اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کی آرائ پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)
پاکستان انڈیا حالیہ کشیدگی
اپریل ۲۰۲۵ء کو ہونے والے پہلگام حملے اور اس کے بعد ہونے والی انڈیا اور پاکستان کی سہ روزہ فضائی جنگ نے پورے خطے کا ماحو ل گرم کر دیا۔ اس دوران جہاں انڈیا اور پاکستان کی دیرینہ دشمنی پر دونوں ممالک کی عوام کا ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر جوش و خروش دیکھنے میں آیا وہیں پاکستان اور ہندوستان کا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتا رہا۔ پروپیگنڈا کی جنگ طرفین سے جاری رہی اور جھوٹی خبروں اور جھوٹے دعووں کی بھرمار ہو گئی جس کی وجہ سے اصل حقیقت کا پتہ لگانا مشکل ہو گیا۔ دو دن لگاتار ہندوستانی میزائل اور اسرائیلی ساختہ ڈرون پاکستان میں مساجد مدارس اور شہری آبادی کو ٹارگٹ کرتے رہے جبکہ پاکستان ان ڈرونز کو انٹرسیپٹ کرتا رہا اور لائن آف کنٹرول اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بمباری بھی کرتا رہا۔ ان دو دنوں میں پاکستان نے پانچ انڈین طیارے بھی مار گرائے جن میں فرانسیسی رافیل طیارے بھی شامل تھے۔
۹ مئی کی صبح پاکستان نے انڈین آپریشن ’سندور‘ کے مقابلے میں آپریشن ’بنیان مرصوص‘ شروع کیا اور ہندوستان کے اندر فوجی و دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میدان میں کود پڑا اور اس نے سیز فائر کروا دیا۔ دونوں ملکوں کا دعویٰ ہے کہ سیز فائر کا مطالبہ مخالف فریق کی جانب سے کیا گیا، اور اس کے بعددونوں ملکوں کے میڈیا جیت کے دعوے کرنے لگے۔
انڈیا کے مسلم کالم نگار
انڈیا کے وہ سارے مسلم کالم نگار، جو ہندوستان میں مودی حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ روا امتیازی سلوک اور ہندتوا کے بھگوا دہشت گردوں کی جانب سے آئے روز مسلمانوں کی ماب لنچنگ کی دہائی دیتے رہتے تھے، وہی اب پاکستان کی جانب سے ’دہشت گردوں کی پشت پناہی‘ کے الزام میں پاکستان کو ’تباہ‘ کرنے،اسے ’سبق‘ سکھانے، پاکستان کا پانی بند کرنے اور ’پاکستانی مقبوضہ کشمیر‘ (آزاد کشمیر) پر قبضہ کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔ یہاں ان کا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دو مثالیں دی جا رہی ہیں:
آپریشن سندور میں کیا کھویا کیا پایا| اداریہ
’’ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اس جنگ سے کیا پایا اور کیا کھو یا ؟ اس جنگ سے یہ صاف ہو گیا کہ ہندوستان دہشت گردانہ وارداتوں کے بعد سفارتی سرگرمیوں کے ساتھ فوجی کارروائی بھی کرے گا۔ ہندوستان کی پالیسی میں یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ اب اگر ہندوستان میں مودی حکومت کی جگہ کوئی اور حکومت بھی آ جائے تو وہ بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا رہے گی۔ لیکن ایسی پالیسی شفٹ کے ساتھ ایک اور سوال ہے کہ اس کا کیا اثر ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہو، لیکن اب تک ایسا نظر نہیں آیا۔ پہلی سرجیکل سٹرائیک کے بعد ہوش ٹھکانے نہیں آئے، دوسری سرجیکل سٹرائیک کے بعد بھی اس کا دماغ درست نہیں ہوا، اسی لیے تیسری بار ہمارا ملک حملہ آور ہوا اور اس کا نتیجہ ایک جنگ کی صورت میں برآمد ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان کو اب یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ ہندوستان خصوصاً کشمیر میں دہشت گردانہ واردات کی صورت میں اس کے خلاف فوجی کارروائی ناگزیر ہے اور اس طرح شاید پاکستان ایسی حرکت کرنے سے باز رہے، لیکن اس بارے میں اب بھی کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ اس جنگ کا دوسرا اور سب سے اہم سبق یہ ہے کہ دشمن ہمیں مذہب کے نام پر آپس میں لڑانا چاہتا ہے اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ دشمن کی چال کا شکار نہ بنیں۔ ہمارا اتحاد اور اتفاق ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس اتحاد کو مزید پختہ اور پائیدار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
[اردو ٹائمز]
چند روز کی فضائی جنگ سے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ | ندیم عبد القدیر
’’یہ جنگ پاک مقبوضہ کشمیر (آزاد کشمیر) کو پاکستان سے واپس لینے کا زریں موقع تھی۔ لیکن پاک مقبوضہ کشمیر تو درکنار چند دنوں کی صرف فضائی جنگ کے بعد ہی جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔ آخر ایسے کیسے پاک مقبوضہ کشمیر کو پاکستان سے آزاد کرایا جا سکتا ہے؟ آخر جنگ بندی کی اتنی جلدی ہی کیا تھی؟ جنگ بندی ہمیشہ ہی انسانیت کے لیے ایک راحت افزا پیغام ہے لیکن پاک مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کا کیا؟ پاک مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کا نعرہ کسی اور کا نہیں بلکہ بی جے پی کا رہا ہے۔ کیا اپوزیشن کی کوئی پارٹی بی جے پی سے پوچھے گی کہ ان کے اس نعرے، وعدے اور ارادے کا کیا ہوا؟ کیا کوئی پارٹی پوچھے گی کہ جنگ بندی کے لیے اتنی جلدی ماننے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ بھی ایسے حالات میں جب ہم جنگ میں بھاری تھے؟ یہ جنگ شاید کچھ اور دن چلتی تو پاکستان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے، وہ جنگ لڑنے کا متحمل نہیں رہتا اور تب آسانی سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرایا جا سکتا تھا۔ آخر حکومت نے جنگ بندی کر کے اتنا سنہری موقع کیوں گنوا دیا؟
