میٹنگ ہال میں گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔شیشے کی میز کے گرد مخملی کرسیوں پر بیٹھے مختلف ممالک کے سربراہان کی نظر صرف ایک شخص پر ٹکی ہوئی تھیں۔ پتلا دبلا مگر کافی لمبا تڑنگا شخص ایک موٹی سی فائل میں سے چند دستاویزات نکال رہا تھا۔اس کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی اور چمکدار تھیں جن پر اس کے پپوٹے جھکے ہوئے محسوس ہورہے تھے،ناک درمیان سے باز کی چونچ کی طرح ابھری ہوئی تھی،چہرے پر لمبی چونچ دار بکھرے بالوں والی سفید داڑھی اور سر پر کالے رنگ کی مخصوص یہودی ہیٹ تھی۔اس نے دستاویزات اپنے سامنے شیشے کی میز پر پھیلا دیں۔میز پر پہلے سے موجود ایک کتاب کے برابر میں وہ دستاویزی کاغذات کو سلیقے سے رکھنے لگا۔
ہال میں موجود تمام لوگ اس شخص کے بولنے کے منتظر تھے۔وہ شخص بھی یہ جانتا تھا مگر دستاویزات سامنے پھیلا کر بھی وہ کچھ نہ بولا بلکہ بالکل خاموشی سے سب کو دیکھتا رہا ۔اس کے چہرے پر نخوت اور آنکھوں میں کمینگی کسی سے بھی چھپی نہ تھی ۔ ہال میں اس وقت اس کے دیگر ساتھی بھی اسی جیسے حلیوں میں موجود ، اس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے تھے۔
یہ ۱۹۴۰ء کی ایک تاریک صبح تھی۔آج سورج طلوع ہوا تو اس کی کرنیں بادلوں کے پیچھے چھپی ہوئی تھیں ۔جس طرح اس ہال میں موجود لوگوں کی ذکاوت کفر اور منافقت کے لبادے میں لپٹی ہوئی تھی۔ لندن کے ایک فریمیسنری لاج میں اُس وقت کے تمام ملکوں کے سربراہان کا ایک خفیہ اجلاس منعقد ہورہا تھا۔جس کی سربراہی لندن کا ہی سب سے بڑا یہودی ربی کر رہا تھا۔
پیلی اور گہری سرخ رنگ کی ٹائلوں والے اس نیم تاریک سے ہال میں عجیب پرسرار سی فضا تھی۔اجلاس میں موجود ہر فرد اپنے اپنے موقع پر خطاب کر چکا تھا اور اب صرف اس یہودی ربی کی باری تھی۔
’’خواتین و حضرات!‘‘اچانک ہال میں یہودی ربی کی کرخت آواز گونجی۔
سب پہلے ہی اس کی جانب متوجہ تھے۔وہاں موجود اکثر افراد ا س شخص کی دل سے عزت نہ کرتے تھے مگر ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کی خاطر اپنے ضمیر فروش کرکے اس اجلاس میں شرکت کرنے کے قابل ہوا تھا۔
’’آپ سب کی آراء اور خیالات سن کر ہمیں بہت خوشی اور سرور حاصل ہوتا ہے کہ آپ سب ابھی تک صہیونی تحریک سے مخلص ہیں۔میں یہودی کمیونٹی کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں!‘‘
یہ کہہ کر وہ پھر خاموش ہوگیا اور ہال میں تالیوں کی آواز گونجنے لگی۔
’’روس اور امریکہ کے صدور کی تمام باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں……آپ دونوں کا خیال بالکل درست ہے کہ اس وقت ہمارے لیے دنیا کا کوئی بھی مذہب اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا کہ اسلام!……‘‘ وہ سانس لینے کو رکا، ’’اور ریاست اسرائیل اور یہودیوں کے ارض موعود کا خواب پورا ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف خلافت عثمانیہ نہیں تھی جیسا کہ ہم پہلے سمجھتے تھے…… بلکہ سب سے بڑا خطرہ اسلام اور اس کے پیرو کار مسلمان ہیں۔‘‘
وہ خاموش ہوا تو ہال میں پھر پرسرار خاموشی چھا گئی۔اجلاس میں موجود کسی ذی روح نے ایک آواز بھی نہ نکالی اور بس ٹکٹکی باندھے اس یہودی کو ہی دیکھتا رہا۔
