شہید امامِ برحق مولانا عبد الرشید غازی رحمۃ اللہ علیہ نے زیرِ نظر تحریر بے نظیر بھٹو کے ایک کالم کے جواب میں لکھی تھی۔ لیکن اگر اس تحریر میں جہاں جہاں بے نظیر اور ایک جگہ الطاف حسین کا ذکر ہے وہاں زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، کیانی، پاشا، اور عاصم منیر ؎کا نام لکھ کر اسے پڑھا جائے تو بھی اس کا اثر برقرار بلکہ زیادہ بڑھ جائے گا۔ غازی صاحب نے اس تحریر میں ’سیاسی‘انداز اپنایا ہے تا کہ ہر طبقہ (دین دار وں سے لے کر لادین سیکولروں تک) نفاذِ اسلام کی اہمیت، ضرورت اور اس کی برکتوں کو آسانی سے سمجھ سکے اور اسلام اور انتہا پسندی، دہشت گردی، شدت پسندی وغیرہ میں تمیز کر سکے۔ (ادارہ)
مختلف اخبارات میں بے نظیر بھٹو کا ایک کالم بعنوان ’’اسلام آباد کے دروازوں پر عسکریت پسندوں کی دستک‘‘ شائع ہو رہا ہے، جس میں غالباً امریکی خوشنودی کے پیشِ نظر ’’طالبانائزیشن‘‘ اور ’’انتہا پسندی‘‘ کو ہوّا بنا کر پیش کیا گیا ہے اور یہ احساس دلایا گیا ہے کہ چونکہ محترمہ ک اپنے دورِ حکومت میں ’’انتہا پسندی‘‘ سے بارہا پالا پڑا ہے، لہٰذا فوجی قیادت کو کالے برقعوں کا یہ خالصتاً نسوانی معاملہ، بی بی کے ہاتھوں میں تھما کر واپس بیرکوں میں جا کر محض تماشہ دیکھنے پر اکتفا کرنا چاہیے۔
محترمہ نے جا بجا اس بات کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اسلام پسند عناصر ’’انتہا پسندی‘‘ کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہاں ’’انتہا پسندی‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے؟ اگر انتہا پسندی سے محترمہ کی مراد معصوم عوام کو قتل کرانا یا لاپتہ کرانا یا سیاسی مقاصد کے لیے انہیں لوٹنا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور دیگر تخریبی سرگرمیاں ہیں تو دنیا کا کوئی قانون اور مذہب اس کی اجازت نہیں دے سکتا اور اگر اس سے مراد اس سسٹم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہے، جو متفق علیہ اقدارِ اسلامی مثلاً جہاد اور حجاب وغیرہ پر قدغن لگائے، جو ظلم کو تحفظ دے، شعائرِ اسلامی کا کھلم کھلا مذاق اڑائے اور جس میں عوام سسک سسک کر جینے پہ مجبور ہوں تو یہ ہر گز انتہا پسندی نہیں بلکہ اپنے جائز حقوق کا مطالبہ ہے۔
ایک مسلم معاشرے کا یہ جائز حق ہے کہ اس میں اوپر سے نیچے تک، ہر فرد میں حقیقی اسلام کی جھلک نظر آئے۔ اگر اسلامی معاشرے کا کوئی فرد، اپنی معاشرتی روایات سے غداری کرے تو وہ پورے معاشرے کا مجرم ہے، لہٰذا اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ آج جن اسلامی سزاؤں کو العیاذ باللہ وحشیانہ بتایا جاتا ہے اور جن کے نفاذ کی بات کرنے پر ہمیں انتہا پسند، دہشت گرد، قدامت پسند اور نجانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے، درحقیقت یہی سزائیں ایک مثالی اسلامی معاشرے کی بنیاد ہیں۔ اسلام ایک دینِ فطرت ہے، انسانوں کے جذبات اور مزاج کے عین مطابق ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اسلام جہاں جرائم کی بیخ کنی کرتا ہے وہیں ان جرائم کے اسباب کا قلع قمع بھی کرتا ہے۔ پس دہشت گردی اور حقیقی اسلام میں وہی فرق ہے جو ایک قاتل کے خنجر اور جرّاح کے نشتر میں ہوتا ہے۔ غور کیجیے کہ ایک انسانیت کو موت ہے مگر دوسرا انسانیت کے لیے سراپا زندگی۔ کوئی جنونی کسی بے گناہ کو ظلماً قتل کر دے تو بلا شبہ وہ دہشت گرد ہے، لیکن معاشرے کے کسی ناسور کے لیے کوئی جج اگر پھانسی کا حکم دے تو یہ عین انصاف ہے۔ اسلام میں عدل و انصاف کے پیمانے بہت سادہ ، واضح اور دوٹوک ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیے۔ بدعنوان، کرپٹ لٹیرے، عیّاش اور بدمعاش عناصر کے لیے اسلام میں کوئی رعایت نہیں۔ ’’نفاذِ اسلام‘‘ کا نعرہ سن کر اگر یہ عناصر چیخ و پکار شروع کردیں تو یہ بالکل فطری سی بات ہے۔ قومی خزانے کو شِیرِ مادر سمجھ کر گلچھرے اڑانے والوں کو ’’نفاذِ شریعت‘‘ سے بدکنا ہی چاہیے اور اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اس ملک میں شرعی نظام قائم ہو گیا تو ان کے اللوں تللوں کی ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے گا۔
اگر الطاف حسین اور بے نظیر بھٹو کا دامن صاف ہے ، اگر ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہے تو انہیں ’’انتہاپسندوں‘‘ سے ڈرنے یا گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ یہ نطام بے گناہ اور مظلوم لوگوں کے لیے سراپا رحمت و مودّت ہے۔ محترمہ نے لکھاہے کہ ’’میں مسلمانوں کی اکثریت کی طرح اپنے مذہب پر فخر کرتی ہوں‘‘، اگر محترمہ مسلمانوں کی اکثریت کی پیروی میں فخر کر سکتی ہیں تو اب انہیں اکثریت ہی کی تقلید کرتے ہوئے نفاذِ اسلام کی حمایت بھی کرنی چاہیے۔
موصوفہ نے ’’طالبانائزیشن‘‘ کے خلاف جن جملوں سے رائے عامّہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی ہے ان میں سے چند اس طرح ہیں۔ ’’ڈنڈا بردار اہم عہدوں پر پہنچ جائیں گے، یہ عناصر از سرِ نو منظّم ہو رہے ہیں، اسلحے سے لیس ہو چکے ہیں، خودکش حملوں کا استعمال کر رہے ہیں جس سے اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے، یہ انتہا پسند عالمی مالیاتی مارکیٹوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا دیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ عالمی مالیاتی اداروں کے لیے خطرے کا الارم بجا کر محترمہ نے اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ہے، جو چند افراد کے کندھوں پر سوار ہو کر دنیا کی اکثریت پر مشتمل غریب طبقے پر حکمرانی کر رہا ہے۔ خودکش حملوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شاید محترمہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھیں کہ خودکش حملہ، تفریحِ طبع یا دل پشوری کے لیے کوئی نہیں کرتا، بلکہ اس کے پیچھے محرومیوں اور مایوسیوں کے طویل سلسلے ہوتے ہیں، یہ ناتمام آرزوئیں، ادھوری تمنائیں اور بے بسی کی انتہائیں ہاتھوں میں ڈنڈے بھی پکڑا سکتی ہیں اور سینے پر بم بھی سجا سکتی ہیں۔