اس دفعہ ہونے والے الیکشن کے حوالے سے تقریباً تمام ہی مبصرین وتجزیہ نگار متفق ہیں کہ فوج پہلے سے فیصلہ کرچکی ہے کہ کسی ایک پارٹی کی مضبوط حکومت بنوانے کے بجائے مخلوط حکومت کا بندوبست کیا جائے۔ اس منصوبے کے نقاط جی ایچ کیو میں کور کمانڈرز کے سامنے پیش کی جانے والی پریزنٹیشن کے لیک ہونے سے بھی منظر عام پر آئے۔ اس بات سے قطع نظر کہ قرعہ کن غلاموں کے نام کا نکلتا ہے، پچھلی دو دہائیوں میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی میدان میں اپنا اثرو رسوخ اور اتھارٹی برقرار رکھنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کیے اس نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو ایک مخصوص انداز پر ترتیب دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جس سیاسی جماعت کو اقتدار دینا چاہتی ہے انہیں مخالفین کی خامیوں، کمزوریوں اور کرپشن کی انٹیلی جنس معلومات دیتی ہے اور وہ اس بارے میں جلسوں میں اور میڈیا پر پوائنٹ سکورنگ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اگر یہ سیاسی مداخلت نہ بھی کرے تب بھی یہ جمہوری نظام کی وہ بنیاد ہے جو سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے مابین خواہ مخواہ کی مخاصمت کی فضا مستقل برقرار رکھنے کے اسباب پیدا کرتی ہے۔ اور یہ مخاصمت الیکشن سے قبل عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ اسکے اثرات معاشرے میں نچلی سطح تک بھی منتقل ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ایک باپ نے اپنے بیٹے کو گھر کی چھت پر دوسری پارٹی کا جھنڈا لگانے کے سبب گولی مار کر قتل کردیا۔
مولانا یوسف لدھیانوی شہید الیکشن کی انہی خرابیوں کے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جواب میں لکھتے ہیں ۔
’’اوّل: سب سے پہلے تو یہی بات اسلام کی رُوح اور اس کے مزاج کے خلاف ہے کہ کوئی شخص مسندِ اقتدار کے لیےلیے اپنے آپ کو پیش کرے، اسلام ان لوگوں کو حکومت کا اہل سمجھتا ہے جو اس کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہوں اور عہدہ و منصب سے اس بنا پر خائف ہوں کہ وہ اس امانت کا حق بھی ادا کرسکیں گے یا نہیں؟ اس کے برعکس موجودہ طریقِ انتخاب، اقتدار کو ایک مقدس امانت قرار دینے کے بجائے حریصانِ اقتدار کا کھلونا بنادیتا ہے، حدیث میں ہے کہ: ’ہم ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیا کرتے جو اس کا طلب گار ہو یا اس کی خواہش رکھتا ہو‘۔ (بخاری و مسلم)
دوم: مروّجہ طریقِ انتخاب میں الیکشن جیتنے کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ اوّل سے آخر تک غلط ہے، رائے عامہ کو متأثر کرنے کے لیے سبز باغ دِکھانا، غلط پروپیگنڈہ، جوڑ توڑ، نعرے بازی، دَھن، دھونس، یہ ساری چیزیں اسلام کی نظر میں ناروا ہیں، اور یہ غلط رَوِش قوم کے اخلاق کو تباہ کرنے کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔
سوم: موجودہ طریقِ انتخاب میں فریقِ مخالف کو نیچا دِکھانے کے لیے اس پر کیچڑ اُچھالنا اور اس کے خلاف نت نئے افسانے تراشنا لازمۂ سیاست سمجھا جاتا ہے، اور تکبر، غیبت، بہتان، مسلمان کی بے آبروئی جیسے اخلاقِ ذمیمہ کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے، افراد و اشخاص اور جماعتوں کے درمیان بغض و منافرت جنم لیتی ہے اور پورے معاشرے میں تلخی، کشیدگی اور بیزاری کا زہر گھل جاتا ہے، یہ ساری چیزیں اسلام کی نظر میں حرام اور قبیح ہیں، کیونکہ ملک و ملت کے انتشار و افتراق کا ذریعہ ہیں۔
چہارم: اس طریقِ انتخاب کو نام تو ’جمہوریت‘ کا دیا جاتا ہے، لیکن واقعتاً جو چیز سامنے آتی ہے وہ جمہوریت نہیں ’جبریت‘ ہے، الیکشن کے پردے میں شر و فتنہ کی جو آگ بھڑکتی ہے، ہلڑبازی، ہنگامہ آرائی، لڑائی جھگڑا، دنگا فساد، مارپٹائی سے آگے بڑھ کر کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، یہ ساری چیزیں اسی جبریت کا شاخسانہ ہے جس کا خوبصورت نام شیطان نے ’جمہوریت‘ رکھ دیا ہے۔
پنجم: ان ساری ناہموار گھاٹیوں کو عبور کرنے کے بعد بھی جمہوریت کا جو مذاق اُڑتا ہے وہ اس طریقِ انتخاب کی بدمذاقی کی دلیل ہے، ہوتا یہ ہے کہ ایک ایک حلقے میں دس دس پہلوانوں کا انتخابی دنگل ہوتا ہے، اور ان میں سے ایک شخص پندرہ فیصد ووٹ لے کر اپنے دُوسرے حریفوں پر برتری حاصل کرلیتا ہے، اور چشمِ بد دُور! یہ صاحب ’جمہور کے نمائندے‘ بن جاتے ہیں۔ یعنی اپنے حلقے کے پچاسی فیصد رائے دہندگان جس شخص کو مسترد کردیں، ہماری جمہوریت صاحبہ اس کو ’نمائندہٴ جمہور‘ کا خطاب دیتی ہے۔
ششم: تمام عقلاء کا مُسلّمہ اُصول ہے کہ کسی معاملے میں صرف اس کے ماہرین سے رائے طلب کی جاتی ہے، لیکن سیاست اور حکمرانی شاید دُنیا کی ایسی ذلیل ترین چیز ہے کہ اس میں ہرکس و ناکس کو مشورہ دینے کا اہل سمجھا جاتا ہے اور ایک بھنگی کی رائے بھی وہی قدر و قیمت اور وزن رکھتی ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی، اور چونکہ عوام ذاتی اور وقتی مسائل سے آگے ملک و ملت کے وسیع ترین مفادات کو نہ سوچ سکتے ہیں اور نہ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے جو شخص رائے عامہ کو ہنگامی و جذباتی نعروں کے ذریعہ گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجائے وہ ملک و ملت کی قسمت کا ناخدا بن بیٹھتا ہے، یہی وہ بنیادی غلطی ہے جسے اِبلیس نے ’سلطانی جمہور‘ کا نام دے کر دُنیا کے دِل و دِماغ پر مسلط کردیا ہے۔ اسلام اس احمقانہ نظریے کا قائل نہیں، وہ انتخابِ حکومت میں اہلِ بصیرت اور اربابِ بست و کشاد کو رائے دہندگی کا اہل سمجھتا ہے۔‘‘ 1
عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَکَلَ بِرَجُلٍ مُسْلِمٍ أَکْلَةً فَإِنَّ اللَّهَ يُطْعِمُهُ مِثْلَهَا مِنْ جَهَنَّمَ وَمَنْ کُسِيَ ثَوْبًا بِرَجُلٍ مُسْلِمٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَکْسُوهُ مِثْلَهُ مِنْ جَهَنَّمَ وَمَنْ قَامَ بِرَجُلٍ مَقَامَ سُمْعَةٍ وَرِيَائٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُومُ بِهِ مَقَامَ سُمْعَةٍ وَرِيَائٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ2
