نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | مارچ ۲۰۲۴ء

ذہن میں گزرنے والے چند خیالات

معین الدین شامی by معین الدین شامی
30 مارچ 2024
in عالمی منظر نامہ, مارچ 2024
0

کیا کوئی ہے جو تعریف کے لائق ہے سوائے اللہ کے؟ جس نے بے سہاروں کو سہارا دیا، گرے پڑوں کو اٹھایا، پھر اپنی معرفت و مغفرت کی راہیں ان کے لیے کھول دیں۔ ان بے سہاروں اور گمرہوں کے لیے پھر انہی میں سے ایک نبی مبعوث کیا، جس نے ہدایت کے راستے بتائے اور ایسی سنتیں جاری کیں جو غریب و امیر سبھی کے لیے قابلِ عمل، آسان اور سہل، صلی اللہ علیہ وسلم۔ پھر بھی کچھ اس دوڑ میں گرتے پڑتے رہے تو اسی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا کہ جب مشکل پڑا کرے تو کہا کرو ’یا حي يا قيوم! برحمتك أستغيث1‘.اللھم صلِّ وسلم علی نبینا محمد!


’حلوہ‘: سبب دین سے دوری ہے

اواخرِ فروری ۲۰۲۴ء میں، شہرِ لاہور کے اچھرہ بازار میں ایک ہجوم نے ایک عورت کو(مع اس کے خاوند کے) گھیر لیا جس نے ایک ایسے پرنٹ والا لباس پہن رکھا تھا جس پر عربی رسم الخط میں کچھ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ ہجوم نے اس خاتون پر توہینِ قرآن کا الزام لگایا اور اس کو مرنے مارنے پر تُل گئے۔

گستاخی کا الزام لگا کر پاکستان میں بہت سے لوگوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور اس کا سبب معاشرے میں موجود ’جہالت‘کا عنصر ہے جو یا تو یہ ہی ’judge‘ یاتمیز نہیں کرپاتا کہ گستاخی کیا ہے اور کیا نہیں ہے یا پھر جس طرح درجنوں دیگر قوانین و احکام کا غلط استعمال کر کے اپنے مخالفین کو دبایا جاتا ہے مسئلۂ گستاخی کو بھی اسی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں کلیدی لفظ ’جہالت‘ ہے، یعنی دین و احکامِ دین سے دوری۔ البتہ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ پاکستان اور اس طرح کے دیگر ممالک میں عربی رسم الخط کا ایک معلوم معنیٰ و مفہوم ہے اور اگرچہ کچھ لوگوں نے اس عورت کو گھیر کر اچھا اقدام نہیں کیا لیکن اس عورت کا ایسے پرنٹ والا لباس پہننا خود ایک غلط اقدام ہے! دلیل ریاض کا کوئی بوتیک نہیں ہو سکتا کہ ریاض جس کا معنیٰ باغ ہے، آج اسلام کے لیے باغ نہیں جھاڑ جھنکاڑ ہے جہاں شیاطین کا اکٹھ ہوتا ہے!

ایک اور طبقہ سیکولر و لبرل لا دین لوگوں کا ہے جو کسی بھی واقعے سے ’مذہبی جنونیت‘ کو ثابت کر کے دین و احکامِ دین کا سقوط معاشرے سے لے کر حکومت کے ہر ہر درجے پر چاہتے ہیں اور دینُ اللہ کی جگہ دینِ جمہور یا جمہور کی خواہشات کے دین کو یعنی مادر پدر آزادی کو رائج کرنا چاہتے ہیں۔

تیسری طرف خود اہلِ دین کا طبقہ ہے۔ یہ طبقہ معاشرے میں مختلف اہم جگہوں پر موجودگی کے باوجود آج غالب نہیں ہے اور چونکہ آج کا زمانہ ’ٹرینڈز ‘ کا زمانہ ہے تو خود اہلِ دین بھی بعض امور کا خیال رکھے بغیر انہیں ٹرینڈز کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مثال ہے کہ اہلِ دین نے خود جب اس واقعے میں ملوث لوگوں کا ردکیا تو انہیں مذہبی جنونی کہا یا جاہل مولوی، للأسف عربی ممالک میں گٹر کے ڈھکنوں پر لکھے عربی میں الفاظ کی تصاویر ڈال کر لکھا اور پوچھا گیا کہ ’کیا یہ گستاخی ہے؟‘ ۔

اس موضوع پر علمائے کرام نے بہت کچھ بولا، لکھا اور صوتی و بصری طور پر ریکارڈ کروایا ہے۔ ہم یہاں صرف دو نقاط عرض کرنا چاہیں گے۔