جموں و کشمیر ایک شورش زدہ ریاست:
اس جنگ میں جہاں پاکستان کو یہ معلوم ہوا کہ اب کشمیر میں کوئی بھی دہشت گردانہ واردات کی صورت میں اس پر حملہ ہو سکتا ہے، وہیں دوسری طرف پاکستان جموں و کشمیر کو ایک شورش زدہ ریاست ثابت کرنے میں کامیاب رہی۔ مودی حکومت کی آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کر دینے اور ہندوستان کے دیگر علاقوں کے عوام کو کشمیر میں بسانے کی پوری حکمت عملی کو اس جنگ میں بہت بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کا سب سے زیادہ نشانہ جموں کا ہی علاقہ تھا، وادی کشمیر نہیں۔ شاید پاکستان نے پوری سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ کام کیا کیونکہ آرٹیکل ۳۷۰ منسوخ ہونے کے بعد جو غیر کشمیری جموں و کشمیر میں آ کر بس رہے تھے وہ سب سے زیادہ جموں میں ہی آ کر آباد ہو رہے تھے۔ اب اس میں کمی آئے گی اور کشمیر میں پلاٹ خریدنے کی بات اب شاید ہی کوئی کرے۔‘‘
[اردو ٹائمز]
پاکستانی میڈیا
پاکستانی میڈیا نے بھی پہلگام حملے کو ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ قرار دیا، جسے بنیاد بنا کر پاکستان کے شہریوں، مساجد ، مدارس اور ائیر بیسز کو نشانہ بنایا گیا۔ جواب میں پاکستان نے بھی نہ صرف انڈیا کے حملوں کو روکا بلکہ ان کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے، انڈیا کے اندر عسکری اہداف کو نشانہ بنایا اور روسی ساختہ ائیر ڈیفنس سسٹم کو بھی تباہ کیا۔ چونکہ انڈیا پاکستان کا روایتی حریف ہے اسی لیے پاکستانی میڈیا پر جذبہ حب الوطنی پورے جوش و خروش سے نظر آتا رہا۔ بھارت نے پہلگام حملے کے بعد تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے اور پھر سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کر کے پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دے دی۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت راطی، بیاس اور ستلج کے پانی پر بھارت کا حق ہے اور سندھ، جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان کا حق ہے۔ اس سلسلے میں چند منتخب کالموں سے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
جنگ بندی ہو گئی، امن کب قائم ہو گا؟| ڈاکٹر رشید احمد خان
’’22اپریل سے اب تک بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جو اقدامات کیے جا چکے ہیں، ان کی روشنی میں محض جنگ بندی کافی نہیں بلکہ بھارت سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جیسے اقدامات کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ یہ اقدام پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ ہے اور جب تک اسے واپس نہیں لیا جاتا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جاری رہے گی اور تصادم کا امکان موجود رہے گا۔ اس کے ساتھ بھارت نے پاکستان کے ساتھ مواصلاتی روابط ختم کرنے اور اپنی فضا سے پاکستانی ایئر لائنز کے طیاروں کی پرواز پر جو پابندی لگائی ہے، وہ ختم ہونی چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان دیگر مسائل خصوصاً کشمیر پر نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے مناسب ماحول پیدا ہو سکے۔ پہلگام واقعہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جھڑپوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت ابھر کر سامنے آئی ہے اور اب یہ بات بین الاقوامی سطح پر بھی کھل کر کی جا رہی ہے کہ جب تک ان دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں رہے گا۔ اس لیے وقتی جنگ بندی کو اگر خطے میں ایک مستقل امن میں ڈھالنا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسائل، جن میں سرفہرست کشمیر ہے، کو حل کرنا ہو گا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس وقت اس کے فوری حل کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان اور بھارت کی موجودہ قیادت اس کے حل کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تب بھی اس پر مذاکرات کے لیے وقت درکار ہے، کیونکہ بھارتی میڈیا نے اپنے عوام کے جذبات کو اس حد تک بھڑکا دیا ہے کہ بھارتی حکومت کو یہ قدم اٹھانے کے لیے ہیجانی کیفیت کے دور ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
[روزنامہ دنیا]
خالد مسعود خان نے اس جنگ کے حوالے سے بالکل الگ نقطہ نظر پیش کیا ہے:
آخری معرکہ ابھی باقی ہے| خالد مسعود خان
