نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جون ۲۰۲۵ء

شاہین صدیقی by شاہین صدیقی
8 جون 2025
in عالمی منظر نامہ, جون 2025
0

اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کی آرائ پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)


’فیلڈ مارشل‘ عاصم منیر

پاک بھارت حالیہ تین روزہ تنازعہ کے بعد پاکستانی فوج کو جہاں اپنی ساکھ بحال ہوتی نظر آئی وہیں پاکستانی صدر اور وزیراعظم نے آرمی چیف عاصم منیر کو سب سے اعلی فوجی عہدے اور اعزاز فیلڈ مارشل سے نوازا۔ اس سے پہلے یہ اعزاز صرف ایوب خان کے حصے میں آیا ہے۔ یوں ہی نہیں پاکستانی فوج اور اس سے منسلک اداروں کو ’اسٹیبلشمنٹ‘ کہا جاتا ۔ پاکستان کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ فوجی آمروں نے مزید طاقت کے حصول کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنائے اور کہاں کہاں اپنے مفاد اور عوام کو خاموش کرنے کے لیے ان کو ظلم کا نشانہ بنا یا۔ ہر آنے والا جانے والے سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ طاقت، مال و دولت کے حصول کے لیے کٹھ پتلی حکومتوں کو استعمال کے اپنی اجارہ داری قائم کرتا ہے اور جب ریٹائیر ہو جاتا ہے تو ساری لوٹی ہوئی دولت لے کر ملک سے فرار ہو جاتا ہے۔ ہر آنے والا جانے والے سے زیادہ طاقت و اختیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ آرمی چیف کو ’فیلڈ مارشل‘ کے اعزاز سے نوازنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

چونکہ پاکستانی میڈیا کی روزی روٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ پالش کرنے سے چلتی ہے اس لیے زیادہ تر کالم نگار و ’دانشور‘ عاصم منیر کی جرأت و بہادری کے قصیدے لکھ رہے ہیں۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ کریں:

فیلڈ مارشل عاصم منیر، مدبر سپہ سالار | محمد علی یزدانی

’’ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر صرف ایک جنرل نہیں بلکہ ایک مثالی سپاہی، مدبر رہنما، اور مخلص مصلح کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کی جنگی حکمت عملی، بروقت فیصلے، دشمن کی چالوں کو بے نقاب کرنا، اور قومی اتحاد کو مضبوط کرنا ہماری تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ ان کا فیلڈ مارشل بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ قیادت محض عہدے سے نہیں بلکہ صلاحیت، نیت، اور خدمت کے جذبے سے حاصل کی جاتی ہے۔ ان کے فوجی کارنامے آج دنیا کی وار اسٹڈیز میں شامل ہو چکے ہیں اور ان کی منصوبہ بندی دشمن کے لیے ہمیشہ ایک معمہ بنی رہے گی۔ دشمن کو ناکوں چنے چبوانا، اس کے غرور کو خاک میں ملانا، اور اس کے جدید اسلحے کو ناکام بنانا ایسی کامیابیاں ہیں جن پر پوری قوم کو فخر ہے۔

فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان آرمی کے نظم و ضبط کو نئی سطح پر لے جانے کے ساتھ ساتھ داخلی و خارجی سلامتی کو نئی سمت عطا کی۔ وہ اس بات کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں کہ قیادت میں سادگی، اصول پسندی، اور دیانت ہی وہ عناصر ہیں جو ادارے اور قوم کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔

تاریخ انہیں ایک غیر معمولی، مدبر اور باوقار سپہ سالار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی، ایک ایسا نام جو قوم کے دلوں میں نقش ہو چکا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بن چکا ہے۔‘‘

[روزنامہ پاکستان]

لیکن یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آیا محض تین دنوں کی فضائی معرکہ آرائی، جو کہ امریکہ نے رکوا دی ، کے بعد جنرل عاصم منیر کو ’’فاتح‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ اگر پاکستان و بھارت کے مابین ایک مکمل جنگ چھڑ جاتی اور پاکستان اس جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروا لیتا تو فوج کا سپہ سالار کسی اعزاز کا مستحق ہوتا۔ لیکن ماضی میں کتنے ہی ایسے موقع آئے لیکن پاکستانی فوج کشمیر کو آزاد کرانے میں یا ناکام رہی یا ان کا آزاد کروانے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔ پھر یہ اعزاز چہ معنی دارد؟ اسی طرح کا سوال شاہنواز فاروقی بھی اٹھا رہے ہیں:

جنرل عاصم منیر اور فیلڈ مارشل کا اعزاز | شاہنواز فاروقی

’’پوری عسکری تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جنگ کے دوران کسی کو کوئی اعزاز نہیں دیا جاتا۔ جنگ ختم ہو جاتی ہے تو پھر اعزازات کا مرحلہ آتا ہے۔ بھارت نے 6 مئی کو جو جنگ شروع کی تھی وہ ابھی تک جاری ہے۔ بھارت کا ناپاک وزیراعظم مودی کہہ چکا ہے کہ ابھی جنگ میں وقفہ ہے۔

چونکہ اس جنگ کے نتائج سے مودی کا سیاسی مستقبل تاریک ہو سکتا ہے اس لیے اندیشہ یہ ہے کہ بھارت کسی بھی وقت ہم پر دوبارہ جنگ مسلط کر سکتا ہے۔ ایسا ہوا تو جنرل عاصم منیر کا اعزاز انہیں خود بوجھ لگنے لگے گا۔ بہتر ہوتا کہ پہلے بھارت کے ساتھ جنگ حتمی طور پر ختم ہو جاتی اور پھر جنرل عاصم منیر کو کوئی اعزاز دیا جاتا۔