1مولانا عبد الرشید غازی شہید یہاں جب مایوسیوں کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے وردی و بے وردی حکمران طبقے سے مایوسی مراد ہے۔ وہ حکمران طبقہ جس نے نفاذِ نظامِ غیر اسلامی پر اصرار کیا۔ اگر اسلام قائم ہو اور شریعت کا عادلانہ قانون جاری ہو تو کہیں کوئی مایوسی اور محرومی نہیں بچے گی۔ ’نا تمام آرزوئیں‘ اور ’ادھوری تمنائیں‘، لا الٰہ الا اللہ کے نام پر ملک حاصل کر کے وہاں انگریزی نظام نافذ کر دینے کے سبب ہیں۔ پھر جب ایک طرف نظامِ انگریزی نافذ ہو اور دوسری طرف اپنے اور پرائے سبھی اس پر ’کسی نہ کسی صورت‘ راضی نظر آتے ہوں تو بے بسی کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ پھر یہ سب جذبات شریعت کے ’نفاذِ شریعت‘ کے حکم کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جذباتیت نہیں حقیقت پر مبنی اقدامات اٹھواتے ہیں، جن کا نام دعوت و جہاد ہے۔ پھر یہی دعوت و جہاد کہیں ’’ہاتھوں میں ڈنڈے بھی پکڑا سکتے ہیں اور سینے پر بم بھی سجا سکتے ہیں‘‘۔ پھر غازی صاحب کے دیگر اقوال اور ان عملی افعال خاص کر ’شہادت‘ اس بات کی سب سے بڑی موئید ہے کہ غازی صاحب نے یہاں جو جملے تحریر کیے ہیں ان کا معنیٰ و مطلب اور تشریح و مفہوم کیا ہے ۔ فدائی حملے (جنہیں عرف میں غلط طور پر خود کش کہا جاتا ہے) یعنی فی اللہ شہادت تو فی سبیل اللہ امید و رجا اور عزم و ہمت کی اعلیٰ صورت ہیں۔ (ادارہ) ہمارا مسلم معاشرہ، جو کبھی علم و فضل کی آماجگاہ اور فنون و ثقافت کی جولانگاہ تھا، حقیقی اسلامی نظام نہ ہونے کی وجہ سےبحیثیت مجموعی احساسِ کمتری، مظلومیت اور بے بسی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس کا اصل مسئلہ ’’روشن خیالی‘‘ ہے نہ لولی لنگڑی امپورٹڈ جمہوریت، بلکہ ہمیں دنیا کے دوسرے ممالک، ایران و اسرائیل کی طرح مذہب پر آئین کو مرتب کرنا چاہیے۔ ’’اسلام‘‘ جدید دور کے ہر چیلنج سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے عملی مظاہرے کے لیے کرۂ ارض پہ چھوٹا سا ٹکڑا تو ایسا ہونا چاہیے جہاں بادشاہ سے لے کر عام شہری تک، رسم و رواج سے لے کر نظامِ ریاست تک اور قانون سے لے کر سزا تک سب کچھ ہمارا اپنا ہو۔ اس میں کسی سے مانگی ہوئی بھیک شامل نہ ہو۔ اگر یہ مذہبی فریضہ جو تمام مساعی کا واحدحل ہے، امن و آشتی سے پورا ہو جائے تو یقین کریں ہمارے ہاتھوں میں ڈنڈے نہیں، آپ کے لیے پھولوں کے ہار ہوں گے وگرنہ ہمیں بھی ہر طریقے سے احتجاج کا حق حاصل ہو گا۔