’’ ہم سمجھتے تھے کہ عثمانیوں کی سلطنت ختم کر کے وہاں پر اتاترک کی سیکولر حکومت لا کر ہم کامیاب ہوگئے ہیں؟…… یہ بالکل غلط ہے!…… ہم جب تک اسلام اور مسلمانوں کو شکست سے دوچار نہ کردیں ہم دنیا میں کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکتے!…… آپ سب کو آج کی دنیا کے حالات دیکھ کر اندازہ ہو ہی گیا ہوگا!…… مسلمان بڑی عجیب سی نفسیات رکھتے ہیں ……جس کو ہم کبھی نہیں سمجھ سکتے…… ان کو جب بھی کسی نے دبانے کی کوشش کی ہے یہ دبنے اور ڈر کر ختم ہوجانے کی بجائے آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتے ہیں اور ہر اس قوت سے بغاوت کردیتے ہیں جس کو وہ اپنے نظریات ا ور دین کے خلاف سمجھتے ہیں!…… ہماری استعماری طاقتوں کو مسلمانوں نے ایک لمحے کو بھی قبول نہیں کیا…… ہندوستان سے لے کر لیبیا، مراکش، مصر ،شام، شیشان میں آپ دیکھ رہے ہیں کس طرح ہمارے خلاف فضا ناہموار ہے؟!……کچھ ہی عرصے میں ہم مجبور ہوں جائیں گے کہ ان ملکوں کو ان کی آزادی واپس کریں اور اس کا بہترین حل جو ابھی برطانیہ کے وزیر اعظم اور فرانس کے صدر نے پیش کیا ہے وہ میرے نزدیک سب سے بہتر ہے…… وہ یہ کہ ہم ان کو برائے نام آزادی تو دے دیں مگر درحقیقت ان کے سروں پر ہمارے غلام ہی مسلط رہیں جو دیکھنے میں تو ان جیسے ہوں مگر قلب و ذہن اور روح و خیالات میں ہم سے یکسانیت رکھتے ہوں!……مگر‘‘
اس نے ڈرامائی انداز میں جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور اپنے سر پر پڑی کالی ہیٹ درست کرنے لگا۔ ہال میں سکوت چھایا ہوا تھا ۔ہر کوئی اس کے دوبارہ بولنے کا منتظر تھا۔
’’مگر…… ان سب کاموں کے باوجود ہم کبھی بھی اسلام کو شکست یا مسلمانوں کے ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے خطرے کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتے جب تک ان کے درمیان یہ چیز باقی ہے!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے سامنے میز پر پڑی گہرے سبز رنگ کی جلد والی ایک کتاب اٹھا کر ناظرین کے سامنے لہرائی۔
سب مبہوت بنے غور سے اس کتاب کو دیکھ رہے تھے۔ان میں سے ہر شخص بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ کتاب کیا تھی اور مسلمانوں کی زندگیوں میں اس کی اہمیت کیا تھی۔
’’جب تک یہ کتاب ان کے دلوں میں رہے گی…… تب تک ہم ان کو شکست نہیں دے سکتے!‘‘
’’مگر ہم یہ کتاب ان کے دلوں سے کس طرح نکال سکتے ہیں؟…… جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ کروڑوں مسلمان اس کو اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے ہیں…… اور مسلمان اس کتاب کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں!‘‘ مجلس میں سے کسی نے غیر مقامی لہجے میں انگریزی میں سوال کیا تھا۔
’’یہی تو سب سے مشکل کا م ہے…… یہ تو ہماری سب سے بڑی مشکل ہے!‘‘یہودی ربی اپنا سر تاسف سےہلاتے ہوئے بولا’’اور اس کا بہت ہی اچھا حل ہمارے ساتھی میخائیل برائٹ کے پاس ہے……‘‘
یہودی ربی نے اپنے دائیں جانب کو بیٹھے ایک یہودی کی طرف اشارہ کیا ۔یہ بڑی بڑی شاطر آنکھوں والا ایک یہودی تھا جس کے دونوں گالوں کے کنارے عجیب اجاڑ سی داڑھی اگی ہوئی تھی۔اس کے سر پر بھی مخصوص یہودی ہیٹ دھری ہوئی تھی اور ہونٹ مضبوطی سے بھنچے ہوئے تھے۔ربی کی اجازت پر وہ کرسی کی ٹیک چھوڑ کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
’’تھینک یو ربی نیہامہ ادین!‘‘ میخائل برائٹ گلا کھنکھارتے ہوئے گویا ہوا’’لیڈیز اینڈ جینٹل مین ! میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ میں آپ کے سامنے چند تجاویز پیش کرسکوں…… مگر یہ تجاویز جو کہ ہم نے کافی سوچ بچار اور مسلمانوں اور ان کے دین کو بہت گہرائی سے پڑھنے اور تاریخ کے تجارب کے بعد تشکیل دی ہیں…… یہ تجاویز ایک دن یا ایک ماہ یا ایک سال میں نتیجہ پیش نہیں کرسکیں گی…… ان تجاویز پر ہمیں بہت خاموشی اور غیر محسوس انداز میں آہستہ آہستہ عمل کرنا ہوگا تاکہ کسی بھی مشکوک عمل سے مسلمان چوکنے نہ ہوجائیں…… دوسرے معنی میں آپ سمجھیں ہم مسلمانوں کی conditioning کرنا چاہتے ہیں…… آپ سب کو یہ اندازہ ہوگا ہی کہ اگر ہم اچانک سے مسلمانوں کے دین کے خلاف کوئی کام شروع کردیں تو مسلمان کتنے برانگیختہ ہوسکتے ہیں……! اس کے لیے ہمارا سب سے پہلا ہدف یہ ہوگا کہ ہم مسلمانوں کو اس کتاب سے اس طرح دور کریں کہ ان کو احساس تک نہ ہو سکے…… ان کی زبان پر تو اس کتاب کے الفاظ ہوں مگر ان کو اس کی روح سمجھ میں نہ آسکے!