’’میرے خیال میں حالیہ بھارتی حملے کو مکمل امریکی آشیرباد حاصل تھی۔ بھارت کو اس علاقے میں چین کے خلاف کھڑا کرنے سے پہلے اسے پاکستان جیسی گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی سے خلاصی دلوانا اس سلسلے کی پہلی اور لازمی کڑی ہے۔ چین کو ایشیا سے نکل کر عالمی سطح کی عسکری طاقت بننے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا م کو علاقائی سطح پر ہی ٹھپ دیا جائے اور اس کیے لیے بھارت کو تیار کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ ایف 35 جہازوں کا سودا اور علاقائی معاملوں میں اس کی غیر مشروط امریکی حمایت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت کو اس کی شمال مغربی سرحدوں سے بے فکر کیے بغیر یہ سب کچھ ناممکن ہے۔ پاکستان کو نیپال، بھوٹان اور سری لنکا بنائے بغیر بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانا ممکن نہیں۔ لہٰذا پاکستان کو بھارت کے سامنے سرنگوں کیے بغیر امریکی اور بھارتی ایجنڈا پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ پہلگام کے ڈرامے کی آڑ میں پاکستان پر حملے کے منصوبے کے پیچھے امریکی اجازت نے مودی کے ناپاک ارادوں کو مزید ہلہ شیری بخشی اور بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑا۔
پہلگام میں سٹیج کیا گیا ڈرامہ متوقع حملے کا بہانہ تھا۔ پاکستان چیختا رہا کہ وہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے تیار ہے، مگر کسی نے اس پیشکش کو رتی برابر اہمیت نہ دی۔ امریکی تاریخ خود ایسے بہانہ ساز حملوں سے بھری پڑی ہے۔ نائن الیون کے بعد بلاتحقیق افغانستان کی بربادی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی آڑ میں عراق کی تباہی ہمارے سامنے کے واقعات ہیں۔ امریکہ اس مسئلے پر خاموشی سے ایک طرف ہو گیا۔ امریکہ جیسا چودھری ایک طرف کھسک جائے تو یورپ جیسے کمیوں کی کیا مجال تھی کہ وہ اس معاملے میں اپنی کوئی رائے دیتے۔ یہ سب کچھ مودی کے لیے گرین سگنل تھا۔ طاقت کے نشے میں چور مودی کو اس کے خواہش کردہ فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں نے مکمل اور فوری فتح کا خواب بھی دکھا رکھا تھا۔ اب بھلا درمیان میں اور کیا رکاوٹ تھی۔ اسے یقین تھا کہ یہ جنگ محض دوچار دن کا کشٹ ہو گا۔ معاشی طور پر تباہ حال پاکستان اس جدید، مہنگی اور یکطرفہ جنگ کو بھلا کہاں برداشت کر پائے گا۔ ہوائی حملوں، تباہ کن بمباری، میزائلوں کی بارش اور ڈرون جہازوں کی مسلسل آمد، تباہی اور خوف و ہراس کی ایسی داستان لکھے گی کہ یا تو پاکستان ہاتھ کھڑے کر دے گا اور یا پھر ایٹم بم چلانے کی دھمکی دے گا۔ امریکہ کو پاکستان پر براہِ راست حملے کے لیے اسی لمحے کا انتظار تھا۔ یہ ایک اور weapon of mass destruction والا بیانیہ و بہانہ ہے جو امریکہ کو درکار تھا اور اس کام کو اختتام تک پہنچانے کے لیے امریکہ نے بھارتی سرزمین اور اسرائیل کی تکنیکی و حربی مدد کا بندوبست تو کافی عرصے سے کر رکھا ہے، بس مناسب موقع کی تلاش تھی جو پہلگام ڈرامے کی آڑ میں تلاش کر لیا گیا تھا۔
بھارت، امریکہ اور اسرائیل پر مشتمل ٹرائیکا کو یقینِ کامل تھا کہ چار چھ دن کے زوردار فضائی، میزائل اور مسلسل ڈرون حملے پاکستان کے دفاعی نظام کے پرخچے اڑا کر رکھ دیں گے۔ رافیل طیارے پاکستان کی فضاؤں پر راج کریں گے۔ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی ہوئی تو بھارت کا ایس 400جیسا فضائی دفاعی نظام اس کا توڑ کر لے گا۔ پاکستان کی اقتصادی حالت اس قابل نہیں کہ چار چھ دن سے زیادہ لمبی جنگ کا متحمل ہو سکے۔ کہانی ان کے حساب سے مکمل تھی مگر سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا۔
……کیا یہ آخری معرکہ ہے؟ ہرگز نہیں! ہم زندہ ہوں یا نہ ہوں لیکن ایک آخری اور فیصلہ کن معرکہ اس خطے کا مقدر ہے کیونکہ پاکستان کے خاتمے کے لیے بھارت میں اور بہت سے مودی ایک قطار میں ہیں اور ایٹمی طاقت سے لیس پاکستان عالمی طاقتوں کی آنکھ میں بُری طرح ’رِڑک‘ رہا ہے۔‘‘
[روزنامہ دنیا]
اسی طرح کالم نویسوں کی ایک بڑی تعداد اس جنگ کو ’حق و باطل‘ کی جنگ کے طور پہ دیکھ رہی ہے۔ انصار عباسی بھی انہی لکھاریوں میں سے ایک ہیں۔
اسلام کی جیت مبارک ہو| انصار عباسی
’’بھارت کے پاس فرانس کے جدید ترین رافیل جنگی طیارے تھے، دنیا کا مہنگا ترین اور جدید روسی ائیر ڈیفنس سسٹم تھا، اسرائیل کے دنیا بھر میں مانے جانے والے ڈرونز تھے، سپر سونک میزائل براہموس تھے، اور پاکستان سے بہت بڑی فوج تھی۔ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے پاکستان نے چند ہی گھنٹوں میں بھارت کو چت کر دیا اور ایسا چت کیا کہ وہ خوف کے مارے فوری بھاگا بھاگا امریکہ کے پاس پہنچا کہ مجھے پاکستان سے بچاؤ۔ بھارت کے رافیل گرا دیے گئے، براہموس اور ڈرونز کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ جو بھارت پاکستان کو پاکستان کے اندر گھس کر مارنے کی دھمکی دے رہا تھا اُس پر سارا کھیل الٹ دیا گیا۔