موصوفہ نے اپنے کالم میں موقع بموقع جامعہ حفصہ کی طالبات کے خلاف حکومتی ایجنسیوں کے پھیلائے ہوئے پراپیگنڈے کی بعض جُزئیات کو بھی بڑی شدّ و مدّ سے بیان کیا ہے۔ نیز سابقہ حکومتوں کے ہاتھوں پی پی کے کارکنوں پر تشدد پر بھی دکھ کا اظہار کیا ہے۔ طالبات سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ طالبات نے ویڈیو سینٹرز بند کرادیے ہیں اور دھمکیاں دی ہیں۔ اسلام آباد کے گرلز سکولوں میں تالے لگا دیے ہیں۔ حکومت نے اسلحے سے بھرا ہوا ایک ٹرک لال مسجد تک پہنچا دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان جھوٹے الزامات کا جواب، آپ بذات خود اسلام آباد آ کر بچشمِ خود دیکھ کر پاسکتی ہیں۔ یا پھر اسلام آباد کے رہائشی ہی آپ کو بتا کر ان الزامات کی قلعی کھول سکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک آپ کے کارکنوں پر تشدد کی بات ہے۔ تو خاطر جمع رکھیے! آپ کی ’’ہراساں توقعات‘‘ کے عین مطابق، عنقریب پاکستان میں نفاذِ اسلام ہونے کو ہے، پھر کسی بدمعاش کو اتنی جرأت نہ ہو گی کہ وہ معصوم شہریوں بشمول پی پی کے کارکنوں کو خوف زدہ کرے یا ان پر ظلم کرے، کیونکہ اسلام ہر قسم کے ظلم کی جڑ پر وَار کرتاہے۔
محترمہ نے پرویز مشرف کی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ لال مسجد کی پشت پناہی کر رہی ہے اور ان کے خلاف کما حقّہ کارروائی نہیں ہو رہی۔ یہ لکھتے ہوئے بے نظیر بھٹو شاید وہ وقت بھول گئی ہیں، جب ان کے زمانۂ اقتدار میں اسی لال مسجد کے مولانا محمد عبداللہ شہیدؒ کو بزورِ طاقت ہٹانے کی بھرپور کوششیں کی گئیں، تاہم حکومت کی یہ کوششیں بری طرح ناکام ہوئیں اور بالآخر بے نظیر صاحبہ کو عملی طور پر اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ انگشت بدنداں ہیں کہ جامعہ حفصہ میں فوجی افسران کی بیٹیاں بھی ڈنڈے اٹھائے کھڑی ہیں، ان کے والدین انہیں منع کیوں نہیں کرتے؟2یہاں ان ’فوجی افسران‘ کا ذکر ہے جو واقعی ’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ کی خاطر فوج کا حصہ بنے۔ ایسے اللہ کے آرڈر کو ماننے والے فوجی لال مسجد آپریشن (جو پاکستان میں تفریقِ حق و باطل کا ایک واضح نشان بنا) کے بعد فوج میں بظاہر نہیں رہے۔ (ادارہ) دراصل یہ ذراٹیکنیکل قسم کی باتیں ہیں جو ’’حمیتِ دینی اور غیرتِ اسلامی‘‘ سے تعلق رکھتی ہیں۔ شاید ان الفاظ کو سمجھنے کے لیے آپ کو اردو ڈکشنری کھولنے کی ضرورت پڑ جائے۔ لہٰذا ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے نازک شاہی ذہن پر ان قدیم الفاظ کا بوجھ مت سوار کریں۔ نیز یہ امر قابلِ تعجب ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عرصے تک پاکستان کی واحد خاتون سربراہ رہ چکی ہیں، کیا وہ بھی یہ سمجھتی ہیں کہ مملکتِ خدادا کے شہری خصوصاً ایک خالصتاً نسوانی تعلیمی ادارے کی طالبات اگر حکومت سے کوئی جائز مطالبہ کریں تو اسے سختی سے کچل دینا چاہیے، کیا یہ رویہ ’’تشدد پسندی‘‘ نہیں ہے؟ اور کیا پی پی پی کی قیادت ایسے اقدامات کو جائز تصور کرتی ہے؟ البتہ جہاں تک ہم پر حکومت کی پشت پناہی کا الزام ہے، تو اے کاش ایسا ہوتا! اگر حکومت ہماری پشت پناہ بن کر نفاذِ اسلام کے لیے مخلص ہو جائے تو پھر ہمیں ڈنڈے اٹھانے کی کیا ضرورت ہے، یہی ہمارا اہم ترین مطالبہ ہے۔
