بھارت |
حلال پر پابندی |
بھارت میں جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں، بھگوا طاقتیں ہر سمت سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے کی اہم خبر یہ ہے کہ بی جے پی سرکار نے ایک نیا تخریبی ایجنڈا اپنایا ہے۔ اتر پردیش سرکار تصدیق شدہ حلال خوردنی اشیاء کی فروخت پر پابندی عائد کر رہی ہے۔ اس حکم کے تحت وہ اشیاء جن پر ’’حلال سرٹیفیکیٹ‘‘ کی مہر ہو گی ان تمام اشیاء پر ریاست میں خرید و فروخت پر پابندی ہو گی۔
اس حوالے سے روزنامہ اردو ٹائمز میں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:
اترپردیش حکومت کو ’حلال‘ کھانے ناقابل قبول| مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
’’وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کے حکم پر فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی ایڈیشنل چیف سیکریٹری انشا سنگھ نے احکامات جاری کر کے تمام حلال سند یافتہ اشیاء کی تیاری، زخیرہ اندوزی، خرید و فروخت پر پابندی لگا دی ہے اور لکھنؤ کی دکانوں پر چھاپہ ماری شروع ہو گئی ہے۔ خوردنی اشیاء کے ساتھ کاسمیٹک اور دوائیں بھی شامل ہیں، صرف ان مصنوعات کو علیحدہ رکھا گیا ہے جو حکومت دوسرے ملکوں کو برآمد کرتی ہے۔…
…یہاں ہمیں بہار اور یو پی حکومت کا فرق بھی سمجھ لینا چاہیے، بہار حکومت نے ’’حرام‘‘ پر پابندی لگائی ہے، آپ کو معلوم ہے کہ یہاں شراب بندی ہے، جب کہ یوپی میں ’’حلال‘‘ پر پابندی لگا دی گئی ہے جو سماجی، اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے، لیکن کیا کیجیے، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ پہلے گائے کا ذبیحہ، کھلی جگہ میں نماز کی پابندی لگائی گئی، اور اب حلال کھانے سے بھی روکا جا رہا ہے، کہاں گئی جمہوریت کہاں گے اس کے تقاضے، دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کی بالادستی، سب کچھ دھیرے دھیرے ختم کیا جا رہا ہے اور ملک کو ایک ایسے اندھیرے میں لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں نہ تہذیبی اخلاق و اقدار کا پاس ملحوظ رکھا جا رہا ہے اور نہ ہی دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کی رعایت کی جا رہی ہے۔ یوگی من مانی کر رہا ہے اور مودی اس کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے ہیں۔‘‘
[اردو ٹائمز]
روزنامہ انقلاب میں عاصم جلال کے نزدیک ’’حلال پروڈکشن‘‘ سرٹیفکیٹ‘‘ پر پابندی سے مسلمانوں کو اتنا نقصان نہیں ہو گا جتنا کہ بھگوا تنظیمیں پہنچانا چاہ رہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
یوگی راج میں ’حلال‘ مصنوعات پر پابندی پریشان کن کم، مضحکہ خیز اور احساس کمتری کا مظہر زیادہ| عاصم جلال
چونکہ ذبیحہ پابندی سے مستثنیٰ ہے اس لیے مسلمان یوگی سرکار کی اس پابندی سے متاثر ہوں گے نہ یہ ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ گوشت اور گوشت سے بنی اشیاء کو خریدتے وقت مسلمان اس بات کی تصدیق اُس وقت بھی کر لیتے تھے جب حلال سرٹیفکیشن کا چلن ملک میں نہیں تھا اور اب بھی کرتے ہیں۔ رہا دودھ سے بنی مصنوعات، شکر، بیکری پروڈکٹس، خوردنی تیل جیسی چیزوں کا معاملہ جن پر حلال مہر پر حکومت نے پابندی لگا دی ہے، تو ان پر ویج اور نان ویج کی علامت واضح طور پر موجود ہوتی ہے۔ اگر کوئی شے ویج ہے تو پھر وہ حلال بھی ہے جبکہ اگر نان ویج ہے تو خریدتے وقت مسلمان اپنے طور پر احتیاط خود ہی کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی مارکیٹ میں ’’حلال سرٹیفائیڈ‘‘ اشیاء کی مانگ کسی طبقے کی طرف سے کبھی ہوئی ہی نہیں، بلکہ یہ تو کمپنیاں ہیں جو مسلمانوں کو رجھانے کے لیے ’’حلال‘‘ سرٹیفکیٹ حاصل کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ ہیں جو ایکسپورٹ بھی کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں ملکی اور غیر ملکی مارکیٹ کے لیے الگ الگ پیکجنگ کی بجائے ایک ہی پیکجنگ کا استعمال کر کے اپنا خرچ بچاتی ہیں۔ نتیجتاً ملک میں فروخت ہونے والی اشیاء پر بھی حلال کا لوگو نظر آجاتا ہے۔ یوگی سرکار کے فیصلے سے ایسی کمپنیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
رہی بات حلال سرٹیفکیشن کی تو خود مرکزی حکومت اس کی اجازت دیتی ہے اور ایسا سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے اداروں کی منظوری بھی دیتی ہے۔ یوگی سرکار کی حلال پر پابندی نہ صرف اس کی تنگ نظری کا مظہر ہے بلکہ عالمی سطح پر ملک کے لیے باعث شرمندگی بھی ہے جو ایکسپورٹس کے کاروبار کو بھی متاثر کر سکتی ہے اور اس طرح ملکی معیشت کے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے لیکن کیا کیجیے کہ اس وقت ملک میں ووٹوں کے لیے کبھی حجاب تو کبھی حلال کو موضوع بحث بنایا جاتا رہتا ہے۔‘‘
[روزنامہ انقلاب]
بھارت |
مساجد تنازع |
۶ دسمبر ۱۹۹۲ء ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔ جب انتہا پسند بھگوا غنڈوں نے مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں کو عدالت سے بھی انصاف نہ مل سکا، اور عدالت نے بھی ہندوؤں کے مؤقف، یعنی بابری مسجد ہندوؤں کے رام کی جنم بھومی پر مسلمان بادشاہ نے مندر توڑ کر بنائی تھی، کی تائید کی اور فیصلہ رام مندر کے حق میں دے دیا۔ اب ۳۱ سال بعد اسی جگہ پر رام مندر کا افتتاح کر دیا گیا ہے جبکہ مسلمانوں کو باقی تاریخی مساجد کی سلامتی کی فکر لاحق ہے۔ ناپاک ہندوؤں کے مذموم مقاصد اس وقت ہی عیاں ہو گئے تھے جب بابری مسجد کی موقع پر اور اس کے بعد یہ نعرہ لگایا گیا ’’یہ تو ابھی جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘‘۔