…… وہ اس کو یاد تو کریں مگر یہ ان کو حلق سے نیچے بھی نہیں اترے اور آہستہ آہستہ وہ اس کو اپنی زندگی کا ایک غیر ضروری چیز سمجھنے لگیں…… مگر اس سب کے لیے ہمیں بہت صبر اور انتظار سے کام لینا پڑے گا…… میرے اندازے کے مطابق ہمیں کم از کم بھی نصف صدی تک اس کے نتائج ظاہر ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا!…… تھینک یو!‘‘ اس نے سر کو ذرا سا جھکایا تو ہال میں تالیوں کی آواز پھر سے گونجنے لگی۔
٭٭٭٭٭
جنوری ۲۰۰۰ء کی پہلی صبح تھی ۔فضا میں چڑیوں کی چہچہاہٹ نئی صدی کی آمد پر نوحہ کرتی محسوس ہورہی تھیں۔
ابھی فجر ہونے میں نصف گھنٹہ باقی تھا کہ الارم کی زور دار آواز پر وہ ہڑا بڑا کر اٹھ بیٹھا ۔
’’یااللہ!‘‘ آنکھ کھلتے ہی اس کی نظر سامنے گھڑی پر پڑی۔ابھی فجر میں نصف گھنٹہ باقی تھا۔اس نے کروٹ بدلی اور دوبارہ لیٹ گیا۔
کروٹ بدلتے ہی اس کی نظر سامنے والی مسہری پر سفید دوپٹے میں لپٹے وجود پر پڑی جو اپنے سامنے ایک صاف ستھرے تکیے پر رکھی ایک کتاب کو پڑھنے کی کوشش کررہی تھیں۔وہ اتنے آرام آرام اور رک رک کر پڑھ رہی تھیں کہ آسانی سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کو دیکھنے اور پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔
الارم کی آواز دوبارہ گونجی۔اس کے انگ انگ میں ناگواریت سرایت کرگئی۔
’’یااللہ! ابھی اذانیں بھی نہیں ہوئیں اور دادو کے الارم نے حسب معمول میری جان عذاب کردی ہے!‘‘ اس نے بھنا کر سوچا اور سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’دادو! الارم بند کردوں؟‘‘ نیم وا آنکھوں سے اس نےمسہری پر بیٹھی دادو سے پوچھا۔
’’السلام علیکم! میرا چاند اٹھ گیا؟‘‘دادو تلاوت کرتے رک گئیں اور مسکرا کراس کی جانب دیکھا ’’چلو اٹھو ……وضو کر کے نماز کی تیاری کرلو!‘‘
’’دادو! ابھی تو آدھا گھنٹہ باقی ہے!‘‘وہ کسمسا کر بولا۔گھڑی کا الارم بند کیا اور دوبارہ آنکھیں موندھ کر لیٹ گیا۔
دادو چند ثانیے کچھ دکھ اور تاسف سے اس کو دیکھتی رہیں پھر دوبارہ تلاوت کرنے لگیں۔حسب معمول اس کو دوبارہ نہ پکارا گیا تو اس نے شکر ادا کیا۔
’’عماد عمر!‘‘ دو منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ دادو نے آخر اس کو پکار ہی لیا۔
اس کا پورا جسم تن گیا مگر ان کی پکار کا جواب نہ دیا کہ شاید اس کو سوتا سمجھ کر دادو خاموش ہوجائیں۔
’’عماد عمر!‘‘ دادو نے پھر پکارا۔
اب سوئے رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔
’’جی دادو؟‘‘ تمام ناگواریت کو ایک جانب کرتے اس نے نرمی سے جواب دیا۔
’’اٹھ جاؤ دادو کی جان …… تھوڑی تلاوت ہی کرلو!‘‘ دادو نے بڑے پیار سے کہا تھا۔
عماد کو اب اٹھتے ہی بنی۔
’’تلاوت ؟…… ابھی؟…… ابھی تو میری آنکھیں بھی نہیں کھلیں…… میں شام کو قاری صاحب کے پاس پڑھ لوں گا ناں!‘‘ وہ ذرا سا منہ بنا کر بولا۔
’’بیٹے!……اس وقت کا قرآن اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے!‘‘
اسی لمحے اذان کی آواز سنائی دینے لگی۔
’’دادو!…… اذان ہوگئی ہے…… نماز پڑھ لیں!‘‘ اس نے اپنی جان بچانے کو کہااور خود بھی بستر سے اتر گیا۔