بھارت کے کئی شہروں میں میزائل برسا دیے گئے، وہاں قائم درجنوں ائیر بیسز کے ساتھ ساتھ دفاعی تنصیبات اور اسلحے کے ڈپوؤں کو آگ اور شعلوں کے حوالے کر دیا گیا۔ بھارتی فوج اور فضائیہ کی ہمت نہ ہوئی کہ کچھ کر سکے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان نے سائبر وار میں اُس بھارت کے مہنگے ترین فضائی ڈیفنس سسٹم کو مکمل تباہ کر دیا، اُس بھارت کی اہم ترین انٹرنیٹ سائٹس کو ہیک کر لیا اور اُس بھارت کو ستر فیصد اندھیرے میں ڈبو دیا جو دنیا میں آئی ٹی کے شعبہ میں مانا جاتا ہے۔
یعنی فوج بڑی، پیسہ بہت زیادہ، اسلحہ جدید ترین اور مہنگا ترین، آئی ٹی میں چیمپئن، یہ سب ہوتے ہوئے اپنے سے کئی گنا کمزور سمجھے جانے والے پاکستان سے ہار گیا۔ پاکستان کی فوج اور ہمارا دفاعی نظام بھی دنیا میں مانا جاتا ہے لیکن بھارت کے بارے میں یہ رائے عام تھی کہ وہ کنونشنل وار فیئر میں پاکستان سے بہت آگے ہے۔ لیکن پاکستان نے چند گھنٹوں میں بھارت کے غرور کو خاک ملا دیا۔ کچھ لوگ اس کا کریڈٹ کسی جہاز، کسی میزائل اور فوج کی ٹریننگ کو دیتے ہیں لیکن اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے بغیر اتنی بڑی کامیابی ممکن نہیں تھی۔ ہم نے یہ جنگ اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق لڑی۔‘‘
[روزنامہ جنگ]
۷، ۸ اور ۹مئی تک، تین دن جاری رہنے والی اس جنگ میں ٹرمپ نے جو سیز فائر کا اعلان کیا ، جبکہ اس سے پہلے ٹرمپ نے کوئی مداخلت نہیں کی، یہ حرکت کافی معنی خیز معلوم ہوتی ہے۔ جنگ بندی کے بعد بننے والی صورتحال نے نہ صرف خطے بلکہ دونوں ممالک کے اندرونی حالات پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
پاکستان میں جاری فوج اور آئی ایس آئی کی ظالمانہ پالیسیوں کی بدولت فوج کے خلاف جتنی نفرت تھی ، انڈیا کے خلاف ڈٹ جانے کی وجہ سے وہ فوج کی حمایت میں بدل گئی۔ پرویز مشرف اور اس کے بعد سے جاری فوج اور آرمی چیف کی اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف کارروائیاں، دین پسند اور جہاد فی سبیل اللہ کی بات کرنے والے ہزاروں لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا، سیاسی، عدالتی اور میڈیا کے اداروں کو دھونس اور طاقت سے اپنے کنٹرول میں رکھنا، یہ وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے فوج کے خلاف نفرت بتدریج بڑھتی رہی۔ لیکن اس تین روزہ جنگ نے آرمی چیف عاصم منیر کو زیرو سے ہیرو بنا دیا۔ اور عوام تمام باتیں بھلا کر فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔
انڈیا میں مودی حکومت کی ساکھ اور اس کی عسکری و ٹیکنالوجی میں برتری کے زعم کو شدید دھچکا لگا۔ انڈیا کی سٹریٹیجک ناکامی پر خود وہاں کے تجزیہ نگار اب مودی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ اور ہندوستانی میڈیا پر جو جھوٹ کا بازار گرم تھا اس پر تو بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی جگ ہنسائی ہوئی۔
اس معاملے کا ایک مضحکہ خیز پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف انڈیا کے مسلمان ہندتوا تحریک اور بی جے پی کے مظالم اور ان کی نفرتیں بھلا کر پاکستان کے خلاف کھڑے ہو گئے، یہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف جنگ کو حق و باطل کی جنگ سمجھ کر اپنے ’سیکولر‘ ملک پر جان نچھاور کر کے ’شہید‘ ہونے کی آرزو کرتے رہے۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی اسے ’حق و باطل‘ کی جنگ کا لبادہ اوڑھایا گیا۔ کفار کے خلاف اپنی سرحدوں کی حفاظت ایک دینی و قومی فریضہ ضرور ہے، لیکن یہ حق و باطل کی جنگ ہرگز نہیں ہو سکتی۔
یہی ہماری امت کا سب سے بڑا المیہ ہے اور یہی کفار کی سب سے بڑی جیت۔ سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد انگریزوں نے جس طرح مسلمانوں کے حصے بخرے کر کے انہیں ملکوں اور جغرافیائی حد بندیوں میں، کہیں قومیت، کہیں وطنیت کے شکنجے میں اس بری طرح جکڑا کہ امت کی اصل طاقت کا شیرازہ بکھر گیا۔
اب مسلمان امت کے تصور سے ہی نا بلد دکھائی دیتے ہیں۔ ادھر ہندوستان میں بیٹھے پچیس کروڑ مسلمان ہندو ریاست کے لیے بڑے فخر سے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جہاں انہیں مسلمان ہونے پر نفرت و تفریق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستانی فوج، جو اپنے ہی ملک میں حق کی آواز کو بزور طاقت دبا رہی ہے، جن کا بظاہر شعار ’ایمان،تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘ ہے، لیکن حق و باطل کی حقیقی جنگ تو فلسطین اور غزہ کے محاذوں پر لڑی جا رہی ہے، اس جنگ میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اٹھنے کی بات آئے تو ان افواج کی زبانیں گنگ اور ہتھیار خاموش ہو جاتے ہیں۔ حق و باطل کی وہ جنگ جس میں نہتے، مٹھی بھر مجاہدین ڈیڑھ سال سے ڈٹے ہوئے ہیں، جہاں مسلمانوں کا قتل عام اٹھارہ مہینوں سے جاری ہے، جس کے متعلق قرآن بھی وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ کی صدا لگاتا ہے۔
لیکن ان تمام مسلم طاقتوں، مسلمان افواج اور ان کے عظیم الشان ہتھیار ’صم بکم عمی‘ کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کا ایمان سرحدی اور جغرافیائی حد بندیوں تک محدود ہو جاتا ہے اور ایسے میں جہاد فی سبیل اللہ کا سبق علماء بھی پڑھانا بھول جاتے ہیں!
