تمام تعریف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہے جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور اپنے محبوبؐ کا امتی بنایا، صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو اپنے فضلِ محض سے معاف کر دے، اپنے دین کی خدمت کی مبارک محنت کا کام لے لے اور جنت الفردوس میں اپنے حبیب کے قدموں میں جگہ عطا فر ما دے۔ بے شک مانگنے والے کو نہ مانگنا آتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی اہلیت ہم میں پائی جاتی ہے!
اہلِ غزہ کیوں زندہ ہیں؟ |
میں نے سوال کیا:
’’دسیوں ایٹم بموں کی تباہی جتنے بارود کے استعمال کے بعد بھی اہلِ غزہ زندہ ہیں تو کیوں زندہ ہیں؟ یہ اہلِ غزہ کی زندگی ایک کرامت ہے تو آخر کیوں؟‘‘
جواب ملا:
ان اہلِ غزہ کی زندگی کی سانسیں اس لیے بحال رکھی گئی ہیں، یہ ٹیلی وائزڈ جینو سائیڈ اس لیے برپا ہے تاکہ امت کا امتحان جاری رہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ جسدِ واحد کی دعوے دار امت میں گریٹا تھونبرگ(Greta Thunberg) اور لیام کننگھم (Liam Cunningham)جتنی حمیت ہے یا وہ بھی ختم ہو چکی ہے؟
بے شک اس امت میں حمیت ہے، اور اس امت کے اہلِ حمیت شام و سحر طوفان الاقصیٰ میں شریک بھی ہیں، لیکن یہ اہلِ حمیت کتنے ہیں؟ انگلیوں پر گنے جانے کے قابل۔ دو ارب کی امت سے زیادہ مؤثر کردار تو انسانیت کے دعوے دار یہ آج کے فریڈم فلوٹیلا والے ہیں۔
اگر امت نے فریڈم فلوٹیلا کی حد تک بھی اپنا کردار ادا نہ کیا تو ملبے تلے دبی یہ بچی ہی پوری امت کی خلاصی پر سوالیہ نشان بن کر روزِ محشر کھڑی ہو جائے گی۔
آہ…… آلاء النجار |
غزہ اور خاص کر ڈاکٹر آلاء النجار کی حالت دیکھ کر اپنے زندہ ہونے پر افسوس ہے۔ یہ زندگی واقعی عبث اور قابلِ افسوس ہے اگر آلاء النجار کے بچوں کا انتقام لینے کی غرض سے نہ گزاری جائے۔
یومِ تکبیر |
ہم نے ۲۸ مئی کو یومِ تکبیر تو قرار دے دیا، لیکن اللہ تعالیٰ کو نہ اپنی سیاست میں بڑا مانا، نہ خارجہ پالیسی میں، نہ معیشت میں اور نہ ہی معاشرت میں۔
ہماری سیاست مغرب سے درآمد کردہ جمہوریت ہے۔ خارجہ پالیسی میں غزوۂ ہند ٹرمپ کی ایک کال پر معطل ہو جاتا ہے، امریکہ ہمارا دوست ہے حماس و طالبان عملاً و حقیقتاً ہمارے دشمن ہیں۔ معیشت ہماری اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ یعنی سود ہے۔ معاشرت میں چند دن قبل پی ایس ایل کی تقریبات میں ہونے والی عریاں محفلِ رقص ہے۔ زنا جائز اور ۱۸ سال سے کم عمر کا نکاح قانوناً حرام ہے۔ جس نے ہمیں ایٹم بم بنا کر دیا اس کو ہم نے نظر بند و رسوا کیا۔ عافیہ صدیقی کو ہم نے بیچ کھایا۔
متاسفانہ……یومِ تکبیر پر ہمارا جوش و خروش نعرے لگانے، جلوس نکالنے اور اب سوشل میڈیا پر پوسٹیں کرنے سے، ذات و اجتماع میں ’ذاتِ اکبر ﷻ‘ کی شریعت کو عملاً بڑا سمجھنے اور نافذ کرنے کی طرف نہ بڑھ سکا۔
آپ کے اہل و اقارب کا یہ حق بھی ہے! |
اپنے اہل و اولاد، اقارب اور دوستوں وغیرہ کا اکرام یہ بھی ہے کہ جب وہ آپ کے پاس ہوں، تو آپ اپنے موبائل فون، سوشل میڈیا، واٹس ایپ وغیرہ کو ایک طرف رکھ کر ان کو توجہ دیں۔
سوشل میڈیا، رِیلز و واٹس ایپ یہیں رہ جائیں گے، لیکن زندگی کے یہ حقیقی تعلق کے مواقع پھر نہیں آئیں گے!
