بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بہت سی میٹنگز (meetings)ہوتی رہیں اسلام آباد میں علمائے کرام کی، لیکن حالات کچھ ایسے بن گئے تھے کہ جن کی وجہ سے باقاعدہ نشست کی کوئی ترتیب نہیں بن سکی، اب الحمد للہ پہلے سے حالات کچھ بہتر ہیں، اس لیے خیال ہوا کہ علمائے کرام کی ایک نشست کرلی جائے۔ چونکہ باتیں بہت ساری گردش کررہی ہیں اور ان باتوں میں بہت عجیب عجیب باتیں بھی ہیں اور ایسی کہ جن کا حقیقت سے دور دور تک واسطہ نہیں ہے، اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اگرچہ فرداً فرداً تو بہت سارے حضرات سے بات ہوتی رہی، لیکن باقاعدہ کوئی نشست نہیں ہوسکی۔
یہ جو مساجد کا مسئلہ ہے، یہ کافی عرصے سے چل رہا ہےاور مساجد کے بارے میں ہماری جو میٹنگز ہیں، جب جب مسجدیں گرتی گئیں ہماری میٹنگز ہوتی رہیں، اخبارات میں آتا رہا، اس میں بہت سارے اتار چڑھاؤ بھی آئے اور کئی جگہوں پر ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جہاں شدید ٹینشن کی بات ہوگئی تھی۔ مثلاً مسجد الصُفّہ آئی ایٹ تھری (I-8/3)کا جو مسئلہ ہوا تو مجھے یاد ہے کہ وہاں مسجد کو جب گرا رہے تھے انفورسمنٹ (قانون نافذ کرنے) والے تو مجھے ٹیلی فون آیا، میں جامعہ فریدیہ میں تھا، اس وقت کوئی چار لڑکے تھے جو گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھ سکے، ان کو لے کر وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ انفورسمنٹ کا ایک آدمی ایک بہت بڑا ہتھوڑا لے کے منبرِ رسولؐ کو ہتھوڑے مار رہا ہے۔ وہ کیفیت ایسی تھی کہ، اگرچہ مجھے اس طرح غصہ تو نہیں آتا لیکن اس دن میری کیفیت بھی کچھ تبدیل ہوگئی اور میں نے جاتے ہی، وہاں انفورسمنٹ والے بھی تھے پولیس کے لوگ بھی تھے، میں نے جاتے ہی، جو ہتھوڑا مار رہا تھا منبر پہ، اس کو گریبان سے پکڑ کےکھینچا اور کہا کہ تم یہ کیا کرتے ہو؟ کیا غضب کررہے ہو؟ کیا ظلم کررہے ہو؟ اس نے کہا: جی اوپر والوں کا آرڈر ہے۔ میں نے کوئی اس کو سخت بات کہی۔ وہ سخت بات ایسی تھی جو سب کو (سخت) لگی۔ یعنی میں نے کہا کہ اوپر والے اگر تم کو کسی اور کام کا کہیں، اپنی ماں کے ساتھ برے کا کہیں تو تم وہ کرو گے؟ تو یہ بات ان سب حضرات کو بری لگی جو وہاں کھڑے تھے۔ بات بھی سخت تھی لیکن میری چونکہ کیفیت ایسی تھی کہ یہ بات میرے منہ سے نکلی۔
بہرحال وہاں انفورسمنٹ او رپولیس والے آئے؛ میرے پاس اس وقت گن (بندوق) تھی اپنی تو میں نے ان سے کہا کہ میرے سامنے سے، میری نظروں سے دور ہوجائیں ورنہ آج یہاں خون ہوجائے گا۔ بہت سخت غصے کی کیفیت تھی۔ انہوں نے بھی اندازہ کرلیا اور کہا کہ غازی صاحب! آپ تو اس طرح بات نہیں کرتے ہیں، آج کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ البتہ میرے غصے سے یہ ہوا کہ سارے انفورسمنٹ والے وہاں سے چلے گئے اور پولیس والوں سے میں نے کہا کہ میری نظروں سے دور ہو جائیں ورنہ یہاں خون ہوجائے گا۔ اگرچہ میرے ساتھ چار لڑکے تھے مگر میرا بس یہ تھا کہ پھر میں گولی چلا دوں گا؛ ایک منبر پہ اور محراب پہ ہتھوڑا چلتے ہوئے میں نہیں دیکھ سکتا۔ بہرحال انہیں یہ بات سمجھ آئی اور انہوں نے فورس بھی پیچھے ہٹا لی اور وہ وہاں سے چلے گئے۔ اس دن تو وہ مسجد بچ گئی لیکن بعد میں ایک دن اچانک انہوں نے وہ مسجد گرادی۔ اسی طرح مسجد ابن عباسؓ کو گرایا گیا، میرا خیال ہے کوئی آج سے چار مہینے پہلے، اور اس مسجد کے اندر قرآن مجید ابھی بھی دفن ہیں۔ بہت سارے نکالے ہیں۔ دو تین حضرات ہمارے علمائے کرام گواہ ہیں کہ نالے میں سے قرآن مجید نکالے ہیں۔ اور انہی دنوں میں میری اس سلسلے میں بات ہوئی تھی ڈپٹی کمشنر سے، ٹیلی فون پہ میری بات ہورہی تھی تو میں نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو یاد ہے کہ آپ نے یہ کام بھی کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ جی مجھے یاد ہے لیکن ہمیں جلدی تھی، قرآن مجید نکالنے کی (فرصت) ہمیں نہیں تھی کہ ہمیں فوراً کارروائی کرنی ہے ورنہ لوگ پہنچ جائیں گے۔ تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہمیں اللہ معاف کرے گا، تو میں نے کہا کہ اللہ نہیں معاف کرے گا، اللہ کیوں معاف کرے گا؟ آپ قرآن مجید کے ساتھ یہ سلوک کریں، مسجد کے ساتھ یہ سلوک کریں اور اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے گا! اللہ قطعاً معاف نہیں کرے گا۔
اور یہی ہوا کہ ٹینشن بڑھتی جارہی تھی۔ یہ جو مسجدیں گرتی گئیں، مسجد امیر حمزہؓ…… اگرچہ بہت چھوٹی سی ہے، ایک کمرے کی مسجد تھی، بہرحال بڑی بڑی مسجدیں گریں، زیادتیاں بہت زیادہ ہوئیں، لیکن مسجد امیر حمزہؓ کے بعد طالبات نے ایک قدم اٹھایا، اس کے بعد ٹینشن کی ایک فضا بن گئی۔
اس کے اندر ابتدائی جو بات ہے وہ یہ کہ شروع سے ہی اس میں حکومت نے جو رویہ اختیار کیا وہ ایسا رویہ تھا کہ بس تہس نہس کردیں گے۔ آپ لوگوں کو تہس نہس کردیں گے۔ اور شروع سے ہی جب انہوں نے یہ رویہ رکھا تو ابتدا میں انہوں نے ہمارے یہاں کے کچھ حضرات پہ دباؤ ڈالا بُلا کے اور ہمارے حضرات نے اپنی طرف سے اچھی ہی (نیت) سے کیا ہوگا، ان کی اس(خیرخواہی) پر ہمیں کچھ شک نہیں ہے، لیکن بہرحال ایک ایسا دباؤ ڈالا گیا کہ اس دباؤ کا جو اثر تھا وہ بار بار مولانا عبدالعزیز صاحب پر دباؤ ڈالتے رہے۔ یعنی جو بھی حضرات کی طرف سے کوئی بات آئی تو وہ یہی آئی کہ لائبریری چھوڑ دیں۔ یعنی مسلسل ایک تسلسل کے ساتھ لائبریری لائبریری لائبریری کو تو کہا جاتا رہا، اس میں حکومت کے حضرات تھے، کچھ اس میں اپنے بھی شامل ہوگئے، تھوڑے سے کچھ حضرات، لیکن لائبریری کے اوپر تو زور تھا کہ لائبریری چھوڑ دی جائے جبکہ مساجد کا ذکر ہی نہیں آرہا تھا۔ اور یہ بات میں نے کئی دفعہ کہی۔ ابھی چند دن پہلے بھی کچھ حضرات آئے تھے میں نے ان سے کہا کہ لائبریری مقدس نہیں ہے، لائبریری کا کوئی تقدس نہیں ہے، مساجد جو ہیں وہ مقدس ہیں، ان کے آداب ہیں احکام ہیں، اس لیے بار بار لائبریری کی بات تو کی جارہی ہے اور مساجد کی بات ہی نہیں کی جارہی، یہ بات اس وجہ سے خراب ہورہی ہے اور مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ ختم کردیں گے، تباہ و برباد کردیں گے۔ یہ سمجھیں کہ بالکل ایسی صورت تھی کہ بش نے مشرف سے کہا کہ تمہیں سٹون ایج (stone age) میں لے جائیں گے، پتھر کے دور میں دھکیل دیے جاؤگے، ختم کردیے جاؤگے، تو مشرف نے یوٹرن لے لیا ایک دم۔ ہم سب نے کہا کہ اس کا یوٹرن غلط ہے۔ یعنی طاقت کے سامنے جھکنا غلط ہے۔ اگر اُس کا طاقت کے سامنے جھکنا غلط تھا تو ہمارا طاقت کے سامنے جھکنا کیوں صحیح ہوجائے گا؟ یہ بڑی بنیادی بات ہے۔ بہرحال اس کے اندر ایسی چیزیں ہوئیں کہ، یعنی پریشر آیا، مثلاً مولانا کو، کوئی دوسرا دن تھا، ٹیلی فون آیا، اپنے کچھ ساتھی ڈی سی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ’’مولانا! ان کی فورسز تیار ہیں، بیس منٹ کے اندر فورسز آرہی ہیں، آپ خالی کرتے ہیں یا نہیں کرتے، آپ ایک بات بتا دیں! یہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ خالی کرتے ہیں یا نہیں کرتے‘‘۔ تو مولانا نے کہا کہ ٹھیک ہے، نہیں کرتے ہیں، آجائیں پھر۔ اگر ایسی بات ہے تو آجائیے۔ لیکن یقیناً انہوں نے نہیں آنا تھا کہ یہ کوئی آسان بات تو نہیں تھی ایسی کہ فورسز آجائیں گی، کوئی مذاق تو نہیں ہے کہ فورسز آجائیں گی۔
بہرحال اس کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ دباؤ بڑھتا گیا۔ اس دباؤ کے دوران بہت سارے لوگ آتے رہے۔ اعجاز الحق صاحب بھی تشریف لائے۔ اعجاز الحق صاحب جب پہلے دن آئے تو میں نے ان سے یہی بات کہی کہ دو بنیادی باتیں ہیں: ایک تو یہ کہ الزام نہیں لگانا؛ الزامات کی بات نہیں ہوگی اور دوسری بات یہ کہ دھمکی نہیں ہوگی۔ اگر یہ بات آپ کو قبول ہے تو ہم آگے چلتے ہیں، اگر یہ قبول نہیں ہے تو ہم آگے نہیں چل سکتے۔ دھمکی سے بات نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت مناسب بات ہے۔ پھر چلتے چلتے جب دیکھا کہ کچھ چیز نہیں ہورہی تو انہوں نے مجھ سے پھر یہ کہا کہ ’’اگر میں یہاں سے چلا جاؤں گا، بات ختم ہوجائے گی تو پھر ٹرپل ون بریگیڈ آجائے گی‘‘۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’کیا اس سے پہلے بھی اس قسم کے مسائل ٹرپل ون بریگیڈ نے حل کیے ہیں جو اَب کریں گے؟ کیا پہلے جو یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس نے پتہ نہیں کیا کچھ کیا، انہوں نے عمارتیں جلادیں، بسیں جلادیں اور امریکن ایمبیسی جلادی تھی، جس کے حکومت نے اکّیس (۲۱) کروڑ روپے دیے تھے، اس وقت تو ٹرپل ون بریگیڈ نہیں آئی! تو کیا یہاں کوئی خاص قسم کے سٹوڈنٹس ہیں جن کے ساتھ کوئی معاملہ ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ بہرحال میں تو آپ سے ایک بات کہہ رہا ہوں، جب میرے ہاتھ سے نکل جائے گی تو پھر انہی کے ہاتھ میں ہوگی، پھر وہ جس طریقے سے کریں۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی طرف سے بھی پھر وہی فورس کی بات ہوئی۔ اب اس کے اندر ایک چیز جو ہوئی، یعنی میں اپنا جو تجزیہ کرتا ہوں، میں ایک چیز بالکل واضح کردوں کہ اس میں قطعاً، اس سے ممکن ہے کہ اس سے بعض حضرات تاثر لیں کہ میں کسی بزرگ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ان پہ کوئی شک ہے یا ان پہ کوئی الزام ہے۔ ایسی بات نہیں ہے؛ آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ بہت ساری میٹنگز ہوتی رہیں اور بہت ساری میٹنگز میں بہت کچھ کہا جاتا رہا، یعنی مولانا کے بارے میں بھی، میرے بارے میں بھی، لیکن ہم خاموشی سے سنتے رہے ہیں اور ابھی بھی سن رہے ہیں اور ہم آگے بھی سنیں گے، ہم سے کسی نے بات کی تو ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے، کیونکہ ہر ایک نے اپنا اپنا جواب دینا ہے؛ اصل حساب تو آگے ہوگا نا، یہاں تو کوئی حساب نہیں ہے، آگے حساب ہوگا۔ تو ایک چیز جو اس میں غلط ہوئی جو میں سمجھتا ہوں تجزیہ کرتے ہوئے کہ یہاں ہمارے کچھ حضرات نے اس مسئلے کو اتنا زیادہ ایشو بنایا، حکومت نے تو بنایا ہی، انہوں نے تو بنانا ہی تھا، ان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے، لیکن ہمارے کچھ حضرات نے ایسا ایشو بنایا کہ اس مسئلے کو وفاق تک لے گئے، وفاق سے پھر آگے بزرگوں تک لے گئے، اس کے بعد بزرگوں کو یہاں تک لے آئے، پہلی مرتبہ جب تشریف لائے تھے۔