اس وقت متھرا کی شاہی عیدگاہ اور کاشی کی گیان واپی مسجد کا وجود بھی اسی خطرے سے دوچار ہے جس طرح دہائیوں قبل بابری مسجد پر ان کی بری نظر تھی۔ جس طرح ہندوستان کے مسلمانوں کے نام، شعائر، تاریخ، تاریخی ورثے سے لے کر مسلمانوں کے وجود تک کو ختم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، اسی طرح مسلمانوں کی تاریخی مساجد کو قانونی راستے سے مندر میں تبدیل کرنے کی کوششیں بھی تیزی سے جاری ہیں۔ اس حوالے سے ہندوستان کے مسلمان پریشان بھی ہیں اور بے چین بھی۔ اسی لیے یہ موضوع کالم نویسوں کے زیر قلم بھی بہت آیا۔
یہاں ہم چند کالموں سے اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔
اور اب متھرا عید گاہ مسجد بھی بابری مسجد کی راہ پر | ندیم عبد القدیر
’’جب عدالتیں خود ہی ان مسجدوں کو مندر میں تبدیل کرنے کے لیے سر پٹ بھاگ رہی ہوں تو اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ گیان واپی مسجد اور اب متھرا مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کے لیے عدالتیں اتنی بے قابو ہو گئیں کہ انہوں نے ملک کے آئین میں درج ۱۹۹۱ء عبادت گاہ قانون کو ہی تار تار کر کے رکھ دیا۔ ۱۹۹۱ء عبادت گاہ قانون کہتا ہے کہ آزادی کے وقت یعنی ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کے روز جو عبادت گاہ جس مذہب کی ہو گی اس عبادت گاہ کو قانونی طور پر اسی مذہب کا مانا جائے گا۔ اس کی مذہبی شناخت قطعی طور پر تبدیل نہیں کی جا سکتی ہے حتیٰ اس بارے میں عدالتیں کسی درخواست پر شنوائی بھی قبول کرنے کی اہل نہیں ہوں گی۔ اتنے واضح الفاظ کے باوجود عدالتوں نے نہ صرف ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کے وقت موجود مسجدوں کے بارے میں متنازع درخواست قبول کی بلکہ اس کے آگے بھی کئی ایسے احکامات صادر کر دیے جو ۱۹۹۱ء کے عبادت گاہ قانون کو روند دینے کے مترادف ہیں۔ اس کا آغاز گیان واپی مسجد سے ہوا۔ عدالتوں نے گیان واپی مسجد میں ’آثار قدیمہ کے سروے‘ کرانے کی عرضی قبول کر کے مسجدوں کو متنازع بنانے کی راہ ہموار کر دی۔ آثار قدیمہ کے سروے کے نام پر ہی اس پوری سازش کی شروعات ہوئی۔ گیان واپی مسجد میں کئی دن چلے اس سروے میں جب کچھ نہیں ملا تو سروے کے عین آخری دن حوض کے فوارے کو ہی ہندو عقیدت کا پتھر قرار دے دیا گیا۔ بس پھر کیا تھا باقی کام میڈیا نے کر دیا اور فوارے کو ہندو عقیدت کا پتھر ثابت کرنے کے لیے عوامی رائے مستحکم کرنے میں پوری طاقت جھونک دی۔ ’سروے‘ کی اسی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اب متھرا شاہی عید گاہ مسجد میں بھی اسے ہی دہرایا گیا۔
گیان واپی مسجد میں ’آثارِ قدیمہ کے سروے‘ کرانے کی عرضی قبول کر کے عدالت نے بوتل کے ایک ایسے جن کو باہر نکال دیا ہے جو کتنی تباہی مچائے گا اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے۔ اس حربے کی بنیاد پر ملک کی کوئی بھی مسجد محفوظ نہیں ہے۔ اس فیصلے کے سہارے ملک کی کسی بھی مسجد کا بہت ہی آسانی سے سروے کروایا جا سکتا ہے اور سروے میں مسجد کی عمارت، اس کے حرم، حوض، ستون، چھت یا دیوار کے کسی بھی پتھر کو ہندوؤں کے ہزاروں دیوی دیوتاؤں میں سے کسی بھی ایک دیوی دیوتا کی کوئی بھی ایک نشانی قرار دے کر اس مسجد کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ اسے بنیاد بنا کر ابھی آگے اور کیا کیا تماشا ہونے والا ہے دیکھتے جائیے۔‘‘
[اردو ٹائمز]
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا…… | انجینئر نسیم انصاری
’’بابری مسجد میں ۱۹۴۹ء میں چوری چھپے مورتی رکھ دی جاتی ہے جسے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بھی چوری چھپے مورتی رکھنے کا جرم مانا مگر بعد میں جس حرکت کو چوری چھپے زبردستی اور جبراً کہا گیا تھا اسی کو عوام کے سامنے رام للا کا نمودار ہونا ثابت کرتے ہوئے تاریخ کو توڑ مروڑ کر جھوٹی من گھڑت آستھا سے جوڑ کر اسے خوب پھیلایا گیا اور ان مورتی رکھنے والوں کو سزا دینے کی بجائے انعام کے طور پر پوری مسجد کی زمین دے دی جاتی ہے۔ کسی کی زمین ہتھیانے کا یہ قدیم برہمنی موثر طریقہ ہمیشہ سے ہی کارگر رہا ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس طریقہ نے زور پکڑا ہے، اب گیان واپی مسجد دہلی کی شاہی جامع مسجد، اجمیر درگاہ، و دیگر مساجد و درگاہیں و آستانوں پر بھی یلغار کر دی گئی ہے اور قدیم مساجد کے نیچے منادر ہونے کا دعویٰ کرنے کی ہوڈ لگ گئی ہے۔ گیان واپی مسجد میں شیولنگ نمودار ہونے کا شور برپا کیا گیا اور فوارے کو شیولنگ بتا کر پورے مسجد احاطے پر قبضہ کرنے کی سازش کو آگے بڑھایا جا رہا ہے جس پر نچلی عدالت کے بعد سپریم کورٹ نے بھی درمیانی راہ نکالی اور تنازع کو یکسر ختم کرنے کی بجائے جہاں ایک طرف مسلمانوں کو نماز کی اجازت دے کر انہیں پرسکون کرنے کی کوشش کی وہیں حوض کو سیل کر کے بظاہر شیولنگ والے دعوے کو تقویت دی، اب متھرا کی شاہی عیدگاہ کے معاملہ میں الہ آباد ہائی کورٹ نے سروے کا حکم دے کر وہی پرانا طرزِ عمل اختیار کیا ہے، آگے کیا ہو گا سب سمجھ رہے ہیں، سروے پھر کھدائی اور پھر پرانی مندر ہونے کا دعویٰ اور اس کے بعد………‘‘