’’ سیدنا مستورد ( مستورد بن شداد (رضی اللہ عنہ)) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ’ جس نے کسی مسلمان کی وجہ سے ایک بھی لقمہ کھایا ہوگا ( اس کی غیبت یا ہتک وغیرہ کر کے کسی سے کوئی عوض لیا ہوگا ) تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے اسی طرح کا لقمہ کھلائے گا ۔ اور جسے کسی مسلمان کی وجہ سے کوئی کپڑا پہنایا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے اسی طرح کا کپڑا پہنائے گا ۔ اور جس نے کسی کی تشہیر کی اور اسے دکھلاوے کے مقام پر پہنچایا ہو ( اس کا چرچا کیا ہو ) تو اللہ قیامت کے روز اس کی تشہیر کرے گا اور دکھلاوے کے مقام پر کھڑا کرے گا ۔‘ ( ایسا عذاب دے گا یا ایسی جگہ عذاب دے گا کہ اس کا سب لوگوں میں چرچا ہوگا ) ۔‘‘
مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم اس حدیث کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’جو شخص دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچا کر شہرت کے مقام تک پہنچے، جیسے بعض لوگ دوسروں کی برائی کرکے اپنی اچھائی ثابت کرتے ہیں،چنانچہ الیکشن کے دوران لوگ یہ کام کرتے ہیں کہ انتخابی جلسوں میں دوسروں کی خرابی بیان کرکے اپنی اچھائی بیان کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کوالله تعالیٰ قیامت کے دن بدنامی کے مقام پر کھڑا کریں گے۔ یہاں دنیا میں تو اس نے شہرت حاصل کر لی، لیکن اس کے نتیجے میں الله تعالیٰ وہاں اس کو بُری شہرت عطا فرمائیں گے اور برسرعام اس کو رسوا کریں گے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے مسلمان کو تکلیف پہنچا کر شہرت کا مقام حاصل کیا ہے۔ اس حدیث سے آپ اندازہ لگائیں کہ کسی کو تکلیف پہنچانا اور اس کے حق کو پامال کرنا کتنا خطرناک کام ہے اور یہ کتنی بری بلا ہے؟ اس لیے میں بار بار یہ عرض کرتا ہوں کہ ہر شخص اپنے برتاؤ اور اپنے طرز عمل میں اس بات کو مدنظر رکھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے کا حق پامال ہو جائے اور پھر قیامت کے روز الله تعالیٰ اس کا حساب ہم سے لیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ ‘‘3
الیکشن اور جمہوری سیاسی نظام کے جن بنیادی مفسدات اور حرام افعال کا تذکرہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے کیا یا مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے دہائیاں قبل کیا یہ تو وہ بنیادی مفسدات ہیں جو جمہوری نظام کا خاصہ ہیں چاہے فوج اور اسٹیبلشمنٹ اس میں اپنا حصہ نہ بھی ڈالے تب بھی ان خرافات کا پھلنا پھولنا ناگزیر ہے۔ لیکن یہ گلا سڑا جمہوری نظام اس وقت پورے معاشرے کے لیے بھیانک صورتحال اختیار کرتا ہے جب فوج و اسٹیبلشمنٹ مغربی مفادات کے تحفظ کو ممکن بنانے کے لیے ملک کے نام نہاد جمہوری سیاسی نظام کو بھی مکمل اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے اور اسے مطلوبہ رخ پر ڈھالنے کے لیے نہ صرف تمام ریاستی وسائل جھونکتی ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے افعال بھی سرانجام دیتی ہے جو کسی مغربی ملک میں بھی نہیں ہوتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مشرف کے اقتدار پر قبضے سے پہلے تک تو فوج نے جوڑ توڑ اور ایک کے بعد ایک کو دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی اپنائی۔ فوج نے سیاسی جماعتوں کی اندرونی سیاست کو یرغمال بنائے رکھا جس کے سبب کرپٹ لیڈر ہی اوپر آسکتے تھے۔ اب ان کرپٹ لیڈروں کو باری باری استعمال کرکے فوج نے یہ ذہن سازی کی کہ اس ملک کے پاس ایماندار قیادت نہیں اور اگر فوج نہ ہو تو یہ سب مل بانٹ کر ملک کھا جائیں۔ اب جب کرپشن بیانیہ پٹ چکا اور سیاستدانوں پر کرپشن کیسز سے انہیں مطلوبہ اہداف حاصل ہونے میں مشکلات پیش آنے لگیں اور ملکی نظام پر انہیں اپنی گرفت ڈھیلی محسوس ہونے لگی تو ان کے شیطانی دماغوں نے ایک نیا فارمولہ ایجاد کیا جس طرح پہلے یہ انہی کے مفاد میں تھا کہ سیاسی جماعتیں کرپٹ افراد کو اوپر لائیں جن کی کرپشن کے مکمل ثبوت ان کے پاس ہوں، اس طرح وہ فوج کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر کبھی جرأت نہیں کریں گے کہ فوج کی پالیسیوں اور لوٹ مار پر لب کشائی کریں بالکل اسی طرح فوج اب کم وقت میں کسی بھی شخصیت کو اپنے تابع بنانے کا اپنا فارمولا استعمال کر رہی ہے کہ اس شخصیت کی کوئی غیراخلاقی ویڈیو ان کے پاس موجود ہو۔ اس مقصد کے حصول میں ملک بھر کے بڑے شہروں میں ہائی کلاس سوسائٹی کے علاقوں میں قحبہ خانے، شراب خانے اور مساج سینٹرز کا نیٹ ورک ان کی زیر نگرانی چل رہا ہے، جہاں آنے والا کوئی جج، سیاستدان، صحافی، بیوروکریٹ یا تاجر ایک دفعہ ویڈیو بنوا بیٹھے تو پھر ساری عمر ہی ان کا غلام رہتا ہے۔ لیکن مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت نہ پہلے فارمولے (کرپشن) میں ہاتھ آتی تھی اور نہ ہی اس فارمولے (غیراخلاقی ویڈیو) میں ہاتھ آسکتی ہے، پھر یہ یقینی بات ہے کہ ایسے افراد فوج و اسٹیبلشمنٹ کی اس طرح تابعداری کرنے سے قاصر رہیں گے جس طرح کرپشن اور ’’ویڈیو زدہ‘‘ افراد تابعداری دکھاسکتے ہیں۔ کرپشن بیانیے کی شیلف لائف تو کافی رہی کہ اسے استعمال کرتے ہوئے فوج و اسٹیبلشمنٹ نے تقریبا ۶۰ سال عوام کو بے وقوف بنالیا لیکن غیراخلاقی ویڈیوز کی بنیاد پر پاکستانی سیاست اور نظام کو یرغمال بنانے کی شیلف لائف تو لگتا ہے دو دہائیوں میں ہی پوری ہورہی ہے۔ پھر اس کے بعد کون سا نیا فارمولا یا ہتھکنڈا ہوگا؟ اور ان ویڈیوز کے دھندے نے پاکستانی معاشرے کی جو بنیادیں ہلا ڈالی ہیں اس کا سدباب کیسے ہوگا؟ آج ویڈیو زدہ سیاسی قیادت کے پیروکاروں کو جب اپنی قیادت، اپنے رہنماؤں کی غیراخلاقی حرکتوں سے فرق نہیں پڑتا تو لازمی بات ہے کہ ان کی اپنی نظر میں بےحیائی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ خود بھی بےحیائی کے مرتکب ہوتے ہوں گے۔
اس سارے سیاسی منظر نامے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ سبھی مذہبی جماعتیں چونکہ خود تو اقتدار حاصل نہیں کرسکتیں اس لیے کسی نہ کسی سیکولر اور دین دشمن جماعت کی اتحادی بنی ہوئی ہیں، جبکہ الیکشن کے موقع پر یہ مذہبی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں، ان کے کارکنان ایک دوسرے کے خلاف ہی زہر اگل رہے ہیں۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے مذہبی سیاسی جماعتوں کی اس گروہی تقسیم سے متعلق چار دہائیاں قبل جو لکھا ایسا لگتا ہے جیسے آج بھی وہی منظر نامہ ہو ۔