غزہ میں جاری قتلِ عام
غزہ پر جاری صہیونی ظلم و بربریت کو ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔ اسرائیل نے وہاں وحشت و درندگی کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ شیطان بھی شرما جائے۔ اسرائیلی بمباریوں اور قتلِ عام کے سرکاری اعداد و شمار تو تریپن (۵۳) ہزار سے کچھ زیادہ ہیں، لیکن حقیقت میں یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ پورے غزہ کا انفراسٹرکچر تباہ کرنے کے بعد عارضی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے نہتے شہریوں پر بمباری کی جا رہی ہے، کوئی ہسپتال کوئی سکول نہیں چھوڑا جہاں بمباری نہ کی ہو۔ ایک طرف دن رات مستقل بمباری تو دوسری طرف دو مارچ سے ہر طرح کی بیرونی امداد کو اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اس وقت غزہ میں اس درجے کا قحط ہے کہ ستاون (۵۷) لوگ اب تک بھوک پیاس کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پانچ لاکھ آبادی خوراک نہ ملنے کی وجہ سے موت کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں انتہا پسند صہیونی قومی سلامتی کے وزیر بن گویر نے ہرزہ سرائی کی:
’’جیسا کہ اسرائیل نے غزہ میں پچھلے دو ماہ میں کیا، اسے غزہ میں خوراک، پانی، ادویات اور دیگر امداد کے داخلے کو مکمل طور پر بند رکھنا چاہیے تاکہ آبادی کو بھوکا مارا جائے۔
…… خوراک کے گوداموں اور جنریٹروں پر بھی بمباری کی جائے یہاں تک کہ ان کے پاس کسی قسم کا سامان نہ بچے اور بجلی مکمل طور پر منقطع ہو جائے۔‘‘
[Aljazeera English]
دوسری طرف نیتن یاہو نے اپنی کابینہ سے غزہ پر مکمل قبضے کی خاطر بڑے پیمانے پر زمینی کارروائی کے لیے ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کا مطالبہ بھی منظور کروا لیا، اور دھڑلے سے بین الاقوامی امدادی اداروں سے مطالبہ کیا کہ تمام امداد اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں دی جائے تاکہ وہ خود اسے اپنی مرضی سے لوگوں میں تقسیم کرے۔
اس قدر ابتر صورتحال میں جبکہ خود اسرائیل کا ساتھ دینے والے ممالک فرانس، سپین، جرمنی، برطانیہ وغیرہ بھی امداد روکنے پر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور مسلسل امداد کی فراہمی بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ایسے میں مسلم ممالک کیا کر رہے ہیں؟
پاکستان
جہاں پاکستانی عوام کو غزہ کے لوگوں کے لیے آواز اٹھانے اور امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج کرنے سے بزورِ طاقت روکا جا رہا ہے، وہیں پس پردہ طاقتیں اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے راہ ہموار کر رہی ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک وفد نے مارچ ۲۰۲۵ء میں اسرائیل کا غیر سرکاری دورہ کیا۔ اس دس رکنی وفد نے ایک غیر ملکی این جی او ’شراکا اورگنائزیشن‘ (Sharaka Org)کے توسط سے اسرائیل کا یہ دورہ کیا جبکہ عوام کی طرف سے تحقیق کا مطالبہ کیے جانے کے باوجود حکومتِ پاکستان نے لاعلمی کا اظہار کیا اور چشم پوشی کی۔
۲ اپریل ۲۰۲۵ء کو اقوامِ متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں او آئی سی یعنی اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے مقبوضہ فلسطینی علاقے بشمول مشرقی یروشلم میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ایک قرار داد پیش کی، اس قرارداد کو ترمیم کے بعد منظور کر لیا گیا۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد امریکن جیوئش کانگرس نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں او آئی سی کے رکن ممالک خصوصاً پاکستان کی کاوش کا خیر مقدم کیا گیا۔ امریکن جیوئش کانگرس نے یہ اعلامیہ اپنی ویب سائٹ پر اردو میں بھی نشر کیا، جس سے اقتباس درج ذیل ہے:
انسانی حقوق کونسل کی قرارداد میں جانبداری کی مذمت اور پاکستان کی قیادت میں اسلامی تعاون تنظیم کی اسرائیل سے متعلق قرارداد میں اہم تبدیلیوں کا خیر مقدم| امریکن جیوئش کانگرس
’’اگرچہ یہ قرارداد اسرائیل کے خلاف گہرا تعصب رکھتی ہے، لیکن امریکی یہودی کانگریس پاکستان کے اس کردار کا خیر مقدم کرتی ہے جس کے تحت جنیوا میں انسانی حقوق كونسل كی اس قرارداد کے انتہائی متنازعہ نکات کو نکالا گیا ہے، اور ایسی زبان شامل کی گئی ہے جس میں 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی گئی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ قرارداد سعودی عرب کے زیر قیادت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے پیش کی گئی تھی، جو 57 مسلم اکثریتی ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے۔
……منظور شدہ قرارداد میں درج ذیل اہم نکات قابل ذکر ہیں:
- قیدیوں، خواتین قیدیوں، اور لاشوں کی حوالگی سے متعلق بین الاقوامی معیارات کا ذکر، جو کہ حماس پر واضح تنقید ہے۔
- سات اکتوبر کے دہشت گردانہ حملوں کی باضابطہ مذمت۔
- اسرائیل پر شہری آبادی والے علاقوں پر راکٹ حملوں کی صریح تنقید اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مسلح گروہوں کی مذمت۔