اس کے اندر جو میں سمجھتا ہوں، جو ٹیکنیکل غلطی ہوئی وہ یہ ہوئی کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ کا کوئی مسئلہ ہو اور میں آپ کے پاس آؤں کسی ایشو پہ اور میں آپ سے کہوں کہ آپ مجھے ثالث مان لیں اور آپ مجھے جواب دے دیں کہ میں آپ کو ثالث نہیں مانتا تو شرعاً اخلاقاً قانوناً مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اس پہ ناراض بھی ہوں، مجھے ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نہیں مان رہے، آپ کی مرضی ہے۔ لیکن یہاں ایسا ہوا کہ مولانا کے پاس آئے، کافی بحث کے بعد مولانا نے کہا کہ اس مسئلے میں مجھے چھوڑ دیجیے، آپ دعا کیجیے، اللہ تعالیٰ ان شاءاللہ بہتر کریں گے۔ غلطی یہ ہوئی کہ یہاں سے جب حضرات گئے، وہاں جا کر شیرپاؤ کے پاس ایک معاہدہ کرلیا۔ میرے خیال میں ٹیکنیکلی یہ معاہدہ ٹھیک نہیں تھا، اس لیے کہ انہوں نے کہا تھا کہ آپ ہمارے اوپر چھوڑ دیں اور مولانا نے کہا تھا کہ میں نہیں چھوڑتا، اب اس بحث میں میں نہیں پڑتا کہ یہ مولانا نے ٹھیک کیا کہ غلط کیا، لیکن مولانا نے یہ کہا کہ میں آپ کے اوپر نہیں چھوڑتا ہوں، تو ان کو چاہیے تھا کہ وہ وہاں جاکر یہی بات کہتے کہ اس مسئلے کو ابھی کررہے ہیں، ابھی دیکھتے ہیں۔ لیکن وہاں جا کر ایک معاہدہ ہوگیا۔ یہاں سے بات خراب ہونا شروع ہوئی۔ یہ میں صرف تجزیے کے لیے بیان کررہا ہوں۔ یہاں سے بات تھوڑی سی خراب ہوگئی کہ وہاں جاکے معاہدہ کرلیا گیا، وہ معاہدہ ٹیکنیکلی ٹھیک نہیں تھا۔ یعنی جب شرعاً اخلاقاً قانوناً کسی نے تسلیم ہی نہیں کیا، اور اس معاہدے میں ایک اور چیز آگئی، وہ یہ ہوگئی کہ جیسے میں نے عرض کیا کہ لائبریری، یعنی لائبریری کی بات تو پھر کی گئی، اس کے جائز ناجائز کی بات کی گئی لیکن باقی چیزوں کو چھوڑ دیا گیا۔ اتنی مساجد جو تھیں گری ہوئی، وہ ابھی تک گری ہوئی ہیں، ان کی بات نہیں آئی کہ ان کا کیا ہے۔ کم از کم اتنا ہوجاتا کہ وہ تعمیر کردیں، اس کے بعد لائبریری خالی کردی جائے۔ (یہ کہہ دیتے کہ) ہم سمجھتے ہیں کہ یہ طریقۂ کار غلط ہے اور اس دوران تمام مساجد تعمیر کردی جائیں اور پھر یہ لائبریری دے دی جائے، ہم اس کو یوں سمجھتے ہیں۔ ایسی بات کرلیتے لیکن معاہدہ نہیں کرنا چاہیے تھا میرے خیال میں۔ آپ حضرات زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اس کے بعد پھر اس مسئلے کو اور زیادہ اچھالا گیا، یعنی اتنی زیادہ اس میں چیزیں کی گئیں مولانا عبدالعزیز صاحب کے بارے میں کہ مولانا عبدالعزیز صاحب نے امام مہدی کی بات کی ہےکہ میں امام مہدی ہوں اور اس کے علاوہ پتہ نہیں کیا کیا چیزیں…… اور بڑی حیرت ہوتی رہی کہ یہ کوئی دوسرے کی زبان سے سنے تو شاید میرا خیال ہے کہ بات سمجھ میں آنے والی ہے لیکن اپنوں کی طرف سے سن کے، چند ایک کی طرف سے سن کے بڑا عجیب لگتا ہے اور افسوس ہوتا ہے، اس پہ افسوس ہی کیا جاتا ہے، تو یہاں سے مسئلہ پھر اور یقیناً خراب ہی ہوتا گیا۔ مولانا عبدالعزیز صاحب نے بھی یقیناً اس کو محسوس کیا کہ میرے بارے میں کس طرح کی چیزیں کی جارہی ہیں۔ پھر اس کے بعد ایک عجیب بات اور بھی سننے میں آئی۔ ابھی پشاور کے چند علما آئے تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ جی اسلام آباد کے حضرات ہمارے وہاں آئے تھے اور انہوں نے یہ کہا کہ مولانا عبدالعزیز صاحب امریکی سی آئی اے کے لیے کام کررہے ہیں۔ اس سے پہلے میں آپ کو ایک چیز اور بتا دوں کہ میرے پاس جو انٹیلی جنس کے لوگ آتے رہے، بڑے حضرات کہ جی آپ اس میں کچھ کریں، کچھ کردار ادا کریں، انہوں نے مجھے یہ کہا کہ ہمیں اس بات پہ بالکل پوری طرح یقین ہے کہ مولانا عبدالعزیز صاحب جو ہیں انہیں القاعدہ نے گرین سگنل دے دیا ہے کہ آپ پاکستان میں کام شروع کریں، ورنہ ایسے کیسے ممکن ہے کہ اتنے بہت سے علما بھی کہہ رہے ہیں، سب کہہ رہے ہیں کہ یہ کام نہیں کرو اور مولانا عبدالعزیز صاحب پھر بھی اڑے ہوئے ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکومت کو گرانے کے لیے، مشرف کو گرانے کے لیے، چونکہ امریکہ اب اس کو چھوڑنا چاہتا ہے مشرف کو تو ایجنسیوں کی طرف سے یہ آیا کہ القاعدہ جو ہے وہ اس کو کررہا ہے، تو علما کی طرف سے آیا کہ سی آئی اے کررہا ہے، میں نے دونوں حضرات سے اس پر کوئی کمنٹس تو نہیں دیے لیکن جو فرداً فرداً آتے رہے میں نے کہا جی دونوں حضرات ایک بات بھول رہے ہیں، ان کے خیال میں طاقت جو ہے وہ یا القاعدہ کے پاس ہے یا سی آئی اے کے پاس؛ یعنی کسی کی بیک؍back (پشت) پر اگر القاعدہ ہو تو وہ کھڑا ہوسکتا ہے تن تنہا یا سی آئی اے ہو، ان دونوں میں سے کوئی ہو تو؛ تو ایک چیز بھول رہے ہیں کہ ایمان کی طاقت پہ بھی تو کوئی کھڑا ہوسکتا ہے! کوئی دیوانہ کھڑا ہوگیا، ایمان کی طاقت سے کھڑا ہوگیا! یہ دونوں طرف بات اس طرح چلتی رہی۔ بہرحال اس کے بعد جو ہے وہ بزرگ حضرات دوبارہ تشریف لائے۔ اعجاز الحق صاحب نے سفر کیا۔ اعجاز الحق صاحب جب یہاں سے چلے گئے، اس کے بعد وہ وہاں تشریف لے گئے…… کراچی۔ کراچی میں میں نے ان سے درخواست کی کہ اعجاز الحق صاحب آپ چند دن کے لیے ٹھہر جائیں، یہاں پہ حالات ایسے بن جائیں تاکہ پھر آپ علما کو لے کر آئیں تاکہ بات کسی اچھی طرف چلی جائے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے ٹکٹ لے لیے ہیں۔ میں نے کہا کہ ٹکٹ واپس ہوسکتے ہیں، آپ ٹکٹ واپس کرلیں، جیسے ابھی لے لیے ہیں اور آپ نے صبح آنا ہے، اس وقت میری بات ہورہی ہے اور انہوں نے صبح آنا ہے، میں نے کہا کہ آپ ابھی نہ آئیں تاکہ اس مسئلے کو تھوڑا سا ٹھنڈا کرکے اطمینان سے بیٹھنے کے بعد ہم کریں، لیکن اعجاز الحق صاحب نے میری یہ بات نہیں مانی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر بزرگ حضرات تشریف لائے اور پھر جب گئے تو انہوں نے ایک کمیٹی کا اعلان کردیا۔ اب وہ کمیٹی نے ابھی تک تو کچھ نہیں کیا۔ اس کی وجہ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہے، لیکن اتنی بات ہے کہ اس کمیٹی کی ایک میٹنگ ہوگئی ہے اور دوسری میٹنگ ایک ہفتے بعد رکھی گئی ہے۔ میں نے اس پر ڈی سی صاحب سے کہا اور جو حضرات آئے میں نے کہا کہ اس کی میٹنگ روزانہ کی بنیاد پر ہونی چاہیے، یہ ایمرجنسی مسئلہ ہے۔ مساجد گری ہوئی ہیں، مساجد جب تک تعمیر نہیں ہوتیں یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر آپ نے جو کمیٹی بنا دی ہے اس کی روزانہ کی بنیاد پر میٹنگ کریں، یہ تو کوئی مذاق نہیں ہے کہ آپ نے ایک میٹنگ کرلی اور دوسری میٹنگ ایک ہفتے بعد رکھی ہے۔ لیکن اس کی میٹنگ میرے علم کے مطابق ابھی تک نہیں ہوئی۔ اسی طرح مسجد امیر حمزہؓ جو ہے اس کا صرف سنگ بنیاد ہی ابھی تک رکھا ہے اور اس کے بعد اس پر کچھ نہیں ہوا۔ کہہ رہے ہیں کہ آرکیٹیکٹ اس کا ڈیزائن کرے گا۔ ایک چھوٹے سے کمرے کی مسجد ہے یعنی کوئی ایسی مسجد نہیں ہے جس کے اندر بڑی کوئی تعمیر اور ایسی کوئی چیز اِنوالو؍ involve (دخیل) ہے اس میں، ایک چھوٹے سے کمرے جتنی مسجد ہے، اس کی تعمیر کرنی ہے، اس کے لیے سی ڈی اے کے اندر پورا آرکیٹیکٹ کا ڈیپارٹمنٹ موجود ہے، وہ اگر چاہیں تو چند گھنٹوں کے اندر ایک چھوٹی سی مسجد کا ڈیزائن بن سکتا ہے، بلکہ ان کے پاس ڈیزائن بنے ہوئے ہوں گے، ان کے پاس آل ریڈی (پہلے سے) بنے ہوئے ہوں گے اور وہ چاہتے تو یہ کرسکتے تھے۔ لیکن چونکہ وہ کرنا نہیں چاہتے اس لیے اس میں وہ لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔
اس کے اندر ایک اور جو اہم بات وہ یہ کہ مولانا عبدالعزیز صاحب کا جو ایک موقف رہا اسلامی نظام کے حوالے سے؛ پہلی بات تو یہ کہ مولانا عبدالعزیز صاحب کوئی نئی بات نہیں کررہےکہ آدمی کہے کہ کوئی بہت نئی چیز آئی ہے، بہت سارے دیگر حضرات بھی یہی بات کررہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن چلیں وہ ایک بات ایک آواز لگا رہے ہیں کہ ایک چیز کے لیے ابھی سفر کرلینا چاہیے، یہ موزوں ٹائم ہے، اس میں اختلافِ رائے ہوسکتا ہے، اس میں کسی کا بھی اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن میں ایک چیز، جس پر بار بار زور دیتا رہا، اپنے بزرگوں سے بھی، انتظامیہ کے بھی جو لوگ آتے رہےکہ اللہ کے بندو! آپ کم از کم مساجد کے بارے میں کوئی ٹھوس چیز لے کے آجاؤ، کم از کم یہ سات مساجد تو کسی بھی طرح کھڑی ہونی چاہییں، چاہے لائبریری ہے نہیں ہے، لائبریری کو چھوڑتے ہیں نہیں چھوڑتے ہیں، اس پر تو کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ یہ سات مساجد، اللہ کے گھر، گرے ہوئے ہیں، ابھی بھی اس وقت بھی گرے ہوئے ہیں، ان کا تقدس پامال ہورہا ہے، کم از کم اگر یہ کرکے لے آؤ تو میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ تقریباً پچاس فیصد سے زیادہ حل ہوجائے گا۔ لیکن بار بار جب بھی بات آئی کہ جی لائبریری کا قبضہ چھوڑ دیں۔ سب حضرات اس ایک ہی بات پہ زور دیتے رہے کہ آپ لائبریری کا قبضہ چھوڑ دیں اور ایک ایسی کیفیت بنائے رکھی کہ بس ختم ہوجائیں گے۔ ہمارے حضرات جتنے بھی ہیں سب نے، اصل میں جو پریشر تھا نا، یہ بالکل جیسے ۲۰۰۴ء میں میرے اوپر جب (الزام) لگا تھا، آپ حضرات کو یاد ہوگا، اس وقت بھی ایک مسئلہ ایسا ہی بنا تھا بہت شدید قسم کا، اس میں بھی اختلافِ رائے آیا تھا، بہت سارے ہمارے حضرات کا خیال تھا، مجھے کہہ رہے تھے کہ آپ گرفتاری دے دیں، مجھے اس وقت بہت سارے حضرات نے کہا کہ آپ گرفتاری دے دیں باقی ہم جانیں اور کچھ بھی نہیں ہوگا ٹھیک ہوجائے گا یہ مسئلہ۔ میں نے کہا کہ جی میں سمجھتا ہوں کہ گرفتاری نہ دی جائے۔ یہ اختلاف تھا اور میں نے گرفتاری نہیں دی اور الحمدللہ اس کا اثر ہوا۔ ورنہ گرفتاری دے دیتا تو وہ کہتے کہ انہوں نے قبول کرلیا ہےاور ان کے کمپیوٹر سے ساری چیزیں نقشے بھی برآمد ہوگئے ہیں، ان کے لیے کون سا مشکل کام ہے، جھوٹ کا تو ان کے پاس ایک بہت بڑا ذخیرہ ہےکہ حکومت جھوٹ بولنے میں تو بہت ماہر ہے۔ تو مجھے اس وقت بہت سارے حضرات یہ کہتے رہے کہ آپ گرفتاری دے دیں، میں نے نہیں دی، تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پہ کہ ناراضگی کی جائے، نہ اس وقت ناراضگی کرنی چاہیے تھی، لیکن الحمدللہ جب مسئلہ ٹھیک ہوگیا تو سب حضرات نے خوشی کا اظہار کیا کہ الحمدللہ مسئلہ کسی ٹھیک کنارے لگ گیا۔