نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!

تحریک لال مسجد کیا تھی اور آج اِسے کیاہونا چاہیے؟

تحریکِ لال مسجد کی خدمت میں چند گزارشات

ابو عمر عبد الرحمن by ابو عمر عبد الرحمن
31 جولائی 2023
in سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!, جون و جولائی 2023
0

لال مسجد تحریک سے ہمیں محبت ہے ، اس کی محبت و عقیدت ہر مجاہد کے دل و روح میں بستی ہے۔عظیم کرداروں کے عظیم ایمانی مواقف اور ان مواقف کی خاطر پیش کی گئی اُن کی عظیم قربانیوں کاصرف تصور ہی ہمارے ایمانی جذبات کو جِلا بخشتا ہے۔ یہ تحریک وقت کی ضرورت تھی، یہ شریعت کے تقاضے پر کھڑی ،شریعت ہی کی حاکمیت قائم کرنے کی ایک مؤثرپکار تھی۔ مسلمانان ِ پاکستان کو اٹھانے، انہیں حقیقت و سراب کے درمیان تمیز کرانے اوربالخصوص اہل دین کو خوابِ غفلت سے جھنجوڑ کر بیدار کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ایسی ایک تحریک اٹھے جو صدق و و فا کی پیکر ہو، جو گفتار ہی نہیں اپنے کردار اور خون تک سے بھی راہِ حق کے حق ہونے کی گواہی دے اورساتھ یہ بھی واضح کر دے کہ ہمارا یہ پاکستان اسلام کا قلعہ ابھی نہیں بنا، بلکہ اس وطن ِ عزیز کے تمام تر وسائل الٹا اسلام اور اہل اسلام ہی کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں ۔اس تحریک نے ایک ایسے وقت میں منکر کو ببانگ دہل منکر کہا ، اس کےخلاف ’نہی عن المنکر ‘ کا فریضہ انجام دیا اور اس کے خلاف عزیمت و قربانی کی داستان بن کر کھڑی ہوئی جب منکراور معروف میں فرق مٹتا جا رہا تھا،اور تو اورخود اہل دین کی طرف سے بھی بدترین منکر، یعنی غیر اللہ کی حاکمیت پر قائم نظام کے ساتھ مفاہمت اور معاونت کا رشتہ قائم ہورہاتھا۔ جب خود داعیان ِ دین کے ہاں بھی حمایت و مخالفت کی کسوٹی دین نہیں بلکہ محض دین داروں کا مفاد بن رہا تھا اورجب اسلام کے خلاف یہاں بپا جنگ اہل دین کے اٹھنے اور اٹھانے پر کسی بھی طور پر منتج نہیں ہو رہی تھی، عین اِس ماحول میں مولانا عبد الرشید غازی اپنے نیک سیرت طلباء اور پاک دامن طالبات کے ساتھ کھڑے ہوئے ، انہوں نے اسلام کے حق میں اس قاتل خاموشی کو ’شریعت یا شہادت ‘ کے نعروں سے توڑا اور دین ِ اسلام کی مصلحت پر دیگر تمام مصالح کو قربان کر نے کا درس دیا ۔ یہ ایسا وقت تھا کہ جب دین داروں کو اسمبلیوں میں نشستیں دلاکر ’مصروف ‘ کر دیا گیا تھا، اہل ِمدارس کے حقوق کی حفاظت کے لیے جاری ان کی تحریک کو بھی اطمینان دلایا گیا تھا کہ مدارس نہیں چھیڑے جائیں گے1۔ دوسری طرف ساتھ ہی دین ِ اسلام اور ملت ِ پاکستان پر وہ عظیم ڈاکہ ڈالا جا رہا تھا کہ جس کی نظیر گزشتہ تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ داخلی اورخارجی تمام تردین دشمن طاقتیں متحد اور متفق ہوکر وطن عزیز کو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جنگ کا مرکز بنا رہی تھیں اور اُن تمام اقدار و روایات کو جڑوں سے اکھاڑا جا رہا تھا جو مسلمانان ِ پاکستان کو بطورِ قوم عزت و عظمت اور فوز و فلاح جیسی نعمتیں دلا سکتی تھیں۔ ایک طرف تو ریاستی سرپرستی میں یہ ساری جنگ بڑے دھڑلے کے ساتھ جاری تھی تو دوسری طرف اہل دین کی طرف سے دین کے تحفظ اور شریعت کی پاسداری کے لیے دور دور تک بھی کوئی حرکت و تحریک دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ نتیجتاً دین دشمن نشے میں مست و مدہوش ہوکر اسلام کے خلاف جنگ میں بے خطر آگے بڑھ رہے تھے ۔جہاں تک عوام کا معاملہ ہے تو انہیں بھی خاموش کرایا گیا تھا ۔ ان کے دل سے بھی اس احساس کو مٹایا جارہا تھا کہ ایک مسلمان کے لیے قیمتی ترین شے اور اول و آخر اس کا دین ہے ، یہ دین اگر محفوظ ہو، معاشرے میں اگر یہ غالب ہو تو اُسے پرسکون ہوناچاہیے، اس لیے کہ اس سے اس کی دنیا وآخرت کی کامیابی ممکن ہوجاتی ہے ، لیکن اگر یہ دین مغلوب ہو، شریعت کی قدم قدم پر پامالی ہو رہی ہو اور معاشرے سے عزت و عفت کے ہر نشان کو مٹایا جار ہا ہو تو پھر ایک مومن کبھی بھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا، بلکہ طوفان ِباطل کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہو نا ہی پھر وہ زندگی کا مقصد اول سمجھتا ہے ۔