جلدی جلدی وضو کیا اور غسل خانے سے باہر نکل آیا۔
’’جاؤ اپنے پاپا کو بھی اٹھا دو!‘‘ دادو اس کو کمرے سے باہر کی طرف بڑھتا دیکھ کر بولیں۔
بدمزگی کی ایک اور لہر اس کے جسم میں تیر گئی۔ اس کو بے ساختہ دادو کی سادگی اور معصومیت پر ترس آیا۔
’’دادو! ‘‘ وہ دھیرے سے پیچھے مڑا ’’آپ کو پتہ تو ہے پاپا رات میں دیر سے فنکشن سے واپس آئے تھے…… وہ تھک گئے تھے…… مجھے رات میں ہی کہہ دیا تھا کہ فجر کے لیے مجھے نہ اٹھانا!‘‘
دادو کے جھریوں بھرے معصوم سے چہرے پر ایک سایہ سا آکر گزر گیا۔ عماد کو اتنی صاف گوئی سے ان کو بتادینے پر تھوڑی شرمندگی ہوئی۔
’’دادو! آپ روز پاپا کے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہیں!…… آپ کو پتہ تو ہے کہ وہ صبح اٹھ کر آفس جانے سے پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔‘‘ وہ ذرا نرمی سے بولا۔
’’جان بوجھ کر نماز قضا کرنے کا کیا فائدہ؟‘‘ دادو نے دکھ سے کہا اور خود بھی بستر سے نیچے اتر گئیں۔
ان کو تاسف سے دیکھتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭
گو کہ روزانہ دادو اس کو تحریض دلاتی تھیں کہ وہ پہلی صف میں نماز پڑھنے کے لیے جلدی گھر سے نکلا کرے وہ روز ہی سستی کرتا تھا اور روزانہ آخری صفوں اور آخری رکعت میں پہنچ پاتا تھا۔ مگر آج عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ جب پہنچا تو امام صاحب مسجد میں داخل ہی ہورہے تھے۔ اس کے دل میں طمانیت کا ایک انوکھا سا احساس اٹھا تھا۔ وہ تیزی سے پہلی کی صف کی جانب آگے بڑھا ۔
ابھی جماعت ہونے میں چار پانچ منٹ تھے۔ بعض لوگ سنتیں ادا کررہےتھے ۔ امام صاحب بھی سنتیں ادا کرنے لگے۔ عماد عمر نے سنتیں ادا کیں اور خاموشی سے بیٹھ کر نماز شروع ہونے کے انتظار میں مسجد میں ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے لگا۔
مسجد میں صرف پانچ لوگ ہی بیٹھے تھے۔ان میں سے دو اس کے محلے کے بوڑھے بزرگ تھے اور اس کے گھر کے پاس ہی رہتے تھے۔ وہ دونوں بھی اس کی دادو کی طرح رحل پر قرآن رکھے تلاوت میں مصروف تھے۔ عماد عمر اپنی زندگی کی بارہ بہاریں دیکھ چکا تھا مگر اس کو اب تک یہ سمجھنے میں شدید دشواری ہوتی تھی کہ آخر ان بوڑھے لوگوں کو قرآن کی تلاوت میں کیا مزہ آتا تھا۔ وہ اچنبھے سے کافی دیر تک ان دونوں بوڑھوں کو دیکھتا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ جب وہ گھر پہنچے گا تو اس کی دادو بھی ابھی تک مسہری پر بیٹھی قرآن کی تلاوت ہی کررہی ہوں گی۔
نماز کے لیے اقامت کہی جانے لگی تو وہ بھی اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ آج پہلی صف میں نماز پڑھنے پر اس کو طمانیت کا احساس ہورہا تھا اور وہ خوش تھا کہ واپس جاکر دادو کو بتا سکے گا کہ اس نے آج پہلی صف میں نماز پڑھی تھی۔
٭٭٭٭٭
دروازے کو آہستگی سے دکھیلتا وہ گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر میں ہر سو خاموشی کا راج تھا۔ اس کے ماں باپ دونوں ہی سورہے تھے۔ پاپا کے آفس جانے اور اس کے سکول کی بس آنے میں ابھی دو گھنٹے رہتے تھے ۔ اس لیے وہ بھی جلدی سے اپنے کمرے میں جاکر سوجانا چاہتا تھا۔
’’اللہ کرے کہ دادو سو رہی ہوں!‘‘ دل ہی دل میں دعا کرتا وہ اپنے اور دادو کے کمرے کی طرف بڑھا۔
مگر جیسے ہی اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔اس کی مایوسی کی انتہا نہ رہی۔دادو ابھی تک مسہری پر بیٹھی قرآن کی تلاوت ہی کررہی تھیں اور ان کی مسہری کے پہلو میں اس کا گدا اور کمبل گول ہوا پڑا تھا۔جس کا مطلب تھا کہ دادو اس کو دوبارہ سونے نہیں دیں گی!