  • مذہبی لوگ جنونی نہیں ہوتے، کچھ جنونی یا ذاتی مفاد کے لیے کوشاں لوگ دین و مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کچھ بے جا بلکہ ظلم پر مبنی حرکتیں کر جاتے ہیں۔ دین، مذہب، مولوی وغیرہ یہ سب خود محترم و مقدس الفاظ و اصطلاحات ہیں۔ دنیا میں آج کتنی ہی مائیں اور کتنے ہی باپ ایسے ہیں جو اپنی اولاد کے ساتھ ظلم کی بدترین شکلیں بلکہ بدکاری تک روا رکھتے ہیں، کیا یہ اصطلاح عام کی جانی چاہیے کہ جس کا مفہوم ومعنیٰ یہ سمجھا جائے کہ ماں باپ ظالم و جنونی و بدکار ہوتے ہیں۔ دینُ اللہ کے معاملے میں ’جنونی‘ کہنا اور ’مولوی‘ کو بدنام کرنا دراصل تو اس مغربی جاہلی نظام کا شاخسانہ ہے جس میں ہزاروں نہیں لاکھوں سقم پائے جاتے ہیں لیکن وہ اپنے معاشرے سے لے کر حکومت تک کے سبھی اداروں اور اشخاص کے جرائم کو یہ کہہ کر نظر انداز کرتا ہے کہ یہ ان کا ذاتی فعل ہے۔ اگر ’انسانی ساختہ‘مغربی نظام جس میں جمہوریت و سیکولرازم بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں میں افراد کا ذاتی فعل اس نظام کی ’تقدیس‘ کو متاثر نہیں کرتا تو سات آسمانوں کے اوپر سے اترنے والے دینُ اللہ کے شعائر کو کیسے چند لوگوں کے افعال کے سبب رگیدا جا سکتا ہے؟ جنونیت کا مقابلہ اس کے میدان میں اتر کر نہیں، اپنے دین کے مفاہیم و احکام سے جڑ کر انہی مفاہیم و احکام کے مطابق کیا جائے گا۔ مولوی صاحب سے گٹر کے ڈھکن کی تصویریں دکھا کر اور ’مولوی‘ کی اصطلاح کی تکرار تو ہم اہلِ دین کے اپنے ’بیانیے‘ اور ’دعوت‘ کے لیے نقصان کا سبب ہے۔ کیا مسلم معاشرہ ’عالم‘ جس کا ایک اصطلاحی لفظ و نام ’مولوی‘ عام ہو گیا ہے کہ بغیر ایک لمحہ بھی باقی رہ سکتا ہے، بلکہ معاشرہ ہی کیا، اگر علمائے دین مفقود ہو جائیں تو شعورِ آخرت و رضائے الٰہی کیا کہیں بچے گا؟

  • اصل بات یہ ہے کہ دین کی تعلیمات عام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ دین ہمیں آدابِ نوم و طعام سے لے کر احکامِ حکومت و عدالت تک سے بہرہ ور کرتا ہے۔ دینُ اللہ کے قیام کی ایک ایسی محنت کی ضرورت ہے کہ جو ہماری گلیوں میں کسی گالی دینے والے کو آداب ِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مطابق بھی روکے اور حکومتوں کی سطح پر حاکم کو بھی پابند کرے کہ وہ شریعتِ الٰہی سے رتی برابر بھی ادھر اُدھر نہ ہو۔ معاشرے کی تعلیم و تربیت، تزکیہ و احسان اور اسی معاشرے کو ہر برائی کے مقابلے کے لیے تیار کرنا آج اربابِ دین کی مسئولیت ہے، آج کی مسئولیت وہی مسئولیت ہے جو کل بلکہ اس جہان میں روزِ اول سے مکلفیت تھی!