مولانا عبد الرشید غازی شہید رحمہ اللہ نے حق و باطل کا یہ گڈ مڈ ہونااورا س کے نتیجے میں باطل و ظلم کا وطن عزیز پر غلبہ پانا برداشت نہیں کیا ۔آپ نےا پناجسم کٹوا کر باطل کے غلیظ چہرے پر چڑھا نقاب اتار دیا اور یہ ثابت کردیاکہ جس فوج کو اسلامی کہا جاتا ہے، وہی اسلام و شریعت کی باغی ، عوام کی دشمن اور دشمنان ِ دین خصوصاً امریکہ کی زر خرید غلام ہے ۔غازی شہید ؒ کے پاکیزہ خون نے بتادیا کہ اس فوج کی تربیت ہی کچھ ایسی ہوئی ہے کہ یہ تنخواہ ، پلاٹ اور ترقی ہی کو بس اپنا خدا سمجھتی ہے اور اس کی پرستش میں ہر گھٹیا کام کرنا قابل فخر گردانتی ہے ۔ پاکستان کہ جس کو’اسلامی ریاست‘ اور اس کے حکمرانوں کو’ شرعی اولوالامر‘ ثابت کیا جاتا تھا ، شہدائے لال مسجد کے فاسفورس سے جلے جسموں اور قرآن کے پھٹے اوراق نے ثابت کیا کہ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے، اس کا نظام مکمل طور پر دجل و نفاق پر کھڑاہے اور اس میں شریعت کا محض مطالبہ بھی ایسا جرم عظیم ہے کہ جس کی سزا میں مسجد ومدرسہ اور ماؤں بہنوں تک کی حرمت بھی باقی نہیں رہتی ۔

غازی شہید رحمہ اللہ کے ساتھ طلباء وطالبات چونکہ نہتے تھے ، اس لیےآخری حد تک آپ نے ٹکراؤ سے گریز کیا، مگر جب نظر آیا کہ فوج طاقت و کبر کے نشے میں مست ہے اور دین دشمنی ان کے انگ انگ سے ظاہر ہو رہی ہے تو آپ ڈٹ گئے اور آپ کا یہ ڈٹنا بے مقصد نہیں تھا، ایک عظیم خواب اور اعلیٰ مقصد کو آپ نے اپنی آنکھوں میں سجایا ۔

وہ مقصد کیا تھا کہ جس کی خاطر آپ اور آپ کے ساتھیوں نے نہتے ہوکر بھی فوج کے مقابل کھڑا ہوناقبول کیا ؟ کیاآپ رحمہ اللہ کو فتح یاب ہونے کا گمان تھا کہ اس طرح چند سو یا چند ہزار نہتے طلباء وطالبات کے ساتھ جب وہ کھڑے ہوں گے تو لاکھوں کی مسلح فوج پر غلبہ پالیں گے؟کیا آپ کایہ خیال تھا کہ اس طرح کےا حتجاج سے وہ پاکستان میں شریعت نافذ کردیں گے؟ یا انہیں یہ خوش گمانی تھی کہ فوجی حکمران ان کے مطالبات قبول کرلیں گے اوریہ خائن جرنیل امت کے حق میں اپنے تمام تر جرائم سے توبہ تائب ہوجائیں گے؟ نہیں! ایسا بالکل نہیں تھا۔ نہ انہیں کمزور اور نہتے چھوٹے سےلشکر کے ساتھ فوج کو شکست دینے کی خوش فہمی تھی اور نہ ہی اس فوج کے متعلق انہیں یہ گمان تھا کہ یہ ان کے شرعی مطالبات تسلیم کر لے گی۔جہاں تک شریعت کے نفاذ کا تعلق ہے ، تویہ ان پر بھی واضح تھا کہ دریں حالات ایسا ہونا ناممکن ہے …… پھر آپ رحمہ اللہ کے سامنے ٹکراؤ کا مقصد کیا تھا؟ حاصل کیا کرناتھا؟ کس امید کی خاطر آپ نے اپنی اور سیکڑوں ساتھیوں کی قربانی دےدی؟جواب واضح ہے۔ آپؒ کو امید تھی کہ قربانی دےکر یہاں ارباب اقتدار کی یہ دین دشمنی واضح ہوجائے گی ، جس نظام کو اسلامی دکھانے کی آج تک کوشش ہوتی رہی ، اس کے کفر، ظلم ا و ر دجل پر مبنی ہونے میں پھر کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہے گا۔ جب مسلط طبقات کا یہ قبیح اور منحوس چہرہ عام عوام کے سامنے بھی کھلے گا تو داعیانِ دین و علمائے کرام کے لیےاس باطل کے خلاف تحریک اٹھانا سہل ہو جائے گا، عوام کو سمجھانا اور انہیں نصرت دین کے لیے شاملِ قافلہ کرنا مشکل نہیں رہے گا اور بالآخر وہ وقت بھی آجائے گا کہ جب کفر و ظلم کے ایوانوں کے چراغ گُل ہوجائیں گے اور جہادی ضربوں سے یہ نظام ِظلم زمین بوس ہوجائے گا۔