’’السلام علیکم دادو!‘‘ اس نے بمشکل اپنے چہرے سے مایوسی کے اثرات ختم کیے اور مسکراتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
چاہے دادو جتنی بھی اصولی اور اس کی جان کو عذاب میں رکھتی ہوں۔ اس کو ان سے شدید محبت تھی۔ شاید اپنے حقیقی ماں باپ سے بھی زیادہ اور اس کی ایک وجہ ان کا اپنے اللہ سے تعلق اور دین سے محبت تھی۔ اس کی دادو بڑی انوکھی شخصیت کی مالک تھی۔ ان کو دنیا میں کم ہی کسی بات کی پروا ہوتی تھی۔ نہ ہی ان کو دنیا کے غم زیادہ غمزدہ کر پاتے تھے نہ ہی کوئی پریشانی زیادہ پریشان کرپاتی تھی۔ البتہ دین کے معاملے میں اگر ان کو ذرا سی بھی کمی نظر آتی یا محسوس ہوتی یا ان کو لگتا کہ کسی کام سے ان کا اللہ ان سے ناراض ہوگیا ہے تو وہ ایسے بے چین ہوجاتیں گویا ان کی روح فنا ہونے لگی ہو۔
بعض اوقات تو عماد عمر کو حیرت ہی ہوتی تھی کہ اس کے والد حماد عمر کیسے دادو جیسی عورت کی گود میں پل کر دین سے دور ہوگئے تھے۔ وہ اکثر ہی یہ بات سوچتا تھا۔شاید انہوں نے اس کی ماما سے شادی کی تو وہ بے دین ہوگئے کیونکہ ا س کی ماما کی فیملی تو بے حد ماڈرن تھی۔ یا شاید جب انہوں نے کاروبار سنبھالا تو مختلف قسم کے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے تو دین سے دور ہوتے گئے۔ وہ سوچتا رہتا اور مختلف توجیہات دیتا رہتا۔
’’وعلیکم السلام! اب سونا نہیں عماد عمر!‘‘ پیار سے کہتے ہوئے بھی دادو کی آنکھوں میں تنبیہ تھی ’’ایک سپارہ تلاوت کرلو!‘‘
’’ایک سپارہ؟‘‘ اس کے حلق میں سانس اٹک گیا۔
اس کی دادو اس کو کیا سمجھتی تھیں۔ کیا وہ حافظ قرآن تھا کہ اتنی جلدی ایک سپارہ پڑھ لیتا۔
’’ہاں! ایک سپارہ پڑھ لو!‘‘ دادو نے اب پھر ذرا نرمی سے ہی کہا ۔
’’دادو! ایک سپارہ نہیں…… میں بس دو صفحے پڑھ لیتا ہوں‘‘ وہ بھی ذرا لجاجت سے ہی بولا۔
’’چچ چچ! صرف دو صفحے!…… پورا دن سکول کی پڑھائیاں کرتے نہ دماغ تھکتا ہے نہ ہی جسم!…… بس قرآن کے چند صفحے ہی پڑھنا محال ہوتا ہے‘‘ حسب توقع دادو غصے میں آگئیں، ’’جاؤ! نہ پڑھو قرآن…… کوئی اللہ پر احسان تو نہیں کررہے!…… صرف دو صفحے پڑھ لیتا ہوں!…… ہونہہ!‘‘
دادو منہ بنا کر اس کی نقل اتار تے ہوئے بولیں۔ اس کو بے اختیار ہنسی آئی مگر دادو کے ناراض ہوجانے کے ڈر سے جلدی سے الماری میں سے ایک سپارہ نکال لایا۔ وہ تھوڑا سا پڑھ کر کہہ دے گا کہ اس نے پڑھ لیا۔دادو کو کیا پتہ چلے گا کہ اس نے ایک سپارہ نہیں پڑھا!
