۹۰ء کی دہائی میں جب کہ میں میڈیکل کے امتحانات کی تیاری کر رہا تھا ، بھارتی ظلم و ستم عروج پر تھا۔ بھارتی فوج جسے چاہتی اٹھا لیتی۔ مردوزن کی عزت و آبرو ان کے ہاتھوں لٹتے ہوئے دیکھ کر نوجوانوں میں جہاد کی روح بیدار ہوئی۔ پہلے پہل تو ہم لوگ پتھروں اور خود ساختہ پیڑول بموں کے ذریعے بکتر بند گاڑیوں اور فوجیوں کو نشانہ بناتے رہے، رفتہ رفتہ یہ کارواں بڑھتا گیا اور بھارتی فوجیوں کا ظلم و ستم بھی ساتھ بڑھتا گیا۔ اور پھر اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو وہ دن بھی دکھائے جب بندوق ہمارے ہاتھوں میں تھی اور سامنے مقتل……
مقابل ہو گئے ہند میں آخر اہلِ نخوت سے
فضائیں دیکھتی تھیں سارا منظر چشمِ حیرت سے
ادھر ساماں کی تھی کثرت ادھر ایماں کی دولت
ادھر تیغ و سپر ، ثروت ادھر اللہ کی رحم
یوں ہماری جہادی سرگرمیاں بڑھتی گئیں اور پھر ایک دن ہم لوگ اپنے پاکستانی مخلص با وفا بھائیوں سے ملے اور حالات کچھ اس طرح سے بنے کہ مجھے اور میرے چند ساتھیوں کو پاکستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ اس سفر میں میرے ہمراہ میرے بہت قریبی ساتھی طاہر اور زاہد بھائی بھی تھے، جو کہ خاص سری نگر کے رہنے والے تھے، اور بعد از ہجرت وہ اپنے علاقے سری نگر میں ہی شہید ہوئے۔ یہ بھائی عبادت اور خدمت میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے والے تھے، اللہ تعالی ان دونوں بھائیوں کی شہادت قبول فرمائے۔ آمین۔
سر زمینِ پاکستان آنے کے بعد ہمارے سامنے پاکستانی ایجنسیوں کے مکرو فریب کا پردہ چاک ہوا۔ انہوں نے اپنے حقیر ذاتی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے کشمیر کے جہاد کو بنیاد بنا کر کشمیری مسلمانوں کے خون کے ساتھ غداری کی جو تا حال جاری و ساری ہے۔ آج تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے امت کو دھوکے میں رکھتے ہوئے جہادِ ہند کا دروازہ بندکیا، پاکستان میں غیور مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھائے اور جہادِ کشمیر میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔
یومِ تفریق ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے مبارک حملوں کے بعد، جب ۱۹ مخلص مجاہدین نے اپنے شہیدی حملوں سے صلیبیوں کے سب سے بڑے عسکری اور معاشی قلعوں کو برباد کر دیا اور رہتی دنیا تک یہ پیغام چھوڑ دیا کہ اس آسمان کے نیچے کسی کو (سپر) کہلانے کا کوئی حق نہیں، پاکستان کی ایجنسیوں کا نفاق واضح ہوا اور آرمی چیف نے واضح انداز میں اپنی ملڑی اکیڈمی میں واضح کر دیا کہ اب ہم کشمیر کی آزادی میں کوئی رول ادا نہیں کر سکتے۔ اس وقت ہم کشمیری مجاہدین اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ شایہ یہ کوئی ڈپلومیٹک پالیسی ہوگی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جہادِ کشمیر کو روکنے کا فیصلہ کیا تو ان خفیہ ایجنسیوں نے کشمیری مجاہدین کو کشمیر کے جہاد سے روکنے کے لیے کچھ عملی اقدامات شروع کیے، جس میں خفیہ طور پر ’را‘(انڈین خفیہ ایجنسی) کے ساتھ جوائنٹ میکانیزم کے ذریعے کشمیری مجاہدین کو اپنے گھروں (مقبوضہ کشمیر) میں واپس بھیجنے کے لیے راہ ہموار کی، جس میں یہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ جو مجاہدین اپنے جہاد کو جاری رکھنے پر بضد تھے، ان کو جہاد کی غرض سے ڈرامائی طور پر بارڈر کراس کر وا کر اس جوائنٹ میکانیزم اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے شہید کر وا دیاگیا ۔ (انا للہ وان الیہ راجعون)
بعض کشمیری مجاہدین نے اپنی ہجرت و جہاد کو قائم رکھتے ہوئے وزیرستان کا رخ کیا اور افغان طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف جہادمیں شریک ہو گئے ۔ باقی ماندہ کشمیر ی مجاہدین پاکستان میں ہی کاروبار میں لگ گئے۔ یوں یہ ایجنسیاں اس کھیل میں کافی حد تک کامیاب رہیں۔ یاد رہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ مقدس جہاد اور شعائرِ اسلام کو کھیل تماشہ سمجھتی ہیں۔ اگر اس سارے قصے کو ایجنسیوں کے سامنے دہرایا جاتا ہے تو وہ وہی پرانا روایتی جواب دیتی ہیں جو ان پروفیشنل مکاروں کے ایک افسر نے نے بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے ساتھ غداری کرتے وقت کہا تھا کہ (یہ کھیل کا ایک حصہ ہے)۔
ان کے سامنے عزت ، غیرت، دینی حمیت اور ایمان کو خراب کرنے والی چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اب جب کہ یہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور پاکستان میں کشمیر ڈے یا یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے تو ہر ذی شعور مسلمان کو فطرت سلیمہ سے کام لینا چاہیے اور ان ایجنسیوں کی چالوں سے آگاہ رہنا چاہیے۔ اس موقع پر نبی ﷺ کی حدیث مبارک ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مومن ایک سراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا ۔
پاکستان اور ہندوستان میں بسنے والے میرے غیور مسلمان بھائیوں ! اپنی جان و مال اور اپنی صلاحیتوں سے اس (شریعت یا شہادت) کے قافلے کا ہر ممکن ساتھ دیجیے اور ان ایجنسیوں کے ساتھ اظہارِ برأت کر کے اپنے رب پر توکل کیجیے اور اپنےایمان کی آبیاری کرتے ہوئے عقیدہ توحید کو اپنے سینوں اور دلوں میں راسخ کر کے، وقت ضائع کیے بغیر عشروں کے تلخ تجربات مثلاً جمہوری طریقے سے اسلام کو نافذ کرنا ، اللہ کے احکامات کے خلاف کسی بھی طاغوتی ایجنسی کی تابع داری کرنا اور اقوامِ متحدہ کے سامنے بھیک مانگنے سے بہتر ہے کہ ہم نبی ملاحم ﷺ کے اسوے پر چلتے ہوئے ، جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے اپنے تمام تر مسائل کا حل نکالیں ۔ اس ہی میں ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز چھپا ہے ۔
توکل کے اسی جذبے نے ان کا دل بڑھایا تھا
یہی وہ حوصلہ تھا جو انہیں میداں میں لایا تھا
غزوۂ ہند کے حوالے سے نبی کریم ﷺ نے جو بشارتیں دیں اللہ عزو جل ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس حدیث کا مصداق بنائے ، کوئی ایک خیر دو میں سے تو ہمیں مل ہی جائے گی ۔ فتح نہ بھی ملی جامِ شہادت ہاتھ آئے گا۔ ان شاء اللہ ۔
وآخر و دعوانا عن الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