غازی رشید رحمہ اللہ کا مقصد قربانی دےکر حق و باطل کے درمیان تمیز کی لکیر کھینچنا تھا ، عدل و ظلم ، خیر و شر اور دوست و دشمن قوتوں کے بیچ فرق دکھانا آپ کاہدف تھا؛ اور تمیز کی یہ لکیر کھنچ گئی، حق و باطل میں تفریق قائم ہوگئی اور غازی شہیدؒ کاہدف الحمد للہ حاصل ہوگیا۔ تحریکِ دعوت و جہاد کو غازی شہید رحمہ اللہ کی قربانی کی صورت میں ایسی واضح دلیل ہاتھ آگئی کہ جو ہر ہرعام و خاص کو یکساں طورپر سمجھ آرہی تھی اور یہ ایسا واقعہ بن گیا کہ جس کے مقابل نظام کا دجل و فریب سب بےکار ثابت ہوا۔ اس کے بعد کوئی ایک بھی ایسا انصاف پسند فرد نہیں رہا کہ جس نے نظامِ پاکستان کے باطل ہونے اور اس کی فوج کے دشمنانِ دین و ملت کا آلۂ کار ہونے کی تصدیق نہ کی ہو۔

غازی شہید رحمہ اللہ ایک مرحلہ سر کر چکے ہیں ، اس مرحلے میں یقیناً آپ نہتے تھے ، آپ کے ساتھ شہسوار بھی ایسے نہیں تھے کہ جن سے میدان جنگ میں جنگیں لڑی جاتی ہیں ، طالبات بہنیں جس آزمائش سے گزریں ، اس آزمائش سےانہیں گزارنا غازی شہید رحمہ اللہ کی بھی خواہش نہیں تھی ، ایسی آزمائشوں سے ماؤں بہنوں کو بچانا ہی دعوت و جہاد کا مقصد ہوا کرتا ہے؛ مگر ظالم جرنیلوں کی بے رحمی اور دین دشمنی تھی کہ یہ سفاک مناظر بھی امت کو دیکھنے پڑے ۔ اس سانحے سے اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ نے جو خیر برآمد کرنی تھی ، وہ الحمد للہ برآمد ہوئی اور پوری دنیا میں واضح ہوا کہ کون حق پہ ہے اور کون باطل پر۔

اس کے بعد پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ یہ مرحلہ سر کرنا اب یہاں کے علمائے کرام اور تحریک ِ دعوت و جہاد کے داعیان ِ کرام اور مجاہدین کے ذمے تھا۔ یہ مرحلہ اس باطل نظام کےمقابل مطالبات و احتجاجات کا نہیں ، بلکہ اس کو ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اہل ایمان کومتحد کرنے اور شریکِ قافلہ کرنے کا مرحلہ ہے۔اس کا تقاضا ہے کہ تحریک ِ جہاد کی دعوت اور اس کے مبادی کو لوگوں کے دلوں میں اتاراجائے اور انہیں نظام ِ باطل کے خلاف ایک منظم تحریک کی صورت میں صف آرا کیا جائے۔

نظام ِ مملکت کا کفر و ظلم واضح کرنا ایک ہدف ہے اور اس نظام کو گرانے کے لیے تحریکِ دعوت و جہاد کھڑی کرنا دوسرا ہدف ہے۔ ایک مقصد کے حصول کے لیےبعض ایسے طریقے بھی استعمال ہوجاتے ہیں جن کا بار بار استعمال مفید نہیں رہتا اور جو دوسرے مقصد یعنی نظام کفر گرانے اور شرعی نظام کھڑا کرنے کی مہم کے لیے اگر استعمال ہوں تو اس سے الٹا نقصان ہوتا ہے ۔نہتے طلباء وطالبات کے ساتھ اٹھ کر شریعت کا مطالبہ کرنا اور اس کے بدلے میں دشمن کی طرف سے جب خلاف ِتوقع طاقت کا استعمال ہوا تو صبر و استقامت کے پہاڑ بن کر کھڑا ہوجانا ایسا اقدام تھا کہ جس سے نظام ، فوج اور حکمرانوں کا دین دشمن ہونا ثابت ہوا اور غازی شہید رحمہ اللہ کے موقف کو تقویت ملی۔ مگر اب خاص اسی طریقۂ کار پر دوام اختیار کرنا اور اسے نظام باطل کے محافظین کو شکست دینے کے لیے بھی استعمال کرناکسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ بہنوں کی پہلی قربانی سے جتنا فائدہ تحریک ِ جہاد کی دعوت کو ملنا تھا وہ مل گیا ، اب ایک دفعہ پھر نہتا اور کمزور بن کر اجتماعی طور پر قربانی دے دینا اور وہ بھی ماؤں بہنوں کی قربانی…… دعوت ِ جہاد کے لیے کسی بھی طور پر مثبت نہیں ہوگااورخدشہ ہے کہ اس سے دعوتِ جہاد کو الٹا نقصان ہو گا۔

پھر لال مسجد سانحہ کے بعد کا عرصہ و مرحلہ چونکہ اس سے پہلے جیسا نہیں ، اس لیےاس میں شریعت کے خلاف جنگ لڑنے والوں سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنا بھی بالکل بے جا ہے۔ظاہر ہے جن مجرمین کو قوت واقتدار سے جدا کرنے کے لیے شریعت جہاد وقتال کو فرض قرار دیتی ہے ،ایسوں سے نفاذ ِ شریعت کا مطالبہ کرنا خود اپنے اس مطالبے ہی کی تضحیک ہے ۔ لہٰذا آج کے اس مرحلے کا تقاضا ہے کہ ان حکمرانوں ؍جرنیلوں سے نفاذ ِ شریعت کا مطالبہ نہ کیا جائے ، بلکہ اس کے برعکس عوام میں اتر کر دعوت و جہاد کی ایسی تحریک شروع کی جائے جونظام باطل کے خلاف قوت و تعداد جمع کر ے، جس کی قیادت علماء و مجاہدین اور صلحاء و مخلصین کے ہاتھوں میں ہو اور جو نفاذ ِ شریعت کی منزل تک پہنچنے کے لیے اِتباع شریعت ہی کو اپنا واحد راستہ قرار دیتی ہو۔