یہ سوچتا وہ سپارہ کھولنے لگا کہ اچانک ایک خیال کے تحت اس نے دادو کی طرف دیکھا۔
’’دادو! آپ قرآن کیوں پڑھتی ہیں؟‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا۔
دادو ابھی تک غصے میں ہی تھیں ۔ اس کے سوال کو اعتراض پر ہی محمول کیا۔
’’کیونکہ میں مسلمان ہوں!‘‘ ان کے تنک کر کہا۔
عماد عمر کو پھر ہنسی آئی۔
’’دادو! میں سیریئس پوچھ رہا ہوں…… آپ روز قرآن کیوں پڑھتی ہیں؟ اس کا آپ کو کیا فائدہ ہوتا ہے……میں نے تو پاپا کو کبھی بھی قرآن پڑھتے نہیں دیکھا نہ ہی ماما کو…… پاپا اور ماما کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں ہے قرآن پڑھنے کے لیے!‘‘
اب کی بار دادو نے گہری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں زمانے بھر کا کرب نظر آنے لگا تھا۔ انہوں نے احترام سے قرآن مجید کو بند کیا اور اس کو چوم کر اپنی آنکھوں سے لگا یا پھر اس کو غلاف میں لپیٹ کر تپائی پر رکھ دیا۔ عماد عمر حیرت سے اپنی بوڑھی دادو کو دیکھتا رہا جن کے دل میں قرآن کے لیے کتنی عقیدت تھی۔
’’عماد عمر!…… یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے…… اللہ نے یہ ہمیں الماریوں اور شیلفوں میں سجا کر رکھنے کو نہیں دیا…… اللہ نے ہمارے لیے اس میں پیغام بھجوائے ہیں…… اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو پڑھیں اور سمجھیں!‘‘ دادو اپنی آنکھوں پر سے عینک اتارتے ہوئے اس سے مخاطب ہوئیں۔
’’مگر دادو! اس تلاوت کا کیا فائدہ ملتا ہے آپ کو؟‘‘ اس نے اچنبھے سے پوچھا۔
’’مجھے سکون ملتا ہے عماد عمر!‘‘ دادو ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولیں۔
’’مگر آپ کو تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا!‘‘ وہ پھر بولا۔
’’ہاں!‘‘ دادو بے حد غمزدہ نظر آئیں، ’’کاش مجھے سمجھ میں آتا ہوتا!‘‘
ان کا حسرت بھرا لہجہ عماد عمر پر چابک کی طرح پڑا تھا۔اس کی دادو کے انداز میں کتنی حسرت تھی۔
’’دادو! آپ کو قرآن سے بہت محبت ہے؟‘‘ اس نے ایک بار پھر پوچھا۔
دادو کو اب نیند آنے لگی تھی۔وہ اپنا تکیہ درست کرکے اس پر لیٹنے لگی تھیں۔ عماد عمر کو البتہ اب نیند نہ آرہی تھی۔ وہ اب چاہتا تھا کہ اس قرآن کو ضرور پڑھ لے جس سے اس کی دادو کو اتنی محبت تھی۔
’’ہاں عماد عمر! مجھے اس سے بہت محبت ہے!…… اپنی جان سے بھی زیادہ!‘‘ تکیہ پر سر ٹکائے دادو نے آنکھیں موندھ لیں۔
عماد عمر بس یک ٹک دادو کو دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭٭٭
عماد عمر پاکستان کے ایک کامیاب بزنس مین حماد عمر کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ اپنے شہر کے بہترین نجی انگلش میڈیم سکول میں پڑھتا تھا۔ اکلوتا ہونے کی وجہ سے وہ گھر بھر کا بے حد لاڈلا تھا۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی اس لیے اس کو زندگی میں کسی قسم کی مشکل نہ سہنی پڑی تھی۔ اس کے منہ سے نکلی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا تھا۔
اس کا گھر صرف واجبی سا دین سے تعلق رکھتا تھا۔ حماد عمر کو جب موقع ملتا نماز پڑھ لیتے ورنہ کئی کئی دن کی نمازیں قضا ہوجاتیں۔ جب ان کے پاس کوئی نئی بزنس آفر آتی یا کسی قسم کا نقصان ہونے کا خدشہ ہوتا تو بڑے پیمانے پر صدقہ کیا جاتا۔ دیگیں پکوا کر غریبوں میں بانٹی جاتیں۔ عماد عمر کی والدہ حسینہ خاتون بھی ایک ورکنگ وومن تھیں۔ ان کا بھی اکثر وقت بے حد مصروف گزرتا تھا۔ عماد عمر اکلوتا ہونے کے باوجود اپنے ماں باپ کی توجہ اور وقت کو ترستا تھا۔
ماں باپ کی غیر حاضری میں دادو نے ہی اس کی تربیت کی تھی۔وہ کافی چھوٹا سا تھا اور اس کو اپنے کمرے میں اکیلے سوتے ہوئے وحشت محسوس ہونے لگی تو وہ دادو کے کمرے میں ہی سونے لگا تھا۔ ان کے ساتھ سونے کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ اتنا بڑا ہوجانے کے باوجود وہ ان کے کمرے میں ہی زمین پر گدا بچھا کر سوتا تھا۔
