عظمت و اطاعت کی بنیاد
اس قدسی جماعت کے درمیان ایک تعداد ان بدوؤں کی بھی تھی جواسلام تولے آئے تھے لیکن ان میں بعضوں کا حال وہ تھا جوسورۃ الحجرات کے اخیر میں بیان کیاگیاہے:
قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الإِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ(سورۃ الحجرات: ۱۴)
’’اعراب(بدو)کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، آپ فرمادیجئے کہ تم ایمان والے نہیں ہوئے، ہاں تم یہ کہو کہ ہم مسلمان ہوگئے، ابھی ایمان تمہارے دلوں میں (پوری طرح) داخل نہیں ہوا۔‘‘
ان لوگوں کے دلوں میں اوّل توآنحضرت ﷺ کی عظمت اس انداز سے نہ تھی جوان حضرات صحابہ کے اندراترچکی تھی جوآپ ﷺ کے تربیت یافتہ تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ آدابِ محبت وعظمت سے بھی ناواقف تھے، اپنے کام کاج میں مشغولیت کی بنا پر ان کو آپ کی صحبت و تربیت میں رہنے کے مواقع حاصل نہ ہوسکے تھے، ان کے مزاج میں بھی عام طورپرسختی ہوتی تھی، اس لیے کبھی کبھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان کا رویہ نامناسب ہوجاتا تھا اور اس کا احساس بھی ان کو نہیں ہوپاتاتھا، اس کے متعدد واقعات حدیث وسیرت میں موجود ہیں ۔
آنحضرت ﷺکوچونکہ عالم انسانیت کا مطاع بنایاگیا تھا اور اطاعت کا صحیح جذبہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب عظمت دل میں اترچکی ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کوبطورخاص اس کا مکلف کیا کہ وہ اپنے کسی قول وفعل سے ایسا مظاہرہ نہ کریں جوآنحضرت ﷺ کی عظمت کے خلاف ہو، اورجس طرح اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کومربوط کیا اورفرمایا:
أَطِیْعُوْا اﷲ َ وَ أَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ (سورۃ النساء: ۵۹)
’’اللہ کی اطاعت کرواوررسول کی اطاعت کرو۔‘‘
اسی طرح اپنی عظمت کے ساتھ رسول کی عظمت کوبھی مربوط فرمایا، سورۃالحجرات کی ابتدائی آیات کا حاصل یہی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت مطلق دلوں میں ہونی چاہیے کہ وہ خالق کل اورمالک کل ہے، اس کے بعدپھر رسول کی عظمت ضروری ہے کہ وہ بندوں کوخالق سے جوڑنے کا واحد ذریعہ ہے، انسانوں کے اندراللہ تعالیٰ نے عمومی طورپرنقل واتباع کا مزاج رکھا ہے، اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس کا رُخ رسول کی طرف ہو، اورپھر رسولوں میں بھی وہ رسول جوامام الرسل ہو، خاتم الانبیاء، رحمۃللعالمین ہو، دلوں کا رخ اس کی طرف اگرنہ ہواتوپھر کس کی طرف ہوگا؟ انسانیت کی عظمت آپ ﷺ پرختم ہے اور اس عظمت کا نتیجہ یہی ہوناچاہیے کہ جواس پرایمان رکھتا ہووہ اپنے قول وفعل سے اس کے خلاف نہ کرے تاکہ اطاعت کا عام مزاج پیدا ہو،سورۃ الحجرات کی پہلی آیت میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے:
یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ (سورۃ النساء: ۱)
’’اے ایمان والو! اللہ اوراس کے رسول کے آگے مت ہو۔‘‘
آیت شریفہ میں رسول کی عظمت اور اوّلیت و تقدم کے حق کوذہن ودماغ میں راسخ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کے ساتھ عظمتِ رسول کوجوڑا ہے اوریہ بات صاف کردی ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسول کا حق سب سے بڑھ کر ہے، ہرلحاظ سے ایک ایمان والے کواس کا خیال رہنا چاہیے۔