[اردو ٹائمز]
گیان واپی اور متھرا کے مقدموں میں تیزی زعفرانی سیاست کے لیے تقویت کا باعث | عاصم جلالی
’پلیس آف ورشپ ایکٹ‘ یہ یقین دہانی کراتا ہے کہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو جس عبادت گاہ کی جو مذہبی حیثیت تھی وہ برقرار رہے گی، اسے تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اسی بنیاد پر مسلم فریق نے ہندو فریق کے پٹیشنوں کی مخالفت کی اور ان کے ’’ناقابل سماعت‘‘ ہونے کی دلیل دی تھی مگر الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس رویت رنجن اگروال نے یہ کہہ کر اعتراضات کو مسترد کر دیا کہ ۱۹۹۱ء کا مذکورہ قانون ان عرضیوں کے لیے رکاوٹ نہیں بنتا۔۔ جج نے ذیلی عدالت کو چھ ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ عرضی گزاروں (ہندو فریق) نے عبادت گاہ کی مذہبی حیثیت بدلنے کی اپیل نہیں کی بلکہ وہ مذہبی حیثیت کی ’’بحالی‘‘ اور اسے طے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایک طرح سے گیان واپی مسجد کمپلیکس کی موجودہ مسلم حیثیت کو ہی ماننے سے انکار کر دیا۔ کورٹ نے کہا کہ مسجد کمپاؤنڈ مسلم حیثیت کا بھی حامل ہو سکتا ہے اور ہندو حیثیت کا بھی، معاملے کی سماعت کے وقت ہی یہ طے نہیں کیا جاسکتا (کہ اس کی مذہبی حیثیت کیا ہے۔)…
ایک طرف جہاں بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر ہونے والے رام مندر کے ۲۲ جنوری کے افتتاح کو ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن میں بھنانے کی تیاری ہو رہی ہے وہیں گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ کے مقدمات میں عدالتی فیصلے بھی بھگوا سیاست کے لیے تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ آسان لفظوں میں کہیں تو الہ آباد کورٹ نے ذیلی عدالت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ۶ ماہ میں یہ فیصلہ سنائے کہ گیان واپی مسجد پر مسلمانوں کا دعویٰ درست ہے یا ہندوؤں کا۔ ۶ ماہ میں ہی ملک میں پارلیمانی انتخابات بھی ہونے ہیں۔ اس لیے اگر ۶ ماہ میں گیان واپی پر بھی فیصلہ آ جائے تو کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے، نہ ہی اس معاملے کا سیاسی استحصال حیرت کا سبب ہو گا۔
[روزنامہ انقلاب]
پاکستان |
انتخابات اور اسٹیبلشمنٹ |
پاکستان کے سیاسی، معاشی و معاشرتی حالات دگرگوں ہیں۔ ایسے میں ۸ فروری کو الیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن طاقتور ادارے انتخابات میں وہ آزادی فراہم نہیں کرنا چاہتے کہ جس سے ملک پر ان کا مضبوط شکنجا کمزور ہو جائے۔ اس لیے ایک طرف عوام کو مطمئن کرنے کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیا تو دوسری طرف بظاہر اقتدار میں آنے والے مہرے تیار بیٹھے ہیں۔
اس وقت جب آزادیٔ اظہار پر قدغن ہے، صحافی نہ کھل کر لکھ پا رہے ہیں نہ بول پا رہے ہیں۔
بی بی سی اردو کے تجزیہ نگار وسعت اللہ خان لکھتے ہیں:
الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پر مارے جا رہے ہیں؟ | وسعت اللہ خان
’’سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعقلہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے، جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوششیں جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنی پڑی۔
چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پنتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے قوم کے منہ پر مارے جا رہے ہیں۔ ’’لے پھڑ مر ٹھونس لے۔‘‘
…اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہو گا کہ سب اس میں اپنا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گزشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیر بکف پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلۂ عروسی میں داخل ہو گی۔
شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں تیندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑ بگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہز میجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔ ‘‘
[بی بی سی اردو]
پاکستان |
احتجاج کرنے والی بلوچ خواتین پر تشدد |
پاکستان میں عوام کو ایجنسیوں کی جانب سے غائب کر کے خفیہ زندانوں میں قید کرنا یا پھر جعلی پولیس مقابلوں کے ذریعے قتل کر دینا کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں نے ناحق ظلم کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ ہزاروں باپ بھائی اور بیٹے بغیر کسی جرم کے اٹھائے ہوئے ہیں، اور گھر والوں کو ان کی زندگی اور موت کی کوئی خبر نہیں اور نہ ہی اپنے پیاروں کے جرم سے واقف ہیں۔ اس معاملے میں بلوچوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے، ان کی بہن بیٹیاں ہر وقت سراپا احتجاج کبھی کسی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں تو کبھی کسی دوسرے کا…
اسی سلسلے میں یہ خواتین احتجاج کرنے اسلام آباد پہنچیں تو ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا۔ زبردستی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور پوچھ گچھ کے نام پر تکالیف سے دوچار کیا گیا۔