ایسی تحریک کا مقصد چونکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ،اعداد و تیاری اور جہاد و قتال کے ذریعے غلبہ ٔ دین اور نفاذ شریعت ہوتا ہے، اس لیے یہ ایک مدلل دعوت ، سوز و حکمت، نظم وضبط اور صبر واستقامت کا تقاضا بھی کرتی ہے ۔ پھر یہ تحریک تب ہی اٹھ سکتی ہے جب نہتا اور کمزور ہونے کی صورت میں خود سے ہر ایسے ٹکراؤ سے اجتناب ہوکہ جس کے سبب عوام و خواص کو اس تحریک کی حکمت عملی اور فہمِ دین و جہاد پر انگلی اٹھانے کا موقع ملے ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافرض بھی یہ نبھائے مگر اس کے لیے ضرور ی ہو کہ اس عبادت کے اصول و آداب کا دھیان رکھاجائے اور اس کے طریقِ کار میں دعوت ِ دین وجہاد کے مصالح و مفاسد کا بھی بھر پور خیال کیا جائے۔ ’کَل‘ اگر نہتے ہونے کے باوجود دشمن کی طرف سے ٹکراؤ کو قبول کیا گیا اور ہمارے بھائی بہنوں نے قربانی دےکرنظام کے ظلم و کفر کا پردہ چاک کردیا تو ’آج‘ ضروری ہے کہ اس نظام کے خلاف دعوت وجہاد کی تحریک کھڑی کی جائے ، نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنے کا فریضہ بھی نبھایا جائے ، مگر ساتھ ہی اس کا بھی بھرپور اہتمام ہو کہ ایسے ہر طرح کے ٹکراؤ سے خود سے بچا جائے کہ جس کے سبب دشمن کو بہنوں کے خلاف جارحیت کا موقع ملے اورخدانخواستہ وہ ٹکراؤ کل دعوت ِ جہاد کو فائدہ دینے کی بجائے نقصان کا باعث ہو۔

۲۰۰۷ ء میں ہمارے بھائی بہنوں کو شہید کرکے دشمن نے مادی فتح کا جھنڈا تو لہرادیا تھا مگر دلیل اور اخلاق کے میدان میں اس نے بہت بری طرح منہ کی کھائی تھی ، عوامی رائے اور جذبات شہدائے لال مسجد کے حق میں رہے ، ان کا موقف اور اخلاص قابل تقلید سمجھا گیا، نتیجتاً فوج کے ہاتھوں بہایا گیا وہ پاکیزہ خون فوج ہی کے لیے بہت مہنگا ثابت ہوا۔ آج بھی تحریک لال مسجد جاری ہے ، مگر کل کی نسبت آج دشمن کی حکمت عملی مختلف ہے۔ آپ فوج اور حکومتی اہلکاروں کے بیانات د یکھیے، میڈیا اور سوشل میڈیا میں لال مسجد کے حق میں اور خلاف پروپیگنڈہ دیکھیے، اپنے آپ کو غیرجانب دار دکھانے والے صحافیوں کی اس موضوع پر دستاویزی فلمیں بھی ملاحظہ ہوں، خود لال مسجد سے جاری شدہ بیانات کو کس اسلوب اور پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے…… یہ ساری مہم واضح کرتی ہے کہ اب کی بار لال مسجد تحریک کو دلیل واخلاق کے میدان میں گرانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔آج اس تحریک کو دلیل وحجت اور بصیرت و فراست سے عاری دکھانے کی ایسی سعی ہور ہی ہے کہ جس سے اس کا حق بجانب ہونا مبہم ٹھہرے اور اخلاق کے میدان میں اِس کی برتری بالکل ختم ہوجائے۔کوشش ہے کہ علم و فہم کے ہتھیار سے یہ تحریک مسلح نظر نہ آئے بلکہ نری جذباتیت اور عجلت پسندی اس کے اوپر غالب دکھادی جائے،اس طرح ایسی خطائیں اس سے کروائی جائیں کہ جس کے نتیجے میں عوام و اہل دین کی تائید سے یہ بالکل محروم ہوجائے۔ قرائن سے نظر یہی آرہا ہے کہ پہلے اس تحریک کو عبث اور غیر معاملہ فہم ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اس کے بعد پھر (خاکم بدہن، اللہ نہ کرے) ان پر ہاتھ ڈالاجائے گا اور حال ہی میں مولانا عبد العزیز غازی (حفظہ اللہ) پر قاتلانہ حملہ اس کی ایک نظیر ہے۔ ایسا اگر خدانخواستہ ہونے دیا گیا اور ابھی سے ہم نے اپنے کمزور پہلوؤں پر توجہ نہیں دی تو یہ ایک درجے میں ماضی کے حاصل کردہ ثمرات کو بھی ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ کل عسکری طور پر مغلوبیت کاسامنا ہوا ، سب شہید ہوگئے مگر اس کے باوجود ہمارا موقف حق بجانب نظر آیا، اور یہی وہ وجہ تھی کہ جس سے دشمن کا نقصان اور تحریک ِ جہاد کا فائدہ ہوا ، مگر آج دشمن کی تمام تر کوشش کا ہدف لال مسجد کے ہمارے ان پیاروں کو دوسرے انداز میں زیر کرنا ہے اور ایسا ہونا زیادہ خطرناک ہے۔لہٰذا تمام تر جدوجہد و قربانی کے بعد بھی اگر ہم دلیل اور بہتر حکمت عملی سے مسلح نظر نہیں آئے تو خدشہ ہے کہ جس جدوجہد سے تحریک ِ دعوت و جہاد کو تقویت دینا مطلوب تھا ، اُس سے الٹا نقصان ہوجائے گا اور یوں اچھی نیت اور قربانی کے باوجود بھی نظام ِباطل کو نقصان کی جگہ(خدانخواستہ ) فائدہ ملےگا۔