جنرل عاصم منیر کا اعزاز اس لیے بھی عجیب و غریب محسوس ہو رہا ہے کہ جنرل عاصم منیر نے 2024ء کے انتخابات کو اغوا کر کے شریف خاندان اور نواز لیگ کو ملک پر مسلط کر دیا اور پھر شہباز شریف نے اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لیے جنگ کے حتمی اختتام سے پہلے ہی جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا اعزاز پیش کر دیا۔ ریکارڈ پر یہ بات بھی ہے کہ پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ نے اصل کارنامہ سر انجام دیا چنانچہ کوئی اعزاز دینا ہی تھا تو پاک فضائیہ کے سربراہ ظہیر بابر صاحب کو دیا جاتا۔

بدقسمتی سے اس اعزاز کی جتنی سستی تشہیر کی جا رہی ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ روزنامہ جنگ نے 21 مئی کی اشاعت میں نصف بالائی سطح پر 20 خبریں شائع کی ہیں۔ ان میں سے دس خبریں جنرل عاصم کے اعزاز سے متعلق ہیں جبکہ زیریں نصف صفحے میں ایک نجی ادارے کا اشتہار ہے جس میں جنرل عاصم منیر کو ’’امت کا سپہ سالار‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ حالات یہی رہے تو کسی دن عاصم منیر پوری دنیا کے سپہ سالار بھی قرار دے دیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں معروف صحافی مجیب الرحمن شامی نے بھی حد کر دی۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں جنرل عاصم منیر کو ’’فاتح بھارت‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ سب کچھ کم ظرفی اور چھوٹے پن کی علامت ہے۔ پی ایس ایل کے فائنل میں جرنیلوں کے ’’فیورٹ‘‘ محسن نقوی ایک جانب نعرہ تکبیر لگوا رہے تھے اور دوسری جانب ’’پنجابیوں‘‘ کو نچوا کر نچ پنجابن نچ کا شور برپا کروا رہے تھے۔ بلاشبہ ایسے ملک میں جو ہوجائے کم ہے۔‘‘

[روزنامہ جسارت]

کم عمری کی شادی پر پابندی

یوں تو پاکستان کے آئین کی رو سے کوئی بھی ایسا قانون نافذ نہیں ہو سکتا جو دینی احکامات سے متصادم ہو۔ لیکن چاہے وہ حدود کے قوانین ہوں یا توہین رسالت یا پھر خواجہ سراؤں کے حقوق کے نام پر LGBTQ کا فروغ، پاکستان کی سیکولر اور لبرل حکومت اپنے مطلب کے قوانین نافذ کروانے میں بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اس سلسلے کی موجودہ کڑی کم عمری میں شادی پر پابندی کا بل ہے۔ جو پارلیمنٹ میں دیسی لبرل شیری رحمان نے پیش کیا اور جلدی جلدی نا صرف پارلیمنٹ اور سینٹ سے منظور ہو گیا بلکہ صدر آصف زرداری نے فوراً ہی دستخط کر کے نافذ العمل کر دیا۔ جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسے مسترد کیا اور پاکستان کے علماء نے بھی اسے اسلامی احکامات کے خلاف ہونے پر مسترد کیا۔ لیکن پاکستان میں چلتی انہی دیسی لبرلز کی ہے جو اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اسلام کا نام بھی پاکستان سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

اس قانون کے تحت اٹھارہ سال سے کم کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی شادی پر قانون کی نظر میں ممانعت ہو گی اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا ہو گی۔

نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے قبل ساتھ رہنے کو بچے سے زیادتی تصور کیا جائے گا اور کم عمر میں شادی پر مجبور کرنے والے کو 7 سال تک قیداور10 لاکھ تک جرمانہ ہو گا۔

قانون کے تحت نکاح خواں ایسا نکاح نہیں پڑھائے گا، جہاں فریق 18سال سے کم عمر ہوں، خلاف ورزی پر نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے۔۱۸سال سے بڑی عمر کے مرد کو کم عمر لڑکی سے شادی پر 3 سال تک قید بامشقت ہو گی اور کم عمری کی شادی کا علم ہونے پر انتظامیہ اسے روکنے کا حکم دے گی۔

اٹھارہ سال سے کم عمر کےلڑکے لڑکیوں کو نا بالغ اور بچہ قرار دینا سراسر دینی احکامات کی نفی ہے۔ اس قانون سے نہ صرف زنا اور بے حیائی کو فروغ ملے گا۔ بلکہ نئی نسلوں کے اسلامی عقائد بھی مسخ ہوں گے۔ اگرچہ علماء نے اس قانون کے خلاف عوامی سطح اور سوشل میڈیا پر احتجاج شروع کر رکھا ہے لیکن اس سے پہلے کتنے قوانین ان احتجاجی مظاہروں سے بدلے گئے ہیں؟ افسوس کی بات تو یہ ہےکہ اس موضوع پر بھی زیادہ تر لکھاریوں نے اس قانون کا خیر مقدم کیا ہے۔ جبکہ چند ایک کالم نگاروں نے اسے اسلامی احکامات کے منافی قرار دے کر اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے:

