بابِ سوم: خشوع خضوع کے بیان میں
بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں، ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو جماعت کابھی اہتمام فرماتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایسی بری طرح پڑھتے ہیں کہ وہ نماز بجائے اس کے کہ ثواب واجر کاسبب ہو، ناقص ہونے کی وجہ سے منہ پرمار دی جاتی ہے، گو نہ پڑھنے سے یہ بھی بہتر ہے، کیوں کہ نہ پڑھنے کی صورت میں جو عذاب ہے وہ بہت زیادہ سخت ہے، اوراس صورت میں یہ ہوا کہ وہ قابل قبول نہ ہوئی اورمنہ پر پھینک کر مار دی گئی، اس پر کوئی ثواب نہ ہوا، لیکن نہ پڑھنے میں جس درجے کی نافرمانی اور نخوت ہوئی وہ تو اس صورت میں نہ ہوگی، البتہ یہ مناسب ہے کہ جب آدمی وقت خرچ کرے، کاروبار چھوڑے، مشقت اٹھائے، تواس کی کوشش کرنا چاہیے کہ جتنی زیادہ سے زیادہ وزنی اور قیمتی پڑھ سکے اس میں کوتاہی نہ کرے، حق تعالیٰ شانہ کاارشاد ہے(گووہ قربانی کے بارے میں ہے، مگراحکام تو سارے ایک ہی ہیں)، فرماتے ہیں:
﴿لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُهَا وَلَادِمَآءُ هَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ﴾ (سورۃ الحج: ۳۷)
’’نہ تو حق تعالیٰ شانہ کے پاس ان کاگوشت پہنچتا ہے نہ ان کاخون، بلکہ اس کے پاس توتمہارا تقویٰ اور اخلاص پہنچتاہے‘‘، پس جس درجے کااخلاص ہوگا اسی درجے کی مقبولیت ہوگی۔
حضرت مُعاذؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺنےجب مجھے یمن بھیجا تو میں نے آخری وصیت کی درخواست کی، حضورﷺنے ارشادفرمایا کہ ’’دین کے ہرکام میں اخلاص کااہتمام کرنا، کہ اخلاص سے تھوڑا عمل بھی بہت کچھ ہے‘‘۔ (مستدرک، حدیث:۷۸۴۴، ۴: ۳۴۱ )
حضرت ثوبانؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اخلاص والوں کے لیے خوش حالی ہوکہ وہ ہدایت کے چراغ ہیں، ان کی وجہ سے سخت سے سخت فتنے دور ہو جاتے ہیں‘‘۔(حلیۃ الاولیاء، ۱: ۱۵۔ شعب الایمان، حدیث: ۶۸۶۱)
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ضعیف لوگوں کی برکت سے اس امت کی مدد فرماتے ہیں، نیز ان کی دعا سے، ان کی نماز سے، ان کے اخلاص سے۔(نسائی، کتاب الجھاد، باب الاستنصار بالضعیف، حدیث: ۳۱۸۰)
نماز کے بارے میں اللہ جل شانہٗ کاارشاد ہے:
﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلوٰتِهِمْ سَاھُوْنَ اَلَّذِیْنَ هُمْ یُرَائُ وْنَ﴾ (سورۃ الماعون)
’’ بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں، جو ایسے ہیں کہ دکھلاواکرتے ہیں۔ ‘‘
بے خبرہونے کی بھی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں: ایک یہ کہ وقت کی خبر نہ ہو، قضاکردے۔ دوسرے یہ کہ، متوجہ نہ ہو، ادھر ادھر مشغول ہو۔ تیسرے یہ کہ یہی خبر نہ ہو کہ کتنی رکعتیں ہوئیں۔
دوسری جگہ منافقین کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَإِذَا قَامُوْا إِلَی الصَّلوٰۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ، یُرَائُ وْنَ النَّاسَ وَلَایَذْکُرُوْنَ اللہَ إِلَّاقَلِیْلًا﴾ (سورۃ النساء: ۱۴۲)
’’ اور جب نماز کوکھڑے ہوتے ہیں توبہت کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھلاتے ہیں (کہ ہم بھی نمازی ہیں)، اوراللہ تعالیٰ کاذکر نہیں کرتے، مگر بہت تھوڑاسا۔ ‘‘
ایک جگہ چندانبیاء علیٰ نبینا وعلیہم الصلاۃ والسلام کا ذکر فرماکر ارشاد ہے:
﴿فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوْا الصَّلوٰۃَ وَاتَّبَعُوْا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا﴾ (سورۃ مریم: ۵۹)
’’پس ان (نبیوں) کے بعدبعضے ایسے ناخلف پیداہوئے جنہوں نے نماز کوبرباد کیا اور خواہشات نفسانیہ کے پیچھے پڑگئے، سوعن قریب آخرت میں خرابی دیکھیں گے۔ ‘‘
لغت میں’’غَيْ‘‘ کاترجمہ گمراہی ہے، جس سے مرادآخرت کی خرابی اور ہلاکت ہے، اور بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’غَيْ‘‘ جہنم کاایک طبقہ ہے جس میں لہو،پیپ وغیرہ جمع ہوگا، اس میں یہ لوگ ڈال دیے جائیں گے۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿وَمَامَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ، وَلَایَأْتُوْنَ الصَّلوٰۃَ إِلَّا وَهُمْ کُسَالیٰ،وَلَایُنْفِقُوْنَ إِلَّا وَهُمْ کَارِھُوْنَ﴾ (سورۃ التوبۃ: ۵۴)
’’اور ان کی خیر خیرات مقبول ہونے سے اورکوئی چیز بجز اس کے مانع نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا، اور نماز نہیں پڑھتے مگر کاہلی سے، اورنیک کام میں خرچ نہیں کرتے مگر گرانی سے۔ ‘‘
اس کے بالمقابل اچھی طرح سے نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ارشاد ہے:
﴿قَدْأَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خَاشِعُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ الَّلغْوِ مُعْرِضُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَo إِلَّاعَلیٰٓ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُهُمْ، فَإِنَّهُمْ غَیْرُمَلُوْمِیْنَo فَمَنِ ابْتَغیٰ وَرَآئَ ذٰلِکَ فَأُولٰٓئِکَ هُمُ الْعٰدُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ لِأَمٰنٰتهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلیٰ صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَo أُولٰئِکَ هُمُ الْوَارِثُوْنَo الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِیْهَا خَالِدُوْنَo﴾ (سورۃ المومنون: ۱تا ۱۱)
’’بے شک کامیابی اور فلاح کو پہنچ گئے وہ مومن جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں، اوروہ لوگ جو لغویات سے اعراض کرنے والے ہیں، اور جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں، [ زکوۃ کی تفسیر میں اختلاف ہے کہ اس جگہ مشہور معنیٰ زکوۃ کے مراد ہے یازکوۃِ بدنی یعنی اپنی اصلاح اورنفس کاتزکیہ؟] (یااپنے اخلاق کودرست کرنے والے ہیں)، اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجزاپنی بیبیوں اورباندیوں کے، کہ ان میں کوئی حرج نہیں، البتہ جوان کے علاوہ اور جگہ شہوت پوری کرنا چاہیں وہ لوگ حد سے گزرنے والے ہیں، اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کی رعایت کرنے والے ہیں، اور جو اپنی نمازوں کا اہتمام کرنے والے ہیں، یہی لوگ جنت کے وارث ہیں جو فردوس کے وارث بنیں گے، اورہمیشہ ہمیشہ کواس میں رہیں گے۔ ‘‘
حدیث میں آیا ہے کہ فردوس، جنت کا اعلیٰ اور افضل ترین حصہ ہے، وہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں، اسی پرعرش الٰہی ہوگا، جب تم جنت کی دعا کیا کرو توجنت الفردوس مانگا کرو۔(ترمذی، صفۃ الجنۃ، ۲۵۳۰)
دوسری جگہ نماز کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے:
﴿وَإِنَّهَا لَکَبِیْرَۃٌ إِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَo الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ أَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾ (سورۃ البقرۃ: ۴۵، ۴۶)
’’بے شک نماز دشوار ہے، مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ان پر کچھ بھی دشوار نہیں،یہ وہ لوگ ہیں جواس کاخیال رکھتے ہیں کہ بلاشبہ وہ اپنے رب سے قیامت میں ملنے والے ہیں، اورمرنے کے بعد اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ‘‘
ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں ایک جگہ ارشادخداوندی ہے:
﴿فِيْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللہُ أَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْهَا اسْمُہُ، یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِo رِجَالٌ لَّاتُلْهِیْهِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَإِقَامِ الصَّلوٰۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکوٰۃِ، یَخَافُوْنَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْأَبْصَارُo لِیَجْزِیَهُمُ اللہُ أَحْسَنَ مَاعَمِلُوْا وَیَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ، وَاللہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍo﴾ (سورۃ النور: ۳۶ تا ۳۸)
’’ایسے گھروں میں،جن کے متعلق اللہ جل شانہٗ نے حکم فرمادیا ہے کہ ان کاادب کیاجائے، ان کوبلند کیا جائے، ان میں صبح شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، ایسے لوگ جن کواللہ کی یاد سے اورنماز کے قائم کرنے سے اور زکوۃ کے دینے سے نہ توتجارت غافل کرتی ہے نہ خریدوفروخت غفلت میں ڈالتی ہے[زکوۃ کی تفسیر میں اختلاف ہے کہ اس جگہ مشہور معنیٰ زکوۃ کے مراد ہے یازکوۃِ بدنی یعنی اپنی اصلاح اورنفس کاتزکیہ]، وہ لوگ ایسے دن کی سختی سے ڈرتے ہیں جس دن دل اورآنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی (یعنی قیامت کا دن)، اور وہ لوگ یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ جل شانہٗ ان کے نیک اعمال کا بدلہ ان کو عطا فرماویں، اوربدلے سے بھی بہت زیادہ انعامات اپنے فضل سے عطا فرماویں، اور اللہ جل شانہ تو جس کوچاہتے ہیں بے شمار عطافرمادیتے ہیں۔ ‘‘
تو وہ داتا ہے کہ دینے کے لیے
در تری رحمت کے ہیں ہردم کھلے
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نماز قائم کرنے سے یہ مراد ہے کہ اس کے رکوع سجدے کو اچھی طرح اداکرے، ہمہ تن متوجہ رہے اور خشوع کے ساتھ پڑھے۔ قتادہ ؒسے بھی یہی نقل کیاگیا کہ نماز کاقائم کرنا اس کے اوقات کی حفاظت رکھنا اور وضو کا اور رکوع سجدے کا اچھی طرح ادا کرنا ہے، یعنی جہاں جہاں قرآن شریف میں ’’إِقَامُ الصَّلوٰۃِ‘‘ اور ’’یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ‘‘ آیا ہے، یہی مراد ہے۔(دُرِّمنثور، ۱:۶۲)