اس حوالے سے عاصمہ شیرانی کے بی بی سی اردو پر لکھے گئے کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
چٹان عورتوں کی زنانہ وار تحریک | عاصمہ شیرازی
’’یہ سب اسلام آباد کو اپنی کہانیاں سنانے آئے ہیں، کسی کا باپ موجود نہیں تو کسی کا بیٹا غائب، کوئی اپنے طالبعلم بیٹے کے لاپتہ ہونے کا بتا رہا ہے تو کوئی اپنے والد کی گمشدگی کی پکار لگا رہا ہے۔ ان کے ستائے ہوئے چہرے اور تلخ لہجے پتہ دے رہے ہیں کہ اب کی بار اسلام آباد نے ان کی بات نہ سنی تو یہ دکھ دل میں نہیں دبائیں گے، یہ چٹانیں اب لاوے کا بوجھ برداشت نہ کر پائیں گی۔
یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے پیارے کہاں ہیں؟ سب زیرِ زمین ہیں یا آسمان نے ان کو پناہ دی ہے کوئی نہیں جانتا اور جو جانتے ہیں وہ انہیں بتا نہیں سکتے یا بتانے کی جرات نہیں کرتے۔
دسمبر کی سرد رات کے نصف میں ویمن پولیس سٹیشن میں میری موجودگی میں اربابِ اختیار سے ماہ رنگ یہ سوال بار بار اٹھا رہی تھی کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ کیوں ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ ہم اپنا حق ہی تو مانگ رہے ہیں، آپ ہماری بات تو سنیے۔ کیا ہم اس سلوک کے مستحق ہیں؟
ماہ رنگ کے ان چھوٹے چھوٹے مگر سخت سوالوں کا جواب کسی کے پاس کیا ہوتا الٹا جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا وہ ناقابل فہم بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔
یوں تو بلوچستان گزشتہ دہائیوں سے شورش زدہ ہےلیکن پچھلے چند سالوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین تر ہو چکا ہے۔ حالیہ جاری تحریک یوں تیز ہوئی جب بلوچ طالبعلموں کو مبینہ طور پر اٹھایا گیا اور بائیس برس کے بالاچ مولا بخش کو لاش کی صورت لوٹایا گیا۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ بالاچ زیر حراست تھا گر عسکریت پسندوں کے حملے میں مارا گیا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں اس طرح کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ بلوچ طالبعلموں کو ہی کیوں اٹھا لیا جاتا ہے۔ علم کے طالبوں سے خوف کیسا؟ بہرحال اگر شکایت ہے تو گرفتار کیا جائے، عدالتوں کے روبرو پیش کیا جائے نہ کہ انہیں غائب کر دیا جائے۔ بھلا کبھی آواز بھی قتل ہوئی ہے، کبھی سوچ بھی اغوا کی جا سکتی ہےیا کبھی خیال کو زنجیریں پہنائی گئی ہیں؟‘‘
[بی بی سی اردو]
پاکستان |
عمل قوم لوط کا فروغ |
اس وقت مغربی دنیا سے مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان میں ہم جنس پرستی اور LGBTQ+ جیسے غلیظ اور قبیح نظریے کو جس طرح نوجوان نسل میں فروغ دیا جا رہا ہے یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اس سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے علماء، ذمہ داران، سیاسی لیڈر اور صحافی اس کے خلاف کچھ خاص متحرک نہیں۔ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر آواز اٹھا رہے ہیں لیکن جس رفتار سے یہ منحوس نظریہ پھیل رہا ہے وہ بہت پریشان کن ہے۔
اس حوالے سے انصار عباسی کے ایک کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
سافٹ امیج کا زہر | انصار عباسی
’’پاکستانی معاشرے کی دینی و معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی تباہی کا سلسلہ جاری و ساری ہے، جسے روکنے اور درست کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ریاست کی سطح پر نظر آ رہی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں حکومت، سیاسی جماعتوں، دوسرے ذمہ داروں یا عوام کا کوئی کردار نظر آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ حکومت کی اپنی وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے اسلام آباد میں کچھ ایسے پوسٹرز آویزاں کیے گئے جو دراصل ہم جنس پرستی یا LGBTQ اور ٹرانس جینڈر کی تشہیر کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس پر میں نے نگران وزیر اعظم کی توجہ دلائی۔ جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق احمد اور کچھ دوسرے افراد نے بھی اس مسئلہ کو سوشل میڈیا کے ذریعے اٹھایا لیکن اس پر حکومت کی طرف سے جواب میں خاموشی کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ ایسی اشتہار بازی جو نہ صرف ہماری دینی تعلیمات اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہے بلکہ پاکستانی معاشرے میں مزید گندگی اور بے حیائی پھیلانے کا ذریعہ ہے اس کے لیے حکومت خود قوم کا پیسہ لگا رہی ہے۔ اگر حکومت کا یہ اقدام کسی انفرادی عمل کا نتیجہ ہے تو پھر نشاندہی کے باوجود کیوں نہ کسی کی کوئی پوچھ گچھ ہوئی، نہ کسی ذمہ دار کو معطل کیا گیا جس سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ حکومت مغرب کے دباؤ میں انسانی حقوق کے نام پر یہاں بھی ہم جنس پرستی کو پروموٹ کر رہی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک طرف اگر ایسے غیر اسلامی عمل کے لیے حکومت کے پاس پیسے کی کمی نہیں تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی کہ پنجاب میں سکولوں کے نصاب میں شامل بنیادی اسلامی تعلیمات سے متعلق نصاب کی اشاعت کے لیے فنڈز کی فراہمی نہیں کی جا رہی۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی آواز اٹھائی گئی لیکن پنجاب حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے نہ آئی۔
