دین اسلام کے پانچ ارکان ہیں……
- کلمہ توحید
- نماز
- روزہ
- زکوۃ
- حج
مندرجہ بالا ارکان اللہ کی طرف سے مقرر ہیں اور ان میں چوں چراں کی کوئی گنجائش نہیں
اسی طرح جمہوریت کے ارکان بھی پانچ ہیں۔
- مطلق مساوات
- رائے کی حیثیت یکساں
- عہدے کی طلب
- قوم کو جماعتوں میں تقسیم کرنا
- حتمی فیصلہ اکثریت کے حوالے
ان میں سے کوئی بھی رکن نکال دو تو جمہوریت نہیں چلے گی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک بھی رکن اسلام کو قبول نہیں۔
مطلق مساوات
مطلق مساوات کی اسلام میں کوئی اجازت نہیں۔
قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْث(المآئدہ:100)
کہہ دو کہ خبیث اور طیب کبھی برابر نہیں ہو سکتے چاہے خبیث کی کثرت تمہیں تعجب میں ہی کیوں نہ ڈال دے۔
رائے کی حیثیت یکساں
اسلام میں عالم و جاہل کی رائے برابر نہیں ہوتی اس لیے رائے کی یکساں حیثیت کی اسلام میں اجازت نہیں۔
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ (الزمر: ۹)
کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟
اس کے برعکس جمہوریت میں عالم و جاہل کا ووٹ برابر ہوتا ہے ۔
عہدے کی طلب
اس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
لَنْ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ
ہم طلب کرنے والے کو کبھی عہدہ نہیں دیتے۔ (صحیح بخاری)
إِنَّ أَخْوَنَكُمْ عِنْدِي مَنْ يَطْلُبُهُ
تم میں سے سب سے بڑا خائن وہ ہے جو کسی عہدے کا طلبگار ہو۔ (مسنداحمد)
قوم کو جماعتوں میں تقسیم کرنا
جمہوریت میں قوم کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ اسلام میں جماعتوں اور فرقوں میں بٹنے سے منع کیا گیا ہے۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران: 103)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور آپس میں ٹکڑیوں میں مت بٹو۔
حتمی فیصلہ اکثریت کے حوالے
جمہوریت اکثریت کی رائے کو ترجیح دیتی ہے جبکہ اسلام اکثریت کی رائے پر چلنے سے روکتا ہے۔
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ (الانعام: 116)
اگر آپ زمین پر رہنے والوں کی اکثریت کی بات مانیں گے تو وہ آپ کو اللہ کے راستے سے ہٹا دیں گے۔
جمہوریت میں مختلف پارٹیوں کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے، جب ہی تو مقابلہ ہوتا ہے، ورنہ مقابلہ کس بات کا؟ موجودہ دور میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح مسلمان پارٹیوں میں بٹ چکے ہیں۔ عام و خواص سب مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہیں۔ کوئی ایک پارٹی کا حصہ ہے تو کوئی دوسری پارٹی کا۔ کوئی ایک پارٹی کو قرآن و حدیث سے سچا اور حق ثابت کررہا ہے تو کوئی دوسری پارٹی کو۔ یہاں تک کہ ایک جاہل تو اس حد جا پہنچا کہ اس نے کہا نبی ﷺ میرے خواب میں آئے اور وہ میری پارٹی کے سربراہ کی شکل میں تھے، نعوذ باللہ !
