چند دن پہلے ’’پاکستان میں امن کیسے آئے‘‘ کے موضوع پر فیصل وڑائچ صاحب نے اپنے پوڈکاسٹ curiosity میں صحافی اعزاز سید کو مدعو کیا اور اس موضوع پر بات کی۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں بد امنی کیوں ہے ، اس سوال کے جواب میں ہمارے پاکستانی صحافی و دانشور حضرات کی ایک اکثریت ہمیشہ سے ایک ٹریک اپنائے ہوئے ہے جس کا خلاصہ یہی ہے کہ کچھ اسلامی تعلیمات ایسی ہیں جن کی اشاعت کی وجہ سے ملک میں بد امنی ہے اور جب تک ان کا خاتمہ نہ کیا جائے تب تک امن قائم کرنا مشکل ہے۔ جبکہ ہمارے خطے میں براہ راست اور بالواسطہ فکری، عسکری ،سیاسی و اقتصادی طور پر مدمعاشی کے ساتھ مداخلت کرنے والا امریکہ ، اس کے اعمال و افعال، اس کے ایجنٹوں(ہمارے جرنیل ثم حکمران) کے کردار کے بارے بالکل خاموشی برتی جاتی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ یہ طبقہ اکثر سیکولر نظریات کا حامی ہے۔ صحافت کی یہ تعریف اسرائیل کے اس عہدیدار کے علاوہ دنیا بھر میں اگر کسی نے کی ہو تو دکھا دیجیے، جس نے کہا تھا کہ اگر آپ دونوں طرف کے موقف و حالات بیان کرتے ہیں تو آپ ’’دہشت گردوں‘‘ یعنی حماس کو سپورٹ کرتے ہیں۔
اس پوڈکاسٹ میں جہاں اعزاز صاحب نے دیگر اور موضوعات کو حقائق سے ہٹا کر بیان کیا ہے وہیں انہوں نے القاعدہ کے بارے میں حقائق سے بہت بعید کچھ تبصرے بھی کیے۔ مجھے ذاتی طور پر ایک مشہور صحافی سے کبھی بھی ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اتنا حقیقت مخالف تجزیہ کرے گا۔ صحافت اگر جانبدار ہوجائے تو خودصحافی حضرات خود ہی جواب دیں کہ کیا وہ صحافت باقی رہتی ہے؟
اعزاز سید صاحب سے ایک سوال القاعدہ و دیگر تنظیموں کے بارے میں کیا گیا کہ ان کی موجودگی ڈیورنڈ لائن کے آر پار اس وقت کیسی ہے؟ نیز اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ تو انہوں نے جواب میں ،پوڈکاسٹ کے مختلف حصوں میں کچھ یوں تبصرہ کیا :
القاعدہ اب عالمی سے مقامی تنظیم بن گئی ہے اور القاعدہ ، تحریکِ طالبان اور دیگر جماعتیں(امارت اسلامی افغانستان) یہ چاہتی ہیں کہ کابل کے بعد اسلام آباد کو فتح کریں۔اس میں پالیسی یہ اپنائیں کہ عالمی قوتوں سے نا الجھا جائے، کیونکہ ماضی میں ان کو عالمی قوتوں(امریکہ وغیرہ ) نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔
دوسری بات یہ کی کہ القاعدہ اب کمزور ہوچکی ہے ۔
یہاں ان دو تبصروں کے بارے میں حقائق بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلی بات جو انہوں نے کی کہ القاعدہ اب عالمی سے مقامی تنظیم بن گئی ہے ، اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعزاز سید صاحب کو القاعدہ کی بنیادی فکر کے بارے میں جو معلومات ہیں ان میں کمی یا غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی القاعدہ کی موجودہ سرگرمیوں کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
القاعدہ کا بنیادی نظریہ ہی یہی ہے کہ عالمی طور پر امتِ مسلمہ کا دفاع کیا جائے اور اسلام کو قوت دی جائے۔ جس کے لیے وہ دنیا کی سب سے بڑی ’’رکاوٹ‘‘ کو ہٹانے کو سب سے زیادہ ترجیح دیتی ہے۔ اس لیے آپ کو القاعدہ کے قائدین کے بیانات و ہدایات میں روز اول سے آج تک کفر کے سرغنہ ’’امریکہ‘‘ کو ترجیحی بنیاد پر ٹارگٹ کرنے کا عنصر ملے گا۔ یہ عنصر القاعدہ کی فکر و دعوت میں اتنا غالب ہے کہ آج بھی امریکہ القاعدہ کو اپنے لیےسب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور وقتاً فوقتاً القاعدہ کے قائدین کی فہرستیں، ان کے بارے میں معلومات دینے پر انعامات کی خبریں شائع کرتا رہتا ہے۔ اس طرح القاعدہ کی دعوت میں یہ بات بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ امریکہ کو اس لیے ہدف بنایا جائے کہ امت کے تمام قضیوں میں شر کے کرداروں کے پیچھے بنیادی ہاتھ امریکہ کا ہے اور القاعدہ کی یہ دعوت اتنی جاندار ہے کہ مسلمان تو کیا خود کفار اس بات کو رد نہیں کرسکتے اور اس بنا پر القاعدہ کی جدوجہد کو جائز بھی سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسئلۂ فلسطین کے موضوع پر القاعدہ کا موقف روزِ اول (تیس سال) سے یہی ہے کہ اسرائیل کے تمام مظالم و شر کے پیچھے پشت پناہی امریکہ کی ہے اور اس بات کو آج شیخ اسامہ کے اس خط سے خود کفار justify کررہے ہیں جس خط میں شیخ اسامہ نے یہ جواز پیش کیا کہ ہم نے کیوں امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملے کیے۔ تو یہاں یہ عام سا سوال اعزاز صاحب سے پوچھنا چاہوں گا کہ جو القاعدہ تیس سال سے زائد عرصے سے جانوں کی قربانیاں دے کر امتِ مسلمہ و دیگر دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہی تھی کہ دنیا میں ہر شر وفساد کے پیچھے بنیادی کردار امریکہ کا ہے اور اس لیے ہمیں امریکی شر کو روکنا ہوگا، کیا وہ القاعدہ اب اس عالمی دعوت سے پیچھے ہٹے گی جب وہ دعوت آج کفار’’خود امریکی‘‘ سوشل میڈیا پر وائرل کررہے ہیں کہ شیخ اسامہ کا امریکہ پر حملہ جائز تھا؟ کیا ایسا بھی کوئی باغبان آپ نے دیکھا ہے جو تیس سال محنت کرکے ایک باغ اگائے اور جب باغ میوہ دینے لگے تو وہ کہے میں باغبان نہیں ، مجھے یہ میوہ نہیں چاہیے، میں تو صرف اس باغ کی ان چند کیاریوں کا رکھوالا ہوں اور بس!؟
جہاں تک مقامی جہاد کی بات ہے تو یہ بھی القاعدہ کے پروگرام کاحصہ ہے، لیکن کچھ اصولوں کے ساتھ۔ یہ بات واضح ہے کہ القاعدہ کی کوشش ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ مرکزی دشمن (امریکہ) پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں لیکن یہ امریکہ کی خواہش اور مقامی حکومتوں کی غلامی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ القاعدہ کو مجبور ہوکر مقامی طواغیت کے ساتھ بھی حصہ بقدرِ جثہ اس جنگ میں مشغول ہونا پڑتا ہے، حالانکہ اصلاً وہ عالمی طاغوتِ اکبر(امریکہ) سے بر سر پیکار ہے۔ اس بات کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ مقامی طواغیت کی قیادت کو بدلنا القاعدہ کی ترجیحات میں نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ کیسے مقامی مخالفین کی مخالفت سے بچ کر پہلے طاغوتِ اکبر امریکہ کو اتنا کمزور کردیا جائے کہ وہ مقامی طواغیت کی پشت پناہی سے ہٹ جائے۔نتیجتاً مقامی طواغیت خود اس قدر کمزور ہوجائیں گے کہ وہ امت کے اہلِ خیر کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ یوں مجاہدین کی صلاحیتیں منتشر ہونے کے بجائے ایک نقطے پر مرکوز ہو کر زیادہ مؤثر بنیں گی۔
اس کی بہت واضح اور کافی مثال شیخ اسامہ کی وہ بات ہے جو جہادِ پاکستان کے اوائل (۲۰۰۷ء،۲۰۰۸ء) میں شیخ عطیۃ اللہ اللیبی کو لکھے جانے والے خط میں کی گئی کہ پاکستانی فوج سے کسی طریقے سے جنگ بندی کی کوشش کی جائے اور اس وقت اپنی تمام تر توجہ افغانستان میں امریکی افواج پر رکھی جائے۔ یہ خط شیخ اسامہ کے ایبٹ آباد سے ملنے والے ڈیٹا میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ القاعدہ ترجیحی بنیادوں پر کس دشمن کو زیادہ توجہ دینا چاہتی ہے۔