کم عمری کی شادی؟ | افضال ریحان

’’حال ہی میں ہماری سینیٹ نے کم عمری کی شادیوں پر ممانعت کا جو بل پاس کیا ہے، یہ ہمارے آئینی و جمہوری ادارے کا نہایت ضروری اور قابل ستائش فیصلہ ہے جس کی ہر طرف سے تحسین ہونی چاہیے تھی لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس پر بجائے معزز ادارے کو مبارک باد دینے کے کچھ حلقے اس پر تنقید کے نشتر چلانا شروع ہو گئے ہیں۔

……حکومتی پارٹی کو چاہیے تھا کہ یہ ایشو پارلیمان میں، پہلے اپنی پارٹی کے اجلاس میں طے کر کے آگے لاتی کیونکہ سینیٹ تو پہلے ہی اس کی منظوری دے چکی ہے، ‎ خاتون وفاقی وزیر کا یہ مؤقف قابلِ فہم ہے کہ کئی قدیمی اسلامی ممالک جیسے ترکی اور مصر میں شادی کے لیے عمر کی اٹھارہ سالہ حد پہلے سے موجود ہے اور مصر ی مسلمانوں نے توباقاعدہ الازہر یونیورسٹی کے ماہرین کی مشاورت سے یہ قانون تشکیل دے رکھا ہے جبکہ ترکی ایک جمہوری اسلامی ملک ہے اور ان کی منتخب پارلیمنٹ نے عوامی مفاد میں یہ قانون سازی کر رکھی ہے۔

یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ ہمارا مذہب کوئی جامد مذہب نہیں ہے اس کا نظریہ اجتہاد بہت مضبوط اور وسیع تر ہے، اگر قوانین اور معاشرت کا علمی و فکری بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو ہم چودہ صدیوں میں ان گنت تغیرات سے گزرے ہیں، ابتدائی ادوار میں فقہی طور پر اس نوع کے تقاضے بھی مسلمہ حقائق خیال کیے جاتے رہے کہ حکمران ہونے کے لیے قریشی کی شرط لازم ہے یا بیعت کے حق دار محض اہل حل و عقد ہوں گے۔

جمہوریت کے بالمقابل بادشاہتوں کی حمایت میں شرعی دلائل بھی پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف تو ابھی کل تک دھواں دار تقاریر ہوتی رہیں لیکن وقت کے ساتھ مسلم سوادِ اعظم شعوری طور پر آگے بڑھتا رہا اور آج تمام تر اجتہادی فیصلے اس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ روایتی الذہن لوگ بھی ان کی مخالفت کا یارا نہیں رکھتے، روایتی اپروچ کے حاملین کو چاہیے کہ وہ اس نوع کے مسائل و معاملات میں نظریہ استحسان اور مصالح مرسلہ کو پیش نظر رکھیں ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ جتنی زور آزمائی کم عمری کی شادی پر کر رہے ہیں اتنا زور جبری شادیوں کے خلاف دیں۔‘‘

[جیو نیوز]

اس قانون کے حق میں پیش پیش جاوید احمد غامدی کے شاگرد بھی ہیں جو ’’پروگریسو اسلام‘‘ کے گمراہ کن عقیدہ کو مسلمانوں میں پھیلا رہے ہیں اور اپنے ان گمراہ کن عقائد کو پھیلانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ گزشتہ اقتباس میں بھی اگرچہ اسی کی جھلک تھی اور غامدی کا براہ راست شاگرد خورشید ندیم بھی کچھ ایسی ہی بات کر رہا ہے:

شادی کی عمر | خورشید ندیم

’’عالمِ اسلام کے کم از کم چودہ ممالک میں شادی کی عمر طے کر دی گئی ہے جو اٹھارہ سے اکیس سال کے درمیان ہے۔ ان ممالک میں سعودی عرب، ترکیہ، مصر اور مراکش شامل ہیں۔ اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کی رائے کے مطابق ’اولو الامر (اربابِ اختیار) کو یہ حق حاصل ہے کہ قاضی کی اجازت سے کمسن لڑکیوں کے لیے شادی کی مناسب عمر کا تعین کر سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے علماء سے بھی یہی گزارش ہے کہ وہ شادی کی عمر کو اسلامی تصورِ خاندان کے وسیع تر تناظر میں دیکھیں۔ اگر کم عمری کے سماجی و نفسیاتی نتائج کو سامنے رکھا جائے تو اس کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ خصوصی حالات کے لیے البتہ عدالت اس میں استثنا پیدا کر سکتی ہے۔‘‘

[روزنامہ دنیا]

اس قانون کے خلاف معاشرے میں آواز اگر اٹھ رہی ہے تو صرف دیندار طبقے کی جانب سے ہی اٹھ رہی ہے۔ شجاع الدین شیخ صاحب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:

قوم کو بنیان مرصوص بننا ہو گا | شجاع الدین شیخ

’’ چند روز پہلے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ایک بل منظور کیا گیا جس میں 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادیوں پر پابندی لگاتے ہوئے دلہا، شادی کے گواہ اور نکاح خواں پر فوجداری مقدمہ قائم کرنے کو کہا گیا ہے۔18سال سے زائد عمر کے مرد کی کمسن لڑکی سے شادی پر بھی سزا مقرر کی گئی ہے۔ کمسن لڑکی سے شادی پر کم از کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال قید بامشقت ہو گی، کمسن لڑکی سے شادی پر جرمانہ بھی ہو گا، کم عمر بچوں کی رضامندی یا بغیر رضامندی شادی کے نتیجے میں مباشرت نابالغ فرد سے زیادتی سمجھی جائے گی۔ دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد یہ بل اب صدر مملکت کے دستخط کا متقاضی ہے۔1صدر مملکت اگر اِس بل پر یہ اعتراض لگا کر واپس ایوان میں بھیج دیں کہ یہ بل اسلامی احکامات کے خلاف ہے تو یقیناً یہ اِس بات کا ثبوت ہو گا کہ دستور پاکستان کے دیباچے میں لکھی ہوئی عبارت کو سمجھنے والے ارباب اختیار پاکستان میں ابھی زندہ ہیں ورنہ جہاں اور بہت سے غیر اسلامی اور غیر منطقی قوانین موجود ہیں، اْن میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا۔ موجودہ حالات میں اگر اِس طرح کا کوئی قانون بنانا ضروری ہی تھا تو بلوغت کی عمر کی از سر نو وضاحت کر دی جاتی کہ اب سے 13 سال کے بچے کو جسمانی طور پر بالغ تصور کیا جائے گا۔ اسلام نے تو نابالغ بچیوں کی طلاق کے بارے میں قوانین کی وضاحت بھی فرمائی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نابالغ بچوں کی شادی ہو سکتی ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار معاشرے میں پھیلنے والی اْن خرابیوں کی بیخ کنی کے لئے تو کوئی قانون سازی نہیں کر رہے کہ جن کی وجہ سے زنا اور اس سے متعلق دیگر کئی خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں الٹا وہ تمام اسباب ضرور پیدا کر رہے ہیں کہ جن سے معاشرتی خرابیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ بلوغت کی عمر ہر علاقے اور تہذیب میں مختلف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کم عمری کی شادی پر پابندی والے بل کو مسترد کر دیا ہے۔ لہٰذا صدر مملکت صاحب اپنی قوم کے بچوں پر رحم کرتے ہوئے اس بل کو واپس بھیج دیں۔ پاکستانی قوم سے بھی گزارش ہے کہ پاکستان کی اصل کامیابی کا راز اِس بات میں پوشیدہ ہے کہ پاکستان ہم نے نظام اسلام کے نفاذ کے لئے حاصل کیا تھا، اِس لئے اِس کی بقاء کا راز بھی اِسی میں مضمر ہے۔ ایسے میں قوم ہر غیر اخلاقی اور غیر اسلامی اقدام کے خلاف ہر وقت بنیان مرصوص بن کر رہے، جہاں کہیں بھی مذہب اور دین کے خلاف کوئی اقدام نظر آئے قوم اس کے خلاف بنیان مرصوص بن جائے۔‘‘

[روزنامہ ۹۲ نیوز]

غزہ !

جہاں غزہ پر جاری صہیونی حملے کو چھ سو دن مکمل ہو گئے ہیں، وہاں مارچ سے جاری غزہ کی مکمل ناکہ بندی اور روزانہ کی بنیاد پر دن رات مسلسل حملوں سے زندگی کی صورتحال ابتر کر دی گئی ہے۔ بھوک اور غذائی قلت سے ہر روز بچے بوڑھے جوان موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ جو کچھ سوشل میڈیا پر نشر ہو رہا ہے اس کی تفصیل الفاظ میں بیان کرنے سے قلم بھی قاصر ہے۔

ایسے میں جب اسرائیل کے اپنے اتحادی بھی ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف بولنا شروع ہو گئے ہیں، تو اسرائیل اور اس کے باپ امریکہ نے غزہ میں امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دینے اور اقوام متحدہ کے ادارے انروا (UNRWA) کی سرپرستی میں غزہ کے تباہ حال عوام تک امداد پہنچانے کے بجائے اسرائیلی سر پرستی میں ایک نیا ادارہ غزہ ہیومینٹیرین فاونڈیشن (GHF) تشکیل دیا، جو اسرائیلی قابض فوج کی سرپرستی میں غزہ کے لوگوں میں غذائی امداد بانٹے گا۔ اور اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس ادارے کی مقرر کی ہوئی جگہوں پر (جو کی آبادی سے بہت دور بنائی گئی ہیں اور جہاں تک پیدل سفر ہی بہت دشوار ہے) عوام جمع ہوں گے اور وہاں پہنچ کر ہر شخص کی بائیو میٹرک سکیننگ ہو گی اس کے بعد انہیں جو ’’کلین‘‘ لگے گا اسے امداد دی جائے گی۔ جب اس ادارے نے کام شروع کیا تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ بھی صہیونیوں کا ایک ہتھیار ہے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے۔ اس کا مقصد ہے:

  • عوام کی کثیر تعداد کو ایک جگہ اکھٹا کرنا،

  • ان کی تذلیل کرنا اور ہتک آمیز سلوک کے بعد کچھ لوگوں کو تھوڑا سا راشن دینا،

  • کچھ لوگوں کو شک کی بنیاد پر وہاں سے ہی غائب کر لینا،

  • تنگ راہداری میں موجود لوگوں پر ان کے سروں اور سینے پر سیدھا فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دینا،