’’جو لوگ اس ملک میں دِینی اقتدار کو بلند دیکھنا چاہتے ہیں اور جن سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ لادینیت کے سامنے سینہ سپر ہوں گے، ان کا شیرازہ کچھ اس طرح بکھیر دیا گیا ہے کہ کوئی معجزہ ہی ان کو متحد کرسکتا ہے۔ نہ جانے یہ حضرات حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہوچکے ہیں، یا مسلمانوں کی بدقسمتی نے ان کی دُور اندیشی وژرف نگاہی پر پردے ڈال دیے ہیں، کس قدر افسوس ناک اور لائقِ صد ماتم ہے یہ منظر کہ جن حضرات کے کندھوں پر ملک و ملت کی قیادت و رہنمائی کا بار ہے ان کی نظر سے راہ و رسم منزل اوجھل ہو رہی ہے اور وہ حزبی و گروہی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔‘‘4
باوجود اس کے کہ سب ہی کو معلوم ہے کہ فوج الیکشن پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے تمام مذہبی غیر مذہبی سیاسی جماعتیں وسائل اور پیسے کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی اور پارٹی کی سطح پر ۔ دوسری جانب فوج و اسٹیبلشمنٹ، جو اس کھیل تماشے کی سب سے بڑ ی پلیئر اور اسٹیک ہولڈر ہے، مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے میڈیا اینکرز ، صحافیوں اور سیاستدانوں پر بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کہ منظورِ نظر سیاسی جماعتیں الیکشن کیمپین کے لیے فنڈز جنریٹ کرسکیں، انہیں لوٹ مار و غیرقانونی دھندوں کی چھوٹ مل جاتی ہے، خود فوج کو بھی اس ساری سیاسی انجنیئرنگ کے لیے بے تحاشا فنڈز کی ضرورت پڑتی ہے جو وہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور منشیات کے دھندوں سے جڑے جرائم پیشہ گروہوں کو استعمال کرکے جنریٹ کرتے ہیں۔ یہ سب تو شہری سیاست کے لیے ہوا، رہی دیہی علاقوں کی سیاست تو اس کا تعلق اس جاگیردار ٹولے سے ہے جو فوج کے ایک اشارے پر پارٹیاں بدلتے ہیں اور کسی پارٹی کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کہ یہ جاگیردار ٹولہ اپنے ماتحت رہنے والی دیہی آبادی کو مکمل غلام رکھ سکے، انہیں بھی بہت سے غیرقانونی کاموں کی چھوٹ ملتی ہے۔ بلوچستان کا سردار عبدالرحمٰن کھیتران اس کی ایک واضح مثال ہے، جس کی نجی جیل میں ہونے والے ظلم کا چرچا پورے ملک میں ہوا۔ یہ فرعون صفت افراد جو چاہے ظلم کرسکتے ہیں، انہی کے کہنے سے لوگوں پر جھوٹے کیس بھی بنتے ہیں، انہی کے کہنے پر لوگوں کو کیسوں سے بری بھی کروایا جاتا ہے اور انہی کے کہنے پر خفیہ ادارے لوگوں کو لاپتہ بھی کردیتے ہیں۔ صحیح معنوں میں دیہی علاقوں میں عوام ان چودھریوں اور وڈیروں کے غلام ہیں۔ زمینوں کا مسئلہ ہو، کھیتوں کے لیے پانی کا یا شناختی کارڈ کا، چھوٹے سے چھوٹے کام سے لے کر ہر محکمے کاکام انہی سرداروں کے رحم و کرم اور انہی کے کہنے پر ہوتا ہے۔ یہ اتھارٹی خفیہ ادارواں نے ان سرداروں کو اس لیے دے رکھی ہے تاکہ الیکشن میں لوگ ان سرداروں کے کہنے پر ہی ووٹ دیں۔ یہ جاگیردار ٹولہ ’’الیکٹیبلز‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