یاسر قاضی، نعمان علی خان اور عمر سلیمان جیسے حضرات کا ’مسئلہ‘

لڑکپن اور ابتدائے جوانی کا ایک کافی حصہ امریکہ میں مقیم ایک داعی ’یاسر قاضی‘ کو سنتے ہوئے گزرا۔ بنیادی موضوع تزکیہ و احسان ہی ہوتا تھا۔ ہزاروں نوجوان یاسر قاضی کی طرف رجوع کرتے۔ پھر صفوفِ جہاد میں آ جانے کے بعد یاسر قاضی صاحب کا حال معلوم نہ رہا۔ اسی جہاد میں جب شہروں کی طرف دوبارہ پلٹنا ہوا اور امرائے جہاد نے دعوتِ جہاد کے لیےنئے ’میدانِ عمل‘ انٹرنیٹ پر کام کرنے کا حکم کیا تو اس نئے میدان میں تزکیۂ نفس کے لیے انٹرنیٹ ہی کو کھنگالا۔ اس زمانے میں ہمارے مرشد ظہیر بھائی(اسامہ ابراہیم غوری شہیدؒ) ہم ساتھیوں کو تزکیۂ نفس کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب (دامت برکاتہم العالیۃ) کی مجالس میں جامعہ مدنیہ جدید رائیونڈ روڈ لاہور لے جایا کرتے تھے۔ ہم اپنے حالات کے سبب حضرت مفتی صاحب سے بس زیادہ سے زیادہ مصافحہ کر پاتے تھے، نجی محفل وغیرہ میں بیٹھنے کا موقع ہمیں میسر نہ تھا، سو ان با صفا حضرات کو اپنا کیا حال بتاتے اور کیا اصلاح لیتے؟ بہر کیف امراضِ انٹرنیٹ کی دوا ہمیں نعمان علی خان اور عمر سلیمان جیسے حضرات کے دروسِ تزکیہ میں مل گئی، یہ حضرات چونکہ اس دلدلِ انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی جس گہوارۂ تہذیب میں پیدا ہوئی کو قریب سے دیکھتے تھے تو اسے جانتے بھی بہتر تھے اور اس کے مسائل کا حل بھی ان کے پاس تھا۔ دل بڑا شکرگزار بھی ہوا اور ان کے بتائے اعمال وغیرہ سے اصلاحِ احوال میں بھی مدد ملی۔

پھر زمانہ بدلا، شہروں سے پہاڑوں میں پہنچے۔ پھر وقت بدلا تو پھر شہروں میں پہنچے۔ ۲۰۱۵ء کی بات ہے کہ ایک ساتھی نے یاسر قاضی کی ایک ویڈیو دی جس کا عنوان تھا ’Should we listen to Anwar al Awlaki?‘، اور ویڈیو میں یاسر قاضی کی داڑھی جو کبھی لحیۂ مسنونہ ہوا کرتی تھی انچ سوا انچ کی رہ گئی تھی۔ یاسر قاضی کی بدلی صورت اور ان کا کلام دیکھ سن کر بہت افسوس ہوا اور ساتھ ہی سوچتا رہا کہ آخر ایسا کیا سبب ہے کہ یاسر قاضی صاحب کو اپنی دعوت کو ایک نیا رخ دینا پڑا۔ یاسر قاضی نے شیخ انور العولقی رحمۃ اللہ علیہ کو جذباتی قرار دیا اور ان کے افعال یعنی امریکہ کے خلاف جنگ کو اسی طرح غلط بیان کیا جس طرح امریکی خارجہ سیاست غلط ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے شیخ انور کے ساتھ شہید ہونے والے برادر سمیر خان کی موتِ شہادت کو غیر مفید اور ’dying foolishly‘ قرار دیا۔

آج یاسر قاضی صاحب، نعمان علی خان صاحب، عمر سلیمان صاحب وغیرہ اس حد تک کیوں آ گئے ہیں کہ ان کے اقوال و افعال ’نتیجتاً‘ اسلام کے غلبے کا سبب نہیں بلکہ اسلام کی ’مغلوبیت‘ ہی میں ممد و معاون ہیں۔ اس بارے میں لاکھ حسنِ ظن بھی رکھے جا سکتے ہیں اور لاکھ بد گمانیاں بھی! راقم السطور یاسر قاضی، نعمان علی خان اور عمر سلیمان جیسے حضرات کو کبھی موضوعِ گفتگو نہ بناتا لیکن مغربی دنیا ہی میں رہنے والے ایک صاحب کی ’ٹویٹ‘ نے میری توجہ حاصل کر لی۔ یہ ٹویٹ ٹوئٹر (حالیہ ایکس) پر بھی موجود ہے اور راقم کے پاس اس کے سکرین شاٹ بھی محفوظ ہیں، لیکن بوجوہ ان کا حوالہ یہاں نہیں دیا جا رہا (گو کہ مستقبل میں بوقتِ ضرورت دیا جا سکتا ہے)۔ ان مذکورہ صاحب کی تحریرکا خلاصہ راقم اپنی معلومات کے ہمراہ پیش کر رہا ہے، نیز ان معلومات کا ایک حصہ وکی لیکس میں بھی آچکا ہے، اس سے ہمیں مغرب میں موجود یاسر قاضی، نعمان علی خان اور عمر سلیمان جیسے حضرات کا معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو گی:

فدائی مجاہد ’عمر فاروق عبد المطلب‘ جو شیخ انور العولقی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اور جنہوں نے امریکہ میں ایک امریکی ہوائی جہاز میں فدائی حملے کی کوشش بھی کی لیکن ایک تکنیکی خرابی کے سبب ان کا فدائی حملہ کامیاب نہ ہو سکا (قدر اللہ وما شاء فعل) اور جن کے حملے کے بعد شیخ اسامہ بن لادن رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وہ مشہور الفاظ امریکیوں کو مخاطب کر کے کہے کہ ’اگر ہمارا پیغام تم امریکیوں تک الفاظ کے ذریعے پہنچ سکتا تو ہمیں اسے جہازوں میں سوار کر کے تم تک نہ پہنچانا پڑتا‘۔ یہ عمر فاروق عبد المطلب (فک اللہ اسرہ) شیخ انور العولقی سے وابستہ ہونے اور یمن میں جہادی تربیت حاصل کرنے سے قبل امریکہ میں یاسر قاضی صاحب کے ’المغرب انسٹی ٹیوٹ‘ میں شاگرد تھے اور یاسر قاضی صاحب کے حلقۂ درس سے وابستہ تھے۔

عمر فاروق عبد المطلب کا حملہ جب ناکام ہوا اور وہ گرفتار کر لیے گئے تو امریکی سی آئی اے نے ان کے بارے میں تحقیقات کیں۔ ۲۰۱۰ء میں یاسر قاضی سے سی آئی اے نے رابطہ کیا۔ سی آئی اے نے یاسر قاضی کو ’مغرب میں ماڈریٹ (معتدل) اسلام‘ کے لیے جاری مہم میں نہایت اہم مقام کی پیشکش کی۔ یاسر قاضی صاحب پہلے سے ہی ایک بااثر و رسوخ آدمی تھے لہٰذا سی آئی اے ان کے اثر و رسوخ کو ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کئی ماہ کے دباؤ اور بلیک میلنگ کے بعد سی آئی اے یاسر قاضی کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ سنہ ۲۰۱۲ء میں ہیکرز کے عالمی نیٹ ورک ’انانمس (Anonymous)‘ نے سی آئی اے کے سرورز سے ایک کروڑ بیس لاکھ ای میلز ہیک کر کے لیک کیں جنہیں وکی لیکس نے شائع کیا۔

انہی ای میلز میں سے یاسر قاضی کے متعلق ای میلز ثابت کرتی ہیں کہ یاسر قاضی کو دباؤ اور دھمکیوں کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کی گئی اور ان کے ادارے کو ’انتہا پسند‘ قرار دیا گیا اور انہیں علی التمیمی کا ساتھی بتایا گیا، علی التمیمی جو امریکہ میں تا دمِ مرگ کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ علی التمیمی بھی ایک اور مسلمان عالمِ دین ہیں لیکن انہوں نے یاسر قاضی کے بالعکس امریکی سی آئی اے کے دباؤ کو قبول نہیں کیا نتیجتاً انہیں غداری کے الزام اور طالبان کی حمایت کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی اہم ہے کہ جیسا کہ ہم نے شروع میں یاسر قاضی صاحب کی ایک ویڈیو ’Should we listen to Anwar al Awlaki?‘ کا حوالہ دیا تو اسی ویڈیو میں یاسر قاضی صاحب خود کہتے ہیں کہ میں انور العولقی کو جانتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یاسر قاضی صاحب انور العولقی کو صرف جانتے نہیں تھے بلکہ یہ دونوں ایک زمانے میں دوست بھی رہے تھے۔ جس طرح علی التمیمی اور یاسر قاضی کو دھمکیاں دی گئیں اور بلیک میل کیا گیا بالکل اسی طرح انور العولقی کے ساتھ بھی کیا گیا، جب انور العولقی نے سی آئی اے کی پیشکش ٹھکرا دی تو خود شیخ انور العولقی کے قلم سے ظاہر ہونے والی تحریر ’Spilling the beans‘ جو مجلہ ’Inspire‘ میں شائع ہوئی میں درج ہے کہ شیخ انور امریکہ میں ایک دن ایک سڑک کے اشارے پر سرخ بتی کے سبب رکے اور ساتھ ہی ان کی گاڑی کی پیسنجر سیٹ کی کھڑکی کے شیشے کو کسی نے کھٹکھٹایا، شیخ نے شیشہ نیچے کیا تو وہاں ایک طوائف کھڑی تھی اور اس نے شیخ سے بات کرنا چاہی اور اسی لمحے دوسری طرف کے شیشے پر انتظامیہ کے اہلکار یا پولیس آ گئی اور انہوں نے شیخ انور کو ایک طوائف کو پیسے دینے کا الزام لگایا اور قانونی کارروائی شروع کی (امریکہ میں طوائف گردی ایک قانونی جرم ہے)۔ اس سب کے بعد شیخ انور نے امریکہ میں سکونت ترک کر کے برطانیہ کا رخ کیا اور پھر وہاں سے یمن کی طرف ہجرت کر لی جو شیخ کا آبائی وطن بھی تھا۔ امریکی بعد میں بھی شیخ انور کو پھنسانے اور ورغلانے کی کوشش کرتے رہے اور ناکامی کے بعد شیخ انور العولقی کو ان کے ساتھی سمیر خان سمیت امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا، بلکہ امریکیوں نے اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ شیخ کے چودہ سالہ بیٹے عبد الرحمن اور بعد میں شیخ کی آٹھ سالہ بیٹی نوار کو بھی قتل کر دیا۔