  • راستے میں امداد کے لیے آنے والے لوگوں کو ڈرون کے ذریعے نشانہ بنانا۔

جس انداز سے صہیونی قابض افواج کی پیش قدمی جاری ہے اور جو امداد کے پوائنٹس بنائے ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے لوگوں کی مکمل نسل کشی کر کے پورے غزہ پر قبضے کی منصوبہ بندی پر مکمل امریکی حمایت کے ساتھ عمل پیرا ہے۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے خوراک مائیکل فخری نے اسے ’’bait to corral people‘‘ (لوگوں کو جمع کرنے کے لیے چارہ) قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدام ’’بین الاقوامی قانون کے ہر اصول کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:

ترجمہ: ’’یہ لوگوں کو شمال سے نکال کر فوجی علاقوں کی طرف دھکیلنے کے لیے امداد کا استعمال ہے، یہ لوگوں کو ذلیل کرنے کے لیے ہے اور یہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہے۔ اس کا قحط روکنے سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘

الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق GHF نے ۲۷ مئی سے کام شروع کیا اور اب تک وہاں برہ راست فائیرنگ سےامداد کےلیے آنے والے نہتے عوام میں سے ۱۰۲ لوگوں کو شہید کر دیا گیا اور ۴۹۰ زخمی ہیں۔ وہاں کی وڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی ہیں جنہیں اٹھانے کا انتظام بھی نہیں۔

الجزیرہ پر ایک لکھاری نے اس پر تبصرہ کیا ہے جس کے اقتباس کا ترجمہ درج ذیل ہے:

In Gaza, aid kills | Belén Fernández

’’اگر GHF کےغزہ میں آغاز سے کوئی اشارہ ملتا ہے، تو خوراک کی عسکری تقسیم، بھوک سے نڈھال فلسطینیوں کے، امدادی مراکز کے گرد جمع ہونے پر، قتلِ عام کے مواقع فراہم کرتی رہے گی۔ ’’ڈرم میں مچھلیوں کا شکار‘‘ کا انگریزی محاورہ اس سے ذہن میں آتا ہے، جیسے غزہ کی پٹی پہلے ہی کوئی کم ڈرم جیسی ہے۔

بلاشبہ، بھوک سے نڈھال لوگوں کو مخصوص جغرافیائی مقامات کی جانب راغب کرنے کا خیال، اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کو سہولت دینے کے لیے ایک شیطانی چال ہے۔ اور جب امریکہ اسرائیل کے اس ’’ڈرم میں مچھلیوں کے شکار‘‘ والے طریقے کو جاری رکھنا چاہتا ہے، وہ دنیا جس میں اخلاق کا شائبہ بھی موجود ہو گا وہ اس انتظام کو مزید ہضم کرنے سے انکار کر دے گی۔‘‘

[Al Jazeera English]

یونیسیف (UNICEF)کے مطابق غزہ میں ۳۰ مئی تک ۵۰ ہزار بچے بھوک یا اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ غزہ میں جاری بمباری، تباہی و بربادی اور قتل عام سے جس انسانی بحران نے جنم لیا ہے اس نے پوری دنیا کے لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ لیکن اس پوری دنیا پر جن ایک فیصد طبقے کی اجارہ داری ہے، ان کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں، اس لیے انہیں لاکھوں مسلمانوں کے قتل کر دیے جانے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔

پاکستانی اخبارات بھی دنیا بھر کے میڈیا کی طرح غزہ کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے دو اقتباسات ملاحظہ ہوں:

سنو دنیا والو! غزہ کے بچے مر رہے ہیں | ناصر ادیب

’’ اکتوبر 202۳ء سے اب تک سترہ ہزار بچوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ ان معصوموں کو کیوں مارا جا رہا ہے۔ تیرہ مئی کی خبر تھی کہ ستاون بچے ایک ہی دن میں بھوک سے مر گئے۔ آپ نے بھی پڑھا اور گزر گئے۔ کیوں کہ ہم ایسی خبریں پڑھ یا سن کر بھی اپنے بچوں کی خاطر جینا چاہتے ہیں۔ غزہ کے نو لاکھ تیس ہزار بچے خوراک کی اس قدر کمی کا شکار ہیں کہ موت کے دہانے پہ کھڑے ہیں۔ غزہ میں مرنے کا مطلب ہم اور آپ نہیں سمجھتے۔

غزہ کے شاعر ابوطحہ سے ایک بار الجزیرہ نے پوچھا کہ غزہ میں زندگی کیسی ہے ؟ ان کا کہنا تھا ’اگر آپ غزہ میں رہتے ہیں تو آپ روز مرتے ہیں۔ آپ ایئر سٹرائیک میں مر سکتے تھے مگر نصیب سے بچ گئے۔ اپنے خاندان کے لوگوں کو مرتے دیکھنا بھی ایک طرح کی موت ہے، اپنی امید کھو دینا بھی موت ہے، ہر رات ہمارے لیے ایک نئی زندگی ہوتی ہے۔ ہم سونے جاتے ہیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اگلی صبح نصیب والوں کو ہی ملے گی۔ اس لیے ہم یہاں کئی بار مرتے ہیں اور ہر روز خود کو مرنے والوں کی گنتی میں شمار کرتے ہیں‘۔