یہاں ایک وضاحت اور تنبیہ کرنابھی ضروری ہے، لال مسجد کی آج کی یہ تحریک بھی بالاصل امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور دعوت الی الجہاد کی تحریک ہے۔ یہ شر کے مقابل خیر اور ظلم کے خلاف عدل کی دعوت والی ہے۔ دین دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتی یہ تحریک اہل دین اور ہم مجاہدین کے سروں کی تاج اور امیدوں کا ایک محور ہے، لہٰذا حکمت عملی میں اختلاف و اتفاق کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس حقیقت کااعلان بھی ضروری ہے کہ ہم مجاہدین بہر صورت اپنے ان احباب ، مشائخ اور بھائی بہنوں کی تائید کرتے ہیں ۔ کل بھی ہم اس تحریک کے ساتھ تھے ، آج بھی ہیں اور آئندہ اگر خدا نخوستہ پھر ہمارے بھائی بہنوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو ہم پھر سے سروں پر کفن باندھ کر ، جسموں کے ساتھ بم باند ھ کر بہنوں اور بھائیوں کے انتقام میں شریعت کی دشمن اس فوج کے ساتھ ٹکرانے نکلیں گے۔لہٰذا ہماری ان سطور کے سبب کسی غلط فہمی کا کوئی شکار نہ ہو ، ہماری حمایت و تائید اور مخالفت و عداوت کا قاعدہ ہمیں اللہ کی شریعت سمجھاتی ہے اور اس قاعدے کے تحت کسی تحریک سے حکمت عملی کے میدان میں لاکھ خطائیں سرزد ہوں ، وہ واضح خطاؤں کی بھی اگر مرتکب ہو ، لیکن اگر بالاصل وہ غلبہ ٔ دین کی تحریک ہو تو دشمنان دین کے خلاف اس کی حمایت ودفاع ہم اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا تحریک لال مسجد کی تائید و دفاع اور اس کی تقویت کے لیے سعی و فکر ہمارے جہاد کا حصہ ہے۔ اس تحریک کے ساتھ ایمانی رشتہ ہی ہے کہ یہ ہمارے دلوں میں بستی ہے اور جو کچھ اس تحریر میں ہم عرض کررہے ہیں ، اس کا سبب بھی اس تحریک کی خیر خواہی و محبت ہے۔ ہماری خواہش و دعا ہے کہ اللہ اس تحریک کے قائدین اور طلباء و طالبات کی مدد و نصرت فرمائے ، اللہ مولانا عبدالعزیز غازی صاحب (حفظہ اللہ) کو دنیا و آخرت کی عزت دے ، ان کی عزت و مقبولیت میں اضافہ فرمائے اور اللہ رب العزت ان کے سوز ، دعوت اور درد کو سات آسمانوں میں محبوبیت عطا کرے۔مولانا ہمارے والد کی جگہ ہیں، ہم اپنے آپ کوان کے قدموں کی خاک کے برابر سمجھتے ہیں ، وہ ہمارے محبوب ہیں ، لہٰذا ان سطور کے لکھنے کا مقصدبھی اپنے والد کی تائید و نصرت ، ان کی مشکلات کو آسان کرنا اور ان کی مبارک تحریک کومزید مؤثر بنانا ہے ، نہ کہ ان کی قدر و منزلت پر خدانخواستہ کوئی حرف لانا ، حاشا وکلا!

اللہ ہم سب کی خیر و صلاح کی طرف رہنمائی فرمائے، ضروری نہیں ہے کہ ہم ہی مکمل طور پر حق بجانب ہوں مگرجو امور اپنی اس مبارک تحریک(لال مسجد ) کی تقویت کے لیے ہم مجاہدین مفیداور ضروری سمجھتے ہیں ، انہیں تحریک کے تمام احباب تک پہنچانا ہمارے اوپر قرض ہے ۔ لہٰذاذیل میں چند مختصر نکات کی صورت میں اپنی گزارشات اپنے بزرگوں ، بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں یہاں عرض کرتے ہیں:

  1. پاکستان میں رائج نظام باطل اور نفاذِ شریعت دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے حکمرانوں سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ خود ہماری دعوت کو بھی ناقابل فہم بناتاہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہاں مسلط طبقات کے آگے احتجاج کرنےیا نفاذِ شریعت کا مطالبہ رکھنے کی بجائے عام عوام میں اترا جائے اور ان کے اندر دعوت وجہاد کی تحریک کھڑی کرنے کی سعی ہو ۔

  2. وطنِ عزیز میں شرعی نظام صرف وہ تحریک ہی قائم کر سکتی ہے جس کے افراد مخلصین و صالحین اور شریعت کے تابع مجاہدین ہوں۔ ایسے افراد کی معاشرے میں تلاش ہو اور ان کی تیاری پر ہی توجہ کا بڑا حصہ مبذول ہو ۔ اس مقصد کے لیے خفیہ اور علانیہ انداز میں دعوتی نظام وضع ہو اورپھر ساتھ ہی ایسے افراد کے لیے یہاں تزکیہ و تربیت اور اعداد و تیاری کا بھی مؤثر نظام قائم ہو ۔

  3. دعوت و تربیت کے لیے باکردار اور باصلاحیت داعیان ِ کرام اور مربی حضرات کو تیارکرنا انتہائی ضروری ہے۔ ایسے اصحابِ علم کی تیاری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ملک بھر میں ایسے تربیت یافتہ افراد کا جال بچھانے سے ہی دعوت وتحریک کو وسعت و تقویت ملے گی۔