فلسطین |
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت |
غزہ کے مسلمانوں پر ناپاک اسرائیلی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کو تین ماہ ہو چکے۔ اس پورے عرصے میں اسرائیل نے فضائی بمباریوں میں غزہ کو تباہ و برباد کر دیا۔ ان بدترین و وحشیانہ حملوں میں روزانہ اوسطاً سو (۱۰۰) سے دو سو (۲۰۰) افراد اکے جاں بحق ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق اب تک ۲۳ ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ تقریباً اٹھاون (۵۸) ہزار زخمی اور ۷ ہزار سے زائد لاپتہ ہیں، جن کے بارے میں گمان ہے کہ وہ بھی ملبے تلے دب کر شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کا منحوس وجود اپنی درندگی میں جنگی جرائم کی تمام حدود پھلانگ چکا ہے۔ شہید ہونے والوں کی زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
ناصرف غزہ بلکہ مغربی کنارے پر فلسطینی آبادی بھی مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ الجزیرہ کے مطابق ۸ اکتوبر سے اب تک لگاتار تیرہواں جمعہ ہے کہ مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے اور نماز جمعہ ادا کرنے پر پابندی جاری ہے۔ مسلمانوں کو مسجد میں داخلے سے روکنے کے لیے مسجد اقصیٰ کو اسرائیلی پولیس کی بھاری نفری نے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔
جب سے اسرائیل نے اپنے فوجیوں کے ذریعے زمینی کاروائیوں کا آغاز کیا ہے، تب سے اسے مجاہدین کے ہاتھوں مسلسل مزاحمت اور ہزیمت کا سامنا ہے۔ گو کہ مجاہدین تعداد میں بہت کم اور اتنی بڑی طاقت کے مقابل وسائل کی کمی کے باوجود لڑ رہے ہیں، لیکن پختہ ایمان، ثابت قدمی اور گوریلا حملوں کے ذریعے صیہونیوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ صیہونی ریاست اپنے فوجیوں کی شکست اور خوف کو چھپانے کے لیے بمباری اور درندگی بڑھا رہی ہے، لیکن محققین اور جنگی تجزیہ نگار یہ بات واضح انداز میں کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل اتنے طویل عرصے میں پوری قوت صرف کر کے بھی اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکا، اور اس بات کا غصہ وہ معصوم شہریوں پر اندھا دھن بمباری کر کے نکال رہا ہے۔
غزہ میں جاری یہ جنگ ملکی و بین الاقوامی میڈیا پر مستقل موضوعِ بحث ہے۔ اس سلسلے میں ہم چند مضامین اور تجزیوں کے اقتباسات پیش کر رہے ہیں تاکہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کا اندازہ ہو سکے۔
مڈل ایسٹ مانیٹر میں ڈاکٹر عامرہ ابو الفتوح غزہ کے علاقے شجاعیہ میں اسرائیلی فوج اور حماس کی دو بدو لڑائی کے متعلق لکھتی ہیں:
A night on which the Zionists wept | Dr. Amira Abo el-Fetouh
ترجمہ: ’’اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہے، لیکن حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ اس کی ناک زمین پر رگڑنے اور پوری دنیا کے سامنے ایک ایسی نازک قوت کے طور پر بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو گیا جو دور سے کنٹرول کی جانے والی جدید ٹیکنالوجی، اور ایسے بزدل سپاہیوں پر انحصار کرتی ہے، جو آمنا سامنا ہونے پر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شجاعیہ کا معرکہ القسام کے ایسے حیران کن کارنامو ں میں سے ایک کے طور پر لکھا جائے گا جس کا ادراک غلام ذہن نہیں کر سکتے، بالخصوص عرب صیہونی،جو کہ میری رائے میں اسرائیلی صیہونیوں اور ان کے اتحادیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اگر ایسے عرب نہ ہوتے تو اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں پر حملہ کرنے اور بڑے پیمانے پر شہری آبادی پربدترین جرائم کا ارتکاب کرنے کی جرات نہ کرتا۔ اب تک اٹھارہ ہزار آٹھ سو سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔اسرائیل عرب صیہونی حکومتوں کی جانب سے ہری جھنڈی دکھائے جانے کے بغیر عبادت گاہوں اور ہسپتالوں سمیت شہری انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کے قابل نہ ہوتا ، بالکل اسی طرح جیسے ان حکومتوں کو امریکہ کی طرف سے دکھائی گئی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نےاعتراف کیا ہے کہ عرب حکومتیں اور فلسطینی اتھارٹی نسل پرست صیہونی ریاست کے ساتھ ہیں اور جس طرح وہ حماس سے چھٹکارا چاہتا ہے وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنت (Yoav Gallant) نے تسلیم کیا کہ شجاعیہ میں نام نہاد ’’اسرائیل ڈیفنس فورسز‘‘ کی صفوں میں بھاری نقصان ہوا ہے۔ ایک سینئر فوجی کمانڈر نے القسام بریگیڈ کے حملے کو ایسا دردناک دھچکا قرار دیا جس میں قریبی دوست، سپاہی اور ساتھی افسران جدا ہو گئے۔ اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف ہرزی حلوی (Herzi Halevi) نے گھات لگا کر حملے کو مشکل اور خطرناک قرار دیا، جبکہ نیتن یاہو نے نے شجاعیہ محلے میں ہونے والے نقصانات پر لڑائی کو ’’مشکل‘‘ قرار دیتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا۔ القسام کے جنگجوؤں نے بظاہر تیرہویں گولانی ڈویژن کا کمانڈر، تیرہویں گولانی بٹالین کا کمانڈر،۶۶۹ویں کمانڈو یونٹ کا کمانڈر، ۵۱ویں بٹالین کا کمانڈر اور ۵۱ویں بٹالین سے ہی ایک اور کمانڈر سمیت کئی اعلیٰ اافسران اور بڑی تعداد میں سپاہیوں کو گرفتار کیا ہے۔