محترمہ نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ ’’ہو سکتا ہے کہ وفاق اور پنجاب میں بھی نفاذِ اسلام کے حامی (ان کے الفاظ میں انتہا پسند) موجود ہوں‘‘۔ جی ہاں، آپ کے اندازے سو فیصد درست ہیں، وفاق اور پنجاب ہی نہیں ، الحمد للہ بلوچستان سرحد اور سندھ کی ہر گلی اور ہر گھر میں نفاذِ شریعت کے حامی موجود ہیں، غور کریں تو آج پاکستان کے ہر عالمِ دین، ہر دانش ور اور عوام کی زبان پر اس بے ہودہ اور فرسودہ نظام کی تبدیلی کی بات آ چکی ہے اور عوام دلی طور پر ان کے ساتھ ہیں۔ بہت جلد آپ وہ منظر دیکھیں گی کہ اسلام آباد کے دروازوں پر، اس آمرانہ اور ظالمانہ نظام کے ڈسے ہوئے مسلمان کھڑے ہو کر ’’انقلابِ اسلامی‘‘ کی روح پرور اذانیں بلند کر رہے ہوں گے۔ اور ہاں، آخری بات! محترمہ اگر غور سے کان لگا ئیں تو اسلام آباد کے دروازوں پر ’’عسکریت پسندی‘‘ نہیں بلکہ ’’اسلام‘‘ کی دستک انہیں واضح طور پر سنائی دے گی۔
[غازی صاحب شہید کا یہ مضمون ’اشراف بن کشمیر‘ کے مرتب کردہ کتابچے ’غازی کے قلم سے‘، سے لیا گیا ہے۔ (ادارہ)]
٭٭٭٭٭
- 1مولانا عبد الرشید غازی شہید یہاں جب مایوسیوں کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے وردی و بے وردی حکمران طبقے سے مایوسی مراد ہے۔ وہ حکمران طبقہ جس نے نفاذِ نظامِ غیر اسلامی پر اصرار کیا۔ اگر اسلام قائم ہو اور شریعت کا عادلانہ قانون جاری ہو تو کہیں کوئی مایوسی اور محرومی نہیں بچے گی۔ ’نا تمام آرزوئیں‘ اور ’ادھوری تمنائیں‘، لا الٰہ الا اللہ کے نام پر ملک حاصل کر کے وہاں انگریزی نظام نافذ کر دینے کے سبب ہیں۔ پھر جب ایک طرف نظامِ انگریزی نافذ ہو اور دوسری طرف اپنے اور پرائے سبھی اس پر ’کسی نہ کسی صورت‘ راضی نظر آتے ہوں تو بے بسی کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ پھر یہ سب جذبات شریعت کے ’نفاذِ شریعت‘ کے حکم کی طرف رجوع کرتے ہیں اور جذباتیت نہیں حقیقت پر مبنی اقدامات اٹھواتے ہیں، جن کا نام دعوت و جہاد ہے۔ پھر یہی دعوت و جہاد کہیں ’’ہاتھوں میں ڈنڈے بھی پکڑا سکتے ہیں اور سینے پر بم بھی سجا سکتے ہیں‘‘۔ پھر غازی صاحب کے دیگر اقوال اور ان عملی افعال خاص کر ’شہادت‘ اس بات کی سب سے بڑی موئید ہے کہ غازی صاحب نے یہاں جو جملے تحریر کیے ہیں ان کا معنیٰ و مطلب اور تشریح و مفہوم کیا ہے ۔ فدائی حملے (جنہیں عرف میں غلط طور پر خود کش کہا جاتا ہے) یعنی فی اللہ شہادت تو فی سبیل اللہ امید و رجا اور عزم و ہمت کی اعلیٰ صورت ہیں۔ (ادارہ)
- 2یہاں ان ’فوجی افسران‘ کا ذکر ہے جو واقعی ’ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘ کی خاطر فوج کا حصہ بنے۔ ایسے اللہ کے آرڈر کو ماننے والے فوجی لال مسجد آپریشن (جو پاکستان میں تفریقِ حق و باطل کا ایک واضح نشان بنا) کے بعد فوج میں بظاہر نہیں رہے۔ (ادارہ)