یہی لوگ ہیں جن کی تعریف دوسری جگہ ان الفاظ سے ارشاد فرمائی گئی:
﴿وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشَوْنَ عَلیَ الْأَرْضِ ھَوْناً وَّإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْاسَلَاماًo وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَّقِیَاماً﴾ (سورۃ الفرقان: ۶۳، ۶۴)
’’اور رحمن کے خاص بندے وہ ہیں جوچلتے ہیں زمین پر عاجزی سے (اکڑ کر نہیں چلتے)، اور جب ان سے جاہل لوگ(جہالت کی) بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سلام (یعنی سلامتی کی بات کرتے ہیں جو رفع شر کی ہویا بس دور ہی سے سلام)،اور یہ لوگ ہیں جو رات بھر گزار دیتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے کرنے میں اورنماز میں کھڑے رہنے میں۔ ‘‘
آگے ان کے چند اوصاف ذکر فرمانے کے بعد ارشادہے:
﴿أُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرَفَۃَ بِمَاصَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْهَا تَحِیَّۃً وَّسَلَاماً، خَالِدِیْنَ فِیْهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَاماً﴾ (سورۃ الفرقان: ۷۵، ۷۶)
’’یہی لوگ ہیں جن کو جنت کے بالاخانے بدلے میں دیے جائیں گے، اس لیے کہ انہوں نے صبرکیا (یا دین پر ثابت قدم رہے)، اور جنت میں فرشتوں کی طرف سے دعا وسلام سے استقبال کیاجاوے گا، اور اس جنت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، کیا ہی اچھا ٹھکانہ اور رہنے کی جگہ ہے۔ ‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ، فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ﴾ (سورۃ الرعد: ۲۳، ۲۴)
’’اورفرشتے ہر دروازے سے داخل ہوں گے اورکہیں گے: تم پر سلام (اور سلامتی) ہو، اس وجہ سے کہ تم نے صبر کیا(یادین پر مضبوط اورثابت قدم رہے)، پس کیا ہی اچھا انجام کار ٹھکانہ ہے۔ ‘‘
انہی لوگوں کی تعریف دوسری جگہ ان الفاظ سے فرمائی گئی ہے:
﴿تَتَجَافیٰ جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفاً وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَo فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَاأُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ، جَزَآئً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (سورۃ الم سجدۃ: ۱۶، ۱۷)
’’ وہ لوگ ایسے ہیں کہ رات کو ان کے پہلو ان کی خواب گاہوں اور بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں (کہ نمازپڑھتے رہتے ہیں، اور)اپنے رب کو عذاب کے ڈر سے اور ثواب کی امید میں پکارتے رہتے ہیں، اور ہماری عطا کی ہوئی چیزوں سے خرچ کرتے ہیں، سو کوئی بھی نہیں جانتاکہ ایسے لوگوں کے لیے کیاکچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کاسامان پردۂ غیب میں موجود ہے، جوبدلہ ہے ان کے نیک اعمال کا۔‘‘
انہی لوگوں کی شان میں ہے:
﴿إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، آخِذِیْنَ مَاآتَاهُمْ رَبُّهُمْ، إِنَّهُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَo کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ، وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (سورۃ الذاریات: ۱۵ تا ۱۸)
’’بے شک متقی لوگ جنتوں اورپانی کے چشموں کے درمیان میں ہوں گے، اور ان کو ان کے رب اورمالک نے جو کچھ ثواب عطا فرمایا اس کو خوشی خوشی لے رہے ہوں گے، اورکیوں نہ ہوکہ وہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) اچھے کام کرنے والے تھے، وہ لوگ رات کوبہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں استغفار کرنے والے تھے۔ ‘‘
ایک جگہ ارشادِ خداوندی ہے:
﴿أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْلِ سَاجِداً وَّقَائِماً یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ، قُلْ هَلْ یَسْتَوِيْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ، إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوْا الْأَلْبَابِ﴾ (سورۃ الزمر: ۹)
’’(کیا برابر ہوسکتا ہے بے دین)اور وہ شخص جوعبادت کرنے والا ہو رات کے اوقات میں، کبھی سجدہ کرنے والا ہو اورکبھی نیت باندھ کر کھڑاہونے والاہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو، (اچھاآپ ان سے یہ پوچھیں: ) کہیں عالم اور جاہل برابر ہوسکتا ہے؟ (اور یہ ظاہر ہے کہ عالم اپنے رب کی عبادت کرے ہی گا، اور جو ایسے کریم مولیٰ کی عبادت نہ کرے وہ جاہل بلکہ اَجہل ہے ہی)،نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جواہل عقل ہیں۔ ‘‘
ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعاً، إِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعاً، وَّإِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُمَنُوْعاً، إِلَّاالْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلیٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُوْنَ﴾ (سورۃ المعارج: ۱۹ تا ۲۳)
’’اس میں شک نہیں کہ انسان غیرمستقل مزاج پیدا ہوا ہے کہ، جب کوئی تکلیف اس کوپہنچتی ہے تو بہت زیادہ گھبرا جاتاہے، اورجب کوئی بھلائی پہنچتی ہے توبخل کرنے لگتا ہے کہ دوسرے کو یہ بھلائی نہ پہنچے، مگر(ہاں!)وہ نمازی جواپنی نماز کے ہمیشہ پابند رہتے ہیں، اورسکون ووقار سے پڑھنے والے ہیں‘‘۔ آگے ان کی اور چند صفتیں ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلیٰ صَلوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَo اُولٰئِکَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ﴾ (سورۃ المعارج: ۳۴، ۳۵)
’’ اوروہ لوگ جواپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کا جنتوں میں اکرام کیاجائے گا۔ ‘‘
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں نمازکاحکم اورنمازیوں کے فضائل، ان کے اعزاز واکرام ذکر فرمائے گئے ہیں، اورحقیقت میں نماز ایسی ہی دولت ہے، اسی وجہ سے دوجہاں کےسردار، فخررسل حضورﷺ کاارشاد ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ دعافرماتے ہیں:
﴿رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِیْمَ الصَّلوٰۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِيْ،رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِ﴾ (سورۃ ابراہیم: ۴۰)
’’اے رب! مجھ کونماز کاخاص اِہتِمام کرنے والا بنا دے، اورمیری اولاد میں سے بھی ایسے لوگ پیدا فرما جو اہتمام کرنے والے ہوں، اے ہمارے رب! میری یہ دعا قبول فرمالے۔ ‘‘
اللہ کاایک پیارا نبی جس کوخلیل ہونے کابھی فخر ہے، وہ نماز کی پابندی اور اہتمام کواللہ ہی سے مانگتا ہے۔ خود حق سبحانہ وتقدس اپنے محبوب سیدالمرسلین ﷺ کوحکم فرماتے ہیں:
﴿وَأْمُرْ أَهْلَکَ بِالصَّلوٰۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا، لَانَسْئَلُکَ رِزْقاً، نَّحْنُ نَرْزُقُکَ، وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْویٰ﴾ (سورۃ طہ: ۱۳۲)
’’ اپنے گھروالوں کو نماز کاحکم کرتے رہیے اور خود بھی اس کااہتمام کیجیے، ہم آپ سے روزی (کموانا) نہیں چاہتے، روزی توآپ کوہم دیں گے، اوربہترین انجام تو پرہیزگاری کاہے۔ ‘‘
حدیث میں آیا ہے کہ جب نبیٔ اکرم ﷺکو کچھ تنگی وغیرہ پیش آتی تو گھر والوں کو نماز کا حکم فرماتے، اوریہ آیت تلاوت فرماتے، اور یہی انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کابھی معمول نقل کیا گیا، کہ جب بھی ان حضرات کوکوئی دقت پیش آتی تونماز میں مشغول ہوجاتے، مگر ہم لوگ اس اہم چیز سے ایسے غافل اوربے نیاز ہیں کہ اسلام اورمسلمانی کے لمبے لمبے دعووں کے باوجود بھی ادھر متوجہ نہیں ہوتے، بلکہ اگر کوئی بلانے والا، کہنے والا کھڑاہوتا ہے تواس پر فقرے کستے ہیں، اس کی مخالفت کرتے ہیں، مگر کسی کا کیا نقصان ہے! اپناہی کچھ کھوتے ہیں، اور جو لوگ نماز پڑھتے بھی ہیں ان میں سے بھی اکثر ایسی پڑھتے ہیں جس کونماز کے ساتھ مذاق سے اگر تعبیر کیاجائے توبے جا نہیں، کہ اکثر ارکان بھی پورے طور سے ادا نہیں کرتے، خشوع خضوع کا تو کیا ذکرہے! حالانکہ نبیٔ اکرم ﷺ کانمونہ سامنے ہے، وہ ہرکام خود کرکے دکھلا گئے، صحابۂ کرامؓ کے کارنامے بھی سامنے ہیں، ان کااتباع کرناچاہیے۔
صحابۂ کرامؓ کے چندقصے نمونے کے طور پر اپنے رسالہ ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ میں لکھ چکاہوں، یہاں ان کے اعادے کی ضرورت نہیں، البتہ اِس رسالے میں چندحکایات صوفیاء کی نقل کرنے کے بعد چندارشادات نبیٔ اکرم ﷺکے نقل کرتاہوں۔
حکایاتِ صوفیاء از بارہ اہتمام نماز
شیخ مظہر سعدیؒ ایک بزرگ ہیں، جواللہ جل شانہٗ کے عشق وشوق میں ساٹھ برس تک روتے رہے، ایک شب خواب میں دیکھا، گویاایک نہر ہے جس میں خالص مشک بھراہوا ہے، اس کے کناروں پر موتیوں کے درخت سونے کی شاخوں والے لہلہا رہے ہیں، وہاں چند نوعمر لڑکیاں پکارپکار کراللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں، انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ تواُنھوں نے دو شعر پڑھے جن کامطلب یہ تھا کہ ہم کولوگوں کے معبود اورمحمدﷺکے پروردگار نے ان لوگوں کے واسطے پیدا فرمایا ہے جو رات کواپنے پروردگار کے سامنے اپنے قدموں پرکھڑے رہتے ہیں، اور اپنے اللہ سے مناجات کرتے رہتے ہیں۔(نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۷، ص۵۱)