اب رہی بات کہ مقامی مخالفین سے لڑائی بہرصورت کیوں جاری رہتی ہے تو اس کا جواب ہمیں اس خط سے مل جاتا ہے جو شیخ اسامہ کے خط کے جواب میں پھر شیخ عطیۃاللہ اللیبی نے لکھا جس میں کہا کہ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم امریکہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور پاکستانی فوج سے کسی طور پر بات کی جاسکے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج بالکل خود مختار نہیں ، وہ مکمل امریکہ کے امر کے تابع ہے اس لیے ان سے یہ بات(کہ آپ سے فی الحال جنگ بندی ہے اور ہم امریکہ سے لڑیں گے) کوئی معنی نہیں رکھتی۔اس جواب سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ القاعدہ جب عالمی طواغیت کے ساتھ بیک وقت مقامی طواغیت سے بھی جنگ لڑتی ہے تو وہ اس مجبوری کے تحت لڑتی ہے کہ مقامی طواغیت پیچھے نہیں ہٹتے اور عالمی طواغیت کے دفاع میں مجاہدین پر حملہ کرتے ہیں۔
تو یہ بات واضح ہے کہ القاعدہ کی بنیادی فکر و مقصد یہی ہے کہ عالمی طواغیت کو ہدف بنا کر اس کو امتِ مسلمہ پر ظلم و جبر سے، امت کے معاملات میں اپنی مفاد پرست مداخلت سے روکیں اور امتِ مسلمہ کو ان کی غلامی سے آزادی دلا کر اسلامی طرزِ حکومت کا قیام ممکن بنا سکیں۔ جب بنیادی بات ہی عالمی طور پر امت کی خیر خواہی ہے تو ایسی جماعت صرف مقامی کیسے ہوسکتی ہے؟ اس لیے اعزاز سید صاحب کا القاعدہ کے بارے میں یہ تجزیہ نہ صرف خلافِ حقیقت ہے بلکہ صحافت کے اصولوں اور معیار کے خلاف بھی ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اعزاز سید صاحب نے یہ بات اس تناظر میں کہی کہ القاعدہ نے امت کے مختلف حصوں کے لیے مقامی جبہات کا اعلان کیا ہے تو کیا یہ مقامی پن کی طرف جھکاؤ نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عالمی فکرو اہداف کے تناظر میں یہاں ہمیں کوئی تبدیلی نہیں ملتی۔ بلکہ القاعدہ کی تمام شاخوں کے لیے عالمی طور پر پالیسی ایک ہی جیسی ہے کہ ہر شاخ ترجیحی بنیادوں پر عالمی طواغیت کو نشانہ بنائے اور مقامی طواغیت کے خلاف ہر شاخ اپنی جگہ پر حسبِ ضرورت جدوجہد کرے۔ یہ بات کہ القاعدہ ایک مرکز سے کئی شاخوں میں پھیل گئی ، تو اس امر پر مزید دلالت کرتی ہے کہ القاعدہ اور زیادہ عالم میں پھیل گئی اور مزید عالمی ہوگئی۔ پہلے آپ کو ایک خاص مرکز سے جڑنا پڑتا تھا لیکن اب ہر جگہ اس کی ’فرینچائزز‘ دستیاب ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے خطے میں اگر بات کی جائے تو یہاں کے لیے القاعدہ کی شاخ ’’القاعدہ برصغیر‘‘ کا بنیادی ہدف بھی امریکہ و امریکہ کے مفادات ہیں، چاہے وہ اس خطے میں ہدف بنائے جائیں یا خطے سے باہر۔ پھر خطے کے مقامی طواغیت جس میں سرِ فہرست بھارت کی ہندو شدت پسند حکومت اور پھر پاکستانی فوج (امریکی غلام) ہیں ۔ ہاں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والی پاکستانی فوج سے شیخ اسامہ کے طریقے کے مطابق ہمیشہ ان (القاعدہ برصغیر) کی یہی پیشکش ہے کہ یہ جنگ بنیادی طور پر ہماری (امت) اور کفار(امریکہ و بھارت) کی ہے ، آپ درمیان سے ہٹ جائیں ، غزہ و فلسطین میں یہود کے پشت پناہ امریکہ کو ہدف بناتے ہوئے، ہند و کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم کرنے والی ہندو حکومت پر وار کرتے ہوئے، آپ ہمارا راستہ نہ روکیں اور ان (امریکہ و بھارت) کے دفاع میں نہ آئیں۔ اس بات پر غور کرنے میں ان ہی کا بھلا ہے کیونکہ یہ ہم سے زیادہ ان کے فائدے میں ہے۔