- ایک ایسا پیراگراف جس کے تحت اسرائیلی حکام کے خلاف اقوام متحدہ میں مقدمہ چلانے کا میکنزم قائم ہونا تھا، اسے ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ ایک غیر پابند تجویز دی گئی۔
یہ عناصر، او آئی سی کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے متن میں اہم تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے سفارتی رجحانات کی علامت ہو سکتی ہے۔ او آئی سی کے کئی رکن ممالک جیسے کہ البانیہ، مراکش، اردن، آذربائیجان، اور متحدہ عرب امارات، اسرائیل کے مضبوط شراکت دار ہیں۔
سب سے قابل ذکر بات پاکستان کا کردار ہے، جس نے اصل مسودے سے سب سے زیادہ متنازعہ شق کو تبدیل كرنے میں سفارتی مدد كی ہے، جو ’تمام فریقین‘ کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مقدمات چلانے کیلیے اقوام متحدہ کا مستقل میکانزم قائم کرنے کی تجویز دے رہی تھی۔ اس کی جگہ، حتمی مسودے میں صرف جنرل اسمبلی کو ایسی تجویز پر غور کرنے کا کہا گیا ہے، جو ایک اہم فرق ہے کیونکہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں غیر پابند ہوتی ہیں۔
ہم پاکستان اور او آئی سی کی اس ترمیم کو ایک تعمیری اشارہ سمجھتے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے سفارتی منظرنامے کی عکاسی کرتا ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک جیسے کہ آذربائیجان، مراکش، اور امارات، اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر رہے ہیں، اور انڈونیشیا بھی اسرائیل كے ساتھ تعلقات بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔ یہ علاقائی تبدیلیاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت ابراہیمی معاہدوں کے دوسرے مرحلے کی توقعات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
اسرائیل کی طرح، پاکستان نے بھی دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ لڑی ہے، جن میں وہ گروہ شامل ہیں جو نظریاتی طور پر حماس جیسے گروہوں سے جڑے ہوئے ہیں، جیسے القاعدہ۔ اس تناظر میں، پاکستان کا ایسی زبان کو شامل کرنا دہشت گردی کے خلاف پاكستان کے وسیع تر مؤقف کا قدرتی تسلسل ہے، جو مستقبل میں تعلقات پر بات چیت کیلیے سازگار ماحول فراہم کر سکتا ہے اور پاکستان–امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے، خاص طور پر انسداد دہشت گردی اور علاقائی استحکام کے تناظر میں۔‘‘
[AJCongress.org]
اس قرارداد کے خلاف پاکستان کے سابق سینٹر مشتاق احمد خان نے آواز اٹھائی اور حکومت سے وضاحت طلب کی اور اس قرارداد پر ایک تفصیلی رپورٹ تحریر کر کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کی جس میں سے اقتباس پیش خدمت ہے:
شہباز حکومت کی فلسطین کے ساتھ شرمناک غداری| سینیٹر مشتاق احمد
’’شہباز حکومت نے اب تک کیا وضاحت کی ہے؟
وزارتِ خارجہ کی وضاحت کے تین نکات ہیں:
- یہ او آئی سی کی مشترکہ قرارداد ہے۔
- قرارداد فلسطین کی طرف سے منظوری کے بعد پیش کی جاتی ہے۔
- قرارداد سے IIIM کو مکمل طور پر نہیں نکالا گیا بلکہ جنرل اسمبلی کو اس پر غور کرنے کے لیے ریفر کر دیا گیا ہے۔
ساتھ ہی یہ لکھا گیا ہے کہ پاکستان کی اسرائیل کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہے اور اس کے مفادات کو مدنظر رکھنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
ان تین باتوں کی حقیقت:
- پاکستان اقوام متحدہ میں او آئی سی کا نمائندہ نہیں ہے۔ پاکستان کا مشن وہاں ملکی پالیسی اور قائد اعظم کے وژن کی نمائندگی کرتا ہے۔ پاکستان ہیومن رائٹس کونسل میں او آئی سی کا کوآرڈینیٹر ملک ہے۔ مگر اس کی یہ حیثیت ملکی پالیسی پر خط تنسیخ نہیں کھینچ سکتی۔ حکومت واضح کرے کہ اس کی فلسطین کی مزاحمت کے بارے میں کیا پالیسی ہے۔
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی نمائندگی پی ایل او (PLO) کرتی ہے جو اسرائیل کو تسلیم کر چکی ہے اور جس کا چئیرمین محمود عباس ہے۔ فلسطینی اتھارٹی، جس کی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ’سکیورٹی تعاون‘ جاری رکھا ہوا ہے اور اسرائیل کی دست راست ہے، وہ پی ایل او کے تحت کام کرتی ہے۔ اس صورتحال میں پی ایل او کی حیثیت فلسطینیوں کے نمائندوں کی نہیں بلکہ استعمار کی مسلط کردہ کٹھ پتلیوں کی ہے جن کی منظوری کسی اقدام کا جواز نہیں بن سکتی۔
- ہیومن رائٹس کونسل کے ذریعے میکانزم نہ بنانا اور جنرل اسمبلی سے اس پر غور کی درخواست کرنا۔ اگر یہ واقعتاً یورپی یونین یا امریکی ایما پر کیا گیا ہے تو یہ او آئی سی کو نسل کشی اور نسلی تطہیر میں شریک جرم بناتا ہے۔
آخری اضافی نکتہ بے بنیاد ہے، کیونکہ اسرائیل کے مفادات کے لیے دباؤ ہمیشہ کسی دوسرے ملک سے آتا ہے۔ فلسطین کی مزاحمت کو نشانہ بنانا اور نازی اور وحشی صہیونی مجرم کے برابر اس کو لا کر کھڑا کرنا اسرائیل کے مفادات کا ہی تحفظ ہے۔