ابوبکرضریرؒ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک نوجوان غلام رہتاتھا، دن بھرروزہ رکھتا تھا اور رات بھر تہجد پڑھتا تھا، ایک دن وہ میرے پاس آیا اور بیان کیا کہ میں اتفاق سے آج رات سوگیا تھا، خواب میں دیکھا کہ محراب کی دیوار پھٹی، اس میں سے چندلڑکیاں نہایت ہی حسین اور خوب صورت ظاہر ہوئیں، مگر ایک ان میں نہایت بدصورت بھی ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہ بدصورت کون ہے؟ وہ کہنے لگیں کہ ہم تیری گذشتہ راتیں ہیں اوریہ تیری آج کی رات ہے۔ (نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۸، ص۵۱)
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ مجھے ایک رات ایسی گہری نیند آئی کہ آنکھ نہ کھلی، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ایسی نہایت حسین لڑکی ہے کہ اس جیسی میں نے عمر بھر نہیں دیکھی، اس میں سے ایسی تیز خوشبو مہک رہی تھی کہ میں نے ویسی خوشبو بھی کبھی نہیں سونگھی، اس نے مجھے ایک کاغذ کا پرچہ دیا جس میں تین شعر لکھے ہوئے تھے، ان کامطلب یہ تھا کہ ’’تو نیند کی لذت میں مشغول ہوکرجنت کے بالاخانوں سے غافل ہوگیا، جہاں ہمیشہ تجھے رہناہے اور موت بھی وہاں نہ آئے گی؟ اپنی نیند سے اٹھ، سونے سے تہجد میں قرآن پڑھنا بہت بہتر ہے‘‘۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے جب مجھے نیند آتی ہے اور یہ اشعار یادآتے ہیں تونیند بالکل اڑجاتی ہے۔ (نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۹، ص ۵۲)۔
حضرت عطاء ؒفرماتے ہیں کہ میں ایک بازار میں گیا، وہاں ایک باندی فروخت ہو رہی تھی جو دیوانی بتائی جاتی تھی، میں نے سات دینار میں خریدلی اور اپنے گھر لے آیا، جب رات کاکچھ حصہ گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہ اٹھی، وضوکیا، نمازشروع کردی، اور نماز میں اس کی یہ حالت تھی کہ روتے روتے اُس کا دم نکلا جاتا تھا، نماز کے بعد اس نے مناجات شروع کی، اور یہ کہنے لگی: ’’اے میرے معبود! آپ کومجھ سے محبت رکھنے کی قسم، مجھ پر رحم فرما‘‘،میں نے اس سے کہا کہ اس طرح نہ کہو، یوں کہو کہ مجھے تجھ سے محبت رکھنے کی قسم، یہ سن کر اس کوغصہ آگیا اورکہنے لگی: قسم ہے اس ذات کی! اگر اس کومجھ سے محبت نہ ہوتی توتجھے میٹھی نیند نہ سلاتا اور مجھے یوں نہ کھڑارکھتا ۔(نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۳۵، ص ۸۵)
اس قسم کا ایک واقعہ حضرت سِرِّیؒ کے ساتھ بھی پیش آیا، کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خدمت کے لیے ایک باندی خریدی، ایک مدت تک وہ میری خدمت کرتی رہی اور اپنی حالت کا مجھ سے اخفاء کرتی، اس کی نماز کی ایک جگہ متعین تھی، جب کام سے فارغ ہوجاتی وہاں جاکر نماز میں مشغول ہوجاتی، ایک رات میں نے دیکھا کہ وہ کبھی نمازپڑھتی ہے اور کبھی مناجات میں مشغول ہوجاتی ہے، اور کہتی ہے کہ: آپ اس محبت کے وسیلے سے جو مجھ سے ہے، فلاں فلاں کام کر دیں، میں نے آواز سے کہا کہ اے عورت! یوں کہہ کہ میری محبت کے وسیلے سے جو مجھے آپ سے ہے، کہنے لگی: میرے آقا! اگر اس کومجھ سے محبت نہ ہوتی تو تمہیں نماز سے بٹھلاکر مجھے کھڑا نہ کرتا۔ سِرِّیؒ کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو میں نے اس کوبلاکر کہا کہ تومیری خدمت کے قابل نہیں، اللہ ہی کی عبادت کے لائق ہے، اس کوکچھ سامان دے کر آزاد کردیا۔ (نُزہَۃُ المَجالس)
حضرت سِرِّی سَقَطیؒ ایک عورت کاحال فرماتے ہیں کہ جب وہ تہجد کی نماز کوکھڑی ہوتی تو کہتی: ’’اے اللہ! ابلیس بھی تیرا ایک بندہ ہے، اس کی پیشانی بھی تیرے قبضے میں ہے، وہ مجھے دیکھتا ہے اور میں اسے نہیں دیکھ سکتی، تواسے دیکھتا ہے اور اس کے سارے کاموں پر قادر ہے اور وہ تیرے کسی کام پر بھی قدرت نہیں رکھتا، اے اللہ! اگر وہ میری برائی چاہے تو تو اس کو دفع کر، اور وہ میرے ساتھ مکر کرے تو تواس کے مکر کا انتقام لے، میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتی ہوں، اور تیری مدد سے اُس کودھکیلتی ہوں‘‘۔اس کے بعد وہ روتی رہتی تھی، حتیٰ کہ روتے روتے اس کی ایک آنکھ جاتی رہی، لوگوں نے اس سے کہا: خداسے ڈر، کہیں دوسری آنکھ بھی نہ جاتی رہے، اس نے کہا: اگر یہ آنکھ جنت کی آنکھ ہے تو اللہ جل شانُہٗ اس سے بہتر عطا فرمائیں گے، اوراگر دوزخ کی آنکھ ہے تواس کادور ہی ہونااچھا۔(نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۲۲۵، ص ۲۷۲)
