حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
ولما كانت المدينة ذات اجتماع عظيم لا يمكن أن يتفق رأيھم جميعا على حفظ السنة العادلة…1
’’جبکہ شہر انسانوں کے بڑے ہجوم کا نام ہے،سو ان سب کی رائے کا سنت کی حفاظت پر متفق ہو جانا ناممکن ہے……‘‘
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی
’’غرض اسلام میں جمہوری سلطنت کوئی چیز نہیں……یہ مخترعہ متعارفہ جمہوریت محض گھڑا ہوا ڈھکوسلہ ہے، بالخصوص ایسی جمہوری سلطنت جو مسلم و کافر ارکان سے مرکب ہو وہ تو غیر مسلم سلطنت ہی ہوگی۔ ‘‘2
’’قرآن شریف سے تو سلطنت شخصی ہی ثابت ہوتی ہے۔ اب جو اہل اسلام میں جمہوریت کے مدعی ہیں وہ یاد رکھیں کہ ہمارے ذمے شخصیت پر دلیل قائم کرنا لازم نہیں۔ بلکہ دلیل تو انکے ذمے ہے اور ہم تو مانع ہیں۔ پس جب وہ دلیل لاویں گے تو اس کا جواب بھی انشاء اللہ ہم دیں گے۔ اور میں پیشن گوئی کرتا ہوں کہ وہ اپنے دعوے پر کوئی دلیل نہیں لاسکتے۔
……اسلام میں جمہوری سلطنت کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام میں محض شخصی حکومت کی تعلیم ہے۔ بعض لوگوں کو یہ حماقت سوجھی ہے کہ وہ جمہوری سلطنت کو اسلام میں ٹھونسنا چاہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت ہی کی تعلیم ہے اور استدلال میں یہ آیت پیش کرتے ہیں ’وشاور ھم فی الامر‘ مگر یہ بالکل غلط ہے۔ ان لوگوں نے مشورے کی دفعات ہی کو دفع کردیا ہے ۔
……جب رعایا کو از خود مشورہ دینے کا کوئی حق بددرجہ لزوم نہیں تو پھر اسلام میں جمہوریت کہاں ہوئی؟ کیونکہ جمہوریت میں تو پارلیمنٹ کو از خود رائے دینے کا حق ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بادشاہ پارلیمنٹ سے بغیر رائے لیے کوئی حکم نافذ کردے تو اس پر چاروں طرف سے لے دے ہوتی ہے کہ ہم سے بغیر مشورہ لیے یہ کیوں حکم جاری کیا گیا۔ بھلا علماء کو یہ حکم اسلام میں کہاں دیا گیا ہے؟ ذرا کوئی صاحب ثابت تو کریں ۔پس یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ اسلام میں جمہوریت کی تعلیم ہے۔‘‘3
حضرت علامہ سید سلیمان ندوی
’’جمہوریت اور جمہوری عمل کا اسلام سے کیا تعلق؟ اور خلافتِ اسلامی سے کیا تعلق؟ موجودہ جمہوریت تو سترہویں صدی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ یونان کی جمہوریت بھی موجودہ جمہوریت سے الگ تھی، لہٰذا اسلامی جمہوریت ایک بے معنی اصطلاح ہے…… ہمیں تو اسلام میں کہیں بھی مغربی جمہوریت نظر نہیں آئی اور اسلامی جمہوریت تو کوئی چیز ہے ہی نہیں…… جمہوریت ایک خاص تہذیب وتاریخ کا ثمرہ ہے، اسے اسلامی تاریخ میں ڈھونڈنا معذرت خواہی ہے۔ ‘‘4
فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی
’’یہ تمام برگ و بار مغربی جمہوریت کے شجرۂ خبیثہ کی پیداوار ہے۔ اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں ۔
……اسلام میں جمہوریت کا کہیں کوئی تصور نہیں ہے۔ اس میں متعدد گروہوں کا وجود (حزب اقتدار،حزب اختلاف) ضروری ہے جبکہ قرآن اس تصور کی نفی کرتا ہے۔ یہ غیر فطری نظام یورپ سے برآمد ہوا ہے۔
……اس کافرانہ نظام کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نہ ہی اس طریقے سے قیامت تک اسلامی نظام آسکتا ہے۔ ‘‘5
حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی
سوال: ’’کیا ہمارے نبی حضور ﷺ نے جمہوریت کو قائم کیا تھا اور کیا خلفائے اربعہ بھی اسی جمہوریت پر چلے یاا نہوں نے کچھ تغیر و تبدل کیا ہے؟‘‘
جواب: ’’حامداً ومصلیاً:
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے جمہوریت کی تردید فرمائی ہے۔ وہاں قوانین و احکام کا دارومدار دلائل پر نہیں بلکہ اکثریت پر ہے، یعنی کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوتا ہے۔ پس اگر کثرتِ رائے قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسی پر فیصلہ ہوگا۔ قرآنِ کریم نے اکثریت کی اطاعت کو موجبِ ضلالت فرمایاہے:
وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ (الانعام: 116)
’اور اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کے پیچھے چلو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر ڈالیں گے۔‘
ا ہلِ علم، اہلِ دیانت، اہلِ فہم کم ہی ہواکرتے ہیں۔ خلفائے اربعہ حضور اکرم ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے والے تھے، انہوں نے اس کے خلاف کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کی ہے۔‘‘6
مولانا مفتی حمید اللہ جان
’’مشاہدہ اور تجربے سے ثابت ہے کہ موجودہ مغربی جمہوری نظام ہی بے دینی، بے حیائی اور تمام فسادات کی جڑہے اور خصوصاً اس میں اسمبلیوں کو حقِ تشریع ( آئین سازی، قانون سازی کا حق) دینا سراسر کتاب و سنت اور اجماعِ امت کے خلاف ہے…… اور ووٹ کا استعمال مغربی جمہوری نظام کو عملاً تسلیم کرنا اور اس کی تمام خرابیوں میں حصہ دار بننا ہے، اس لیے موجودہ مغربی جمہوری نظام کے تحت ووٹ کا استعمال شرعاً ناجائز ہے۔ ‘‘7
حضرت مولانا مفتی یوسف لدھیانوی
’’جمہوریت دورِ جدید کا وہ ’صنم اکبر‘ہے۔جس کی پرستش اول اول دانایان مغرب نے شروع کی۔ حالانکہ مغرب جمہوریت کے جس بت کا پجاری ہے اس کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریے کی ضد ہے۔اس لیے اسلام کے ساتھ جمہوریت کا پیوند لگانا اور جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کرنا صریحاً غلط ہے۔ اسلام کا جدید جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی جمہوریت کو اسلام سے کوئی واسطہ ہے ۔ ضدان لا یجتمعان۔‘‘8
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی
’’ جو حکومت اللہ کی حاکمیت اور قانون ِ شریعت کی برتری اور بالادستی کو نہ مانتی ہو بلکہ یہ کہتی ہو کہ حکومت عوام کی اور مزدوروں کی ہے اور ملک کا قانون وہ ہے جو عوام اور مزدور مل کر بنا لیں تو ایسی حکومت بلاشبہ حکومت کافریہ ہے ۔ جو فرد یا جماعت قانون ِ شریعت کے اتباع کو لازم نہ سمجھے اس کے کفر میں کیا شبہ ہے ؟ ‘‘9
’’وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ مزدور اور عوام کی حکومت ہے، ایسی حکومت بلاشبہ حکومتِ کافرہ ہے۔‘‘10
مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاری
’’اگر کسی ایک قبر کو مشکل کشا ماننا شرک ہے تو کسی اور نظامِ ریاست، امپریل ازم، ڈیموکریسی، کمیونزم، کیپٹل ازم اور تمام باطل نظام ہائے ریاست کو ماننا کیسے اسلام ہو سکتا ہے؟…… قبر کو سجدہ کرنے والا مشرک، پتھر، لکڑی اور درخت کو مشکل کشا ماننے والا، حاجت روا ماننے والا مشرک، اور غیر اللہ کے نظاموں کو مرتب کرنا اور اس کے لیے تگ و دو کرنا اور اس نظام کو قبول کرنا، یہ توحید ہے؟……
کہاں ہے جمہوریت اسلام میں؟ نہ ووٹ ہے، نہ مفاہمت ہے، نہ ان کا وجود برداشت ہے، نہ ان کی تہذیب برداشت ہے…… اسلام آپ سے اطاعت مانگتا ہے۔ آپ سے ووٹ نہیں مانگتا، آپ کی رائے نہیں مانگتا۔ من یطع الرسول فقد أطاع اللہ!‘‘11
حضرت مولانا حکیم محمد اختر
’’اسلام میں جمہوریت کوئی چیز نہیں ہے کہ جدھر زیادہ ووٹ ہوجائیں ادھر ہی کے ہوجاؤ۔ اگر ساری دنیا کفر کے حق میں ووٹ دے دے تو بھی مومن کا ووٹ اللہ ہی کے لیے وقف رہتا ہے۔ اس لیے اسلام میں اکثریت اور جمہوریت کے ساتھ ہونا ضروری نہیں، حق کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔ اکثریت اگر حق کے خلاف ہے تو حق کی اقلیت اس اکثریت پر غالب ہوتی ہے۔ ‘‘12