صحافی ماجد نظامی لکھتے ہیں:
’’پنجاب میں مسلم لیگ ن کی جاری کردہ ٹکٹوں کے تحقیقی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے زیادہ امیدوار زمیندار ہیں، جبکہ کاروباری دوسرے نمبر پر ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ۶۰ امیدوار زمینداری سے وابستہ ہیں جبکہ ۵۳ امیدواروں کا تعلق کاروباری طبقے سے ہے۔‘‘
پنجاب کی سیاست میں زمینداروں کے حاوی ہونے اور پھر ان کے قومی سیاست پر حاوی ہونے کے پیچھے مکمل تاریخ ہے کہ یہ طبقہ زمیندار اور جاگیردار بنا کیسے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی مقبوضہ ہند سے پندرہ لاکھ فوج گئی جس میں تقریباً ۶ لاکھ تراسی ہزار سے زائد لڑاکا جنگجو تھے۔ اس تعداد کا ۶۰ فیصد پنجاب نے فراہم کیا تھا۔ بھرتی کروانے میں معاونت کرنے والے سرداروں میں زمینیں بانٹی گئیں، فوج میں اعزازی کمیشن دیے گئے اور اعزازی مجسٹریٹ بھی بنائے گئے۔ سرداروں وڈیروں کے علاوہ پیروں اور سجادہ نشینوں نے بھی انگریز کی معاونت کی۔ وہ مریدوں کو فوج میں بھرتی کرواتے اور بطور انعام زمینیں پاتے۔ استاد احمد فاروق اپنی کتاب ’’شیطانی مثلث‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اس سارےعمل کے نتیجے میں ایک نیا جاگیردار طبقہ وجود میں آیا جو پوری طرح تاج برطانیہ کا وفادار تھا، جس نے پنجاب پر فرنگی کی گرفت کو مضبوط کردیا۔ یہی لوگ پنجاب کی دیہی فوجی اشرافیہ کہلائے۔ ان جاگیردار سیاسی خاندانوں کو فوج سے بالکل جدا کوئی الگ طبقہ سمجھنامناسب نہیں۔‘‘
۱۹۲۳ء میں جاگیرداروں اور گدی نشینوں پر مشتمل ایک جماعت یونینیسٹ پارٹی کے نام سے بنی، جس نے ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس وقت مسلم لیگ کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ ان الیکٹیبلز کو شامل کیے بغیر الیکشن میں جیت ملنا ناممکن ہے، اور یہ ہوا بھی۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے جب اس جاگیردار ٹولے کو اپنی صفوں میں شامل کیا تو بھرپور کامیابی حاصل کی۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جاری ہے اور ہر وہ سیاسی جماعت جسے فوج کی حمایت حاصل ہو وہ ان الیکٹیبلز کو بآسانی اپنی پارٹی میں شامل کروالیتی ہے۔
اب ان حالات میں جب یہ واضح ہے کہ فوج و اسٹیبلشمنٹ پچھلے ۷۵ سالوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ قوت کے ساتھ ارداہ کیے ہوئے ہے کہ وہ جنہیں چاہیں گے صرف انہیں ہی حکومت بنانے کا موقع ملے گا، پھر مذہبی سیاسی جماعتیں کس امید پر اس لاحاصل جدوجہد میں اپنے وسائل اور قیمتی وقت کو کھپارہی ہیں؟ فوج کسی مذہبی سیاسی جماعت کو اتنی سپیس تو دے سکتی ہے کہ وہ گلیاں سڑکیں پکی کرانے کا انتظام سنبھال لیں، لیکن ایسی اہم جگہوں پر آنے نہیں دے گی کہ جہاں سے وہ ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوسکیں۔
٭٭٭٭٭
1 آپ کے مسائل اور ان کا حل، جلد۸
2 ابوداود، کتاب الادب، باب العیة
3 ماہنامہ الفاروق جمادی الثانیہ ۱۴۳۳ھ
4 آپ کے مسائل اور ان کا حل، جلد۸