جس زمانے میں یاسر قاضی صاحب کے افکار میں تبدیلی آئی اسی زمانے میں نعمان علی خان صاحب اور عمر سلیمان صاحب کے مواقف اور حلیوں (سنت مقدار سے داڑھیاں چھوٹی کرنا وغیرہ) میں بھی تبدیلی واقع ہو گئی، بلکہ بعض مقامات پر یہ حضرات ہم جنس پرستوں کی مبہم حمایت کرتے یا حمایت کرنے والوں کے ساتھ بھی پائے گئے۔

بے شک یاسر قاضی صاحب جس دباؤ اور دھمکیوں اور الزامات سے گزرے ہیں اس کا تصور بھی ہر شریف النفس شخص کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ لیکن کاش مسئلہ صرف یاسر قاضی صاحب کی ذات کا ہوتا، کاش یاسر قاضی صاحب مقتدیٰ و پیشوا نہ ہوتے، وہ استاد و امام نہ ہوتے، کہ ان کے موقف میں تبدیلی ان کی ذات کی حد تک اثر انداز ہوتی، لیکن آج ان کا جہاد سے لے کر داڑھی جیسے ذاتی فعل تک رائے اور فیصلہ لاکھوں مسلمانوں کو متاثر کر رہا ہے۔

ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ یاسر قاضی صاحب کے لیے آسانی کریں اور وہ مغرب ہی میں زندگی گزارنے کے بجائے ہجرت کا راستہ اپنائیں یا ایسی گوشہ نشینی اختیار کر لیں جس کے نتیجے میں امت کے نوجوان مزید گھن چکروں اور بے منزل غلام گردشوں میں بھٹکنے کے بجائے کسی صحیح راہ کی طرف سفر کر سکیں۔ ہجرت، قید اور شہادت بلاشبہ آسان راستے نہیں لیکن سلمانِ فارسی سے صہیبِ رومی رضی اللہ عنہما اور احمد بن حنبل سے ابنِ تیمیہ رحمہما اللہ اور انور العولقی رحمہ اللہ تک کا راستہ اختیار کرنا اخروی لحاظ سے آسان ہے۔

اللہ پاک مغرب میں رہنے والے اہلِ ایمان کے لیے آسانیاں فرمائے اور انہیں اور ہمیں صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دے۔ ان سطور کا مقصد تنقیدِ محض نہیں بلکہ چند چھپے پہلو سامنے لانا اور دردِ دل کا بیان تھا، وما علینا إلا البلاغ!

٭٭٭٭٭


1 إذا أصابك كرب فقل: ’’يا حي ياقيوم برحمتك أستغيث‘‘، فإنه بلغني عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يقول ذلك عند الكرب. (القسم: 2. رسالة الإمام مالك لهارون الرشيد)

Previous Post

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

Next Post

عزت تو جہاد ہی سے ہے!

Related Posts

علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
عالمی منظر نامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

17 اگست 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء

16 اگست 2025
خیالات کا ماہنامچہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

14 اگست 2025
اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل
عالمی منظر نامہ

اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل

14 جولائی 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

13 جولائی 2025
Next Post
عزت تو جہاد ہی سے ہے!

عزت تو جہاد ہی سے ہے!

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version