ایک دو نہیں چودہ ہزار بچوں کی اگلے اڑتالیس گھنٹے میں بھوک سے مرنے کی وارننگ آئی ہے۔ اقوام متحدہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے مگر بچوں سے بھری اس دنیا میں کسی کے گھر شور نہیں۔ کسی لیڈر کا ضمیر نہیں جاگ رہا کہ وہ آگے بڑھے اور بمباری رکوائے۔ مذمت تو سب ہی کرتے ہیں، مدد کوئی نہیں کرتا۔ سب طاقتور اسی ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں جو کئی سالوں سے مسلسل بم برسا رہا ہے۔ ایک اسرائیلی سابق جنرل کا کہنا ہے کہ’’ہم ایک ایسی صبح دیکھنا چاہتے ہیں جب غزہ کی پٹی پہ رہنے والے فلسطینی ختم ہو جائیں‘‘۔ یہ اس ملک کا فوجی جنرل ہے جو اب مشغلے کی طرح بچوں پہ بم برسا رہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے چیف ٹام فلیچر بتاتے ہیں کہ ’’ہمیں غزہ کی پٹی پہ امدادی سامان کی فوری ضرورت ہے ورنہ لاکھوں لوگوں کی موت کا خطرہ ہے‘‘۔ اقوام متحدہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ صورت حال ان کے کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔ بچوں کو مرتے دیکھنا کس قدر خوفناک ہو گا۔

امریکی صدر پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر کروا سکتے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ رکوانے کے لیے پیوٹن سے دو گھنٹے تک بات کر سکتے ہیں۔ مگر غزہ کے بچوں کا قتل عام رکوانے کے لیے نیتن یاہو سے بات نہیں کریں گے۔ ایسا کیا ہے کہ پوری دنیا کی سفارت کاری مل کر بھی کئی لاکھ بچوں کو مرنے سے بچا نہیں سکتی۔

اگر اب بھی اقوام متحدہ کی کال پر عالمی ضمیر نہ جاگا تو تاریخ اس زمانے کو انسانی حقوق کے حوالے سے بدترین دور لکھے گی۔ جس میں معصوم بچوں کاقتل عام رکوانے کے لیے کسی نے کوئی کوشش نہ کی۔ تمام دنیا کے دساتیر اور متفقہ چارٹروں سے بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کے باب ختم کر دینے چاہئیں اور ان کی جگہ بچوں کو قتل کرنے والی ظالم ریاست سے دنیا بھر کی دوستی کے قصے لکھے جائیں۔ غزہ کے معصوم بچے خدا اور تاریخ کو اپنی کہانی خود سنا لیں گے۔‘‘

[روزنامہ ۹۲ نیوز]

اجتماعی عذاب کے آثار! | محمد عرفان ندیم

’’ اگر آج فلسطین میں بہنے والے خون پر دنیا خاموش ہے تو بعید نہیں کل یہی خون عالمی ضمیر کی بنیادوں کو بہا لے جائے۔ اللہ کی سنت ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے اور انصاف کرنے والے خاموش ہو جائیں تو پھر زمین چیختی ہے، آسمان گرجتا ہے اور فطرت وہ توازن کھو دیتی ہے جس پر یہ نظام قائم ہے۔ یہ زمین جس پر ہم بستے ہیں، یہ فضا جس میں ہم سانس لیتے ہیں اور یہ کائنات جس سے ہم فیض یاب ہوتے ہیں سب اللہ کی امانت اور اس کے حکم کی پابند ہے۔ جب انسان ظلم کے خلاف بولنا چھوڑ دے، جب ضمیر پر مفادات غالب آ جائیں، جب قومیں طاقتوروں کو خوش کرنے کے لیے خاموش ہو جائیں تو تاریخ گواہ ہے کہ یہ زمینی کرہ اللہ کے غضب کا شکار ہوتا ہے۔

یہ غضب زلزلوں کی صورت میں بھی آ سکتا ہے، قحط، وبا، سیلاب، عالمی جنگ، اخلاقی انہدام اور مکمل تمدنی زوال کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ اللہ کی یہ بھی سنت ہے کہ جب عذاب آتا ہے تو وہ صرف مجرموں کو نہیں پکڑتا بلکہ سب اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ قدرت کے نظام میں دیر تو ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔ یہ زمین جس پر ہم بستے ہیں کسی قوم یا ملک کی ملکیت نہیں بلکہ ایک امانت ہے جو انصاف، عدل اور انسانیت کی بنیاد پر قائم ہے۔ جب یہ بنیادیں ہلا دی جائیں تو پھر زلزلے، وبائیں، جنگیں اور تمدنی زوال جیسے مظاہر سامنے آتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اجتماعی غفلت، ظلم پر خاموشی اور مفادات کی سیاست کا انجام بالآخر وسیع تباہی کی صورت میں نکلتا ہے اور وہ تباہی نہ قوم دیکھتی ہے، نہ سرحدیں، نہ مذہب اور نہ ہی نسل۔‘‘

[روزنامہ نئی بات]

جنگ بندی اور امداد کی ترسیل کے لیے حماس کی کوششیں

گزشتہ مہینے حماس کی جانب سے امریکی یہودی کی خیر سگالی کی بنیاد پر رہائی کے بعد امید تھی کہ جنگ بندی کے لیے امریکہ اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لائے گا۔ امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ میں خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف (Steve Witkoff)نے اسرائیل کی مفاہمت سے ایک عارضی جنگ بندی کا منصوبہ ترتیب دیا تاکہ حماس کے پاس موجود اپنے قیدیوں کو آزاد کروا لیں۔ اس منصوبے کی تفصیلات میڈیا پر شئیر نہیں کی گئیں لیکن یہ منصوبہ حماس کو بھجوایا گیا۔ جس پر بہت غور و خوض اور دیگر جہادی تنظیموں سے مشاورت کے بعد حماس نے کچھ رد و بدل کے ساتھ اس منصوبے کو واپس وٹکوف کو بھیجا جن میں بڑی شرائط جو موجود نہیں تھیں رکھی گئیں:

  1. مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی قابض فوج کا غزہ سے مکمل انخلا

  2. بغیر روک ٹوک کے غزہ میں امدادی سامان کی اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ترسیل

  3. دس اسرائیلی قیدیوں کو جن میں سے ۵ کو معاہدے کے شروع میں اور ۵ کو آخری دن رہا کیا جائے گا اور ان کے بدلے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کروایا جائے گا۔

  4. ۶۰ روزہ جنگ بندی کے آخر تک مکمل جنگ بندی کر دی جائے گی۔

حماس کی ان شرائط کو وٹکوف نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ حماس کی پیش کردہ شرائط ناقابل قبول ہیں۔

مڈل ایسٹ مانیٹر پر غزہ کے صحافی معتصم اے دلاؤل اس سیز فائر منصوبے سے متعلق لکھتے ہیں:

Israel seeks ceasefire that ensures release of its prisoners but retain Gaza genocide | Motasem A Dalloul

’’نیتن یاہو نے حماس کے جائز تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے اس گروپ پر ’انکار پسندی‘ کا الزام لگایا ہے اور یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کو شکست دینے کے وہی بار بار دہرائے جانے والے بیانات دیے، وہ بیانات جوبڑے پیمانے پر منافقانہ ہونے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

نیتن یاہو اس بات کو نظر انداز کرتا ہے کہ حماس نے بارہا تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی پیشکش کی ہے بشرطیکہ نسل کشی کا مستقل خاتمہ ہو۔ اسرائیلی نقطہ نظر کا خلاصہ درج ذیل انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے:

  • ۶۰ دن کے لیے نسل کشی روک دی جائے۔

  • تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جائے۔

  • قتلِ عام اور نسلی تطہیر دوبارہ شروع کر دی جائے۔

اسرائیل کا مؤقف نہ صرف نا معقول ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی اس کا کوئی دفاع نہیں کر سکتا۔ عالمی رہنماؤں کا اسرائیل کو ہتھیار اور سیاسی حمایت فراہم کرتے رہنا، ساتھ میں ۵۸ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کرنا، لیکن اسرائیلی جیلوں میں قید ۱۴ ہزار فلسطینیوں کو یکسر نظر انداز کر دینا، جن میں بہت سے خفیہ قبرستانوں میں دفن ہو چکے ہیں، ایک عالمی سطح کی شرمناک صورتحال ہے۔

ان کی نیم دلانہ مذمت اور انسانی امداد کے کھوکھلے دعووں کے بعد عمل کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ اس ظلم کو نسل کشی کا نام دینے سے بھی انکاری ہیں،۔ اس کےے بجائے، وہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیل کی بقاء کو ایک ایسی مزاحمتی تحریک سے خطرہ ظاہر کرتے ہیں جو غیر قانونی قبضے کے خلاف سادہ ہتھیاروں سے لڑ رہی ہے۔

حماس کا مطالبہ، نسل کشی کے خاتمے کا، صرف اس تحریک تک محدود نہیں۔ یہ ہر فلسطینی اور دنیا کے ہر باضمیر شخص کا مطالبہ ہے۔‘‘

[Middle East Monitor]

جس طرح غزہ میں نیتن یاہو نے غزہ سے مسلمانوں کا مکمل صفایا کرنے اور غزہ کی سرزمین پر مکمل قبضہ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے، اس متعلق وسعت اللہ خان سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کے لیےلکھتے ہیں:

اگلے مرحلے کی مذمت تیار رکھیں | وسعت اللہ خان

’’گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج نے غزہ کو مکمل فتح کرنے اور وہاں کی آبادی کو ختم کرنے یا جلاوطنی پر مجبور کرنے کے لیے ’’ گیدون چیریٹ ‘‘ کے نام سے فیصلہ کن آپریشن شروع کیا۔

منصوبے کے مطابق غزہ کی تمام آبادی کو جنوبی کونے میں جمع کیا جا رہا ہے۔ انہیں براہ راست خوراک تقسیم کرنے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے تاکہ عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے کہ اسرائیل غزہ کے انسانوں کو بھوکا نہیں مار رہا۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں ’’ رضاکارانہ ‘‘ ہجرت کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔ جو فلسطینی مختص علاقے کے سوا غزہ کے کسی بھی مقام پر پائے گئے ان سے دشمن سمجھ کے نمٹا جا رہا ہے۔ اس میں بوڑھے ، بچے ، خاتون کی کوئی تمیز نہیں۔

آپریشن ’ گیدون چیریٹ‘ کے نام سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں سے وہی سلوک کیا جا رہا ہے جو تورات کی روایت کے مطابق نبی ساؤل نے جزیرہ نما سینا میں رہنے والے دشمن قبیلے امالک سے کیا تھا۔ یعنی کوئی درخت ، کوئی جانور ، کوئی انسان رحم کے قابل نہیں۔

……ستائیس مئی کو غزہ میں نسل کشی کے عمل کو چھ سو دن مکمل ہو گئے۔ روزنامہ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ان چھ سو دنوں میں امریکی مال بردار طیاروں کی اسلحے اور گولہ بارود سے لدی آٹھ سو پروازیں اسرائیل میں اتریں تاکہ نسل کش فوجی مہم متاثر نہ ہو۔