اگرچہ آیت شریفہ میں خطاب اوّلین اہل ایمان کو ہے اوراس کے شان نزول میں جوواقعات نقل کیے جاتے ہیں ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے لیکن محققین علماء کا یہ اصول ہے کہ ’’العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب‘‘ (اعتبار الفاظ کے عموم ہی کا کیا جائے گا، کسی خاص سبب سے اس حکم کومربوط نہیں رکھا جائے گا)۔ اس طرح یہ حکم قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ہے،ہرفیصلہ کے وقت زندگی کے ہرموڑ پر ہرحال میں ہرایمان والے کوسوچناہے پھرآگے بڑھنا ہے،کہیں کسی ’’غیر‘‘ کی عظمت توجڑنہیں پکڑرہی ہے، نفس کے تقاضے کہیں اتنے غالب تونہیں ہوتے جارہے ہیں کہ ان کو اوّلیت دی جانے لگی ہو، عرف وعادت اوررسم ورواج کے بندھن کہیں اتنے مضبوط تونہیں ہورہے ہیں کہ اللہ اوراس کے رسول کی رسی کی گرفت اس کے سامنے ڈھیلی پڑنے لگی ہو،آیت شریفہ میں بڑی عمومیت کے ساتھ یہ حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ ایمان والوں کوبہرصورت حق اللہ اورحق الرسول کومقدم ہی رکھناہے، اسی لیے آگے تاکید کے طورپر ’’وَاتَّقُوْا اﷲ‘‘ ارشاد فرمایاگیا کہ یہ شان تقویٰ ہے، آگے آیت میں اسی کو تقویٰ کی کسوٹی قراردیاگیاہے، عظمت ہوگی تولحاظ ہوگا، اتباع آسان ہوگا، اورسب کچھ دل کی گہرائیوں کے ساتھ ہوگا، اسی لیے آگے فرمایا: إِنَّ اللهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ’’بے شک اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘ اس میں یہ وارننگ دے دی گئی کہ یہ عظمت ومحبت اوراطاعت اپنی حقیقت کے ساتھ ضروری ہے، محض صورت کافی نہیں ۔
شانِ نبوت میں بے ادبی کفر کا پیش خیمہ
اسی سورت کی دوسری آیت میں اس کی ایک واضح مثال دی گئی ہے، ارشاد ہوتاہے:
یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْآ أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ۔(سورۃ الحجرات: ۲)
’’اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند مت کرو، اور جس طرح تم ایک دوسرے کو زور زور سے پکارتے ہو اس طرح نبی کو زور سے مت پکارو ۔‘‘
اس آیت شریفہ میں پہلے تو ’’یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘ کو دہرایا گیا ہے، تاکہ اہل ایمان دوبارہ متوجہ ہوجائیں اور یہ بھی واضح ہوجائے کہ آگے جوکچھ کہا جانے والاہے وہ ایمان ہی کا حصہ ہے، اہل ایمان کواپنے ایمان کے تحفظ کے لیے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے، جس کو نعمت مل چکی ہو اوراس کو نعمت کی قیمت کا کچھ اندازہ بھی ہووہ اس نعمت کے تحفظ کے لیے کیاکچھ نہیں کرسکتا۔
اس نعمت ایمان کے تحفظ کے لیے عمومیت کے ساتھ پہلی آیت میں جوکچھ کہاگیا تھا اب اس دوسری آیت میں اس کی ایک ایسی مثال دی جارہی ہے جس سے ہرخاص وعام بات کو سمجھ لے، نبی کے سامنے جب آواز بلند کرنے سے روکا جارہا ہے، جوعربوں کے اس ماحول میں کوئی بہت زیادہ خلاف ادب بات نہیں تھی، بے تکلفی ان کے مزاج میں داخل تھی لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ کی شان وعظمت کے سامنے اس کوبھی بے ادبی قراردیاجارہاہے، توآپ ﷺ کے کسی فیصلہ اورحکم کے آگے بڑھ جانا اوراس کی اتباع نہ کرنا، اس کی اہمیت کودل وجان سے تسلیم نہ کرنا کس درجہ خلافِ ادب ہوگا،اسی لیے قرآن مجید کی دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی گئی:
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیٓ أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً (سورۃ النساء: ۶۵)
’’آپ کے رب کی قسم وہ ہرگز اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے تمام نزاعات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ بنالیں پھر وہ آپ کے فیصلہ پراپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اورپوری طرح سرتسلیم خم کردیں ۔‘‘
آپ ﷺ کی وفات ہوچکی لیکن آپ کی تعلیمات وارشادات موجود ہیں ۔ آپ ﷺ کا اسوہ شریفہ سامنے ہے، ہرہرامتی پرفرض ہے کہ اس کے دل میں آپ ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہرہرچیز کی عظمت ہو، مسجدِ نبوی کا احترام اوروہاں اپنی آواز کوپست رکھنا ایمان اورتقویٰ کی بات ہے، آپ کی تعلیمات اورطریقہ ہرچیز پرمقدم ہو، بڑی سے بڑی خواہش کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہ ہو، جب حضورﷺ کا حکم سامنے آئے توہرچیز ہیچ ہو، یہ عظمتِ رسالت کی علامت ہے، عظمت سے اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،اورانسان کے اندر اللہ نے جواطاعت کا مزاج رکھا ہے اس کا رخ درست ہوجاتا ہے، آگے وارننگ دی گئی ہے:
أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ۔(سورۃ الحجرات: ۲)
’’کہیں تمہارے سب کام بیکار چلے جائیں اور تمہیں احساس بھی نہ ہو۔‘‘
آیت کے اس ٹکڑے میں تمام اعمال کے ضائع جانے کا خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے اوریہ کفروشرک کے بعد ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تیز گفتگوکردینا اوربلند آواز سے بولنا اگرچہ سوئے ادب کی اس حد میں نہیں ہے کہ کفر تک بات پہنچ جائے لیکن یہ اس کا پیش خیمہ ضرور ہے، ہلکی سی بھی بے ادبی ہوئی اورطبیعت اس میں رنگ گئی توآہستہ آہستہ بات اس حد تک پہنچ جاتی ہے جہاں کفر کے حدود شروع ہوجاتے ہیں اوربے ادبی کی وہ شکل سامنے آجاتی ہے کہ پھر ایمان باقی نہیں رہتا،اسی لیے ’’وَأَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ‘‘ فرمایا، چونکہ سب کچھ آہستہ آہستہ ہوتا ہے اس لیے آدمی محسوس بھی نہیں کرپاتا اوروہ کفرکی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے، یہاں پہنچ کراس کے تمام اعمال اورساری نیکیاں بیکار ہوجاتی ہیں ۔
دل کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے، افکاروخیالات کی نگہداشت ضروری ہے، اعمال کا جائزہ لیتے رہنا لازم ہے،کہیں کوئی ایسی شکل سامنے نہ آنے پائے کہ اللہ اوراس کے رسول پرکسی چیز کومقدم کیا جانے لگا ہو، اگرایسا ہے تویہ خطرہ کی علامت ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ Ǽ اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ Ć وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ(سورۃ الحجرات: ٣–٥)
’’بلاشبہ جولوگ اپنی آوازوں کو نبی کے سامنے پست رکھتے ہیں ، ایسوں ہی کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر ہے، یقینا جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر سمجھتے نہیں ، اوراگر وہ صبر کرتے یہاں تک آپ (خود ہی) ان کے پاس نکل کر آجاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا، اور اللہ بہت مغفرت کرنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
تقویٰ کی کسوٹی
تقویٰ کیا ہے؟
ایمان کے ساتھ قرآن مجید میں تقویٰ کا ذکر بار بار ملتا ہے، تقویٰ احتیاط کا نام ہے، زندگی اسی دھیان کے ساتھ گزرے کہ دامن آلودہ نہ ہو،مزاج میں احتیاط داخل ہوجائے، قدم بڑھے تواس خیال کے ساتھ کہ یہ اقدام شریعت کے خلاف تونہیں ہے۔
تقویٰ درحقیقت دل کا فعل ہے جس کا اظہار انسان کی عملی زندگی میں ہوتا ہے، زندگی کے مختلف مراحل میں اس کا عکس جمیل نظر آتا ہے، دل اگرتقویٰ کے رنگ میں رنگ چکا ہے توزندگی کے ہرموڑ پر اس کی تصویر سامنے آجاتی ہے، قرآن مجید میں مختلف مواقع پر تقویٰ اختیارکرنے کی تلقین کی گئی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
یٰآ أَ یُّھَا الّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ (سورۃ آل عمران: ۱۰۲)
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اس طرح اختیارکرو جیسا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے۔‘‘
پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
فَاتَّقُوْا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (سورۃ التغابن: ۱۶)
’’پس اللہ کا تقویٰ اختیارکرو جتنا تم استطاعت رکھتے ہو۔‘‘
دنیاوآخرت میں اس کے بہترین نتائج کا ذکربھی قرآن مجید میں جابجا ملتا ہے، دوتین جگہ یہاں تک فرمادیاگیا کہ: ’’اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیارکرنے والوں کے ساتھ ہے، اس کی نصرت، عنایت، محبت،عطا وکرم سب اس کے لیے ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا (سورۃ النحل: ۱۲۸)