(والدین کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اگر کوئی ان کو توجہ نہ دے تو یہ فعل تو دنیا و آخرت کی بہر حال و کیفیت محرومی اور سامانِ رسوائی ہے)
فرزانہ، نیلوفر و آسیہ سے عافیہ و آلاء تک |
وقت کے ابنِ قاسموں اور معتصموں کو کشمیر کی فرزانہ، نیلوفر اور آسیہ پکار رہی ہیں، اسی پکارتی چیختی صف میں پاکستان کی عافیہ بھی شامل ہے اور انہی روتی پکارتی ماؤں بہنوں بیٹیوں میں غزہ کی آلاء النجار بھی شامل ہے۔
آج ۲۹ مئی ہے جب شوپیاں کی……نیلوفر و آسیہ کی عصمت تار تار ثم قتل کر دینے کے بعد ان دونوں کی نعشوں کو رامبی آرا کے دریا میں بہا دیا گیا تھا۔
کشمیر تا فلسطین ایک ہی کہانی ہے، ایک سا ظلم ہے اور اس سب کا علاج بھی ایک سا ہے!
کس کے منتظر ہیں سب؟ معجزہ کہ زلزلہ!؟
تا وہ دخترانِ دیں، بازیاب ہو رہیں!؟
#نحن_مع_غزة |
سبھی اہلِ ایمان کو امارتِ اسلامی افغانستان کے مجاہدین کی شروع کردہ سوشل میڈیا مہم #نحن_مع_غزة کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے۔
اسی کے ساتھ ہم تمام کلمہ گوؤں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اصل فریضہ کیا ہے؟
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم صرف سوشل میڈیا اور ابلاغی مہمات کو اصل فرض اور اپنے ضمیروں کی تسکین کا سامان نہ بنا لیں۔
؏خون جہاں بہنا ہو وہاں اشکوں کا کیسا بہنا؟
#نحن_مع_غزة: جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم (صحيح أبي داود)، کما قال حبیبنا علیہ الصلاۃ والسلام۔
مشرکوں سے جہاد کرو، اپنے مالوں، اپنی جانوں اور اپنی زبانوں کے ذریعے۔ #نحن_مع_غزة ، سوشل میڈیا پر ہی نہیں، ہر ہر طریقے سے، ہر اس طریقے سے جو میدان میں ڈٹے مجاہد کے قدموں کی مضبوطی اور غزہ کے مظلوموں کی نصرت کا سبب ہو!
خلافت…… رومانس……فانٹاسی |
رب کی شریعت کا رب کی زمین پر عملی نفاذ خلافت ہے۔ نصوصِ شرعیہ بڑی وضاحت سے خلافت کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ نظامِ اسلامی کی عملی تطبیق کا نام بھی خلافت ہے۔ خلافت کے قیام کے بنا شریعتِ اسلامی کا صد فیصد نفاذ نا ممکن ہے۔
غامدی صاحب کا مسلک خلافت کو “romance” قرار دینا ہے اور باقی کچھ مدخلی الفکر حضرات کے یہاں تو موجودہ حکمران ہی شرعی ولی الامر ہیں، تو ان حکام کو شرعی اولو الامر جاننے والوں سے نسبت رکھنے والے آج اس سب کو “fantasy” قرار دے رہے ہیں۔
الفاظِ مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم ہیں: ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ (مسند احمد)۔
ہر کوئی اپنی اپنی fantasies اور اپنے اپنے romance کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اپنی فانٹاسی اور اپنا رومانس تو وہی ہے جو رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے ادا ہو گیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر خلافت کا پھر سے قیام بر حق ہے تو بنا محنت کیے تو دینُ اللہ مکہ مدینہ میں بھی قائم نہیں ہوا اور محنت بھی کیا؟ دعوت الی اللہ، دارِ ارقم، شعب ابی طالب، ہجرت، جہاد، صفہ کا چبوترہ……
تو علی منھاج النبوۃ خلافت کیسے آج ان سب راہوں اور گھاٹیوں کو عبور کیے بغیر قائم ہو سکے گی؟ اور اگر خلافت کا دوبارہ قیام بر حق ہے (اور بے شک بر حق ہے) تو ہماری اس سب کے لیے محنت کیا ہے؟
جو نوجوان اسی نظامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لانے کی جد و جہد کا راستہ پوچھیں تو ہم انہیں یہاں وہاں کی راہیں دکھائیں!؟
بقول عارفِ لاہوری (اقباؔلؒ):
صوفی کی طریقت میں فقط مستیٔ احوال
مُلّا کی شریعت میں فقط مستیٔ گفتار
شاعر کی نوا مُردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستیٔ کردار
٭٭٭٭٭