں، جس کا چہرہ تاباں، اور جس کی ساخت میں تناسب تھا، پاکیزہ اور پسندیدہ خو، نہ فربہی کا عیب نہ لاغری کا نقص، نہ پیٹ نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، چہرہ وجیہہ، جسم تنومند، اور قد موزوں تھا، آنکھیں سر مگیں، فراخ اور سیاہ تھیں، پتلیاں کالی اور ڈھیلے بہت سفید تھے، پلکیں لمبی اور گھنی تھیں، ابرو ہلالی، باریک اور پیوستہ، گردن لمبی اور صراحی دار، داڑھی گھنی اور گنجان، سر کے بال سیاہ اور گھنگھریالے، آواز میں کھنک کے ساتھ لطافت، بات کریں تو رخ اور ہاتھ بلند فرمائیں، کلام شیریں اور واضح، نہ کم سخن اور نہ بسیار گو، گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی، دور سے سنو تو بلند آہنگ، قریب سے سنو تو دلفریب ، کلام نہ طویل نہ بے مقصد بلکہ شیریں، جامع اور مختصر، خاموشی اختیار کرے تو پر وقار اور تمکین نظر آئے، قد نہ درازی سے بد نما اور نہ اتنا پستہ کہ نگاہ بلند تر پر اٹھے، لوگوں میں بیٹھے تو سب سے جاذب، دور سے نظریں ڈالیں تو بہت با رعب، دو نرم و نازک شاخوں کے درمیان ایک شاخِ تازہ جو دیکھنے میں خوش منظر، چاند کے گرد ہالے کی طرح رفیق گرد و پیش، جب کچھ کہے تو سراپا گوش، حکم دے تو تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں۔ سب کا مخدوم، سب کا مطاع، مزاج میں اعتدال، تندی اور سختی سے دور۔6
ابو معبد نے ان خوش نصیب مہمانوں کو کھوجنے کی ٹھان لی اور چل پڑے آپ نے ہاتف غیبی کو سنا جو کہہ رہا تھا :
جَزَی اللّٰه رَبُّ النَّاسِ خَیْرَ جَزَائِه
رَفِیْقَیْنِ حَلَا خَیْمَتَیْ اُمِّ مَعْبَدٖ
لَیَهْنِ بَنِیْ کَعْبٍ مَکَانَ فَتَاتِهمْ
وَمَقْعَدُھَا لِلْمُؤْمِنِیْنَ بِمَرْصَدٖ
اللہ تمام انسانوں کا پروردگار ان دونوں ساتھیوں کو اپنی جانب سے بہترین اجر عطا فرمائے جو دونوں ام معبد کے دو خیموں میں فروکش ہوئے ، بنی کعب (کی شاخ بنو خزاعہ) کو مبارک ہو انہیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ ان کا زنان خانہ اور مردانہ بیٹھک اہلِ ایمان کے لیے انتظار گاہ اور قیام گاہ کا کام دیتے ہیں۔
آئیے! حضرت حسان بن ثابت کے پاس چلتے ہیں اور پوچھتے ہیں، حضرت! آپ پیغمبر ﷺ کے صحابی ہیں ، آپ نے پیغمبر ﷺ کو دیکھا ہے، ذرا بتا دیجیے کہ پیغمبر ﷺ کا حسن و جمال کیسا تھا؟ قربان جاؤں حضرت فرماتے ہیں: مشہور شعر ہے :
واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مُبَرَّأً من کل عیب
کأنک قد خُلقْتَ کما تشاء
آخر کب تک پیغمبر ﷺ کے حسن و جمال پر روشنی ڈالوں، بس میں نہیں نہ یہ سمجھ آتا ہے کہ کہاں اختتام کروں؟
آپ کے مقام جمال و کمال کو حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کے اشعار میں کہہ کر بات پوری کرتا ہوں آپ فرماتے ہیں سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روئے محمد بنایا گیا ، ایک وقت ایسا تھا نہ چاند تھا نہ چاندنی تھی، نہ سورج تھا نہ تپش تھی، نہ سمندر تھا نہ ندی تھی ، نہ بلبل تھا نہ چہک تھی، نہ سبزہ تھا نہ لہک تھی، نہ گل تھا نہ مہک تھی، نہ جذبات تھے نہ احساسات تھے، نہ اقرار تھا نہ انکار تھا، نہ آہ تھی نہ احساس تھا، نہ کھانا تھا نہ پینا تھا، نہ سونا تھا نہ جاگنا تھا، نہ اندھیرا تھا نہ روشنی تھی، غرضیکہ کچھ نہیں تھا اور پھر اللہ تبارک و تعالی نے ایک روح کو پیدا فرمایا اور پھر یہ ستارہ کیا جگمگایا کہ چراغ سے چراغ جلنے لگے اور پوری کائنات معرض وجود میں آگئی، گلوں کی خوشبو اسی کے صدقے سے، پھولوں کا رنگ اسی کے صدقے، قوس قزح کی خوبصورتی اسی کے صدقے، پہاڑوں کی بلندی اسی کے صدقے، دریاؤں کی روانی اسی کے صدقے، زمین کی وسعت اسی کے صدقے، گلشن کی بہاریں اسی کے صدقے، مہر و ماہ کی دمک اسی کے صدقے، کہکشاؤں کی چمک اسی کے صدقے، خیمۂ افلاک کی ایستادگی اسی کے صدقے، جن و بشر کا وجود اسی کے صدقے، زمان و مکان کا حصار اسی کے صدقے، اسی کو حضرت نانوتوی نے اشعار میں یوں بیان کیا ہے:
سب سے پہلے مشیت کے انوار سے
نقش روئے محمد بنایا گیا
پھر اسی نفش سے مانگ کر روشنی
بزم کون و مکاں کو سجایا گیا
وہ محمد بھی احمد بھی محمود بھی
وہ حسن مطلق کا شاہد بھی مشہود بھی
وہ علم و حکمت میں غیر محدود بھی
ظاہرا امیوں میں اٹھایا گیا
حشر کا غم ہو کیوں اے قاسم مجھے
میرا آقا ہے وہ میرا مولا ہے وہ
جس کے پیروں میں جنت بچھائی گئی
جس کے ہاتھوں سے کوثر لٹایا گیا
؏ لایمکن الثناء کما کان حقہ
؏ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
٭٭٭٭٭
1 تفسیر القرطبی ، ج : ٢ ، ص : ٦٦
2 احیاء علوم الدین ، ج : ٤ ، ص : ٢٩٨
3 روح المعانى ،جز :١٣، ص : ٧٧
4 ترمذی: ٢٨١١
5 بخاری: ٣٥٥٦
6 دلائل النبوۃ ، ج : ١، ص : ٢٧٦