’’بیشک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیارکیا۔‘‘
وَاعْلَمُوْآ أَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ (سورۃ التوبۃ: ۱۲۳)
’’جان لو کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
تقویٰ کا راستہ
قرآن مجید میں تقویٰ اختیارکرنے کا نسخہ بھی بتایا گیاہے:
یٰآ أَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (سورۃ التوبہ: ۱۱۹)
’’اے ایمان والو اللہ کا تقویٰ اختیارکرو، اورسچے لوگوں کی صحبت میں رہو۔‘‘
صحبت صادقین تقویٰ اختیارکرنے اوردل کو اس کے رنگ میں رنگنے کا سب سے آسان اورزوداثر نسخہ ہے، اس کے بغیر تقویٰ کا رنگ پختگی کے ساتھ نہیں چڑھ سکتا، صادقین اللہ کے وہ خاص بندے ہیں جن کے قول وعمل اورظاہروباطن میں کوئی تضاد نہیں ، ان کے اعمال کی شفافیت ان کے دل کی صفائی کا مظہر ہے، ان کا عمل ان کے قول کی تفسیر ہے، اورقول دل کی ترجمانی کرتا ہے، ایمان ان کے دلوں میں اس طرح اترچکا ہوتا ہے کہ ان کے روئیں روئیں سے ایمان کا نور جھلکتا ہے، صادقین کا یہ تسلسل قرن اوّل سے قائم ہے اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری ہے گا۔
عبادت بھی حصولِ تقویٰ کا راستہ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
یٰآ أَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔(سورۃ البقرۃ: ۲۱)
’’اے لوگو! اپنے رب کی بندگی کرو جس نے تم کو پیدا کیا اوران لوگوں کو پیدا کیا جوتم سے پہلے ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘
ان عبادتوں میں بھی تقویٰ کا مزاج بنانے میں روزہ کوخاص اہمیت حاصل ہے، ارشاد ہوتا ہے:
یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلیٰ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔(سورۃ البقرۃ: ۱۸۳)
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ ان لوگوں پرفرض کیے گئے جوتم سے پہلے گزرے ہیں ،تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘
تقویٰ کی علامت
حصول تقویٰ کی علامت کیا ہے؟آدمی متقی کب ہوتا ہے؟ قرآن مجید ہی میں اس کی بھی وضاحت موجود ہے:
وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (سورۃ الحج: ۳۲)
’’جوشعائر اللہ کی عظمت کرے تویہ دل کے تقویٰ کی بات ہے۔‘‘
شعائر اللہ میں ہروہ چیز شامل ہے جس کی نسبت اللہ کی طرف ہو، احکام الٰہی بھی اس میں داخل ہیں ، جب کسی حکم کی نسبت اللہ کی طرف کی جائے توگردن عظمت سے جھک جائے، ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دئیے ہوئے احکامات بھی اسی میں شامل ہیں ، آپ جوکچھ بھی فرماتے ہیں وہ اللہ ہی کا فرمایا ہوا ہے۔
؏ گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
تقویٰ کا بلند معیار
ان تمام شعائر اللہ میں جن میں بیت اللہ بھی شامل ہے سب سے بلند مقام رسول اللہ ﷺ کوحاصل ہے، آپ ﷺ محبتِ رب کا مظہر اتم ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی عظمت کو تقویٰ کی کسوٹی قرار دیاگیاہے، سورۃ الحجرات کی تیسری آیت میں پوری صراحت کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ أَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوَیٰ۔(سورۃ الحجرات: ۳)
’’بلاشبہ جولوگ اپنی آوازوں کو نبی کے سامنے پست رکھتے ہیں ، ایسوں ہی کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے پرکھ لیا ہے۔‘‘
کل مخلوقات میں عظمت ومحبت کا سب سے بڑا مظہر آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس ہوتویہ تقویٰ کی سب سے بڑی نشانی ہے، لیکن جس طرح تقویٰ دل کا فعل ہے اسی طرح یہ عظمت بھی دل کی گہرائیوں کے ساتھ ہو،اس کا یقینی اورلازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ایمان والا قدم قدم پر چونکے گا، کوئی کام بھی آپ ﷺ کی شانِ عالی کے خلاف نہ ہو، ضمیر کا احساس جاگ جائے،طریقۂ رسول ﷺ اختیار کرنے کی شدید رغبت اور اس کی مخالفت سے شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہوجائے۔