یہاں یہ مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے جو فیصل وڑائچ کی پوڈ کاسٹ کا موضوع تھا کہ پاکستان میں امن کیسے آئے گا؟پاکستان میں امن تبھی ہوگا جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے لیے لڑنا بند کردے گی اور نفاذِ شریعت کی محنت کرنے والوں کا راستہ نہیں روکے گی۔ پاکستان میں تو مسلح تحریکیں اٹھی ہی تب جب پاکستان نے امریکہ کی عالمِ اسلام کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں کیا کسی نے پہلے دینی نظریے کے تحت پاکستانی فوج کے خلاف اسلحہ اٹھایا؟ ہمارے خطے میں امن تب آئے گا جب ہمارے فیصلے امریکہ کی ایما کے بجائے یہاں کے اہلِ خیر عوام کی امنگوں کے مطابق ہوں۔ یعنی اسلام کے مطابق جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا۔
اس طرح اعزاز سید صاحب کی یہ بات کہ القاعدہ اب کمزور ہوگئی ہے اس بات پر بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ اعزاز صاحب القاعدہ کے تازہ حالات سے واقف نہیں۔ القاعدہ پر جب امریکہ نے حملہ کیا تھا تو اس وقت القاعدہ صرف افغانستان میں ایک تنظیم کی حیثیت سے وجود رکھتی تھی۔ جبکہ اس وقت دنیا کے کئی خطوں میں القاعدہ کے پاس باقاعدہ اپنے علاقے ہیں جن پر ان کا کنٹرول ہے اور امت کے مشرق سے مغرب تک ان کاپھیلاؤ ہے۔ایسے میں اگر کوئی ایسا تجزیہ کرے تو اس کو کم فہمی ہی کہا جا سکتا ہے۔
لیکن فرض کریں ایسا ہو بھی جائے کہ القاعدہ امت کے بنیادی دشمنوں سے لڑتے لڑتے کمزور ہوجائے تو کیا یہ کوئی بری بات ہے؟ بالکل نہیں۔ بلکہ اللہ رب العزت کا ارشادِ پاک ہے:
وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ
یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔
تو میدانِ عمل میں اتار چڑھاؤ کا ہونا فطری عمل ہے۔ ناکامی اور برائی اس میں ہے کہ کوئی اپنی دعوت و فکر سے پیچھے ہٹ جائے اور اس حوالے سے القاعدہ الحمدللہ آج بھی میدان میں ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ میدان میں ہے۔ آج اللہ ہی کے فضل کے ساتھ امریکہ افغانستان سے ذلیل و خوار ہوتا ہوا نکل چکا ہے۔ یونی پولر دنیا آج امریکہ کے ضعف کے ساتھ ملٹی پولر ہے۔ اس کے مد مقابل امتِ مسلمہ میں ہر طرف بیداری کا عمل رواں دواں ہے۔ عوام اپنے مقامی حکمرانوں کی اصلیت جان چکی ہے۔ مقامی افواج کے بارے میں عوام کی رائے دیکھنے کے لیے سوشل میڈیا ملاحظہ ہو(ایسی حالت ہے کہ عوام کو سمجھ میں نہیں آ رہی کہ کس قسم کی گالیوں سے اپنا دل ٹھنڈا کریں)۔
اس کے مقابل افغانستان میں پوری طرح سے مجاہدین کی حکومت ہے اور دن بہ دن ملک ترقی کررہا ہے۔ صومالیہ میں مجاہدین(القاعدہ) اس کے قریب ہیں کہ ملک پر قبضہ کرلیا جائے۔ مالی میں مجاہدین(القاعدہ) کے پاس بڑا علاقہ ہے جس پر ان کی حکومت ہے۔ شام و یمن میں القاعدہ کے مجاہدین جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک ہند و بنگال میں القاعدہ کی دعوت پھیل رہی ہے۔ القاعدہ کی دعوت کہ یہود و امریکہ پر ضربیں لگائی جائیں آج اتنی پھیل چکی ہے کہ آج بحر و بر میں یہود و امریکہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر القاعدہ کا مشن امریکہ و یہود کو کمزور کرنا تھا تو حقائق سے تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہو رہا ہے کہ القاعدہ کامیاب رہی۔
٭٭٭٭٭