شیخ سلیم اللہ خان
سوال: ’’کیا انتخابی سیاسی نظام یا جمہوری نظم کے تحت اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہے؟‘‘
جواب: ’’نہیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ نہ انتخابات کے ذریعے اسلام لایا جا سکتا ہے ، نہ جمہوریت کے ذریعے اسلام لایا جا سکتا ہے۔ جمہوریت میں کثرتِ رائے کا اعتبار ہوتا ہے اور اکثریت جہلاء کی ہے جو دین کی اہمیت سے واقف نہیں۔ ان سے کوئی توقع نہیں ہے۔ ‘‘13
مفتی نظام الدین شامزئی شہید
’’دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین ووٹ کے ذریعے سے، مغربی جمہوریت کے ذریعے سے غالب نہیں ہو گا، اس لیے کہ اس دنیا کے اندر اللہ کے دشمنوں کی اکثریت ہے،فساق وفجار کی اکثریت ہے اور جمہوریت جو ہے وہ بندوں کو گننے کا نام ہے تولنے کا نہیں……دنیا میں جب بھی اسلام غالب ہو گا تو اس کا واحد راستہ وہی ہے جو راستہ اللہ کے نبی ﷺ نے اختیار کیا تھااور وہ جہاد کا راستہ ہے……
……افغانستان کے اندر طالبان کی حکومت آئی اور اسلامی شریعت آئی، کب آئی؟ جب سولہ لاکھ انسان شہید ہوئے، دس لاکھ آدمی معذور ہوئے، کسی کا ہاتھ نہیں، کسی کی آنکھ نہیں، کسی کا کان نہیں ، کسی کی ٹانگ نہیں…… اللہ تعالیٰ مفت میں کسی کو نہیں دیتے جب تک کہ قربانیاں نہ ہوں۔ تو پاکستان میں لوگ یہ تمنا تو کرتے ہیں کہ طالبان کی حکومت ہو یا طالبان جیسی حکومت ہو، لیکن اس کے لیے جس قربانی کی ضرورت ہے اس کےلیے وہ تیار نہیں۔ ‘‘14
حضرت مولانا ثنا اللہ امرتسری
’’اسلام میں عامتہ المسلمین کی خیر خواہی اور ان کے معاشرے کی بہتری کو نظامِ حکومت میں اساسی مقام دیا گیا ہے لیکن عوام کی رائے خواص کی قسمت کا فیصلہ کرے یہ راہ اختیار نہیں فرمائی گئی۔ عوام کی رائے کی یہ اہمیت تخریبی اصول ہے۔
موجودہ الیکشن میں آراء کو ماؤف کیا جاتا ہے ،پراپیگنڈا کے بعدذہن اس قدر تباہ ہوجاتا ہے کہ اس کی سوچ اور فکر کو رائے سے تعبیر کرنا ،یقیناً غلط ہوگا۔ بلکہ الیکشن اور آج کے انتخابات میں قوتِ فکر پر فالج گرتا ہے اور عقل کو لقوہ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔‘‘15
حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی
’’ ایسے مسلمان حاکم جو خدا اور رسول ﷺ کے احکام کے خلاف حکم جاری کریں وہ ’من لم یحکم بما انزل اللہ فأو لٰئک ھم الکافرون‘ میں داخل ہیں اور خدا اور اس کے رسولﷺ کے خلاف حکم جاری کرنے والوں کو قرآن پاک میں طاغوت فرمایا گیا ہے اور طاغوت کی اطاعت حرام ہے۔ انگریزی قانون کے ماتحت خلافِ شرع حکم کرنے والے خواہ نام کے مسلمان طاغوت ہوں کسی بھی طرح ’اولی الامر منکم‘ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ‘‘16
٭٭٭٭٭
1 حجة الله البالغة, باب: سياسة المدينة
2 ملفوظاتِ تھانویؒ، ص: ۲۵۲
3 اشرف التفاسیر، جلد: ۱، ص: ۴۲۰ تا ۴۲۷
4 ماہنامہ سنابل، کراچی، مئی ۲۰۱۳ء جلد: ۸ شمارہ: ۱۱ ص : ۲۷،۲۸
5 احسن الفتاویٰ، جلد: ۶، ص:۲۶
6 فتاویٰ محمودیہ، جلد: ۴، کتاب السیاسۃ والھجرۃ، باب: جمہوری سیاسی تنظیموں کا بیان
7 ماہنامہ سنابل، کراچی، مئی ۲۰۱۳ء، جلد: ۸، شمارہ: ۱۱، ص: ۳۲
8 آپ کے مسائل اور ان کا حل، جلد:۸، ص: ۶۵۷،۶۶۱
9 عقائد الاسلام، ص: ۲۳۶
10 عقائد الاسلام، ص: ۲۳۰
11 خطاب بموقع توحید و سنت کانفرنس، ۲۶ ستمبر ۱۹۸۷ء، جامع مسجد برمنگھم، برطانیہ۔ بحوالہ سنابل کراچی
12 معرفت الہیہ، ص: ۲۰۹
13 ماہنامہ سنابل، کراچی، مئی ۲۰۱۳ء، جلد: ۸، شمارہ: ۱۱، سرِورق
14 ماہنامہ سنابل، کراچی، مئی ۲۰۱۳ء ، جلد :۸، شمارہ:۱۱، ص:۳۳،۳۴
15 فتاویٰ ثنائیہ،جلد: ۲، ص: ۵۸۹
16 کفایت المفتی، جلد:۹، ص:۲۳۷