جب بھی اسرائیلی قابض افواج کو اتنی بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اپنا غصہ فلسطینی شہریوں پر اتارتے ہیں اور ان پر اور زیادہ امریکی فراہم کردہ گولہ بارود برساتے ہیں۔‘‘
[Middle East Monitor]
الجزیرہ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ آیا اسرائیل حماس کو اتنا کمزور کر چکا ہے کہ وہ جنگ جیت لے؟
Has Israel weekend Hamas enough to win the war on Gaza | Zoran Kusovac
ترجمہ: ’’کارکردگی کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب تک حماس نے ناکامیوں سے زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
حماس کا وجود برقرارہے:
یہ تنظیم اب بھی پوری طرح زندہ اور متحرک ہے۔ سیاسی طور پر، اسے اب بھی غزہ کی پٹی میں شدید تباہ حال شہری ڈھانچے کی باقیات پر کنٹرول رکھنے والا واحد ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے، چاہے قانونی طور پر نہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہی ہے۔…
… اپنی بہترین فیلڈ انٹیلی جنس پر بھروسہ کرتے ہوئے اسرائیل ٹارگٹڈ فضائی حملوں میں کم از کم پانچ بٹالین کمانڈروں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا ہے، جبکہ مزید چھ دوران جنگ ہلاک ہوئے، جن میں شمالی بریگیڈ کے کمانڈر بھی شامل ہیں۔ لیکن پھر بھی کوئی بھی یونٹ ’’قیادت کے فقدان‘‘ کی وجہ سےختم نہیں ہوا، جس سے حماس کی قابل نائبین کی منصوبہ بندی کرنے اور ان کو تربیت دینے کی واضح صلاحیت کی تصدیق ہوتی ہے۔ اسرائیل جہاں بھی اسے سرنگیں ملیں وہاں اس کے داخلی راستوں کو تباہ یا بند کر رہا ہے ، لیکن اس بات کی واضح نشانیاں موجود ہیں کہ حماس اب بھی اتنی زیر زمین تنصیبات کو برقرار رکھے ہوئے ہے جن کے ذریعے وہ فرنٹ لائنز پر افواج کو حرکت دے سکے اور اس طرح عموماً دشمن کو بے خبری میں جا لیتے ہیں۔
حماس کو دیگر مسلح گروہوں کا تعاون حاصل ہے:
غزہ سے آنے والی اطلاعات سے بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حماس کا مسلح ونگ، القسام بریگیڈ ہی صرف لڑ رہا ہے۔ درحقیقت وہاں کم از کم ۱۲ مختلف مسلح گروہ ہیں ، جو مختلف سیاسی اور نظریاتی بلاکس سے وابستہ ہیں…
… ان تمام گروہوں کو حماس کی چھتری تلے رکھنا ایک عملی حل ہے جو نظریہ ضرورت کےتحت وجود میں آیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام متعلقہ افراد کے اطمینان کے ساتھ چل رہا ہے اور اس میں اب تک کوئی تناؤ یا دراڑ نظر نہیں آئی…
حماس کو مغربی کنارے میں مقبولیت حاصل ہوئی ہے:
…مغربی کنارے کے بہت سے فلسطینیوں نے کھلے عام حماس کے جھنڈے، بالعموم الفتح کے جھنڈوں کے ساتھ لہرا کر غزہ کی جنگ پر ردّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ فصیلوں میں گھرے اور ٹوٹے پھوٹے مغربی کنارے میں رہنے والے نوجوان فلسطینی طویل عرصے سے اس طرح کا سلوک برداشت کرنے والے غیر فعال مغلوبین بنے رہنے کی وجہ سے ناراض ہیں۔
بہت سوں نے اپنی امیدیں اور توقعات ان لوگوں سے باندھ لی ہیں جو اٹھ کھڑے ہوئے، جوابی لڑائی کی اور اسرائیل کو سخت چوٹ پہنچائی، حالانکہ اسرائیل ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہے…
بھاری جانی نقصان اٹھانے کے باوجود، جو ساکھ اس نے مغرب میں حاصل کی ہے، شاید حماس کے پاس پریشان ہونے سےزیادہ مطمئن ہونے کی وجوہات ہیں۔‘‘
[Al Jazeera English]
بی بی سی اردو کے صحافی محمد حنیف کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:
ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ کے پورے خاندان کا خاتمہ کر دیا | محمد حنیف
’’جب ہنستی بستی آبادیاں تباہ کر دی جائیں اور لوگ اپنے گھروں کے ملبوں سے اپنے پیاروں کی لاشیں اور کھانے کے برتن ڈھونڈ رہے ہوتے تو مغرب سے مغربی ضمیر کے رحم دل دستے سوکھا راشن اور بچوں کے کھلونے لے کر پہنچ جاتے۔ ان کے امدادی ٹرکوں پر بھی کیمرے والے صحافی موجود ہوتے جو راشن کے لیے اٹھے ہاتھوں اور بے کس چہروں کی تصویریں دنیا تک پہنچاتے اور داد پاتے۔
جدید جنگ تقریباً ایک مکمل سا پیکج بن گئی تھی جس میں اسلحے کا کاروبار بھی خوب پھلتا پھولتا اور جنگ زدہ لوگوں کے لیے خیموں اور کمبلوں کی مانگ بھی ہمیشہ ضرور رہتی۔ جن کو ازلی خون کی پیاس تھی انہیں بھی خوراک مل جاتی اور جن کے دل انسانیت سے بھرپور تھے ان کا دھندہ بھی چلا رہتا۔
پہلے آسمانوں سے بمباری پھر بستیاں روندتے ہوئے ٹینک، اس کے بعد جنگ بندی کے مطالبے اور پھر امدادی ٹرکوں کے قافلے۔ اسلحے کی فیکٹریاں بھی تین شفٹوں میں چلتیں اور انسانی ہمدردی سے لبریز مغربی ضمیر کی دیہاڑیاں بھی لگی رہتیں۔
جب اسرائیل نے غزہ پر وحشت ناک بمباری شروع کی (اور چونکہ ایڈیٹوریل گائڈ لائن کی ضرورت ہے اس لیے بتاتے چلیں کہ یہ لڑائی سات اکتوبر کے حماس حملوں سے شروع نہیں ہوئی ۷۰ سال پہلے شروع ہوئی تھی) تو موسمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا بھی خیال تھا کہ امریکہ اور اس کی باقی نام نہاد برادری چند دن اسرائیل کو کھلا ہاتھ دے گی، ایک کے بدلے دس مارو، اگر کسی نے غزہ میں گھر، سکول، ہسپتال، میوزیم بنا لیا ہے تو اسے نیست و نابود کر دو۔ بچے مریں گے مارو لیکن پھر مغربی ضمیر انگڑائی لے کر بیدار ہو گا اور کہے گا ہم نے بہت ہزار بچوں کی لاشوں کی تصویریں دیکھی ہیں اب یہ کام بند کرو۔ لیکن مغربی ضمیر کی گنتی ابھی پوری نہیں ہوئی۔
