بچپن میں ہم سنا کرتے تھے کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔ مہمان کے آنے سے پہلے ہم یہ ہی سوچتے تھے کہ کہیں کھانا کم نہ پڑ جائے لیکن ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ہمیں مہمان اور برکت کے معنی سمجھ آنے لگے ۔
ہمارے کچھ بھائی بھی مہمان بن کے ہمارے گھر آئے تھے ۔ آج سے کوئی چالیس سال قبل افغانستان اور سویت یونین کے مابین جنگ کے بعد جب لاکھوں افغان مہاجرین افغانستان چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوئے تو پاکستان کے پاس افغان مہاجرین کو رہائش دینے کا کوئی باقاعدہ منصوبہ موجود نہیں تھا۔۲۰۲۱ء میں جرنل آف ہیومینیٹیز، سوشل اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق اسّی کی دہائی میں جب لاکھوں کی تعداد میں یہ مہاجرین یہاں منتقل ہوئے تو اس وقت مہاجرین کیمپ نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ شہری علاقوں اور آبادیوں میں کرائے کے مکانوں میں رہنا شروع ہوگئے۔ اس وقت سے اب تک افغان مہاجرین کی قلیل تعداد نے کیمپوں میں رہائش اختیار کی، زیادہ تر افغانوں نے مقامی آبادی کا رخ کیا جس میں اکثریت پشاور میں آباد ہوئی۔
اسی طرح شہری علاقوں کے ساتھ وہ افغان مہاجرین جو معاشی طور پر کمزور تھے انہوں نے دیہی علاقوں کا رخ کیا ، کیونکہ وہاں شہری علاقوں کے مقابلے میں کرائے کم تھے اور یا زیادہ تر دیہی علاقوں میں وہ کسی کے گھر میں مفت رہ کر مالک مکان کے لیے کام کرتے تھے ۔
یو این ایچ سی آر کے جون ۲۰۲۳ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تیرا لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین آباد ہیں جن میں ساتھ لاکھ کے قریب پشاور ، تین لاکھ بلوچستان جبکہ باقی ملک کے دیگر شہروں میں آباد ہیں ۔ تاہم رجسٹرڈ کے علاوہ افغان سیٹیزن کارڈ ( یہ کارڈ آنے والے افغان مہاجرین کو دوہزار سترہ میں نادرا کی جانب سے جاری کیا گیا تھا ) رکھنے والے مہاجرین کی تعداد چار لاکھ تک ہے ۔ تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً سترہ لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں جن کے پاس رہائشی اسناد موجود ہیں ۔
وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان میں تقریباً سترہ لاکھ تک افغان مہاجرین غیرقانونی طور پر پاکستان میں آباد ہیں جنہیں یکم نومبر تک رضا کارانہ طور پر پاکستان سے جانے کا کہا گیا تھا ۔ اس ڈیڈ لائن کے ختم ہونے پر اب مہاجرین کے خلاف مختلف علاقوں میں آپریشن شروع کردیے گئے اور ایک ماہ میں محکمہ داخلہ خیبر پختون خواہ کے مطابق طورخم کے راستے دو لاکھ پچیس ہزار سے زائد افغان مہاجرین پاکستان چھوڑ کر افغانستان واپس چلے گئے ۔
تاہم دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جنگوں کی نذر ہونے والے وطن میں واپسی پر یہ مہاجرین کس حال میں ہیں؟ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مہمان کے ساتھ ایسا سلوک رکھا جاتا ہے؟ کیا ہم نے امریکہ کا ساتھ دےکر ان افغانوں کو اپنے ملک سے ہجرت پر مجبور نہیں کیا تھا اور کیا ہم اب دوبارہ ان کو اس طرح بے دخل کر کے اپنا دشمن نہیں بنا رہے؟ آخر ہم کب تک اپنے مسلمانوں کے خلاف آپریشن کرتے رہیں گے؟ یہ وہ ہی غیرت مند افغان ہیں جنہوں نے روس اور پھر امریکہ کو اللہ کی مدد سے یہاں سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہ ممالک افغانستان کے بعد پاکستان پر حملہ کرنا چاہتے تھے، انہوں نے اپنے ملک کا ہی نہیں پاکستان کا بھی دفاع کیا۔ اشرف غنی کی حکومت میں یہاں بھارت کا بہت اثرو رسوخ تھا جو پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت خطرناک تھا، لیکن جیسے ہی طالبان نے یہاں حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی تو بھارت کے بہت سے عزائم خاک میں مل گئے یہاں تک کہ مختلف شہروں میں موجود قونصل خانے بند ہو گئے اور وہ اپنے ملک میں جاکر بیٹھ گئے ۔
ہم بات کر رہے تھے افغان مہاجرین کی یہ مہاجر بھائی پاکستان میں اپنے ساتھ کچھ نہیں لا سکے، خالی ہاتھ آئے تھے۔ صرف اللہ کی ذات پر یقین کر کے اپنے گھر بار چھوڑ آئے۔ اور ہم نے کیا کیا؟ ان کو امریکہ کے حوالے کردیا…… آج طالبان کے بہت سے نیک سیرت لوگ جنہوں نے پاکستان کی جیلوں میں قید و بند کی سختیاں جھیلیں، وہ پاکستان سے برابری کی بنیاد پر ملاقات کرتے ہیں ۔
مجھے اپنے بچپن کا وقت یاد ہے، ہمارے گھر کی خواتین بازار بہت کم ہی جاتی تھیں، میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے گھر ایک لالا کو آتے دیکھتا تھا۔ وہ افغانی پگڑی پہنے اپنی کمر پہ کپڑوں کی گٹھڑی لادے آیا کرتا تھا۔ میری دادی اس سے کپڑے خریدا کرتی تھیں۔ اس طرح کچھ وقت بعد لالا سے اچھا تعلق بن گیا اور وہ جو ہمارے خاندان کے دیگر گھرانوں میں بھی جاکر کپڑا بیچا کرتا، وہ ہمیں اب اپنے ہی گھرانے کا حصہ لگنے لگا۔ بہت بے تکلف تھا، ہمارے گھر جب بھی آتا کھانا کھاتا اور تھوڑی دیر سو جاتا۔ بیچارا پورا دن پیدل سفر کرتا گھر گھر جاکے کپڑا بیچتا اور اپنا گھر چلاتا تھا۔ وہ اپنے بچوں کے لیے حلال روزی کمانے کی کوشش کررہا تھا ، جبکہ ہم اس وقت اپنے پکے گھروں میں رہتے تھے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ہمیں کچھ خبر نہ تھی لیکن یہ بیچارے اپنا سب کچھ لٹا کر در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ ان کے پاس لٹانے کو اب کچھ بچا بھی نہ تھا سوائے دین کے، جس پہ انہوں نے آنچ بھی نہیں آنے دی۔ اللہ رب العزت ان کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین ۔
بچپن میں جو افغانوں کی سادگی میں نے دیکھی تھی وہ اتنے سالوں بعد ایک سفرِ افغانستان میں دیکھ کے مجھے وہ لالا یاد آگیا کے جسکی سادگی کا اثر یہاں بھی ملا ۔
افغان قوم نے جو قربانی دین کے لیے دی ہے اسکی وجہ سے آج امت مسلمہ کے مسلمان سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوئے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کے بعد یہ اسلام کو بہت بڑی فتح حاصل ہوئی لیکن افسوس باقی اسلامی دنیا اسے صرف ایک ملک کی فتح سمجھتی ہے، یہ افغان طالبان اور افغان قوم کے ساتھ اور ان کی قربانیوں کے ساتھ بہت بھونڈا مذاق ہے۔ آج دنیا کی تمام جہادی تنظیمیں اور گروہ طالبان اور افغان قوم کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو جینے کا ڈھنگ سکھا دیا۔
آخر میں پاکستان کی حکومت اور عوام سے بس اتنا ہی کہوں گا کہ گھر آئے مہمان کی عزت کریں، کہیں کل آپ کو بھی کسی کے گھر مہمان نہ بننا پڑجائے …… دعا ہے کہ اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمادے اور ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔
٭٭٭٭٭