اب اس کے اندر بھی اگر کوئی اختلافِ رائے ہے، مولانا کے ساتھ، تو اپنے اختلافِ رائے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس کے اوپر ایک بات کا بتنگڑ بناتے جائیں اور اس کے اندر چیزیں ایسی ایسی add (جمع) کرتے جائیں کہ جن کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ مولانا کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کہ جی اسلحہ آگیا ہے اور کئی نے یہ کہا کہ یہ اصل میں مولانا صاحب جو ہیں پاکستان کے سارے مدارس کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایجنسیوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور وہ اب تمام مدارس کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ الحمدللہ آپ حضرات اچھی طرح جانتے ہیں، حضرت والد صاحب کی زندگی آپ کے سامنے ہے، ہماری زندگی آپ کے سامنے ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ مواقع نہیں آئے کہ جب ہم بِک سکتے تھےاور بڑی اچھی قیمت لگ سکتی تھی، بہت کچھ مل سکتا تھا، اتنا کچھ مل سکتا تھا جو کسی کو بھی نہیں مل سکتا، یعنی ایسے مواقع آئے لیکن الحمدللہ، اللہ کے فضل سے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک کاز؍cause (مقصد) کے لیے کام کررہے ہیں، حضرت والد صاحب کی شہادت کے بعد آپ کو پتہ ہے کہ میں جو ایک دوسری طرف تھا، اسی طرف لگ گیا، اس وقت سے اب تک میری زندگی بھی آپ کے سامنے ہے، مولانا کی زندگی تو تعلیمی دور سے لے کر ساری ہی آپ کے سامنے ہے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ بلاوجہ کسی کے بارے میں اس طرح کی رائے اور ایسی چیز دینا اور پھر میٹنگز کے اندر برملا اس چیز کا کہنا، میرا خیال ہے کہ ہمارے شایانِ شان نہیں ہے۔ ہمارے حضرات جو ہیں، ہم مطلب ہے کہ باہر درس گاہ سے نکلیں اور جوتیاں سیدھی ہمیں ملیں…… ہمارا ایک مزاج بن گیا ہے کہ ہم دھکا نہیں کھانا چاہتے، ہم یہ نہیں چاہتے، (کہ) ٹینشن ہو، تو میں کہا کرتا ہوں کہ اگر اس طرح ٹھنڈی ٹھنڈی دین کی خدمت کروانی ہوتی…… تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی خدمت کروا لی ہوتی اور صحابہ کرام سے ایسی ٹھنڈی ٹھنڈی خدمت کروا لی ہوتی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور صحابہ کرام کو ایسے مراحل سے گزارا کہ جن کے اندر مشکلات بھی ہیں، جس کے اندر ٹینشن بھی ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹینشن نہیں ہوتی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو روتے کیوں تھے؟ مسائل کی وجہ سے، حالات کی وجہ سے کہ یہ کیسے ہوگا؟ کیسے ہم کریں گے؟ جہاد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو خون مبارک بھی بہا، دانت مبارک شہید ہوئے؛ ہم میں سے کتنوں کو ابھی پتھر لگے ہیں؟ ہم پتھر کھانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ دھکا بھی نہ پڑے۔ کوئی ہمیں اوئے بھی نہ کہے…… ہمیں کوئی اوئے بھی نہ کہے اور ہماری ایک ریسپیکٹ؍respect (احترام) ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مجنون بھی کہا گیا، کیا کچھ کہا گیا نعوذ باللہ، لیکن ہماری ایک نفسیات بن گئی ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک روٹین میں جو لائف (زندگی) ہے ناں ہماری…… یہ تو ایک عام آدمی کی سوچ ہے، عام دکان دار کی سوچ ہے، ملازمت کرنے والے جو لوگ ہیں، عام آدمی، یہ تو اس کی سوچ ہےکہ میری روٹین ڈسٹرب نہ ہو، میں اپنی روٹین میں رہوں۔ ہمیں تو میرا خیال ہے کہ ہر طرح کے اس (قربانی) کے لیے تیار رہنا چاہیے، ٹینشن کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے، ساری چیزوں کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیےاور ہمیں اتنی جلدی سرنڈر (surrender) نہیں کردینا چاہیے۔ یہ میں تھوڑا سا صرف مثال کے لیے عرض کروں گا کہ اس دوران میں کہ یہ بات چل رہی تھی۔ ایک ہفتہ ہوا تھا میرا خیال ہے، ایک ہفتے بعد میری کچھ حضرات کے ساتھ میٹنگ تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ جائیں ایک مسوّدہ ان سے لے کر آئیں کہ وہ کیا دے سکتے ہیں ہمیں۔ وہ حضرات گئے، وہاں سے واپس آئے اور میں نے ان سے کہا تھا کہ دستخط نہیں کرنے۔ وہ دستخط کرکے آگئے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! دستخط کیوں کیے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ چند گھنٹوں کی بات ہے بس۔ اگر آپ ویسے چلے گئے تو یہاں کچھ ہوجائے گا۔ یعنی اتنی ٹینشن دے دی۔ تو میں نے کہا کہ چند گھنٹوں کی بات ہے تو ان سے کہہ دیں کہ کرلیں پھر۔ اس لیے کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، یہ اتنا آسان نہیں ہے اس طریقے سے یہاں پہ کرلینا، دارالحکومت کے اندر اور پھر جو یہاں پہ صورتِ حال بنی وہ آپ حضرات کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم کیا، دعائیں ہیں آپ حضرات کی اور ہمارے سب کی یعنی کاوشیں ہیں، اس لیے ہمیں اتنی جلدی بیک (پیچھے) نہیں ہوجانا چاہیے، گھبرانا نہیں چاہیے۔ وقت آتا ہے، اوپر نیچے کبھی چیزیں ہوتی رہتی ہیں، اس میں ہمیں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ اعتماد کرنا چاہیے۔ اتنی جلدی ہم ایجنسیوں کا بنا دیتے ہیں ناں کہ…… اور سچی بات یہ ہے کہ مولوی سب سے پہلے ایجنسی کا بناتے ہیں۔ کسی کے بارے میں کچھ نہیں ہے ناں تو کہتے ہیں کہ وہ ایجنسی کا ہے۔ یہ عجیب بات ہے اللہ کے بندو! یہ کوئی مذاق ہے؟ کوئی کہتا ہے کہ اس کے لیے کام کررہے ہیں کوئی اس کے لیے، کوئی کہتا ہے کہ جی مشرف کو مضبوط کرنے کے لیے وہ ایجنسیاں، یہ بھی آئی بات کہ وہ ایجنسیاں جو مشرف کو مضبوط کرنا چاہتی ہیں وہ مولانا صاحب کو استعمال کررہی ہیں تاکہ یہ حالات بنیں اور مشرف دنیا کو، امریکہ کو یہ دکھا سکے کہ دیکھو یہ یہاں پہ بھی fundamentalists موجود ہیں، یہ اس طرح کے مدارس ہیں مجھے مشکل میں ڈال رہے ہیں، تم مجھے سپورٹ کرو، میری مدد کرو ورنہ تو ابھی اٹھنے والے ہیں یہ لوگ۔ یعنی اب یہ ایک تیسری بات۔ یعنی ایک القاعدہ، ایک سی آئی اے اور ایک یہ۔ تو اس طرح یعنی یہ کوئی مذاق نہیں ہےکہ اس کو اس طرح کا مذاق بنا دیا جائے۔ ہمیں بڑا سوچ سمجھ کے، ایک تو یہ کہ ہمیں سسٹم کو سمجھنا چاہیےکہ سسٹم کیا ہے، سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔ ہم نے سمجھا ہوا ہے کہ یہ سسٹم بس ایسے ہی چل رہا ہے۔ یہ سسٹم ہے باقاعدہ ایک چیز چل رہی ہے اور اس کے اندر ایک ترتیب ہے، ایسے ہی کوئی ایجنسیوں کا اگر ہونے لگے تو سارے کے سارے جو ہیں وہ ایجنسیوں کے ہیں۔ ہم تو ایک ایجنسی کے ہیں وہ اللہ کی ایجنسی جو ہے ناں اس کے ہیں ہم سارے کے سارے۔ تو یہ چند باتیں تھیں……
٭٭٭٭٭