آخر کو اسرائیل غزہ کے ساتھ وہی کر رہا ہے جو سابقہ اور موجودہ امریکی حکومت کی خواہش ہے۔ تو پھر امریکہ کیوں نہ بروقت ایک ایک گولے ، بم اور میزائیل کی کمی ہونے دے۔ غزہ کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد اگلا منصوبہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنا ہے۔ دو روز قبل ہی اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے پر بائیس نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔

اس کے بعد مسجدِ اقصیٰ کمپاؤنڈ کے نیچے آثارِ قدیمہ کی تلاش کے بہانے سرنگیں کھودنے کے پروجیکٹ کی تیز رفتار تکمیل کا منصوبہ ہے تاکہ مسجد کی بنیادیں اتنی کمزور ہو جائیں کہ عمارت ایک دن خود بخود اچانک ڈھے جائے۔ یوں اس مقام پر یہودیوں کا مقدس تھرڈ ٹمپل ڈیڑھ ہزار برس کے وقفے سے ظہور میں آ سکے۔

مسلمان ممالک اگلے دونوں مرحلوں کے لیے کاغذی مذمت کا مسودہ پہلے سے لکھ رکھیں۔ ویسے سیکڑوں پرانے مسودوں میں نام اور تاریخ بدلنے سے بھی کام چل جائے گا۔‘‘

[روزنامہ ایکسپریس]

غزہ کی صورتحال مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور پوری انسانیت کے لیے بالعموم ایک لٹمس ٹیسٹ (Litmus Test)2ہے۔ ہر روز شہید ہوتے بچوں بوڑھوں اور جوانوں کی زندگیاں صرف تعداد اور اعداد و شمار نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے ہر ایک کی زندگی کی کہانی منفرد ہے، چاہے وہ ڈاکٹر آلاء نجار ہوں کہ غزہ کے بچوں کو بچاتے بچاتے ان کے اپنے بچے اور شوہر شہید ہو گئے، چاہے وہ چھوٹی سی بچی ہند رجب ہو کہ جو اپنے خاندان سمیت شہید کر دی گئی جبکہ اسے بچانے آنے والے بھی ایمبولینس میں شہید کر دیے گئے۔ چاہے وہ نرم دل و شفیق خالد نبہان ہوں جن کی اپنی ایک داستان ہے، چاہے وہ معصوم سی بچی ورد ہو جو آگ سے گزر کر صرف اکیلی ہے بچ سکی اور بتانے لگی کہ میرے ماں باپ اور بہن بھائی اس آگ میں شہید ہو گئے۔ وہ ہزاروں بچے جو ان وحشت ناک حملوں میں بچ تو گئے لیکن اپنے جسمانی اعضاء سے محروم ہو گئے اور ان کے مستقبل کے خواب ان سے چھن گئے۔ یہ بچے صرف اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ ان میں سے ایک ایک کی زندگیاں مقدس و محترم تھیں۔ ان کے اپنے خواب تھے جنہوں نے زندہ رہ کر امت کا سرمایہ بننا تھا۔ لیکن ناپاک اسرائیلی منصوبوں کو پورا کرنے کے لیے ہماری آنکھوں کے سامنے خون کی یہ ہولی کھیلی جا رہی ہے اور ہمارے طاقتور خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ صہیونی ناجائز ریاست نے مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے ۲۲ نئی آبادکاریاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن کوئی ہیں جو اسے روک سکے؟ اسے کٹہرے میں کھڑا کر سکے؟ اٹھنے والے ان ۱۲ لوگوں کو دیکھ کر ہی کچھ شرم کر لیں جو فریڈم فلوٹیلا کا بحری جہاز خوراک اور بنیادی طبی امداد لے کر اپنی قسمت سے بے خوف غزہ کے ساحل کی طرف رواں دواں ہے کہ اب تو ان سے بھی بیٹھ کر یہ ظلم دیکھا نہیں جا رہا۔

اے ہمارے رب! ہمیں توفیق دے اپنے غزہ کو بچانے کی۔ اپنی مسجد اقصیٰ کو آزاد کروانے کی اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے! (آمین)

٭٭٭٭٭

1 بعد میں صدرِ مملکت کی طرف سے دستخط کے نتیجے میں یہ بل باقاعدہ قانون بنا دیا گیاہے۔

2 لٹمس ٹیسٹ (Litmus Test) ایک کیمیائی ٹیسٹ ہے جہاں لٹمس پیپر کے رنگ کی تبدیلی کی خاصیت فوری طور پر معلوم ہو جاتی ہے۔ بطور محاورہ اس کا مطلب ہے کسی کی صداقت یا نوعیت جانچنے کے لیے ایک فیصلہ کن معیار یا ٹیسٹ۔

Previous Post

مذمت اپنی جگہ دھندہ اپنی جگہ

Next Post

خیالات کا ماہنامچہ | جون ۲۰۲۵ء

Related Posts

علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
عالمی منظر نامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

17 اگست 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء

16 اگست 2025
خیالات کا ماہنامچہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

14 اگست 2025
اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل
عالمی منظر نامہ

اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل

14 جولائی 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

13 جولائی 2025
Next Post
خیالات کا ماہنامچہ | جون ۲۰۲۵ء

خیالات کا ماہنامچہ | جون ۲۰۲۵ء

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version