آنحضرت ﷺ کی عظمت ومحبت جتنی بڑھتی جاتی ہے تقویٰ کا معیار اتنا ہی بلند ہوتا جاتا ہے، لیکن یہ دھیان ہٹنے نہ پائے کہ یہ عظمت اسی لیے ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے محبوب ترین بندہ ہیں ، عبدیت کاملہ آپ ہی کوحاصل ہے اوریہی مقام معراج ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیٓ أَسْرَی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلیٰ الْمَسْجِدِ الأَقْصیٰ (سورۃ بنی اسرائیل: ۱)
’’وہ ذات پاک ہے جوراتوں رات لے گئی اپنے بندہ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف۔‘‘
عظمت وتقدیس میں اگرحدود سے تجاوز ہوگیا اورعبدکومعبود و الہ کا درجہ دے دیاگیا، تویہ درحقیقت شانِ رسالت میں توہین کے مرادف ہے، کسی کی تعریف اگرحد سے بڑھادی جائے تو وہ تعریف نہیں رہ جاتی بلکہ تنقیص بن جاتی ہے۔
سورۃ الحجرات کی اس تیسری آیت میں ادب وتعظیم کی جومثال پیش کی گئی ہے وہ بہت عام فہم مثال ہے، اس کے پیش کرنے کا اصل مقصد آپ کی عظمت کی طرف امت کومتوجہ کرنا ہے، یہ عظمت اطاعت کا زینہ ہے اوراطاعت تقویٰ کی نشانی ہے۔
جولوگ بھی اپنے دلوں کورسالت کی عظمت سے منور کرلیتے ہیں اورتقویٰ ان کا مزاج بن جاتا ہے ان کے لیے ارشاد ہوتا ہے:
لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ عَظِیْمٌ (سورۃ الحجرات: ۳)
’’ ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر ہے۔‘‘
ادب اور محبت کی اعلیٰ مثال
حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ جب سورۂ حجرات کی دوسری آیت نازل ہوئی جس میں نبی کی آواز سے اپنی آواز کوپست رکھنے کا حکم دیاگیاہے تو حضرت ابوبکرصدیق کا حال یہ ہوگیا کہ وہ نبی ﷺ سے سرگوشی کے انداز میں گفتگو فرماتے تھے کہ کہیں آواز تیز نہ ہوجائے1، اس کے بعد ہی یہ تیسری آیت نازل ہوئی۔
اس میں حضرت ابوبکر کے مقام صدیقیت کی طرف بھی اشارہ ہے جوکمال تقویٰ کا مقام ہے، اور اس میں امت کواس مقام تک پہونچنے کا راستہ بھی دے دیاگیاہے، جوصدیقین کا مقام ہے، لیکن ان میں حضرت ابوبکر صدیق اکبر ہیں اور صدیقین میں بھی صدیقیت کے اس بلند ترین مرتبہ کو انہیں کے ساتھ خاص کردیاگیاہے۔
بے ادبوں کی ناسمجھی
اسی سورۃ کی چوتھی اورپانچویں آیت میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس کی بنا پر سورۃ حجرات کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں اورایک طرح سے یہ دونوں آیتیں تیسری آیت کا تتمہ بھی ہیں ، وہاں پوری وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ تقویٰ کی کسوٹی یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ ہرطرح کا احترام اورادب وتعظیم ملحوظ رکھی جائے یہاں تک کہ ان کی آواز پر اپنی آواز کو پست رکھا جائے، آواز بلند کرنے والوں اور شان رسالت کا لحاظ نہ کرنے والوں کی ناسمجھی کا اعلان ہورہا ہے،ارشاد ہوتاہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرَاتِ أَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ (سورۃ الحجرات: ۴)
’’یقیناً جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر سمجھتے نہیں ۔‘‘
اس آیت کے شان نزول میں واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بنوتمیم کے کچھ لوگ ایک ضرورت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہ وقت آپ کے قیلولے کا تھا، آپ ﷺ حجرہ شریفہ میں آرام فرمارہے تھے، وہ لوگ جاہلی رواج کے مطابق آتے ہی باہر سے آپ کوپکارنے لگے، زمانہ جاہلیت کا رواج یہ تھا کہ جب شعراء وبلغاء کا کوئی وفد کسی بادشاہ یاامیر کے پاس جاتا تووہ قریب پہونچ کرباہر ہی سے آواز دیتا کہ ہم اشرافِ عرب ہیں ، اصحاب فصاحت وبلاغت ہیں ، ہم تعریف کردیں توباعث شرف ہے اوراگرمذمت کردیں توباعث ذلت ہے۔2