  4. دنیا سے محبت ، نفس پرستی، جمہوریت ، سیکولرازم،عالمی کفری نظام ،وطن پرستی اور گروہی و جماعتی تعصبات…… نصرتِ دین کے راستے کی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ مذکورہ بالا داعیانِ کرام کو ان موضوعات پر مدلل اور مؤثر انداز میں مرتب شدہ مواد دینا چاہیے۔ اسی طرح فکر ِآخرت ، للہیت و خوف خدا ،تمام معاملات میں شریعت کی پیروی ، جذبۂ جہاد ،دوستی ودشمنی کا شرعی معیار،نظام کفر کے خلاف شرعی جدوجہد ( یعنی دعوت، اعداد اور پھر قتال )کی اہمیت و ضرورت جیسے نکات کو یہ مدرسین حضرات اپنے دوراتِ شرعیہ کے مستقل موضوعات رکھیں۔

  5. نظامِ کفر کے ہرہر پہلو او ر جاہلیتِ جدیدہ کی ہرہر صورت پر علمائے امت اور قائدین جہاد کی رہنمائی میں کتب و بیانات کا ایک بڑا ذخیرہ الحمدللہ تیار ہوچکا ہے ،دعوت و تربیت میں اس ذخیرے سے استفادہ کیا جائے اور اسے زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی سعی ہو۔

  6. نظام باطل کے ساتھ تعامل کا موضوع ہم اہل دین کے ہاں بھی افراط و تفریط کا شکاررہا ہے ،ایک طرف ایسی سوچ ہے جو دین دشمن حکمرانوں کو شرعی اولوالامر ثابت کرتی ہے اور جہاد تک کو ان طواغیت کی اجازت کا پابند کرتی ہے تو دوسری انتہا پر جہاد سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والی ایسی فکر بھی ہے جو نظام کے خلاف تو قتال کی داعی ہے مگر ساتھ ہی یہ خون ِ مسلم او ر تکفیر و تفسیق کے معاملے میں ایسے خود ساختہ مبنی بر ھویٰ اصول رکھتی ہے کہ جن کے سبب جہاد اور دعوت ِ جہاد ہی کا ہمیشہ نقصان ہو ا ہے۔ غرض یہ حساس موضوع ہے اور ضروری ہے کہ اس میں صرف ایسے اہل علم کی پیروی ہو جو تقویٰ و فہم ِ سلیم کے حامل اور اُصول ِ اہل السنۃ والجماعۃ کے پابند ہوں اور جن کے علم و فہم پر تحریک ِ جہاد میں اعتماد کیا جا رہا ہو ۔

  7. جہاں تک خواتین و طالبات کا معاملہ ہے تو انہیں دعوتِ دین و جہاد کی خدمت میں شریک کرنا چاہیے، ان کی ضرورت ہے ، مگر ہماری درخواست ہے کہ انہیں کسی بھی احتجاجی اور جارحانہ عمل میں شامل نہ کیا جائے، ایسا کرنے سے دشمن کو بہنوں کے خلاف کارروائی کا موقع ملتا ہے2 ۔ خواتین کا اصل میدان ِ کار ان کے گھر اور خواتین کا داخلی حلقہ ہے ، یہاں یہ خواتین میں دینی بیداری پیدا کریں اور ایسی نسلیں پروان چڑھائیں کہ جن کےاندر تک نظام باطل کی نفرت اوراس کے خلاف جدوجہدکی خُو رَچی بسی ہوئی ہو ۔

  8. اپنے کارکنان کو دشمن کی نظروں سے محفوظ کرنے کی سعی ہو تاکہ وہ دعوت و تحریک میں فعال کردار ادا کرسکیں ۔ نہتے اور کمزور ہونے کی صورت میں دشمن ہمیں ختم کرنے کی کوشش کر رہاہے، لہٰذا ایسے حال میں ہماری سعی ہو کہ اپنے ساتھیوں کو ان کے شر سے بچائیں اور عمل و مزاحمت کے میدانوں کے لیے انہیں محفوظ کرلیں۔

  9. منکرات روکنے کی کوشش ہو مگراس سے متعلق پہلی گزارش یہ ہے کہ نہی عن المنکر کے اصول و آداب کا بھر پور خیال ہو اور دوسرا یہ کہ اس میں ایسا اسلوب اور طریقہ استعمال نہ ہو جو الٹا ہمارا حق بجانب ہونا عام عوام کی نظر میں مبہم بنادے اور ان کے لیے ہماری دعوت و موقف ناقابل فہم ہو جائے۔

  10. ہماری دعوت و تحریک حق پر مبنی ہے اور اس کا یہ حق ہونا کسی اندھے جذبے کے تحت ہم نہیں کہہ رہے ہیں ، بلکہ صدقِ دل ، عقل و فہم اور بصیرت کے ساتھ ہمیں اپنی دعوت کے حق ہونے اور نظامِ باطل کے مبنی بر فساد ہونے کا یقین ہے۔ پس ہماری دعوت وتحریک میں بھی ہمارایہ مبنی بر حق ہونا نظر آنا چاہیے اور ہر ایسی بات و اسلوب سے ہمیں گریز کرنا چاہیے کہ جس سے ہماری تحریک دلیل سے عاری اور نری جذباتیت سے مغلوب نظر آئے ۔