شیخ ابوعبداللہ جَلا ٔ فرماتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے میرے والد سے مچھلی کی فرمائش کی، والد صاحب بازار تشریف لے گئے، میں بھی ساتھ تھا، مچھلی خریدی، گھر تک لانے کے واسطے مزدور کی تلاش تھی کہ ایک نوعمر لڑکا –جوپاس ہی کھڑاتھا– کہنے لگا: چچا جان! اسے اٹھانے کے واسطے مزدور چاہیے؟ کہا: ہاں! اس لڑکے نے اپنے سر پر اٹھالی اور ہمارے ساتھ چل دیا، راستے میں اس نے اذان کی آواز سن لی، کہنے لگا: اللہ کے منادی نے بلایا ہے، مجھے وضوبھی کرنا ہے، نماز کے بعدلے جاسکوں گا، آپ کادل چاہے انتظار کرلیجیے، ورنہ اپنی مچھلی لے لیجیے، یہ کہہ کر مچھلی رکھ کر چلاگیا، میرے والد صاحب کوخیال آیا کہ یہ مزدور لڑکا توایسا کرے، ہمیں بہ طریق اولیٰ اللہ پر بھروسہ کرناچاہیے، یہ سوچ کر وہ بھی مچھلی رکھ کرمسجد میں چلے گئے، نماز سے فارغ ہوکر ہم سب آئے تومچھلی اسی طرح رکھی ہوئی تھی، اس لڑکے نے اٹھاکر ہمارے گھر پہنچا دی، گھر جاکر والد نے یہ عجیب قصہ والدہ کوسنایا، انہوں نے فرمایا کہ اس کوروک لو وہ بھی مچھلی کھاکر جائے، اس سے کہاگیا، اس نے جواب دیاکہ میراتوروزہ ہے، والد نے اصرار کیا کہ شام کے وقت یہیں آکر افطار کرے، لڑکے نے کہا: میں ایک دفعہ جاکر دوبارہ نہیں آتا، یہ ممکن ہے کہ میں پاس ہی مسجد میں ہوں، شام کو آپ کی دعوت کھاکر چلا جاؤں گا، یہ کہہ کر وہ قریب ہی مسجد میں چلا گیا، شام کو بعد مغرب آیا، کھاناکھایا، اور کھانے سے فراغت پر اس کو تخلیہ کی جگہ بتا دی۔ ہمارے قریب ہی ایک اپاہج عورت رہا کرتی تھی، ہم نے دیکھا کہ وہ بالکل اچھی تندرست آرہی ہے، ہم نے اس سے پوچھا کہ توکس طرح اچھی ہوگئی؟ کہا: میں نے اس مہمان کے طفیل سے دعا کی تھی کہ یااللہ! اس کی برکت سے مجھے اچھاکردے، میں فوراً اچھی ہوگئی۔ اس کے بعد جب ہم اس کے تخلیہ کی جگہ اس کودیکھنے گئے تو دیکھا دروازے بند ہیں اور اس مزدور کا کہیں پتہ نہیں۔(نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۲۲۹، ص ۲۷۳)
ایک بزرگ کاقصہ لکھا ہے کہ ان کے پاؤں میں پھوڑا نکل آیا، طبیبوں نے کہا: اگر ان کا پاؤں نہ کاٹا گیا تو ہلاکت کااندیشہ ہے، ان کی والدہ نے کہا: ابھی ٹھہرجاؤ، جب یہ نماز کی نیت باندھ لیں تو کاٹ لینا، چنانچہ ایسا ہی کیاگیا، ان کوخبر بھی نہ ہوئی۔
ابوعامرؒکہتے ہیں کہ میں نے ایک باندی دیکھی جو بہت کم داموں پر فروخت ہو رہی تھی، جو نہایت دبلی پتلی تھی، اس کا پیٹ کمر سے لگ رہا تھا، بال بکھرے ہوئے تھے، میں نے اس پر رحم کھاکر اس کو خرید لیا، اس سے کہا کہ: ہمارے ساتھ بازار چل، رمضان المبارک کے واسطے کچھ ضروری سامان خرید لیں، کہنے لگی: اللہ کاشکر ہے جس نے میرے واسطے سارے مہینے یکساں کردیے، وہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتی، رات بھرنمازپڑھتی، جب عید قریب آئی تومیں نے اس سے کہا کہ کل صبح بازار چلیں گے، توبھی ساتھ چلنا، عیدکے واسطے کچھ ضروری سامان خرید لائیں گے، کہنے لگی: میرے آقا! تم تو دنیا میں بہت ہی مشغول ہو، پھراندر گئی اورنماز میں مشغول ہوگئی، اور اطمینان سے ایک ایک آیت مزے لے لے کر پڑھتی رہی، حتیٰ کہ اس آیت پر پہنچی ﴿وَیُسْقیٰ مِنْ مَآئٍ صَدِیْدٍ﴾ (سورۃ ابراہیم:۱۶) اس آیت کوبار بار پڑھتی رہی، اور ایک چیخ مار کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔(نُزہَۃُ البساتین، حکایت:۳۷۹، ص ۴۳۳)
اہل مجاہدہ میں اس قسم کے واقعات بہت کثرت سے ملتے ہیں، ان حضرات کی حرص تو بہت ہی مشکل ہے، کہ اللہ جل شانہٗ نے ان کوپیدا ہی اس لیے فرمایاتھا، لیکن جو حضرات اکابر کہ دوسرے دینی اور دنیاوی مشاغل میں مشغول تھے، ان کی حرص بھی ہم جیسوں کو دشوار ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے سب ہی واقف ہیں، خلفائے راشدین کے بعد انہیں کا شمار ہے، ان کی بیوی فرماتی ہیں کہ عمر بن عبدالعزیزؒ سے زیادہ وضو اورنماز میں مشغول ہونے والے تو اور بھی ہوں گے، مگر ان سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا میں نے نہیں دیکھا، عشاء کی نماز کے بعد مصلے پر بیٹھ جاتے، اور دعا کے واسطے ہاتھ اٹھاتے اور روتے رہتے، حتیٰ کہ اسی میں نیند کاغلبہ ہوتا تو آنکھ لگ جاتی، پھر جب کھل جاتی تواسی طرح روتے رہتے اور دعا میں مشغول رہتے۔
حضرت سعید بن جُبیرؒ ایک رکعت میں پورا قرآن شریف پڑھ لیتے تھے۔(حلیۃ الاولیا، ۴:۲۷۳۔ سیر اعلام النبلاء، ۴:۳۲۴)
حضرت محمدبن مُنکَدِرؒ –حفاظ حدیث میں ہیں– ایک رات تہجد میں اتنی کثرت سے روئے کہ حد نہ رہی، کسی نے دریافت کیا توفرمایا: تلاوت میں یہ آیت آگئی تھی: ﴿ وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ يَكُوْنُوْا يَحْتَسِبُوْنَ﴾ (سورۃ الزمر: ۴۷)۔ (سیر اعلام النبلاء، ۵:۳۵۵) مذکورہ آیت میں اس ٹکڑے سے پہلے اس کا ذکر ہے کہ، اگر ظلم کرنے والوں کے پاس دنیا کی ساری چیزیں ہوں اور اتنی ہی ان کے ساتھ اور بھی ہوں، تو وہ قیامت کے دن سخت عذاب سے چھوٹنے کے لیے فدیے کے طور پردینے لگیں۔ اس کے بعد ارشاد ہے: ﴿ وَبَدَا لَهُمْ…﴾ الآیۃ: ’’اور اللہ کی طرف سے ان کے لیے (عذاب کا) وہ معاملہ پیش آئے گا جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا، اور اس وقت ان پر اپنی تمام بداعمالیاں ظاہر ہوجائیں گی‘‘۔حضرت محمد بن مُنکَدِرؒ وفات کے وقت بہت گھبرا رہے تھے، اورفرماتے تھے کہ اسی آیت سے ڈر رہا ہوں۔