ایسے میں جب امریکہ اور اسرائیل غزہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے تیار ہیں اور مزاحمت کے ہتھیاروں پر فلسطینی اتھارٹی اور عرب ممالک بھی وار کر رہے ہیں، او آئی سی کی طرف سے مزاحمت کی کارروائیوں اور معرکہ طوفان الاقصیٰ کی مذمت فلسطین اور مسجد اقصیٰ سے بدترین غداری ہے۔
پاکستانی اپنی حکومت سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھتے۔ سفارتی محاذ پر اگر حکومت مؤثر کردار ادا نہیں کر سکتی تو فلسطین اور غزہ کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ نہ بنے۔
او آئی سی کے رکن ممالک کے عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بائیکاٹ اور انفرادی کوششوں سے آگے بڑھ کر اپنی حکومتوں سے جواب طلبی کریں اور سفارتی محاذ پر ایسی غداری کے معاملے میں جرأت نہ پیدا ہونے دیں۔
حکومت کو مزاحمت کے حوالے سے مؤقف فوری طور پر واضح کرنا چاہیے اور اس کے لیے تمام سیاسی کارکنوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس، اور فلسطین سے ہمدردی رکھنے والوں کو آواز بلند کرنی چاہیے۔‘‘
سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات
ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اپنے پہلے سرکاری دورے پر مشرقی وسطیٰ کے اہم ممالک سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا، جہاں اس نے اربوں ڈالروں کے تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے۔
سعودی عرب میں محمد بن سلمان نے وی وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ دشمنِ اسلام کا استقبال کیا۔ اس دورے میں سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ ایک سو بیالیس عرب ڈالر کے دفاعی معاہدے کا اعلان کیا جبکہ دیگر تجارتی اور سرمایہ کاری کے ایک ٹرلین ڈالر تک کے معاہدے کیے۔ اس دورے میں ٹرمپ نے سعودی عرب سے اسرائیل کو تسلیم کر کے ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کی بھی خصوصی ’درخواست‘ کی۔ ایسے موقع پر اگر سعودی عرب چاہتا تو غزہ کے مظلوموں کے لیے کسی ریلیف کا مطالبہ کر سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب حماس نے آخری امریکی یہودی قیدی ’ایڈن الیگزینڈر‘ کو خیر سگالی جذبے کے تحت رہا کیا اور مطالبہ کیا کہ غزہ میں روکی ہوئی امداد بحال کی جائے اور مکمل سیز فائر کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔
قطر میں بھی ٹرمپ کا والہانہ استقبال کیا گیا اور چھیانویں عرب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ جبکہ تیسرا پڑاؤ متحدہ عرب امارات میں تھا وہاں بھی چودہ کھرب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ ان تمام مسلم ممالک کے سربراہان نے فلسطینیوں کے قاتل کو جس طرح عزت اور سرمایہ دیا وہاں کے مسلمانوں کو غیرت و حمیت کے مارے یا تو اٹھ کھڑے ہونا چاہیے یا شرم کے مارے ڈوب مرنا چاہیے کہ ایک طرف عالمِ کفر میں بھی بائی کاٹ کی مہم زوروں پر ہے، جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک کے سربراہان اسی قاتل ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بڑے جوش و خروش سے کر رہے ہیں جہاں سے بم بارود اور اسلحہ بغیر کسی رکاوٹ کے اسرائیل کو مستقل فراہم کیا جا رہا ہے۔
یہ تو حال ہے غزہ کے پڑوس ممالک کا، جنہیں کوئی پرواہ نہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ڈیڑھ سال سے غزہ میں قتلِ عام جاری ہے۔ بھوک پیاس سے بچے مر رہے ہیں، دیوار کے ایک طرف لُٹی پٹِی، بھوکی پیاسی فلسطینی عوام جبکہ دیوار کے دوسری طرف سینکڑوں امدادی ٹرکوں کی لمبی قطاریں، اور ان ممالک کے مسلمانوں میں اتنی غیرت نہیں کہ دیوار توڑ کر اپنے مسلمان بھائیوں کو بچا لیں۔
الجزیرہ پر غزہ کی ایک خاتون کی تحریر سے ایک اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
My nephew asks if he will eat meat only in heaven. I struggle to answer. | Hala Al-Khatib
’’پانچ سالہ خالد اپنی والدہ کے فون پر کھانے کی تصاویر دیکھتے ہوئے ہر روز گوشت طلب کرتا رہتا ہے۔ وہ تصاویر کو دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا اس کے شہید باپ کو یہ سب کچھ جنت میں کھانے کو ملتا ہے؟ پھر وہ پوچھتا ہے کہ اس کی اپنی باری کب آئے گی تاکہ وہ بھی اس سے جا ملے اور اپنے والد کے ساتھ کھائے۔
ہم سے کوئی جواب نہیں بن پاتا۔ ہم اسے صبر کرنے کو کہتے ہیں اور یہ کہ اسے صبر کا پھل ضرور ملے گا۔
مجھے قحط اور بے چارگی کے مناظر روزانہ دیکھ کر بے بسی سی محسوس ہوتی ہے۔ میں خود سے سوال کرتی ہوں کہ دنیا کیسے خاموش رہ لیتی ہے جبکہ وہ بچوں کے جسموں کو لاغر اور کمزور ہوتا اور بیماروں اور زخمیوں کو آہستہ آہستہ مرتا دیکھ رہی ہے؟
قابضین ہمارے قتل کا ہر حربہ آزماتے ہیں، بمباری سے، بھوک سے یا بیماری سے۔ ہمیں ایک روٹی کے ٹکڑے کے لیے بھی بھیک مانگنے کی حد تک گرا دیا گیا ہے۔ پوری دنیا تماشائی ہے اور ایسے ظاہر کرتی ہے جیسے وہ ہمیں یہ تک دینے پر قادر نہیں۔‘‘
[Aljazeera English]
جب غزہ کے مسلمان اس ظلم کا شکار ہیں، ایسے میں ہم میں سے ہر ایک مجرم ہے جو خاموش تماشائی بنا دیکھ رہا ہے۔
اے اہل غزہ ہمیں معاف کرنا ہم تمہیں بچا نہیں پا رہے!