بنوتمیم کے اس وفد نے بھی یہی طریقہ اختیارکیا، ان میں اکثریت توان لوگو ں کی تھی جوابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، لیکن ان میں چند مسلمان بھی تھے، چونکہ یہ طریقہ شانِ رسالت کے منافی تھا، اس لیے اس پر اللہ کی طرف سے سرزنش کی گئی، اورقیامت تک کے لیے یہ پیغام دے دیاگیا کہ شان رسالت میں ادنیٰ بے ادبی بلکہ کوئی بھی ایسا عمل جس میں بے ادبی کا شائبہ بھی ہو رب العالمین کو سخت ناپسند ہے، ادنی بے ادبی بھی گستاخی کا پیش خیمہ ہے اورشان رسالت میں گستاخی کفرِ صریح ہے جوکہ بڑے سے بڑے اعمال کو بے کار کردینے کے لیے کافی ہے اسی لیے اوپر ’’أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ‘‘ کہا جاچکا ہے، (کہیں تمہارے سب کام بیکار چلے جائیں)۔
’’الحجرات‘‘ حجرۃ کی جمع ہے، اس کے معنی کمرہ کے آتے ہیں ، آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کے حجرے اس انداز کے تھے کہ ستون کھجور کے تنے کے تھے اورچھپر کھجور کی چھال سے تیار کرکے ڈال دیا گیاتھا اور بجائے دروازوں کے کمبل کے پردے پڑے ہوئے تھے، یہ اس دور کی بات ہے جب دنیا کے خزانے حضورکے قدموں میں نچھاور ہورہے تھے۔
ان آواز دینے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’’لاَ یَعْقِلُوْنَ‘‘ (وہ سمجھ نہیں رکھتے) فرمایاہے، اس لیے کہ وہ عام بادشاہوں میں اور آنحضرت ﷺ میں فرق نہیں کرسکے، اور وہ یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ ان کو اس کا کیا نقصان پہنچنے والا ہے، یہ ان کی ناسمجھی کی کھلی دلیل تھی۔
طریقۂ ادب
آگے صحیح طریقہ بتایاجارہا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
وَلَوْ أَ نَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّیٰ تَخْرُجَ إِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْراً لَّہُمْ (سورۃ الحجرات: ۵)
’’اوراگر وہ صبر کرتے یہاں تک آپ (خود ہی) ان کے پاس نکل کر آجاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا۔‘‘
کہ یہ کمال ادب تقویٰ کی علامت ہے اورجب تقویٰ مزاج میں داخل ہوجاتا ہے توانسان کے اندر وہ احساس پیدا ہوجاتا ہے جس کے ذریعہ وہ اچھے برے میں فرق کرتا ہے، اچھائی کی طرف شدید رغبت پیدا ہوجاتی ہے اوربرائی سے شدید نفرت محسوس ہونے لگتی ہے۔
وَاﷲ ُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
’’ اور اللہ بہت مغفرت کرنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
پھراختتام آیت کا فرمادیا کہ کوئی بھی غلطی کے بعدندامت کے ساتھ حاضر ہوتواللہ تعالیٰ پھر اس کی گرفت نہیں فرماتے بلکہ عفوودرگزر کا معاملہ فرماتے ہیں ۔
اس آیت شریفہ میں بنیادی طورپر محاسن اخلاق اختیارکرنے کی بھی دعوت دی گئی ہے، اسلام کی یہ اخلاقی تعلیم ہرایک کے لیے ہے، یہاں تک کہ ہرجان رکھنے والے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کی گئی ہے، لیکن سب سے بڑھ کر جوذات اقدس عظمت وادب کی مستحق ہے وہ ذات نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے جن کے بارے میں قرآن مجید کی گواہی ہے:
إِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ (سورۃ القلم: ۴)
’’بے شک آپ بلند ترین اخلاق پر قائم ہیں۔‘‘
دوسری طرف آیت شریفہ میں جاہلی رسوم وعادات کو ترک کرنے کی بھی تلقین کی گئی ہے، اسلام اپنے پورے نظام کے ساتھ آچکا، جاہلیت کے کسی نعرہ، کسی طریقہ،کسی رواج کے لیے اب کوئی گنجائش نہیں ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 معالم التنزیل للبغوی ۵/۱۹۷ ، مطبوعہ دارالفکر، بیروت
2 صحیح بخاری، کتاب التفسیر/۴۸۴۵، ترمذی/۳۲۶۷