حضرت ثابت بُنانیؒ –حفاظ حدیث میں ہیں– اس قدر کثرت سے اللہ کے سامنے روتے تھے کہ حد نہیں، کسی نے عرض کیا کہ آنکھیں جاتی رہیں گی، فرمایا کہ ان آنکھوں سے، اگر روئیں نہیں تو فائدہ ہی کیاہے! اس کی دعاکیاکرتے تھے کہ یااللہ! اگر کسی کو قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہوسکتی ہوتو مجھے بھی ہوجائے۔ ابوسِنانؒ کہتے ہیں: خداکی قسم! میں ان لوگوں میں تھاجنہوں نے ثابتؒ کودفن کیا، دفن کرتے ہوئے لحد کی ایک اینٹ گرگئی، تو میں نے دیکھا کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، میں نے اپنے ساتھی سے کہا: دیکھو! یہ کیاہورہا ہے؟ اس نے مجھ سے کہا: چپ ہوجاؤ، جب دفن کرچکے تو ان کے گھر جاکر ان کی بیٹی سے دریافت کیا کہ: ثابت کا عمل کیاتھا؟ اس نے کہا: کیوں پوچھتے ہو؟ ہم نے قصہ بیان کیا، اس نے کہا کہ پچاس برس شب بیداری کی، اور صبح کوہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ یااللہ! اگر تو کسی کویہ دولت عطا کرے کہ وہ قبر میں نمازپڑھے تو مجھے بھی عطافرما۔(حلیۃ الاولیاء،۲: ۳۱۹)
حضرت امام ابو یوسفؒ باوجود علمی مشاغل کے، جوسب کومعلوم ہیں، اور ان کے علاوہ قاضی القُضاۃ ہونے کی وجہ سے قضاکے مشاغل علیحدہ تھے، لیکن پھر بھی دوسو رکعات نوافل روزانہ پڑھتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء، ۸:۵۳۷)
حضرت محمدبن نَصرؒ–مشہور مُحدِّث ہیں– اس انہماک سے نمازپڑھتے تھے جس کی نظیر مشکل ہے، ایک مرتبہ پیشانی پر ایک بھڑ نے نماز میں کاٹا، جس کی وجہ سے خون بھی نکل آیا،مگر نہ حرکت ہوئی نہ خشوع خضوع میں کوئی فرق آیا۔ کہتے ہیں کہ نماز میں لکڑی کی طرح سے بے حرکت کھڑے رہتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء، ۱۴:۳۶)
حضرت بَقِی بن مَخلَدؒ روزانہ تہجد اور وتر کی تیرہ رکعت میں ایک قرآن شریف پڑھاکرتے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، ۱۳:۲۹۲)
حضرت ہَنَّادؒ ایک مُحدِّث ہیں، ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ وہ بہت ہی زیادہ روتے تھے، ایک مرتبہ صبح کوہمیں سبق پڑھاتے رہے، اس کے بعد وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر زوال تک نفلیں پڑھتے رہے، دوپہر کو گھر تشریف لے گئے، اور تھوڑی دیر میں آکر ظہر کی نماز پڑھائی، اورعصر تک نفلوں میں مشغول رہے، پھرعصر کی نماز پڑھائی اور قرآن پاک کی تلاوت مغرب تک فرماتے رہے، مغرب کے بعد میں واپس چلاآیا، میں نے ان کے ایک پڑوسی سے تعجب سے کہا کہ یہ شخص کس قدر عبادت کرنے والے ہیں!اُس نے کہا:ستّر برس سے ان کایہی عمل ہے، اور اگر تم ان کی رات کی عبادت دیکھوگے تواور بھی تعجب کروگے۔(سیر اعلام النبلاء، ۱۳:۲۸۹)
مَسروقؒ ایک مُحدِّث ہیں، ان کی بیوی کہتی ہیں کہ وہ نمازیں اتنی لمبی لمبی پڑھاکرتے تھے کہ ان کی پنڈلیوں پر ہمیشہ اس کی وجہ سے ورم رہتاتھا، اورمیں ان کے پیچھے بیٹھی ہوئی ان کے حال پر ترس کھاکر رویاکرتی تھی۔(سیر اعلام النبلاء، ۴:۶۵)
حضرت امام اعظمؒ کے متعلق توبہت کثرت سے یہ چیزنقل کی گئی کہ تیس یاچالیس یاپچاس برس عشاء اور صبح ایک وضوسے پڑھی۔(تاریخ بغداد، ۱۳:۳۵۴۔وفیات الاعیان،۵:۴۱۳) اور یہ اختلاف نقل کرنے والوں کے اختلاف کی وجہ سے ہے کہ جس شخص کوجتنے سال کاعلم ہوا اتنا ہی نقل کیا۔ لکھا ہے کہ آپ کا معمول صرف دوپہر کوتھوڑی دیر سونے کا تھا، اور یہ ارشادفرمایاکرتے تھے کہ دوپہر کے سونے کا حدیث میں حکم ہے۔
حضرت امام شافعی صاحبؒ کامعمول تھا کہ رمضان میں ساٹھ قرآن شریف نمازمیں پڑھتے تھے۔ ایک شخص کہتے ہیں کہ میں کئی روز تک امام شافعیؒ کے یہاں رہا، صرف رات کوتھوڑی دیر سوتے تھے۔(طبقات الشافعیۃ، ۲:۳۴۲)
حضرت امام احمدبن حنبلؒ –جو فقہ کے مشہور امام ہیں– دن بھر مسائل میں مشغول رہنے کے باوجود رات دن میں تین سو رکعات نفل پڑھتے تھے۔ اور جب بادشاہ وقت نے آپ کے کوڑے لَگوائے اوراس کی وجہ سے ضعف بہت ہوگیاتو ڈیڑھ سو رہ گئی تھیں، اور تقریباً اسّی (۸۰) برس کی عمرتھی۔(تاریخ دمشق)
ان کے علاوہ ہزاروں، لاکھوں واقعات توفیق والوں کے کتب تواریخ میں مذکور ہیں جن کا احاطہ بھی دشوار ہے، نمونہ اورمثال کے لیے یہی واقعات کافی ہیں۔ حق تعالیٰ شانہٗ مجھے بھی اور ناظرین کو بھی ان حضرات کے اتباع کاکچھ حصہ اپنے لطف وفضل سے نصیب فرمائیں۔ آمین۔
نماز کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کے بعض ارشادات گرامی
1. عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیَنْصَرِفُ وَمَاکُتِبَ لَہٗ إِلَّا عُشْرُ صَلَاتِہٖ، تُسْعُهَا، ثُمْنُهَا، سُبْعُهَا، سُدْسُهَا، خُمْسُهَا، رُبْعُهَا، ثُلُثُهَا، نِصْفُهَا. (رواہ أبوداود)
’’نبیٔ اکرم ﷺ کاارشاد ہے کہ آدمی نمازسے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے، اسی طرح بعض کے لیے نواں حصہ، بعض کے لیے آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھائی، تہائی، آدھا حصہ لکھاجاتا ہے۔ ‘‘