جمہوریت، الیکشن، ووٹ
جن چیزوں کا اسلام سے دور کا واسطہ نہیں انہیں عین اسلام ثابت کرنے کے لیے کیسی کیسی چالیں چلی جاتی ہیں۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ پارٹیوں کے سربراہ جو گھٹیا ترین انسان ہیں، زانی ہیں، شرابی ہیں، مسلمانوں کے اموال کے لٹیرے ہیں، ملک دشمن ہیں، اسلام دشمن ہیں، کافروں کے دوست ہیں، جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دینے والے اور اس پر فخر بھی محسوس کرنے والے ہیں، اور یہ سب گناہ وہ کوئی چھپ کر نہیں کرتے بلکہ کیمرے کے سامنے ساری قوم کو دکھا کر کرتے ہیں، پھر بھی کسی کو سمجھ نہیں آتی پھر بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویریں بنوانا اپنے لیے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔
اس جمہوریت میں اہلِ معصیت کو عزت دی جاتی ہے، حالانکہ شریعت میں کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کو عزت دینے سے منع کیا گیا ہے ۔ یہ بدبخت الیکشن میں پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں اور پھر اقتدار میں آکر اس سے کئی گنا زیادہ ملکی خزانے سے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ غریب آدمی روٹی ایک ایک لقمے کو ترس رہا ہوتا ہے اور ان کے کتے بھی عیاشیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جو بھی اقتدار میں آیا اس نے پاکستان کو ہی لوٹا۔ یہ بدبخت اسلام کے دشمن تو ہیں ہی، یہ پاکستان کے وفادار بھی کبھی نہیں رہے، ملک دشمن بھی ہیں، عوام دشمن بھی ہیں، عوام کی عزتوں کے لٹیرے بھی ہیں اورعوام کے مال سے ان کی عزت سے کھلواڑ کرتے ہیں۔
اس دجالی نظام اور الیکشن کے ذریعے پورے معاشرے میں دھوکہ اور جھوٹ عام ہو جاتا ہے۔ ووٹ تو کسی ایک کو دینا ہوتا ہے لیکن وعدہ ہر کسی سے کرنا پڑتا ہے۔عوام سیاسی رہنماؤں سے ان کو ووٹ دینے کے جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور سیاسی رہنما جھوٹ بول کر دھوکہ دے کر عوام کو خیالی سبز باغ دکھاتے ہیں۔ پاکستان میں الیکشن نے ملک کو آج تک کیا فائدہ دیا؟ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک الیکشن نے پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ ایک تو اربوں روپے الیکشن کروانے پر خرچ ہوتے ہیں، جبکہ یہی پیسے اگر پاکستان میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیے جاتے تو کتنا فائدہ ہوگا۔ دوسرا ہر اسمبلی ممبر کروڑوں روپے الیکشن کیمپین پر لگاتا ہے، فضول خرچی انتہائی زیادہ ہوتی ہے اور پھر وہ جتنا خرچہ کرتا ہے اس سے کئی گناہ زیادہ لوٹتا بھی ہے۔ اگر وہ کسی محکمے کا وزیر بن جائے تو محکمے میں اپنے بندے بھرتی کرتا ہے اور پھر دونوں مل کر خوب کرپشن کرتے ہیں۔
پاکستان کو جتنا اس جمہوری نظام اور الیکشن نے نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی اور چیز نے نقصان نہیں پہنچایا۔ جتنی لوٹ کھسوٹ ہے وہ اس الیکشن کی وجہ سے ہے، جو آتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ بس پانچ سال ہیں جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لو۔ جتنے کرپٹ لوگ بھرتی ہوتے ہیں اور پھر وہ جو پاکستان کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ بھی سارا انہیں الیکشن کا ثمرہ ہے۔
پاکستان میں جتنے تعمیراتی کام ہوتے ہیں ان کے ٹھیکے ان وزیروں اور ایم این ایز کے ذریعے سے حاصل ہوتے ہیں اور ان ٹھیکوں میں وزیر اپنا بھاری کمیشن رکھتے ہیں اور کروڑوں روپے کے گھپلے کرتے ہیں، جس کی وجہ غیر معیاری تعمیرات کی جاتی ہیں جو کچھ ہی عرصہ بعد خراب ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں جتنے فساد ات ہوتے ہیں ان کے پیچھے زیادہ تر وجہ یہی الیکشن ہی بنتا ہے۔ بھائی بھائی ایک دوسرے سے جدا ہوئے، باپ بیٹا الگ ہوگئے۔ ایک بھائی ایک پارٹی میں تو دوسرا دوسری پارٹی میں، دونوں میں لڑائی۔ پاکستان کا جتنا پیسہ چوری ہوا وہ انہی الیکشن سے اوپر آنے والے سیاست دانوں نے چوری کیا، جنہوں نے یہ مال اپنے بیرون ملک اکاؤنٹس میں منتقل کر دیا۔