  11. جمہوری سیاست میں شامل اہل دین کو مباہلہ کی دعوت دینا ہماری دعوت وتحریک کو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اسی طرح ان حضرات سے خطاب میں تکفیر یا طعن و تشنیع کی زبان بھی خود ہمارے لیے اور ہماری دعوت کے لیے مضر ہے۔دعوت کا نبوی اصول نرمی ہے، اس لیے حکمت ، وعظ اور دل کو موہ لینے والے مجادلہ کے ذریعہ انہیں ان کی خامیوں کی نشاندہی ہو ۔اگر ان جماعتوں پر نقد میں دعوت کے شرعی اسلوب کا خیال رکھا جائے تو ایک تو یہ ہمارے لیے باعث ِ اجر ہوگا اور دوسرایہ کہ ان سمیت دیگر سننے دیکھنے والوں پر مثبت اثر ہوگا۔

  12. ہر ہر موضوع پر اہل دین کے ساتھ اختلاف سے ہم گریز کریں اور صرف نظام کفر اور دعوت ِ جہاد سے متعلق امور کوہی ہم زیر بحث لائیں ۔

  13. مین سٹریم میڈیا میں زیادہ تر افراد نظام باطل کے نظریاتی سپاہی ہیں یا دوسری صورت میں اس ظالم نظام کے اجرتی نوکر ہیں ۔ یہ افراد اہل دین کو بلاتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کی دعوت و موقف کو کمزور اور کھوکھلا دکھادیں ۔ اکثر اوقات داعی ٔ دین کو بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے اور ایسے سوالات میں اُسے پھنسا تے ہیں کہ جس سے الٹا داعی کا موقف مبہم اور کمزور ثابت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس میڈیا کے ذریعے دعوتِ دین کو بہت کم ہی کبھی فائدہ ہوا ہے۔ پس گزارش ہے کہ اس میڈیا میں آنے سے گریز ہو اور دعوت کے لیے بس اپنے ہی ذرائع اور وسائل پر انحصار ہو ۔

  14. کسی میڈیا چینل یا صحافی کا سامنا اگر کرنا ہو تو اس کے لیے بھرپور تیاری ہو،اور بہتر ہوگا کہ یہ خدمت صرف وہ حضرات ہی انجام دیں جنہیں مخالف موقف پر رد کرنے کا ملکہ ہو۔

  15. آپ کی طرف سے ہم مجاہدین کے ہرہر قدم اور ہر ہر قول و موقف کا دفاع نہ ہو ۔جائز و ناجائز اور دعوت کے لیے مفید و مضر ہی وہ کسوٹی ہے جس سے اہل جہاد سے منسوب تمام اقدامات کا پہلے جائزہ ہو اور اس کے بعد ہی پھر حمایت یا مخالفت ہو۔جہاد و مجاہدین کی اگر عمومی حمایت و تائید ہو جبکہ ساتھ ہی جہاد سے منسوب خطاؤں پر آپ کی طرف سے تنقید بھی ہو ، تو اس سے خود آپ کی دعوت نقصان سے بچے گی اور تحریک ِ جہاد کا بھی ان شاء اللہ فائدہ ہوگا ۔

  16. ہمارے پڑوس کشمیر میں ہندوستان کے خلاف جہاد مسلمانان پاکستان پر فرض ہے ۔ افسوس کہ پاکستانی جرنیلوں نے پہلے اس جہاد کو یرغمال بنایا ، پھر اس کی مدد و تعاون روک کر اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور آخر میں آج اس کے دروازے پوری امت مسلمہ پر بند کردیے ہیں اور مسلمانان کشمیر کو مشرکین کے رحم وکرم پر چھوڑا ہے ۔ دعوت میں اس عظیم خیانت کو واضح کرنا چاہیے اور کشمیر و برصغیر میں موجود ایسے مجاہدین کی نصرت پر عوام کو ابھارنا چاہیے کہ جو خالص غلبہ ٔ دین اور مظلوموں کی نصرت کے لیے جہاد کے داعی ہوں اور جو ظالم مشرکین کے خلاف غزوۂ ہند کو بپا کرنا اپنا ہدف سمجھتے ہوں۔

  17. پاکستان میں اصل اقتدار فوج کا رہا ہے اور فوج کی ہائی کمان عالمی طاغوتِ اکبر امریکہ ہی کے اشاروں پر چلتی ہے۔ پوری دنیا میں عالمی کفری نظام میں سانپ کے سر کی مانند امریکہ اور اس کے ورلڈ آرڈر کے خلاف دعوت ہمارے بنیادی نقاط میں شامل ہو۔

یہ وہ چند گزارشات ہیں جنہیں تحریک لال مسجد کے اپنے محبوبین کی خدمت میں پیش کرنا ہم نے ضروری سمجھا۔ہمارے نزدیک یہی ایسی حکمت عملی ہے کہ جس سے لال مسجد کی تحریک نفاذ ِ شریعت کی اس جدوجہد میں بہترین انداز میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے ۔یہاں اپنی یہ گزرشات اس دعا پر ختم کرتاہوں کہ اللہ لال مسجد کی تحریک کو ہمیشہ کی طرح مومنین ومجاہدین کے دلوں کی ٹھنڈک رکھے ، اس کے قائدین و کارکنان سے دین متین کی نصرت کی عظیم خدمت لے اور اللہ رب العزت قدم قدم پر انہیں اپنی رہنمائی سے نوازے اور ن کی حفاظت فرمائے،آمین یا ربّ العالمین !

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین!