ہم تک ننھے بچوں کی تصویریں اور کہانیاں دنیا تک پہنچانے والے ۷۰ صحافی بھی مار دیے ہیں۔ ان میں سے کئی پورے خاندان کے ساتھ لیکن مغربی ضمیر اسرائیل سے صرف یہ کہلوا سکا ہے کہ ہم نے غلط بم مار دیا۔‘‘
[بی بی سی اردو]
ہندوستان سے دارالعلوم حیدر آباد کے استاد حدیث مولانا سید احمد ومیض ندوی مسلم حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے لکھتے ہیں:
مسلم حکمرانوں کی غیرت ایمانی کہاں گئی؟ | مولانا سیداحمد ومیض ندوی
’’افسوس ان مسلم ممالک پر ہے جن کے کانوں پر اب تک جوں نہیں رینگ رہی، غزہ کے تقریباً ملبے میں تبدیل ہو جانے اور فلسطینیوں کا سب کچھ لٹ جانے کے باوجود مسلم ممالک بے حسی کی دبیز چادر تان کر سوئے ہوئے ہیں، کیا ان میں ایمانی غیرت کی ادنیٰ رمق بھی باقی نہیں؟ کیا ان کا احساس مرچکا ہے؟ کیا ان کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے؟ کیا انہیں اپنے ایمانی بھائیوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں؟ کیا غزہ کے معصوم بچوں کا تڑپ تڑپ کر جان دینا ان کے ضمیر کو جنبش نہیں دیتا؟ مسلم حکمرانوں کا اصل المیہ غیرت ایمانی اور حمیت اسلامی کا فقدان ہے، حیرت ہے کہ مصر کا صدر سی سی کہتا ہے کہ مصری فوج مصر کی حفاظت کے لیے ہے، ادھر پاکستانی آرمی چیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کی توجہ مادر وطن کی سرحدوں کے دفاع پر مرکوز ہے، جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو وہ ایسے نازک حالات میں بھی اسرائیل سے روابط بڑھانے کے لیے بے چین ہے۔ ۵۷ مسلم ملکوں کی لاکھوں افواج اگر قبلہ اوّل کو نہیں بچا سکتی اور ان کی نگاہوں کے سامنے فلسطینیوں کی مکمل نسل کشی ہونے لگے تو ایسی افواج کا وجود ہی بے معنی ہے۔‘‘
[روزنامہ منصف]
اس وقت امت مسلمہ انتشار کا شکار ہے، وحشی صیہونی غاصبوں کا ظلم و جبر اور درندگی دیکھ کر روح تک کانپ جاتی ہے، لیکن مسلمان ممالک حالتِ جمود میں ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی زبانوں پر تالے ہیں، ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں، یہ حکمران غزہ کی پکار پر لبیک کہنے کی بجائے اندھے گونگے اور بہرے ہو چکے ہیں۔ ان کی یہ خاموشی انہیں ظالم کا ساتھی بناتی ہے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر پر ڈاکٹر لیڈیا وزیر لکھتی ہیں:
Not to the Arab leaders: your silence is louder than the bombs | Dr. Lydia Wazir
ترجمہ:’’جبکہ بمباری جاری ہے اور غزہ کی تباہ حال گلیوں میں بچوں کی چیخیں گونج رہی ہیں، ایک اہم سوال باقی ہے: عرب رہنماؤں کی جانب سے یہ کان پھاڑ دینے والی خاموشی کیوں ہے؟ فلسطینیوں کی المناک حالتِ زار کے سامنے ، ان لوگوں کی جانب سے کسی قسم کے آہ و نالہ کا فقدان ، جو کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں، مایوس کن ہے۔ کیا سیاسی مصلحت اور طاقت فلسطینیوں کے جائز مقصد سے زیادہ اہم ہے؟ کیا یہ مفادات ان کی جانوں، عزتوں اور انسانیت سے زیادہ قیمتی ہیں؟
فلسطینی ایسے دشمن میں گھرے ہوئے ہیں جو انسانی جان اور اخلاقی سالمیت سے عاری ہے۔جب دنیا ان کی نا ختم ہونے والی تکالیف کو دیکھ رہی ہے، سوشل میڈیا پر یہ نسل کشی لائیو چل رہی ہے، ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والا سوال ابھرتا ہے: اگلی باری کس کی ہے جسے اشد ضرورت کے وقت تنہا چھوڑ دیا جائے گا؟…
اسرائیل کے مجرمانہ قبضے نے کئی دہائیوں سے فلسطین اور اس کی عوام کو ناقابل بیان درد سے دوچار کر رکھا ہے، اور اس صورتحال کو فقط جنگ بندی سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطینی عوام کا واحد ’’جرم‘‘ اسرائیل کے وحشیانہ فوجی قبضے کو قبول کرنے سے انکار ہے۔ نسل پرست ریاست کے متعصبانہ اقدامات ختم ہونے چاہئیں۔ اتنے زیادہ متاثرین اور اس قدر تباہی کے سامنے خاموشی ناقابل قبول ہے۔ غیر جانبداری ناممکن ہے، اس کے برعکس دعویٰ کرنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ بے گناہ فلسطینی شہریوں کے خلاف نفرت اور تشدد، جس کی پوری دنیا شاہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط کی خلاف ورزی ہے۔ اگر انسانی حقوق کا اطلاق فلسطینیوں پر نہیں ہوتا، تو پھر ان کا اطلاق کسی پر نہیں ہوتا۔
بے عملی، خاموشی اور اخلاقی ناکامی کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ دنیا آنے والی نسلوں کو بہت پریشان کن پیغام دے رہی ہے۔‘‘
[Middle East Monitor]
صیہونی فوجی فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اپنے غیر انسانی اور گھٹیا سلوک کی خود ویڈیوز بنا کر بطور ثبوت سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی ان گری ہوئی اور گھٹیا حرکتوں میں یہ خبر بھی شامل ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے قیدیوں کی جو لاشیں واپس کی ہیں ان میں سے اعضاء نکال کر چرا لیے ہیں۔ اس طرح کی نیچ حرکتیں اسرائیل ماضی میں بھی کرتا رہا ہے، کیونکہ اسے کھلی چھٹی ہے اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔
انہی انسانیت سوز جرائم کا ذکر ایک مضمون میں کچھ اس طرح کیا گیا:
What the international community’s silence over Israel’s colonial violence has reaped in Gaza | Romana Wadi
ترجمہ: ’’طبی ماہرین کی جانب سے لاشوں کے اہم اعضاء کے غائب ہونے کے انکشاف کے بعد، یورو میڈ مانیٹر نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں مارے گئے فلسطینیوں کے اعضاء کی چوری کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ماضی میں اسرائیل پر، مارے جانے والے فلسطینیوں کی لاشوں کو نقطہ انجماد سے کم درجہ حرارت پر نمبروں کے قبرستان میں رکھ کر انہیں محفوظ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے اعضاء کی چوری کا شبہہ رہا ہے۔سی این این کی ۲۰۰۹ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ اعضاء فلسطینیوں اور غیر ملکی کارکنوں کے جسموں سے ’’ہارویسٹ‘‘ (فصل کی کٹائی سے پیداوار حاصل کرنے کا عمل) کیے گئے تھے۔
زیادہ واضح مظالم میں غزہ کے ایک فٹ بال کے میدان میں فلسطینی شہریوں کو پکڑ دھکڑ کے بعد جمع کرنا شامل ہے، جسے مین اسٹریم میڈیا نے بھی اٹھایا۔ تاہم مثال کے طور پر، اسکائی نیوز، نے ویڈیو کے نیچے ایک اعلان بھی شامل کیا: ’’آئی ڈی ایف نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ حراست میں لیے گئے افراد کے ساتھ بین الاقوامی قانون کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے۔‘‘ بین الاقوامی قانون میں کہاں لکھا ہے کہ قیدیوں کو برہنہ کرنا، ان پر تشدد کرنا اور انہیں سر عام پھانسی دینا جائز ہے؟ اس موقع پر کون ہے جو آئی ڈی ایف کی بیان بازی کو سنجیدگی سے لے رہا ہے؟ یا تو احمق یا برضا و رغبت ہمکار۔
اس ویڈیو کو لے لیجیے جس میں ایک اسرائیلی فوجی ایک بارہ سالی بچی کو مارنے کی ڈینگیں مار رہا ہے اور طنزیہ انداز میں افسوس کا اظہار کر رہا ہے کہ غزہ میں اب مارنے کے لیے کوئی بچہ باقی نہیں بچا۔ کیا اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی نسلی تطہیر کی حمایت کرنے والے اداروں اور افراد کے پاس اس کا کوئی عذر ہے؟ آئی ڈی ایف کے اسٹینڈرڈ بیانات اسرائیلی استعماری تشدد کو، چاہے وہ ریاستی اداروں کی طرف سے کیا گیا ہو یا انفرادی سطح پر، خوبصورت لبادہ اوڑھانے کا کام مزید سر انجام نہیں دے سکتے۔ بین الاقوامی خاموشی اس حد تک مستقل رہی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیا ہوتی ہے اور بلاشبہ جنگی جرائم کیا ہوتے ہیں اس کے پیرا میٹرز کو اس حد تک وسعت دے دی گئی ہے کہ وہ پہچان سے باہر ہو چکے ہیں۔
غزہ میں جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں اسے ۱۹۴۸ء سے لے کر آج تک اقوام متحدہ کی کان پھاڑ دینے والی خاموشی سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
[Middle East Monitor]
آخر میں مشہور صحافی اور مصنف یوان ریڈلے کے غزہ کی صورتحال پر مضمون سے چند اقتباس پیش کرتے ہیں:
Who is winning the war in Palestine? It’s not the IDF! | Yvonne Ridley
’’۷اکتوبر کے بعد سے دنیا کی سب سے زیادہ بااخلاق فوج نے:
غزہ میں اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر کیا،
سکولوں، ہسپتالوں اور اقوام متحدہ کی عمارتوں کو تباہ کیا،
سو سے زیادہ صحافیوں اور اقوام متحدہ کے کارکنوں کی ریکارڈ تعداد کو قتل کیا
کئی پیشہ ور ڈاکٹروں، طبیبوں، صحافیوں اور مینیجرز کو برہنہ کیا ان کی تذلیل کی اور حماس کے حراست میں لیے گئے جنگجوؤں کا بہانہ بنا کر ان کی برہنہ پریڈ کروائی،
ٹک ٹاک پر پوز دکھاتے ہوئے چھوٹے کاروباروں پر لوٹ مار کی،
کیمرے کے آگے فلسطینیوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی،
تحویل میں موجود قیدیوں پر پیشاب کیا،
مسلمانوں اور عیسائیوں کے قبرستانوں میں قبریں کھود کر لاشیں نکالیں۔
ان الزامات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ احمقوں نے اپنی ساری ویڈیوز خود بنائیں اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر اپنی بد سلوکیوں کی بھیانک تصاویر اپ لوڈ کر دیں۔
اسرائیل کے مرکزی سپانسر کے طور پر ، امریکیوں کو دنیا کی چوتھی سب سے بڑی اور جدید ترین فوج کی مالی معاونت کی قدر پر سوال اٹھانا شروع کر دینا چاہیے۔ اب تک کے شواہد سے ایسا لگتا ہے کہ وہ یتیم جن پر القسام بریگیڈ مشتمل ہے اسرائیلی فوج کا وہی حشر کر رہے ہیں جس طرح طالبان نے افغانستان میں امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو کو ذلیل کیا تھا۔‘‘
[Middle East Monitor]
غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں یہ جنگ اب بھی جاری ہے۔ اللہ کے شیر نہ جھکے ہیں نہ جھکیں گے اور اپنی محدود طاقت اور اللہ کی نصرت کے ذریعے دشمن کو مزہ چکھاتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔ جلد ہی دشمن ذلیل و رسوا ہو گا۔
فلسطین کے موضوع پر حالات و واقعات کثیر الجحتی ہیں۔ حالات کے ہر ہر پہلو پر بحث مطلوب ہے اور ہر ہر واقعہ اپنے اندر پوری داستان لیے ہوئے ہے۔ ان تمام حالات سے تفصیلی اور مکمل آگاہی ہم سب کا فریضہ ہے اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنا امت مسلمہ کا درد رکھنے والے تمام صاحب طاقت اور تمام مجاہدین اسلام کی ذمہ داری ہے۔
غزہ ہماری راہ تک رہا ہے، قبلۂ اوّل ہمیں پکار رہا ہے۔ اپنی مقدور بھر کوششوں سے پیچھے مت ہٹیں، چاہے سمندر میں قطرہ برابر ہی کیوں نہ ہوں!
٭٭٭٭٭