آخر میں مڈل ایسٹ مانیٹر پر جمال کنج کی ایک تحریر سے اقتباس کا ترجمہ پیش خدمت ہے جو راقم کے جذبات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
’’غزہ، مجھے معاف کر دو!
عرب اتحاد کے وہم پر یقین کرنے پر،
یہ گمان کرنے پر کہ تم ایک عظیم تر عرب قوم کا حصہ ہو۔
اس پر کہ قاہرہ، عمان، دمشق، بغداد، ریاض اور دیگر حکمران تمہاری خاطر اٹھ کھڑے ہوں گے۔
میں سمجھتا تھا کہ ہمارا درد ہماری جدوجہد مشترک ہے۔
مجھے یقین تھا کہ عرب دنیا تمہیں کبھی بھوکا نہیں چھوڑے گی۔
میں غلط تھا!
اس کی بجائے، وہ تمہارے محاصرے کا حصہ بن گئے۔
رفح کی ناکہ بندی صرف اسرائیلی فوجیوں نے نہیں بلکہ مصری کنکریٹ کی دیواروں اور پہرے کے ٹاورز نے بھی کی ہے۔
امرائے عرب ان سے ہاتھ ملاتے ہیں جو تمہارے ہسپتالوں پر بمباری کرتے ہیں۔
عرب خلیج کے امیر حکمران وہ اسرائیلی ٹیکنالوجی خریدتے ہیں، جو پہلے تمہارے محلوں میں آزمائی گئی۔
غزہ، مجھے معاف کر دو!
یہ سمجھنے پر کہ جن حکمرانوں نے فلسطین کے ساتھ ۱۹۴۸ء میں غداری کی تھی وہ کبھی تمہارا دفاع کریں گے۔
جس طرح ان کے آبا ؤ اجداد نے ۹۰۰ سال قبل صلیبیوں کے لیے دروازے کھول دیے تھے، اپنی بقا کی خاطر فلسطینیوں کے خون کا سودہ کیا تھا، آج پھر وہ یہی کر رہے ہیں۔
غزہ، تاریخ خود کو دہراتی ہے !
وہ بادشاہ و امراء جنہوں نے حملہ آوروں کا تب استقبال کیا تھا، آج بھی اسرائیل کو گلے لگا رہے ہیں،
بھنے ہوئے اونٹوں پر شکم سیر ہو تے ہیں جبکہ تمہارے بچے بھوک سے مرجھا رہے ہیں۔
ان کے دارالحکومت موسیقی کے تہواروں کی روشنیوں سے جگمگاتے ہیں جبکہ غزہ کی راتیں امریکی ساختہ ۲۰۰۰ پاؤنڈ کے بموں کے شعلوں سے جل اٹھتی ہیں۔
عرب ظالم حکمرانوں سے، جو اب بھی اپنے نو آبادیاتی آقاؤں کے سامنے جھکتے ہیں، میں کہتا ہوں:
یورپی صلیبیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے کے بعد تمہارے آباؤاجداد کو نہیں بخشا۔ انہوں نے اپنی تلواروں کا رخ انہی کی طرف موڑ دیا جنہوں نے ان کی مدد کی تھی، اور ان کی چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو ایک ایک کر کے نگل لیا۔
غزہ، میں شرمندہ ہوں!
کہ جب یمن کے لوگ تمہارے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، اسرائیلی بندر گاہ پر ترسیل روک کر تمہارے بچوں کے لیے خوراک کا مطالبہ کیا، تو ان کے اپنے بچوں کو اسرائیلی امریکی پراکسی جنگ میں قتل کر دیا گیا۔
تمہاری طرح ان کا دکھ بھی بے آواز ہے،
ان کی تکلیف پر بھی کوئی شہ سرخی نہیں بنتی۔
غزہ! تمہارا خون ایک آئینہ ہے جس کا دنیا سامنا کرنے کی جرأت نہیں کرتی۔
لیکن میں نظریں نہیں چراؤں گا۔
میری بے بسی کے لیے مجھے معاف کر دو!
ہر گھونٹ پانی پر،
کھانے کے ہر نوالے پر،
ہر اس سانس پر جو میں لے رہا ہوں جب کہ تمہارا دم گھٹ رہا ہے۔
اگر ان لوگوں نے، جن سے میں غزہ میں برسوں پہلے ملا تھا، کبھی یہ سمجھا کہ میں انہیں بھلا چکا ہوں تو مجھے معاف کر دو!
مجھے معاف کر دو اگر میں ہر مدد مانگنے والے کی مدد نہیں کر پایا!
میرے آرام پر مجھے معاف کر دو!
میرے امن پر مجھے معاف کر دو!
میں تم سے معافی کا خواستگار نہیں……
بس اتنا چاہتا ہوں کہ تم جان لو:
تمہیں بھلایا نہیں گیا!‘‘
٭٭٭٭٭