٭٭٭٭٭


1 مدارس کا تحفظ مطلوب ہے لیکن ظاہر ہے یہ تحفط اسلام کے تحفظ کا ذریعہ ہے نہ کہ یہ خود مقصود بالذات ہے۔اب اگر اربابِ اقتدار تحفظ ِ مدارس کی قیمت پر اہل مدارس کو اپنے باطل کی تائید میں کھڑا کررہے ہوں اور ان سے ان کا فریضۂ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھین رہے ہوں تو ایسے میں یہ مدارس کا تحفظ کیوں کر ہوسکتاہے؟مدارس کا تو کام ہی علوم دینیہ کا احیا و غلبہ ہے ، لیکن مدارس کو ’نہ چھیڑنے ‘ کا عندیہ اگر مشروط کیا جارہاہو کہ الاسلام یَعلو ولا یُعلی (اسلام غالب ہوگا مغلوب نہیں!) کا درس نہیں دیا جائے گا ،اسلام دشمن نظام کی حمایت و تائیداور اسی کی ہی اطاعت و خدمت ہوگی ،جبکہ جہاد و مجاہدین کی مذمت ہوگی تو یہ درحقیقت مدارس کا (محض ) وجود قائم چھوڑ کر انہیں ان کی ا صل روح سے محروم کرنا ہے ۔یہ فی الاصل اسلام اور مدارس دونوں کو مغلوب و محکوم رکھنے کا ایسا سودا ہوگا جوبالآخر مدارس ہی کی ویرانی پر منتج ہوگا ۔مصر کے اندر اسلام او ر اہل اسلام کی شوکت توڑنے اور وہاں یہود نواز طبقات کو غالب کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے تھے ان میں سےایک اہم قدم جامعہ ازہر کو کفر و اسلام کی جنگ میں اسلام ہی کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ تھا ۔ جامعہ ازہر جب اس سازش کا مقابلہ نہیں کرسکی تو دنیا نے دیکھ لیا کہ آج اس کا وجود تو ہے مگر یہ بے روح ہے ، اور اس کی وہ قیادت و سیادت مکمل طورپر ختم ہو کر رہ گئی ہے جو اس کی پہچان تھی ۔برِّ صغیر کے پہلے باقاعدہ مدرسے ’دار العلوم دیوبند‘ کا مقصدِ تاسیس بھی حفاظت و حمایتِ اسلام تھا۔ یہ بات شرعاً، عقلاً، تاریخاً معلوم و ظاہر ہے کہ حفاظتِ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کے بدون ممکن نہیں اسی لیے دار العلوم دیو بند کے اولین طالبِ علم حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے فرمایا ’ مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا، جہاں تک میں جانتا ہوں ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی ناکامی کے بعد (جب شریعت نافذ نہ رہی)یہ ارادہ کیا گیا کہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے،جس کے زیرِ اثر لوگوں کو تیار کیا جائے تا کہ۱۸۵۷ء کی ناکامی کی تلافی کی جاسکے!‘ (احاطۂ دار العلوم دیوبند میں بِیتے ہوئے دن، از مولانا مناظر احسن گیلانی، ص ۱۷۰) ۔ نیز مولانا سیّد ابو الحسن علی ندوی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’دار العلوم دیوبند دراصل ایک چھاؤنی تھی‘۔ پس مدارس کا دفاع ہم اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم سمجھتے ہیں ، لیکن ساتھ ہی اس کے برابر اہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے اصل مقام و مقصد سے بھی محروم نہ ہوں ، کیونکہ خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہمیں اس میں کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ مدارس بھی محفوظ نہیں رہیں گے ۔

2 مقصد یہ نہیں کہ اس غرض کے لیے اپنی دعوت و تحریک میں ایسی تبدیلی بھی لائی جائے جو شرعا جائز نہ ہو، مدعا یہ ہے کہ دعوت وجہاد کے بنیادی اصولوں پر کاربند رہا جائے مگر عملی میدان میں بہنوں کی طرف سے ایسی جارحانہ سرگرمیاں بالکل نہ ہوں کہ جو دین دشمنوں کو بہنوں پر ہاتھ ڈالنے کا موقع فراہم کررہی ہوں ، باقی اس اہتمام کے باوجود بھی خدانخواستہ آزمائش آتی ہے تو یہ اللہ کی طرف سے ہوگی اور اس میں پھر ثابت قدم رہنے سے ہی ان شاء اللہ اپنی نجات اور تحریک کا فائدہ ہوگا۔

Previous Post

وانا آپریشن کے بارے میں پاکستان کے علماء کا متفقہ فتویٰ

Next Post

مولانا عبدالرشید غازی شہید رحمہ اللہ کا علمائے کرام کی مجلس میں خطاب

Related Posts

اسلام آباد کے دروازوں پر ’’اسلام‘‘ کی دستک
سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!

اسلام آباد کے دروازوں پر ’’اسلام‘‘ کی دستک

13 جولائی 2025
وانا آپریشن کے بارے میں پاکستان کے علماء کا متفقہ فتویٰ
سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!

وانا آپریشن کے بارے میں پاکستان کے علماء کا متفقہ فتویٰ

13 جولائی 2025
کہ مومنوں کے نام ہی وراثتِ زمین ہے!
اداریہ

کہ مومنوں کے نام ہی وراثتِ زمین ہے!

31 جولائی 2023
فضائلِ نماز | پانچویں قسط
تزکیہ و احسان

فضائلِ نماز | پانچویں قسط

31 جولائی 2023
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

علاماتِ کبریٰ: [دوسری نشانی]نزولِ عیسیٰ ﷤ | گیارھواں درس

31 جولائی 2023
سورۃ الانفال | نواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پہلا درس

31 جولائی 2023
Next Post
مولانا عبدالرشید غازی شہید رحمہ اللہ کا علمائے کرام کی مجلس میں خطاب

مولانا عبدالرشید غازی شہید رحمہ اللہ کا علمائے کرام کی مجلس میں خطاب

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version