فائدہ: یعنی جس درجے کاخشوع اوراخلاص نماز میں ہوتا ہے اتنی ہی مقدار اجرو ثواب کی ملتی ہے، حتیٰ کہ بعض کوپورے اجر کادسواں حصہ ملتا ہے اگر اس کے موافق خشوع خضوع ہو، اور بعض کوآدھامل جاتا ہے، اور اسی طرح دسویں سے کم اور آدھے سے زیادہ بھی مل جاتا ہے، حتیٰ کہ بعض کوپورا پورا اجر مل جاتا ہے، اور بعض کوبالکل بھی نہیں ملتا کہ وہ اس قابل ہی نہیں ہوتی۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ فرض نماز کے لیے اللہ کے یہاں ایک خاص وزن ہے، جتنی اس میں کمی رہ جاتی ہے اس کاحساب کیاجاتاہے۔(الترغیب والترہیب، ۱:۱۸۲)
احادیث میں آیا ہے کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے خشوع اٹھایا جائے گا کہ پوری جماعت میں ایک شخص بھی خشوع سے پڑھنے والانہ ملے گا۔(المعجم الکبیر)
2. رُوِيَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ:فَمَنْ صَلَّی الصَّلَاۃَ لِوَقْتِهَا وَأَسْبَغَ لَهَا وُضُوْءَهَا، وَأَتَمَّ لَهَا قِیَامَهَا وَخُشُوْعَهَا وَرُکُوْعَهَا وَسُجُوْدَهَا، خَرَجَتْ وَهِيَ بَیْضَاءُ مُسْفِرَۃٌ، تَقُوْلُ: حَفِظَكَ اللہُ کَمَا حَفِظْتَنِيْ، وَمَنْ صَلَّاهَا لِغَیْرِ وَقْتِهَا، وَلَمْ یُسْبِغْ لَهَا وُضُوْءَهَا، وَلَمْ یُتِمَّ لَهَا خُشُوْعَهَا، وَلَارُکُوْعَهَا وَلَاسُجُوْدَهَا، خَرَجَتْ وَهِيَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ، تَقُوْلُ: ضَیَّعَكَ اللہُ کَمَا ضَیَّعْتَنِيْ، حَتیٰ إِذَاکَانَتْ حَیْثُ شَاءَ اللہُ لُفَّتْ کَمَا یُلَفُّ الثَّوْبُ الْخَلِقُ، ثُمَّ ضُرِبَ بِهَا وَجْهُہٗ. (جامع الصغیر)
’’حضورِ اقدس ﷺکاارشاد ہے کہ جوشخص نمازوں کواپنے وقت پر پڑھے، وضو بھی اچھی طرح کرے، خشوع وخضوع سے بھی پڑھے، کھڑا بھی پورے وقار سے ہو، پھراسی طرح رکوع سجدہ بھی اچھی طرح سے اطمینان سے کرے، غرض ہر چیز کو اچھی طرح ادا کرے تووہ نماز نہایت روشن، چمک دار بن کر جاتی ہے، اور نمازی کو دعا دیتی ہے کہ: اللہ تعالیٰ شانہٗ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تونے میری حفاظت کی۔ اور جوشخص نماز کو بری طرح پڑھے اوروقت کو بھی ٹال دے، وضوبھی اچھی طرح نہ کرے، رکوع سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تووہ نماز بری صورت سے سیاہ رنگ میں بددعادیتی ہوئی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے جیسا تونے مجھے ضائع کیا، اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔ ‘‘
فائدہ: خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو نماز کواچھی طرح پڑھیں، کہ اللہ کی اہم ترین عبادت ان کے لیے دعاکرتی ہے، لیکن عام طورسے جیسی نمازپڑھی جاتی ہے کہ، رکوع کیاتو وہیں سے سجدہ میں چلے گئے، سجدے سے اٹھے تو سر اٹھانے بھی نہ پائے تھے کہ فوراً کوّے کی سی ٹھونگ دوسری دفعہ مار دی، ایسی نماز کاجوحشر ہے وہ اس حدیث شریف میں ذکرفرما ہی دیا، اور پھر جب وہ بربادی کی بددعا کرے تو اپنی بربادی کاگلہ کیوں کیاجائے! یہی وجہ ہے کہ آج کل مسلمان گرتے جارہے ہیں، اور ہرطرف ’’تباہی ہی تباہی‘‘ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ایک دوسری حدیث میں بھی یہی مضمون وارد ہوا ہے، اس میں یہ بھی اضافہ ہے کہ جو نماز خشوع خضوع سے پڑھی جاتی ہے آسمان کے دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں، وہ نہایت نورانی ہوتی ہے، اورنمازی کے لیے حق تعالیٰ شانہٗ کی بارگاہ میں سفارشی بنتی ہے۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نمازمیں رکوع اچھی طرح نہ کیا جائے کہ کمر پوری جھک جائے اس کی مثال اس عورت کی سی ہے جوحاملہ ہو، اور جب بچہ ہونے کاوقت قریب آجائے تو اسقاط کردے۔ (مسند ابی یعلی، حدیث: ۳۱۵)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ: بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو روزے سے بجز بھوکا اور پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہیں، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں جن کوجاگنے کے علاوہ کوئی چیزنہیں ملتی۔(مسند احمد، حدیث: ۸۸۵۶)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے حضوراقدس ﷺسے سنا کہ جو قیامت کے دن پانچوں نمازیں ایسی لے کرحاضر ہو کہ ان کے اوقات کی بھی حفاظت کرتا رہا ہو، اور وضو کابھی اہتمام کرتا رہا ہو، اوران نمازوں کوخشوع خضوع سے پڑھتا رہا ہو، توحق تعالیٰ شانہٗ نے عہد فرمالیا ہے کہ اس کو عذاب نہیں کیاجائے گا، اورجوایسی نمازیں نہ لے کر حاضر ہو اس کے لیے کوئی وعدہ نہیں، چاہے اپنی رحمت سے معاف فرمادیں چاہے عذاب دیں۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)