الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین، نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ اجمعین۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ ڛ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (البقرۃ: ۱۱۴)
’’اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔‘‘
اس آیت سے مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم نماز کے ذریعے مسجدوں کو محفوظ بنائیں اور جو مسجدوں کو ویران اور ختم کرنا چاہتے ہیں ، ان کوسبق سکھایا جائے۔ لیکن آج ہم دیکھ رہیں ہیں کہ ہندوستان کا مسلمان کافروں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق چلنے کی بات کرتا ہے…… میرے بھائی! ہندوستان میں حالات اچانک سے اتنے پیچیدہ نہیں ہوئے ہیں ۔ یہ پچھلے کئی سالوں سے دھیرے دھیرے مسلمانوں کے خلاف ہوتے گئے ہیں، بس اس میں شدت پچھلے دس سالوں سے آئی ہے، جب سے ہندتوا طاقتوں کو اقتدار حاصل ہوا ہے، پچھلے خصوصاً ۱۰ ، ۱۵ سالوں میں آپ دیکھیں گے کہ مسلم قیادت حالات کے سامنے تقریباً سرنڈر کر چکی ہے۔ اسلامی تحریکات سے جڑے افراد بھی ’ویٹ اینڈ سی‘ کی پالیسی اپنانے میں ہی عافیت اور مصلحت سمجھنے لگے، اسلام مخالف قوتوں کو کھلا میدان مل گیا ، جہاں کوئی بھی مزاحمت کرنے کی بھی ہمت نہیں کر پا رہا۔ اب وہ جو چاہیں کریں، کسی ردِ عمل کا کوئی خوف نہیں ہے۔ آج ہندوستان کے مسلمانوں کی جو صورتِ حال ہے نہایت ہی درد ناک ہوتی جا رہی ہے ، بے شک یہ دیکھ کر ہمارے دل اس پر دکھی ہیں ، اور ہم اس حالت کو بدلنا چاہتے ہیں اور تاریخ کے اوراق میں جھانکنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلی ہمیشہ نوجوان لایا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے جو ان کی زندگی کا عظیم ترین کارنامہ تھا، جب انھوں نے سب سے بڑے بت خانے میں جاکر ایک کے سوا تمام بتوں کو توڑ ڈالا جس پر ان کی قوم نے غضب ناک ہو کر انھیں دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا ، تو وہاں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًى يَّذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهٗٓ اِبْرٰهِيْمُ (الانبیاء: ۶۰)
’’کچھ لوگوں نے کہا : ہم نے ایک نوجوان کو سنا ہے کہ وہ ان بتوں کے بارے میں باتیں بنایا کرتا ہے، اسے ابراہیم کہتے ہیں۔‘‘
یعنی اس وقت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نوجوان تھے۔
پھر اصحابِ کہف کا مشہور واقعہ دیکھیں، سورۃ کہف کا نام ہی جن لوگوں کے غار پر رکھا گیا وہ بھی نوجوان تھے ۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دینے والے کون تھے؟ وہ بھی نوجوان تھے، اس طرح رسول کریم ﷺ کے اکثر اصحاب بھی نوجوان تھے، بس یہ نوجوان ہی ہیں جو تاریخ کو بدلنے کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں، کشمیر بھی اس بات کا گواہ ہے اور ان ماؤں کے لاڈلے جو شہید ہوئے ہیں وہ نوجوان تھے، اورآگے بھی یہ قربانیوں کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا……ان شاء اللہ ۔
بابری مسجد وگیان واپی سے لے کر آج اتراکھنڈ اور اترپردیش ، آسام، مہاراشٹر، کے مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، آسام کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں، وہاں بھی مسلمانوں کے گھروں اور مدارس کو زمیں بوس کر دیا گیا ہے ۔
ہندوستان کے دردناک حالات پر بس افسوس کرکے اپنا کام پورا کرنا ہی ہم فرض سمجھ بیٹھے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ کشتی جہاں جا رہی ہے ، جانے دو اور حالات جیسے گزر رہے ہیں ، بس برداشت کرو۔ہندوستان کے نوجوانوں کو تیار ہونا ہوگا ، اللہ کے راستے میں خوب محنت کرنی ہوگی ، حالات کو بدلنا ہوگا، یاد رہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ زندگی ہمارے لیے امتحان ہے ۔
اب تک ہمارا جتنا نقصان ہو چکا ہے ، جتنا ہم پیچھے جا چکے ہیں ، اس کر ریکور کرنا دن بدن اور بھی زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے، اگر اب بھی ہم ہندوستانی مسلمان سنبھل جائیں ، اسلامی غیرت و اخوت کا جذبہ پیدا کریں، اسلام کے لیے جینے مرنے کا شوق پیدا ہو جائے، چاہے پھر جو انجام ہو، تیار رہیں۔ہمارا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالی کو راضی کرنا ہو اور یہ ہو کہ ہمارا شمار حقیقی کامیاب لوگوں میں ہو۔
میرے بھائیو! آپ کو مزید اور انتظار نہیں کرنا چاہیے، اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کا جائزہ لیں، آپ خود سوچیں، اپنے آپ سے سوال کریں،کیا جو آج حالات ہیں اس میں خاموش تماشائی بننا گوارا ہے؟ جبکہ آپ کے ساتھ ہی کشمیر میں نوجوان مجاہدین بھائیوں نے جنت کے بہترین درجات میں جگہ بنائی ہے۔
قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ. وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاءُ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ(التوبة:14,15)
’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔ اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
سورۂ توبہ کی مذکورہ آیات میں اللہ تعالی نے جہاد کے نتیجے میں حاصل ہونے والےچند دنیاوی فائدوں کا ذکر فرمایا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
اللہ تعالی مسلمانوں کے ذریعے کفار و مشرکین کو سزا دلوائے گا۔
مسلمانوں کے ہاتھوں کفار و مشرکین کو ذلیل اور رسوا کرے گا۔
کفار و مشرکین کے انجام بد کی وجہ سے مسلمانوں کو سکون اور راحت پہنچائے گا۔
کفار و مشرکین کے مقابلے میں مسلمانوں کو فتح نصیب کرے گا۔
بعض کافروں اور مشرکوں کو جہاد کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے کی توفیق بھی عطا ہو گی۔
عہدِ نبوی کے سب سے پہلے جہاد غزوۂ بدر کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مسلمانوں کی جو حالت بتائی وہ یہ تھی:
وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (الانفال: 26)
’’اور وہ وقت یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے، تمہیں لوگوں نے (تمہاری) سرزمین میں دبا کر رکھا ہوا تھا، تم ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک کرلے جائیں گے۔ پھر اللہ نے تمہیں ٹھکانا دیا، اور اپنی مدد سے تمہیں مضبوط بنادیا، اور تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق عطا کیا، تاکہ تم شکرو کرو۔‘‘
جنگ سے پہلے: مسلمان بے بس، بے زور اور ستم رسیدہ تھے کفار و مشرکین کے جبر و تشدد کا شکار تھے حتی کے انہیں ڈر تھا کہ کفار ہمیں ملیامیٹ ہی نہ کر دیں۔
جنگ کے بعد: اللہ تعالی نے تمہیں جائے پناہ مہیا کر دی۔ اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں پاکیزہ رزق مہیا فرمایا تاکہ تم شکر گزار بنو۔ (یعنی جنگ کے بعد اللہ تعالی نے مسلمانوں کو سرخرو کیا، عزت و عظمت عطا فرمائی ، سیاسی اور معاشی ، دونوں لحاظ سے مستحکم کر دیا۔
قرآن و حدیث میں جہاد فی سبیل اللہ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے قرآن مجید کی چند آیات کا خلاصہ درج ذیل ہے:
- اللہ تعالی نے مجاہدین سے بلند درجات، مغفرت اور اپنی رحمت کا وعدہ فرمایا ہے ، (سورۃ نساء ۹۶)
- اللہ کی راہ میں مرنے اور مارنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے ( سورۃ نساء ۷۴)
- قتال کرنے والوں سے اللہ تعالی نے نہروں بھری جنت میں بہترین اور عمدہ گھروں کا وعدہ فرمایا ہے (سورۃ الصف ۱۲)
جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت میں چند احادیث مبارکہ کا مفہوم درج ذیل ہے:
- جہاد کی نیت سے چند گھنٹے سفر کرنا روئے زمین کی ساری دولت سے افضل ہے ۔ (مسلم شریف)
- اونٹنی کا دودھ دوہنے کے وقت کے برابر جہاد کرنے والے پر جنت واجب ہو جاتی ہے ۔ (ترمذی)
- اللہ کی راہ میں ایک تیر چلانے کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ۔ (ابن ماجہ)
- قیامت کے روز مجاہدین کے درجات سب سے بلند ہوں گے۔ (مسلم)
- مجاہد جب تک جہاد میں رہتا ہے اسے مسلسل روزے رکھنے ، مسلسل قیام کرنے اور مسلسل رکوع و سجود کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ (نسائی)
- شہداء کی روحیں دوبارہ دنیا میں آکر شہید ہونے کی تمنا کرتی ہیں۔( مسلم)
- جنت میں سب سے زیادہ خوبصورت گھر شہداء کے ہوں گے۔ (بخاری)
- شہید قیامت کے روز اپنے عزیز و اقارب میں سے ستر افراد کی سفارش کر سکے گا۔ (ابن ماجہ)
- قیامت کے روز شہید تازہ خون کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہوگا جس سے مشک کی خوشبو آ رہی ہوگی۔ (بخاری)
قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم و ترغیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات سو فیصد درست نظر آتی ہےجو رسول ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُقْتَلُ
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کردیا جاؤں پھر، زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ محض امت کو جہاد کی ترغیب دلانے یا جہاد کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ صادق المصدوق اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اپنے اللہ تعالی کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں ۔
میرے نوجوان بھائیو! اب ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہمیں عزت سے جینا ہے، اگر ہمیں اللہ کی رضا درکار ہے، اگر ہم باقی امت کا درد محسوس کرتے ہیں تو راستہ ایک ہی ہے وہ جہاد فی سبیل اللہ کا ہے۔ بس کچھ قدم تو آگے بڑھ کر دیکھیں اللہ تعالیٰ کی نصرت ضرور ملے گی۔
٭٭٭٭٭