اس کی دادو بہت نیک خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی بھی بہت اچھی تربیت کی تھی مگر وہ دنیا کی ریل پیل میں دین کو بھلا بیٹھے تھے۔ عماد عمر کو گو کہ دادو کی باتیں بہت اچھی لگتی تھیں اور وہ غور سے ان کی باتیں سن بھی لیتا تھا مگر ان پر عمل کرنا اس کو بے حد مشکل لگتا تھا۔ آج کل کی دنیا اور جس قسم کے ماحول میں وہ پڑھ رہا تھا، اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ وہ دین کو ایک غیر ضروری چیز ہی سمجھے۔
٭٭٭٭٭
’’آپ کی تجاویز کیا ہیں؟‘‘ ہال میں سے ایک شخص نے میخائل برائٹ سے پوچھا۔
وہ اپنے کالے کوٹ کو درست کرکے اپنے سامنے پڑی ایک فائل اٹھانے لگا۔
’’سب سے پہلی تجویز یہ کہ…… ہمیں مسلمانوں کے لیے دین کا متبادل پیش کرنا پڑے گا!‘‘اس نے فائل میں سے پہلا صفحہ نکالا۔
’’مگر ہم ایسا کیسے کریں گے؟‘‘ سب کی زبان پر یہی سوال تھا۔
’’مثال کے طور پر……‘‘ میخائل برائٹ سانس لینے کو رکا ’’ہم ان کو نماز کی بجائے دیگر تفریحات کی طرف متوجہ کریں گے……ان کو فلموں اور ڈراموں کا رسیہ بنایا جائے گا…… ان کے نبی (ﷺ) اور ان کے تاریخی عظیم لوگوں کی سوانح کی بجائے ہم اپنی تاریخ ان کو پڑھائیں گے…… ان کے رول ماڈلز کو بدل دیں گے…… اب ان کے معاشرے کے دینی لوگ ان کے رول ماڈلز نہیں…… بلکہ ہمارے معاشرے کے فلمی اداکار، فٹ بال پلئیرز اور سنگرزہوں گے!…… ان کو ہمارے خلاف جنگ کا شوق پیدا نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس کی بجائے ان کے جوانوں کا جوش فٹ بال اور دیگر ورزشی مقابلوں میں نکال دیا جائے گا……‘‘
’’ویری گڈ! بہت خوب!‘‘ سب نے جی بھر کر اس کو داد دی اور ہال میں تالیاں بجنے لگیں۔
’’مگر میخائل!‘‘ اچانک ربی نیہامہ ادین نے اچنبھے سے اس کی جانب دیکھا ’’آپ نے قرآن کا متبادل نہیں بتایا!‘‘
’’اوہ ہاں!‘‘ میخائل برائٹ گویا بھول گیا تھا ’’ قرآن کا متبادل ہمیں ڈھونڈنے کی زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑے گی کیونکہ سب سے پہلے تو ہم ان کا عربی سے ہی رشتہ توڑ دیں گے جس کی کوششوں کا آغاز تو ہو ہی چکا ہے……اور دوسرا کام جو ہم کریں گے وہ ان کو اسلامی تعلیمات سے دور کردیں گے…… ان کو مسجد اور مدرسے س دور کریں گے!…… قرآن کی تلاوت کا متبادل مختلف اقسام کے میوزک ہوں گے!‘‘
’’آپ کی تجاویز لاجواب ہیں!‘‘ ہال میں بے ہنگم سی آوازیں گونجیں۔
’’اس طرح تو ہم مسلمانوں اور اسلام کو نیست و نابود کردیں گے!‘‘ روس کا صدر جوش سے بولا تھا۔
’’اسلام کا نام لینے والا کوئی نہ بچے گا!‘‘ امریکی صدر بھی مسکرایا۔
’’مسلمان کے اندر اسلام نہ بچے تو وہ ہمارے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں ثابت ہوگا!‘‘ برطانوی وزیراعظم بھی بہت خوش تھا۔
’’مگر اس کے باوجود مجھے ڈر ہے کہ ہم مسلمانوں کے دلوں سے مکمل اسلامی تشخص نہیں مٹاپائیں گے۔‘‘ اچانک ربی نیہامہ ادین کی آواز سنائی دی۔
کمرے میں یک دم سکوت چھا گیا۔ ہر کوئی حیرت سے اس کو دیکھے گیا۔
’’اسلام کی تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی سر پھرے اس کے دفاع کے لیے اٹھ ہی جاتے ہیں……‘‘
’’نہیں! اس دفعہ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی!…… مسٹر میخائل برائٹ کی تجاویز لا جواب ہیں!‘‘ اجلاس میں موجود بہت سے لوگوں نے اس کو تسلی دلائی۔
٭٭٭٭٭
’’کیا لائے ہو اس دفعہ مراد؟‘‘
’’ یا ر ایک بڑی فٹ فلم لے کر آیا ہوں…… اتنی خطرناک فلم ہے کہ جان ہی حلق میں آجائے گی!‘‘ ہاتھ میں سی ڈی تھامے عماد عمر کا کزن بڑے جوش و خروش سے ایک ڈراؤنی فلم کی کہانی سنا رہا تھا۔
’’ابھی لائے ہو؟‘‘ عماد عمر نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’ہاں! ہاں لایا ہوں…… تم کمپیوٹر چلاؤ…… میں سی ڈی نکالتا ہوں!‘‘