اس نظام میں غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں، چلتی ہے تو جاگیرداروں، وڈیروں اور چودھریوں کی۔ جس جاگیردار، جس چودھری، جس نمبردار اور جس وڈیرے کے پاس ووٹ زیادہ ہوں گے اسی کی سنی جائےگی۔ تھانے دار بھی ان سے پوچھ کر مقدمہ درج کرے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غریبوں کا حق کھاتے ہیں اور ا ن کی زمینیں ہڑپ کر جاتے ہیں ۔
ایک ممبر جو ( ایم ۔ پی۔ اے) کا الیکشن لڑ رہا تھا، اس کےساتھ کسی گھر میں ملاقات ہوئی تو وہ پانی کا گلاس ایک ہاتھ سے منہ تک نہیں لے جا پا رہا تھا، دونوں ہاتھوں سے اس نے کانپتے ہوئے پانی پیا۔ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ شراب پی پی کر موصوف کے گردے ختم ہو چکے ہیں۔ یہ باتیں عوام سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ صرف چہرے بدلنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ عوام سمجھتی ہے کہ ایک خراب ہے تو دوسری کو لے آؤ ۔ نواز شریف، زرداری چور ہیں تو عمران خان کو لے آؤ ۔ عوام نے یہ بھی دیکھ لیا کہ وہ جس کو لانا چاہتے ہیں وہ اپنی مرضی سے اسے لانے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ درحقیقت مسئلہ اس نظام کا ہے، یہ نظام ہی غلط ہے، اس نظام کو ہی بدلنا ہوگا۔ جب تک دین فطرت اسلامی نظام نہیں لائیں گے تب تک یہ فساد ختم نہیں ہو گا۔ پاکستانی مسلمان بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس فسادی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہو جائیں۔ اس راستے میں اگر آپ کی جان بھی چلی گئی تو ان شاء اللہ شہادت کی موت ہوگی جس پر اللہ رب العزت نے جنت کی بشارتیں دیں ہیں۔ آخر میں میں حدیث بیان کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں ۔
وَإِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَی بِهِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَی اللَّهِ وَعَدَلَ فَإِنَّ لَهُ بِذَلِکَ أَجْرًا وَإِنْ قَالَ بِغَيْرِهِ فَإِنَّ عَلَيْهِ مِنْهُ
’’سنو! امام کی مثال ڈھال جیسی ہے کہ اس کے پیچھے رہ کر اس کی آڑ میں (یعنی اس کے ساتھ ہو کر) جنگ کی جاتی ہے۔ اور اسی کے ذریعہ (دشمن کے حملہ سے) بچا جاتا ہے، پس اگر امام تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دے اور انصاف کرے اس کا ثواب اسے ملے گا، لیکن اگر بےانصافی کرے گا تو اس کا وبال اس پر ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری)
نیک حکمران قوموں اور ملکوں کے لیے خیر اور برکت کا باعث ثابت ہوتے ہیں ۔ ان کی وجہ سے اللہ قوموں ملکوں اور خطوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتے ہیں۔
مگر جہاں ظلم ہو فساد ہو ، ڈاکہ زنی ہو ، زنا عام ہو ۔ لوگ اللہ رب العزت کو چھوڑ کر اپنے لیڈروں اور اپنے وڈیروں کی پوجا کرتے ہوں، اللہ کے دین کو چھوڑ کر اپنےلیڈروں کی باتوں کو ترجیح دیتے ہوں ، وہاں پھر اللہ کا عذاب ، قحط سالی، سیلاب اور زلزلوں کی صورت میں آتا ہے ۔
پاکستان میں جو اتنی مہنگائی ہے یہ اللہ کا عذاب نہیں تو اور کیا ہے؟ اس لیے ہمیں اللہ رب العزت سے توبہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
اللہ ہم سب کے گناہ معاف فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