چند پل گزرے تھے کہ دونوں بیٹھ کر وہ ڈراؤنی فلم دیکھ رہے تھے۔ فلم واقعی بہت ڈراؤنی تھی۔ کئی جگہ تو عماد عمر کی بھی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی تھی۔ کمرے میں دل دہلادینےوالے میوزک کی آواز دیواروں سے ٹکرارہی تھی۔ میوزک کی بیٹس کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے دل بھی بری طرح دھڑک رہے تھے۔ واقعی سانس حلق میں پھنسا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
آخر فلم کا اختتام ہوگیا اور وہ دونوں اٹھ گئے۔
’’کیسی لگی فلم؟‘‘ اس کے کزن نے داد مانگتی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔
’’کمال کی تھی!‘‘ عماد عمر نے بے اختیار داد دی ’’پتہ نہیں ان سٹوری رائٹرز کو اتنے کمال کے آئیڈیاز کیسے آجاتے ہیں!‘‘
وہ واقعی اس کا مداح ہوگیا تھا۔ ’ہارر‘ فلمیں تو ویسے بھی اس کی پسندیدہ تھیں۔ منچلے مزاج اورطبیعت میں قدرتی دلیری ہونے کے باعث اس کو ہمیشہ سے خطرناک کاموں میں خاص کشش محسوس ہوتی تھی۔ کسی بھی کام کے بارے میں اگر اس کو معلوم ہوجاتا کہ اس کو کوئی بھی نہیں کرسکا تو اس کو وہ کام سرانجام دینے میں ایک عجیب سا سرور محسوس ہوتاتھا۔ جوانی کے گرم خون میں وہ اکثر کام کے انجام کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی نہ کرتا تھا ۔
’’اور ہاں…… یاد آیا‘‘ مراد اپنی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے گویا ہوا ’’کل ساتھ والے گراؤنڈ میں جو کرکٹ میچ ہوگا نا…… اس میں جمیل جنجوعہ کی ٹیم بھی کھیلے گی…… یار! اگر اس دفعہ ہم نے ان کو ہرا دیا تو مزہ آجائے گا!…… پچھلی ہار کا بدلہ پورا ہوجائے گا!‘‘
’’مجھے نہیں لگتا کہ میں آپاؤں گا…… میڑک کے بورڈ کے امتحان سر پر کھڑے ہیں…… میرے پاپا کو اگر پتہ چل گیا کہ میں کرکٹ کھیلنے گیا تو سخت خفا ہوں گے!‘‘
’’اوہ یار…… امتحانات میں تو ابھی ایک ماہ پڑا ہے…… تم نہیں ہوگے تو میچ کی اوپننگ کون کرے گا!…… اگر اس دفعہ بھی جنجوعہ جیت گیا نا…… تو میں کبھی دوبارہ کرکٹ نہیں کھیلوں گا!…… شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا ہمارے لیے!‘‘ مراد اپنے سینے پر ہاتھ رکھے بڑی آس سے بول رہا تھا ’’یہ کیا تم بچوں والی باتیں کر رہے ہو! پاپا کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟…… تمہارے پاپا تو ویسے بھی عصر کے وقت گھر پر نہیں ہوتے…… کسی کو بھی نہیں پتہ چلے گا!…… بھئی مرد بنو مرد!…… لڑکیوں کی طرح اپنے پاپا سے ڈرتے ہو!‘‘
’’جاؤ جاؤ! کسی اور کو اپنے ان ڈائیلاگز سے بے وقوف بناؤ!‘‘ عماد عمر نے اس کو زور کا مکا مارا ’’تمہیں پتہ ہے کہ اگر پاپا کی نظروں سے بچ بھی گیا تو دادو کی عقابی نظروں سے بچنا ناممکن ہے…… ان کو ویسے بھی بہت برا لگتا ہے میرا بے کار مشغلوں میں وقت کھپانا!‘‘
’’بے کار مشغلہ تھوڑا ہے……اس ورزش سے ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے‘‘مراد کا شاید آج علمی بحث کا موڈ تھا۔
عماد عمر ہنس دیا۔
’’دادو کہتی ہیں کہ اس کھیل میں نہ دنیا کا فائدہ ہے نہ ہی آخرت کا!‘‘
’’کیوں فائدہ نہیں ہے؟!‘‘ کرکٹ کی برائی سننا شاید مراد کو گوارا نہ تھا ’’اس سے ہمارے دشمنوں پر رعب پڑتا ہے!…… تم نے دیکھا نہیں جب پاکستان میچ جیتا تھا تو انڈیا کے لوگ کیسے رو رہے تھے!‘‘
’’اچھا بھئی دماغ نہ کھاؤ…… میں نہیں آسکتا !‘‘ عماد علی نے اب کی بار دو ٹوک لہجے میں کہا ’’میرے بورڈ کے پیپر سر پر کھڑے ہیں!‘‘
’’اوکے اوکے یار!…… مگر تو جتنا بھی پڑھ لے…… بورڈ میں ٹاپ تو نہیں کرسکتا نا!‘‘ مراد اب اس کو چڑانا چاہ رہا تھا۔
عماد عمر نے جواب میں کچھ نہ کہا اور دیوار پر لگے ایک ریک میں سے کوئی فلم تلاش کرنے لگا۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